From Wikipedia, the free encyclopedia
محمد یوسف (سابقہ نام یوسف یوحنا؛ پیدائش: 27 اگست 1974ء) سابق پاکستانی کرکٹ کھلاڑی ہیں۔ 2005ء میں قبول اسلام سے قبل، یوسف کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیلنے والے چند مسیحی کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔[1] غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والے یوسف نے عمدہ بلے بازی کے باعث اپنی پہچان بنائی اور کرکٹ کی تاریخ میں کئی ریکارڈ اپنے نام کیے۔ یوسف نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں ساڑھے سات ہزار رنز اور ایک روزہ کیریئر میں ساڑھے نو ہزار رنز بنائے۔ یوسف کو آئی سی سی کی جانب سے 2007ء کا بہترین ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔ وہ کچھ عرصہ متنازع انڈین کرکٹ لیگ کا حصہ بھی رہے۔
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | محمد یوسف | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | لاہور، پنجاب، پاکستان | 27 اگست 1974|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا میڈیم گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 122) | 26 فروری 1998 بمقابلہ جنوبی افریقہ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 29 اگست 2010 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 152) | 28 مارچ 1998 بمقابلہ زمبابوے | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 22 ستمبر 2010 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ایک روزہ شرٹ نمبر. | 13 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ملکی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرصہ | ٹیمیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2011 | ورکشائر | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2010 | لاہور لائنز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2010 | اسلام آباد لیپرڈز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2008 | لنکن شائر | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2004–2008 | لاہور لائنز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2003–2004 | لاہور | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2002–2003 | زیڈ ٹی بی ایل | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2000–2001 | لاہور بلیوز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1999–2002 | پی آئی اے کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1997–1998 | لاہور سٹی | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1997–2008 | واپڈا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1996–1997 | بہاولپور کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: ESPNCricinfo، 20 اپریل 2012 |
2009ء-2010ء میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے محمد یوسف کی قیادت میں آسٹریلیا کا دورہ کیا جہاں اسے شکست ہوئی۔ نتیجتاً پاکستان کرکٹ بورڈ نے تحقیقات کے بعد، 10 مارچ 2010ء کو محمد یوسف پر پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کردی۔[2] بورڈ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انھیں آئندہ ٹیم کے لیے منتخب نہیں کیا جائے گا کیونکہ انھوں نے ٹیم میں انضباطی مسائل اور اندرونی رسہ کشی کو جنم دیا ہے۔اس پابندی کے رد عمل میں، محمد یوسف 29 مارچ 2010ء کو بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے۔[3]
محمد یوسف نے لاہور، پنجاب (پاکستان)، پاکستان میں جنم لیا۔ آپ کا خاندان ہندو مت چھوڑ کر مسیحیت میں داخل ہوا تھا۔ آپ کے والد یوحنا مسیح ریلوے اسٹیشن پر کام کیا کرتے تھے اور ان کا خاندان ریلوے کالونی کے قریب ہی رہتا تھا۔ لڑکپن میں، یوسف ایک بلّا خریدنے تک کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ لکڑی کے تختے اور ٹیپ ٹینس گیند کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ 12 سال کی عمر میں گولڈن جیمخانہ نے یوسف کے ہنر کا اندازہ لگایا، لیکن تب بھی یوسف نے کرکٹ کو ذریعہ معاش بنانے کا نہیں سوچا تھا۔ یوسف نے لاہور میں فارمین کرسچین کالج میں داخلہ لیا اور کھیلنا بھی جاری رکھا۔ اوائل 1994ء میں یوسف نے کھیلنا چھوڑ دیا اور بہاولپور میں رکشا چلانے لگے۔غربت بھرے پس منظر سے تعلق رکھنے والے یوسف 1990ء کی دہائی میں درزی کی دکان پر بھی کام کرتے رہے۔ اس دوران میں انھوں نے ایک مقامی کرکٹ میچ میں شرکت کی۔ ان کے عمدہ شاٹوں نے ہر ایک کی توجہ حاصل کرلی اور پاکستان کے ایک بہترین بلے باز بننے کی طرف ان کے سفر کا آغاز ہوا۔ وہ درزی کی دکان ہی پر کام کر رہے تھے کہ ایک مقامی کلب نے کھلاڑیوں کی کمی کے باعث ان سے رابطہ کیا۔ یوسف کے نمایاں کھیل نے انھیں بریڈفورڈ کرکٹ لیگ تک پہنچادیا جہاں وہ باؤلنگ اولڈ لین کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلے۔
2005ء میں قبول اسلام سے قبل، یوسف پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلنے والے چوتھے مسیحی (اور مجموعی طور پر پانچویں غیر مسلم) کھلاڑی تھے[4] (ان سے پہلے ولیس مٹھیاس، انٹاؤ ڈی سوزا اور ڈنکن شارپ پاکستانی ٹیم کا حصہ رہ چکے تھے)[1]۔ انھیں پاکستانی ٹیم کی قیادت کرنے والے پہلے اور اب تک کے واحد غیر مسلم کھلاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا، جب 2004ء-2005ء میں انھوں نے دورۂ آسٹریلیا کے موقع پر ٹیم کی قیادت کی اور ملبورن کرکٹ گراؤنڈ پر باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں سنچری بھی بنائی۔ پاکستان کی سب سے بڑی غیر سیاسی مذہبی تحریک، تبلیغی جماعت کے تبلیغی اجتماعات میں مسلسل شرکت کرنے کے بعد انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کے مبلغین میں یوسف کے سابقہ کرکٹ کھلاڑی ساتھی، سعید انور اور ان کے بھائی بھی شامل تھے۔ یوسف کی اہلیہ، تانیہ نے بھی ان کے ساتھ اسلام قبول کیا اور اسلامی نام فاطمہ رکھا۔ تاہم، خاندانی معاملات کی وجہ سے اس خبر کو تین مہینوں تک پوشیدہ رکھنے کے بعد، ستمبر 2005ء میں یوسف نے قبول اسلام کا اعلان کر دیا۔[5]
انگریزی اخبار، ڈیلی ٹائمز (پاکستان) سے بات کرتے ہوئے یوسف کی والدہ نے کہا کہ ’’یوسف کی اس حرکت کے بعد میں اسے اپنا نام دینا نہیں چاہتی۔ ہمیں اس کے اس فیصلے کا تب علم ہوا جب اس نے مقامی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ یہ ہمارے لیے صدمے کی خبر تھی۔‘‘[6] تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، یوسف کا کہنا تھا کہ ’’میں (قبول اسلام کے ) اس شاندار احساس کو بیان نہیں کر سکتا۔‘‘[7] قبولِ اسلام کے بعد، یوسف نے باضابطہ طور پر اپنا نام یوسف یوحنا سے محمد یوسف رکھ لیا۔
یوسف نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز جنوبی افریقا کے خلاف ڈربن میں اور پہلا بین الاقوامی ایک روزہ میچ ہرارے میں زمبابوے کے خلاف کھیلا۔ ایک روزہ کیریئر میں یوسف نے 15 سنچریوں کی مدد سے 40 سے زائد کی اوسط سے 9000 رنز بنائے اور ٹیسٹ مقابلوں میں 50 سے زائد کی اوسط سے 24 ٹیسٹ سنچریوں کی مدد سے 7000 رنز بنائے۔ ان کے پاس ایک روزہ میچ میں بغیر آؤٹ ہوئے سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ بھی ہے۔ انھوں نے 2002ء-2003ء میں زمبابوے کے خلاف سیریز میں مجموعی طور پر 405 رنز بنائے تھے۔ ایک روزہ مقابلوں میں 23 گیندوں پر نصف سنچری اور 68 گیندوں پر سنچری بنانے کے ساتھ ساتھ، ٹیسٹ میچ میں 27 گیندوں پر نصف سنچری بنانے کا اعزاز بھی یوسف کے پاس ہے۔ اپنے کامیاب ترین برسوں، یعنی 2002ء اور 2003ء میں یوسف ایک روزہ مقابلوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی رہے۔ دسمبر 2005ء میں انھوں نے لاہور میں انگلستان کے خلاف 223 رنز کی اننگز کھیلی۔ سات ماہ بعد جولائی 2006ء میں، جب پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو وہاں بھی یوسف نے پہلے ٹیسٹ میچ میں 202 رنز اور 48 رنز بنائے، جس کی بنیاد پر انھیں پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔ اس سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں یوسف نے 192 اور آخری ٹیسٹ میں 128 رنز بنائے تھے۔
2006ء میں سی این این-آئی بی این نے آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ، ویسٹ انڈیز کے برائن لارا، آسٹریلوی اسپنر شین وارن اور سری لنکا کے متیاہ مرلی دھرن کے مقابلے میں یوسف کو اس سال کا بہترین کھلاڑی قرار دیا۔ 2007ء میں وہ سال کا بہترین وزڈن کرکٹر کے طور پر منتخب ہوئے۔[8] 2007ء میں یوسف کو آئی سی سی کی جانب سے سال کا بہترین ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی ہونے کا اعزاز ملا۔[9] وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے چوتھے کھلاڑی تھے۔ انھوں نے 10 اننگز میں 7 سنچریوں اور 2 نصف سنچریوں کی مدد سے 94.40 کی اوسط کے ساتھ 944 رنز بنائے تھے۔
یوسف کا شمار عمدہ فیلڈروں میں ہوتا ہے۔ اواخر 2005ء میں کرک انفو کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق کرکٹ عالمی کپ 1999ء سے ایک روزہ کرکٹ میں سب سے زیادہ رن آؤٹ کرنے والے ساتویں کھلاڑی تھے۔[10] سنچری مکمل کرنے کے بعد جشن منانے کا ان کا انداز بھی ان کی پہچان رہا۔ قبول اسلام سے قبل، سنچری بنانے پر وہ سینے پر صلیب کا نشان بنایا کرتے تھے، جبکہ اسلام قبول کرنے کے بعد، انھوں نے میدان میں مکہ کی سمت میں سجدہ کرنے کا اندز اپنایا۔[11]
2007ء میں انڈین کرکٹ لیگ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد، پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے دباؤ اور پابندی لگائے جانے کی دھمکی کے باعث یوسف نے لیگ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ جواب میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے انھیں انڈین پریمیئر لیگ میں شامل کروانے کا وعدہ کیا، تاہم انڈین کرکٹ لیگ کی جانب سے مقدمے کے باعث ان کی بولی نہیں لگ سکی۔
قومی ٹیم کے لیے منتخب نہ ہونے پر 2008ء میں، ایک بار پھر انھوں نے انڈین کرکٹ لیگ میں شامل ہونے کی دھمکی دی۔ پی سی بی کے ایک عہدے دار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے انڈین کرکٹ لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والے اپنے تمام کھلاڑیوں پر پابندی عائد کی ہے اور اگر یوسف ایسی لیگ کے لیے کھیلتے ہیں تو انھیں بھی اسی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ یوسف اب بھی ہمارے بہترین بلے باز ہیں اور پاکستانی ٹیم کے ساتھ ان کا مستقبل ہے، لیکن آئی سی ایل میں شامل ہونے کی صورت میں نہیں۔[12] تاہم یوسف آئی سی ایل میں شمولیت کا فیصلہ کرچکے تھے۔[13] یوسف کے اس فیصلے کی ایک وجہ یونس خان کی جگہ شعیب ملک کو کپتان بنایا جانا بھی تھا؛ یوسف اور شعیب کے درمیان میں اختلافات پائے جاتے تھے۔[14] آخر پاکستان کرکٹ بورڈ نے یوسف پر پابندی عائد کردی۔[15]
2 فروری 2009ء کو پاکستانی عدالت نے آئی سی ایل کھیلنے والے کھلاڑیوں پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دیا تو پاکستانی کرکٹ میں محمد یوسف کی واپسی کے امکانات بڑھ گئے۔[16] جولائی 2009ء میں، سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان ہوا تو محمد یوسف اس کا حصہ تھے۔ وہ پہلے ہی، اوائل مئی میں غیر منظور شدہ لیگ سے خود کو علاحدہ کرچکے تھے۔ جولائی 2009ء میں یوسف نے سنچری کے ساتھ کرکٹ میں واپسی کی۔ یہ 2007ء کے بعد سے ان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔
محمد یوسف اور عبد الرزاق نے جب خود کو انڈین کرکٹ لیگ سے علاحدہ کیا تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کے ساتھ ’اے‘ کیٹگری کے وسط مدتی سینٹرل معاہدے کیے۔ یوسف نے بورڈ کو مطلع کیا کہ وہ چیمپئنز ٹرافی 2008ء میں حصہ نہیں لیں گے، کیونکہ وہ ماہِ رمضان میں ہوگی۔[17] یوسف کی واپسی کے تقریباً ایک سال بعد، بورڈ نے یونس خان کو آرام دیتے ہوئے محمد یوسف کو دورۂ نیوزی لینڈ کے لیے ٹیسٹ ٹیم کا کپتان مقرر کر دیا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ناکام دورۂ آسٹریلیا اور نظم و ضبط کے خلاف ورزی کے باعث، 10 مارچ 2010ء کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے، محمد یوسف اور سابق کپتان یونس خان پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کر دی گئی جبکہ شعیب ملک اور رانا نوید الحسن پر ایک سال کے لیے پابندی عائد کی گئی۔[18]
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے محمد یوسف پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کیے جانے کے بعد، 29 مارچ 2010ء کو محمد یوسف نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا۔ مجھے پی سی بی سے ایک خط موصول ہوا کہ ٹیم میں میری موجودگی ٹیم کے لیے نقصان دہ ہے، لہٰذا میں بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہو رہا ہوں، انھوں نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا۔ اس سے دو دن قبل، 27 مارچ 2010ء کو بھی یوسف نے اپنے فیصلے کے بارے میں پریس ایجنسی، اے ایف پی کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ جی ہاں، میں بطور پاکستانی کھلاڑی ریٹائر ہونے کا فیصلہ کرچکا ہوں اور میرا یہ فیصلہ جذباتی نہیں ہے۔ اگر میرا کھیلنا ٹیم کے لیے نقصان دہ ہے تو کھیلنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
یکم اگست 2010ء کو ٹرینٹ برج، ناٹنگھم میں انگلستان کے خلاف سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو شکست ہوئی تو بقیہ سیریز کے لیے یوسف کو دوبارہ طلب کر لیا گیا۔ تھکن کے باعث یوسف نے دوسرا ٹیسٹ نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کے بعد پاکستانی کپتان سلمان بٹ نے کہا کہ انھیں تیسرے ٹیسٹ میں یوسف کی واپسی کی توقع ہے۔ انتخاب کنندگان (سلیکٹرز) نے تیسرے ٹیسٹ سے پہلے یوسف کو وورچسٹرشائر کے خلاف ٹور میچ میں کھلانے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کی اہلیت جانچی جاسکے۔ یہ جانچ کامیاب رہی اور بارش کے باعث میچ ختم ہونے کے سے پہلے محمد یوسف نے ناقابلِ شکست 40 رنز بنائے۔ انگلستان کے خلاف سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں یوسف 56 کے انفرادی مجموعے پر گریم سوان کی گیند پر انھیں ہی کیچ تھما بیٹھے اور یوں وہ ٹیسٹ کرکٹ میں سوان کے 100ویں شکار بنے۔
پرانے کرکٹ کھلاڑی ہونے، عموماً زیادہ اونچے شاٹ نہ لگانے کی پہچان رکھنے اور 2006ء میں واحد بین الاقوامی ٹی20 کھیلنے کے باوجود، یوسف اس دورۂ انگلستان میں ٹی20 سیریز کا حصہ بھی بنے۔ انھوں نے 21 گیندوں پر 26 رنز بنائے۔
یوسف کی واپسی کا سفر اچھی طرح چلتا رہا۔ انھوں نے انگلستان کے خلاف پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں بھی حصہ لیا، اگرچہ پاکستان وہ سیریز 3-2 سے ہار گیا تھا۔ بعد ازاں، اکتوبر 2010ء میں جنوبی افریقا کے خلاف سیریز کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم میں بھی یوسف کو شامل رکھا گیا، یہاں تک کہ انھیں کپتان بنانے پر بھی غور کیا گیا، لیکن کپتانی مصباح الحق کو دی گئی۔
فیصل بینک ٹی20 کپ 2010-11ء میں، یوسف نے مقامی ٹیم لاہور لائنز کی قیادت کی اور فائنل مقابلے میں کراچی ڈولفنز کو شکست دے کر فاتح قرار پائی۔
اکتوبر 2010ء میں جنوبی افریقا کے خلاف سیریز کے لیے تربیت کے دوران میں وہ ہیمسٹرنگ کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ محدود اوورز کے مقابلوں کے لیے یوسف کی جگہ یونس خان کو منتخب کیا گیا، جنہیں پابندی عائد ہونے کے بعد سے اب تک موقع نہیں مل سکا تھا مگر اب بورڈ کے ساتھ ان کے معاملات طے پا چکے تھے۔ یوسف کی صحت تیزی سے بحال ہوئی اور وہ پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز سے پہلے ہی صحتیاب ہو گئے۔ ایک روزہ میچ میں یوسف نے جو شرٹ پہنی اس پر ان کا نام روشنائی سے لکھا گیا تھا جو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی تھا۔ میچ ریفری کے طلب کیے جانے پر یوسف نے بتایا کہ چونکہ وہ صرف ٹیسٹ سیریز کھیلنے آئے تھے، اس لیے اپنے ساتھ رنگین لباس نہیں لاسکے تھے، کیونکہ انھیں نہیں لگتا تھا کہ وہ ٹیسٹ سیریز کھیل پائیں گے۔ آخر آئی سی سی نے انھیں اس معاملے سے بری کر دیا۔ پہلے ٹیسٹ میچ کے ٹاس سے چند لمحات قبل ہی، یوسف گرؤن انجری کا شکار ہو گئے۔ یوسف کو اس بار صحت یاب ہونے میں دو ہفتے لگ گئے، نتیجتاً یوسف دونوں ٹیسٹ مقابلے نہیں کھیل سکے۔ مسلسل انجریوں کے پیشِ نظر، سابق پاکستانی کپتان معین خان نے یوسف کو مشورہ دیا کہ انھیں ایک روزہ اور ٹی20 کرکٹ سے ریٹائر ہوجانا چاہیے اور اپنی عمر اور مسلسل انجریوں کے باعث، صرف ٹیسٹ کرکٹ پر توجہ دینی چاہیے۔اگست 2012ء میں محمد یوسف کو تمغا حسن کارکردگی دیا گیا۔
|
|
” | انھوں (یوسف) نے جو حاصل کیا ہے، وہ نہ صرف بہترین ہے، بلکہ کچھ حد تک ناقابلِ یقین بھی ہے۔ ایک سال میں نو سنچریاں اور اس قدر رنز بہت ہی شاندار ہیں۔ وہ ایک مخلص کھلاڑی ہیں اور صرف پاکستان ہی کے لیے نہیں، بلکہ تمام نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال ہیں۔ | “ |
— یوسف کی کارکردگی پر سابق ویسٹ انڈین بلے باز برائن لارا کی رائے[19] |
شماریات کے اعتبار سے، کرکٹ میں سال 2006ء کو آسٹریلیا قومی کرکٹ ٹیم، متیاہ مرلی دھرن اور یوسف کا سال کہا جاتا ہے۔ یوسف نے 2006ء میں 99.33 کی اوسط سے 1788 رنز بنائے اور سر ویو رچرڈز کے دو عالمی ریکارڈز توڑے۔[20]
ٹیسٹ کیریئر ریکارڈز بلحاظ حریف[21] | ||||||||||||||
# | حریف | مقابلے | اننگز | ناقابل شکست | رنز | بہترین اسکور | اوسط | گیندوں کا سامنا | اسٹرائیک ریٹ | سنچریاں | نصف سنچریاں | صفر | چوکے | چھکے |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | آسٹریلیا | 11 | 21 | 0 | 622 | 111 | 29.61 | 1160 | 53.62 | 1 | 3 | 1 | 85 | 6 |
2 | بنگلادیش | 5 | 6 | 4 | 503 | 204* | 251.50 | 843 | 59.66 | 2 | 2 | 0 | 76 | 3 |
3 | انگلستان | 14 | 24 | 0 | 1499 | 223 | 62.45 | 2864 | 52.33 | 6 | 3 | 1 | 183 | 9 |
4 | بھارت | 15 | 27 | 2 | 1247 | 173 | 49.88 | 2198 | 56.73 | 4 | 6 | 2 | 169 | 11 |
5 | نیوزی لینڈ | 9 | 15 | 1 | 747 | 203 | 53.35 | 1634 | 45.71 | 1 | 5 | 3 | 95 | 5 |
6 | جنوبی افریقا | 7 | 13 | 1 | 357 | 83 | 29.75 | 586 | 60.92 | 0 | 3 | 1 | 43 | 3 |
7 | سری لنکا | 15 | 26 | 1 | 725 | 112 | 29.00 | 1505 | 48.17 | 1 | 3 | 1 | 79 | 8 |
8 | ویسٹ انڈیز | 8 | 14 | 2 | 1214 | 192 | 101.16 | 2321 | 52.30 | 7 | 3 | 1 | 141 | 4 |
9 | زمبابوے | 6 | 10 | 1 | 616 | 159 | 68.44 | 1261 | 48.85 | 2 | 5 | 1 | 87 | 2 |
کل | 90 | 156 | 12 | 7530 | 223 | 52.29 | 14372 | 52.39 | 24 | 33 | 11 | 957 | 51 |
ایک روزہ کیریئر ریکارڈز بلحاظ حریف[22] | ||||||||||||||
# | حریف | مقابلے | اننگز | ناقابل شکست | رنز | بہترین اسکور | اوسط | گیندوں کا سامنا | اسٹرائیک ریٹ | سنچریاں | نصف سنچریاں | صفر | چوکے | چھکے |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | افریقا الیون | 6 | 5 | 0 | 162 | 66 | 32.40 | 184 | 88.04 | 0 | 2 | 0 | 11 | 3 |
2 | آسٹریلیا | 29 | 29 | 2 | 1016 | 100 | 37.62 | 1421 | 71.49 | 1 | 7 | 2 | 89 | 8 |
3 | بنگلادیش | 18 | 16 | 6 | 893 | 112* | 89.30 | 1034 | 86.36 | 3 | 5 | 0 | 81 | 10 |
4 | انگلستان | 26 | 24 | 4 | 772 | 81 | 38.60 | 1277 | 60.45 | 0 | 6 | 1 | 47 | 2 |
5 | ہانگ کانگ | 2 | 1 | 0 | 28 | 28 | 28.00 | 28 | 100.00 | 0 | 0 | 0 | 5 | 0 |
6 | آئی سی سی ورلڈ الیون | 1 | 1 | 0 | 4 | 4 | 4.00 | 5 | 80.00 | 0 | 0 | 0 | 0 | 0 |
7 | بھارت | 44 | 42 | 5 | 1430 | 100* | 38.64 | 1728 | 82.75 | 1 | 12 | 1 | 116 | 15 |
8 | آئرلینڈ | 1 | 1 | 0 | 15 | 15 | 15.00 | 31 | 48.38 | 0 | 0 | 0 | 2 | 0 |
9 | کینیا | 2 | 1 | 0 | 18 | 18 | 18.00 | 17 | 105.88 | 0 | 0 | 0 | 1 | 0 |
10 | نمیبیا | 1 | 1 | 0 | 43 | 43 | 43.00 | 55 | 78.18 | 0 | 0 | 0 | 3 | 0 |
11 | نیدرلینڈز | 1 | 1 | 0 | 58 | 58 | 58.00 | 59 | 98.30 | 0 | 1 | 0 | 4 | 0 |
12 | نیوزی لینڈ | 29 | 27 | 2 | 906 | 125 | 36.24 | 1199 | 75.56 | 1 | 5 | 2 | 89 | 8 |
13 | اسکاٹ لینڈ | 2 | 2 | 2 | 164 | 83* | 164.00 | 232 | 70.68 | 0 | 2 | 0 | 17 | 0 |
14 | جنوبی افریقا | 34 | 34 | 2 | 1116 | 117 | 34.87 | 1539 | 72.51 | 2 | 9 | 1 | 92 | 7 |
15 | سری لنکا | 43 | 42 | 4 | 1284 | 129 | 33.78 | 19.18 | 66.94 | 2 | 5 | 5 | 94 | 13 |
16 | ویسٹ انڈیز | 25 | 24 | 5 | 778 | 105 | 40.94 | 1022 | 76.12 | 2 | 3 | 2 | 55 | 5 |
17 | زمبابوے | 24 | 22 | 8 | 1033 | 141* | 73.78 | 1193 | 86.58 | 3 | 7 | 1 | 79 | 19 |
کل | 288 | 273 | 40 | 9720 | 141* | 41.71 | 12942 | 75.10 | 15 | 64 | 15 | 785 | 90 |
محمد یوسف نے 2006ء-2010ء کے دوران میں انگلینڈ کے خلاف صرف تین ٹی20 بین الاقوامی مقابلے کھیلے۔[24]
ٹی20 کیریئر ریکارڈز بلحاظ حریف | ||||||||||||||
# | حریف | مقابلے | اننگز | ناقابل شکست | رنز | بہترین اسکور | اوسط | گیندوں کا سامنا | اسٹرائیک ریٹ | سنچریاں | نصف سنچریاں | صفر | چوکے | چھکے |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | انگلستان | 3 | 3 | 0 | 50 | 26 | 16.66 | 43 | 116.27 | 0 | 0 | 0 | 5 | 1 |
کل | 3 | 3 | 0 | 50 | 26 | 16.66 | 43 | 116.27 | 0 | 0 | 0 | 5 | 1 |
2007ء میں یوسف نے آئی سی سی ایوارڈز میں سال کا ٹیسٹ کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔[25] * 2011ء میں انھیں صدر پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز دیا گیا، جو پاکستان کا تیسرا اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔[26]
# | سیریز (حریف) | سیزن | سیریز کارکردگی[27] |
---|---|---|---|
1 | انگلستان، پاکستان میں (ٹیسٹ سیریز) | 2000/01 | 342 رنز (3 مقابلے اور 4 اننگز، 2x100 ،1x50)؛ 8 کیچ |
2 | پاکستان، انگلستان میں (ٹیسٹ سیریز) | 2006 | 631 رنز (4 مقابلے اور 7 اننگز، 1x200 ،1x100 0x50)؛ 1 کیچ |
3 | ویسٹ انڈیز، پاکستان میں (ٹیسٹ سیریز) | 2006/07 | 665 رنز (3 مقابلے اور 5 اننگز، 4x100 ،1x50)؛ 1 کیچ |
مرد میدان اعزاز (ٹیسٹ):
S نمبر | حریف | میدان | دورہ | میچ میں کارکردگی |
---|---|---|---|---|
1 | زمبابوے | لاہور | 1998 | 120* (206b ،15x4 ،1x6)؛ 1 کیچ۔[28] |
2 | بنگلادیش | چٹاگانگ | 2002 | 204* (243b ،34x4 ،2x6)؛ 1 کیچ[29] |
3 | زمبابوے | بلاوایو | 2002 | 159 (282b ،21x4 ،0x6)؛ اور 2 کیچ[30] |
4 | انگلستان | لاہور | 2005 | 223 (373b ،26x4 ،2x6)؛ 2 کیچ[31] |
5 | انگلستان | لندن | 2006 | 202 (330b ،26x4 ،1x6) اور 48 (62b ،8x4 ،0x6)؛ 1 کیچ، 1 رن آؤٹ[32] |
6 | ویسٹ انڈیز | ملتان | 2006 | 56 (117b ،3x4 ،1x6)؛ اور 191 (344b ،22x4 ،0x6)[33] |
7 | ویسٹ انڈیز | کراچی | 2006 | 102 (158b ،15x4، 0x6) اور 124 (195b ،15x4 ،0x6)؛ 1 رن آؤٹ[34] |
# | سیریز (حریف) | دورہ | سیریز کارکردگی[35] |
---|---|---|---|
1 | پاکستان بمقابلہ بنگلادیش، ڈھاکہ (ایشیا کپ 2000ء) میں | 2000/01 | 295 رنز (4 مقابلے اور 4 اننگز، بلے بازی اوسط 147.50، 1x100 ،2x50)؛ 1 کیچ |
2 | پاکستان، زمبابوے میں (ایک روزہ سیریز) | 2002/03 | 405 رنز (5 مقابلے اور 4 اننگز، بلے بازی اوسط 405.00، 2x100 ،2x50)؛ 0 کیچ |
3 | جنوبی افریقا، پاکستان میں (ایک روزہ سیریز) | 2007 | 286 رنز (5 مقابلے اور 5 اننگز، بلے بازی اوسط 71.50، 1x100 ،3x50)؛ 0 کیچ |
مرد میدان کا اعزاز (ایک روزہ):
S # | حریف | میدان | دورہ | میچ میں کارکردگی |
---|---|---|---|---|
1 | اسکاٹ لینڈ | Chester-le-Street | 1999 | 81* (119b, 6x4, 0x6)[36] |
2 | ویسٹ انڈیز | ٹورنٹو | 1999 | 104* (114b, 13x4, 0x6); 1 Catch[37] |
3 | بھارت | گابا | 2000 | 63 (83b, 8x4, 0x6)[38] |
4 | بھارت | ڈھاکہ | 2000 | 100* (112b, 9x4, 1x6)[39] |
5 | سری لنکا | ڈھاکہ | 2000 | 90* (130b, 7x4, 2x6); 1 Run out[40] |
6 | بنگلادیش | ڈھاکہ | 2002 | 112 (108b, 8x4, 2x6)[41] |
7 | سری لنکا | شارجہ | 2002 | 129 (131b, 8x4, 3x6)[42] |
8 | زمبابوے | Bulawayo | 2002 | 141* (147b, 13x4, 3x6)[43] |
9 | زمبابوے | ہرارے | 2002 | 100* (68b, 8x4, 2x6)[44] |
10 | نیدرلینڈز | پرل | 2003 | 58 (59b, 4x4, 0x6)[45] |
11 | بنگلادیش | اقبال اسٹیڈیم | 2003 | 106 (127b, 7x4, 1x6); 1 Catch[46] |
12 | بنگلادیش | راولپنڈی | 2003 | 94* (131b, 5x4, 1x6)[47] |
13 | نیوزی لینڈ | کوئنز ٹاؤن | 2004 | 88* (106b, 10x4, 0x6); & 2 Catch[48] |
14 | بھارت | برمنگھم | 2004 | 81* (114b, 5x4, 1x6); 2 Catches[49] |
15 | ویسٹ انڈیز | مغربی آسٹریلیا | 2005 | 105 (100b, 9x4, 0x6)[50] |
16 | اسکاٹ لینڈ | ایڈن برگ | 2006 | 83* (113b, 11x4, 0x6); 1 Catch[51] |
17 | جنوبی افریقا | قذافی اسٹیڈیم | 2007 | 117 (143b, 9x4, 0x6)[52] |
18 | بنگلادیش | قذافی اسٹیڈیم | 2008 | 108* (103b, 11x4, 1x6); 1 Run out[53] |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.