ہندوستان کے نامور اداکار اور ہدایت کار From Wikipedia, the free encyclopedia
راج کپور (ولادت: شری شتی ناتھ کپور، 14 دسمبر 1924ء - وفات: 2 جون 1988ء) بھارتی فلمی اداکار، پروڈیوسر اور بھارتی سینما کے ہدایت کار تھے۔ پشاور میں پیدا ہوئے۔ فلموں میں ’کلیپ بوائے‘ کے طور پر اپنی فنی زندگی کا آغاز کرنے والے راج کپور نے نہ صرف اپنے والد پرتھوی راج کپور کی فنی وراثت کے دباؤ میں اپنا تخلیقی سفر طے کیا بلکہ اس میں اپنے لیے ایک مقام کی تراش خراش بھی کر ڈالی۔ شروع ہی سے بغیر کسی تعصب اور بغض کے مقبول عام انداز کو اختیار کرکے وہ چار دہائیوں تک فلم کے افق پر اداکار اور ہدایت کار کے طور پر راج کرتے رہے۔
راج کپور | |
---|---|
(ہندی میں: राज कपूर) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 14 دسمبر 1924ء [1][2][3] پشاور [4][5] |
وفات | 2 جون 1988ء (64 سال)[1][6] نئی دہلی |
وجہ وفات | دمہ |
شہریت | برطانوی ہند (–1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) بھارت (26 جنوری 1950–) |
آنکھوں کا رنگ | بھورا |
بالوں کا رنگ | سیاہ |
زوجہ | کرشنا کپور (12 مئی 1946–2 جون 1988) |
اولاد | رشی کپور ، رندھیر کپور ، راجیو کپور ، ریتو نندا ، ریما جین |
تعداد اولاد | 5 |
والد | پرتھوی راج کپور |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | فلم ساز ، فلم ہدایت کار ، منظر نویس ، فلم مدیر ، فلم اداکار |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی [6] |
اعزازات | |
دادا صاحب پھالکے ایوارڈ (1987) فلم فیئر اعزاز برائے بہترین ہدایت کار (برائے:رام تیری گنگا میلی ) (1986) فلم فیئر اعزاز برائے بہترین ہدایت کار (برائے:پریم روگ ) (1983) فلم فیئر اعزاز برائے بہترین ہدایت کار (برائے:میرا نام جوکر ) (1972) پدم بھوشن (1971) فلم فیئر اعزاز برائے بہترین ہدایت کار (برائے:Sangam ) (1965) | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
بھارت کے علاوہ روس اور مشرق وسطیٰ تک دیکھے جانے والا یہ فنکار گو میٹرک کے امتحان میں فیل ہو گیا تھا لیکن آج ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں سینیما پر موضوع تحقیق کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔
راج کپور نے اپنے فنی سفر کا آغاز ہدایت کار کیدار شرما کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا اور پھر سن انیس سو انتالیس میں بننے والی انہی کی فلم ’نیل کنول‘ میں ہیرو کے طور متعارف ہوئے۔ اس فلم میں ان کے مدمقابل مدھوبالا پہلی دفعہ ہیروئن کے طور پر آئیں۔
راج کپور نے پہلی دفعہ اپنی فلم ’آگ‘ کی ہدایات دیں جو انیس سو اڑتالیس میں بنائی گئی۔ ایک سال بعد بننے والی ان کی اگلی فلم ’برسات‘ بہت مقبول ہوئی جس میں انھوں نے نرگس کے ساتھ کام کیا۔ اس کے بعد تو جیسے کامیابی کے دروازے ان پر کھلتے ہی چلے گئے اور ان کی ایک مخصوص ٹیم بنتی چلی گئی۔
کہانی اور مکالمہ نگار خواجہ احمد عباس، موسیقار شنکر جے کشن، گیت نگار حسرت جئے پوری اور شیلندرا اور گلوکار مکیش اور لتا منگیشکر کے بغیر ان کی فلمیں مکمل نہیں ہوتی تھیں لیکن ان تمام فلموں میں راج کپور کے علاوہ بنیادی ترین کردار نرگس کا تھا جسے وہ اپنی فلموں کی ’ماں‘ کا درجہ دیتے تھے۔
’برسات‘ سے راج کپور کی زندگی میں ایک اور شروعات بھی ہوئی۔ اُن کی نرگس کے ساتھ ایک کامیاب سکرین جوڑی بنی۔ اور اِسی دوران راج کپور نرگس کے کافی قریب آ گئے جس وجہ سے دونوں نرگس اور راج کپور کو کئی سال تک کافی ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
راج کپور پہلے سے ہی کرشنا کپور سے شادی شدہ تھے اور یہ تناؤ کچھ اِس قدر بڑھ گیا کہ راج کپور کے کہنے پر نرگس نے کے آصف کی ’مغل اعظم‘ میں انار کلی کے رول سے اِنکار کر دیا تھا۔
اِنہی دنوں مشرقی بنگال سے آئے ہوئے کیمرامین رادھو کرماکر نے آر کے پروڈکشنس میں کام شروع کیااِور تبھی اُن کے ہاتھ لگا کے عباس کا محبوب خان کے لیے لکھا گیااسکرپٹ۔
یہ فلم ’آوارہ‘ کااسکرپٹ تھا ’آوارہ‘ بہت بڑی ہٹ ثابت ہوئی اور اِس فلم نے راج کپور کو چارلی چیپلن سے مماثلت رکھتی ہوئی ایک نئی شخصیت دے دی۔ اِسی پرسونا کو انھوں نے ’شری 420‘ اور ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ جیسی فلموں کے لیے اِستعمال کیا۔
اِسی دوران اِن کی تین اور فلمیں ریلیز ہوییں جو تھی ’بوٹ پالش‘، ’اب دلی دور نہیں‘ اور ’جاگتے رہو‘۔ تینوں فلمیں زیادہ کامیاب نہ رہیں۔ ’اب دلی دور نہیں‘ اُن کے کیریر کی سب سے کمزور فلم تھی۔ ناکامی کے اِس مختصر دور کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اِسی دور میں نرگس اور راج کپورعلیحدہ ہو گئے تھے اور نرگس نے سنیل دت کے ساتھ شادی کر لی۔
یہ دور راج کپور کے لیے کافی مشکل تھا جو آخر کار ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ کے ساتھ ختم ہوا- اِس فلم میں انھوں نے ساوتھ اِنڈیا کی ایک مشہور اداکارا پدمنی کو ہیروین لیا۔ اُن کی اگلی فلم ’سنگم‘ میں بھی راج کپور نے ساوتھ کی اداکارا ویجنتی مالا کو کاسٹ کیا۔ یہ فلم ’انداز‘ سے کافی ملتی جُلتی تھی اور باکس آفس پہ بڑی ہٹ رہی۔
لیکن اِس فلم کے لیے پہلے دلیپ کمار کو راجندر کمار کا رول آفر کیا گیا۔ اگر دلیپ کمار نے یہ آفر تسلیم کر لیا ہوتا تو شائد ’سنگم‘ ایک اُتنی ہی بڑی اور یاد گار فلم ثابت ہوتی جتنی کہ ’انداز‘- لیکن دلیپ کمار کا فیصلہ شائد غلط نہ تھا کیوں کہ ’سنگم‘ میں وہ راج کپور کے ساتھ پردے پر نظر تو آتے مگر کیسے یہ تو بحیثیت ڈایریکٹرخود راج کپور کے ہی ہاتھ میں تھا۔ ویسے بھی دلیپ کمار کو جوبھی ثابت کرنا تھا وہ ’انداز‘ فلم میں کر چکے تھے۔
’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ اور ’سنگم‘ کی شوٹنگ کے دوران راج کپور کا نام اُن کی ہیروئینوں سے پھر جوڑا گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ اِن فلموں کے مکمل ہوتے ہی پدمنی اور وے جینتی مالا کی اُن کے گھر والوں نے شادی کرا دی۔
میں چھ سال تک بننے والی اپنی پسندیدہ فلم ’میرا نام جوکر‘ کے فلاپ ہونے پر بہت دل برداشتہ رہے لیکن انھوں نے اس تکلیف دہ ناکامی کی راکھ سے اٹھ کر پھرکامیاب فلمیں بنانا سیکھا۔
انھوں نے میرا نام ہے جوکر کے بعد مقبول اداکارہ ڈمپل کپاڈیا کو اپنی فلم ’بوبی‘ میں متعارف کرایا جس کے بعد زینت امان کی ’ستیم، شوم، سندرم‘ اور دیویا رانا کی’رام تیری گنگا میلی ہو گئی` جیسی فلمیں بنائیں۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فلموں کی ہیروئنیں حالات کی شکار عورتوں کے کردار میں آئیں لیکن ان فلموں پر ہیروئنوں کے بدن کی نمائش کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔
’حنا‘ راج کپور کی آخری فلم تھی لیکن اِس کا ذمہ وہ اپنے بڑے بیٹے رندھیر کپور کو سونپ چکے تھے- ویسے بھی زیبا بختیار کے ساتھ بنائی گئی آر کے پروڈکشنس کی اِس فلم سے اُمید کم ہی تھی لیکن یہ فلم بھی کافی چلی۔
راج کپور جی پر دو بڑے صدمے گذرے لیکن وہ اپنی طبعی خوش دلی اور ’میرا نام جوکر‘ جیسے انداز سے انھیں سہار کر آگے بڑھ گئے۔ ان میں سے پہلا صدمہ تھا جب نرگس اپنی گھریلو زندگی کو فلم کی دنیا پر فوقیت دیتے ہوئے گھر کی ہوگئیں۔ اور دوسرا ان کی چھ سالوں میں مکمل ہونے والی فلم ’میرا نام جوکر‘ کا بری طرح فلاپ ہونا تھا۔
کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی تھی۔ فلم کا مرکزی کردار ایک مسخرہ ہے جو دنیا کو اپنے آنسو چھپا کر ہنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ انھوں نے ایک دفعہ فنکار کے فن میں اس کی زندگی کے در آنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لوگ ڈائری لکھتے ہیں میں فلمیں بناتا ہوں۔ میری زندگی ان فلموں کا حصہ ہے جہاں ہر واقعے، ہر رنگ کی چمک ماضی کی یاد میں محفوظ ہو جاتی ہے۔
ان کا عہد جو دلیپ کمار کی المیہ اداکاری کے سائے میں گھرا رہا، اس میں راج کپور حقیقتاً ایک جوکر ہی کی طرح لوگوں کے لیے مسکراہٹیں تخلیق کرتے تھے تاہم انکا آنسو چھپانے کا فن انھیں دلیپ کمار سے کہیں زیادہ المیہ اور بہادر کردار کا درجہ ادا کر گیا۔
دو مئی سن انیس سو اٹھاسی کی رات راج کپور ہندوستانی فلموں میں اپنی گراں مایہ خدمات کے لیے داد صاحب پھلکے ایوارڈ لینے کے لیے آئے لیکن دمے کے ایک اچانک دورے کے سبب سٹیج پر آکر اپنا ایوارڈ وصول نہ کرسکے۔ اس سے ٹھیک ایک مہینے بعد وہ دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.