پاکستانی صوبہ پنجاب کا ایک شہر From Wikipedia, the free encyclopedia
مظفرگڑھ (مطلب: مظفر کا قلعہ)پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جنوبی پنجاب کا ایک شہر ہے۔ یہ دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ یہ اپنے نام کے ہی ضلع، ضلع مظفرگڑھ کا صدر مقام ہے۔اس کا قدیم نام نخلستان تھا۔ یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 39واں سب سے بڑا شہر ہے۔ ضلع کی پانچ تحصيليں ہيں جن ميں مظفرگڑھ، علی پور، جتوئی، چوک سرور شہید اور کوٹ ادو شامل ہيں۔
ضلع کی زرعی پیداوار میں آم، کپاس، گندم، چنا، چاول، جیوٹ اور کماد شامل ہیں۔ دو دریاؤں کے سنگم پر واقع اس ضلع کی زمين بہت ذرخيز ہے ضلع ميں تین شوگر ملز لگائی جا چکی ہیں دیگر صنعتوں میں ٹیکسٹايل اور جیوٹ انڈسٹری کو کافی فروغ حاصل ہے۔ اس ضلع کا سب سے بڑا جاگیردار جتوئی خاندان تھا جو ایک بلوچ جنگجو قبیلہ تھا۔ سردار بلوچ خان میر مزار خان اور نواب کوڑا خان جتوئی اس وقت کی طاقتور شخصیات تھیں۔ کوڑا خان لاولد جبکہ اس کے کزن میر مزار خان جتوئی کا خاندان اس وقت کثیر تعداد میں جتوئی کے نواحی گاؤں میروالا میں آباد ہے۔ سردار کوڑا خان نے اپنی جائداد کا تیسرا حصہ ضلع کی غریب عوام کی صحت اور تعلیم کے لیے وقف کیا تھا۔ اور اس ضلع سے تعلق رکھنے والے بہت سے سیاست دانوں نے شہرت پائی، جن میں نوابزادہ نصر اللہ خان، غلام مصطفی کھر، حنا ربانی کھر، ڈاکٹر سہیل عالمحماد نواز خان ٹیپو، قدوس نواز خان محمد خان، سردار عبد القیوم خان، نصرللہ خان جتوئی، مخدوم سيد عبد للہ شاہ بخارى، مخدوم سيد ہارون سلطان بخارى اور جمشید احمد خان دستی شامل ہیں۔مظفرگڑھ کی صحافت میں عون رضا گوپانگ۔ اعجاز رسول بھٹہ۔ اے بی مجاہد۔ شیخ کاشف نذیر محمد عدنان مجتبی بہترین اور بے باک صحافت میں مشہور ہیں
فنون لطیفہ کے حوالے سے مظفرگڑھ کے بڑے اور نامور نام پیش خدمت ہیں گلوکار استاد پٹھانے خاں, گلوکار استاد شوکت علیم, اداکار توقیر ناصر, اداکارہ سائرہ خان, اداکار شیخ اسد عاقب, اداکار بلال اعوان, اداکار عرفان ساگر, اداکار ادریس ملک, شاعر کشفی ملتانی, شاعر مخدوم غفور ستاری, شاعر انور سعید انور, شاعر خلیل مرزا, شاعر سعید اختر سعید, شاعر مخدوم نوید ستاری, شاعر رضا ٹوانہ, شاعر افضل چوہان, شاعر احمد سعید گل, شاعر سلیم نتکانی, شاعر شکیل عادل
وادیٔ سندھ کی تہذیب کے دور میں مظفرگڑھ کا علاقہ زرعی اور جنگلاتی تھا۔ اس کے بعد ویدک دور آیا۔ اس دور کی خاص بات پنجاب صوبہ میں ہند آریائی لوگوں کی آمد تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم قصبے اور گرد و نواح کے اضلاع میں کئی دوسری تہذیبیں حکومت میں آئیں۔ ان میں اہم کمبوجہ، داراداس، کیکایا، مدراس، پوراوا، یودھیا، ملاوا اور کرو مملکت شامل ہیں۔ 331 قبل مسیح میں ہخامنشی خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سکندر اعظم نے 50 ہزار سپاہیوں کے ساتھ آج کے صوبہ پنجاب کا رخ کیا۔ مختلف ادوار میں مظفرگڑھ موریا سلطنت، مملکت يونانی ہند، کوشان سلطنت، گپتا سلطنت، ہیپھتھال، کوشان ساسانی بادشاہت، ترک شاہی اوربرہمن شاہی حکومتوں کے حکمرانی میں رہا۔ 997ء میں محمود غزنوی نےسلطنت غزنویہ کا انتظام سنبھالا اور1005ء میں کابل شاہی کو فتح کیا، جس سے اسے پنجاب پر بھی رسوخ حاصل ہو گیا۔ سلطنت دہلی اور مغلیہ سلطنت نے بھی مظفرگڑھ کے علاقے پر حکومت کی زور پندرہویں صدی سے ان علاقوں پر جتوئیوں کا تسلط رہا ہے جو ابھی تک چل رہا ہے۔ ان ادوار میں مظفرگڑھ کا موجودہ علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ رہا۔ اس کی وجہ اس وقت بھی اس علاقے میں موجود مبلغین اور صوفیائے کرام تھے، جن کی درگاہیں آج بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔ مغل سلطنت کے زوال کے بعد سکھوں نے ضلع مظفرگڑھ فتح کیا۔ 1848ء میں برطانوی راج نے یہاں کی حکومت سنبھالی۔
مظفرگڑھ کا پرانا نام موسن دی ہٹی تھا۔ یہاں نئے شہر کی بنیاد اس وقت کے ملتان کے گورنر نواب مظفر خان نے 1794ء میں رکھی۔
” | ملتان سے دس میل دور مظفر آباد کا قصبہ آباد کیا مزید دس میل آگے دریائے چناب کے دائیں کنارے ایک دکان تھی جہاں سے مسافر خوردونوش کی اشیاء لیتے تھے خاص کر وہاں کی کھجور مشہور تھی اور رات کو وہاں قیام کرتے تھے مالک کا نام موسن تھا اسلئے دکان کا نام موسن دی ہٹی تھی۔ یہ ہٹی (دکان) چناب سے ڈیرہ غازیخان جاتے ہوئے راستہ میں تھی۔ نواب محمد مظفر خاں نے اس ہٹی سے نصف میل کے فاصلہ پر 1798ء میں قلعہ تعمیر کروایا پھر شہر آباد ہو گیا اس طرح قلعہ اور شہر مظفر گڑھ کی بنیاد رکھی گئی | “ |
مظفرگڑھ کا مطلب ”مظفر کا قلعہ“ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ تاریخی شہر نواب مظفرخان نے قلعے کی چار دیواری میں تعمیر کیا تھا۔1864ء میں یہ ضلع مظفرگڑھ کا صدر مقام بن گیا۔ اس جگہ کو ”کالا پانی“ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ جگہ دو دریاؤں دریائے سندھ اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔ برطانوی دور میں اسے پلوں کے ذریعے مضافاتی علاقوں سے ملایا گیا۔ پاکستان کی تحریک آزادی کے دوران اس علاقے کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی حمایت کی۔ 1947ء میں جب پاکستان کو آزادی ملی تو اس علاقے کے ہندو اور سکھ بھارت ہجرت کر گئے جب بھارت سے آنے والے مسلمان مہاجرین مظفرگڑھ کے علاقے میں بھی رہائش پزیر ہوئے۔
مظفرگڑھ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
آب و ہوا چارٹ (وضاحت) | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
مظفرگڑھ کا رقبہ 8249 مربع کلومیٹر ہے۔یہ مشرق میں دریائے چناب اور مغرب میں دریائے سندھ کے درمیان ایک پٹی کی صورت میں واقع ہے۔مظفرگڑھ سطح سمندر سے 123 میٹر بلند ہے۔[4] مظفرگڑھ کا شہر 2010ء میں آنے والےسیلاب سے بھی بری طرح متاثر ہوا۔مظفرگڑھ کو دو اطراف یعنی سندھ اور چناب دونوں طرف سے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔[5] جغرافیائی طور پر مظفرگڑھ تقریباً پاکستان کے بالکل وسط میں واقع ہے۔اس کا قریب ترین بڑا شہرملتان ہے۔شہر میں ہموار دریائی میدان بھی ہیں جو آموں اور ترشاوہ درختوں کے باغات کے لیے مثالی ہے۔مظفرگڑھ میں صحرائی علاقے بھی ہیں۔ شہر میں نہروں کا جال بچھا ہوا ہے جو پورے ضلع میں پھیلی ہوئی ہیں۔مون سون کے موسم میں دریائے چناب کے قریبی علاقوں میں ہر سال سیلاب آ جانا معمول کی بات ہے۔ مظفرگڑھ کی صحرائی آب و ہوا ہے۔موسم گرما میں موسم شدید گرم اور سرما میں معتدل ہوتا ہے۔مظفرگڑھ پاکستان کے اُن چند شہروں میں سے ایک ہے جہاں موسم شدید ہوتا ہے۔مظفرگڑھ میں آج تک ریکارڈ کیا گیا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 54 سینٹی گریڈ (129 فارن ہائیٹ) اور کم سے کم -1 (منفی ایک) سینٹی گریڈ (30 فارن ہائیٹ) رہا ہے۔مظفرگڑھ میں بارش کا اوسط 127 ملی میٹر (5 انچ) ہے۔مظفرگڑھ میں طوفان گرد و باد کا چلنا عام بات ہے۔
مظفرگڑھ میں بہت سے تاریخی مقامات بھی ہیں، جن میں سے چند ایک یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل ہیں۔
مظفرگڑھ درج ذیل ذرائع نقل و حمل سے دوسرے شہروں سے منسلک ہیں۔
مظفرگڑھ میں 983.69 کلومیٹر کی پختہ سڑکیں ہیں، جن سے یہ دوسرے اضلاع سے منسلک ہے۔کم فاصلہ ہونے کی وجہ سے مظفرگڑھ سے ملتان کے لیے بسیں ہر وقت دستیاب رہتی ہیں۔شہر سے دور دراز علاقوں کے لیے بسیں چلتی ہیں۔ قومی شاہراہ 70 بھی مظفرگڑھ سے گزرتی ہے۔اسی ہائی وے کی مدد سے مظفرگڑھ راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، کراچی، لاہور اور بہاولپور سے منسلک ہے۔
مظفرگڑھ ریلوے اسٹیشن پاکستان کے دوسرے شہروں راولپنڈی، ملتان، میانوالی اور اٹک سے مسلک ہے۔ کراچی-پشاور ریلوے لائن قریبی شہر ملتان سے گزرتی ہے۔مظفرگڑھ سے کوٹری-اٹک ریلوے لائن اور شیر شاہ-کوٹ ادو برانچ لائن مظفرگڑھ سے گزرتی ہیں۔
مظفرگڑھ میں کوئی ائیر پورٹ نہیں۔ شہر کے لوگ قریبی شہر ملتان کے ملتان بین الاقوامی ہوائی اڈا کو استعمال کرتے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستان جوہری توانائی کمیشن (پی اے ای سی) مظفرگڑھ میں نیوکلیئر ری ایکٹر تعمیر کرے گا[6]۔مظفرگڑھ نیو کلیئر پاور کمپلیکس کی پیداواری گنجائش 1100 میگا واٹ ہوگی[7]۔
مظفرگڑھ میں بجلی پیدا کرنے والے تین بڑے یونٹ ہیں جو 1350 میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ پلانٹ تیل پر چلتے ہیں لیکن ایک روسی کمپنی نے ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے مطابق وہ ان یونٹس کو چلانے کے لیے درآمدی کوئلہ فراہم کرے گا۔ شروع میں تو ان پاور پلانٹس کی اپ گریڈیشن پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ تھی لیکن 2017ء میں حکومت چین نے وجوہات بتائے بغیر اس منصؤبے کو سی پیک سے الگ کر دیا۔اس کا مقام مرکزی مظفرگڑھ شہر سے 11 کلومیٹر دور ہے۔
فیاض پارک شہر کا سب سے مقبول پارک ہے۔ یہ شہر کے تقریباً درمیان میں، کچہری چوک اور نیشنل بنک کی برانچ کے ساتھ واقع ہے۔ اس پارک کا نام شہر کے سابق ڈپٹی کمشنر فیاض بشیر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے اس پارک کی جگہ پر ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ ہوتی تھی۔ [8] فیاض پارک کی دوبارہ تعمیر اور تزین کے بعد اسے اب شہریوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے بہت سے اہم افراد سامنے آئے ہیں۔ مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے چند اہم افراد کچھ اس طرح ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.