تیموری سلطنت کا بانی اور ایک عظیم جنگجو حکمران From Wikipedia, the free encyclopedia
امیر تیمور جو (تیمور لنگ) کے نام سے بھی مشہور تھے، کی (پیدائش: ١٣٣٦ء، وفات: ١٤٠5ء) کو ہوئی. تیمور تیموری سلطنت کا بانی اور تاریخ عالم کے ایک عظیم جنگجو حکمران تھے۔ تیمور کے استاد کا نام علی بیگ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ استاد علی بیگ اپنے طالب علموں کو سبق یاد کرانے کے لیے ڈنڈے کا استعمال کرتے تھے لیکن انھوں نے کبھی تیمور کو نہیں مارا کیونکہ تیمور ہمیشہ اپنا سبق یاد کر لیا کرتے تھے۔ ایک دن علی بیگ نے تیمور کے والد کو بلا کر کہا کہ اس بچے کی قدر جانو، یہ نا صرف ذہین اور دوسرے بچوں سے بہت آگے ہے بلکہ اس میں ناقابل یقین صلاحیتیں ہیں۔ تیمور نے صرف دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا تھا۔
| |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 9 اپریل 1336ء [1][2][3] شہر سبز | ||||||
وفات | 19 فروری 1405ء (69 سال)[2] فاراب | ||||||
مدفن | گور امیر | ||||||
قد | 1.72 میٹر | ||||||
زوجہ | سرائے ملک خانم | ||||||
اولاد | شاہ رخ تیموری ، میران شاہ ، جہانگیر مرزا بن تیمور ، معزالدین عمر شیخ مرزا اول | ||||||
خاندان | تیموری خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
امیر | |||||||
برسر عہدہ 9 اپریل 1370 – 14 فروری 1405 | |||||||
در | تیموری سلطنت | ||||||
| |||||||
دیگر معلومات | |||||||
پیشہ | جنگجو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | چغتائی ، فارسی ، وسطی منگولیائی زبان | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | مرزا ، خاقان | ||||||
عہدہ | مرزا خاقان | ||||||
درستی - ترمیم |
تیمور ایک ترک منگول قبیلے برلاس سے تعلق رکھتے تھے، چنگیز خان اور امیر تیمور دونوں کا جد امجد تومنہ خان تھا۔ تیمورلنگ کا تعلق سمرقند سے تھا۔ وہ سمرقند کے قریب ایک گاؤں ’’کیش‘‘ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین معمولی درجے کے زمیندار تھے۔ تیمور دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز (جس کو کش بھی کہتے ہیں) 1336ء میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ اس وقت چغتائی سلطنت میں شامل تھا، جو زوال پزیر تھی۔ چغتائی حکمران بے بس ہو چکے تھے اور ہر جگہ منگول اور ترک سردار اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔
تخت نشین ہونے کے بعد انھوں نے صاحبِ قِران کا لقب اختیار کیا۔ (علوم نجوم کی رو سے صاحبِ قِران وہ شخص کہلاتا ہے جس کی پیدائش کے وقت زہرہ اور مشتری یا زحل اور مشتری ایک ہی برج میں ہوں۔ ایسا شخص اقبال مند، بہادر اور جری سمجھا جاتا ہے، مجازاً اپنے دور کا عظیم ترین حکمران)۔
تیمور نے اپنی زندگی میں ٤٢ ممالک فتح کیے۔ وہ دنیا کے چند نادر لوگوں میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ تیمور کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کام لے سکتے تھے۔ وہ ایک ہاتھ میں تلوار اُٹھاتے تھے اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑا۔
بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے انھوں نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو ان کی موت تک پورے ٣٧ سال جاری رہا۔ تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ وہ ٧٧٦ھ میں کاشغر اور ٧٨١ھ میں خوارزم پر قابض ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے خراسان کا رخ کیا۔ ١٣٨١ء بمطابق ٧٨٣ھ میں ہرات کے خاندان کرت کو اطاعت پر مجبور کیا۔ اگلے سال نیشاپور اور اس کے نواح پر اور ٧٨5ھ میں قندھار اور سیستان پر قبضہ کیا۔ ١٣٨٦ء میں انھوں نے ایران کی مہم کا آغاز کیا جو "یورش سہ سالہ" کہلاتی ہے اور اس مہم کے دوران میں ماژندران اور آذربائجان تک پورے شمالی ایران پر قابض ہو گئے۔ اس مہم کے دوران میں انھوں نے گرجستان پر بھی قبضہ کیا۔
1391ء میں تیمور نے سیر اوردہ یعنی خاندان سرائے کے خان توقتمش کے خلاف لشکر کشی کی، جو فوجی نقطہ نظر سے فن حرب کا ایک عظیم کارنامہ سمجھی جاتی ہے۔ سرائے کے خان توقتمش کو سائبیریا کے آق اوردہ خاندان کے حکمران ارس خان نے تخت سے بے دخل کر دیا تھا۔ تیمور نے توقتمش کی مدد کی اور اس کو دوبارہ تخت دلا دیا لیکن توقتمش خوارزم کو اپنی سلطنت کا ایک حصہ سمجھتا تھا، اس لیے اس نے تیمور کا احسان ماننے کی بجائے تیمور سے خوارزم کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ خوارزم دونوں حکمرانوں کے درمیان میں ایک مستقل نزاع بن گیا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے توقتمش بار بار تیموری مملکت پر حملہ آور ہوا۔ کبھی سیر دریا اور خوارزم کے راستے اور کبھی قفقاز اور آذربائجان کے راستے۔ تیمور نے توقتمش کی سرکوبی کے لیے دو مرتبہ روس پر لشکر کشی کی۔ ان میں پہلی لشکر کشی 1391ء میں سیر دریا یعنی دریائے سیحوں کے راستے کی گئی۔ تیمور اپنے عظیم لشکر کو قازقستان کے راستے جنوبی ارتش اور یورال تک بے آب و گیاہ میدانوں اور برف زاروں سے کامیابی سے گزار کر لے گیا اور دریائے قندزجہ کے کنارے موجودہ سمارہ کے قریب 18 اپریل 1391ء کو توقتمش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دی۔
روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا، جو "یورش پنج سالہ" کہلاتی ہے۔ اس مہم کے دوران میں اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔ ایران کی مہم سے فارغ ہو کر تبریز واپس پہنچتے ہی اسے اطلاع ملی کہ توقتمش نے دربند کے راستے پر حملہ کر دیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے 18 اپریل 1395ء کو توقتمش کو ایک اور شکست دی، جو شکست فاش ثابت ہوئی۔ اس کے بعد تیمور نے پیش قدمی کرکے سیر اوردہ کے دار الحکومت سرائے کو تباہ و برباد کر دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس مہم کے دوران میں تیمور استراخان، ماسکو، کیف اور کریمیا کے شہروں کو فتح کرتا اور تباہی پھیلاتا ہوا براستہ قفقاز، گرجستان اور تبریز 798ھ میں سمرقند واپس آ گیا۔
1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا دسمبر 1398ء میں دہلی پہنچا۔ دہلی کو فتح کرنے اور وہاں قتل عام کرنے کے بعد وہ میرٹھ گیا اور وہاں دریائے جمنا کی بالائی وادی میں ہندوؤں کے مقدس مقام ہردوار میں لوگوں کو یہ سمجھ کر قتل عام کیا کہ کافروں کو مار کر ثواب کمایا جا رہا ہے۔ اس جگہ تیمور کو اپنی سلطنت کی مغربی سرحدوں سے تشویشناک خبریں ملیں۔ احمد جلائر سلطان مصر کی مدد سے پھر بغداد واپس آ گیا تھا اور اس کے اور قرہ یوسف ترکمان کے ورغلانے سے عثمانی سلطان بایزید یلدرم ان سب کے ساتھ مل کر تیمور کے خلاف محاذ بنا رہا تھا، چنانچہ تیمور فوراً سمرقند واپس ہوا۔
1399ء میں تیمور سمرقند سے اپنی آخری اور طویل ترین مہم پر روانہ ہوا۔ تبریز پہنچ کر اس نے سلطان مصر کے پاس سفیر بھیجے جن کو قتل کر دیا گیا، چنانچہ تیمور سلطان مصر کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا، جو احمد جلائر کی مدد اور حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ حلب، حماہ، حمص اور بعلبک کو فتح کرتا ہوا دمشق پہنچا اور حسب دستور لوگوں کا قتل عام کیا اور شہر میں آگ لگا دی۔ اس کے بعد وہ بغداد آیا لیکن احمد جلائر اس کے بغداد پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے فرار ہو ڄکا تھا۔
اس دوران میں سلطان بایزید یلدرم نے اپنے پاس پناہ گزین احمد جلائر اور قرہ یوسف کی تحریک پر ایشیائے کوچک میں تیموری علاقوں پر حملہ کر دیا۔ تیمور نے اختلافات کو خط کتابت کے ذریعے حل کرنا چاہا لیکن جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو اس نے سلطنت عثمانیہ پر لشکر کشی کردی۔ سیورس کا دفاع کرنے والے 4 ہزار سپاہیوں کو زندہ دفن کر دیا۔ بایزید اس وقت قسطنطنیہ (استنبول) کے محاصرے میں مصروف تھا۔ تیمور کے حملے کی اطلاع ملی تو محاصرہ اٹھا کر فورا اناطولیہ کی طرف روانہ ہوا۔ انقرہ کے قریب 21 جولائی 1402ء کو دونوں کے درمیان میں فیصلہ کن جنگ ہوئی، جو جنگ انقرہ کے نام سے مشہور ہے۔ بایزید کو شکست ہوئی اور وہ گرفتار کر لیا گیا لیکن تیمور اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا۔ اس نے ازمیر تک سارا ایشیائے کوچک اجاڑ ڈالا۔ مصر کے مملوک سلطان کو جب اطلاع ملی کہ تیمور نے بایزید جیسے طاقتور حکمران کو شکست دے کر گرفتار کر لیا تو سفیر بھیج کو تیمور کی اطاعت قبول کر لی۔ مصر میں تیمور کے نام کا سکہ ڈھالا اور مکہ اور مدینہ میں اس کے نام کا خطبہ پڑھنے کا حکم دیا۔
سمرقند واپس آنے کے بعد تیمور نے چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ چونکہ چین بھی ایک زمانے میں چنگیز خان کی اولاد کے قبضے میں رہ چکا تھا، اس لیے تیمور اس پر بھی اپنا حق سمجھتا تھا۔ اس کے علاوہ تیمور کفاران چین کے خلاف جہاد کرکے اس خونریزی کی تلافی کرنا چاہتا تھا جس کا شکار اب صرف مسلمان ہوئے تھے۔ سردیاں شباب پر تھیں اور تیمور بوڑھا تھا۔ منجمد سیر دریا کو پار کر کے جب وہ اترار پہنچا تو اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور اسی جگہ 18 فروری 1405ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کی لاش سمرقند لا کر دفنائی گئی۔
لڑائیوں میں زخم کھانے کی وجہ سے تیمور کا دایاں ہاتھ شل ہو گیا تھا اور دائیں پاؤں میں لنگ تھا۔ اس لیے مخالف مورخین اس کو حقارت سے تیمور لنگ لکھتے تھے۔
فتوحات کی وسعت کے لحاظ سے تیمور کا شمار سکندر اعظم اور چنگیز خان کے ساتھ دنیا کے تین سب سے بڑے فاتح سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ فتوحات کی کثرت میں وہ شاید چنگیز سے بھی بازی لے گیا۔ چنگیز کے مفتوحہ علاقوں کا طول مشرق سے مغرب تک بہت زیادہ تھا، لیکن شمالاً جنوباً عرض تیمور کے مقابلے میں کم تھا۔ پھر چنگیز کی سلطنت کا ایک بڑا حصہ اس کے سپہ سالاروں نے فتح کیا تھا، جبکہ تیمور دہلی سے ازمیر تک اور ماسکو سے دمشق اور شیراز تک ہر جگہ خود گیا اور ہر جنگ میں خود شرکت کی۔ چنگیز جنگ کی منصوبہ بندی اچھی کر سکتا تھا، جبکہ تیمور میدان جنگ میں فوجوں کو لڑانے میں استاد تھا۔ 1393ء میں کلات اور تکریت کے ناقابل تسخیر پہاڑی قلعوں کی تسخیر اس کی اس صلاحیت کا بڑا ثبوت سمجھی جاتی ہے۔
(چنگیز اور تیمور کی جنگی صلاحیتوں کے تقابل کے لیے دیکھیے ہیرلڈ لیمب کی کتابیں "چنگیز خان" اور "تیمور"۔ ان دونوں کتابوں کا مولوی عنایت اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)
بحیثیت ایک سپہ سالار تیمور کی حیرت انگیز صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس نے اس خداداد صلاحیت سے جو کام لیا وہ اسلامی روح کے خلاف تھا۔ اس کی ساری فتوحات کا مقصد ذاتی شہرت اور ناموری کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس لحاظ سے وہ خالد بن ولید، محمود غزنوی، طغرل اور صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ انتقام کے معاملے میں بہت سخت تھا۔ مخالفت برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ مسلمان ہونے کے باوجود خونریزی اور سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان سے کم نہیں تھا۔ دہلی، اصفہان، بغداد اور دمشق میں اس نے جو قتل عام کیے ان میں ہزاروں بے گناہ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ وہ انتقام کی شدت میں شہر کے شہر تباہ و برباد کر دیتا تھا۔ خوارزم، بغداد اور سرائے کے ساتھ اس نے یہی کیا۔ صرف مسجد، مدرسے اور خانقاہیں غارت گری سے محفوظ رہتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں منگولوں کی طرح وہ بھی اللہ کا عذاب تھا۔
تیمور نے اپنی فتوحات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ مفتوحہ ممالک کا بڑا حصہ ایسا تھا جسے اس نے اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ نہیں بنایا۔ ان ملکوں کو وہ مقامی حکمرانوں کے سپرد کر دیتا تھا اور ان سے صرف اطاعت کا وعدہ لے کر مطمئن ہوجاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایشیائے کوچک، شام، روس اور ہندوستان کے وسیع مفتوحہ علاقے جو بڑی خونریزی کے بعد حاصل ہوئے تھے تیموری سلطنت کا حصہ نہ بن سکے۔ اگر وہ ان ملکوں کو اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ بنا لیتا تو دنیا کی ایک عظیم الشان سلطنت وجود میں آتی۔ اس معاملے میں چنگیز اور منگول تیمور سے بہتر تھے کہ وہ جس علاقے کو فتح کرتے تھے اسے براہ راست اپنے زیر انتظام بھی لے آتے تھے۔ اس نے قفقاز کے علاقے میں لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش بھی کی جو اسلام کی روح اور تعلیم کے خلاف ہے۔
تیمور نے توقتمش، بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو شکست دے کر عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں کو ختم تو کر دیا لیکن ان کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا اسے پر نہ کر سکا۔ اگر بایزید کی طاقت ختم نہ ہوتی تو بلقان کا علاقہ ڈیڑھ سو سال پہلے مسلمانوں کے قبضے میں آ چکا ہوتا۔ سرائے کی مملکت کی تباہی بھی اسلامی دنیا کے لیے اچھی ثابت نہ ہوئی۔ سرائے کی طاقتور مملکت کے ختم ہونے سے ماسکو کی نئی طاقت ابھرنے کے لیے راستہ صاف ہو گیا۔ تیمور نے روس میں توقتمش کے خلاف اور ایشیائے کوچک اور مصر میں سلطنت عثمانیہ اور مملوکوں کے خلاف جو لشکر کشی کی اگرچہ ہم اس کا الزام تیمور پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس نے اپنی طرف سے صلح و صفائی سے مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کی تھی، لیکن ان لشکر کشیوں کے نتیجے میں دنیائے اسلام کو جو نقصان پہنچا اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اسلامی تاریخ میں مغربی مورخین بل خصوص ہندوستان میں ایک لاکھ غیر مسلموں کے سروں سے مینار بنوانے کی وجہ سے تیمور کا دور ایک بدنما شبہ کا شکار ہے۔ اس دور میں عالم اسلام سمیت ایک کروڑ ستر لاکھ اموات ہویئں جبکہ غیر مسلموں کے خلاف فتوحات کے بعد ان علاقوں میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ تصور کی جاتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تیمور کو مناسب اسلامی تربیت نہيں ملی تھی اور اس کی نشو و نما تورہ چنگیزی کی حدود میں اور نیم وحشی منگول ماحول میں ہوئی تھی۔
بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جس علاقے میں تیمور نے اپنی مستقل حکومت قائم کی وہاں اس نے قیام امن اور عدل و انصاف، خوش حالی اور ترقی کے سلسلے میں قابل قدر کوششیں کی۔ برباد شدہ شہروں کو دوبارہ تعمیر کیا اور تجارت کو فروغ دیا۔
دار السلطنت سمرقند پر اس نے خاص توجہ دی۔ ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے جس وقت سمرقند پر تیمور کا تسلط ہوا وہاں سوائے کچھ کچی اینٹوں اور لکڑی مکانوں کے کچھ اور نہ تھا مگر یہی کچی اینٹوں اور لکڑی کا شہر تیمور کے ہاتھوں میں آکر ایشیا کا روم بن گیا۔ وہ ہر مفتوحہ علاقے سے صناعوں، دستکاروں، فنکاروں، عالموں اور ادیبوں کو پکڑ پکڑ کر سمرقند لے آیا اور اپنے دار الحکومت کو نہ صرف شاندار عمارتوں کا شہر بنادیا بلکہ علم و ادب کا مرکز بھی بنادیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کی اولاد نے اسی کی آخری الذکر روایات کو اپنایا جس کی بدولت وسط ایشیا کے تیموری دور کو تاریخ میں ایک ممتاز مقام مل گیا۔
تیمور نے سمرقند کی شہر پناہ درست کی۔ شہر کے دروازوں سے وسط شہر کے بازار راس الطاق اور شہر سے دریا تک چوڑی چوڑی سڑکیں تعمیر کرائیں۔ جنوب کے پہاڑوں پر قائم مکانات کو گرا کر قلعہ تعمیر کرایا۔ باغوں کے گرد دیواریں اور جابجا پانی کے تالاب بنوائے۔ سمرقند کی عمارتیں اس وقت تک خاکی رنگ کی ہوتی تھیں لیکن اب در و دیوار، برج اور گنبد فیروزی رنگ کے ہو گئے اور اس لاجوردیرنگ کی وجہ سے سمرقند کو گوک کند یعنی نیلاشہر کہا جانے لگا۔ تیمور کے زمانے میں صرف ارک کے علاقے کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تھی۔ یہ علاقہ قلعہ اور اس سے متصل تھا۔ مغل حکمران بابر جو تیمور کے انتقال کے ایک سو سال بعد اس وقت سمرقند پہنچا جب وہ اپنی ماضی کی دلکشی بھی کھوچکا تھا لیکن اس نے اپنی کتاب تزک بابری میں شہر کا حال کچھ اس طرح لکھا ہے :
"سمرقند کی مشہور ترین عمارات میں امیر تیمور کا محل ہے جو ارک سرائے کے نام سے مشہور ہے۔ محل کے بعد یہاں کی جامع مسجد اول درجے کی ہے۔ اس کے پیش طاق پر لکھی ہوئی آیت کریمہ "وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھِیْمُ القَوَاعِدُ" اس قدر جلی حروف میں ہے کہ ایک کوس سے پڑھی جاتی ہے۔ امیر تیمور کے بنائے ہوئے دو باغ بھی سمرقند کے عجائبات میں سے ہیں۔
امیر تیمور کے وارثوں میں سے محمد سلطان مرزا، الغ بیگ مرزا اور دوسروں نے بھی کئی عمارات بنوائیں جن میں خانقاہ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا گنبد اتنا بڑا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ خانقاہ سے ملحقہ مدرسے میں گو بہت سی خوبیاں ہیں لیکن اس کا حمام تو پورے خراساں اور ماوراء النہر میں اپنی مثال آپ ہے۔ مدرسے کے جنوب میں مسجد منقطع بھی اپنی خصوصیت کے لحاظ سے قابل ذکر ہے۔ پہاڑ کے دامن میں ایک بڑی رصد گاہ ہے جہاں الغ بیگ نے زیرچ گورگافی مرتب کی۔ سمرقند کی قابل ذکر عمارتوں میں چہل ستون کی عمارت بھی ہے۔ اس عمارت سے متصل ایک وسیع باغیچہ ہے جس میں ایک عجیب و غریب دری بنی ہے جس کا نام چینی خانہ ہے۔ سمرقند کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر پیشے اور صنعت کے بازار الگ الگ ہیں۔ سمر قند میں بہت نفیس کاغذ تیار ہوتا ہے جس کی ساری دنیا میں مانگ ہے "۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.