کرکٹ عالمی کپ کا پانچواں ایڈیشن From Wikipedia, the free encyclopedia
پانچواں کرکٹ عالمی کپ ، 22 فروری سے 25 مارچ 1992ء تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں پر کھیلا گیا۔ اس ورلڈ کپ میں کل نو ٹیموں نے حصہ لیا اور فائنل ملا کر 39 مقابلے کھیلے گئے۔ پاکستان نے فائنل میں انگلستان کو 22 رنز سے شکست دے کر پہلی بار ورلڈ کپ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ کرکٹ کا پانچواں عالمی کپ تھا۔ اس عالمی کپ کو متنازع "ڈک ورتھ-لیوس-اسٹرن طریقہ" کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ نے انگلستان کے خلاف سیمی فائنل میں سست روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اصول کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، لیکن یہ حکمت عملی بالآخر انھیں میچ کی ہار کی صورت میں پڑ گئی۔[1] [2] عالمی کپ کی تاریخ میں پہلی بار رنگین وردیاں، سفید گیند، میدان میں بڑی بڑی اسکرینیں اور رات کے وقت مقابلے کرانے کے لیے بتیوں (فلڈ لائٹس) کا اہتمام کیا گیا تھا۔[3] 1970ء کے بعد یہ پہلی بار عالمی کپ میں متعارف کرائی گئیں تھیں۔[4] سیمی فائنل میں انگلستان، جنوبی افریقا، پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں نے رسائی حاصل کی۔
تاریخ | 22 فروری – 25 مارچ |
---|---|
منتظم | انٹرنیشنل کرکٹ کونسل |
کرکٹ طرز | ایک روزہ کرکٹ |
ٹورنامنٹ طرز | راؤنڈ روبن اور ناک آؤٹ |
میزبان | آسٹریلیا نیوزی لینڈ |
فاتح | پاکستان (1 بار) |
شریک ٹیمیں | 9 |
کل مقابلے | 39 |
بہترین کھلاڑی | مارٹن کرو |
کثیر رنز | مارٹن کرو (456) |
کثیر وکٹیں | وسیم اکرم (18) |
یہ پہلا عالمی کپ تھا جو جنوبی نصف کرہ میں منعقد ہوا۔ اس میں پہلی بار جنوبی افریقہ قومی کرکٹ ٹیم نے شرکت کی۔ جنوبی افریقہ نے اپارتھائیڈ کے بعد آئی سی سی میں دربارہ شمولیت اختیار کی تھی اور ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی اجازت حاصل کی تھی۔ یہ پہلا ورلڈ کپ تھا جو چار سال کی بجائے پانچ سال کے وقفے کے بعد منعقد ہوا۔ [5]
اس بار راؤنڈ روبن ٹورنامنٹ کو بالکل نئی صورت میں پہلی بار عالمی کپ میں متعارف کرایا گیا۔ جس کے تحت تمام ٹیموں کے دو گروپ بنا دیے گے، ہر گروپ کی ٹیم نے اپنے گروپ کی دوسری ٹیموں سے ایک ایک مقابلہ کرنا تھا۔ اس کے لیے قرعہ اندازی کی گئی۔ ابتدائی قرعہ اندازی 1991ء کے آخر میں ہوئی جس میں 8 ٹیموں کے دونوں گروپ ایک دوسرے کے ساتھ کل 28 مقابلے کرتے، لیکن اسی دوران جنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم کو دوبارہ آئی سی سی کی رکنیت مل گئی۔ جس کی وجہ سے دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی۔ جس کے تحت مقابلوں کی تعداد 36 ہو گئی۔ دو سیمی فائنل اور ایک فائنل اس تعداد میں شامل نہیں تھے۔[6]
جن ٹیموں نے اس عالمی کپ میں حصہ لیا ان میں مندرجہ ذیل ممالک کی ٹیمیں شامل تھیں۔[7]
مکمل ارکان |
---|
آسٹریلیا |
انگلینڈ |
بھارت |
نیوزی لینڈ |
پاکستان |
جنوبی افریقا |
سری لنکا |
ویسٹ انڈیز |
ایسوسی ایٹ ممبر |
زمبابوے |
سیمی فائنل میں انگلستان، جنوبی افریقا، پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں نے رسائی حاصل کی۔ جبکہ انگلستان اور پاکستان کی ٹیمیں فائنل میں پہنچیں۔ اس عالمی کپ میں جنوبی افریقہ نے پہلی بار آٹھویں مکمل رکن کے طور پر حصہ لیا اور اس ورلڈ کپ کے بعد جنوبی افریقہ ، ویسٹ انڈیز میں 22 سالوں کے بعد پہلا ٹیسٹ کھیلے گا۔ زمبابوے نے عالمی کپ کے لیے تیسری بار کوالیفائی کیا۔ اس ٹورنامنٹ کے بعد زمبابوے کو مکمل رکن کا درجہ مل جائے گا۔
مقام | شہر | میچ |
---|---|---|
ایڈیلیڈ اوول | ایڈیلیڈ، جنوبی آسٹریلیا | 3 |
لیوینگٹن اسپورٹس گراؤنڈ | ایلبری، نیو ساؤتھ ویلز | 1 |
ایسٹرن اوول | بالارات، وکٹوریہ | 1 |
بیری اوول | بیری، جنوبی آسٹریلیا | 1 |
گابا | برسبین، کوئنزلینڈ | 3 |
مانوکا اوول | کینبرا، آسٹریلوی دارالحکومت علاقہ | 1 |
بیللیریو اوول | ہوبارٹ، تسمانیا | 2 |
رے مچل اوول | مکائی، کوئنزلینڈ | 1 |
ملبورن کرکٹ گراؤنڈ | ملبورن | 5 |
واکا گراؤنڈ | پرتھ، مغربی آسٹریلیا | 3 |
سڈنی کرکٹ گراؤنڈ | سڈنی | 4 |
ورلڈ کپ میں فرائض انجام دینے کے لیے گیارہ امپائرز کا انتخاب کیا گیا۔ میزبان ممالک میں سے ہر ایک سے دو، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور ایک دوسرے شریک ممالک سے تھے۔
ویسٹ انڈیز کے سٹیو بکنر اور انگلینڈ کے ڈیوڈ شیفرڈ کو پہلے سیمی فائنل کے لیے امپائر کے طور پر چنا گیا،[8] جبکہ نیوزی لینڈ کے برائن آلڈریج اور آسٹریلیا کے سٹیو رینڈیل کو دوسرے کے لیے چنا گیا۔[9] بکنر اور ایلڈریج کو فائنل کے لیے چنا گیا۔[10]
شمار | امپائر | ملک | میچ |
---|---|---|---|
1 | سٹیو بکنر | ویسٹ انڈیز | 9 |
2 | برائن آلڈریج | نیوزی لینڈ | 9 |
3 | ڈیوڈ شیفرڈ | انگلینڈ | 8 |
4 | سٹیو رینڈیل | آسٹریلیا | 8 |
5 | خضر حیات | پاکستان | 7 |
6 | پیلو رپورٹر | بھارت | 7 |
7 | ڈولینڈ بلٹجینس | سری لنکا | 6 |
8 | پیٹرمیک کونل | آسٹریلیا | 6 |
9 | اسٹیو ووڈورڈ | نیوزی لینڈ | 6 |
10 | ایان رابنسن | زمبابوے | 6 |
11 | کارل لیبنبرگ | جنوبی افریقا | 6 |
سیمی فائنل اور فائنل کی نگرانی کے لیے دو میچ ریفری کو بھی منتخب کیا گیا تھا۔ آسٹریلیا کے پیٹر برج نے پہلے سیمی فائنل اور فائنل کی نگرانی کی،[8][10] جبکہ نیوزی لینڈ کے فرینک کیمرون نے دوسرے سیمی فائنل کی نگرانی کی۔[9]
ریفری | ملک | میچ | 1992 عالمی کپ |
---|---|---|---|
پیٹر برگ | آسٹریلیا | 63 | 2 |
فرینک کیمرون | نیوزی لینڈ | 5 | 1 |
اس ورلڈ کپ میں جو نئے قوانین متعارف کروائے گئے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں سب سے معمر ترین کھلاڑی زمبابوے کے جان ٹریکوس (44) تھے جبکہ سب سے کم عمر کھلاڑی پاکستان کے زاہد فضل (18) تھے۔
ٹیم | پوائنٹس | کھیلے | جیتے | ہارے | بغیر نتیجہ | برابر | دوڑکے فرق کا اوسط | دوڑ کا اوسط |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
نیوزی لینڈ | 14 | 8 | 7 | 1 | 0 | 0 | 0.59 | 4.76 |
انگلینڈ | 11 | 8 | 5 | 2 | 1 | 0 | 0.47 | 4.36 |
جنوبی افریقا | 10 | 8 | 5 | 3 | 0 | 0 | 0.14 | 4.36 |
پاکستان | 9 | 8 | 4 | 3 | 1 | 0 | 0.17 | 4.33 |
آسٹریلیا | 8 | 8 | 4 | 4 | 0 | 0 | 0.20 | 4.22 |
ویسٹ انڈیز | 8 | 8 | 4 | 4 | 0 | 0 | 0.07 | 4.14 |
بھارت | 5 | 8 | 2 | 5 | 1 | 0 | 0.14 | 4.95 |
سری لنکا | 5 | 8 | 2 | 5 | 1 | 0 | −0.68 | 4.21 |
زمبابوے | 2 | 8 | 1 | 7 | 0 | 0 | −1.14 | 4.03 |
جیتے | ہارے | بلا نتیجہ |
28 فروری 1992 اسکور کارڈ |
ب |
||
1 مارچ 1992 اسکور کارڈ |
ب |
||
3 مارچ 1992 اسکور کارڈ |
ب |
||
7 مارچ 1992 اسکور کارڈ |
ب |
||
8 مارچ 1992 اسکور کارڈ |
ب |
||
12 مارچ 1992 اسکور کارڈ |
ب |
||
14 مارچ 1992 اسکور کارڈ |
ب |
||
پہلے سیمی فائنل میں، پاکستان نے ٹورنامنٹ کے فیورٹ نیوزی لینڈ کو ایک ہائی اسکورنگ میچ میں شکست دے کر اپنا پہلا سیمی فائنل چار وکٹوں سے جیت لیا اور پہلی بار ورلڈ کپ فائنل میں جگہ بنائی۔ [12] [13] جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کے درمیان دوسرے سیمی فائنل میں، میچ متنازع حالات میں ختم ہوا جب 10 منٹ کی بارش کی تاخیر کے بعد، انتہائی نتیجہ خیز اوورز کے طریقہ کار نے جنوبی افریقہ کے ہدف کو 13 گیندوں پر 22 رنز سے ناممکن 1 گیند پر 22 رنز تک پہنچا دیا۔ [14] [15]
سیمی فائنل | فائنل | |||||
21 مارچ – ایڈن پارک، آکلینڈ، نیوزی لینڈ | ||||||
1 نیوزی لینڈ | 262/7 | |||||
25 مارچ – ملبورن کرکٹ گراؤنڈ، ملبورن، آسٹریلیا | ||||||
4 پاکستان | 264/6 | |||||
پاکستان | 249/6 | |||||
22 مارچ – سڈنی کرکٹ گراؤنڈ، سڈنی، آسٹریلیا | ||||||
انگلینڈ | 227 | |||||
2 انگلینڈ | 252/6 | |||||
3 جنوبی افریقا | 232/6 | |||||
پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ 21 مارچ، ایڈن پارک، آکلینڈ
ٹاس نیوزی لینڈ نے جیتا۔ مرد میدان انضمام الحق رہے۔ نیوزی لینڈ (7/262) 50 اوورز میں۔ مارٹن کرو 91 جبکہ کین ردرفورڈ 50 ٹاپ اسکورر رہے۔ وسیم اکرم نے 2 اور مشتاق احمد نے بھی 2 وکٹ حاصل کیے۔ جواب میں پاکستان (6/264) 49 اوورز میں بنا کر میں 4 وکٹوں سے جیت گیا۔ انضمام الحق 60 جبکہ جاوید میانداد 57 ناٹ آوٹ رہے۔ ولی واٹسن نے 2 وکٹ حاصل کیے۔ میچ کا مکمل اسکور کارڈ ملاحضہ کریں۔
انگلستان بمقابلہ جنوبی افریقہ 22 مارچ، سڈنی
ٹاس جنوبی افریقہ نے جیتا۔ مرد میدان گریم ہک رہے۔ انگلستان (6/252) 45 اوورز میں بارش سے متاثرہ میچ میں 19 دوڑ سے جیتا۔ گریم ہک 83 ٹاپ اسکورر رہے۔ اینل ڈونیلڈ نے 2 اور میرک پرنگل نے بھی 2 وکٹ حاصل کیے۔ جواب میں جنوبی افریقہ (6/232) 43 اوورز میں بنا سکی۔ میچ بارش سے متاثر رہا۔ اینڈریو ہڈسن 46 ٹاپ اسکورر رہے۔ رچرڈ ایلنگورتھ نے 2 اور سمال نے بھی 2 وکٹ حاصل کیے۔ میچ کا مکمل اسکور کارڈ ملاحضہ کریں۔
22 مارچ 1992ء سکور کارڈ |
ب |
||
پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی۔ پاکستان نے 50 اوورز میں (6/249) رنز بنائے۔ عمران خان نے 72 جبکہ جاوید میانداد نے 58 رنز بنائے۔ ڈیرک پرنگل نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔ جواب میں انگلستان نے 49.2 اوورز میں (6/227) بنا سکی۔ نیل فیئر برادر 62 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے۔ وسیم اکرم نے 3 اور مشتاق احمد نے بھی 3 وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان نے یہ فائنل 22 رنز سے جیتا۔ مرد میدان وسیم اکرم رہے۔ یہ دوسرا عالمی کپ اور فائنل تھا جو انگلستان سے باہر کھیلا گيا۔ جبکہ آسٹریلیا میں یہ پہلی بار کھیلا گیا، اس مقابلہ کو دیکھنے کے لیے ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں 87,182 تماشائی آئے جو اس وقت تک کی سب سے بڑی کرکٹ تماشائیوں کی تعداد تھی۔ [16] [17]
اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے ٹاپ ٹین کھلاڑی (کل رنز) اس ٹیبل میں شامل ہیں۔ [18]
رنز | کھلاڑی | مقابلے |
---|---|---|
456 | مارٹن کرو | 9 |
437 | جاوید میانداد | 9 |
410 | پیٹر کرسٹن | 8 |
368 | ڈیوڈ بون | 8 |
349 | رمیز راجہ | 8 |
درج ذیل جدول میں ٹورنامنٹ کے دس سب سے زیادہ وکٹ لینے والے کھلاڑی شامل ہیں۔ [19]
وکٹیں | کھلاڑی | مقابلے |
---|---|---|
18 | وسیم اکرم | 10 |
16 | ایئن بوتھم | 10 |
16 | مشتاق احمد | 9 |
16 | کرس ہیرس (کرکٹر) | 9 |
14 | ایڈو برانڈز | 8 |
درج ذیل جدول میں اس ٹورنامنٹ کے دوران ٹیموں کے دس سب سے زیادہ سکورز کی فہرست دی گئی ہے۔ [20]
ٹیم | کل | مخالف | میدان |
---|---|---|---|
سری لنکا | 313/7 | زمبابوے | پوکیکورا پارک، نیو پلایماؤتھ، نیوزی لینڈ |
زمبابوے | 312/4 | سری لنکا | پوکیکورا پارک، نیو پلایماؤتھ، نیوزی لینڈ |
انگلینڈ | 280/6 | سری لنکا | ایسٹرن اوول، بالاراٹ، وکٹوریہ، آسٹریلیا |
ویسٹ انڈیز | 268/8 | سری لنکا | بیری اوول، بیری، جنوبی آسٹریلیا |
آسٹریلیا | 265/6 | زمبابوے | بیللیریو اوول، ہوبارٹ، تسمانیا |
پاکستان | 264/6 | نیوزی لینڈ | ایڈن پارک، آکلینڈ، نیوزی لینڈ |
ویسٹ انڈیز | 264/8 | زمبابوے | گابا، وولون گابا، کوئنزلینڈ |
نیوزی لینڈ | 262/7 | بھارت | ایڈن پارک، آکلینڈ، نیوزی لینڈ |
پاکستان | 254/4 | زمبابوے | بیللیریو اوول، ہوبارٹ، تسمانیا |
انگلینڈ | 252/6 | جنوبی افریقا | سڈنی کرکٹ گراؤنڈ، نیو ساؤتھ ویلز |
اس ورلڈ کپ کی ایک قابل ذکر خصوصیت نیوزی لینڈ کے کپتان مارٹن کرو کی جانب سے استعمال کیے گئے اختراعی ہتھکنڈے تھے۔ جنھوں نے اپنی ٹیم کی گیند بازی کا آغاز اسپن باؤلر دیپک پٹیل کے ساتھ کیا ، بجائے اس کے کہ ایک تیز گیند باز کے ساتھ، جیسا کہ معمول ہے۔ [21] [22]
اس ورلڈ کپ میں پہلی بار مین آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ متعارف کرایا گیا۔ نیوزی لینڈ کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مارٹن کرو کو مین آف دی ٹورنامنٹ کے ایوارڈ کے پہلے وصول کنندہ بن گئے۔ [23]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.