From Wikipedia, the free encyclopedia
خواجہ قطب الدین مودود چشتی بن خواجہ ابو یوسف کی ولادت بمقام چشت شریف مورخہ 430 ہجری اور وفات رجب 527 ہجری کو ہوئی۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی رحمت اللہ علیہ خواجہ ابو یوسف ناصر الدین چشتی (375 ہجری تا 459 ہجری) کے فرزند تھے اور خواجہ ابو یوسف ناصر الدین سید ابو نصر محمد سمعان (335 ہجری تا 398 ہجری) کے فرزند تھے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کو چشت ہرات کے مقام پر دفنایا گیا۔
سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرچکے تھے۔ اور سولہ سال کی عمر میں تحصیل علوم ظاہریہ فرماچکے تھے۔ بعض اہل تاریخ کی رائے ہے کہ تکمیل علوم ظاہری مشیخت کے بعد بمشورہ شیخ احمد کے فرمائی ہے۔ اسی زمانہ میں منہاج العارفین و خلاصتہ الشریعت تصنیف فرمائی۔ انتیس سال کی عمر میں والد نے انتقال فرمایا اور آپ کو اپنی جگہ بٹھایا۔ آپ اپنے والد کے سچے جانشین تھے اور ہدایت خلق میں والد کی نیابت کا حق ادا کیا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ آپ کے دس ہزار خلفاء تھے اور مریدین کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔[1]
سلاجقہ کے ظہور (429ھ) کے ایک سال بعد سید المشائخ خواجہ قظب الدین مودود چشتی پیدا ہوئے، آل سلجوق کا دور تاسیس (485ھ ـ 498ھ) انھوں نے اپنی جوانی میں دیکھا، جب مسلسل شمشیر زنی سے سلجوقیوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کر دی تھی۔ سلاجقہ کے تیس سالہ دور عروج (455ھ تا 485ھ) کو انھوں نے اپنے عالم شباب سے لے کر 55 سال کی پختہ عمر تک بچشم سر دیکھا، جبکہ الپ ارسلان اورملک شاہ کی بادشاہی اور نظام الملک کی وزارت نے سلجوقی سلطنت کے آفتاب کو نصف النہار تک پہنچادیا تھا۔اس کے بعد خواجہ مودود چشتی نے سلجوقیوں کا تیرہ سالہ دور خانہ جنگی (498ھ تا 552ھ) بھی دیکھا، جبکہ ملک شاہ کے بیٹے باہم مصروف پیکار تھے۔ آخر میں انھوں نے سلجوقی سلطنت کا دور زوال (498ھ تا 552ھ) بھی دیکھا، جس میں محمد اور سنجر اپنے خاندان کی رو بہ زوال قوت سنبھالتے ہوئے نظر آئے، اس دوران میں سنجر کے 41 سالہ دور حکومت کے ابتدائی 16 سال ہی آپ دیکھ سکےـ [2]
قطب الدین، سلطان خواجہ مودود، آقا مودود چشتی، شمس الصوفیاء، چراغ چشتیاں، مشہور ہیں
مضامین بسلسلہ |
خواجہ قطبالدین مودود خواجہ ابو یوسف کی ملاقات شیخ احمد جام ملقب بہ زندہ پیل سے بھی ہوئی تھی ـ خواجہ ابو یوسف چشتی کا [3] وصال 459 ھ میں ہوا تو ان کے بڑے بیٹے خواجہ مودود چشتی ان کے خلیفہ اور جانشین مقرر ہوئے، آپ کے دوسرے بیٹے کا نام شیخ تاج الدین ابوالفتح تھا، خواجہ مودود چشتی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ قرآن مجید 7 سال کی عمر میں حفظ کیا۔ اپنی تعلیم 16 سال کی عمر میں مکمل کی، آپ 29 برس کی عمر میں سجادہ نشین ہوئے اور خلق اللہ کی ہدایت میں مشغول ہو گئے، خواجہ قطبالدین مودود چشتی مشائخ چشت سے تھے آپ کے مریدوں کی تعداد بے شمار تھی خلفاء کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے اور خلفاء خاص کی تعداد ایک ہزار بتا ئی گئی ہے، جو شخص دلی مراد لے کر آ پ کے مزار پر تین روز جائے اس کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں، آپ ہمیشہ فقراء اور مساکین کے ساتھ صحبت پسند کرتے تھے، نیا کپڑا ہر گز نہیں پہنتے تھے - خواجہ قطب الدین مودود چشتی خواجہ معین الدین اجمیری چشتی کے بھی شیخ الشیوخ تھے - [4]
خواجہ قطب الدین مودودی بن خواجہ ابو یوسف کے خلفاء کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے، اس سے آپ کے حلقہ رشد و ہد اہت کا پتہ چلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کا سلسلہ دعوت اس قدر وسعت اختیار کر گیا، اس کے اثرات صرف ہرات تک محدود نہ رہے، بلکہ دور دور علاقوں مغرب میں خراسان، عراق، شام اور حجاز تک اور جنوب میں سیستان، بلوچستان اور برصغیر پاک ہند و سندھ تک پہنچے، مغرب میں آپ کے نظریات کی پرچار آپ کے خلفاء نے کی، ان میں خواجہ شریف زندنی، خواجہ عثمان ہارونی، قابل ذکر ہیں، خواجہ قطب الدین مودود بن خواجہ ابو یوسفؒ کی عمر 29 برس کی تھی جب آپ کے والد کا انتقال ہوا، آپ نے خرقہ ادارت اپنے والد سے حاصل کی اور اپنے والد کے سچے جانشین ثابت ہوئے، آپ نے کسی امیر یا بادشاہ کے دروازہ پر کبھی قدم نہیں رکھا، آپ ہر شخص کی تعظیم و تکریم کرتے تھے، سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے تھے، سادہ زندگی بسر کرتے اور سادہ لباس پہنتے تھے،
جب اللہ تعالٰی نے آدم کی اولاد کو دنیا میں پھیلایا تو ان کی تربیت کی بھی اشد ضرورت پڑی، کیونکہ تربیت ہی انسان اور حیوان میں فرق پیدا کرتی ہے، چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس تربیت کے لیے خود انہی میں سے خاص انسانوں کو منتخب فرمایا اور ہدایات آسمانی کتابوں کی صورت میں اُتاری، ہدایت کے پہلے درجے میں پیغمبروں کو ذریعہ بنایا جن کے آخری پیغمبر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، دوسرے درجے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلہ اہل بیت کے ذریعے امامین کو مقرر فرمایا امامین کی تعداد ہر فقہ اسلام کے لحاظ سے مختلف سمجھی جاتی ہے، امامین کے ساتھ تیسرا دور اولیاء اور صوفیا کا شروع ہوتا ہے، اسلام کی وسعت اولیاء کے دور بہت زیادہ ہوئی، ہر مسلم اورغیر مسلم کے دل میں اولیاء کے لیے عقیدت و احترام کا جذبہ ہے، آج بھی صوفیا کے مزارات پر غیر مسلموں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیا نے علاقوں کی بجائے دلوں پر حکمرانی کی، کسی ولی نے دربار عہدہ یا تخت و تاج کی تمنا نہیں کی بلکہ خود بادشاہوں نے اولیاء کے درباروں میں حاضری دی ہے، خواجہ معین الدین چشتی سے لے کر داتا گنج بخش لاہوری اور لعل شہباز قلندر سہوانی تک حاکمین وقت چادریں چڑھاتے اور حاضری دیتے رہے ہیں، مسلمانوں کے دلوں میں حرمت نبی صلی اللہ علیہ و سلم عقیدت اہل بیت اور احترام ے اولیاء میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، خواجہ قطب الدین مودودی چشتی کے سلسلہ چشتیہ سندھ بلوچستان خصوصاً پاکستان کی کچھ تفصیل پیش ہے کیونکہ سلسلہ چشتیہ ہندوستان کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ تحریر موجود ہے،
خواجہ قطبالدین مودود بن خواجہ ابو یوسف کے خلفاء اور مریدین کی تعداد بے شمار تھی آپ کے ایک خلیفہ و مرید آپ کے فرزند و جانشین
جنگلوں میں گذر بسر کی اور جنگلی میوں اور پتوں پر گزارہ کیا ـ حاجیشریف زَنْدَنی سلطان سنجر کے محترم تھے ـ حاجیشریف زَنْدَنی کے بعد
دیگر قطبالدین مودود کے مریدان مندر جہ زیل ہیں:
جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ اس کے دل کا حال مفصل بیاں فرما دیتے اور جس کی قبر سے آپ گزرتے اس قبر والے کا حال بیان فرما دیتے، [5] خواجہ مودود چشت کے تمام اکابر اور مشاہخ وقت تابع تھے اور آپ کی تعظیم و تکریم میں انتہا ئی کوشش کر تے تھے۔ آپ نے خرقہ ادارت اپنے والد محترم خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی سے پہنا تھا۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی جب بلخ پہنچے تو وہاں کے علما نے آپ کی بڑی مخالفت کی مسعلہ سماع پر مناظرہ کرنے کے لیے ایک عظیم اجتماع ہوا۔ اس مجلس میں علمائے بلخ نے جتنے سوالات اٹھائے خواجہ قطب الدین مودود چشتی نے ان کے جوابات دیے اور فرمایا ہم ابراہیم بن ادہم کی سنت پر قائم ہیں۔ وہ ہمارے پیر تھے اور سماع سنا کرتے تھے۔ اس پر علما نے کہا کہ ابراہیم ادہم پیر کامل تھے وہ ہوا میں اڑا کرتے تھے اس لیے ان کا سماع سننا جائز ہے مگر آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی اسی وقت مجلس سے اٹھے اور تیز پرندے کی طرح ہوا میں اڑنے لگے اور علما کی نظروں سے غائب ہو گئے۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد مجلس میں آکر یوں خاموشی سے بیٹھ گئے کہ کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ پھر آپ کے آنے کا مجلس میں شور برپا ہو گیا۔ اس مجلس میں دو ہزار لوگ موجود تھے وہ سب آپ کے مرید ہو گئے مگر بعض ضدی علما اسرار کرتے رہے کہ یہ پرواز والا کام تو بعض جوگی بھی کر لیتے ہیں۔ اگر جامع مسجد کے حوض میں پڑا ہوا پتھر آپ کے ولایت کی گواہی دے تو پھر ہم آپ کو مان لینگے۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی نے پتھر کی طرف اشارہ کیا تو وہ پتھر آپ کے پاس آکر رک گیا۔ پتھر سے آواز آئی اے خواجہ مودو آپ کی ولایت پر کوئی شک نہیں۔ بلخ کے علما نے جب آپ کی یہ کرامت دیکھی تو آپ کے قدموں میں گر پڑے اور معافی مانگی۔ جب آپ کا اس دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو ایک بڑا عجیب واقع رونما ہوا۔ خزینتہ الاصفیا میں لکھا ہوا ہے کہ جب آپ پر نزع کا وقت طاری ہوا تو آپ بار بار دروازے کی طرف دیکھتے تھے جیسے کسی کے آنے کا انتظار ہو۔ اسی اثنا میں ایک نورانی چہرے والا شخص آیا اس نے آپ کو ایک ریشمی کپڑے کا ٹکڑا پیش کیا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی نے اس کپڑے کو ایک نظر دیکھا اور اپنی آنکھوں پر رکھا اور اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ اسی طرح لکھا ہوا ہے کہ جب آپ کی نماز جنازہ ہوئی تو اس میں بیشمار لوگ آئے جن میں سے آپ کی نماز جنازہ اول رجال الغیب (فوت شدہ بزرگ) نے پڑھائی پھر عام آدمیو نے پڑھی آپ کی نماز جنازہ تین چار دفعہ پڑھی گئی۔ جب نماز جنازہ ختم ہوئی تو جنازے کا تابوت خود بخود اٹھ گیا اور آپ کی آخری آرام گاہ کی طرف چلنے لگا۔ اس کرامت کو دیکھ کر دس ہزار غیر مسلم لوگ مشرف باسلام ہوئے۔ آپ اس دارفانی سے یکم رجب المرجب 525 ہجری میں رخصت ہوئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ چشت افغانستان میں ہے- [4]
خواجہ مودود کو سماع کا بہت زیادہ شوق تھا اور وہ اکثر سماع کے مجلس ترتیب دیتے تھے جس میں علما اور مشائخ بہت بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے، سب کے لیے انواع و اقسام کے لزیز کھا نے مہیا کیے جاتے تھے، مجلس سماع کے آغاز اور اختتام تلاوت کلام پاک سے ہوتا تھا ـ خواجہ سماع کے درمیان میں اتنا روتے کہ سب پر گریہ طاری ہو جاتا کبھی متبسم ہوتے تو روئے انور سرخ ہو جاتا کبھی مستی کے عالم میں آ جاتے اور اکثر لوگوں کے درمیان میں سے غائب ہو جاتے اور دیر کے بعد نمودار ہوتے حاضرین میں سے ایک مرتبہ ایک شخص نے سوال کیا کہ اکثر محفل سے غائب ہو جاتے ہیں کیا وجہ ہے، آپ نے جواب دیا ائے عزیز من صاحب سماع محبوب کا نورانی لباس زیب تن کر لیتا ہے اور سب سے بیگانہ ہو کر اس کے ساتھ یگانہ ہو جاتا ہے، جن کی آنکھیں نور معرفت سے روشن ہوں وہی اس مقام کو پا سکتا ہے ،[6]
آپ نے پندرہ سال کی عمر میں کتاب منہاج العارفین لکھ ڈالی، آپ کے دوسرے کتاب کا نام خلاصہ الشریعہ ہے،
آپ کی دونوں تصانیف سلسلہ خواجگان کے بارے میں ہیں لیکن ان کے اصل نسخے دستیاب نہ ہو سکے ـ
چست شریف افغانستان کے صوبہ ہرات میں واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ يہ دریائے ھاری کے شمالی کنارے پر ہرات کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ قصبہ 930 عیسوی سے اسی مقام پر واقع ہے۔ چشت کی وجہ شہرت چشتیہ تصوف کی وجہ سے ہے۔ چشتی نظریہ محبت اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ چست میں تصوف کی بنیاد ابو اسحاق شامی نام کے بزرگ نے رکھی۔
وادی شال کوٹ اور وادی ضلع بولان میں مودودی خاندان کے اثرات خود ان کے مورث اعلیٰ کی حیات ہی میں پہنچ گئے تھے، ایک حوالے سے خود خواجہ قطب الدین مودود چشتی کی بلوچستان آمد کم از کم ایک مرتبہ ثابت ہے، وہ اپنے مرید اور خلیفہ خاص شیخ بابت کے یہاں شوراوک کے علاقہ میں آئے تھے، شیخ بابت کا تعلق پشتونوں کے بڑیچ قبیلے سے تھا، ،پنجاب میں آباد اس قبیلہ کے لوگ وڑیچ کہلاتے ہیں،خواجہ مودودی چستی کے زندگی ہی میں ان کے مرید اور خلفاء نے تبلیغ کا کام شروع کر دیا تھا بعد میں خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے اپنے اولاد سادات مودودی کے مختلف شاخوں نے خدمت ے دین کے کام کو خطہ بلوچستان میں مزید آگے بڑھایا اور خلق خدا کی زندگیوں کو اسلام سانچے میں ڈھالا خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے خاندان کا تعارف اور سلسلہ خواجہ ابو یوسف ( 362ھ - 459ھ) اور ان کے فرزند اکبر خواجہ قطب الدین (430ھ - 527ھ) سے تعلق رکھنے والے عظیم شخصیات تھیں، خواجہ قطب الدین کے والد بزرگوار خواجہ ابو یوسف سلطنت غزنوی کے دور میں پیدا ھوئے، سلطنت غزنوی کے خاتمے کے بعد سلجوقی سردار طغرل حاکم بنا اس وقت آپ کی عمر 54 برس تھی، آپ کا نسب تیر ویں واسطہ سے امام حسین ملتا ہے،
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں بعض بزرگان دین نے خراسان کے ایک قصبہ چشت میں رشد و ہدایت کا ایک سلسلہ شروع کیا٬ جو دور دور تک پھیلتا چلا گیا٬ یہ خانقاہی نظام طریقہ سلسلهٔ چشتیہ کے نام سے موسوم ہوا٬
شیخ عثمان ہارونی تصوف میں چشتی سلسلے کے بزرگ تھے۔ ان کی طریقت کا سلسلہ یوں ہے۔ کہ عثمان ہارونی چشتی جناب شیخ زندنی چشتی کے مرید تھے۔ زندنی جناب خواجہ مودود چشتی کے مرید تھے۔ مودود چشتی خواجہ ناصر الدین چشتی کے مرید تھے۔ جناب ناصر چشتی، خواجہ محمد اسحاق بانیءسلسلہ چشت کے مرید تھے۔ خواجہ محمد اسحاق چونکہ خراسان کے اطراف میں چشت نامی ایک گائوں کے رہنے والے تھے اسی مناسبت سے چشتی کہلائے اور ان سے آگے جو ارادت مندی کا سلسلہ چلا یعنی جن بزرگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی انھیں چشتی کہا گیا۔ ہر چند جناب اسحاق شام کے رہنے والے تھے مگر ایک مدت سے یہاں آ رہے تھے اور یہاں برسوں رہ کر اپنے فیوض باطنی سے لوگوں کو فیض پہنچایا اور یہیں مدفون ہوئے اس لیے انھیں چشتی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تصوف کے کئی ایک سلسلے خواجہ حسن بصری کے واسطے سے جناب علی کرم اللہ وجہ‘ تک پہنچتے ہیں۔ چنانچہ چشتی سلسلہ کا شجرہ طریقت ملاحظہ کریں۔
خواجہ محمد اسحاق بانی سلسلہ چشت، خواجہ ممشاد علی دینوری کے مرید تھے۔ دینوری خواجہ ہبیرہ بصری کے مرید تھے۔ بصری خواجہ حزیفہ مرعشی کے مرید تھے۔ مرعشی سلطان ابراہیم ادہم کے مرید تھے۔ ادہم فضیل بن عیاض کے مرید تھے۔ فضیل بن عیاض عبد الواحد زید کے مرید تھے۔ زید حبیب عجمی کے مرید تھے۔ عجمی جناب خواجہ حسن بصری کے مرید تھے۔ اور حسن بصری جناب علی کرم اللہ وجہ‘ کے شاگرد اور مرید تھے۔
آپ کے فرزند خواجہ نجم الدین احمد مشتاق بن مودود چشتی بھی چست کے مقام پر دفن ہیں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی آپ کی نسل سے تھے جو 1903 میں اورنگ آباد دکن ہندوستان میں پیدا ھوئے۔ پاکستان میں آپ کی اولاد مختلف علاقوں میں آباد ہے۔ آپ کی اولاد میں سے ایک مشہور بزرگ خواجہ نظام الدین علی گذرے ہیں۔ جن کا مزار صوبہ بلوچستان کے شہر پشین کے نواح میں منزکی نامی مقام پر ہے۔ اس مقام پر آپ کی اولاد کثیر تعداد میں مقیم ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ کے مقام پر آپ کی اولاد میں سے ایک مشہور بزرگ خواجہ نقرالد ین چشتی مودودی المعروف شال پیر بابا جن کا مزار کوئٹہ چھاونی میں قلعہ میری خان قلات کے قریب واقع ہے۔ خواجہ ولی مودودی چستی کرانی اور خواجہ میر شہدا کرانی بھی آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ ان مشہور اولیا کے مزارات کوئٹہ شہر کے مغرب میں واقع کرانی نامی مقام پر موجود ہیں۔ کرانی کے مقام پر آپ کی اولاد کثیر تعداد میں مقیم ہیں۔ اور یہ گاؤں خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کی وجہ سے مشہور ہے۔ ایک اور مشہور بزرگ شمس العارفین سید خواجہ ابراہیم یکپاسی چشتی ایک عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے علاقہ مستونگ بلوچستان میں ترویج دین کا کام کیا - [4]
شجرہ از جانب والدہ امام حسن -
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.