From Wikipedia, the free encyclopedia
کابل افغانستان کا دار الحکومت اورسب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 10لاکھ سے زائد ہے۔ دریائے کابل کے ساتھ تنگ وادی میں قائم یہ شہر معاشی و ثقافتی مرکز ہے۔ کابل ایک طویل شاہراہ کے ذریعے غزنی، قندھار، ہرات اور مزار شریف خوست سے منسلک ہے۔ یہ جنوب مشرق میں پاکستان اور شمال میں تاجکستان سے بھی بذریعہ شاہراہ جڑا ہوا ہے۔ یہ سطح سمندر سے 18ہزار میٹر (5 ہزار900فٹ)بلندہے۔ کابل کی اہم مصنوعات اسلحہ، فرنیچر، گڑ، ڈرائی فروٹ ہیں لیکن 1979ء سے جاری جنگ اور خانہ جنگی کے باعث پیداوار اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ لیکن اب صورت حال کو کنٹرول کر لیا گیا ہے اور معیشت دن بدن بہتری کی جانب گامزن ہےـ کابل کثیر الثقافتی و کثیر النسلی شہ رہے جہاں افغانستان بھر سے مختلف نسل کے لوگ رہائش پزیر ہیں۔ ان میں پشتون، تاجک، ازبک، ہزارہ اور دیگر شامل ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ، خانہ جنگی اورتباہی کے بعداب کابل تعمیرنو کے مراحل سے گذر رہا ہےـ
تاریخ میں کابل کا پہلا حوالہ 1200قبل مسیح میں کوبھا نامی شہر سے ملتا ہے جو موجودہ کابل کی جگہ قائم تھا۔ پہلی صدی قبل مسیح میں شہر موریائوں کے قبضے میں آیا۔ پہلی صدی عیسوی میں کوشان اوربعدازاں ہندو اس کے حکمران بنے۔ 664ء میں عربوں نے کابل فتح کرکے اسے اسلامی حکومت میں شامل کر لیا۔ اگلے 600سالوں تک شہر سامانی، ہندو شاہی، غزنوی، غوری اور تیموری حکمرانوں کے تحت رہا۔
674ء میں جب اسلامی فتوحات خراسان تک پہنچ گئی تھیں اس وقت کابلستان میں کابل شاہان کے نام سے ایک آزاد مملکت قائم تھی۔ انھوں نے عربوں کے حملوں سے بچنے کے لیے شہرکے گرد ایک دفاعی فصیل قائم کی تھی۔ آج کل یہ فصیل شہر کی قدیم یادگار سمجھی جاتی ہے لیکن اس کااکثرحصہ تباہ ہو چکا ہے۔ 13ویں صدی میں وحشی منگول یہیں سے گذرے۔ 14 ویں میں تیمور لنگ کی سلطنت کے شہر کی حیثیت سے کابل ایک مرتبہ پھر تجارتی مرکز بن گیا جس نے کابل کے فرمانروا کی بہن سے شادی کی لیکن تیموری طاقت کے کمزور پڑنے کے بعد ظہیر الدین بابر نے 1504ء میں کابل پرقبضہ کرتے ہوئے اسے اپنا دار الحکومت بنالیا اوربعد ازاں یہ 1738ء تک مغل حکمرانوں کے زیر نگیں رہا۔
1738ء میں فارس کے حکمران نادر شاہ نے کابل پر قبضہ کر لیا لیکن 1747ء میں اس کی وفات کے بعد احمد شاہ درانی تخت پر بیٹھا اور پشتون حکومت کا اعلان کرتے ہوئے افغان سلطنت کو مزید وسیع کیا۔ 1772ء میں اس کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے کابل کو اپنا دار الحکومت بنایا۔ وہ 1793ء میں انتقال کرگیا اور زمان شاہ درانی تخت پربیٹھا۔
1826ء میں دوست محمد حکمرانی کا دعویداربنا لیکن 1839ء میں برطانوی افواج نے کابل پر قبضہ کرلیااور شاہ شجاع کی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دی۔1841ء میں مقامی ”بغاوت“ کے نتیجے میں برطانوی افواج کو عظیم جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور جلال آباد میں 16ہزاربرطانوی فوجیوں کو تہ تیغ کیا۔ 1842ء میں برطانیہ نے اس قتل عام کابدلہ لینے کے لیے جوابی حملہ کیا لیکن بالاحصار کو نقصان پہنچا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعدتاج و تخت دوست محمد کو ملا۔
برطانیہ نے 1878ء میں ایک مرتبہ پھر کوشش کی جب شہر پر شیر علی خان کی حکومت تھی۔ شہری آبادی کے قتل عام کے بعد 1879ء میں پھر جنرل رابرٹس کی زیرقیادت برطانوی افواج کابل پہنچیں اور بالا حصار کو نقصان پہنچانے کے بعدفرارہوگئیں۔
20ویں صدی کے اوائل میں شاہ امان اللہ خان نے زمام اقتدار سنبھالا۔ ان کے کارناموں میں شہر کوبجلی کی فراہمی اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کی فراہمی شامل ہیں۔ وہ شہر کے معروف دارالامان محل میں رہتے ہیں۔ 1919ء میں مشہور تیسری افغان جنگ میں امان اللہ نے عید گاہ مسجدمیں بیرونی مداخلت سے افغانستان کی آزادی کا اعلان کیا۔1929ء میں حبیب اللہ تاجک کے بغاوت کے باعث شاہ امان کابل چھوڑ گئے اور حبیب اللہ نے اقتدار سنبھالا۔ 1933ء میں نادر شاہ کے قتل کے بعدان کے بھائی ظاہر شاہ زیر اقتدار آئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف18 سال تھی۔
1930ء کی دہائی کے اوائل میں کابل یونیورسٹی کو کلاسوں کے لیے کھول دیا گیا اور 1940ء کی دہائی میں شہرصنعتی مرکز کی حیثیت سے ابھرنے لگا۔ 1950ء کی دہائی میں شہر میں سڑکیں بچھائی گئیں۔
1960ء کی دہائی میں شہر مزید وسعت اختیار کرگیا اور وسط ایشیا کاپہلامارکس اینڈاسپنسر اسٹور یہیں کھولا گیا۔ کابل چڑیا گھر کا افتتاح 1967ء میں ہوا۔
1969ء میں افغانستان کی سیاست پر سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف پل خشتی مسجدکے باہرمذہبی عناصر نے مظاہرہ کیا جس کے دوران معروف اسلامی اسکالر مولانا فیضانی سمیت کئی مذہبی رہنما گرفتار ہوئے ۔
1975ء میں چیکوسلواکیہ کے تعاون سے شہر میں برقی ٹرالی بس نظام رائج ہوا جس سے عوام کو سفری سہولیات میسر ہوئیں۔
سوویت جارحیت کے بعد 23دسمبر 1979ء کو سرخ افواج نے کابل پر قبضہ کرلیااور مجاہدین اور سوویت افواج کے درمیان اگلے 10سالوں تک یہ سوویت یونین کاکمانڈ سینٹر رہا۔ کابل میں افغان سفارت خانہ 30 جنوری1989ء کو بند کر دیا گیا۔ 1992ء میں محمد نجیب اللہ کی کمیونسٹ نواز حکومت کے خاتمے ساتھ شہر مقامی ملیشیائوں کے رحم و کرم پر آگیا۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں شہر کو زبردست نقصان پہنچا اور دسمبر میں شہر کی 86ٹرالی بسوں میں سے آخری بھی بند کردی گئی تاہم 800 بسیں شہر کی آبادی کونقل و حمل کی سہولیات فراہم کرتی رہیں۔ 1993ء تک شہر کو بجلی و پانی کی فراہمی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی۔ برہان الدین ربانی کی ملیشیا جمعیت اسلامی، گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی، عبدالرشید دوستم اور حزب وحدت کے درمیان خانہ جنگی میں لاکھوں شہر ہلاک اور لاکھوں گھربدر ہو گئے ۔
ستمبر1996ء میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور سابق صدر نجیب اللہ اوران کے بھائی کو گرفتار کرکے سرعام پھانسی دے دی۔ طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی دیگر تمام ملیشیائوں کے درمیان جنگ بندہوگئی اور ب رہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار،عبد الرشید دوستم، احمدشاہ مسعود اوردیگرتمام شہر سے فرار ہو گئے ۔
تقریباً 5 سال بعد اکتوبر2001ء میں امریکہ نے افغانستان پرجارحیت کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کاخاتمہ کر لیا۔ جس کے بعد امریکا نواز حامد کرزئی افغانستان کے نئے صدر قرارپائے ۔
شہر کے ثقافتی مراکز میں افغان قومی عجائب گھر، بابر کا مزار، نادر شاہ کا مزار، تیسری افغان جنگ کے بعد 1919ء میں تعمیر کیا جانے والا مینار استقلال، تیمور شاہ کا مزار اور 1893ء میں قائم ہونے والی عید گاہ مسجد شامل ہیں۔ 1879ء میں برطانوی جارحیت کے دوران تباہ ہونے والا قلعہ بالاحصار اب عسکری کالج میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔
دیگر دلچسپ مقامات میں کابل شہر کا مرکز شامل ہے جہاں افغانستان کا پہلا شاپنگ مال قائم ہے، وزیر اکبر خان کا علاقہ، کابل چڑیا گھر، بابر باغ، شاہ دو شمشیرا اور دیگر معروف مساجد، افغان قومی گیلری، افغان نیشنل آرکائیو، افعان شاہی خاندان کا قبرستا، بی بی مہرو پہاڑی، کابل کا مسیحی قبرستان اور پغمان باغ بھی دیگر دلچسپ مقامات ہیں۔
ٹپے مرنجان قریبی پہاڑی ہے جہاں سے بدھ مجسمے اور دو سری قبل مسیح کے سکے برآمد ہوئے ہیں۔ شہر کے شمال اور مشرق کی جانب پغمان اور جلال آباد کی وادیاں ہیں۔
عوامی مقامات
پرکشش مقامات
مساجد
مزارات
عجائب گھر
ہوٹل
بینک
اے آئی بی بینک
کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ شہر کو دنیا بھر سے منسلک کیے ہوئے ہے۔ کابل کی سرکاری بسیں ملی بس کہلاتی ہیں جو شہر بھر میں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں۔ اس وقت ملی بس کے زیر انتظام تقریباً 200 بسیں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں جبکہ یہ نظام تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ جدید برقی بسیں متعارف کرانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ ان بسوں کے علاوہ پیلے رنگ کی ٹیکسیاں بھی شہر کے ذرائع آمدورفت کا اہم حصہ ہیں۔
کابل کی جامعات
اکتوبر 2005ء کے مطابق کابل شہر میں 13 لائسنس یافتہ بینک ہیں جن میں ہالینڈ کے آئی این جی بینک کے زیر انتظام افغانستان انٹرنیشنل بینک، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، کابل بینک، پنجاب نیشنل بینک اور پاکستان کا حبیب بینک بھی شامل ہیں۔
2005ء مرکز شہر میں ایک بلند عمارت صفی لینڈ مارک میں جدید شاپنگ مال کے ساتھ اوپر کی 6 منزلوں پر 4 ستارہ قائم کیا گیا ہے۔ 5 ستارہ سرینا ہوٹل 2005ء میں کھولا گیا۔ ایک اور 5 ستارہ ہوٹل حیات ریجنسی زیر تعمیر ہے جس کی تعمیر 2007ء میں مکمل ہوگی۔ انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل کی بھی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔
کابل سے 4 میل دور بگرامی کے علاقے میں 22 ایکڑ عرض پر پھیلا ہوا صنعتی کمپلیکس تعمیر کیا گیا ہے جس میں جدید تنصیبات قائم کی گئی ہیں تاکہ مختلف ادارے اپنا کاروبار کرسکیں۔
ستمبر 2006ء میں کابل میں 25 ملین امریکی ڈالرز کی لاگت کوکا کولا کا کارخانہ کھولا گیا۔ اس کارخانے کے لیے سرمایہ کاری دبئی میں قیام پزیر ایک افغان خاندان نے کی ہے۔ اس کارخانے کا باقاعدہ افتتاح صدر حامد کرزئی نے کیا۔
افغان صدر کی آفیشل ویب گاہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ president.gov.af (Error: unknown archive URL)
آئین افغانستانآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ constitution-afg.com (Error: unknown archive URL)
9 ارب ڈالرز کے روشنیوں کے شہر کی تعمیر کا منصوبہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ cityoflight-kabul.com (Error: unknown archive URL)
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.