ہزار سالہ مجدد From Wikipedia, the free encyclopedia
شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی (مکمل نام:شیخ احمد سر ہندی ابن شیخ عبد الا حد فاروقی) (پیدائش: 26 جون 1564ء— وفات: 10 دسمبر 1624ء) دسویں صدی ہجری کے نہایت ہی مشہور عالم و صوفی تھے۔ جو مجدد الف ثانی اور قیوم اول سے معروف ہیں۔[2] آپ کے مشہور خلیفہ سید آدم بنوری ہیں۔
امام ربانی شیخ احمد الفاروقی السرہندی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 26 جون 1564ء سرہند-فتح گڑھ [1] |
وفات | منگل 28 صفر 1034ھ/ 10 دسمبر 1624ء (عمر: 60 سال 6 ماہ 14 دن شمسی) روضہ شریف، نزد بستی پٹھاناں، گردوارہ فتح گڑھ صاحب سے مشرقی جانب۔ موجودہ سرہند-فتح گڑھ، ضلع فتح گڑھ صاحب، پنجاب، بھارت سرہند-فتح گڑھ |
شہریت | مغلیہ سلطنت |
مذہب | تصوف [1] |
اولاد | خواجہ محمد معصوم |
عملی زندگی | |
استاذ | باقی باللہ [1] |
پیشہ | امام ، الٰہیات دان |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی |
شعبۂ عمل | شریعت ، اسلامی فلسفہ ، تصوف |
مؤثر | الغزالی، محمد الباقی باللہ |
درستی - ترمیم |
آپ کی ولادت جمعۃ المبارک 14 شوال971 ھ (یہی خواجہ باقی باللہ کا سال ولادت ہے)بمطابق 26 مئی 1564ء کو نصف شب کے بعد سرہند شریف ہندوستان میں ہوئی۔[3] آپ کے والد شیخ عبد الاحد ایک ممتاز عالم دین تھے اور صوفی تھے۔ صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فن حدیث حاصل کیا۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنے والد سے پائی، سلسلہ قادریہ کی اور سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکر خواجہ باقی باللہ سے حاصل کی۔ 1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام، ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علما اور ارادت مند آکر آپ سے مستفید و مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ نے استعمال کیا۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے۔ آپ کو مرشد کی وفات (نومبر 1603ء) کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا شرف حاصل ہوا اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے سرہند میں بروز سہ شنبہ 28 صفرالمظفر 1034ھ بعمر 62 سال اور کچھ ماہ وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔[4]
بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کے بعد تجدید دین کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مجددمبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ علما کا اتفاق ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بعد دوسرے ہزار سال کے مجدد آپ ہی ہیں اسی لیے آپ کو مجدد الف ثانی کہتے ہیں۔
بارگاہ فلک رفعت، آرام گاہ عالی مرتبت، دربار گوہر بار، مزار، اعلیٰ عظیم البرکت، قیوم ملت، خزینۃ الرحمۃ، محدث رحمانی، غوث صمدانی، امام ربانی، المجدد المنور الف ثانی، ابو البرکات شیخ بد ر الدین احمد فاروقی، نقشبندی، سرہندی۔[5]
مجدد الف ثانی مطلقاً تصوف کے مخالف نہیں تھے۔ آپ نے ایسے تصوف کی مخالفت کی جو شریعت کے تابع نہ ہو۔ قرآن و سنت کی پیروی اور ارکان اسلام پر عمل ہی آپ کے نزدیک کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ آپ کے مرشد خواجہ رضی الدین محمد باقی با اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں تصوف کا نقشبندی سلسلہ متعارف کرایا اور آپ نے اس سلسلہ کو ترقی دی۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ اسلام کا تشخص ختم ہو چکا تھا اور اسلام اور ہندومت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں بدعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
” | لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ | “ |
ردِ روافض برصغیر میں اہل تشیع کے خلاف لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔ اس میں شیخ احمد سرہندی لکھتے ہیں:
"علمائے ماوراء النہر نے فرمایا کہ جب شیعہ حضرات شیخین، ذی النورین اور ازدواج مطہرات کو گالی دیتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں تو بروئے شرع کافر ہوئے۔ لہذا بادشاہِ اسلام اور نیز عام لوگوں پر بحکم خداوندی اور اعلائے کلمة الحق کی خاطر واجب و لازم ہے کہ ان کو قتل کریں، ان کا قلع قمع کریں، ان کے مکانات کو برباد و ویران کریں اور ان کے مال و اسباب کو چھین لیں۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے جائز و روا ہے"۔[6]
البتہ چونکہ شیخ احمد سرہندی کا اس وقت معاشرے پر اتنا اثر نہ تھا، مغل دور کا ہندوستان صلح کل پر کاربند رہا۔ آپ کے خیالات آپ کی وفات کے سو سال بعد شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان نے زیادہ مقبول بنائے۔ شاہ ولی الله نے شیخ احمد سرہندی کی کتاب "رد روافض" کا عربی میں ترجمہ بعنوان"المقدمۃ السنیہ فی الانتصار للفرقۃ السنیہ"کیا[7] ۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ 1820ء میں شروع ہوا جب سید احمد بریلوی نے اپنے مجاہدین کو امام بارگاہوں پر حملے کے لیے ابھارا۔ پروفیسر باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:
” دوسری قسم کے امور جن سے سید احمد بریلوی شدید پرخاش رکھتے تھے، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:
’ایک سچے مومن کو طاقت کے استعمال کے ذریعے تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔ اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔
سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں نے، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے جلائے جانے کاذکر کیا ہے“۔[8]
مجدد الف ثانی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دور ابتلا سے بھی گذرنا پڑا۔ بعض امرا نے مغل بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور اس کی نشانی یہ بتائی کہ آپ بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو دربار میں طلب کیا جائے۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا:
” | سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔ | “ |
بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امرا نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔
ان تصانیف میں اول الذکر آٹھ کتابیں طبع ہو چکی ہیں باقی تصانیف کا ذکر تذکروں میں ملتا تو ہے لیکن نایاب ہیں۔[9]
ایک دن بیماری کے دوران میں فرمایا:
مجدد الف ثانی کے سات بیٹے اور تین صاحبزادیاں تھیں جن کے نام یوں ہیں:
بے شمار سالکین نے شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل کیا۔ منقول ہے کہ آپ کے مریدوں کی تعداد نو لاکھ کے قریب تھی اور تقریباً پانچ ہزارخوش نصیب حضرات کو آپ سے اجازت و خلافت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ چند خلفا کے نام درج ذیل ہیں۔
حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ۔ مجدد الف ثانی۔ علامہ اقبال کے نزدیک ہندوستان میں جن اولیائے کرام نے اسلام کی تبلیغ کو عملی جامہ پہنایا اُن میں آپ کا نام سرِ فہرست ہے۔ علامہ اقبال کو آپ سے دلی عقیدت تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال نے آپ کی بے باکی کو خوب سراہا اورکہا:
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار
وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں
اللہ نے بر و قت کیا جس کو خبردار
اقبال نے بالِ جبریل کی نظم ’پنجاب کے پیرزادوں سے‘ کے عنوان سے آپ کی شخصیت کو اُجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی شاعری اور نثر دونوں میں آپ کے افکار کی ترجمانی کی ہے۔ آپ کا مزار سرہند (بھارت) میں ہے.
(تحریروتحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.