From Wikipedia, the free encyclopedia
پیغمبر۔ قرآن مجید کی سورہ ہود، حجر، زاریات، انعام،بقرۃ میں آپ کا مجملاً ذکر ہے۔ سورہ مریم (آیہ 49) اور سورہ الصفت (آیہ 112) کے مطابق آپ اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ بائبل کے مطابق آپ ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے تھے اور سارہ آپ کی والدہ تھیں۔ آپ پیدا ہوئے تو ابراہیم علیہ السلام کی عمر 100 سال اور سارہ کی 90 سال تھی۔ جائے پیدائش و وفات سرزمین شام ہے۔ بائبل نے اسحاق علیہ السلام کو ذبیح اللہ کہا ہے۔ قرآن کی سورہ الصفت میں بھی بھی ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کا تذکرہ ہے، مگر ان کے کسی فرزند کا نام مذکور نہیں۔ علمائے اسلام کی اکثریت کا نظریہ یہ ہے کہ وہ اسحاق نہیں۔ اسماعیل علیہ السلام تھے۔ اسحاق علیہ السلام کی شادی ابراہیم علیہ السلام کے بھائی نحور کی پوتی ربیقہ سے ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر چالیس برس کی تھی۔ آپ کی دعا سے بیس سال بعد جڑواں لڑکے عیسو اور یعقوب علیہ السلام پیدا ہوئے۔ عیسو سے بنی ادوم اور یعقوب علیہ السلام سے (جن کا لقب اسرائیل تھا ) بنی اسرائیل کی نسل چلی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے اسمعٰیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام، کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ اسحاق علیہ السلام نے 180 سال کی عمر میں انتقال کیا۔ بعض محققین نے آپ کے زمانے کا تعین 23 ویں صدی قبل مسیح کیا ہے۔
جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بشارت سنائی کہ سارہ کے بطن سے بھی تیرا ایک بیٹا ہوگا اس کا نام اسحاق رکھنا۔
بائبل کا بیان ہے۔
” اور خدا نے ابراہام سے کہا کہ تیری جو رو سری جو ہے اس کو سری مت کہا کر بلکہ اس کا نام سرہ ہے اور میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یقیناً میں اسے بھی برکت دوں گا کہ وہ قوموں کی ماں ہوگی ‘اور ملکوں کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے تب ابراہام منہ کے بل گرا اور ہنس کے دل میں کہا کہ کیا سو (100) برس کے مرد کو بیٹا پیدا ہوگا اور کیا سارہ جو نوے (90) برس کی ہے بیٹا جنے گی ؟ اور ابراہام نے اللہ سے کہا کہ کاش کہ اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے تب خدا نے کہا کہ بیشک تیری جورو سرہ تیرے لیے بیٹا جنے گی تو اس کا نام اسحاق رکھنا۔ [2]“
اور قرآن عزیز میں ہے :
{ وَ لَقَدْ جَآئَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلٰمًاط قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآئَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ فَلَمَّارَآٰ اَیْدِیَھُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْہِ نَکِرَھُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃًط قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ وَ امْرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَلا وَ مِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ قَالَتْ یٰوَیْلَتٰٓی ئَاَلِدُوَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًاط اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عَجِیْبٌ قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ [3]
” اور بلاشبہ ہمارے ایلچی (فرشتے) ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے انھوں نے ابراہیم کو سلام کیا اور ابراہیم نے سلام کہا ‘تھوری دیر کے بعد ابراہیم بچھڑے کا بھنا گوشت لایا اور جب اس نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھتے تو ان کو اجنبی محسوس کیا اور ان سے خوف کھایا وہ کہنے لگے خوف نہ کرو ہم لوط کی قوم پر (عذاب کے لئے) بھیجے گئے ہیں ‘اور ابراہیم کی بیوی (سارہ) کھڑی ہوئی ہنس رہی تھی ‘ پس ہم نے اس کو اسحاق کی اور اس کے بعد (اس کے بیٹے) یعقوب کی بشارت دی ‘ (سارہ) کہنے لگی کیا میں نگوڑی بڑھیا جنوں گی۔اور جب کہ ابراہیم میرا شوہر بھی بوڑھا ہے واقعی یہ تو بہت عجیب بات ہے فرشتوں نے کہا کیا تو خدا کے حکم پر تعجب کرتی ہے اے اہل بیت تم پر خدا کی رحمت و برکت ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر طرح قابل حمد ہے اور بہت بزرگ۔ “
آگے ارشاد فرمایا:
{ فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃًط قَالُوْا لَا تَخَفْط وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْہَہَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ قَالُوْا کَذٰلِکِلا قَالَ رَبُّکِط اِنَّہٗ ہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ }
[4]
” پس محسوس کیا (ابراہیم نے) ان سے خوف وہ (فرشتے) کہنے لگے خوف نہ کھا اور بشارت دی اس کو ایک سمجھ دار لڑکے کی ‘پس آئی بی بی (سارہ) ابراہیم کی ‘ سخت بےچینی کا اظہار کرتی ہوئی پھر پیٹ لیا اس نے اپنا منہ اور کہنے لگی بانجھ بڑھیا (اور بچہ ؟ ) فرشتوں نے کہا تیرے پروردگار نے یہی کہا ہے ‘ ایسا ہی ہوگا وہ دانا ہے حکمت والا۔ “
آگے ارشاد فرمایا:
{ قَالَ اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰٓی
اَنْ مَّسَّنِیَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ قَالُوْا بَشَّرْنٰکَ بِالْحَقِّ فَـلَا تَکُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ قَالَ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ } [5]
” (ابراہیم نے) کہا بیشک مجھ کو تم سے خوف معلوم ہوتا ہے فرشتوں نے کہا ہم سے نہ ڈر بلاشبہ ہم تجھ کو ایک سمجھ دار لڑکے کی بشارت دینے آئے ہیں اور ابراہیم نے کہا کیا تم مجھ کو اس بڑھاپا آجانے پر بھی بشارت دیتے ہو ‘ یہ کیسی بشارت دے رہے ہو ؟ فرشتوں نے کہا کہ ہم تجھ کو حق بات کی بشارت دے رہے ہیں ‘ پس تو ناامید ہونے والوں میں سے نہ ہو ‘ ابراہیم نے کہا اور نہیں ناامید ہوتے اپنے پروردگار کی رحمت سے مگر گمراہ۔ “
جب حضرت اسحاق (علیہ السلام) آٹھ دن کے ہوئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی ختنہ کرا دی۔
بائبل کا بیان:
” اور ابراہام نے جیسا کہ خدا نے اسے حکم دیا تھا اپنے بیٹے اضحاق (1) کا جب وہ آٹھ دن کا ہوا ختنہ کیا۔ “ [6]
حاشیہ 1: اسحق اصل تلفظ کے اعتبار سے ” یضحق “ ہے یہ عبرانی لفظ ہے جس کا عربی ترجمہ ” یضحک “ (ہنستا ہے) ہوتا ہے۔
خدا کے فرشتوں نے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سو برس اور حضرت سارہ کو نوے سال کے سن میں بیٹا ہونے کی بشارت دی تھی۔تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اچنبھا سمجھا تھا اور حضرت سارہ کو بھی یہ سن کر ہنسی آگئی تھی اس لیے ان کا یہ نام تجویز ہوا ‘یا اس لیے یہ نام رکھا گیا کہ ان کی پیدائش حضرت سارہ کی مسرت و شادمانی کا باعث ہوئی۔
عربی قاعدہ سے ” یضحق “ مضارع کا صیغہ ہے اہل عرب کا ہمیشہ سے ہی یہ دستور رہا ہے کہ وہ مضارع کے صیغوں کو بھی بطور نام کے استعمال کرتے ہیں چنانچہ یعرب ‘ یملک جیسے نام عرب میں معروف و مشہور ہیں۔
قرآن عزیز میں اس کے متعلق کوئی ذکر نہیں ہے البتہ توراۃ میں اس سلسلہ میں ایک طویل قصہ مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے خانہ زاد الیعزر دمشقی سے فرمایا کہ
میں یہ طے کرچکا ہوں کہ اسحاق کی شادی فلسطین کے ان کنعانی خاندانوں میں ہرگز نہ کروں گا بلکہ میری یہ خواہش ہے کہ اپنے خاندان اور باپ دادا کی نسل میں اس کا رشتہ کروں اس لیے تو سازو سامان لے کر جا اور فدان ارام میں میرے بھتیجے بتوئیل بن ناحور کو یہ پیغام دے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اسحاق سے کر دے۔
اگر وہ راضی ہوجائے تو اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ میں اسحاق کو اپنے پاس سے جدا کرنا نہیں چاہتا لہٰذا لڑکی کو تیرے ساتھ رخصت کر دے ‘الیعزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق فوراً فدان ارام کو روانہ ہو گیا جب آبادی کے قریب پہنچا تو اپنے اونٹ کو بٹھایاتا کہ حالات معلوم کرے ‘الیعزر نے جس جگہ اونٹ بٹھایا تھا ‘ اسی کے قریب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی بتوئیل کا خاندان آباد تھا۔ ابھی یہ اس میں مشغول تھا کہ سامنے ایک حسین لڑکی نظر آئی جو پانی کا گھڑا بھر کر مکان کو لیے جا رہی تھی۔
الیعزر نے اس سے پانی مانگا لڑکی نے اس کو بھی پانی پلایا اور اس کے اونٹ کو بھی اور پھر حال دریافت کیا ‘ الیعزر نے بتوئیل کا پتہ دریافت کیا ‘لڑکی نے کہا کہ وہ میرے باپ ہیں اور الیعزر کو مہمان بنا کرلے گئی ‘ مکان پر پہنچ کر اپنے بھائی لابان (لابن) کو اطلاع دی ‘لابان کو اس پیغام سے بے حد مسرت ہوئی اور اس نے بہت سا سازو سامان دے کر اپنی بہن رفقہ (ربقہ) کو الیعزر کے ہمراہ رخصت کر دیا۔ [7]
رفقہ سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے توام دو لڑکے علی الترتیب عیسو اور یعقوب پیدا ہوئے اس وقت حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی عمر ساٹھ سال کی تھی ‘اسحاق (علیہ السلام) عیسو کو زیادہ چاہتے تھے اور رفقہ یعقوب سے زیادہ پیار رکھتی تھیں ‘ عیسو شکاری تھے اور بوڑھے ماں باپ کو شکار کا گوشت لا کردیتے تھے اور یعقوب خیمہ ہی میں رہتے تھے۔
ایک روز عیسو تھکے ماندہ آئے اور یعقوب سے کہنے لگے میں ماندہ ہوں اور آج شکار بھی ہاتھ نہیں آیا تو اپنے کھانے مسور اور لپسی میں سے مجھے بھی کچھ دے یعقوب نے کہا کہ فلسطینیوں کا یہ دستور ہے کہ میراث بڑے لڑکے کو ملتی ہے اس لیے باپ کا وارث تو ہوگا اگر تو اس حق سے دست بردار ہو جائے
تو میں تجھ کو کھانا کھلاؤں گا ‘ عیسو نے کہا مجھے اس میراث کی کوئی پروا نہیں تو ہی وارث ہوجانا تب یعقوب نے عیسو کو کھانا کھلایا۔
ایک مرتبہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے (جبکہ بہت بوڑھے اور ضعیف البصر ہو گئے تھے) یہ چاہا کہ عیسو کو برکت دیں ‘اور ان سے کہا کہ جا شکار کرکے لا اور عمدہ کھانا پکا کر میرے سامنے پیش کر ‘ رفقہ (رِبقہ) نے یہ سنا تو دل سے چاہا کہ یہ برکت یعقوب کو ملے ‘ فوراً یعقوب کو بلا کر کہا کہ جلدی عمدہ کھانا تیار کرکے باپ کے سامنے لے جا اور دعائے برکت کا طالب ہو ‘ یعقوب نے نام بتائے بغیر ایسا ہی کیا اور اسحاق (علیہ السلام) سے دعائے برکت حاصل کرلی ‘ جب عیسو آئے اور انھوں نے سب قصہ سنا تو انتہائی ناگواری محسوس کی اور یعقوب سے کینہ رکھنے لگے۔ تب رفقہ (ربقہ) نے یعقوب کو رائے دی کہ وہ یہاں سے اپنے ماموں لابان کے پاس کچھ دنوں کے لیے چلا جائے۔ یعقوب ماموں کے یہاں پہنچا اور وہیں کچھ مدت گزاری اور یکے بعد دیگرے لابان کی دونوں لڑکیوں لیاہ اور راحیل (راخل) سے شادی کرلی۔
یہ روایت اگرچہ اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت زیادہ ناقابل اعتماد ہے اور اس میں جو اخلاقی زندگی پیش کی گئی ہے وہ توراۃ کی دوسری محرف روایات کی طرح انبیا (علیہم السلام) اور ان کے خاندان کے شایان شان بھی نہیں ہے۔
مگر اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کی شادی ان کے ماموں کے یہاں ہوئی اور وہ ایک عرصہ تک ان کے پاس رہے ‘ اور عیسو بھاگ کر اپنے چچا اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس چلے گئے۔اور وہاں ان کی صاحبزادی بشامہ یا باسمہ یا محلاۃ (جو بھی نام صحیح ہو) سے شادی کرلی ‘ اور ان کے علاوہ بھی شادیاں کیں ‘اور اپنے خاندان کو لے کر سعیر (یا ساعیر) کو اپنا وطن بنا لیا ‘ اور یہاں ادوم کے نام سے مشہور ہوئے اور اس لیے ان کی نسل بنی ادوم کے نام سے مشہور ہوئی۔
تورات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت اسحاق علیہ السلام نے 180 سال کی عمر پائی۔واللّٰہ اعلم
بائبل کا بیان :
20 سال اپنے چچا لابن کے لیے کام کرنے کے بعد، یعقوب گھر واپس آیا۔ اس نے اپنے جڑواں بھائی عیسو کے ساتھ صلح کر لی، پھر اس نے اور عیسو نے اپنے والد اسحاق کو 180 سال کی عمر میں مرنے کے بعد ہیبرون میں دفن کیا۔[8][9]
مقامی روایت کے مطابق، حضرت اسحاق علیہ السلام اور ربقہ علیہا السلام کی قبریں، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام اور یعقوب علیہ السلام اور لیہ علیہا السلام کی قبروں کے ساتھ ، بزرگوں کے غار میں ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.