From Wikipedia, the free encyclopedia
عاقب جاوید سندھو (پیدائش: 5 اگست 1972ء شیخوپورہ، پنجاب) پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اور کوچ ره چکے ہیں۔ وہ دائیں ہاتھ کے کھلاڑی ہیں لیکن ان کی ایک بڑی پہچان دائیں ہاتھ کے ایک تیز میڈیم باولر کی ہے اور انھوں نے 1988ءسے1998ء تک 22 ٹیسٹ اور 163 ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلے۔ انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں اپنی تعلیم حاصل کی انھوں نے پاکستان کے علاوہ الائیڈ بینک ،ہمپشائر کاونٹی،اسلام آباد کرکٹ ایسوسی ایشن،لاہور ڈویژن،پاکستان آٹو موبائل کارپوریشن ،شیخوپورہ کرکٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلیعاقب جاوید نے 19سال کی عمر میں انڈیا کے خلاف ہیٹ ٹرک کی۔ جب پاکستانی ٹیم نے 1992ء میں کرکٹ ورلڈکپ جیتا جب آپ ٹیم کے اہم کھلاڑی تھے۔ آپ کی شادی ”فرزانہ برکھی“ سے ہوئی۔
فائل:Aqib javeed.jpeg | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | عاقب جاوید سندھو | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | شیخوپورہ, پنجاب, پاکستان | 5 اگست 1972|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا فاسٹ میڈیم گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 109) | 10 فروری 1989 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 27 نومبر 1998 بمقابلہ زمبابوے | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 67) | 10 دسمبر 1988 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 24 نومبر 1998 بمقابلہ زمبابوے | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ملکی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرصہ | ٹیمیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2000/01 | شیخوپورہ کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1994/95–2002/03 | الائیڈ بینک لمیٹڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1993/94–1996/97 | اسلام آباد کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1991 | ہیمپشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1989/90–1991/92 | پاکستان آٹوموبائل کارپوریشن کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1984/85–1986/87 | لاہور ڈویژن | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کرک انفو، 9 مئی 2010 |
عاقب جاوید نے 1989ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ولنگٹن کے مقام پر اپنے ایک ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا تھا مگر اس پہلے میچ میں وہ کوئی بھی وکٹ لینے سے محروم رہے حالانکہ انھوں نے 160 رنز دیے تھے تاہم آسٹریلیا کے خلاف 1990ء میں میلبورن کے واحد ٹیسٹ میں انھوں نے 3 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ آسٹریلیا کی فتح پر ختم ہونے والے اس ٹیسٹ میں اصل میں اعلیٰ کارکردگی وسیم اکرم کی تھی جنھوں نے 11 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم عاقب جاوید نے پہلی اننگ میں 47/2 کی کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے سٹیو وا کو سلیم یوسف کے ہاتھوں وکٹوں کے پیچھے کیچ کروا کر اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کی۔ بعد میں انھوں نے آئن ہیلی کو بھی اپنا شکار بنایا۔ دوسری باری میں انھوں نے 55/1 کے ساتھ جیف مارش کی وکٹ حاصل کی۔1990ء میں جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو عاقب جاوید نے کراچی کے ٹیسٹ میں ایک بار پھر 3 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا جبکہ لاہور کے ٹیسٹ میں وہ ایک ہی وکٹ لے پائے۔ لیکن فیصل آباد ٹیسٹ میں انھوں نے 87 رنز کے عوض 3 کیوی کھلاڑیوں کو کریز سے رخصت کیا۔ 1991ء میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورہ پر آئی تو انھوں نے سیالکوٹ اور فیصل آباد کے 2 ٹیسٹوں میں 6 کھلاڑیوں کو پویلین بھجوایا جن میں سیالکوٹ ٹیسٹ میں 92 رنز کے عوض 4 وکٹوں تک رسائی بھی شامل تھی۔ تاہم گوجرانوالہ کے ٹیسٹ میں ان کی بولنگ نہ آسکی۔ 1992ء میں جب پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو عاقب جاوید مانچسٹر کے ٹیسٹ میں 100 رنز کے عوض 4 کھلاڑیوں کے لیے خطرہ بنے۔ جبکہ لارڈز اور برمنگھم کے ٹیسٹوں میں ان کے حصے میں 1,1 وکٹ آئی۔ لیڈز کے ٹیسٹ میں بھی ایک اور اوول کے ٹیسٹ میں 2 کھلاڑیوں کے لیے وہ خطرہ ثابت ہوئے۔ 1993ء میں نیوزی لینڈ اور 1994ء میں آسٹریلیا کے خلاف 2 ٹیسٹوں میں ان کی بولنگ مخالف ٹیموں کے لیے خطرے کا باعث نہیں تھی۔لیکن جنوبی افریقہ کے دورہ میں جو جنوری 1995ء میں تھا عاقب جاوید نے بولنگ میں 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ یہ ٹیسٹ جنوبی افریقہ کی 324 رنز کی فتح پر اختتام پزیر ہوا تھا کیونکہ جنوبی افریقہ کے پہلے کھیلتے ہوئے 460 رنز بنائے۔ برائن میکملن 113، جونٹی رھوڈز 72، فینی ڈویلیرز 66، گیری کرسٹن 62 کے ساتھ نمایاں سکورر تھے مگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے بولرز نے بھی اس سکور میں نمایاں اضافہ کروایا تھا جب انھوں نے 36 نو بالز اور 6 وائیڈز کے ساتھ ایکسٹرا کی تعداد کو 64 تک تقویت دی تھی۔ پاکستان نے 230 رنز کی پہلی اننگ کھیلی جبکہ دوسری باری میں بھی 490 کے ہدف میں وہ صرف 165 رنز بنا سکی۔اس کے بعد اس نے زمبابوے کے خلاف ہرارے میں 73 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا لیکن ہرارے کے اگلے ٹیسٹ میں زمبابوے کے کھلاڑیوں کو عاقب جاوید کو کھیلنے میں زیادہ مشکل پیش آئی۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے انضمام الحق کے 101 رنز کی مدد سے 231 رنز سکور کیے۔ جس کے جواب میں زمبابوے اپنی پہلی اننگ میں 243 سے آگے نہ بڑھ سکا۔ عاقب جاوید نے 64/4 اور عامر نذیر نے 13/3 سے زمبابوے کے کھلاڑیوں کا راستہ بخوبی روکا تھا۔ پاکستان نے دوسری اننگ میں 250 رنز بنائے۔ انضمام الحق اس بار بھی مرد بحران ثابت ہوئے اور انھوں نے 83 رنز کی مزاحمتی اننگ کھیلی۔ اعجاز احمد کے 55 رنز بھی ٹیم کے سکور کو تقویت دینے میں نمایاں تھے۔ زمبابوے کی ٹیم جیت کے لیے درکار 239 رنز کے تعاقب میں صرف 139 پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ پاکستان کی 99 رنز کی فتح نے عامر نذیر 46/5، وسیم اکرم 45/2 اور عاقب جاوید 26/2 کے ساتھ نمایاں کردار ادا کر گئے تھے۔ سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں عاقب جاوید ایک بار پھر نمایاں نظر آئے۔ پشاور کے ٹیسٹ میں انھوں نے 77/3 کی کارکردگی دکھائی اور فیصل آباد کے ٹیسٹ میں 118 رنز کے عوض میچ میں ان کے حصے میں 8 وکٹ آئے۔انھوں نے اس ٹیسٹ میں پاکستان کی سری لنکا پر برتری کے لیے بہترین بولنگ کی مگر سری لنکا نے اس ٹیسٹ میں 42 رنز سے کامیابی حاصل کرلی۔ مرلی دھرن کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا۔ سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے 223 رنز بنائے جس میں ہشان تلکارتنے کے 115 رنز کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے جن کا ساتھ چندیکا ہتھورا سنگھے نے 47 کے ساتھ خوب نبھایا تھا۔ پاکستان کی طرف سے عاقب جاوید 34/3، ثقلین مشتاق 74/3 اور وسیم اکرم31/2 کے ساتھ سری لنکن بیٹنگ کا شیرازہ بکھیرنے میں برابر کے حصہ دار تھے۔ پاکستان کی ٹیم نے اپنی اننگ میں 333 رنز بنائے۔ کپتان رمیز راجا 75، سعید انور 54 اور انضمام الحق 50 کے ساتھ پاکستان کی تقویت کا باعث بنے تھے۔ مرلی دھرن نے 68/5 کے ساتھ اپنی گیندوں کا جادو جگایا۔ سری لنکا نے دوسری اننگ میں 361 رنز کی نمایاں اننگ کھیلی جس میں اروندا ڈیسلوا کے 105، چندیکا 83 اور کمارا دھرما سینا کے 49 رنز کی مزاحمت صاف دکھائی دے رہی تھی۔ پاکستان نے 252 کے ہدف میں اس وقت ناکامی کا اعلان کیا جب ان کی ساری ٹیم 209 پر پویلین لوٹ گئی۔ معین خان اور سعید انور کے 50,50 رنز اس باری میں شامل نہ ہوتے تو پاکستان کا حشر کیا ہوتا۔ سیالکوٹ کے اگلے ٹیسٹ میں عاقب جاوید 5 وکٹس لے اڑے تھے۔ تاہم اس کے بعد 3 سال تک وہ قومی ٹیم سے دور رہے۔ 1998ء میں زمبابوے کے دورئہ پاکستان کے موقع پر انھیں پشاور کے ٹیسٹ میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا مگر وہ 88 رنز کے عوض ایک بھی وکٹ لینے سے قاصر رہے۔
عاقب جاوید کا ون ڈے کیریئر 163 میچوں پر مشتمل ہے۔ ان کو 1988ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ایڈیلیڈ کے میدان پر ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ جس میں انھوں نے رچی رچرڈسن کو سلیم یوسف کے ہاتھوں وکٹوں کے پیچھے کیچ کروا کے اپنی پہلی بین الاقوامی وکٹ حاصل کی تھی۔ اگلے سال انھوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پرتھ میں 33/2، آسٹریلیا کے خلاف 3/28، ویسٹ انڈیز کے خلاف 2/49 اور آسٹریلیا کے خلاف 2/38 کی کارکردگی دکھا کر ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرلی۔ مگر اگلے 4 میچوں میں وہ کوئی ایک بھی ایسی گیند نہ پھینک سکے جس پر انھیں وکٹ ملتی۔ اسی سیزن میں انھوں نے آکلینڈ کے میدان پر نیوزی لینڈ کے خلاف 48 رنز دے 3 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ نیوزی لینڈ نے 249 رنز سکور کیے تھے جس میں عاقب جاوید نے جان رائٹ 59، آئن سمتھ 8 اور جیک کرو 27 کو اپنا شکار بنایا تھا۔ پاکستان نے مقررہ ہدف 48.3 اوورز میں مکمل کر لیا تھا جس میں رمیز راجا 101، سلیم ملک 56 اور کپتان عمران خان 51 پر ناٹ آئوٹ رہے تھے۔ عاقب جاوید نے اسی سیزن میں ایک بار پھر 3 وکٹ لیے جب انھوں نے شارجہ میں انڈیا کے خلاف پاکستان کو 38 رنز سے کامیابی دلوائی۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے سلیم ملک 102 اور شعیب محمد کے 51 کی بدولت 4 وکٹوں پر 252 رنز تشکیل دیے۔ بھارت کی ٹیم مقررہ اوورز میں 9 وکٹوں پر214 رنز بنا سکی۔ عاقب جاوید نے سری کانت، محمد اظہر الدین اور چیتن شرما کو اپنے چنگل میں پھنسا کر مقررہ ہدف کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔ لاہور میں منعقدہ ایک اور میچ میں عاقب جاوید نے بھارت کو ایک اور ہزیمت سے دوچار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 8 وکٹوں پر 150 رنز بنائے۔ اس سکور میں جاوید میانداد 30، سلیم ملک 29، شعیب محمد 26 اور رمیز راجا 24 کے ساتھ بھرپور مزاحمت میں نظر آئے۔ اس کے باوجود یہ ہدف بادی النظر میں تھوڑا لگ رہا تھا لیکن جب بھارت کی باری آئی تو اس کی ساری ٹیم 112 پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ سری کانت 31 کے ساتھ نمایاں سکورر تھے اور بھارتی بیٹنگ میں 18 رنز ایکسٹرا کے بھی شامل ہوئے مگر ان کی 38 رنز سے شکست نہ ٹل سکی۔ عاقب جاوید نے صرف 28 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کی اننگ کو مسدود کر دیا تھا۔ عمران خان 10/2، وسیم اکرم 25/2 نے بھی اپنی خوب ذمہ داری دکھائی تھی۔عاقب جاوید کی ایک اور شاندار کارکردگی 1991ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف شارجہ میں دیکھنے کو ملی جب اس نے 54 رنز کے عوض 3 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ لیکن وہ ایک دفعہ پھر بھارت پر وار کرنے کو تیار تھے جب شارجہ کی میدان میں پاکستانی ٹیم کو بھارت پر 72 رنز کی برتری حاصل ہوئی۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 6 وکٹوں پر 262 رنز بنائے۔ اس میں زاہد فضل 98 اور سلیم ملک 87 کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ منوج پربھارکر اور کپل دیو نے 3,3 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ بھارت کی بیٹنگ کو پاکستانی بولرز نے ماسوائے سنجرے منجریکر کے تتر بتر کر دیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ پوری بھارتی ٹیم 190 پر پویلین لوٹ گئی۔ بھارت کو اس انجام سے دوچار کرنے میں عاقب جاوید کی گیندوں کا کمال تھا۔ انھوں نے 10 اوورز میں ایک میڈن اوور کے ساتھ 37 رنز دے کر 7 کھلاڑیوں روی شاستری، نوجوت سدھو، سنجے منجریکر، کپتان محمد اظہر الدین، سچن ٹنڈولکر، کپل دیو اور منوج پربھارکر کا راستہ روک کر اپنی بہترین پرفارمنس کا جادو جگایا۔ 1991ء میں ہی ویسٹ انڈیز کے خلاف فیصل آباد میں 31/4، سری لنکا کے خلاف حیدرآباد سندھ میں 30/3، ملتان میں 2/40 اور راولپنڈی میں 2/25 کے اعداد و شمار بھی اس کی اچھی کارکردگی کا پتہ دے رہے ہیں۔ 1992ء میں اس نے آسٹریلیا کے خلاف 21/3، میلبورن میں انگلینڈ کے خلاف 27/2، لارڈز میں 54/3 کے ساتھ ٹیم کی مدد کی۔ 1995ء میں عاقب جاوید نے بھارت کے خلاف شارجہ میں ایک اور اچھی بولنگ کا کرشمہ دکھایا۔ انھوں نے صرف 19 رنز دے کر بھارتی کھلاڑیوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ اس نے 1997ء میں گوالیار میں کھیلے گئے ایک میچ میں سری لنکا کے خلاف 5/35 اور بھارت کے خلاف چنئی میں 61/5 کے خوبصورت اعداد و شمار کو اپنے ریکارڈ میں شامل کیا۔ حیدرآباد سندھ میں بھارت کے خلاف سیریز میں 4/29 بھی اس کی اعلیٰ کارکردگی کا نمونہ تھے۔ عاقب جاوید نے اپنا آخری ایک روزہ مقابلہ زمبابوے کے خلاف راولپنڈی میں کھیلا جس میں وہ 47 رنز کے عوض ایک وکٹ کے مالک بن سکے۔ یوں عاقب جاوید نے 1988-89ء سے لے کر 1998-99ء تک کے کیریئر میں 163 میچوں میں 182 وکٹوں کے حصول میں کامیابی حاصل کی۔
عاقب جاوید نے 22 ٹیسٹوں کی 27 اننگز میں 7 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 101 رنز سکور کیے۔ 5.05 کی اوسط سے بننے والے ان رنزوں میں 28 ناٹ آوٹ تھا جبکہ 163 ایک روزہ میچوں کی 51 اننگ میں 26 دفعہ بغیر آئوٹ انھوں نے 267 رنز 10.68 کی اوسط سے بنائے جس میں 45 ناٹ آوٹ اس کی کسی ایک اننگ کا بہترین سکور تھا۔ اس طرح 121 فرسٹ کلاس میچوں کی 135 اننگز میں 48 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 819 رنز 9.41 کی اوسط سے بنائے 65 اس کی ایک اننگ میں سب سے زیادہ سکور تھا۔ عاقب جاوید نے1874 رنز دے کر 54 ٹیسٹ وکٹ حاصل کیے 34.70 کی اوسط سے حاصل کردہ ان وکٹوں میں 5/84 کسی ایک اننگ کی بہترین باولنگ اور 8/188 کسی ایک میچ کی بہترین باولنگ کے اعدادوشمار تھے انھوں نے 2 دفعہ کسی ایک اننگ میں یا اس سے زائد جبکہ 1 دفعہ کسی ایک میچ میں 5 یا اس سے زائد وکٹ لیے عاقب جاوید نے ایک روزہ میچز میں 5721 رنز دے کر 182 وکٹیں اپنے اکائونٹ میں نمایاں کیں۔ 7/37 اس کی کسی ایک ون ڈے اننگ کی بہترین بولنگ ہے جس کے لیے انھیں 31.43 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 2 دفعہ ایک اننگ میں 4 جبکہ 4 دفعہ ایک اننگ میں 5 وکٹیں لینے کا منفرد کارنامہ بھی ان کے پاس ہے۔ فرسٹ کلاس میچوں میں عاقب جاوید کی وکٹوں کی تعداد 358 جس کے لیے انھوں نے 26.66 کی اوسط سے 9546 دیے۔ 9/51 ان کی بہترین بولنگ ہے۔ 19 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا اس سے زائد اور 5 دفعہ کسی ایک میچ میں 10 وکٹوں کا اعزاز بھی ان کے نام ہے۔ عاقب حاوید کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے 16 سال 189 دن کی عمر میں ء کے
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.