بنگال کے آخری خودمختار حکمران From Wikipedia, the free encyclopedia
</ref> | module = 'وفاداریمغلیہ سلطنت [1]سروس/
پیش نظر مضمون منتخب بنائے جانے کے لیے امیدوار ہے۔ منتخب مضامین ویکیپیڈیا کی بہترین کارکردگی کا نمونہ ہیں چناں چہ نامزد کردہ مضمون کا ہر لحاظ سے منتخب مضمون کے معیار پر پورا اُترنا ضروری ہے۔ براہ کرم اس مضمون |
نواب سراج الدولہ | |
---|---|
منصور الملک (ملک کی فتح) سراج الدولہ (ریاست کی روشنی) ہیبت جنگ (جنگ میں خوفناک) مغل دور کے صوبہ بنگال کے نواب | |
سراج الدولہ | |
نواب بنگال صوبے دار بہار و اڑیسہ | |
٩ اپریل ١٧5٦ء – ٢ جون ١٧5٧ء | |
علی وردی خان | |
میر جعفر نجفی | |
| |
اولاد
ام زہرہ (قدسیہ بیگم) | |
مکمل نام
مرزا محمد سراج الدولہ | |
والد | زین الدین احمد خان |
والدہ | امینہ بیگم |
پیدائش | ١٧٣٣ء مرشد آباد، بنگال صوبہ |
وفات | ١٢ جولائی ١٧5٧ء مرشد آباد، کمپنی راج |
تدفین | |
مذہب | اسلام id=t6aKCwAAQBAJ&pg=PA3 |
شاخنواب بنگالدرجہنوابزادہ، نوابمقابلے/جنگیںجنگ پلاسی }}
مرزا محمد سراج الدولہ المعروف نواب سراج الدولہ (1733ء – 2 جولائی 1757ء) بنگال، بہار اور اڑیسہ کے آخری صحیح المعنی آزاد حکمران تھے۔ نواب سراج الدولہ اپنے نانا علی وردی خان کی وفات کے بعد 23 سال کے عمر میں تخت نشین ہوئے تھے۔ ان کا دورِ حکمرانی نہایت مختصر تھا۔ 1757ء میں ان کی شکست سے بنگال میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔[2] چوبیس سالہ سراج الدولہ کی کمان میں لڑی گئی جنگ پلاسی کا شمار برصغیر کی ان اہم اور فیصلہ کن جنگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہندوستان کی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔ اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد برصغیر میں انگریزوں کا 190 سالہ تاریک دور شروع ہوا۔ بنگال کے غداروں کی کارستانیوں سے 23 جون 1757ء کو صرف چار گھنٹوں میں میدان پلاسی میں رابرٹ کلائیو کے تین ہزار سپاہیوں کے ہاتھوں سراج الدولہ کی تیس ہزار پیادوں، پندرہ ہزار گھوڑسواروں اور 40 توپوں پہ مشتمل ایک قوی فوجی لشکر کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔[3] [4]
برصغیر میں پلاسی کے مقام پر ہونے والی جنگ نے یہاں انگریزوں کے قبضے کی راہ ہموار کی تھی لیکن صدیوں بعد بھی اس جنگ میں شامل کرداروں کی بازگشت اس خطے کی سیاست میں سنائی دیتی ہے۔ [5]
نواب سراج الدولہ کے والد زین الدین، بہار کے حکمران تھے، جبکہ والدہ امینہ بیگم، بنگال کے نواب علی وردی خان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ چونکہ نواب علی وردی خان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس لیے شروع ہی سے خیال کیا جاتا تھا کہ مرشد آباد یعنی بنگال کے تخت کے وارث بھی نواب سراج الدولہ ہی ہوں گے۔[6] ان کی پرورش نواب علی وردی خان کے محلات میں ہوئی۔ سراج الدولہ کو خاندان کا "خوش قسمت بچہ" سمجھا جاتا تھا۔ انھیں اپنے نانا کی خصوصی شفقت حاصل ہوئی اور مستقبل کے نواب کے لیے مناسب تمام ضروری تعلیم اور تربیت کے ساتھ نواب کے محل میں پرورش پائی۔
انھوں نے اوائلِ جوانی سے ہی جنگوں میں نواب علی وردی خان کے ہمراہ شرکت کی مثلاً 1746ء میں مہاراشٹر میں ہندؤوں کو شکستِ فاش دی۔ 1752ء میں نواب علی وردی خان نے سرکاری طور پر سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ نواب ایک مذہبی آدمی تھے اور علی وردی خان کی طرح اس کا تعلق شیعہ مسلک سے تھے۔[7]
1756ء میں علی وردی خان کے انتقال پر 23 سال کی عمر میں بنگال کے حکمران بنے۔ شروع سے ہی بنگال میں عیار برطانوی لوگوں سے ہشیار تھے جو بنگال میں تجارت کی آڑ میں اپنا اثر بڑھا رہے تھے۔ خصوصاً ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کے خلاف سازشیں تیار کی جو نواب کو معلوم ہو گئیں۔ اولاً انگریزوں نے نواب کی اجازت کے بغیر کلکتہ کے فورٹ ولیم (قلعہ ولیم) کی دیواریں پختہ اور مزید اونچی کیں جو معاہدوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔ دوم انگریزوں نے بنگال کے کچھ ایسے افسران کو پناہ دی جو ریاست کے خزانے میں خرد برد کے مجرم تھے۔ سوم انگریز خود بنگال کی کسٹم ڈیوٹی میں چوری کے مرتکب تھے۔[8] ان وجوہات کی بنا پر نواب اور انگریزوں میں مخالفت کی شدید فضا پیدا ہو گئی۔ جب رنگے ہاتھوں ٹیکس اور کسٹم کی چوری پکڑی گئی اور انگریزوں معاہدوں کے خلاف کلکتہ میں اپنی فوجی قوت بڑھانا شروع کی تو نواب سراج الدولہ نے جون 1756ء میں کلکتہ میں انگریزوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے متعدد انگریزوں کو قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے قید کر لیا ۔[9] اس واقعہ کو بدنام بلیک ہول آف کلکتہ بھی کہا جاتا ہے۔اس کی وجہ نواب سراجالدولہ کے حکم پر 146 قیدیوں کو تنگ جگہ پر بند کر دیا گیا ،جس سے 123 افراد کی موت واقع ہو گئی۔نواب سراج الدولہ کے مخالفین سے انگریزوں نے رابطہ کیا۔ ان مخالفین میں گھسیٹی بیگم (سراج الدولہ کی خالہ)، میر جعفر المشہور غدارِ بنگال اور شوکت جنگ (سراج الدولہ کا رشتہ دار) شامل تھے۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سالار تھا۔ نہایت بد فطرت آدمی تھا۔ میر جعفر نوا ب کے دادا علی وردی خان کے در سے سالار چلا آرہا تھا۔نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا۔ [10] سازش سے واقف ہونے کے بعد نواب سراج الدولہ نے گھسیٹی بیگم کی جائداد ضبط کی اور میر جعفر کو اس کے حکومتی عہدہ سے تبدیل کر دیا۔ میر جعفر اگرچہ ریاستی معاملات سے متعلق رہا مگر اس نے انگریزوں سے ساز باز کر لی اور جنگ پلاسی میں نواب سے غداری کرتے ہوئے نواب کی شکست کا باعث بنا۔ انگریزوں نے میر جعفر کو اقتدار کا لالچ دیا تھا۔[11]
نواب کی شکست میں سب سے بڑا رول اس کی چچی اور خالہ گھسیٹی بیگم نے ادا کیا تھا۔ گھسیٹی بیگم نواب کے اپنے چچا اور چچیرے ماموں نوازش محمد کی بیوی تھی۔ گھسیٹی اور نوازش کی کوئی اولاد نہ تھی ، نوازش اور علی وردی خان کے انتقال کے بعد گھسیٹی اپنے متبنی کے لیے سراج الدولہ سے تاج و تخت کو چھیننا چاہتی تھی،اور دوسری جانب پورنیہ ضلع کے نواب شوکت جنگ سراج الدولہ کے اپنے چچیرے اور ممیرے بھائی تھے ،شوکت جنگ کے باپ کا نام سید احمد تھا ، شوکت بھی اپنے کو تاج و تخت کا وارث سمجھتے تھے۔قصہ مختصر یہ ہے کہ گھسیٹی بیگم نے اپنے متبنی کے لیے تاج و تخت حاصل کرنے کے واسطے انگریزوں کا سہارا لیا،میر جعفر ،شوکت جنگ ،جگت سیٹھ وغیرہ کو ساتھ کرکے انگریزوں سے سازباز کیا، لیکن سراج الدولہ نے گھسیٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا،سراج الدولہ نے آپسی خانہ جنگی کو انگریزوں کے حق میں مفید اور ملک کے لیے مضر سمجھا اس لیے حسن تدبیر کے ساتھ خانہ جنگی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزوں کو ملک دشمن اور غاصب سمجھ کر جنگی کارروائیوں کو آگے بڑھا یا ، سراج الدولہ کے آگے انگریزوں کی کوئی وقعت اور اہمیت نہ تھی لیکن چونکہ اپنے ملازمین غداری اور جاسوسی پر اتر آئے تھے اس لیے انجام کار ہار اور شکست ملی ۔[12][13]
نواب سراج الدولہ نے فروری 1757ء کو معاہدہ علی نگر پر دستخط کر دیے جس کے تحت بنگال کے تمام مقبوضات دوبارہ کمپنی کو واپس مل گئے۔ اس کے علاوہ تاوان کے طو ر پر انگریزوں کو سکہ سازی اور قلعہ بندیوں کے حقوق بھی دے دیے ۔ لیکن اس کے باوجود صلح عارضی ثابت ہوئی اور پانچ ماہ کے بعد ہی یہ معاہدہ ختم ہو گیا۔[14]
اس جنگ کی تفصیل کے لیے دیکھیں جنگ پلاسی
نواب اور لارڈ کلائیو کے درمیان پلاسی کے مقام پر جو کلکتہ سے 70 میل کے فاصلے پر ہے، 23 جون 1757ء کو جنگ ہوئی۔ کلائیو اپنی روایتی تین ہزار فوج کو لے کر نواب پر چڑھ آیا۔ اس کی فوج میں صرف 500 گورے تھے جبکہ 2500 ہندوستانی تھے۔ نواب کے پاس بقول مورخین 50,000 پیادے، 18,000 گھڑ سوار اور 55 توپیں تھیں۔ جنگ کے میدان میں میر جعفر نواب کی فوج کے ایک بڑے حصے کا سالار تھا۔ اس کے ساتھیوں نے نواب کے وفادار سالاروں کو قتل کر دیا جس کی کوئی توقع بھی نہیں کر رہا تھا۔[15] اس کے ساتھ ہی میر جعفر اپنے فوج کے حصے کو لے کر الگ ہو گیا اور جنگ کا فیصلہ انگریزوں کے حق میں ہو گیا۔ نواب کے توپ خانہ کو پہلے ہی خریدا جا چکا تھا جس کی رشوت کے لیے انگریزوں نے بہت روپیہ خرچ کیا تھا۔[16]حالانکہ تاریخی روایات کے مطابق میر جعفر نے قرآن پر ہاتھ ركھ کر نواب سے وفاداری کا حلف دیا تھا۔ توپ خانے کیوں استعمال نہیں ہوا؟ اس کے بارے یہ کہاگیا کہ بارش کی وجہ سے گولہ وبارود گیلا اور ناقابل استعمال ہوچکاتھا۔[14]
پلاسی کی جنگ ہارنے کے بعد نواب سراج الدولہ مرشد آباد 23 جون 1757ء کو اونٹ پر بھاگ نکلے اور طلوع آفتاب کے ساتھ ہی مرشد آباد پہنچے۔ [5]
کلائیو نے میر جعفر کو مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر دار الحکومت مرشد آباد کی طرف کوچ کر جائیں اور اس پر قبضہ کر لیں۔ انھوں نے آگاہ کیا کہ میر جعفر کے ساتھ اُن کے کرنل واٹس بھی جائیں گے۔[5]
کلائیو مرکزی فوج کے ساتھ ان کے پیچھے آ گئے اور انھیں مرشد آباد تک پہنچنے میں تین دن لگے۔ راستے میں سڑکوں پر چھوڑی گئی توپیں، ٹوٹی ہوئی گاڑیاں اور سراج الدولہ کے سپاہیوں اور گھوڑوں کی لاشیں ملیں[5]
’سراج الدولہ عام لوگوں کا لباس پہن کر بھاگے تھے۔ اس کے ہمراہ ان کے قریبی رشتے دار اور بعض خواجہ سرا بھی تھے۔ صبح تین بجے انھوں نے اپنی اہلیہ لطف النسا اور بعض قریبی رشتہ داروں کو احاطہ دار گاڑیوں میں بیٹھا دیا، جتنا سونا اور زیورات اپنے ساتھ لے سکے اپنے ساتھ لے گئے اور محل چھوڑ کر بھاگ نکلے۔‘[17]
وہ پہلے بھاگوان گولہ گئے اور پھر دو دن بعد کئی کشتیاں بدل کر محل کے کنارے پر پہنچے۔ یہاں وہ کچھ کھانا کھانے کے لیے ٹھہرے۔ انھوں نے کھچڑی بنوائی، وہ اس لیے کی کہ انھوں نے اور ان کے ساتھ سفر کرنے والے لوگوں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔[5]
اسی علاقے کے ایک فقیر شاہ دانا نے مخبری کرتے ہوئے سراج الدولہ کے دشمنوں کو اُن کے وہاں پہنچنے کی خبر دے دی۔ وہ دشمن جو انھیں ڈھونڈنے کے لیے دن رات ایک کر رہے تھے۔ یہ خبر ملتے ہی میر جعفر کے داماد میر قاسم نے دریا عبور کیا اور سراج الدولہ کو اپنے مسلح افراد کے ساتھ گھیر لیا۔[5]
اور بعد میں پٹنہ چلے گئے انھوں نے اپنی بیوی لطف النساء بیگم اور بیٹی کے ہمراہ بھیس بدل کر ایک خانقاہ میر بعنہ شاہ میں روپوش تھے جہاں میر جعفر کے سپاہیوں نے انھیں گرفتار کر لیا۔
تخت بدر نواب کو آدھی رات کو اسی محل میں میر جعفر کے سامنے پیش کیا گیا تھا جس میں کچھ دن پہلے تک وہ رہا کرتے تھے۔ سراج نے میر جعفر کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے، کانپتے ہوئے اپنی جان کی امان مانگی۔ اس کے بعد سپاہی ان کو محل کے ایک دوسرے کونے میں لے گئے۔[18]
سراج الدولہ کو 2 جولائی 1757ء کو گرفتار کر کے مرشد آباد لایا گیا۔
میر جعفر اپنے درباریوں اور اہلکاروں سے یہ مشورہ کرتے رہے کہ سراج الدولہ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس کے پاس تین متبادل راستے تھے۔ یا تو سراج الدولہ کو مرشد آباد میں قید کر دیا جائے یا ملک سے باہر قید کیا جائے یا پھر انھیں سزائے موت دے دی جائے۔[19]
بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ سراج کو جیل میں زندہ رکھنا چاہیے۔ لیکن میر جعفر کا 17 سالہ بیٹا میران اس کے سخت خلاف تھا۔ اس پورے معاملے میں جعفر کی اپنی نہ تو کوئی رائے تھی اور نہ کوئی دخل۔[5]
میران نے اپنے ایک ساتھی محمدی بیگ، جس کا دوسرا نام لال محمد بھی تھا، کو سراج الدولہ کو مارنے کا حکم دیا۔ جب میران اپنے ساتھیوں کے ساتھ سراج الدولہ کے پاس پہنچا تو سراج کو اندازہ ہوا کہ اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔[17]
اس نے التجا کی کہ اسے مارنے سے پہلے اسے وضو کرنے اور نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔[17]
اپنا کام جلد ختم کرنے لیے قاتلوں نے سراج کے سر پر پانی سے بھرا برتن اونڈیل دیا۔ جب سراج الدولہ کو احساس ہوا کہ انھیں سکون نے وضو نہیں کرنے دیا جائے گا تو انھوں نے کہا کہ اسے پیاس بجھانے کے لیے پانی پلایا جائے۔[17]
رابرٹ اورمے لکھتے ہیں کہ ’پھر تبھی اچانک محمدی بیگ نے سراج الدولہ پر خنجر سے حملہ کیا۔ جیسے ہی خنجر نے اپنا کام کیا دوسروں نے اپنی تلواریں سونت لیں اور وہ سراج الدولہ پر پِل پڑے، وہ منھ کے بل گر پڑے[18]
میر جعفر کے بیٹے میرمیران کے حکم پر محمد علی بیگ نے نواب کو نماز فجر کے بعد شہید کر دیا۔[6] بعض روایات میں نواب کو نماز اور سجدہ کی حالت میں سرقلم کرکے سزائے موت دی گئی۔
اگلے دن سراج الدولہ کی مسخ شدہ لاش کو ہاتھی کی کمر پر لاد دیا گیا اور مرشد آباد کی گلیوں اور بازاروں میں گھومایا گیا۔ یہ ان کی شکست کا سب سے بڑا ثبوت تھا۔[17]
نواب کا مزار مرشد آباد کے ایک باغ “خوش باغ“ میں واقع ہے اگرچہ یہ مزار کی عمارت سادہ ہے مگر عوام کے آداب کامرکزہے۔اس طرح ایک مسلمان نے مسلمان کے ساتھ غداری اور قتل کرکے غیر مسلموں یعنی انگریزوں کی حکومت کے قیام میں مدد کی۔[20]
جس مقام پر نواب سراج الدولہ کو شہید کیا گیا یہ میر جعفر کی رہائش گاہ تھی جسے بعد میں عوام نے نمک حرام ڈیوڑھی یا غدار محل[21] کا نام دیا۔ غداروں نے نواب کی میت کو ہاتھی پر رکھ کر مرشدآباد کی گلیوں میں گھمایا تاکہ عوام کو یقین ہو جائے کہ نواب قتل ہوچکاہے اور نیا نواب میر جعفر تخت نشین ہوگا۔[22]
انگریزوں نے نواب کا خزانہ لوٹ لیا۔ انگریزوں نے مال تقسیم کیا۔ صرف کلائیو کے ہاتھ 53 لاکھ سے زیادہ رقم ہاتھ آئی۔ جواہرات کا تو کوئی حساب نہ تھا۔ میر جعفر کو ایک کٹھ پتلی حکمران کے طور پر رکھا گیا مگر عملاً انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ تاریخ نے خود کو دہرایا اور بیسویں صدی میں اسکندر مرزا پاکستان کے صدر کی حیثیت سے امریکیوں کے مفادات کی ترجمانی کرتا رہا۔ انگریزوں نے ایسے حالات پیدا کیے جس سے میر جعفر کو بے دست و پا کر دیا اور بعد میں میر قاسم کو حکمران بنا دیا گیا جس کے بھی انگریزوں سے اختلافات ہو گئے۔ چنانچہ ان کے درمیان جنگ کے بعد پورے بنگال پر انگریز قابض ہو گئے اور یہ سلسلہ پورے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کی صورت میں نکلا۔[4]
تقریبا 70 بے گناہ بیگموں کو ایک کشتی میں بیٹھا کر دریائے ہوگلی کے وسط میں لے جایا گیا تھا اور کشتی کو وہاں ڈبو دیا گیا۔‘ سراج الدولہ خاندان کی باقی خواتین کو زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا۔ انھیں زیر آب مار دی جانے والی خواتین کے ساتھ دریائے ہگلی کے قریب ہی خوش باغ نامی باغ میں دفن کر دیا گیا۔[23]
صرف ایک عورت کی جان بخشی گئی۔ یہ سراج الدولہ کی بہت خوبصورت اہلیہ تھیں۔ میران اور اس کے والد میر جعفر دونوں نے انھیں شادی کا پیغام بھیجا[5]
دوسری جانب ان کے بیٹے میران کا ہمددری اور رحم دلی سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔ ان کی سب سے بڑی تشویش یہ تھی کہ کیسے علی وردی خان کے بقیہ کنبے کو ختم کیا جائے تاکہ مستقبل میں بغاوت کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔[5]
’علی وردی خان کے پورے حرم کو دریا میں ڈبونے کے بعد اس کی توجہ سراج الدولہ کے پانچ قریبی رشتہ داروں پر مرکوز ہو گئی۔ اس نے سراج الدولہ کے چھوٹے بھائی مرزا مہدی کو لکڑی کے دو تختوں کے درمیان رکھ کر پسوا دیا۔ بعد میں میران نے اس قتل کو سعدی کی کہاوت کو دہراتے ہوئے جائز قرار دیا کہ سانپ کو مارنے کے بعد اس کے بچے کو چھوڑنا کوئی دانشمندانہ بات نہیں ہے۔‘[17]
’میران سراج الدولہ کے خاندان کے مارے گئے لوگوں کی ایک فہرست رکھتا تھا اور اسے ایک خاص نوٹ بک میں اپنی جیب میں رکھتا تھا۔ جلد ہی اس فہرست میں مرنے والوں کی تعداد 300 ہو گئی۔[17]
میر جعفر نے بنگال کو برباد کر دیا ۔
پلاسی کی جنگ جیتنے کے ایک سال کے اندر ہی میر جعفر کا جلوہ کم ہونے لگا۔
کچھ عرصہ قبل تک میر جعفر کی وکالت کرنے والے کلائیو نے انھیں ’دی اولڈ فول‘ یعنی بیوقوف بوڑھا اور ان کے بیٹے میران کو ’دا ورتھ لیس ینگ ڈاگ‘ یعنی ایک بیکار نوجوان کتا قرار دیا۔
پلاسی کی لڑائی کے تین سال کے اندر ہی اندر انڈیا کے سب سے امیر شہروں میں ایک مرشد آباد غریبی کی دہلیز پر آن کھڑا ہوا تھا۔[24]
نواب سراج الدولہ ایک مذہبی شیعہ تھے اور انھوں نے اپنے دار الحکومت مرشد آباد میں ہندوستان کی سب سے بڑی امام بارگاہ نظامت امام باڑہ تعمیر کرائی جو اب بھی سیاحوں اور زائرین کی توجہ کا مرکز ہے[25]۔ نواب سراج الدولہ نے محرم کے پہلے عشرے میں اپنی فوج میں عزاداری بھی قائم کی تھی۔ اس دوران بنگال میں شیعہ اسلام متعارف ہوا اور عزاداری کا آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس امام بارگاہ کے اندر نواب شہید نے ایک مسجد بھی تعمیر کرائی جس کی بنیادوں میں مدینہ سے منگوائی گئی مٹی ڈالی گئی۔ یہ مسجد آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور "مدینہ مسجد" کہلاتی ہے۔[26]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.