![cover image](https://wikiwandv2-19431.kxcdn.com/_next/image?url=https://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/6/69/Pakistan_-_Khyber_Pakhtunkhwa_-_Bannu.svg/langur-640px-Pakistan_-_Khyber_Pakhtunkhwa_-_Bannu.svg.png&w=640&q=50)
ضلع بنوں
خیبر پختونخواہ، پاکستان کا ایک ضلع / From Wikipedia, the free encyclopedia
صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوب میں ضلع بنوں ایک اہم ترین خوبصورت شہر ہے۔ جو وزیرستان کے ساتھ واقع ہے۔ اس شہر کی بنیاد 1848میں ایڈروڈ نے ڈالی۔ برطانوی راج میں بنوں شہر کو ایک اہم سرحدی شہر کی حیثیت حاصل تھی۔ بنوں ایک سرسبز شہر ہے عام لوگوں کا پیشہ کاشتکاری اور بھیژ، بکریاں چرانا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں میں کپڑے اور گنے کے کارخانے بھی یہاں موجود ہے۔ علاقے کی مشہور سوغات نسوار اور مسالا جات اور مہندی ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں کی مشہور شخصیات میں صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰٰ اکرم خان درانی اور سابق صدر غلام اسحاق خان شامل ہے۔ یہاں ایک یونیورسٹی چار ڈگری کالج ایک پولیٹکنیک کالج، ایک کامرس کالج، ایک ایلمنٹری کالج اور دس سے زیادہ ہائی اسکولز ہیں۔ اس کے علاوہ کرم گڑھی میں دو پانی کے بجلی گھر اور ایک پانی کا ڈیم باران ڈیم یہاں تعمیر کیے گئے ہیں۔
District Bannu | |
---|---|
ضلع | |
![]() خیبر پختونخوا میں ضلع بنوں کا مقام | |
ملک | ![]() |
پاکستان کی انتظامی تقسیم | ![]() |
ہیڈکوارٹر | بنوں |
رقبہ | |
• ضلع | 1,227 کلومیٹر2 (474 میل مربع) |
آبادی (2017ء)[1] | |
• ضلع | 1,167,892 |
• کثافت | 950/کلومیٹر2 (2,500/میل مربع) |
• شہری | 49,965 |
• دیہی | 1,117,927 |
منطقۂ وقت | پاکستان میں وقت (UTC+5) |
تعداد تحصیل | 2 |
بنوں جغرفیائی و تاریخی اورسیاسی لحاظ سے اہم مقام پر واقع ہے۔ بنوں ایک طرف افغانستان سے اور دوسری طرف پنجاب کے ساتھ ملا ھوا ہے۔ اس لیے ماضی میں بیرونی فاتحین کی گزرگاہ رہا۔ یہ انڈیا تک رسائی کا مختصر مگر مشکل ترین راستہ تھا۔ بیرونی فاتحین مغربی دروں سے نیچے اتر کر بنوں سے ہوتے ہوئے آگے پنجاب پھر ہندوستان کا رخ کرتے۔ ان فاتحین کے لیے بنوں معمول کاراستہ ہوتا تھا اور اکثر بیشتر بنوں فاتحین کا نشانہ بنتا ہر فاتح اسے زیر و زبر کرتا اور کافی نقصان پہنچاتا۔
ماضی میں بنوں افغانستان کا ایک صوبہ ہوا کرتا تھا مگر مرکز سے کٹا ہوا بہت دور واقع تھا۔ بنوں افغانستان اور ہندوستان کے سنگم پر واقع تھا یہ افغانستان کے انتہائی مشرقی کونے پر اور ہندوستان کے انتہائی مغربی کونے پر تھا گویا ہر دور میں بنوں مرکز سے کافی دور رہا اس لیے لحاظ سے بنوں ایک دورافتادہ وادی سمجھا جاتا تھا چونکہ یہ بیرونی فوجوں کی گزرگاہ کی زد میں رہا ہر دور میں تباہ برباد اور تخت وتاراج ہوتا رہا۔ تہذیب و تمدن اورتجارتی ترقی سے دور رہا ہمیشہ آزاد رہا۔ یا نیم آزاد رہا سو اپنے رسم و رواج کے مطابق یہاں کے لوگ زندگی بسر کرتے رہے۔ تاج برطانیہ کے قلمرو میں آنے سے پہلے باختر یعنی افغانستان کا ایک صوبہ تھا جس میں پنچاب کا بھی کچھ حصہ شامل ہوتا تھا۔ بنوں واحد ضلع ہے جہاں مغرب کی طرف کوئی شاہراہ نہیں ہے جیسے خیبر کی شاہراہ۔ لیکن اب اکرم خان درانی صاحب کی کوششوں سے غلام خون پھاٹک تک شاہراہ کی تعمیر پر کام ہو رہا ہے۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے کابل تک فاصلہ خیبر کے مقابلے میں کئی سو کلومیٹر کم ہو جائے گا۔