From Wikipedia, the free encyclopedia
فلم ہدایتکار فلم کی ہدایتکاری کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ہدایتکار فلم کے اسکرپٹ کی تیاری، تشکیل اور نگرانی کرنے کے علاوہ فنی عملے اور اداکاران کو ہدایت دینے کے علاوہ فلم کی ڈرامائی اور جمالیاتی شکل کو تشکیل دیتا ہے۔
فلمی ہدایتکار کا کام فلم کا ایک مجموعی خاکہ ترتیب دینا ہوتا ہے۔ جس کے لیے اسے فلم کے فنی و تکنیکی پہلوؤں کے علاوہ فلمبندی اور دیگر فلمبندی کے اوقات کار کا بھی تعین کرنا ہوتا ہے۔ جس کے لیے اسے ایسے عملے کو بھی چننا ہوتا ہے جو اس کے خواب کو تعبیر دینے میں مددگار ثابت ہو سکے۔ چونکہ فلم ہدایتکار کو فلم کے تمام عملے کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، لہذا اس میں ایک راہنما کی خصوصیات بدفجہ اتم ہونا ضروری ہوتی ہیں تاکہ وہ عملے میں پیدا ہونت والے کسی ممکنہ قضیئے کو نپٹا سکے، ان کو ایک مشترکہ تخلیقی عمل میں بہتر انداز سے شریک کر سکے۔ فلم ہدایتکار کو ایک بحری جہاز کے کپتان سے بھی تشبہیہ دی جاتی ہے جو دوسرے عملے کی مدد سے ایک منزل کے حصول کے لیے نکلتا ہے۔ فلم ہدایتکار کا تعلق صرف عملے اور اداکاروں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے فلمساز کے ساتھ بھی بہت نزدیکی رابطے میں رہنا پڑتا ہے تاکہ فلم کی لاگت مہیا بجٹ سے باہر نہ جائے۔
فلم ہدایتکار فلم کی دنیا کے مختلف شعبوں سے آتے ہیں، کچھ لوگ پہلے فلمی عکاس یا تدوین کار ہوتے ہیں، کچھاسکرپٹ نویسی یا اداکاری سے تجربہ حاصل کر کے اس میدان میں جوہر دکھانے کے لیے آتے ہیں، جبکہ کچھ فلم اسکولوں سے آتے ہیں، مختلف ملکوں میں ہدایتکاروں کے لیے تعلیم کا عرصہ مختلف ہوتا ہے۔ لندن فلم اسکول میں فلم ہدایتکاری کا کورس دو سال میں مکمل ہو جاتا ہے، کچھ اسکولوں میں تین سال جبکہ کچھ اسکولوں میں یہ عرصہ پانچ سال تک بھی ہوتا ہے۔ دنیا کے تقریباََ تمام ممالک میں فلم ہدایتکاری یا دیگر شعبوں کے لیے اسکول ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان ابھی تک اس سہولت سے محروم ہے۔
پاکستان میں جہاں فلم اسکول نہیں ہے، وہیں فلمی صنعت میں غیر تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ہونے کی وجہ سے معیاری کام نہیں ہو سکا۔ تجارتی سینماسے تعلق رکھنے والے ہدایتکاروں کے ہاں فنی بصیرت تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی فلمی صنعت دنیا میں اپنا نام نہیں کر سکی۔ پاکستانی فلم کی کہانی ابھی تک ہیرو، ہیروئن اور ولن کی مثلث سے باہر نہیں نکل سکی۔ ماضی میں گو کچھ اچھا کام ہوا ہے لیکن فنی طور پر اسے بھی کچھ زیادہ سراہا نہیں جا سکتا۔ پاکستانی سنجیدہ سینما کے حوالے سے 1950ء کی دہائی میں اختر نواز جنگ کاردار (اے جے کاردار) کا نام لیا جاتا ہے جنھوں نے جاگو ہوا سویرا نام سے ایک فلم بنائی جو ملک میں تو کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن اسے بین الاقوامی طور پر پزیرائی ہوئی، اس فلم نے ماسکو کے فلمی میلے سے بہترین عکاسی کا اعزاز بھی جیتا۔ اے آر کاردار کی دوسری فلم دور ہے سکھ کا گاؤں جھگڑوں کی نذر ہو گئی، تیسری فلم قسم اس وقت کی بھی کامیاب نہ ہو پائی۔
1970ء کی دہائی میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک) کے نام سے ادارہ قائم ہوا جس کا مقصد ملکی فلمی کی ترویج اور وسائل مہیا کرنا تھا، لیکن بھٹو حکومت کے جانے سے وہ ادارہ بھی بے اثر ہو گیا۔
پچھلے چند سالوں سے جہاں پاکستانی تجارتی سینما تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے وہیں چند پڑھے لکھے ہدائتکار بھی سامنے آئے ہیں جن میں وزیر اطلاعات جاوید جبارکی بیٹی مہرین جبارکا نام آتا ہے جن کی فلم رام چند پاکستانی کو بیرون ملک خاصا سراہا گیا ہے۔ جاوید جبار خود بھی ستر کی دہائی میں بی آنڈ دی لاسٹ ماؤنٹین (Beyond the last mountain) نامی فلم بنا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ جمیل دہلوی صاحب نے بلڈ آف حسین (Blood of Hussain)نامی فلم بنائی جو کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کر پائی۔ پاکستانی فلم کے حوالے سے دوسرا نام شعیب منصور کا لیا جاتا ہے جن کا بنیادی تعلق تو پاکستان ٹی وی سے تھا لیکن انھوں نے اپنی پہلی ہی فیچر فلم خدا کے لیےسے سب کو چونکا دیا، ان کی دوسری فلم بول بھی بہت زیادہ پسند کی گئی۔
دستاویزی فلم کے حوالے سے شرمین عبید چنائے کا کام بہت اچھا ہے جس کی انھیں عالمی طور پر پزیرائی بھی نصیب ہوئی ہے، وہ اب تک اپنے کام کی وجہ سے ایمی ایوارڈز، برٹش اکیڈمی فلم اعزازات اور اکیڈمی ایوارڈز جیت چکی ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.