اسلام میں نبی From Wikipedia, the free encyclopedia
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔[5]
پیغمبر | |
---|---|
ابراہیم علیہ السلام إِبْرَاهِيْمُ Abraham | |
(عربی میں: إبراهيم) | |
وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(سورہ نساء آیت:125) اور اللّٰہ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنا لیا | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2160 ق م ار , سلطنت بابل |
وفات | (عمر 175 سال) حبرون , فلسطین |
دیگر نام | Khalīlullāh (عربی: خَلِيْلُ ٱللهِ, "اللّٰہ کا دوست") |
زوجہ | |
اولاد | |
والدین | تارح (والد)[1][2][3][4] محلات (والدہ) |
عملی زندگی | |
پیشہ | واعظ ، نبی |
وجہ شہرت |
|
کارہائے نمایاں | صحائف ابراہیم |
درستی - ترمیم |
اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔[5]
ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)[5]
اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔[5]
شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انھیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔
بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔[6][7] ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
—
”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ
—
”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمھیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔
قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ»
علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ ( یعنی یہ ان کا لقب ہے ۔ )
عرب مورخوں نے ابراہیم کا سلسلہ نسب یوں بیان کیا ہے : - ابراہیم بن تارخ بن ناحور بن ساروغ بن ارغو بن فالغ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح۔ یہ سلسلہ نسب انجیل میں سے لیا گیا ہے۔ اکثر علما نے ابراہیم کو عجمی قرار دیا ہے۔ اس لفظ کی کئی صورتیں بیان کی ہیں مثلاََ اِبراھام، اِبراہم، ابرہم، ابراہیم، براہم اور براہمہ۔ انجیل کے پُرانے عہد نامے کے مطابق خُدا ابراہیم سے یہ فرماتا ہے کہ تیرا نام پھر ابرام نہیں کہا جائے گا بلکہ ابراھام [8](ابورھام کا مطلب بہت زیادہ اولاد والا یا گروہ کثیر کا باپ) ہوگا۔
ابراہیم کے نام سے قرآن مجید میں ایک سورت بھی ہے جو قران مجید کی چودہویں سورت ہے جو مکہ میں نازل ہوئی۔ اللہ نے انھیں اُمت [9] اور امام النّاس [10] کے لقب سے پُکارا اور انھیں بار بار حنیف بھی کہا۔ قراآن مجید میں اُن کو مسلمان یا مسلم بھی کہا گیا ہے۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ ابراہیم ملتِ حنیفہ تھے۔ اللہ نے آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت سے نواز اور انھیں ملکِ عظیم عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں خُلّت کا شرف بخشا انھیں خلیل اللہ (اللہ کا دوست ) کہا اور سب اُمتوں میں انھیں ہر دلعزیز بنایا۔ اکثر انبیائے کرام ان کی اولاد سے ہیں۔ قران مجید میں حضرت ابراہیم کے احوال و اوصاف بالصّراحت مذکور ہیں۔
النووی نے نقل کیا ہے کے ابراہم اقلیم(صوبہ) بابل کے مقام کوثی میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ کا نام نونا تھا ایک اور روایت ہے کہ ابراہیم کلدانیہ کے شہر اُر میں پیدا ہوئے -
تورات کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ 2200 ق۔ م میں عراق کے قصبہ عر (ار) میں پیدا ہوئے۔ ناحور اور حاران ان کے بھائی تھے اور حضرت لوط حاران کے بیٹے تھے۔ قرآن حکیم اور تورات اس امر پر متفق ہیں کہ آپ کی قوم بت پرست تھی۔ آپ کے والد کا نام تورات میں تارخ لکھا ہے۔ لیکن قرآن حکیم نے اسے صنم سازی اور بت تراشی کی وجہ سے آذر کہہ کر یاد کیا ہے۔ (دیکھیں آذر)
قرآن حکیم کی رو سے آپ کو بچپن ہی میں ”رشد" (الانبیاء= 51) اور قلب سلیم (صافات= 84) عطا ہوا اور کائنات کے مشاہدے سے آپ کو یقین کامل حاصل ہوا۔ (الانعام = 75)
تالمود میں جو یہودیوں کی کتاب ہے سیرت ابراہیم ؑ کے عراقی دور کا حوالہ ملتاہے جو قرآن مجید کے مقابلے میں خلاف واقعہ اور بے بنیاد معلوم ہوتا ہے۔ تالمود کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت رکھ کر نمرود بادشاہ کو مشورہ دیا کہ تارخ کے ہاں جو بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دے۔ چنانچہ نمرود حضرت ابراہیم ؑ کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارخ نے اپنے ایک غلام کا بچہ اس کے بدلے میں دے کر اپنے بچے کو بچا لیا۔ اس کے بعد تارخ نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں چھپا دیا جہاں وہ دس برس تک رہے۔ گیارہویں سال حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت نوح ؑ کے پاس بھیجا۔ جہاں وہ انتالیس برس تک رہے۔ تالمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بھتیجی سارہ سے نکاح کر لیا اور جب ابراہیم ؑ پچاس برس کے تھے تو آپ حضرت نوح ؑ کا گھر چھوڑ کر اپنے والد کے گھر آگئے جہاں وہ تبلیغ کرتے رہے۔ وغیرہ وغیرہ (17 : 17, 69 : 11)[5]
اس دوران میں حضرت ابراہیم ؑنے حیات بعد الموت کے راز سے آگای چاہی تو اللہ تعالی نے تشفی فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
—
”اور جب ابراہیم ؑ نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو کس طرح مردے کو زندہ کرتا ہے۔ فرمایا کیا (اس پر) تیرا ایمان نہیں؟ بولے۔ کیوں نہیں۔ایمان تو ہے لیکن میں اپنے دل کے لیے اطمینان چاہتا ہوں۔ فرمایا! اچھا تو چار پرندے لے۔ پھر انھیں اپنے ساتھ مانوس کرلے، پھر ان میں سے ہر پہاڑ پر ان کا گوشت کا ایک ٹکڑا رکھ ۔ پھر انھیں بلا۔ وہ تیری طرف دوڑ کر آئیں گے اور یقین رکھ کہ اللہ بڑی عزت والا اور حکمت والا ہے “
حضرت ابراہیم ؑ شروع ہی سے بت پرستی کے خلاف تھے۔ ان کی قوم کا سب سے بڑا دیوتا سورج تھا۔ آپ نے تبلیغ کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنے والد کو سمجھانے کی کوشش کی۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بزرگ کا مباحث اس طرح سے مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَن فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْراهِيمُ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا
—
”اور کتاب میں ابراہیم ؑ کا ذکر کرو ،بے شک وہ سچا نبی تھا۔ جب اس نے اپنے ابی سے کہا اے میرے بزرگ تو کیوں اس کی عبادت کرتا ہے جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تیرے کچھ کام آ سکتا ہے۔ اے میرے بزرگ مجھے وہ علم ملا ہے جو تجھے نہیں ملا۔ سو تو میری پیروی کر میں تجھے سیدھا رستہ دکھاؤں گا۔“اے میرے بزرگ! شیطان کی عبادت نہ کرے کیونکہ شیطان رحمان کا نافرمان ہے۔ اے میرے بزرگ میں ڈرتا ہوں کہ مجھے رحمان کی طرف سے کوئی عذاب آپہنچے تو تو شیطان کا دوست بن جائے۔اس نے کہا: اے ابراہیم ؑ کیا تو میرے معبودوں سے منہ موڑتا ہے۔ اگر تو باز نہ آئے تو میں تجھے سنگسار کروں گا اور تو ایک مدت تک مجھے سے الگ ہو جا۔کہا تجھ پر سلامتی ہو میں اپنے رب سے تیرے لیے استغفار کروں گا وہ مجھے پر بہت مہربان ہے اور میں تم سے اور ان سے جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو الگ ہوتا ہوں اور میں اپنے رب سے دعا کروں گا امید ہے میں اپنے رب سے دعا کر کے محروم نہیں رہوں گا “
حضرت ابراہیم ؑ نے بت پرستی کو کن کن دلائل و براہین سے رد کیا اس کی بھی ایک جھلک قرآن مجید میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلاَ تَتَذَكَّرُونَ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلاَ تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
—
” اور جب ابراہیم ؑ نے اپنے ابی آذر سے کہا۔ تو بتوں کو معبود بناتا ہے میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں اور اسی طرح ہم ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھاتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو- جب اس پر رات چھا گئی۔ اس نے ستارہ دیکھا۔ کہا کیا یہ میرا رب ہے؟ سو جب وہ ڈوب گیا، کہا میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا۔ کہا کیا یہ میرا رب ہے؟ سو جب وہ بھی ڈوب گیا ، کہا ، اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں یقین گمراہ لوگوں میں سے ہو جاتا۔کہا اے میری قوم میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹهراتے ہو۔ میں نے یک سو ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں اور اس قوم نے اس سے جھگڑا کیا۔ کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو اور اس نے مجھے یقیناً ہدایت کی ہے اور میں اس سے نہیں ڈرتا جس کو تم اس کے ساتھ شریک کرتے ہو ہاں یہ کہ میرا رب کچھ چاہے۔ میرے رب کا علم تمام چیزوں کو لیے ہوئے ہے۔ پس کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے۔اور میں کس طرح اس سے ڈروں جس کو تم شریک بناتے ہو اور تم نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ اسے شریک بنایا ہے، جس کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نہیں اتاری، پس (بتاؤ) دونوں گروہوں میں سے کون امن کا زیادہ حق دار ہے۔ اگر تم جانتے ہو “
اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کو شرک سے باز رکھنا چاہا اور جب وہ نہ مانے تو ایک بار جب سارے لوگ کسی تہوار پر گئے ہوئے تھے آپ نے تمام بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ اس پر قوم بہت سیخ پا ہوئی اور آپ کے لیے سزا تجویز کرنے گئی۔ قرآن مجید میں یہ واقعوں بیان ہواہے۔
”
جب اس نے اپنے ابی اور اپنی قوم سے کہا یہ مورتیں کیا ہیں۔ جن کی تنظیم میں تم لگے ہو۔ (یعنی عبادت کرتے ہو انھوں نے کہا ہم نے اپنے بڑوں کو (اسی طرح) عبادت کرتے ہوئے پایا۔ کہا تم اور تمھارے بزرگ کھلی گمراہی میں انھوں نے کہا کیا توہمارے پاس حق لایا ہے یا دل دلگی کرنے والوں میں سے ہے؟(یہ نہیں)بلکہ تمھارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے-جس نے انھیں پیدا کیا اور میں اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں اور اللہ کی قسم میں تمھارے پیٹھ پیچھے ، چلے جانے کے بعد تمھارے بتوں کو تکلیف پہنچاؤں گا-سوان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ مگر ایک بڑے (بت) کو رہنے دیا۔ تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ کہنے لگے: ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے یہ فعل کیا ہے۔ یقیناً وہ ظالموں میں سے ہے۔ لوگوں نے کہا: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا تھا جسے ابراہیم ؑ کہتے ہیں۔ کہنے لگے اسے لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ گواہی دیں۔ کہا اے ابراہیم ؑ کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ اس نے کہا (نہیں) بلکہ ان کا بڑا یہ ہے ،سو ان سے پوچھو اگر وہ بولتے ہیں۔ سو انھوں نے اپنے آپ کی طرف رجوع کیا اور کہنے لگے۔ تم خود ہی ظالم ہو۔ پھر اپنے سر اوندھے ڈال کر گر گئے (یعنی قائل ہو گئے ) تو جانتا ہے کہ یہ بات نہیں کرتے‘ کہا تو کیا اللہ کو چھوڑ کر تم اس کی عبادت کرتے ہو جو تمھیں کچھ نفع نہیں دیتا اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تف ہے تم پر اور اس پر جس کی تم عبادت اللہ کے سوا کرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ کہنے لگے اسے جلا دو اور اپنے دیوتاؤں کی مدد کرو اگر تم کرنے والے ہو۔
“
تالمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بھتیجی سارہ سے نکاح کر لیا اور جب ابراہیم ؑ پچاس برس کے تھے تو آپ حضرت نوح ؑ کا گھر چھوڑ کر اپنے والد کے گھر آگئے۔ جہاں بارہ مہینوں سے منسوب بارہ بتوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ آپ نے پہلے تو والد کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن جب وہ نہ مانا تو آپ نے ان بتوں کو توڑ دیا۔ تارخ نے اس کی شکایت نمرود سے کی کہ پچاس برس پہلے میرے ہاں جو لڑکا پیدا ہوا تھا آج اس نے یہ حرکت کی ہے۔ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر باز پرس کی۔ آپ نے سخت لہجہ میں جواب دیا۔ نمرود نے آپ ؑ کو جیل بھجوا دیا۔ اور معاملہ کو شوری کے سپرد کر دیا۔ شوری کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ آگ کا بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ آپ کے بھائی اور خسرحاران کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا۔ کیونکہ نمرود نے جب تارخ سے یہ پوچھا کہ تیرے بیٹے کو تو میں نے پیدائش کے دن ہی قتل کرنا چاہا تو تو نے اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں قتل کروایا تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے پر یہ حرکت کی تھی۔ اس لیےاسے بھی مستوجب سزا گردانا گیا۔آگ میں گرتے ہی حاران جل مرا اور لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ آگ میں ٹہل رہے ہیں۔[5]
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ
—
”ہم نے کہا اے آگ! ابراہیم ؑ پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جا“
(نیز دیکھیے "آتش نمرود)
اسی دور میں ایک کافر بادشاہ نمرود بن کنعان (سنحارب بن نمرود بن کوش بن کنعان بن حام بن نوح) نے بھی آپ سے مناظرہ کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَآجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رِبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِـي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِـي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
—
”اور کہا تھا کہ میرے معبودنے ملک و سلطنت بخشی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا: ”میرا معبود اور پروردگار تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ نمرود نے کہا میں بھی (جسے چاہوں)زندہ رہنے دوں اور جسے چاہوں مار ڈالوں۔ ابراہیم ؑ نے جواب دیا اچھا تو اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ آپ اسے مغرب سے نکالیں۔ اس پر وہ کافر ہکا بکا رہ گیا“
قوم ابراہیم سے مراد ان کی وہ قوم ہے جس کو انھوں نے توحید کی دعوت دی، پھر ان سے مایوس ہو کر اللہ کے حکم سے انھوں نے ہجرت فرمائی۔ قرآن میں دو مرتبہ ذکر موجود ہے
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وِأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
—
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ
—
قوم ابراہیم : اللہ تعالیٰ نے اس قوم سے اپنی نعمت چھین کر اس کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کیا اور ایک حقیر مچھر یا چیونٹی سے ان کے بادشاہ نمرود بن کنعان کو ہلاک کر دیا اور اس کے ساتھیوں کو غارت کر دیا۔[11] قوم ابراہیم کو ہلاک نہ کیا گیا چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے ان کی ہلاکت کے لیے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اور ان کی بت پرستی کو چھوڑ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔[12] قوم ابراہیم (علیہ السلام) دنیا سے مٹ گئی اور ایسی مٹی کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا، اس میں سے اگر کسی کو بقا نصیب ہوا تو صرف ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مبارک فرزندوں (اسماعیل (علیہ السلام) و اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد ہی کو نصیب ہوا۔ قرآن میں اگرچہ اس عذاب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نکل جانے کے بعد ان کی قوم پر آیا، لیکن اس کا شمار معذب قوموں ہی میں کیا گیا ہے، [5]
قران کریم میں ہے کہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
—
بلا شک و شبہہ ابراہیم اور ان کی جمیعت مومنوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے
چنانچہ ضمناََ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان مہاجرین کی فہرست میں آزر کا نام شامل نہیں تھا جسے ابراہیم سلام کرکے رخصت کرچُکے تھے۔ یاقوت الحموی نے بھی آزر کے شام میں وارد ہونے پر شک ظاہر کیا ہے لیکن تاریخ سے جو بہت حد تک اسرائلیات سے ماخوز ہے پتہ چلتا ہے کہ ابراہیم کے والد تارخ کی وفات حاران میں واقع ہوئی۔ اس سے اس گمان کی مزید تائید ہوتی ہے کہ تارخ اور آزر دو مختلف ہستیاں ہیں۔ دیارِ غریب میں پہنچ کر ابراہیم ؑ سرگرداں رہے۔جیسا کہ تالمود کا بیان ہے اس کی رو سے بالآخر آپ ؑ کنعان کے علاقے میں مقیم ہو گئے۔لیکن آپ ؑ کے ساتھ آذر نہیں تھا۔[5]
(دیکھیں آذر)
ابراہیم کی بیٹے اسمٰعیل ہاجرہ ؑ کے بطن سے اور اسحاق ؑ سارہ ؑ کے بطن سے پیداہوئے اور اس کے علاوہ کئی اور بچے ایک کنعانی زوجہ کے بطن سے۔
ابراہیم ؑ کی بیوی سارہ ؑ (سارہ بنت لابن بن بشویل بن ناحور) جو براہیم ؑ کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے انھوں نے ہاجرہ سے نکاح کر لیا۔
سارہ ؑ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ خوب صورت تو تھیں لیکن بانجھ عورت تھیں۔ جب آپ ؑ مصر پہنچے تو مصر بادشاہ نے ان کی خوب صورتی کے پیش نظر انھیں اپنے مال میں رکھنا چاہا۔ اس موقع پر تورات میں آپ ؑ کو کاذب کہا گیا ہے کہ آپ ؑ نے اپنی سترہ سالہ بیوی سارہ ؑ کو بہن کہہ کر مصریوں کی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہا۔[5]
بائبل میں آیا ہے
سو جب ابراہیم مصر پہنچا، مصریوں نے اس کی عورت کو دیکھا کہ وہ نہایت خوبصورت ہے اور فرعون کے امیروں نے بھی اسے دیکھا اور فرعون کے حضور اس کی تعریف کی اور اس عورت کو فرعون کے گھر لے گئے اور اس نے اس کے سبب ابراہام پر احسان کیا کہ اس کو بھیڑ بکری یا گائے بیل گدھے اور غلام لونڈی اور گدھیاں اور اونٹ لے۔ پھر خداوند نے فرعون اور اس کے خاندان کو ابراہام کی بیوی سری (سارہ) کے سبب بڑی مار دی۔ تب فرعون نے ابراہام کو بلا کر اس سے کہا کہ تو نے مجھ سے کیا کہا؟ کیوں نہ بتایا کہ یہ میری بیوی ہے تو نے کیوں کہا کہ یہ میری بہن ہے؟ یہاں تک کہ میں نے اسے اپنی جورو بنانے کو لیا۔ دیکھ یہ تیری بیوی حاضر ہے۔ اس لے اور چلا جا اور فرعون نے اس کے حق میں لوگوں کو حکم دیا۔ تب انھوں نے اسے اور اس کی بیوی کو اور جو کچھ اس کا تھا روانہ کیا۔" (پیدائش: 14تا 20)[5]
یوسف ظفر اپنی کتاب ”یہودیت" میں ابن خلدون اور تورات کے دیگر مفسرین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس وقت کے فرعون نے اپنی بیٹی ہاجرہ ؑ بھی آپ کی زوجیت میں دے دی۔ چونکہ دوسری بیوی رسم و رواج کے مطابق پہلی کی لونڈی بن کر رہتی ہے۔ اس لیے یہودیوں اور عیسائیوں نے حضرت ہاجرہ ؑ کو لونڈی کہہ کر بتایا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ لونڈی کی اولاد ہونے کی وجہ سے حضرت اسحاق ؑ سے کم ترہیں-[5]
ابراہیم ؑ کو اولاد کی تمنا تھی، کنعان کے علاقے میں مقیم ہونے کے بعد آپ نے اولاد کے لیے دعا کی۔
قرآن میں وارد ہوا : رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ
—
”اے میرے پروردگار! مجھے ایک نیک بیٹا عطا کر۔“
حضرت ابراہیم ؑ نے ہاجرہ ؑ سے نکاح کیا تو اللہ تعالی نے ابراہیم کو ایک حلیم بچے (اسمٰعیل ) بشارت دی۔ ان کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑسا فرزند عطا کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس بات سے سارہ ؑ جل اٹھیں ہوں اور حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے حکم کے مطابق ہاجرہ ؑ اور اسماعیل ؑ کو گھر سے دور چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہوں۔ بہرحال حضرت ابراہیم ؑ نے ماں اور بچے کو عرب کے تپتے ریگزاروں میں چھوڑ دیا۔ جہاں اللہ کی قدرت سے چشمہ پیدا ہوا اور آبادی بڑھی۔ (دیکھیے: آب زمزم)[5]
جب حضرت اسماعیل ؑ نوجوان ہوئے تو حضرت ابراہیم ؑ واپس آئے اورسرزمین مکہ کی آبادی دیکھ کر انھوں نے وہاں اللہ کا گھر (کعبہ) تعمیر کیا۔ چنانچہ اس لیے کعبہ کی عظمت مسلمانوں کے دل میں ہے۔ کیونکہ یہ سب سے پہلی مسجد تھی جو خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی تھی۔[5]
قران مجید میں آیا ہے کہ ابراہیم اور اسمٰعیل نے مل کر جب کعبے کی بنیادوں کو اٹھایا تو یہ دُعا مانگی کہ ہماری اولاد میں سے ایک نبی پیدا کر اور اس شہر کو برکت والا شہر بنادے۔
اس واقعہ کے ساتھ ہی حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا ذکر آتا ہے۔ جب یہ بچے بڑے ہوئے تو ابراہیم ؑ آئے تو انھوں نے کہا اے میرے پیارے بیتے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ چنانچہ باپ بیٹا دونوں نے اپنے آپ کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیا اس آزمائش میں جب ابراہیم ؑ پورے اترے تو اللہ نے انھیں ”امام للناس“ کا خطاب دیا (البقرہ : 124) اور انھیں ایک اور بیٹے اسحاق کی بشارت دی۔ (الصفات:101)
قرآن مجید میں آیا ہے جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے مل کر کعبے کی بنیادوں کو از سر نو تعمیر کرنا شروع کیا تو یہ دعا مانگی۔
{{اقتباس قرآن
|اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
”اور جب کہا ابراہیم نے اے میرے رب بنا اس کو شہر امن کا اور روزی دے اس کے رہنے والوں کو میوے جو کوئی ان میں سے ایمان لاوے اللہ پر اور قیامت کے دن پر فرمایا اور جو کفر کریں اس کو بھی نفع پہنچاؤں گا تھوڑے دنوں پھر اس کو جبرًا بلاؤں گا دوزخ کے عذاب میں اور وہ بری جگہ ہے رہنے کی-اور یاد کرو جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسمٰعیل اور دعا کرتے تھے اے پروردگار ہمارے قبول کر ہم سے بیشک تو ہی ہے سننے والا جاننے والا-اے پروردگار ہمارے اور کر ہم کو حکم بردار اپنا اور ہماری اولاد میں بھی کر ایک جماعت فرماں بردار اپنی اور بتلا ہم کو قاعدے حج کرنے کے اور ہم کو معاف کر بیشک تو ہی ہے توبہ قبول کرنے والا مہربان“
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
—
اور پکار دے لوگوں میں حج کے واسطے کہ آئیں تیری طرف پیروں چل کر اور سوار ہو کر دبلے دبلے اونٹوں پر چلے آئیں راہوں دور سے تاکہ پہنچیں اپنے فائدہ کی جگہوں پر اور پڑھیں اللہ کا نام کی دن جو معلوم ہیں ذبح پر چوپایوں مواشی کے جو اللہ نے دیے ہیں اُنکو سو کھاؤ اُس میں سے اور کِھلاؤ برے حال کے محتاج کوپھر چاہیے کہ ختم کر دیں اپنا میل کچیل اور پوری کریں اپنی منتیں اور طواف کریں اس قدیم گھر کا
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی آپ لوگوں کے درمیان منادی کرکے انھیں اس گھر کی طرف حج کرنے کی دعوت دیجئے جس کی تعمیر کا ہم نے آپ کو حکم دیا تھا، کہتے ہیں کہ یہ حکم سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: میں کیسے انھیں یہ پیغام پہنچا سکتا ہوں جب کہ میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: تم آواز لگاؤ؛ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے، لہذا وہ اپنے مقام (مقام ابراہیم) پر کھڑے ہوئے اور ایک روایت کے مطابق کسی پتھر پر کھڑے ہوئے، ایک دوسری روایت کے مطابق صفا پر کھڑے ہوئے، ور ایک تیسری روایت کے مطابق ابو قبیس پہاڑ پر کھڑے ہوئے، چنانچہ وہاں کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز لگائی: اے لوگو! تمھارے رب نے اپنے لیے ایک گھر بنایا ہے سو اس کا حج کیا کرو، کہا جاتا ہے کہ یہ آواز سن کر پہاڑ جھک گئے حتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز روئے زمین کے تمام گوشوں میں پہنچ گئی اور اپنی آواز کو انھوں نے باپوں کی صلب اور ماؤں کے بطن میں پوشیدہ انسانوں تک کو سنا دی، جس شے نے بھی ان کی آواز سنی اس نے ان کا جواب دیا خواہ وہ پتھر ہو، ڈھیلا ہو یا کوئی درخت ہو، اوران تمام لوگوں نے بھی ان کے جواب میں "میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں" کا جملہ دہرایا تاقیامت جن کی قسمت میں اللہ نے حج کی سعادت لکھـ دی ہے۔ یہ ان مرویات کا خلاصہ ہے جو حضرت ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، سعيد بن جبير اور متعدد علما سلف سے منقول ہیں، واللہ اعلم اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اس قصے کو بڑی تفصیل سے نقل کیا ہے- یہاں پر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ختم ہوتا ہے- اور حقیقت حال کا علم صرف اللہ کے پاس ہے- البتہ جہاں تک آواز لگانے کا مسئلہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسا ہوا تھا[13][14]
حضرت ابراہیم کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی مہمان نواز تھے- بعض روایات میں ان کی مہمان نوازی کو ان کی اولیات میں شمار کیا گیا ہے اول من قری الضیف [15]
اول من الضاف الضیف - بعض روایات میں ہے کہ وہ مہمان کو شریک کیے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے حتی کہ مہمان کی تلاش میں دو دو میل تک دور نکل جاتے تھے[16]
خود قران ان کی مہمان نوازی کی گواہی دیتا ہے
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْراَهِيمَ إِذْ دَخَلُواْ عَلَيْهِ فَقَالُواْ سَلامًا قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ قَالُواْ لاَ تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ
—
اور ان کو ابراہیم کے مہمانوں کا احوال سنادو جب وہ ابراہیم کے پاس آئے تو سلام کہا۔ (انھوں نے) کہا کہ ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے (مہمانوں نے) کہا کہ ڈریئے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں
اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَلَقَدْ جَاءتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُـشْرَى قَالُواْ سَلاَمًا قَالَ سَلاَمٌ فَمَا لَبِثَ أَن جَاء بِعِجْلٍ حَنِيذٍ فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُواْ لاَ تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَقَ يَعْقُوبَ قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
—
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انھوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں جاتے (یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے) تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ (فرشتوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجیے، ہم قوم لوط کی طرف (ان کے ہلاک کرنے کو) بھیجے گئے ہیں اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی-
یہ واقعہ سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بھی گذر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ انھوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86) 4- النسآء:86) یعنی جب کوئی تمھیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لیے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لیے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انھیں خبر کیے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا۔ پھر انھیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70ۭ) 11-ھود:70)، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہو گئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لیے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انھیں خوشخبری سنائی کہ تمھارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہو گئے۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہو گئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمھیں یہ خبر پہنچائیں۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمھارے ہاں اس عمر میں بچہ ہوگا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے۔ [17][18][19][20]
روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شکل وصورت کے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذبیح اللہ کہہ کر پکارادونوں باپ بیٹے ایک ہی جسے شکل کے تھے کبھی کبھی مغالطے میں لوگ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوخلیل اللہ کہہ دیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوذبیح اللہ، اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ نے باپ اوربیٹے میں تھوڑاسافرق پیدافرمادیا۔سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بال سفیدہوئے اس وقت تک دنیامیں کسی انسان کے بال سفیدنہیں ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آئینہ دیکھا بڑا تعجب ہواکہاکہ یہ بال کیسے سفیدہوگئے اللہ سے عرض کیا اے اللہ ! یہ کیاہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ یہ ہمارانو رہے اورفرمایاکہ ہمیں یہ بات پسندنہیں آئی کہ کوئی ہمارے خلیل کوذبیح کہہ کرپکارے اس لیے ہم نے سفیدبال پیدافرمادیئے تاکہ لوگوں کومغالطہ نہ ہو، تو ابراہیم علیہ السلام کی یہ خصوصیت ہے کہ سب سے پہلے دنیامیں آپ کے بال سفیدہوئے گویااللہ تعالیٰ نے آپ کوبزرگی مسلّم طور پر عطافرمائی تھی ظاہری طورپربھی اورباطنی طورپربھی، رسالت کے اعتبارسے بھی اورانسانیت کے اعتبارسے بھی۔[21][22]
ابراہیمی ملت کا ایک شعار ختنہ ہے، توریت میں اللہ نے ابراہیم سے کثرت ذریت کا وعدہ کیا اور یہ عہد لیا کہ اگر ان کی نسل توحید پہ قائم رہی تو زمین میں اسے اقتدار دیگا- اس عہد کو یاد دلاتے ہوئے اللہ نے ختنے کو اس کی علامت قرار دیا
پھر خدا نے ابراہم سے کہا کہ تو میرے عہد کو ماننا اور تیرے بعد تیرے پشت در پشت تیری نسل مانے اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان میں ہے اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان میں ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا اور یہ اس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمھارے درمیان میں ہے[13]
اور توریت میں اللہ نے انھیں حکم دیا " اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہ ہوا ہواپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اس نے میرا عہد توڑا[23][24]
چنانچہ یہ حکم ملتے ہی حضرت ابراہیم نے گھر کے سب لوگوں کو جمع کیا اور اسی روز ان کا ختنہ کیا ان میں حضرت اسماعیل بھی تھے اس وقت ابراہیم کی عمر 99 سال تھی اور اسماعیل کی 13 پھر اگلے سال اسحاق کی ولادت ہوئی تو حضرت ابراہیم نے انکا بھی ختنہ کیا
حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا
”حضرت ابراہیم نے اسی سال کی عمر میں قدوم(ایک اوزارسے ختنہ) کروایا“[24][25]
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے وفات پائی تو ان کی عمر 175 برس تھی اور وہ حبرون میں مکفیلہ کے غار میں دفن ہوئے۔ اب اس مقام کو ” خلیل" کہتے ہیں جو بیت المقدس کے قریب واقع ہے۔[5]
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نسب نامہ تورات میں اس طرح مذکور ہے :
ابراہیم (علیہ السلام) (خلیل اللہ) بن تارخ بن ناحور بن ساروغ بن راعو بن فالح بن عابربن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح ((علیہ السلام)) ۔
یہ تصریح تورات ١ ؎ اور تاریخ ٢ ؎ کے مطابق ہے مگر قرآن عزیز نے ان کے والد کا نام آزر بتایا ہے :
{ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَۃً }[26]
” اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا ” کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ “
چونکہ تاریخ اور تورات ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ بتاتے ہیں اور قرآن عزیز آزر کہتا ہے اس لیے علما اور مفسرین نے اس مسئلہ کی تحقیق میں دو راہیں اختیار کی ہیں۔
ایسی صورت اختیار کی جائے کہ دونوں ناموں کے درمیان مطابقت ہو جائے اور یہ اختلاف جاتا رہے۔
تحقیق کے بعد فیصلہ کن بات کہی جائے کہ ان دونوں میں کون سا صحیح ہے اور کون سا غلط یا دونوں صحیح ہیں مگر دو جدا جدا ہستیوں کے نام ہیں۔
پہلے خیال کے علما کی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی شخصیت سے وابستہ ہیں اور تارخ علم اسمی (اسمی نام) ہے اور آزر علم و صفی (وصفی نام) ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آزر عبرانی زبان میں ” محب صنم “ کو
کہتے ہیں اور چونکہ تارخ میں بت تراشی و بت پرستی دونوں و صف موجود تھے اس لیے آزر کے لقب سے مشہور ہوا ‘ اور بعض کا گمان ہے کہ آزر کے معنی اعوج (کم فہم) یا بیوقوف اور پیر فرتوت ١ ؎[27] کے ہیں ‘اور چونکہ تارخ میں یہ باتیں موجود تھیں اس لیے اس وصف سے موصوف کیا گیا۔ قرآن عزیز نے اسی مشہور وصفی علم کو بیان کیا ہے۔
سہیلی نے روض الانف [28] میں اسی کو اختیار کیا ہے۔
اور دوسرے خیال کے علما کی تحقیق یہ ہے کہ آزر اس بت کا نام ہے تارخ جس کا پجاری اور مہنت تھا ‘ چنانچہ مجاہدؒ سے روایت ہے کہ قرآن عزیز کی مسطورہ بالا آیت کا مطلب یہ ہے :
( (اَتَتَّخِذُ اٰزَرَ اِلٰھًا ای اتتخذ اصنامًا الھۃ) )
” کیا تو آزر کو خدا مانتا ہے یعنی بتوں کو خدا مانتا ہے ؟ “
اور صنعانی کی رائے بھی اس کے قریب قریب ہے ‘ ٣ ؎ صرف نحوی [29] اعتبار سے تقدیر کلام میں وہ ایک دوسری راہ اختیار کرتے ہیں ‘غرض ان دونوں کے نزدیک آزر ” ابیہ “ کا بدل نہیں ہے بلکہ بت کا نام ہے اور اس طرح قرآن عزیز میں ان کے والد کا نام مذکور نہیں۔
ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا اور چچا کا آزر ‘اور چونکہ آزر ہی نے ان کی تربیت کی تھی اور بہ منزلہ اولاد کے پالا تھا اس لیے قرآن عزیز میں آزر کو باپ کہہ کر پکارا گیا جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ارشاد ہے :
اَلْعَمُّ صِنْوُ اَبِیْہِ ” چچا باپ ہی کی طرح ہے۔ “
علامہ عبد الوہاب نجار کی رائے یہ ہے ٤ ؎ [30] کہ ان اقوال میں سے مجاہد کا قول قرین قیاس اور قابل قبول ہے اس لیے کہ مصریوں کے قدیم دیوتاؤں میں ایک نام ازوریس بھی آتا ہے جس کے معنی ” خدائے قوی و معین “ ہیں اور اصنام پرست اقوام کا شروع سے یہ دستور رہا ہے کہ قدیم دیوتاؤں کے نام ہی پر جدید دیوتاؤں کے نام رکھ لیا کرتے تھے ‘اس لیے اس بت کا نام بھی قدیم مصری دیوتا کے نام پر آزر رکھا گیا ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا۔
ہمارے نزدیک یہ تمام تکلّفات باردہ ہیں ‘اس لیے کہ قرآن عزیز نے جب صراحت کے ساتھ آزر کو ابِ ابراہیم (ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ) کہا ہے تو پھر محض علما انساب اور بائبل کے تخمینی قیاسات سے متاثرہ ہو
کر قرآن عزیز کی یقینی تعبیر کو مجاز کہنے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر
خواہ مخواہ قرآن عزیز میں نحوی مقدرات ماننے پر کون سی شرعی اور حقیقی ضرورت مجبور کرتی ہے ؟
برسبیل تسلیم اگر آزر عاشق صنم کو کہتے ہیں ‘یا بت کا نام ہے تب بھی بغیر تقدیر کلام اور بغیر کسی تاویل کے یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ ان ہر دو وجہ سے آزر کا نام آزر رکھا گیا جیسا کہ اصنام پرست اقوام کا قدیم سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ کبھی اپنی اولاد کا نام بتوں کا غلام ظاہر کر کے رکھتے تھے اور کبھی خود بت ہی کے نام پر نام رکھ دیا کرتے تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ ” آزار “ کالدی زبان میں بڑے پجاری کو کہتے ہیں اور عربی میں یہی ” آزر “ کہلایا۔تارخ چونکہ بت تراش اور سب سے بڑا پجاری تھا اس لیے ” آزر “ہی کے نام سے مشہور ہو گیا ‘حالانکہ یہ نام نہ تھا بلکہ لقب تھا اور جبکہ لقب نے نام کی جگہ لے لی تو قرآن عزیز نے بھی اسی نام سے پکارا۔
نیز جس مقدس انسان (ابراہیم (علیہ السلام)) کی اخلاقی بلندی کا یہ عالم ہو کہ جب بت پرستی کی مذمت کے سلسلہ میں آزر سے مناظرہ ہو گیا اور آزر نے زچ ہو کر یہ کہا :
{ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِیْ یٰٓاِبْرٰھِیْمُج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَ اھْجُرْنِیْ مَلِیًّا }
[31]
” (اے ابراہیم) کیا تو میرے خداؤں سے بیزار ہے تو اگر اس حرکت سے باز نہ آیا میں ضرور تجھ کو سنگسار کردوں گا اور جا میرے سامنے سے دور ہوجا۔ “
تو اس سخت گیر اور دل آزار گفتگو کے موقع پر بھی اس نے پدری رشتہ کی بزرگی کا احترام کیا ‘اور جواب میں صرف یہ فرمایا :
{ سَلٰمٌعَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا } [32]
” تجھ پر سلامتی ہو میں عنقریب تیرے لیے اپنے پروردگار سے بخشش چاہوں گا بلاشبہ وہ میرے ساتھ بہت مہربان ہے۔ “
اس ہستی سے یہ کیسے توقع ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے باپ آزر کو بیوقوف ‘پیر فرتوت اور اسی قسم کے تحقیر آمیز الفاظ کے ساتھ خطاب کرے ؟ پس بلاشبہ تاریخ کا تارخ ‘ آزر ہی ہے اور علم اسمی ہے نہ کہ علم و صفی اور تارخ یا غلط نام ہے یا آزر کا ترجمہ ہے جو تورات کے دوسرے اعلام کی طرح ترجمہ نہ رہا بلکہ اصل بن گیا۔
مراتشی سترہویں صدی کا ایک عیسائی عالم ہے اس نے قرآن عزیز کا ترجمہ کیا ہے اور قرآن عزیز پر نہایت رکیک اور متعصبانہ حملے کیے ہیں ‘اس نے اس موقع پر بھی عادت کے مطابق ایک مہمل اور لَچرْ اعتراض کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یوزبیوس کی تاریخ (کنیسہ) کی ایک عبارت میں یہ لفظ آیا ہے جس کو غلط صیغہ کے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن عزیز میں درج کر دیا۔
لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ مراتشی اپنے اس دعوے کے ثبوت میں نہ تاریخ کنیسہ کی وہ عبارت پیش کرتا ہے جس سے یہ لفظ ماخوذ بتایا گیا ہے اور نہ اس اصل لفظ ہی کا پتہ دیتا ہے کہ جس سے یہ غلط لفظ بنا لیا گیا اور نہ یہ بتلاتا ہے کہ آخر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس نقل کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ اس لیے یہ قطعاً بے دلیل اور بے سروپا بات ہے جو محض تعصب اور جہالت کی وجہ سے کہی گئی اور حق وہی ہے جو ہم نے ابھی واضح کیا۔
تورات اور تاریخ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک نسب کی جو کڑیاں شمار کرائی ہیں وہ درج ذیل ہیں ‘اس شجرہ نسب کی صحت و عدم صحت کا معاملہ قیاسی اور تخمینی رائے سے زیادہ نہیں ہے اس لیے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سلسلہ نسب کے متعلق اس یقین کے باوجود کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں ‘عدنان سے اوپر کی کڑیوں کے متعلق خود ذات اقدس کا یہ فیصلہ ہے کہ ” کَذَبَ النَّسَّابُوْنَ “ یعنی علمائے نسب نے ناموں کی تعیین میں غلط بیانی سے کام لیا ہے ‘ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک کا سلسلہ کس طرح اس کذب بیانی اور وضع سے پاک رہ سکتا ہے ؟
نام
باپ کا نام
بیٹے کی پیدائش کے وقت باپ کی عمر
سام
نوح (علیہ السلام)
٥٠٠
ارفخشد
سام
١٠٠
شالح
ارفخشد
٣٥
عابر
شالح
٣٠
فالج
عابر
٣٤
راعو
فالج
٣٠
سروج
راعو
٣٢
ناحور
سروج
٣٠
آزر (تارخ)
ناحور
٢٩
ابراہیم (علیہ السلام)
آزر (تارخ)
٧٠
٨٩٠ مجموعی مدت
ان اعدادو شمار کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک آٹھ سو نوے سال ہوتے ہیں اور جبکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کل عمر نو سو پچاس سال بتائی جاتی ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر کے ساٹھ سال پائے اور وہ دونوں اس مدت کے اندر معاصر رہے ہیں اور
یہ بلاشبہ بے سروپا بات اور قطعاً غلط اور مہمل ہے اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تورات کے یہ اعداد و شمار محض خود تراشیدہ کہانیوں اور حکایتوں
سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ قدیم زمانہ میں
یہود کے یہاں تاریخ کا باب اسی قسم کی حکایات و روایات پر قائم رہا ہے اور اس میں تاریخی حقائق اور زمانوں کے تضاد و اختلاف کا مطلق لحاظ و پاس نہیں رکھا گیا۔
مستشرقین یورپ کی ایک جماعت اسلام دشمنی میں ید طولیٰ رکھتی ہے اور بغض وعناد کی مشتعل آگ میں حقائق و واقعات تک کے انکار پر آمادہ ہوجاتی ہے چنانچہ اس قسم کے مواقع میں سے کہ جہاں قرآن عزیز کے خلاف بے دلیل ان کی تنقید کی تلوار چلتی رہتی ہے ایک موقع حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کا بھی ہے۔
دائرۃ المعارف الاسلامیہ ١ ؎[33] نے ونسنک کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے اسپرنگر نے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن میں ایک عرصہ تک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کعبہ کے بانی اور دین حنیف کے ہادی کی حیثیت سے روشنی میں نہیں آئی البتہ عرصہ دراز کے بعد ان کی شخصیت کو ان صفات کے ساتھ متصف ظاہر کیا گیا ہے اور ان کی ذات کی خاص اہمیت نظر آتی ہے ‘چونکہ یہ دعویٰ اپنی اجمالی تعبیر کے لحاظ سے ابھی تشنہ تکمیل تھا اس لیے ایک طویل زمانہ کے بعد اسپرنگر کے اس دعوے کو سنوگ ہیکرونیہ نے بڑے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا اور اپنے مزعومہ دلائل کے ذریعہ اس کو خاص آب و رنگ سے رنگین بنایا۔ اس نے کہا :
” قرآن پاک میں جس قدر مکی آیات اور سورتیں ہیں ان میں کسی ایک مقام پر بھی اسماعیل ((علیہ السلام)) کا ابراہیم ((علیہ السلام))کے ساتھ رشتہ نظر نہیں آتا اور نہ ان کو اول مسلمین بتایا گیا ہے بلکہ وہ صرف ایک نبی اور پیغمبر کی حیثیت میں نظر آتے ہیں ان کے تذکرہ کی ایک آیت بھی ایسی نہیں ملتی جو ان کو موسس کعبہ ‘اسماعیل (علیہ السلام) کا باپ ‘ عرب کا پیغمبر وہادی ‘ اور ملت حنیفی کا داعی ظاہر کرتی ہو ‘سورة الذاریات ‘ الحجر ‘ الصافات ‘ الانعام ‘ ہود ‘ مریم ‘انبیا اور عنکبوت جو سب مکی سورتیں ہیں۔ہمارے اس دعوے کی شاہد ہیں اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سر زمین عرب میں کوئی نبی نہیں آیا اور یہی پہلے شخص ہیں جنھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔
البتہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدنی زندگی شروع ہوتی ہے تو مدنی سورتوں میں (حضرت) ابراہیم ((علیہ السلام)) کے ذکر کے وقت یہ تمام خصوصیات نمایاں کی جاتی اور اہمیت کے ساتھ روشنی میں لائی جاتی ہیں۔
ایسا کیوں ہوا ؟ اور یہ اختلاف کیوں موجود ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکی زندگی میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تمام امور میں یہود پر اعتماد رکھتے اور انھیں کے طریقوں کو پسند فرماتے تھے ‘لہٰذا اس وقت تک ابراہیم ((علیہ السلام)) کی شخصیت کو بھی انھوں نے اسی نظر سے دیکھا جس نظر سے یہود دیکھتے تھے لیکن جب مدینہ پہنچ کر انھوں نے یہود کو اپنے مشن ” اسلام “ کی دعوت دی تو انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ‘اور وہ آپ کے دشمن ہو گئے۔اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فکر و تامل کیا اور خوب سوچا ‘آخر ان کی ذکاوت اور جودت طبع نے رہنمائی کی اور انھوں نے عرب کے لیے یہود کی یہودیت سے جدا ایک ایسے دین کی بنیاد ڈالی جس کو یہودیت ابراہیمی کہنا چاہیے ‘لہٰذا اس سلسلہ کی تکمیل کے لیے قرآن عزیز کی مدنی سورتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کو اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ ملت حنیفی کے داعی ‘عرب کے پیغمبر ‘ اسماعیل ((علیہ السلام)) کے والد ‘کعبہ کے موسس نظر آتے ہیں ‘ انتہیٰ ۔ “ ١ ؎
یہ ہے وہ دعویٰ اور اس کی دلیل جو اسپرنگر ‘ سنوک اور ونسنک جیسے اسلام
دشمن مستشرقین کی جانب سے محض اس لیے اختراع کیے گئے ہیں کہ اس قسم کی لچر بنیادوں پر مسیحیت کی برتری اور اسلام کی تحقیر کی عمارت تیار ہو سکے اور نیز یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق یہ ثابت کیا جائے کہ ان کا عرب کے ساتھ نہ نسلی تعلق ہے اور نہ دینی ‘ لیکن جب ایک مورخ اور ایک نقاد مستشرقین کے اس دعوے اور دعوے کے دلائل کو صرف
تاریخی اور تنقیدی حیثیت سے دیکھتا ہے تب بھی اس کو یہ صاف نظر آتا ہے کہ یہ جو کچھ کہا گیا ہے حقائق اور واقعات سے قصداً چشم پوشی کرکے محض عداوت اور بغض وعناد کی راہ سے بے دلیل کہا گیا ہے ‘ اس لیے کہ اس
سلسلہ میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ مکی سورتوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق وہ اوصاف نظر نہیں آتے جو مدنی آیات میں پائے جاتے ہیں ‘مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سر تا سر غلط بلکہ قصدو ارادہ کے ساتھ علمی بددیانتی ہے کہ مکی سورتوں میں سے صرف انہی کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فقط ایک پیغمبر کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے ‘لیکن وہ مکی سورت جو ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کو ہمہ حیثیت سے نمایاں کرنے کے لیے ان کے نام ہی سے معنون کرکے نازل کی گئی یعنی سورة ابراہیم اس کو نظر انداز کر دیا گیا تاکہ قرآن عزیز سے براہ راست فائدہ نہ اٹھاسکنے والے حضرات کے سامنے جہالت کا پردہ پڑا رہے اور ان کی کو رانہ تقلید میں وہ ان کے غلط دعوے کو صحیح سمجھتے رہیں۔
سورة ابراہیم مکی ہے ‘اس کی آیات کا نزول ہجرت سے قبل مکہ ہی میں ہوا ہے اور وہ حسب ذیل حقائق کا اعلان کرتی ہے :
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عرب (حجاز) کے اندر قیام پزیر ہیں اور خدا کے رسول کی حیثیت سے خود کو اور اپنی اولاد کو بت پرستی سے بچنے اور اس مقام کو امن عالم کا مرکز بنانے کی دعا کر رہے ہیں :
{ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ } [34]
” اے پروردگار اس شہر (مکہ) کو تو امن کا مرکز بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ۔ “
{ رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} [35]
” اے پروردگار بلاشبہ انھوں (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا پس جو شخص میری پیروی کرے وہ میری جماعت میں سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے پس بلاشبہ تو بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے۔ “
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اقرار کرتے ہیں کہ سرزمین حجاز (جو عرب کا قلب ہے) انھی کی اولاد سے آباد ہوئی اور انھوں نے ہی اس کو بسایا ہے اور وہی اس چٹیل میدان میں بیت الحرام (کعبہ) کے مؤسس ہیں : چٹیل میدان میں بیت الحرام (کعبہ) کے مؤسس ہیں :
{ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَ ارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ } [36]
” اے ہمارے پروردگار بیشک میں نے اپنی بعض ذریت کو اس بن کھیتی کی سرزمین میں تیرے گھر (کعبہ) کے نزدیک آباد کیا ہے ‘ اے ہمارے پروردگار یہ اس لیے تاکہ وہ نماز قائم کریں پس تو لوگوں میں سے کچھ کے دل اس طرف پھیر دے کہ وہ (اس کعبہ کی بدولت) ان کی جانب مائل ہوں اور ان کو پھلوں سے رزق عطا کر تاکہ یہ شکر گزار بنیں۔ “
" حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق (علیہا السلام) کے والد ہیں اور یہی اسماعیل (علیہ السلام) اہل عرب کے باپ ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ملت حنیفی کے شعار ” صلوٰۃ “ کی اقامت کی دعا کر رہے ہیں :
{ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَط اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ۔رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْق صلے رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِ ۔رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔ } [37]
” سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھ کو بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق بخشے ‘ بلاشبہ میرا پروردگار ضرور دعا کا سننے والا ہے ‘اے پروردگار مجھ کو اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دے ‘اے ہمارے پروردگار ہماری دعا سن ‘ اے ہمارے پروردگار تو مجھ کو اور میرے والدین کو اور کل مومنوں کو قیام حساب (قیامت) کے روز بخش دے۔ “
ان آیات کا مطالعہ کرنے کے بعد کیا ایک لمحہ کے لیے بھی کسی شخص کو یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ ان لغو اور بے سروپا دعو وں کی تصدیق کرے جن کو مستشرقین یورپ نے اپنی جہالت یا ارادی جھوٹ کے ساتھ علمی تنقید کا عنوان دیا ہے ‘کیا یہ آیات مکی نہیں ہیں ‘ اور کیا ان سے وہ سب کچھ ثابت نہیں ہوتا جو مدنی آیات میں مذکور ہے ؟
اسی طرح سورة ابراہیم کے علاوہ سورة انعام اور سورة النحل بھی مکی سورتیں ہیں ان میں بصراحت موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شرک کے مقابلہ میں ملت حنیفی کے داعی ہیں اور ان کی شخصیت اس دعوت میں بہت نمایاں اور ممتاز ہے۔
{ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [38]
” بلاشبہ میں اپنے چہرہ کو اسی ذات کی طرف جھکاتا ہوں جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں۔
{ قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ٥ ج دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاط وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [39]
” (اے محمد) کہہ دو بلاشبہ مجھ کو میرے رب نے سیدھی راہ کی ہدایت کی ہے جو کج مج راہ سے الگ صاف اور سیدھا دین ہے ‘ملت ہے ابراہیم کی جو تھے ایک خدا کی طرف جھکنے والے اور نہ تھے وہ مشرکوں میں سے۔ “
{ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًاط وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [40]
” بیشک ابراہیم تھا راہ ڈالنے والا حکم بردار ‘صرف ایک خدا کی طرف جھکنے والا اور نہ تھا وہ شرک کرنے والوں میں سے۔ “
{ ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاط وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ }
[41]
” پھر وحی کی ہم نے تیری جانب (اے محمد )اس بات کی کہ تو پیروی کر اس ابراہیم کی ملت کی جو صرف خدائے واحد کی جانب جھکنے والا ہے اور نہیں ہے۔ مشرکوں میں سے۔ “
تو کیا ان واضح آیات کے بعد بھی ان دلائل کو دلائل کہنا کوئی حقیقت رکھتا ہے جو اس سلسلہ میں سنوک اور اس کے ہم نواؤں نے بیان کیے ہیں ؟ مکی سورتیں ہوں یا مدنی دونوں جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت ایک
ہی طرح نمایاں نظر آتی ہے ‘وہ دونوں حالتوں میں ملت حنیفی کے داعی ‘حضرتِ اسماعیل (علیہ السلام) اور عرب کے باپ ‘کعبہ کے موسس و بانی اور عرب کے ہادی ہیں ‘اور اس لیے مستشرقین یورپ کا یہ کہنا ہے کہ ابراہیم ((علیہ السلام)) کی شخصیت قرآن عزیز کی مکی اور مدنی آیات میں دو جدا جدا صورتوں میں نظر آتی ہے کذب اور صریح بہتان ہے نیز یہ بھی خلاف واقعہ ہے کہ عرب میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ نبوت سے قبل کوئی بھی پیغمبر نہیں گذرا ‘اس لیے کہ ابراہیم و اسماعیل اور ہود و صالح (علیہم السلام) اسی سرزمین کے ہادی و پیغمبر ہیں۔ان مدعیان علم کو تعصب نے ایسا نادان بنادیا کہ قرآن اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کرتے وقت یہ بھی خیال نہ رہا کہ اس قسم کے دعوے سے ہم صرف قرآن ہی کی نہیں بلکہ بائبل (تورات) کی بھی تکذیب کر رہے ہیں ‘ اس لیے کہ تورات میں تصریح ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں اور اسماعیل (علیہ السلام) ہی عرب کے باپ ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کی اسی اولاد سے حجاز کی سرزمین آباد ہوئی اور یہ دونوں باپ بیٹے عرب کی نمایاں شخصیتیں ہیں۔
نیز یہ الزام بھی قطعاً بے بنیاد اور لغو ہے کہ ” مکہ “کی زندگی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود اور ان کے مذہبی امور کی تقلید کی اور جب مدینہ پہنچ کر یہود کے انکار اور ان کے مخالفانہ جذبہ کو دیکھا تو
یہود سے الگ ایک نئی یہودیت کی بنیاد ڈالی اور اس کو ملت ابراہیمی کالقب دیا اس لیے کہ مکہ کی زندگی میں تو یہود سے آپ کا سابقہ ہی نہیں پڑا تو پھر مخالفت و موافقت یا اتباع کا سوال ہی کیا ‘البتہ مدینہ آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے مقابلہ میں یہود کی جانب زیادہ توجہ فرمائی اور یہ اس لیے کہ وہ اسلام کے عقیدہ کے مطابق دین موسوی کے پیرو تھے اگرچہ اس میں تحریف ہو چکی تھی مگر وہ مشرکین کے خلاف توحید کے قائل تھے اور ان کی محرف کتابوں میں تحریف کے بعد بھی بہت سے جملے ایسے موجود تھے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور رسالت کے شاہد اور گواہ ہیں اور ان سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بشارات نکلتی ہیں ‘ نیز بہت سے وہ احکام بھی موجود تھے جو صحیح معنی میں وحی الٰہی کی حیثیت رکھتے ہیں اور دین موسوی کی اساس و بنیاد رہے ہیں اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیال تھا کہ یہ مشرکین کے مقابلہ میں جلد ہی ملت ابراہیمی یعنی اسلام قبول کر لیں گے ‘لیکن جب آپ نے ان کے انکار ‘ بغض و حسد کا تجربہ کر لیا تو پھر ان کے ساتھ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ وہی ہو گیا جو مشرکین کے ساتھ تھا اور بہ مصداق اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ (کفر سب ایک ملت ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو ایک ہی حیثیت میں رکھا۔
اسپرنگر سنوک اور ان کے ہم نوا اتنی صاف بات سمجھنے سے بھی قاصر ہیں یا عمداً سمجھنا نہیں چاہتے کہ جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسرائیل (یعقوب) (علیہ السلام) کے دادا تھے اور یہود اپنے دین کی نسبت
حضرت اسرائیل (علیہ السلام) کی جانب کرتے اور بنی اسرائیل ہونے کی حیثیت سے اس پر فخر کرتے تھے تو ان کا یہ کہنا کہ ابراہیم (علیہ السلام) بھی یہودی تھے کس قدر مضحکہ خیز تھا ‘ کیا پوتے کے دین کے متعلق کسی طرح یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ عرصہ دراز کے گذرے ہوئے دادا کا دین پوتے کے دین کے تابع تھا ؟
پس اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے قرآن عزیز نے یہ اعلان کیا :
{ مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا } [42]
” ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی البتہ وہ تھے ایک خدا کی جانب جھکنے والے مسلمان۔ “
مگر ان کور چشموں نے اس کے معنی یہ لیے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تو یہود کے دین پر تھے لیکن مدینہ جا کر جب یہود نے ان کو پیغمبر ماننے سے انکار کر دیا تو یہود کے دین کے مقابلہ میں ذکاوت طبع سے یہودیت ابراہیمی ایجاد کرلی۔ { سُبْحٰنَکَ ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ}
[43] سنوک اور اس کے ہم نواؤں نے اس دعویٰ کی دلیل میں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے عرب میں کوئی پیغمبر نہیں گذرا ‘ قرآن عزیز کی اس آیت کو بھی پیش کیا ہے :
{ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰھُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ } [44]
” تاکہ تو (اے محمد) ڈرائے ایسی قوم کو کہ نہیں آیا ان کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا۔ “
وہ کہتے ہیں کہ اگر ابراہیم و اسماعیل (علیہا السلام) عرب کے پیغمبر ہوتے تو قرآن عزیز امت عربیہ کے متعلق اس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب نہ کرتا۔
مگر یہ بھی ایک سخت مغالطہ ہے جو قرآن عزیز کے طرز خطابت ‘ اسلوب بیان اور باطل پرستوں کی باطل پرستی کے خلاف دلائل کی ترتیب سے ناواقفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے یا گذشتہ اعتراضات کی طرح محض بغض وعناد کی خاطر اختیار کیا گیا ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ عرب کا بہت بڑا حصہ بت پرستی میں مبتلا تھا ‘ اور اس سلسلہ میں انھوں نے عقائد اور دین کے نام سے کچھ احکام مرتب کر رکھے تھے ‘ مثلاً دیوتاؤں کی نذر اور قربانی کے لیے سائبہ ‘ بحیرہ اور وصیلہ کی ایجاد ‘ اور مختلف بتوں کی پرستش کے مختلف قواعد و ضوابط وغیرہ ‘ اس لیے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو توحید اور اسلام کی دعوت دی اور شرک اور بت پرستی سے روکا تو وہ کہنے لگے کہ تمھارا یہ کہنا کہ ہم بددین ہیں اور ہمارا کوئی الہامی دین نہیں ‘ غلط ہے ہم تو خود مستقل دین رکھتے ہیں اور وہ ہمارے باپ دادا کا قدیمی دین ہے۔
{ قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْھَآ اٰبَآئَنَا وَ اللّٰہُ اَمَرَنَا بِھَا } [45]
” مشرکین نے کہا ہم نے اسی (بت پرستی) پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور اللہ نے ہم کو اسی کا حکم دیا ہے۔ “
تب قرآن عزیز نے ان کے باطل عقائد کی حقیقت کو ان پر واضح کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان کو بتایا جائے کہ کسی دین کے خدائی دین ہونے کے لیے دو ہی قسم کے دلائل ہو سکتے ہیں ‘ یا حسی اور عقلی راہ سے یہ واضح ہوجائے کہ یہ خدا کا دین اور اس کا مرغوب مذہب ہے ‘ اور یا نقلی روایات اس کا قطعی ‘یقینی اور ناقابل انکار ثبوت پیش کرتی ہوں کہ یہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعت ہے اور اگر یہ دونوں راہیں کسی دعوے کے لیے بند ہیں تو وہ دعویٰ باطل اور اس کا مدعی کاذب ہے۔
لہٰذا قرآن عزیز نے مشرکین کے اس دعوے کی تردید کے لیے آیاتِ قرآنی کے تین حصے کردیے ‘ایک حصہ میں ان کے اس دعوے کا انکار اور دعوے کی غیر معقولیت کا اظہار کیا اور بتایا کہ مشرکین کا یہ کہنا کہ اَللّٰہُ اَمَـرَنَا
بِھَا ” ہم کو خدا نے ایسا (شرک) کرنے ہی کا حکم دیا ہے “ بالکل غلط اور سرتاسر باطل ہے اس لیے کہ :
{ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِط اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ } [46]
” بلاشبہ اللہ تعالیٰ بیہودہ خرافات کا حکم نہیں دیا کرتا (اے مشرکین) کیا تم اللہ کے ذمہ وہ باتیں لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے۔ “
اور دوسرا حصہ ان کے باطل دعوے پر حسی اور عقلی سند کے مطالبہ سے متعلق کیا اور بتایا کہ وہ عقل سے یہ فتویٰ صادر کریں کہ جو کچھ خدا کے ساتھ انھوں نے غلط نسبتیں قائم کر رکھی ہیں اور جن پر ان کے مزعومہ دین کی بنیاد قائم ہے وہ کس طرح صحیح اور اہل عقل کے نزدیک قابل تسلیم ہیں ؟ وہ کہتا ہے :
{ فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّکَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ ۔ اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّہُمْ شَاہِدُوْنَ۔اَلَا اِنَّہُمْ مِّنْ اِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ ۔ وَلَدَ اللّٰہُلا وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ ۔اَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ ۔مَا لَکُمْقف کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ۔ اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ۔ } [47]
” پس (اے محمد) تم ان سے دریافت کرو کیا تمھارے پروردگار کے لیے لڑکیاں ہیں اور ان کے لیے لڑکے ‘کیا ہم نے فرشتوں کو لڑکیاں بنایا اور وہ اس وقت موجود تھے ‘خبردار بلاشبہ یہ سب ان کی بہتان طرازی ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے بلاشبہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں (یہ کہتے ہیں کہ خدا نے)اپنے لیے بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیوں کو پسند کر لیا ہے
(اے مشرکین) تم کو کیا ہوا ‘ یہ تم کیسا (جھوٹا) حکم کرتے ہو ‘پس کیا تم نصیحت نہ حاصل کرو گے ؟ “
اور تیسرا حصہ ان کے باطل عقیدوں کے متعلق نقلی سند کے مطالبہ سے وابستہ کیا ‘ قرآن عزیز ان سے سوال کرتا ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اور اس کو خدا کا دین بتا رہے ہو تو کیا تمھارے پاس اس کے لیے خدا کی جانب سے کوئی حجت اور دلیل نازل ہوئی ہے یا اس کے پاس سے ان عقائد کی صداقت کے لیے کوئی کتاب بھیجی گئی ہے اگر ایسا ہے تو پیش کرو ؟
{ اَمْ لَکُمْ سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ ۔ فَاْتُوْا بِکِتٰبِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ۔ } [48]
” کیا تمھارے پاس کوئی ظاہر حجت اور صاف دلیل ہے ؟ پس تم اپنی (خدا کی جانب سے نازل شدہ) وہ کتاب لاؤ ‘ اگر تم سچے ہو ؟ “
اب اگر ان کے اپنے دعوے کی صداقت کے لیے ان کے پاس نہ کوئی حسی وعقلی دلیل ہے اور نہ نقلی سند کے طور پر کوئی حجت و کتاب ‘تو پھر ان کا یہ دعویٰ کہ ان کے پاس محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سے خدا کا دین موجود ہے اور اس کی منضبط شریعت بھی۔ بالکل غلط اور باطل دعویٰ ہے۔اسی طرح مشرکین پر یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ تمھارے پاس اپنے دعوائے باطل کے سلسلہ میں نہ عقلی سند ہے اور نہ نقلی اور ان کو لاجواب بنانے کے لیے سورة احقاف میں بھی یہی طریق استدلال اختیار کیا گیا ہے :
{ قُلْ اَرَئَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِط اِیْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَا اَوْ اَثَارَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ } [49]
” تم مجھے بتاؤ کہ اللہ کے ماسوا جن کو تم پوجتے ہو مجھے دکھلاؤ کہ انھوں نے زمین سے کیا بنایا ‘ یا کیا ان کی آسمانوں میں (اللہ کے ساتھ) کوئی شرکت ہے ‘اس سے پہلی کوئی کتاب اگر تمھارے پاس ہے (جو اس دعویٰ کی تصدیق کرتی ہو) تو وہ لے آؤ ‘یا علم (اولین میں سے کوئی بقیہ علم) تمھارے پاس ہو تو پیش کرو۔ “
یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک دوسرے پیرا یہ میں قرآن عزیز کی ان آیات میں بیان کیا گیا ہے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرکین عرب کے پاس محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ‘ان آیات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سرزمین عرب (حجاز) ہمیشہ سے خدا کے نبی اور پیغمبر کے وجود سے محروم ہے اور اس ملک میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سب سے پہلی آواز ہے ‘قرآن عزیز ایسی خلاف حقیقت بات کس طرح کہہ سکتا تھا جبکہ سورة ابراہیم ‘ الانعام اور النمل کی آیات میں حضرت ابراہیم واسمٰعیل (علیہا السلام) کے عربی نبی ہونے کی صاف اور صریح شہادتیں موجود ہیں جو ابھی نقل کی جا چکی ہیں بلاشبہ قرآن عزیز اس قسم کے تضاد اور اختلاف سے قطعاً بری ہے کہ ایک جگہ وہ ایک بات کا انکار کرے اور دوسری جگہ اسی بات کا اقرار ‘اس لیے کہ وہ خدائے عالم الغیب والشہادۃ کا کلام ہے نہ کہ بھول چوک کرنے والے انسان کا کلام :
{ اَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَط وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا } [50]
” کیا انھوں نے قرآن عزیز پر غور نہیں کیا اور اگر وہ ہوتا اللہ کے سوا کسی اور کا کلام تو ضرور پاتے اس میں بہت سا اختلاف۔ “
لہٰذا قرآن عزیز کے خلاف سنوگ ‘اسپر نگر اور ونسنک کے یہ تمام دعاوی اور ان کے دلائل تاریخی حقائق اور واقعات کی روشنی میں قطعاً باطل اور افترا ہیں اور ان کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اور اس قسم کے دوسرے ناقدین قرآن عزیز پر علمی دیانت کے ساتھ تنقید نہیں کرتے اور نہ ان کی فہم اور سمجھ کا قصور ہے بلکہ اس کے برعکس وہ علمی بددیانتی سے کام لے کر قرآن کے خلاف زہر اگلتے ‘غلط الزام قائم کرتے ‘ اور صریح اور واضح مسائل میں اپنے پیش نظر مقاصد کے مطابق گنجلک پیدا کرکے ناواقف دنیا کو گمراہ کرتے ہیں ‘ بلکہ اس قسم کے الزامات سے ان کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے جس کو قرآن عزیز نے اس قسم کے معاندین کے لیے ایک مستقل قانون کی طرح واضح کر دیا ہے :
{ وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً } [51]
” یہ (منکرین قرآن و اسلام) یہ خواہش رکھتے ہیں کہ کاش تم بھی ان کی طرح منکر بن جاؤ تاکہ وہ اور تم سب یکساں ہوجائیں۔ “
اس لیے ان منکر ین (کافروں) کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ہمیشہ ایک ہی جواب رہا ہے :
{ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا } [52]
” اے پروردگار ہمارے دلوں کو ہدایت یافتہ اور راہ یاب کرنے کے بعد کجی کی جانب مت مائل کرنا۔ “
بہرحال قرآن حکیم کی مسطورہ بالا زیربحث آیت کا مطلب صاف اور واضح ہے اور اس کے درمیان اور الانعام ‘النحل اور ابراہیم جیسی سورتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پیغمبر عرب ہونے کے درمیان قطعاً کوئی تضاد اور
اختلاف نہیں ہے۔
اس پیش کردہ تفصیل و تشریح کے علاوہ عام مفسرین نے اس قسم کی آیات کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ خطاب صرف انھی لوگوں سے متعلق ہے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی مبارک میں موجود تھے۔ان کے گذشتہ آباء و اجداد اور گذشتہ تاریخ عرب سے اس خطاب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
قرآن عزیز کے رشد و ہدایت کا پیغام چونکہ ملت ابراہیمی کا پیغام ہے اس لیے اس نے جگہ جگہ حضرت ابراہیم کا ذکر کیا ہے اور جیسا کہ گذشتہ سطور میں کہا جا چکا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر مکی اور مدنی دونوں قسم کی سورتوں میں موجود ہے مندرجہ ذیل جدول ان تمام سورتوں اور آیتوں کو ظاہر کرتی ہے :
البقرۃ
١٢٤‘ ١٢٥‘ (٢ مرتبہ) ١٢٦‘ ١٢٧‘ ١٣٠‘١٣٢ ١٣٣‘ ١٣٥‘ ١٣٦‘ ١٤٠‘ ٢٥٨ (٣ مرتبہ) ‘ ٢٦٠
آل عمران
٣٣‘ ٦٥‘ ٦٧‘ ٦٨‘ ٨٤‘ ٩٥‘ ٩٧
النساء
٥٤‘ ١٢٥‘ (٢ مرتبہ) ١٦٣
الانعام
٧٤‘ ٧٥‘ ٨٣‘ ١٦١
التوبہ
٧٠‘ ١١٤ (٢ مرتبہ)
ھود
٦٩‘ ٧٤‘ ٧٥‘ ٧٦
ابراہیم
٣٥
النحل
١٢٠‘ ١٢٣
الانبیاء
٥١‘ ٦٠‘ ٦٢‘ ٦٩
الشعراء
٦٩
الاحزاب
٧
صٓ
٤٥
الزخرف
٢٦
النجم
٣٧
الممتحنہ
٤ (٢ مرتبہ)
یوسف
٦‘ ٣٨
الحجر
٥١
مریم
٤١‘ ٤٦‘ ٥٨
الحج
٢٦‘ ٤٣‘ ٧٨
العنکبوت
١٦‘ ٣١
الصافات
٨٣‘ ١٠٤‘ ١٠٩
الشوریٰ
١٣
الذاریات
٢٤
الحدید
٢٦
الاعلیٰ
١٩
مجموعہ
٢٥ سورت
٦٩ آیات
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے ساتھ دوسرے چند انبیا (علیہم السلام) کے واقعات بھی وابستہ ہیں مثلاً حضرت لوط (علیہ السلام) کا واقعہ اس لیے کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے بھی ہیں اور ان کے پیرو بھی۔ اسی طرح ان کے صاحبزادوں حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق (علیہا السلام) کے واقعات ‘ اس لیے کہ اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر چھیاسی سال ١ ؎ تھی اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت ان کی عمر پورے سو سال تھی ٢ ؎ اور حضرت ابراہیم
(علیہ السلام) کی کل عمر ایک سو پچھتّر سال ہوئی ٣ ؎ لیکن ان تینوں پیغمبروں کے تفصیلی واقعات مستقل عنوان میں درج کیے جائیں گے اور یہاں صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے ضمن میں کہیں کہیں ذکر آئے گا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس عظمت شان کے پیش نظر جو انبیا ورسل کے درمیان ان کو حاصل ہے قرآن عزیز نے ان کے واقعات کو مختلف اسلوب کے ساتھ جگہ جگہ بیان کیا ہے ‘ ایک مقام پر اگر اختصار کے ساتھ ذکر ہے تو دوسری جگہ تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے اور بعض جگہ مختلف شوؤن اور اوصاف کے پیش نظر ان کی شخصیت کو نمایاں کیا ہے۔ اس لیے مناسب ترتیب کے ساتھ ان کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے مناسب ترتیب کے ساتھ ان کو پیش کیا جاتا ہے۔ تورات یہ بتاتی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے قصبہ ” اُر “ کے باشندے اور اہل فدان میں سے تھے ٤ ؎ اور ان کی قوم بت پرست تھی اور انجیل برناباس میں تصریح ہے کہ ان کے والد نجاری کا پیشہ کرتے اور اپنی قوم کے مختلف قبائل کے لیے لکڑی کے بت بناتے اور فروخت کیا کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو شروع ہی سے حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت عطا فرمائی تھی اور وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ بت نہ سن سکتے ہیں ‘ نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کسی کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں ‘ اور نہ نفع و نقصان کا ان سے کوئی واسطہ ‘اور نہ لکڑی کے کھلونوں اور دوسری بنی ہوئی چیزوں کے اور ان کے درمیان کوئی فرق و امتیاز ہے ‘ وہ صبح وشام آنکھ سے دیکھتے تھے کہ ان بے جان مورتیوں کو میرا باپ اپنے ہاتھوں سے بناتا اور گھڑتا رہتا ہے اور جس طرح اس کا جی چاہتا ہے ‘ ناک ‘ کان ‘ آنکھیں اور جسم تراش لیتا اور پھر خریدنے والوں کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے تو کیا یہ خدا ہو سکتے ہیں یا خدا کے مثل و ہمسر کہے جا سکتے ہیں ؟حاشاوکلا ‘ پس بعثت سے سرفراز ہو کر سب سے پہلے انھوں نے اسی طرف توجہ فرمائی۔ [53] [54] [55] [56]
قرآن عزیز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس حقیقت بیں اور بصیرت افروز رشد و ہدایت کا اس طرح ذکر کرتا ہے :
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّابِہٖ عٰلِمِیْنَ۔ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَ قَوْمِہٖ مَا ھٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَھَا عٰکِفُوْنَ ۔ قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَآئَنَا لَھَا عٰبِدِیْنَ ۔ قَالَ لَقَدْ کُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔ قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ ۔ قَالَ بَلْ رَّبُّکُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَھُنَّزصلے وَ اَنَا عَلٰی ذٰلِکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ۔ } [57]
” اور بلاشبہ ہم نے ابراہیم کو اول ہی سے رشد و ہدایت عطا کی تھی ‘ اور ہم اس کے (معاملہ کے) جاننے والے تھے۔ ‘ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا ” یہ مجسّمے کیا ہیں جن کو تم لیے بیٹھے ہو “ کہنے لگے ” ہم نے اپنے باپ ‘ دادا کو انھی کی پوجا کرتے پایا ہے “ ابراہیم نے کہا ” بلاشبہ تم اور تمھارے باپ ‘ دادا کھلی گمراہی میں ہیں “ انھوں نے جواب دیا ” کیا تو ہمارے لیے کوئی حق لایا ہے یا یوں ہی مذاق کرنے والوں کی
طرح کہتا ہے “ ابراہیم نے کہا ”(کہ یہ بت تمھارے رب نہیں ہیں) بلکہ تمھارا پروردگار زمینوں اور آسمانوں کا پروردگار ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اور میں اسی بات کا قائل ہوں۔ “
اور جب کہ اس جلیل القدر ہستی پر اللہ تعالیٰ کے جود و کرم اور عطاء ونوال کا فیضانِ بے غایت و بے نہایت سرعت رفتار کے ساتھ ہو رہا تھا تو اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس نے انبیا (علیہم السلام) کی صف میں نمایاں جگہ پائی
اور اس کی دعوت و تبلیغ کا محور و مرکز ” دینِ حنیف “ قرار پایا۔
اس نے جب یہ دیکھا کہ قوم بت پرستی ‘ ستارہ پرستی ‘اور مظاہر پرستی میں اس قدر منہمک ہے کہ خدائے برتر کی قدرت مطلقہ اور اس کی احدیت و صمدیت کا تصور بھی ان کے قلوب میں باقی نہیں رہا اور ان کے لیے خدا کی وحدانیت کے عقیدہ سے زیادہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی ‘ تب اس نے کمر ہمت چست کی اور ذات واحد کے بھروسا پر ان کے سامنے دین حق کا پیغام رکھا اور اعلان کیا :
” اے قوم۔ یہ کیا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش میں مشغول ہو ‘کیا تم اس قدر خواب غفلت میں ہو جس بے جان لکڑی کو اپنے آلات سے گھڑ کر مجسمے تیار کرتے ہو اور اگر وہ مرضی کے مطابق نہ بنے تو ان کو توڑ کر دوسرے بنا لیتے ہو ‘بنا لینے کے بعد پھر انھی کو پوجنے اور نفع و ضرر کا مالک سمجھنے لگتے ہو ‘ تم اس خرافات سے باز آؤ ‘خدا کی توحید کے نغمے گاؤ ‘ اور اسی ایک مالک حقیقی کے سامنے سر نیاز جھکاؤ جو میرا ‘ تمھارا اور کل کائنات کا خالق و مالک ہے۔ “
مگر قوم نے اس کی آواز پر مطلق کان نہ دھرا اور چونکہ گوش حق نیوش اور نگاہ حق بیں سے محروم تھی۔اس لیے اس نے جلیل القدر پیغمبر کی دعوت حق کا مذاق اڑایا اور زیادہ سے زیادہ تمر دو سرکشی کا مظاہرہ کیا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے کہ شرک کا سب سے بڑا مرکز خود ان کے اپنے گھر میں قائم ہے اور آزر کی بت سازی و بت پرستی پوری قوم کے لیے مرجع و محور بنی ہوئی ہے۔
اس لیے فطرت کا تقاضا ہے کہ دعوت حق اور پیغام صداقت کے ادائے فرض کی ابتدا گھر ہی سے ہونی چاہیے اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے والد ” آزر “ ہی کو مخاطب کیا اور فرمایا :
اے باپ خدا پرستی اور معرفت الٰہی کے لیے جو راستہ تو نے اختیار کیا ہے اور جس کو آباء و اجداد کا قدیم راستہ بتلاتا ہے یہ گمراہی اور باطل پرستی کی راہ ہے ‘ اور صراط مستقیم اور راہ حق صرف وہی ہے جس کی دعوت میں دے رہا ہوں ‘ اے باپ توحید ہی سرچشمہ نجات ہے نہ کہ تیرے ہاتھ کے بنائے ہوئے ان بتوں کی پرستش و عبادت ‘ اس راہ کو چھوڑ اور توحید حق کی راہ کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرتا کہ تجھ کو خدا کی رضا اور دنیا و آخرت کی سعادت حاصل ہو۔
مگر افسوس کہ آزر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس پند و نصیحت کا مطلق کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ قبول حق کی بجائے آزر نے بیٹے کو دھمکانا شروع کیا ‘ کہنے لگا کہ ابراہیم اگر تو بتوں کی برائی سے باز نہ آئے گا تو میں تجھ کو سنگسار کر دوں گا۔حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ معاملہ اب حد سے آگے بڑھ گیا اور ایک جانب اگر باپ کے احترام کا مسئلہ ہے تو دوسری جانب ادائے فرض ‘ حمایت حق اور اطاعت امر الٰہی کا سوال تو انھوں نے سوچا اور آخر وہی کیا جو ایسے برگزیدہ انسان اور اللہ کے جلیل المرتبت پیغمبر کے شایان شان تھا ‘ انھوں نے باپ کی سختی کا جواب سختی سے نہیں دیا‘ تحقیر و تذلیل کا رویہ نہیں بر تا بلکہ نرمی ‘ ملاطفت اور اخلاق کریمانہ کے ساتھ یہ جواب دیا ‘ اے باپ اگر میری بات کا یہی جواب ہے تو آج سے میرا تیرا سلام ہے ‘ میں خدا کے سچے دین اور اس کے پیغام حق کو نہیں چھوڑ سکتا ‘ اور کسی حال میں بتوں کی پرستش نہیں کرسکتا ‘ میں آج سے تجھ سے جدا ہوتا ہوں ‘ مگر غائبانہ تیرے لیے درگاہ الٰہی میں بخشش طلب کرتا رہوں گا تاکہ تجھ کو ہدایت نصیب ہو اور تو خدا کے عذاب سے نجات پائے۔
سورة مریم میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ ٥ ط اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآئَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا یٰٓاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِیْ یٰٓاِبْرٰھِیْمُج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَ اھْجُرْنِیْ مَلِیًّا قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا وَ اَعْتَزِلُکُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْزصلے عَسٰٓی اَ لَّآ اَکُوْنَ بِدُعَآئِ رَبِّیْ شَقِیًّا } [58]
” اور (اے پیغمبر ) ” الکتاب “ میں ابراہیم کا ذکر کر ‘ یقیناً وہ مجسم سچائی تھا اور اللہ کا نبی تھا ‘ اس وقت کا ذکر جب اس نے اپنے باپ سے کہا ”اے میرے باپ تو کیوں ایک ایسی چیز کی پوجا کرتا ہے جو نہ تو سنتی ہے نہ دیکھتی ہے ‘ نہ تیرے کسی کام آسکتی ہے ؟ اے میرے باپ میں سچ کہتا ہوں علم کی ایک روشنی مجھے مل گئی ہے جو تجھے نہیں ملی ‘ پس میرے پیچھے چل ‘ میں تجھے سیدھی راہ دکھاؤں گا ‘ اے میرے باپ شیطان کی بندگی نہ کر ‘ شیطان تو خدائے رحمن سے نافرمان ہو چکا ‘اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو خدائے رحمن کی طرف سے کوئی عذاب تجھے گھیرلے ‘ اور تو شیطان کا ساتھی ہو جائے “
باپ نے (یہ باتیں سن کر ) کہا ” ابراہیم کیا تو میرے معبود سے پھر گیا ہے ؟ یاد رکھ اگر تو ایسی باتوں سے باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر کے چھوڑدوں گا ‘ اپنی خیر چاہتا ہے تو جان سلامت لے کر مجھ سے الگ ہوجا۔ “
ابراہیم نے کہا ” اچھا میرا سلام قبول ہو (میں الگ ہوجاتا ہوں) اب میں اپنے پروردگار سے تیری بخشش کی دعا کروں گا ‘ وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ میں نے تم سب کو چھوڑا اور انھیں بھی جنھیں تم اللہ کے سوا پکارا کرتے ہو ‘ میں اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں ‘ امید ہے اپنے پروردگار کو پکار کے میں محروم ثابت نہیں ہوں گا۔ “
اور سورة انعام میں آزر کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے :
{ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَۃًج اِنِّیْٓ اَرٰکَ وَ قَوْمَکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } [59]
” اور (وہ وقت یاد کر) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا ” کیا ٹھہراتا ہے تو بتوں کو خدا ‘ میں تجھ کو اور تیری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ “
باپ اور بیٹے کے درمیان جب اتفاق کی کوئی صورت نہ بنی اور آزر نے کسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی رشدو ہدایت کو قبول نہ کیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آزر سے جدائی اختیار کرلی اور اپنی دعوت حق اور پیغام رسالت کو وسیع کر دیا اور اب صرف آزر ہی مخاطب نہ رہا بلکہ پوری قوم کو مخاطب بنا لیا۔ مگر قوم اپنے باپ دادا کے دین کو کب چھوڑنے والی تھی ‘ اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک نہ سنی اور دعوت حق کے سامنے اپنے باطل معبودوں کی طرح گونگے ‘ اندھے اور بہرے بن گئے۔
ان کے کان موجود تھے مگر حق کی آواز کے لیے بہرے تھے ‘ پتلیاں آنکھوں کے حلقوں میں زندہ انسان کی آنکھوں کی طرح حرکت ضرور کرتی تھیں مگر حق کی بصارت سے محروم تھیں ‘ زبان گویا ضرور تھی لیکن کلمہ حق کے اعتبار سے گنگ تھی :
{ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَاز وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَاز وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَاط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ } [60]
” ان کے دل ہیں پر سمجھتے نہیں ‘ ان کی آنکھیں ہیں پر دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں ‘ یہ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں ‘ یہی ہیں جو غفلت میں سرشار ہیں۔ “
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے زیادہ زور دے کر پوچھا کہ یہ تو بتاؤ کہ جن کی تم پرستش کرتے ہو یہ تم کو کسی قسم کا بھی نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟ تو کہنے لگے کہ ان باتوں کے جھگڑے میں ہم پڑنا نہیں چاہتے ‘ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا یہی کرتے چلے آئے ہیں لہٰذا ہم بھی وہی کر رہے ہیں۔
تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک خاص انداز سے خدائے واحد کی ہستی کی جانب توجہ دلائی ‘ فرمانے لگے ‘ میں تو تمھارے ان سب بتوں کو اپنا دشمن جانتا ہوں یعنی میں ان سے بے خوف و خطر ہو کر ان سے اعلان جنگ کرتا ہوں ‘ کہ اگر یہ میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں تو اپنی حسرت نکال لیں۔
البتہ میں صرف اس ہستی کو اپنا مالک سمجھتا ہوں جو تمام جہانوں کی پروردگار ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا اور راہ راست دکھائی ‘ جو مجھ کو کھلاتا پلاتا یعنی رزق دیتا ہے ‘ اور جب میں مریض ہوجاتا ہوں تو جو مجھ کو شفا بخشتا ہے اور جو میری زیست وموت دونوں کا مالک ہے اور اپنی خطاکاری کے وقت جس سے یہ طمع کرتا ہوں کہ وہ قیامت کے روز مجھ کو بخش دے اور میں اس کے حضور میں یہ دعا کرتا رہتا ہوں اے میرے پروردگار تو مجھ کو صحیح فیصلہ کی قوت عطا کر اور مجھ کو نیکوکاروں کی فہرست میں داخل کر اور مجھ کو زبان کی سچائی عطا کر اور جنت نعیم کے وارثوں میں شامل کر۔ نصیحت و موعظت کے اس مؤثر اندازِ خطابت کو جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور قوم کے سامنے پیش کیا ‘ سورة شعرا میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :
{ وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ اِبْرٰہِیْمَ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا تَعْبُدُوْنَ قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عَاکِفِیْنَ قَالَ ہَلْ یَسْمَعُوْنَکُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ اَوْ یَنْفَعُوْنَکُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَا اٰ بَائَنَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ قَالَ اَفَرَأَیْتُمْ مَّا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اَنْتُمْ وَاٰ بَاؤُکُمُ الْاَقْدَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّیْ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَہُوَ یَہْدِیْنِ وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ وَاغْفِرْ لِاَبِیْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ } [61]
” اور سنا دے ان کو خبر ابراہیم کی جب کہا اپنے باپ کو اور اپنی قوم کو ‘ تم کس کو پوجتے ہو وہ بولے ہم پوجتے ہیں مورتیوں کو پھر سارا دن انہی کے پاس لگے بیٹھے رہتے ہیں ‘ کہا ‘ کچھ سنتے ہیں تمھارا کہا جب تم پکارتے ہو یا کچھ بھلا کرتے ہیں تمھارا یا برا ؟ بولے نہیں پر ہم نے پایا اپنے باپ دادوں کو یہی کام کرتے ‘ کہا : بھلا دیکھتے ہو جن کو پوجتے رہے ہو تم اور تمھارے باپ دادے اگلے ‘ سو وہ میرے دشمن ہیں مگر جہان کا رب جس نے مجھ کو بنایا سو وہی مجھ کو راہ دکھلاتا ہے اور وہ جو مجھ کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوؤں تو وہی شفا دیتا ہے اور وہ جو مجھ کو مارے گا اور پھر جِلائے گا ‘اور جس سے مجھ کو توقع ہے کہ بخشے میری تقصیر انصاف کے دن ‘ اے میرے رب دے مجھ کو حکم اور ملا مجھ کو نیکوں میں اور رکھ میرا بول سچا پچھلوں میں ‘ اور کر مجھ کو وارثوں میں نعمت کے باغ کے اور معاف کر میرے باپ کو ‘ وہ ہے راہ بھولے ہوؤں میں ‘ اور رسوا نہ کر مجھ کو جس دن سب جی کر اٹھیں ‘ جس دن نہ کام آوے کوئی مال اور نہ بیٹے مگر جو کوئی آیا اللہ کے پاس لے کر بے روگ دل۔ “
مگر آزر اور قوم آزر کے دل کسی طرح قبول حق کے لیے نرم نہ ہوئے اور ان کا انکار اور جحود حد سے گذرتا ہی رہا۔
گذشتہ سطور میں یہ ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بت پرستی کے ساتھ ساتھ کواکب پرستی بھی کرتی تھی اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ انسانوں کی موت وحیات ‘ ان کا رزق ‘ ان کا نفع و ضرر ‘ خشک سالی اور قحط سالی ‘ فتح و ظفر اور شکست وہزیمت ‘ غرض تمام کارخانہ عالم کا نظم و نسق کواکب اور ان کی حرکات کی تاثیر پر چل رہا ہے ‘ اور یہ تاثیر ان کے ذاتی اوصاف میں سے ہے اس لیے ان کی خوشنودی ضروری ہے اور یہ ان کی پرستش کے بغیر ممکن نہیں۔
اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس طرح ان کو ان کے سفلی معبودان باطل کی حقیقت واشگاف کرکے راہ حق کی طرف دعوت دی اسی طرح ضروری سمجھا کہ ان کے علوی معبودان باطل کی بے ثباتی اور فنا کے منظر کو پیش کر کے اس حقیقت سے بھی آگاہ کر دیں کہ تمھارا یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ ان چمکتے ہوئے ستاروں ‘ چاند اور سورج کو خدائی طاقت حاصل ہے ہرگز نہیں یہ خیال خام اور باطل عقیدہ ہے ‘ مگر یہ باطل پرست جبکہ اپنے خود ساختہ اصنام سے اس قدر خائف تھے کہ ان کو برا کہنے والے کے لیے ہر آن یہ تصور کرتے تھے کہ وہ ان کے غضب میں آکر بربادو تباہ ہوجائے گا تو ایسے اوہام پرستوں کے دلوں میں بلند ستاروں کی پرستش کے خلاف جذبہ پیدا کرنا کچھ آسان کام نہ تھا ‘ اس لیے (مجدد انبیا) ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے دماغوں کے مناسب ایک عجیب اور دلچسپ پیرایہ بیان اختیار فرمایا۔
تاروں بھری رات تھی ایک ستارہ خوب روشن تھا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو دیکھ کر فرمایا ” میرا رب یہ ہے ؟ “ اس لیے کہ اگر ستارے ربوبیت کرسکتے ہیں تو یہ ان سب میں ممتاز اور روشن ہے لیکن جب وہ اپنے وقت مقررہ پر نظر سے اوجھل ہو گیا اور اس کو یہ مجال نہ ہوئی کہ اپنے پرستاروں کے لیے ایک گھڑی اور رونمائی کراسکتا اور نظام کائنات سے منحرف ہو کر اپنے پوجنے والوں کے لیے زیارت گاہ بنا رہتا تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ” میں چھپ جانے والے کو پسند نہیں کرتا “ یعنی جس شے پر مجھ سے بھی زیادہ تغیرات کا اثر پڑتا ہو اور جو جلد جلد ان اثرات کو قبول کرلیتا ہو وہ میرا معبود کیونکر ہو سکتا ہے پھر نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ چاند ١ ؎ آب و تاب کے ساتھ سامنے موجود ہے ‘ اس کو دیکھ کر فرمایا ” یہ میرا رب ہے ؟ “ اس لیے کہ یہ خوب روشن ہے اور اپنی خنک روشنی سے سارے عالم کو بقعہ نور بنائے ہوئے ہے۔ پس اگر کواکب کو رب بناناہی ہے تو اسی کو کیوں نہ بنایا جائے کیونکہ یہی اس کا زیادہ مستحق نظر آتا ہے۔
اب سحر کا وقت ہونے لگا تو قمر کے بھی ماند پڑجانے اور روپوش ہوجانے کا وقت آپہنچا اور جس قدر طلوع آفتاب کا وقت قریب ہوتا گیا چاند کا جسم دیکھنے والوں کی آنکھوں سے اوجھل ہونے لگا تو یہ دیکھ کر ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک ایسا جملہ فرمایا جس سے چاند کے رب ہونے کی نفی کے ساتھ ساتھ خدائے واحد کی ہستی کی جانب قوم کی توجہ اس خاموشی کے ساتھ پھیر دی جائے کہ قوم اس کا احساس بھی کرسکے اور اس گفتگو کا جو مقصد وحید ہے ” یعنی صرف خدائے واحد پر ایمان “ وہ ان کے دلوں میں بغیر قصدو ارادے کے پیوست ہوجائے ‘ فرمایا ” اگر میرا حقیقی پروردگار میری رہنمائی نہ کرتا تو میں بھی ضرور گمراہ قوم ہی میں سے ایک ہوتا۔ “
پس اس قدر فرمایا اور خاموش ہو گئے اس لیے کہ ابھی اس سلسلہ کی ایک کڑی اور باقی ہے اور قوم کے پاس ابھی مقابلہ کے لیے ایک اور ہتھیار موجود ہے اس لیے اس سے زیادہ کہنا مناسب نہیں تھا۔
تاروں بھری رات ختم ہوئی چمکتے ہوئے ستارے اور چاند سب نظر سے اوجھل ہو گئے کیوں ؟ اس لیے کہ اب آفتاب عالم تاب کا رخ روشن سامنے آ رہا ہے ‘ دن نکل آیا اور وہ پوری آب و تاب سے چمکنے دمکنے لگا۔
ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو دیکھ کر فرمایا ” یہ ہے میرا رب کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑا ہے اور نظام فلکی میں اس سے بڑا ستارہ ہمارے سامنے دوسرا نہیں ہے ؟ “ لیکن دن بھر چمکنے اور روشن رہنے اور تمام عالم کو روشن کرنے کے بعد وقت مقررہ پر اس نے بھی عراق کی سرزمین سے پہلو بچانا شروع کر دیا اور شب دیجور آہستہ آہستہ سامنے آنے لگی اور آخر کار وہ نظروں سے غائب ہو گیا ‘ تو اب وقت آپہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اصل حقیقت کا اعلان کر دیں اور قوم کو لاجواب بنادیں کہ ان کے عقیدہ کے مطابق اگر ان کواکب کو ربوبیت اور معبودیت حاصل ہے تو اس کی کیا وجہ کہ ہم سے بھی زیادہ ان میں تغیرات نمایاں ہیں اور یہ جلد جلد ان کے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں اور اگر معبود ہیں تو ان میں ” اُفول “ ١ ؎ کیوں ہے ‘ جس طرح چمکتے نظر آتے تھے اسی طرح کیوں چمکتے نہ رہے چھوٹے ستاروں کی روشنی کو ماہتاب نے کیوں ماند کر دیا اور ماہتاب کے رخ روشن کو آفتاب کے نور نے کس لیے بے نور بنادیا۔
پس اے قوم میں ان مشرکانہ عقائد سے بری ہوں اور شرک کی زندگی سے بیزار ‘ بلاشبہ میں نے اپنا رخ صرف اسی ایک خدا کی جانب کر لیا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے۔ میں ” حنیف “ ہوں اور ” مشرک “ نہیں ہوں۔
اب قوم سمجھی کہ یہ کیا ہوا ‘ ابراہیم (علیہ السلام) نے ہمارے تمام ہتھیار بیکار اور ہمارے تمام دلائل پامال کردیے اب ہم ابراہیم (علیہ السلام) کی اس مضبوط و محکم برہان کا کس طرح رد کریں اور اس کی روشن دلیل کا کیا جواب دیں ؟ وہ اس کے لیے بالکل عاجزودرماندہ تھے اور جب کوئی بس نہ چلا تو قائل ہونے اور صدائے حق کو قبول کرلینے کی بجائے ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑنے اور اپنے معبودان باطل سے ڈرانے لگے کہ وہ تیری توہین کا تجھ سے ضرور انتقام لیں گے اور تجھ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم مجھ سے جھگڑتے اور اپنے بتوں سے مجھ کو ڈراتے ہو حالانکہ خدائے تعالیٰ نے مجھ کو صحیح راہ دکھا دی ہے اور تمھارے پاس گمراہی کے سوا کچھ نہیں ‘ مجھے تمھارے بتوں کی مطلق کوئی پروا نہیں ‘ جو کچھ میرا رب چاہے گا وہی ہوگا ‘ تمھارے بت کچھ بھی نہیں کرسکتے کیا تم کو ان باتوں سے کوئی نصیحت حاصل نہیں ہوتی ؟ تم کو تو خدا کی نافرمانی کرنے اور اس کے ساتھ بتوں کو شریک ٹھہرانے میں بھی کوئی خوف نہیں آتا جس کے لیے تمھارے پاس ایک دلیل بھی ہے اور مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ خدائے واحد کا ماننے والا اور امن عالم کا ذمہ دار ہو کر تمھارے بتوں سے ڈر جاؤں گا ‘ کاش کہ تم سمجھتے کہ کون مفسد ہے اور کون مصلح و امن پسند ؟
صحیح امن کی زندگی اسی شخص کو حاصل ہے جو خدائے واحد پر ایمان رکھتا اور شرک سے بیزار رہتا ہے ‘ اور وہی راہ یاب ہے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کی یہ وہ عظیم الشان حجت تھی جو اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے بت پرستی کے خلاف ہدایت و تبلیغ کے بعد کواکب پرستی کے رد میں ظاہر فرمائی اور ان کی قوم کے مقابلہ میں ان کو روشن دلائل وبراہین کے ساتھ سربلندی عطا فرمائی۔
اس سلسلہ میں سورة انعام کی یہ آیات شاہد عدل ہیں :
{ وَ کَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ رَاٰ کَوْکَبًاج قَالَ ھٰذَا رَبِّیْج فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیج فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ ھٰذَآ اَکْبَرُج فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓ ئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ حَآجَّہٗ قَوْمُہٗط قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰہِ وَ قَدْ ھَدٰنِط وَ لَآ اَخَافُ مَاتُشْرِکُوْنَ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ رَبِّیْ شَیْئًاط وَسِعَ رَبِّیْ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًاط اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ وَ کَیْفَ اَخَافُ مَآاَشْرَکْتُمْ وَ لَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًاط فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِج اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُط اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ } [62]
” اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہت کے جلوے دکھا دیے ‘ تاکہ وہ یقین رکھنے والوں میں سے ہوجائے پھر (دیکھو) جب ایسا ہوا کہ اس پر رات کی تاریکی چھا گئی تو اس نے (آسمان پر) ایک ستارہ (چمکتا ہوا) دیکھا ۔ اس نے کہا ” یہ میرا پروردگار ہے “ (کہ سب لوگ اس کی پرستش کرتے ہیں)
‘ لیکن جب وہ ڈوب گیا تو کہا ” نہیں میں انھیں پسند نہیں کرتا جو ڈوب جانے والے ہیں “ (یعنی طلوع و غروب ہوتے رہتے ہیں) پھر جب ایسا ہوا کہ چاند چمکتا ہوا نکل آیا ‘ تو ابراہیم نے کہا ” یہ میرا پروردگار ہے “ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا ” اگر میرے پروردگار نے مجھے راہ نہ دکھائی ہوتی تو میں ضرور اس گروہ میں سے ہوجاتا جو راہ راست سے بھٹک گیا ہے “ پھر جب صبح ہوئی اور سورج چمکتا ہوا طلوع ہوا تو ابراہیم نے کہا ” یہ میرا پروردگار ہے کہ یہ سب سے بڑا ہے “
لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو اس نے کہا ” اے میری قوم تم جو کچھ خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو میں اس سے بیزار ہوں میں نے تو ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف اسی ہستی کی طرف اپنا رخ کر لیا ہے جو (کسی کی بنائی ہوئی نہیں ‘ بلکہ) آسمان و زمین کی بنانے والی ہے (اور جس کے حکم و قانون پر تمام آسمانی اور ارضی مخلوقات چل رہی ہیں) اور میں ان میں سے نہیں جو اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے ہیں “ اور (پھر) ابراہیم سے اس کی قوم نے ردوکد کی ‘ ابراہیم نے کہا ” کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں رد و کد کرتے ہو ‘ حالانکہ اس نے مجھے راہ حق دکھا دی ہے ‘ جنھیں تم نے خدا کا شریک ٹھہرا لیا ہے میں ان سے نہیں ڈرتا ‘ میں جانتا ہوں کہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی مجھے نقصان پہنچانا چاہے ‘ میرا پروردگار اپنے علم سے تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے پھر کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے اور (دیکھو) میں ان ہستیوں سے کیونکر ڈر سکتا ہوں جنھیں تم نے خدا کا شریک ٹھہر الیا ہے جبکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراؤ۔
جن کے لیے اس نے کوئی سند و دلیل تم پر نہیں اتاری ؟ بتلاؤ ہم دونوں فریقوں میں سے کس کی راہ امن کی راہ ہوئی ؟ اگر علم و بصیرت رکھتے ہو ‘ جن لوگوں نے خدا کو مانا اور اپنے ماننے کو ظلم سے (یعنی شرک سے) آلودہ نہیں کیا تو انہی کے لیے امن ہے اور وہی ٹھیک راستہ پر ہیں اور (دیکھو) یہ ہماری حجت ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم پر دی تھی ‘ ہم جس کے مرتبے بلند کرنا چاہتے ہیں اسے علم و دلیل کا عرفان دے کر بلند کردیتے ہیں اور یقیناً تمھارا پروردگار حکمت والا علم رکھنے والا ہے۔ “
اس بارہ میں کلی اتفاق کے باوجود کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی کواکب پرستی نہیں کی اور ان کی تمام زندگی شرک کی تلویثات سے پاک ہے سورة انعام کی مسطورہ بالا آیات کی تفسیر میں علما کے مختلف اقوال ہیں ان آیات کی تمہید میں جو کچھ لکھا گیا وہ ان اقوال میں سے ایک قول کے مطابق ہے۔
جس کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ گفتگو قوم کی کواکب پرستی کی رد میں اس کو لاجواب کرنے کے لیے تھی اس لیے کہ جب دو فریق کسی مسئلہ میں اختلاف کر بیٹھتے ہیں تو احقاق حق کے لیے مناظرانہ دلائل میں سے دلیل کا ایک یہ بھی طریقہ ہے کہ اپنے دعوے کے ثبوت میں صرف نظریوں ‘ تھیوریوں (THEORIES) سے کام نہ لیا جائے بلکہ مشاہدہ اور معائنہ کی ایسی راہ اختیار کی جائے کہ مخالف اس کے دعوے کے مقابلہ میں لاجواب ہوجائے اور اس کی دلیل کے رد کرنے کی تمام راہیں اس کے سامنے بند ہوجائیں۔
اب اگر اس میں سلامت روی باقی ہے اور اس کے قلب میں قبول حق کی گنجائش ہے تو وہ اس کو قبول کرلیتا ہے ورنہ بے دلیل لڑنے اور جھگڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تب اس طرح حق و باطل میں امتیاز ہوجاتا ہے اور اصلی اور حقیقی بات نکھر کر صاف ہوجاتی ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جلیل القدر پیغمبر ہیں اس لیے ان کی تبلیغ کا مشن منطقی صغریٰ کبریٰ پر قائم نہ تھا بلکہ حقیقت کو فطری دلائل کی سادگی کے ساتھ واضح کرنا ہی ان کا طغرائے امتیاز تھا اس لیے انھوں نے یہی راستہ اختیار کیا اور قوم پر واضح کر دیا کہ ستارے خواہ شمس و قمر ہی کیوں نہ ہوں رب کہلانے کے قابل نہیں ہیں بلکہ ربوبیت صرف اسی کو زیبا ہے جو رب العٰلمین ہے اور ارضی و سماوی ‘ سفلی و علوی کل کائنات کا خالق ومالک ہے اور چونکہ قوم کے پاس اس بہترین دلیل کا کوئی جواب نہ تھا اس لیے وہ زچ ہوئی اور امر حق کو قبول کرنے کی بجائے لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو گئی مگر اس کے ضمیر کو ماننا پڑا کہ جو کچھ کہا گیا حق ہے اور ہمارے پاس اس کا کوئی صحیح جواب نہیں ہے۔
یہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد تھا اور ان کے ادائے فرض کی حد یہیں تک تھی ‘ کیونکہ دل چیر کر حق کو اس میں اتار دینا ان کی طاقت سے باہر تھا۔ اس تفسیر کے مطابق قرآن عزیز کی ان آیات میں نہ تاویل کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ مقدرات ماننے کی نیز مشاہدہ کواکب سے متعلق آیات کا سیاق وسباق بھی بے تکلف اسی کی تائید کرتا ہے مثلاً اس سلسلہ کی پہلی دو آیات ہیں :
{ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰ لِھَۃًج اِنِّیْٓ اَرٰکَ وَ قَوْمَکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ وَ کَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ }
[63]
” جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کیا تو بناتا ہے بتوں کو خدا ‘ میں تجھ کو اور تیری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتا ہوں اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمینوں کی سلطنت کا مشاہدہ کرا دیا اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔ “
ان ہر دو آیات سے حسب ذیل نتائج ظاہر ہوتے ہیں :
رؤیت کواکب کا یہ معاملہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ایسے زمانہ میں پیش آیا ہے جبکہ وہ اپنے والد اور قوم کے ساتھ تبلیغ حق کے مناظرہ میں مصروف تھے۔ اس لیے کہ پہلی آیت کے بعد دوسری آیت کو وَکَذٰلِکَ کہہ کر شروع کرنا یہی معنی رکھتا ہے پھر تیسری آیت کے شروع میں فَلَمَّا کی ف یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ دوسری آیت سے وابستہ ہے اور اس طرح ان تینوں آیات کا سلسلہ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جس طرح اصنام پرستی کے مقابلہ میں روشن دلائل عطا فرمائے تھے تاکہ وہ آزر اور قوم کو لاجواب کرسکیں اور راہ ہدایت دکھائیں ‘ اسی طرح کواکب پرستی کے مقابلہ میں بھی اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمینوں کی سلطنت کا مشاہدہ کرا دیا تاکہ وہ ان سب مخلوق کی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں اور ان کو حق الیقین کا درجہ حاصل ہوجائے ‘ اور پھر وہ کواکب پرستی کے رد میں بھی بہترین دلائل دے سکیں اور اس سلسلہ میں بھی قوم کو حق کی راہ دکھلا کر ان کی غلط روش کے متعلق لاجواب بنا سکیں۔
یہ تو آیات رؤیت کا سباق تھا اور اب سیاق قابل توجہ ہے :
جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آخر میں آفتاب پر نظر فرمائی اور پھر وہ بھی نظروں سے غائب ہونے لگا تو اسی آیت میں یہ جملہ موجود نظر آتا ہے :
{ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓ ئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ } [64]
” ابراہیم نے کہا اے قوم میں شرک کرنے والوں سے بری ہوں “۔
اور ساتھ ہی یہ آیت مذکور ہے :
{ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [65]
” بلاشبہ میں نے اپنا رخ صرف اس خدا کی جانب پھیر دیا ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ‘ اس حالت میں کہ میں حنیف ہوں اور مشرک نہیں ہوں۔ “
اور پھر اسی کے متصل آیت میں ہے :
{ وَ حَآجَّہٗ قَوْمُہٗ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰہ} [66]
” اور ابراہیم کی قوم نے اس سے جھگڑنا شروع کیا ابراہیم نے کہا کیا تو مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتی ہے ؟ “
اور سب سے آخری آیت میں کہا گیا ہے :
{ وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖط نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُط اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ} [67]
” اور یہ ہماری دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی۔ ہم جس کا درجہ بلند کرنا چاہتے ہیں کر دیا کرتے ہیں بیشک تیرا رب دانا ہے جاننے والا “
ان آیات سے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں :
رؤیت کواکب کا یہ معاملہ قوم سے ضرور وابستہ تھا تبھی تیسری مرتبہ میں ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی ذات سے خطاب کرنے کی بجائے فوراً قوم سے خطاب شروع کر دیا۔
اور قوم نے بھی یہ سب کچھ سن کر دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے ابراہیم (علیہ السلام) سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا۔
" اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اس گفتگو کو قوم کے مقابلہ میں اپنی جانب سے حجت قرار دیا اور بتایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا رتبہ رسالت بہت بلند اور ارفع ہے اور اس لیے قوم ان کی رہنمائی کی سخت محتاج ہے اور ان امور کے سوا یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّابِہٖ عٰلِمِیْنَ } [68]
” اور بلاشبہ ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے ہدایت عطا کردی تھی اور ہم ہی اس کے واقف کار ہیں۔ “
لہٰذا یہ معاملہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نہ لڑکپن کا ہو سکتا ہے اور نہ ان کے اپنے عقیدہ اور ایمان کا۔
اس تفصیل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری بیان کردہ تفسیر ہی آیات کی صحیح تفسیر ہے اور بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب سے قوم پر یہ زبردست حجت تھی کہ افراد قوم کا کواکب کی پرستش کرنا ‘ ان کے لیے ہیکل بنانا ‘ اپنے سفلی معبودوں کے نام ان کے نام پر رکھنا ‘ غرض ان کو معبود ‘ رب اور خدا سمجھنا قطعاً باطل اور گمراہی ہے اس لیے کہ یہ سب ایک خاص نظام میں جکڑے ہوئے اور دن اور رات کے تغیر کے ساتھ تغیرات کو قبول کرنے والے ہیں اور اس پورے نظام کی مالک و خالق صرف وہی ہستی ہے جس کے ید قدرت میں ان سب کی تسخیر ہے اور وہ ” اللہ “ ہے۔
{ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ } [69]
” نہ سورج کی یہ مجال ہے کہ وہ قمر کو پا سکے اور نہ رات میں یہ قدرت کہ وہ دن کو پیچھے ہٹا کر اس کی جگہ خود لے لے۔ “
غرض ان تمام روشن دلائل وبراہین کے بعد بھی جب قوم نے دعوت اسلام کو قبول نہ کیا اور اصنام پرستی و کواکب پرستی میں اسی طرح مبتلا رہی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک دن جمہور کے سامنے اعلان جنگ کر دیا کہ میں تمھارے ان بتوں کے متعلق ایک ایسی چال چلوں گا جو تم کو زچ کرکے ہی چھوڑے گی۔
{ وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ } [70]
” اور اللہ کی قسم میں تمھاری عدم موجودگی میں ضرور تمھارے بتوں کے ساتھ خفیہ چال چلوں گا۔ “
اس معاملہ سے متعلق اصل صورت حال یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آزر اور قوم کے جمہور کو ہر طرح بت پرستی کے معائب ظاہر کرکے اس سے باز رکھنے کی سعی کرلی ‘ اور ہر قسم کے پند و نصائح کے ذریعہ ان کو یہ باور کرانے میں قوت صرف کردی کہ یہ بت نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور یہ کہ تمھارے کاہنوں اور پیشواؤں نے ان کے متعلق تمھارے دلوں میں غلط خوف بٹھا دیا ہے کہ اگر ان سے منکر ہو جاؤ گے تو یہ غضبناک ہو کر تم کو تباہ کر ڈالیں گے‘ یہ تو اپنی آئی ہوئی مصیبت کو بھی نہیں ٹال سکتے مگر آزر اور قوم کے دلوں پر مطلق اثر نہ ہوا اور وہ اپنے دیوتاؤں کی خدائی قوت کے عقیدہ سے کسی طرح باز نہ آئے بلکہ کاہنوں اور سرداروں نے ان کو اور زیادہ پختہ کر دیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت پر کان دھرنے سے سختی کے ساتھ روک دیا تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ اب مجھ کو رشد و ہدایت کا ایسا پہلو اختیار کرنا چاہیے جس سے جمہور کو یہ مشاہدہ ہوجائے کہ واقعی ہمارے دیوتا صرف لکڑیوں اور پتھروں کی مورتیاں ہیں جو گونگی بھی ہیں ‘بہری بھی ہیں اور اندھی بھی ‘ اور دلوں میں یہ یقین راسخ ہوجائے کہ اب تک ان کے متعلق ہمارے کاہنوں اور سرداروں نے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل غلط اور بے سروپا بات تھی اور ابراہیم ہی کی بات سچی ہے اگر ایسی کوئی صورت بن آئی تو پھر میرے لیے تبلیغ حق کے لیے آسان راہ نکل آئے گی یہ سوچ کر انھوں نے ایک نظام عمل تیار کیا جس کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا ‘ اور اس کی ابتدا اس طرح کی کہ باتوں باتوں میں اپنی قوم کے افراد سے یہ کہہ گذرے کہ ” میں تمھارے بتوں کے ساتھ ایک خفیہ چال چلوں گا “ گویا اس طرح ان کو متنبہ کرنا تھا کہ اگر تمھارے دیوتاؤں میں کچھ قدرت ہے جیسا کہ تم دعویٰ کرتے ہو تو وہ میری چال کو باطل اور مجھ کو مجبور کر دیں کہ میں ایسا نہ کرسکوں مگر چونکہ بات صاف نہ تھی اس لیے قوم نے اس جانب کچھ توجہ نہ کی ‘ حسن اتفاق کہ قریب ہی زمانہ میں قوم کا ایک مذہبی میلہ پیش آگیا جب سب اس کے لیے چلنے لگے تو کچھ لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی اصرار کیا کہ وہ بھی ساتھ چلیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اول انکار فرمایا اور جب اس جانب سے اصرار بڑھنے لگا تو ستاروں کی جانب نگاہ اٹھائی اور فرمانے لگے اِنِّيْ سَقِیْمٌ ” میں آج کچھ علیل سا ہوں “ چونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کو کواکب پرستی کی وجہ سے نجوم میں کمال بھی اور اعتقاد بھی تھا اس لیے اپنے عقیدہ کے لحاظ سے وہ یہ سمجھے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کسی نحس ستارہ کے اثر بد میں مبتلا ہیں اور یہ سوچ کر بغیر کسی تشریح حال کے ابراہیم (علیہ السلام) کو چھوڑ کر میلہ میں چلے گئے۔
{ فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ } [71]
” پس (ابراہیم نے) ایک نگاہ اٹھا کر ستاروں کی جانب دیکھا اور کہنے لگا میں کچھ علیل ہوں ‘ پس وہ اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔ “
اب جبکہ ساری قوم ‘ بادشاہ ‘ کاہن اور مذہبی پیشوا میلہ میں مصروف اور شراب و کباب میں مشغول تھے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ وقت آگیا ہے کہ اپنے نظام عمل کی تکمیل کروں اور مشاہدہ کی صورت میں جمہورپر واضح کر دوں کہ ان کے دیوتاؤں کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ اٹھے اور سب سے بڑے دیوتا کے ہیکل (مندر) میں پہنچے دیکھا تو وہاں دیوتاؤں کے سامنے قسم قسم کے حلووں ‘پھلوں ‘ میووں اور مٹھائیوں کے چڑھاوے رکھے تھے ‘ ابراہیم (علیہ السلام) نے طنزیہ لہجہ میں چپکے چپکے ان مورتیوں سے خطاب کر کے کہا کہ یہ سب کچھ موجود ہے ان کو کھاتے کیوں نہیں ؟ اور پھر کہنے لگے ‘ میں بات کر رہا ہوں کیا بات ہے کہ تم جواب نہیں دیتے ؟ اور پھر ان سب کو توڑ پھوڑ ڈالا اور سب سے بڑے بت کے کاندھے پر تبر رکھ کر واپس چلے گئے۔
{ فَرَاغَ اِلٰی اٰ لِہَتِہِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْکُلُوْنَ مَا لَکُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْبًام بِالْیَمِیْنِ } [72]
” پس چپکے سے جا گھسا ان کے بتوں میں اور کہنے لگا (ابراہیم) ان کے دیوتاؤں سے ‘ کیوں نہیں کھاتے ‘ تم کو کیا ہو گیا کیوں نہیں بولتے ؟ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے ان سب کو توڑ ڈالا۔ “
{ فَجَعَلَھُمْ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیْرًا لَّھُمْ لَعَلَّھُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ } [73]
” پس کر دیا ان کو ٹکڑے ٹکڑے مگر ان میں سے بڑے دیوتا کو چھوڑ دیا تاکہ (اپنے عقیدہ کے مطابق ) وہ اس کی طرف رجوع کریں (کہ یہ کیا ہو گیا) “
جب لوگ میلے سے واپس آئے تو ہیکل (مندر) میں بتوں کا یہ حال پایا ‘ سخت برہم ہوئے اور ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے کہ یہ کیا ہوا اور کس نے کیا ؟ ان میں وہ بھی تھے جن کے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تَا للّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ [74] کہہ چکے تھے انھوں نے فوراً کہا کہ یہ اس کا کام ہے جس کا نام ابراہیم ہے وہی ہمارے دیوتاؤں کا دشمن ہے۔
{ قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَآ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُھُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰھِیْمُ }
[75]
” وہ کہنے لگے یہ معاملہ ہمارے خداؤں کے ساتھ کس نے کیا ہے بلاشبہ وہ ضرور ظالم ہے (ان میں سے بعض) کہنے لگے ہم نے ایک جوان کی زبان سے ان بتوں کا (برائی کے ساتھ) ذکر سنا ہے اس کو ابراہیم کہا جاتا ہے (یعنی یہ اس کا کام ہے) “
کاہنوں اور سرداروں نے جب یہ سنا تو غم و غصہ سے سرخ ہو گئے اور کہنے لگے اس کو مجمع کے سامنے پکڑ کر لاؤ تاکہ سب دیکھیں کہ مجرم کون شخص ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) سامنے لائے گئے تو بڑے رعب داب سے انھوں نے پوچھا کیوں ابراہیم تو نے ہمارے دیوتاؤں کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے ؟
{ قَالُوْا فَاْتُوْا بِہٖ عَلٰٓی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَشْھَدُوْنَ قَالُوْٓا ئَاَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا یٰٓاِبْرٰھِیْمُ } [76]
” انھوں نے کہا ابراہیم کو لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ دیکھیں ‘ وہ کہنے لگے اے ابراہیم کیا تو نے ہمارے دیوتاؤں کے ساتھ یہ کیا ہے ؟ “
ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ اب وہ بہترین موقع آگیا ہے جس کے لیے میں نے یہ تدبیر اختیار کی ‘ مجمع موجود ہے جمہور دیکھ رہے ہیں کہ ان کے دیوتاؤں کا کیا حشر ہو گیا ‘ اس لیے اب کاہنوں اور مذہبی پیشواؤں کو جمہور کی موجودگی میں ان کے باطل عقیدہ پر نادم کردینے کا وقت ہے تاکہ عوام کو آنکھوں دیکھتے معلوم ہوجائے کہ آج تک ان دیوتاؤں کے متعلق جو کچھ ہم سے کاہنوں اور پجاریوں نے کہا تھا یہ سب ان کا مکرو فریب تھا مجھے ان سے کہنا چاہیے کہ یہ سب اس بڑے بت کی کارروائی ہے اس سے دریافت کرو ؟ لامحالہ وہ یہی جواب دیں گے کہ کہیں بت بھی بولتے اور بات کرتے ہیں ‘ تب میرا مطلب حاصل ہے اور پھر میں ان کے عقیدے کا پول جمہور کے سامنے کھول کر صحیح عقیدہ کی تلقین کرسکوں گا اور بتاؤں گا کہ کس طرح وہ باطل اور گمراہی میں مبتلا ہیں اس وقت ان کاہنوں اور پجاریوں کے پاس ندامت کے سوا کیا ہوگا اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا :
{ قَالَ بَلْ فَعَلَہٗق صلے کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ } [77]
” ابراہیم نے کہا بلکہ ان میں سے اس بڑے بت نے یہ کیا ہے پس اگر یہ (تمھارے دیوتا) بولتے ہوں تو ان سے دریافت کرلو ؟ “
ابراہیم (علیہ السلام) کی اس یقینی حجت اور دلیل کا کاہنوں اور پجاریوں کے پاس کیا جواب ہو سکتا تھا وہ ندامت میں غرق تھے ‘ دلوں میں ذلیل و رسوا تھے ‘ اور سوچتے تھے کہ کیا جواب دیں ؟ جمہور بھی آج سب کچھ سمجھ گئے اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھ لیا۔
جس کے لیے وہ تیار نہ تھے اور بالآخر چھوٹے اور بڑے سبھی کو دل میں اقرار کرنا پڑا کہ ابراہیم ((علیہ السلام)) ظالم نہیں ہے بلکہ ظالم ہم خود ہیں کہ ایسے بے دلیل اور باطل عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں تب نہایت شرمساری کے ساتھ سرنگوں ہو کر کہنے لگے ابراہیم تو خوب جانتا ہے کہ ان دیوتاؤں میں بولنے کی سکت نہیں ہے یہ تو بے جان مورتیاں ہیں۔
{ فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓی اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئُوْسِھِمْج لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ھٰٓؤُلَآئِ یَنْطِقُوْنَ } [78]
” پس انھوں نے اپنے جی میں سوچا پھر کہنے لگے بیشک تم ہی ظالم ہو بعد ازاں اپنے سروں کو نیچے جھکا کر کہنے لگے (ابراہیم) تو خوب جانتا ہے کہ یہ بولنے والے نہیں ہیں۔ “
اس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حجت و دلیل کامیاب ہوئی اور دشمنوں نے اعتراف کر لیا کہ ظالم ہم خود ہیں اور ان کو جمہور کے سامنے زبان سے اقرار کرنا پڑا کہ ہمارے یہ دیوتا جواب دینے اور بولنے کی طاقت نہیں رکھتے چہ جائیکہ نفع و نقصان کے مالک ہوں۔
تو اب ابراہیم (علیہ السلام) نے مختصر مگر جامع الفاظ میں ان کو نصیحت بھی کی اور ملامت بھی اور بتایا کہ جب یہ دیوتا نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان تو پھر یہ خدا اور معبود کیسے ہو سکتے ہیں ‘ افسوس تم اتنا بھی نہیں سمجھتے یا عقل سے کام نہیں لیتے ؟ فرمانے لگے :
{ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْئًا وَّ لَا یَضُرُّکُمْ اُفٍّ لَّکُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ } [79]
” کیا تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی پوجا کرتے ہو جو تم کو نہ کچھ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان دے سکتے ہیں ‘ تم پر افسوس ہے اور تمھارے ان معبودان باطل پر بھی جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ “
{ فَاَقْبَلُوْا اِلَیْہِ یَزِفُّوْنَ قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ } [80]
” پس وہ سب ہلّہ کر کے ابراہیم کے گرد جمع ہو گئے ‘ ابراہیم نے کہا کیا جن بتوں کو ہاتھ سے گھڑتے ہو ‘ انہی کو پھر پوجتے ہو ‘ اور اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے اور ان کو بھی جن کاموں کو تم کرتے ہو۔ “
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس نصیحت و موعظت کا اثر یہ ہونا چاہیے تھا کہ تمام قوم اپنے باطل عقیدہ سے تائب ہو کر ملت حنیفی کو اختیار کرلیتی اور کج روی چھوڑ کر راہ مستقیم پر گامزن ہوجاتی لیکن دلوں کی کجی ‘ نفوس کی سرکشی ‘ متمردانہ ذہنیت اور باطنی خباثت ودناءت نے اس جانب نہ آنے دیا ‘اور اس کے برعکس ان سب نے ابراہیم (علیہ السلام) کی عداوت و دشمنی کا نعرہ بلند کر دیا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر دیوتاؤں کی خوشنودی چاہتے ہو تو اس کو اس گستاخی اور مجرمانہ حرکت پر سخت سزا دو اور دہکتی ہوئی آگ میں جلا ڈالوتا کہ اس کی تبلیغ و دعوت کا قصہ ہی پاک ہوجائے۔
ابھی یہ مشورے ہو ہی رہے تھے کہ شدہ شدہ بادشاہ وقت تک یہ باتیں پہنچ گئیں اس زمانہ میں عراق کے بادشاہ کا لقب نمرود ہوتا تھا اور یہ رعایا کے صرف بادشاہ ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ خود کو ان کا رب اور مالک جانتے تھے
اور رعایا بھی دوسرے دیوتاؤں کی طرح اس کو اپنا خدا اور معبود مانتی اور اس کی بھی اسی طرح پرستش کرتی تھی جس طرح دیوتاؤں کی ‘ بلکہ ان سے بھی زیادہ پاس و ادب کے ساتھ پیش آتی تھی ‘ اس لیے کہ وہ صاحب عقل و شعور بھی ہوتا تھا اور مالک تخت و تاج بھی۔
نمرود کو جب یہ معلوم ہوا تو آپے سے باہر ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اس شخص کی پیغمبرانہ تبلیغ و دعوت کی سرگرمیاں اگر اسی طرح جاری رہیں تو یہ میری ربوبیت ‘ ملوکیت اور الوہیت سے بھی سب رعایا کو برگشتہ کر دے گا اور اس طرح باپ دادا کے مذہب کے ساتھ ساتھ میری یہ سلطنت بھی زوال میں آجائے گی ‘ اس لیے اس قصہ کا ابتدا ہی میں خاتمہ کردینا بہتر ہے۔
یہ سوچ کر اس نے حکم دیا کہ ابراہیم کو ہمارے دربار میں حاضر کرو ‘ ابراہیم (علیہ السلام) جب نمرود کے دربار میں پہنچے تو نمرود نے گفتگو شروع کی اور ابراہیم (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ تو باپ دادا کے دین کی مخالفت کس لیے کرتا ہے اور مجھ کو رب ماننے سے تجھے کیوں انکار ہے ؟
ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں خدائے واحد کا پرستار ہوں اس کے علاوہ کسی کو اس کا شریک نہیں مانتا ساری کائنات اور تمام عالم اسی کی مخلوق ہے اور وہی ان سب کا خالق ومالک ہے تو بھی اسی طرح ایک انسان ہے جس طرح ہم سب انسان ہیں پھر تو کس طرح رب یا خدا ہو سکتا ہے ‘ اور کس طرح یہ گونگے بہرے لکڑی کے بت خدا ہو سکتے ہیں ؟ میں صحیح راہ پر ہوں اور تم سب غلط راہ پر ہو اس لیے میں تبلیغ حق کو کس طرح چھوڑ سکتا ہوں اور تمھارے باپ دادا کے خود ساختہ دین کو کیسے اختیار کرسکتا ہوں ؟
نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ اگر میرے علاوہ تیرا کوئی رب ہے تو اس کا ایسا وصف بیان کر جس کی قدرت مجھ میں نہ ہو ‘ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میرا رب وہ ہے جس کے قبضہ میں موت وحیات ہے وہی موت دیتا ہے اور وہی زندگی بخشتا ہے ‘ کج فہم نمرود ‘ موت وحیات کی حقیقت سے ناآشنا ‘ نمرود کہنے لگا : اس طرح موت وحیات تو میرے قبضہ میں بھی ہے اور یہ کہہ کر اسی وقت ایک بے قصور شخص کے متعلق جلاد کو حکم دیا کہ اس کی گردن مار دو اور موت کے گھاٹ اتار دو ‘ جلاد نے فوراً حکم کی تکمیل کردی اور ایک قتل کے سزا یافتہ مجرم کو جیل سے بلا کر حکم دیا کہ جاؤ ہم نے تمھاری جان بخشی کی اور پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب متوجہ ہو کر کہنے لگا دیکھا میں بھی کس طرح زندگی بخشتا اور موت دیتا ہوں پھر تیرے خدا کی خصوصیت کیا رہی ؟
ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ نمرود یا تو موت وحیات کی اصل حقیقت سے نا آشنا ہے اور یا جمہور اور رعایا کو مغالطہ دینا چاہتا ہے تاکہ وہ اس فرق کو نہ سمجھ سکیں کہ زندگی بخشنا اس کا نام نہیں بلکہ نیست سے ہست کرنے کا نام زندگی بخشنا ہے اور اسی طرح کسی کو قتل یا پھانسی سے بچا لینا موت کا مالک ہونا نہیں ہے موت کا مالک وہی ہے جو روح انسانی کو اس کے جسم سے نکال کر اپنے قبضہ میں کرلیتا ہے اس لیے بہت سے دار رسیدہ اور شمشیر چشیدہ انسان زندگی پا جاتے ہیں اور بہت سے قتل و دار سے بچائے ہوئے انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور کوئی طاقت ان کو نہیں روک سکتی۔
اور اگر ایسا ہو سکتا تو ابراہیم (علیہ السلام) سے گفتگو کرنے والا نمرود سریر آرائے سلطنت نہ ہوتا بلکہ اس کے خاندان کا پہلا شخص ہی آج بھی اس تاج و تخت کا مالک نظر آتا ‘ مگر نہ معلوم کہ عراق کی اس سلطنت کے کتنے مدعی زیر زمین دفن ہو چکے اور ابھی کتنوں کی باری ہے۔
تاہم ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ اگر میں نے اس موقع پر موت وحیات کے دقیق فلسفہ پر بحث شروع کردی تو نمرود کا مقصد پورا ہوجائے گا اور وہ جمہور کو مغالطہ میں ڈال کر اصل معاملہ کو الجھا دے گا اور اس طرح میرا نیک مقصد پورا نہ ہو سکے گا اور تبلیغ حق کے سلسلہ میں سر محفل نمرود کو لاجواب کرنے کا موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا۔
کیونکہ بحث و مباحثہ اور جدل و مناظرہ میرا اصل مقصد نہیں ہے بلکہ لوگوں کے دماغ و قلب میں خدائے واحد کا یقین پیدا کرنا میرا مقصد وحید ہے اس لیے انھوں نے اس دلیل کو نظر انداز کر کے سمجھانے کا ایک دوسرا پیرایہ اختیار کیا اور ایسی دلیل پیش کی جس کا صبح و شام ہر شخص آنکھوں سے مشاہدہ کرتا اور بغیر کسی منطقی دلیل کے روزو شب کی زندگی میں اس سے دوچار ہوتا رہتا ہے۔
ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس ہستی کو ” اللہ “ کہتا ہوں جو روزانہ سورج کو مشرق سے لاتا اور مغرب کی جانب لے جاتا ہے پس اگر تو بھی اسی طرح خدائی کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے خلاف سورج کو مغرب سے نکال اور مشرق میں چھپا۔ یہ سن کر نمرود مبہوت اور لاجواب ہو کر رہ گیا اور اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے نمرود پر خدا کی حجت پوری ہوئی۔
نمرود اس دلیل سے مبہوت کیوں ہوا اور اس کے پاس اس کے مقابلہ میں مغالطہ کی گنجائش کیوں نہ رہی ؟ اس لیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دلیل کا حاصل یہ تھا کہ میں ایک ایسی ہستی کو اللہ مانتا ہوں جس کے متعلق میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ ساری کائنات اور اس کا سارا نظام اسی نے بنایا ہے اور اس نے اس پورے نظام کو اپنی حکمت کے قانون سے ایسا مسخر کر دیا ہے کہ اس کی کوئی شے نہ وقت مقررہ سے پہلے اپنی جگہ سے ہٹ سکتی ہے اور نہ ادھر ادھر ہو سکتی ہے۔
تم اس پورے نظام میں سے آفتاب ہی کو دیکھو کہ عالم ارضی اس سے کس قدر فائدے حاصل کرتا ہے۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے طلوع و غروب کا بھی ایک نظام مقرر کر دیا ہے پس اگر آفتاب لاکھ بار بھی چاہے کہ وہ اس نظام سے باہر ہوجائے تو وہ اس پر قادر نہیں ہے ‘ کیونکہ اس کی باگ خدائے واحد کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس کو بیشک یہ قدرت ہے کہ جو چاہے کر گذرے لیکن وہ کرتا وہی ہے جو اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔
لہٰذا اب نمرود کے لیے تین ہی صورتیں جواب دینے کی ہو سکتی تھیں۔
پہلی صورت یہ کہ وہ یہ کہے کہ مجھے آفتاب پر پوری قدرت حاصل ہے اور میں نے ہی یہ سارا نظام بنایا ہے مگر اس نے یہ جواب اس لیے نہیں دیا کہ وہ خود اس کا قائل نہیں تھا کہ یہ ساری کائنات اس نے بنائی ہے اور آفتاب کی حرکت اس کے قبضہ قدرت میں ہے بلکہ وہ تو خود کو اپنی رعایا کا رب اور دیوتا کہلاتا تھا اور بس۔
دوسری صورت یہ تھی کہ وہ کہتا ” میں اس عالم کو کسی کی مخلوق نہیں مانتا اور آفتاب تو خود مستقل دیوتا ہے اس کے اختیارات میں خود بہت کچھ ہے “ مگر اس نے یہ بھی اس لیے نہ کہا کہ اگر وہ ایسا کہتا تو ابراہیم (علیہ السلام) کا وہی اعتراض سامنے آجاتا جو انھوں نے جمہور کے سامنے آفتاب کی ربوبیت کے خلاف اٹھایا تھا کہ اگر یہ رب ہے تو عابدوں اور پجاریوں سے زیادہ اس معبود اور دیوتا میں تغیرات اور فنا کے اثرات کیوں موجود ہیں ؟ رب کو فنا اور تغیر سے کیا علاقہ ؟ اور کیا اس کی قدرت میں یہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو وقت مقررہ سے پہلے یا بعد طلوع یا غروب ہوجائے ؟
تیسری صورت یہ تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی تحدی (چیلنج) کو قبول کرلیتا اور مغرب سے نکال کر دکھا دیتا مگر نمرود چونکہ ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی جواب پر قادر نہ تھا اس لیے مبہوت اور لاجواب ہوجانے کے علاوہ اس کے پاس دوسرا چارہ کار باقی نہ رہا۔
عیسائی پادریوں اور ان کی اندھی تقلید میں آریہ سماجیوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے اس ذکر کردہ مناظرہ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر نمرود یہ کہہ بیٹھتا کہ ابراہیم تو ہی اپنے خدا سے آفتاب کو مغرب سے طلوع کرا دے تو ابراہیم کے پاس کیا جواب تھا ؟
یہ اعتراض بہت ہی لچر اور سطحی ہے اس لیے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے مناظرہ کی جو تشریح بیان کی ہے اور جو حقیقت واقعہ ہے اس کے بعد یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ‘ کیونکہ نمرود جانتا تھا کہ وہ ایسا اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ پہلے وہ خود اپنی عاجزی و درماندگی کا اقرار کرے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرے کہ آفتاب ہمارا دیوتا بھی نہیں ہے ‘ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ وہ ہماری اس استدعا کو ابراہیم کے مقابلہ میں منظور کرلے ‘ بدیں وجہ اس نے خاموشی کو ترجیح دی ‘ اور اگر وہ ایسا سوال کر ہی بیٹھتا تو ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ یقین تھا کہ ایسے تحدی (چیلنج) کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے سچے پیغمبر کو ذلیل نہیں کرے گا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا پر وہ بلاشبہ آفتاب کو مغرب سے طلوع کرکے ابراہیم (علیہ السلام) کی صداقت کو واضح کر دے گا۔
البتہ یہ مسئلہ مادیین اور خدا کی قدرت پر کنٹرول کرنے والوں کے لیے ضرور تعجب خیز ہو سکتا ہے لیکن جن کا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام اگرچہ خاص قوانین کے شکنجہ میں جکڑا ہوا ہے لیکن اس کا یہ شکنجہ ان اشیاء کے ذاتی خواص کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس شکنجہ میں کسنے والی ہستی اور ہے جو سب سے بالاتر ہے اور تمام اشیاء کی تاثیر اور اس کے خواص اسی کے یدِ قدرت میں ہیں لہٰذا وہ چاہے تو ان کے خواص و تاثیرات کو بدل بھی سکتا ہے اور فنا بھی کرسکتا ہے اور اسی قادر مطلق اور بے قید مالک و متصرف کا نام ” اللہ “ ہے تو ان کی نگاہ میں یہ تعجب انگیز بات نہیں ہے۔
قرآن عزیز نے (سورة بقرہ) میں اس واقعہ کو مختصر مگر لطیف پیرا یہ میں بیان کیا ہے :
{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰ تٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَم اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُلا قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُط قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ } [81]
” کیا تو نے نہیں دیکھا اس شخص کا واقعہ جس کو اللہ نے بادشاہت بخشی تھی اس نے کس طرح ابراہیم سے اس کے پروردگار کے بارہ میں مناظرہ کیا ؟ جب کہا ابراہیم نے میرا پروردگار تو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے بادشاہ نے کہا میں بھی زندگی بخشتا ہوں اور موت دیتا ہوں ابراہیم نے کہا بلاشبہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے پس تو اس کو مغرب سے نکال کر دکھلا پس وہ کافر (بادشاہ) مبہوت اور لاجواب ہو کر رہ گیا اور اللہ ظلم کرنے والوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔ “
غرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو اسلام کی تلقین کی ‘ پیغام حق سنایا اور راہ مستقیم دکھائی اس کے بعد عوام اور جمہور کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور سب کو امر حق تسلیم کرانے کے لیے فطرت کے بہترین اصول و دلائل کو پیش فرمایا اور نرمی ‘ شیریں کلامی مگر مضبوط و محکم اور روشن حجت و دلیل کے ساتھ ان پر حق کو واضح کیا اور سب سے آخر میں بادشاہ نمرود سے مناظرہ کیا اور اس پر روشن کر دیا کہ ربوبیت و الوہیت کا حق صرف خدائے واحد ہی کے لیے سزاوار ہے اور بڑے سے بڑے شہنشاہ کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کی ہمسری کا دعویٰ کرے کیونکہ وہ اور کل دنیا اسی کی مخلوق ہے۔
اور وجود و عدم کی قید و بند میں گرفتار اس کے باوجود کہ بادشاہ ‘ آزر اور جمہور ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دلائل سے لاجواب تھے اور دلوں میں قائل بلکہ بتوں کے واقعہ میں تو زبان سے بھی اقرار کرنا پڑا کہ ابراہیم ((علیہ السلام)) جو کچھ کہتا ہے وہی حق ہے اور صحیح و درست ‘ تاہم ان میں سے کسی نے راہ مستقیم کو اختیار نہ کیا اور قبول حق سے منحرف ہی رہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس اپنی ندامت و ذلت سے متاثر ہو کر بہت زیادہ غیظ و غضب میں آگئے اور بادشاہ سے رعایا تک سب نے متفقہ فیصلہ کر لیا کہ دیوتاؤں کی توہین اور باپ دادا کے دین کی مخالفت میں ابراہیم ((علیہ السلام)) کو دہکتی آگ میں جلا دینا چاہیے کیونکہ ایسے سخت مجرم کی سزا یہی ہو سکتی ہے اور دیوتاؤں کی تحقیر کا انتقام اسی طرح لیا جا سکتا ہے۔
اس مرحلہ پر پہنچ کر ابراہیم (علیہ السلام) کی جدوجہد کا معاملہ ختم ہو گیا اور اب دلائل وبراہین کی قوت کے مقابلہ میں مادی طاقت و سطوت نے مظاہرہ شروع کر دیا ‘باپ اس کا دشمن ‘ جمہور اس کے مخالف اور بادشاہ وقت اس کے در پے آزار ‘ ایک ہستی اور چہار جانب سے مخالفت کی آواز ‘دشمنی کے نعرے اور نفرت و حقارت کے ساتھ سخت انتقام اور خوفناک سزا کے ارادے ‘ ایسے وقت میں اس کی مدد کون کرے اور اس کی حمایت کا سامان کس طرح مہیا ہو ؟
مگر ابراہیم (علیہ السلام) کو نہ اس کی پروا تھی اور نہ اس کا خوف ‘ وہ اسی طرح بے خوف و خطر اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے نیاز اعلان
حق میں سرشار اور دعوت رشد و ہدایت میں مشغول تھے البتہ ایسے نازک وقت میں جب تمام مادی سہارے ختم ‘ دنیوی اسباب ناپید اور حمایت و نصرت کے
ظاہری اسباب مفقود ہو چکے تھے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس وقت بھی ایک ایسا بڑا زبردست سہارا حاصل تھا جو تمام سہاروں کا سہارا اور تمام نصرتوں کا ناصر کہا جاتا ہے اور وہ خدائے واحد کا سہارا تھا اس نے اپنے جلیل القدر پیغمبر ‘قوم کے عظیم المرتبت ہادی اور رہنما کو بے یارو مددگار نہ رہنے دیا اور دشمنوں کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ ہوا یہ کہ نمرود اور قوم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی سزا کے لیے ایک مخصوص جگہ بنوائی اور اس میں کئی روز مسلسل آگ دہکائی گئی حتیٰ کہ اس کے شعلوں سے قرب و جوار کی اشیاء تک جھلسنے لگیں ‘جب اس طرح بادشاہ اور قوم کو کامل اطمینان ہو گیا کہ اب ابراہیم ((علیہ السلام)) کے اس سے بچ نکلنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تب ایک گوپھن میں ابراہیم (علیہ السلام) کو بٹھا کر دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا گیا۔
اس وقت آگ میں جلانے کی تاثیر بخشنے والے نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) پر اپنی سوزش کا اثر نہ کرے اور ناری عناصر کا مجموعہ ہوتے ہوئے بھی اس کے حق میں سلامتی کے ساتھ سرد پڑجائے ‘ آگ اسی وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں ” بردوسلام “ بن گئی اور دشمن ان کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا سکے ‘ اور ابراہیم (علیہ السلام) دہکتی آگ سے سالم و محفوظ دشمنوں کے نرغہ سے نکل گئے۔
” دشمن اگر قویست ‘ نگہباں قوی تر است “
اس مقام پر ایک مذہبی انسان کی طمانیت قلب اور سکون خاطر کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ آگ کے بردوسلام ہوجانے کو اس لیے صحیح اور مبنی بر حقیقت سمجھے کہ اس نے اپنی عقل اور اپنے شعور سے اول اس امر کا امتحان کر لیا ہے کہ قرآن عزیز کی تعلیم وحی الٰہی کی تعلیم ہے اور اس کی لانے والی ہستی کی زندگی کا ہر پہلو پیغمبرانہ معصومیت کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ کہ وہ جن معجزانہ حقائق کی اطلاعات بہم پہنچاتا اور وحی الٰہی کے ذریعہ ہم کو سناتا ہے وہ عقل کے لیے اگرچہ حیران کن ہیں لیکن عقل کی نگاہ میں محال اور ناممکن نہیں اس لیے ایک مخبر صادق (جس کی زندگی کی صداقت کا ہر پہلو سے امتحان کر کے اطمینان کر لیا گیا ہے) کی اس قسم کی خبریں بلاشبہ صحیح اور حق ہیں اور بقول قیصر روم ہرقل اعظم (ہر کلیوس) کہ جو شخص انسانوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا اور ان سے دغا و فریب نہیں کرتا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی خدا کی جانب کسی غلط بات کو منسوب نہیں کرسکتا اور کبھی اس پر جھوٹ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتا اور مذہبی زندگی میں صاف اور سیدھی راہ بھی یہی ہے جس مذہب کی مکمل تعلیم کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر ہر طرح قابل اطمینان پا لیا جائے اس کے بتائے ہوئے چند ایسے امور پر جو عقل کے لیے صرف حیران کن ہوں مگر اس کے نزدیک محال ذاتی اور ناممکن کے مرادف نہ ہوں فلسفیانہ موشگافیوں کے بغیر ایمان لے آیا جائے اور صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس یقینی اور غیر مشکوک اطلاع کو آفتاب کی روشنی سے زیادہ روشن سمجھا جائے اور یقین رکھا جائے کہ تمام اشیاء میں خواص و تاثیرات پیدا کرنے والے خدا میں یہ بھی قدرت ہے کہ جب چاہے ان کو دی ہوئی تاثیر اور خاصہ کو سلب کرلے اور جب چاہے دوسری کیفیت کے ساتھ بدل ڈالے لیکن مادیین کے لیے اگر یہ راہ باعث اطمینان نہ ہو اور فلسفہ کے شیدائی مذہب کے اس مسئلہ کو بھی فلسفیانہ موشگافیوں سے پاک نہ رہنے دینا چاہتے ہوں تو ان کے لیے بھی اس معجزہ سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ ہمیں یہ تسلیم ہے کہ آگ کا طبعی خاصہ جلا دینا ہے اور جو شے بھی اس میں پڑے گی جل جائے گی لیکن اس کی کیا وجہ کہ بعض وہ کپڑے اور وہ اشیاء جن کو ” فائر پروف “ کہا جاتا ہے آگ کے شعلوں کے اندر کیوں محفوظ رہتی ہیں اور ان کو آگ جلا کر کیوں خاکستر نہیں کردیتی ؟ ۔
تم کہو گے کہ آگ بدستور جلانے کا خاصہ رکھتی ہے مگر کپڑے یا چیز پر ایک ایسا مسالا لگا دیا گیا ہے جس پر آگ اپنا اثر نہیں کرسکتی ‘ یہ نہیں ہے کہ آگ نے جلانے کا خاصہ ترک کر دیا ہے۔
تو ایک مذہبی انسان کے لیے اسی طرح آپ کے فلسفیانہ رنگ میں یہ جواب دینے کا کیوں حق نہیں ہے کہ نمرود اور اس کی قوم کی دہکتی آگ میں جلانے کا خاصہ بدستور اسی طرح باقی تھا جس طرح آگ کے عناصر میں موجود ہے مگر وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے جسم کے لیے بے اثر ثابت ہوا ‘ فرق صرف اس قدر ہے کہ تمھارے ” فائر پروف “ میں انسانوں کی سوچی ہوئی تدابیر کا دخل ہے اور اس لیے ہر سیکھنے والے کو ایک فن کی طرح سیکھ لینے کا موقع حاصل ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے جسم کا آگ سے محفوظ ہوجانا بلاواسطہ خدائے برتر کی تدبیر کے زیر اثر تھا اور اس قسم کا عمل پیغمبر کی صداقت اور دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی برتری کے لیے کبھی کبھی بہ تقاضائے حکمت اس کی جانب سے سامنے آجاتا اور شریعت کی اصطلاح میں معجزہ شمار ہوتا ہے بیشک وہ نہ فن ہوتا ہے اور نہ وسائل و اسباب سے پیدا کردہ تدابیر کا محتاج ‘ پس خدا کی مخلوق انسان کو اگر یہ قدرت حاصل ہے کہ کسی شے کے طبعی خاصہ کو بعض اشیاء پر مؤثر نہ ہونے دے تو اشیاء کے خواص کے خالق کو کیوں یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ کسی خاص موقع پر شے کی تاثیر کو عمل سے روک دے۔
اور اگر آج سائنس کی دریافت پرفضا میں ایسی گیسیں موجود ہیں جن کے بدن پر اثر کرنے سے آگ کی سوزش سے محفوظ رہا جا سکتا ہے تو گیسوں کے پیدا کرنے والے خالق کے لیے کون مانع ہے کہ نمرود کی دہکتی آگ میں ان کو ابراہیم (علیہ السلام) تک نہ پہنچاوے اور اس طرح آگ کو بحق ابراہیم (علیہ السلام) بردوسلام نہ بنا دے۔
قرآن عزیز میں ابراہیم (علیہ السلام) کے اس پر اعجاز واقعہ کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے :
{ قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَ انْصُرُوْٓا اٰلِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ } [82]
” وہ سب کہنے لگے اس (ابراہیم (علیہ السلام)) کو جلاڈالو اور اپنے دیوتاؤں کی مدد کرو اگر تم کرنا چاہتے ہو ہم نے حکم دیا اے آگ تو ابراہیم کے حق میں سرد اور سلامتی بن جا اور انھوں نے ابراہیم کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا پس ہم نے ان کو ان کے ارادہ میں ناکام بنادیا۔ “
{ قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ } [83]
” انھوں نے کہا اس کے لیے ایک جگہ بناؤ اور اس کو دہکتی آگ میں ڈالو ‘ پس انھوں نے اس کے ساتھ ارادہ بد کیا تو کر دیا ہم نے ان کو اس کے مقابلہ میں پست و ذلیل اور کہا ابراہیم نے ‘ میں جانے والا ہوں اپنے پروردگار کے پاس ‘ قریب ہے وہ مجھے راہ یاب کرے گا۔ “
ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات میں قرآن عزیز نے اس موقع پر جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) اور قوم کے بعض افراد کے درمیان میلے کی شرکت کے لیے گفتگو ہو رہی تھی ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول نقل کیا ہے قَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ [84] ” ابراہیم نے کہا میں بیمار ہوں “ اور جب بتوں کی شکست وریخت کے سلسلہ میں ان سے دریافت کیا گیا تو ان کا جواب اس طرح منقول ہے :
{ قَالَ بَلْ فَعَلَہٗق صلے کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ } [85]
” ابراہیم نے کہا بلکہ ان میں سے سب سے بڑے بت نے یہ کیا ہے پس ان سے پوچھو اگر یہ بول سکتے ہیں ؟ “
ان دونوں جملوں کے متعلق ایک خالی الذہن انسان ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ان میں جھوٹ کا بھی کوئی شائبہ ہو سکتا ہے ؟ اِنِّیْ سَقِیْمٌ میں علالت طبع ذکر ہے جس کو ابراہیم (علیہ السلام) ہی خوب جان سکتے ہیں کہ وہ کیا بیمار ہیں اس میں دوسرے کو خواہ مخواہ شک اور تردد کا کون سا موقع ہے حتیٰ کہ اگر ایک شخص ظاہر بیں نگاہوں میں تندرست نظر آتا ہو تب بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ واقعی تندرست ہے ہو سکتا ہے
کہ اس کا مزاج کسی وجہ سے حد اعتدال پر نہ ہو اور ایسی تکلیف میں مبتلا ہو جس کا اظہار کیے بغیر دوسرا اس کو نہ سمجھ سکے۔ اسی طرح دوسری آیت کا معاملہ ہے اس لیے کہ دو مختلف الخیال انسانوں کے درمیان اگر مناظرہ اور تبادلہ خیالات کی نوبت آجاتی ہے تو معمولی حرف شناس بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اپنے حریف کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنے اور لا جواب کردینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے مسلمات میں سے کسی مسلمہ عقیدہ کو صحیح فرض کرکے اس طرح اس کا استعمال کرے کہ اس کا ثمرہ اور نتیجہ حریف کے خلاف اور اپنے موافق ظاہر ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے یہی کیا ‘ ان کی قوم کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے دیوتا سب کچھ سنتے اور ہماری مرادوں کو پورا کرتے ہیں وہ اپنے پجاریوں اور معتقدوں سے خوش اور اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے سخت انتقام لیتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ان دیوتاؤں کو توڑ پھوڑ ڈالا تو بڑے بت کو چھوڑ دیا آخر جب پوچھ گچھ کی نوبت آئی تو انھوں نے مناظرے کا وہی بہترین اسلوب اختیار کیا جس کا تفصیلی ذکر گذشتہ صفحات میں آچکا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ کاہنوں پجاریوں اور ساری قوم کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ہم ہی غلطی پر ہیں اور تو خود حقیقت شناس ہے کہ ان میں گویائی کی طاقت نہیں ہے۔
لہٰذا ان دونوں جملوں میں ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جس کو حقیقتاً یا صورۃً جھوٹ کہا جاسکے ‘ یہ دو باتیں تو قرآن عزیز میں مذکور ہیں لیکن صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم اور بعض دوسری حدیث کی کتابوں میں مسطورہ بالا دونوں باتوں کے علاوہ ایک تیسری بات کا بھی ذکر ہے یہ حدیث ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔
(لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاھِیْمُ النَّبِیُّ (علیہ السلام) قَطُّ اِلَّا ثَلٰثَ کَذِبَاتْ الخ)
” نہیں جھوٹ بولا کبھی ہرگز ابراہیم نبی (علیہ السلام) نے مگر تین جھوٹ۔ “
اور پھر تفصیل کے ساتھ ان تینوں کو شمار کیا ہے ان میں سے دو کا ذکر ابھی ہو چکا اور تیسری بات میں یہ مذکور ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جب مصر سے گذر ہوا تو انھوں نے مصر پہنچنے سے پہلے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سارہ سے یہ فرمایا کہ یہاں کا بادشاہ جابر و ظالم ہے اگر کسی حسین عورت کو دیکھتا ہے تو اس کو زبردستی چھین لیتا ہے اور اس کے ساتھی مرد کو اگر وہ اس عورت کا شوہر ہو تو قتل کر ڈالتا ہے اور اگر کوئی دوسرا عزیز ہو تو اس سے کوئی تعرض نہیں کرتا تم چونکہ میری دینی بہن ہو اور اس سرزمین میں میرے اور تمھارے علاوہ دوسرا کوئی مسلمان نہیں ہے اس لیے تم اس سے کہہ دینا کہ یہ میرا بھائی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب شب میں اس نے ارادہ بد کیا تو اس کا ہاتھ شل ہو کر رہ گیا اور وہ کسی طرح حضرت سارہ کو ہاتھ نہ لگا سکا یہ دیکھ کر اس نے سارہ سے کہا اپنے خدا سے دعا کر کہ میرا ہاتھ درست ہوجائے تو میں تجھ کو رہا کر دوں گا سارہ نے دعا کی مگر اس نے پھر ارادہ بد کیا اور دوبارہ اس کا ہاتھ شل ہو گیا تیسری مرتبہ پھر یہی تمام قصہ پیش آیا تب اس نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے یہ جن ہے انسان نہیں ہے ‘ اس کو میرے پاس سے جلد لے جاؤ اور ساتھ ہی ہاجرہ کو حوالہ کرکے کہا کہ اس کو بھی اپنے ساتھ لے جا ‘ میں نے تیرے حوالہ کیا۔ جب سارہ اور ہاجرہ کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچیں تو انھوں نے حال دریافت کیا اور سارہ نے مبارک باد دی اور کہا شکر ہے خدائے عزوجل کا کہ اس نے ہم کو اس فاسق وفاجر سے نجات دی اور آپ کے لیے ایک خادمہ اور ساتھ کردی ۔ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے یہ حدیث نقل کرکے فرمایا ” اے شریف النسب اہل عرب یہ ہیں وہ ہاجرہ جو تم سب کی ماں ہیں۔ “
یہ حدیث مختلف طریقوں سے کتب احادیث میں منقول ہے اس کے علاوہ بخاری میں ایک اور طویل حدیث ہے جو حدیث شفاعت کے نام سے موسوم ہے اور متعدد ابواب بخاری مثلاً سورة بقرہ کی تفسیر کے باب میں ‘ کتاب الاستر قاق میں اور کتاب التوحید میں مذکور ہے اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو تذکرہ ہے اس کا حاصل یہ ہے :
” میدان حشر میں جب سب مخلوق آدم ‘ نوح اور دوسرے انبیا (علیہم السلام) سے شفاعت کے لیے کہہ چکی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچی اور ان سے کہا کہ آپ خلیل الرحمن ہیں ‘ آپ ہماری سفارش بارگاہ الٰہی میں کیجئے کہ جلد فیصلہ ہو تو انھوں نے فرمایا کہ مجھ کو شرم آتی ہے اس لیے کہ میں نے دنیا میں تین جھوٹ باتیں کہی تھیں ‘ اِنِّیْ سَقِیْمٌ‘ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ اور اپنی بیوی سے کہا تھا کہ انی اخوک۔ “
بخاری کے علاوہ یہ روایت مسلم ‘ مسند احمد ‘ صحیح ابن خزیمہ ‘ مستدرک حاکم ‘ معجم طبرانی ‘ مصنف ابن ابی شیبہ ‘ ترمذی اور مسند ابی عوانہ میں مختلف صحابہ (رض) سے منقول ہے۔
یہ روایت کتب حدیث میں اجمال و تفصیل کے ساتھ مختلف طریقوں سے روایت کی گئی ہے بعض میں صرف اجمالی طور اسی قدر تذکرہ ہے کہ ہر نبی اس وقت اپنی لغزش کو بیان کرکے معذرت کریں گے کہ وہ شفاعت نہیں کرسکتے اور بعض میں ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب میں فقط ” ثلث کذبات “ ہی کا ذکر ہے اور بعض روایات میں ان تینوں کی تفصیل ہے اور انھی میں سے بعض روایات میں یہ تصریح بھی موجود ہے۔
( (مَا مِنْھَا کَذِبَۃٌ اِلَّا مَا حَلَّ بِھَا عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ ) )
[86]
” رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) کے ان تینوں جھوٹ میں سے ہر ایک صرف اللہ تعالیٰ کے دین کی مدافعت و حمایت ہی کے لیے بولا گیا ہے۔ “
بہرحال یہ دونوں روایات صحیحین (بخاری و مسلم) کی روایات ہیں جو ہر قسم کے سقم روایت سے پاک اور صاف ہیں یہ روایات ابراہیم (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر اور مجدد انبیا کی جانب کذب کی نسبت کر رہی ہیں اگرچہ انہی روایات کے بعض طریق روایت نے یہ صاف کر دیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر کذب سے مراد وہ عام معنی نہیں لیے جو اخلاقی بول چال میں نہایت شنیع اور گناہ کبیرہ میں شمار ہیں بلکہ اس کے برعکس یہ واضح کیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ تینوں باتیں نہ ذاتی غرض کے لیے کہی ہیں اور نہ دنیوی مصلحت کے پیش نظر بلکہ معاندین حق کے مقابلہ میں خالص اللہ تعالیٰ کے دین کی حمایت میں کہی ہیں ‘ اس کے باوجود جو بات دل میں کھٹکتی اور قلب پر ایک بھاری بوجھ محسوس ہوتی ہے وہ حدیث کی یہ تعبیر ہے۔
یہ تسلیم کہ روایات کی بعض تصریحات نے اس کو کذب کے عام معنی سے جدا کر دیا ‘ تاہم اول تو یہ ” زیادت “ صحیحین میں مذکور نہیں اگرچہ صحیح روایت میں موجود ہے دوسرے جبکہ صدق لسانی انبیا (علیہم السلام) کی غیر منفک اور عصمت نبی کے لیے ایک ضروری صفت ہے نیز جبکہ خصوصیت کے ساتھ قرآن عزیز نے ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق حسب ذیل امتیازات کا صراحت کے ساتھ ذکر فرما دیا ہے تو پھر ان کے ساتھ صورۃً بھی کذب کی نسبت کیسی ؟
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ ٥ ط اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا } [87]
” اور یاد کر کتاب میں ابراہیم کا ذکر ‘ بیشک تھا وہ صدیق (صادق النفس) نبی۔ “
” صدیق “ مبالغہ کا صیغہ ہے اور اسی ہستی پر اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ” صدق “ جس کی ذاتی اور نفسیاتی صفت ہو۔
{ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًاط وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ شَاکِرًا لِّاَنْعُمِہٖط اِجْتَبٰہُ وَ ھَدٰہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } [88]
” بیشک ابراہیم تھا راہ ڈالنے والا حکم بردار ‘ خالص اللہ کی طرف جھکنے والا اور نہ تھا وہ مشرکوں میں سے ‘ خدا کی نعمتوں کا شکر گزار تھا ‘ خدا نے اس کو چن لیا تھا اور سیدھی راہ کی اس کو ہدایت دی تھی۔ “
مجتبیٰ اور مہدی ایسی صفات ہیں جن کے ساتھ کذب نہ حقیقتاً جمع ہو سکتا ہے اور نہ صورۃً ۔
"{ ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا } [89]
” اے محمد پھر ہم نے تیری طرف وحی بھیجی کہ تو ملت ابراہیمی کی پیروی کر جو ابراہیم کہ خالص خدا کی جانب جھکنے والا ہے۔ “
یہ وہ ابراہیم ہیں جن کی ملت کی اقتداء اور پیروی کا حکم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت مرحومہ کو دیا جا رہا ہے :
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّابِہٖ عٰلِمِیْنَ } [90]
” اور بلاشبہ ہم نے ابراہیم کو رشد و ہدایت شروع ہی سے بخش دی تھی اور ہم ہی اس کو جاننے والے ہیں۔ “
یہ اور اسی قسم کی بہت سی آیات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ان خصوصی صفات کا ذکر کرتی اور نصوص قطعیہ پیش کرتی ہیں کہ جن کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی اس جیسی مقدس اور جلیل القدر ہستی کے متعلق ” کذب “ کا تصور نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ وقوع اور عمل ‘ خواہ وہ کذب حقیقی معنی میں ہو یا محض کذب کی صورت میں۔
اس مقام پر پہنچ کر ایک مرتبہ پھر یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ مسئلہ زیر بحث یہ نہیں ہے کہ ” العیاذباللّٰہ “ ابراہیم (علیہ السلام) نے واقعی جھوٹ بولا کیونکہ قرآن عزیز کی قطعی نصوص اور زیر بحث روایات کے علاوہ احادیثی نصوص ابراہیم (علیہ السلام) کو نبی پیغمبر اور رسول بتاتی اور ان کی امتیازی صفات صدیق ‘ مجتبیٰ ‘ مہدی ‘ نبی ‘ حنیف اور رسول ثابت کرتی ہیں ‘ نیز زیر بحث روایت میں بھی یہ واضح ہے کہ ان کے یہ کلمات خدا کے دین کی حمایت و مدافعت کے لیے تھے نہ کہ کسی دنیوی غرض و مصلحت سے لہٰذا ایک لمحہ کے لیے بھی اس میں تردد کی گنجائش نہیں ہے کہ کذب ان سے اسی طرح دور ہے جس طرح دن سے رات اور روشنی سے تاریکی ‘ اور بلاشبہ وہ ایک نبی معصوم ہیں اور ہر قسم کی معصیت و گناہ سے پاک۔
البتہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ ان دو صحیح روایات میں ان تینوں باتوں کے متعلق رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں کذب کی تعبیر کیوں فرمائی جبکہ آپ کی ذات اقدس ضروریات دین اور عقائد اسلامی کے بارے میں ایہام اور گنجلک کو دور کرنے کا باعث ہے نہ کہ ایہام والتباس پیدا کرنے کا ؟
خصوصاً جبکہ یہ تینوں باتیں خود اپنی جگہ کسی حال میں نہ صورت میں کذب ہیں اور نہ حقیقی معنی میں۔
بلاشبہ حضرت سارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دینی بہن تھیں اور بیوی کے رشتہ سے اسلامی اخوت کا رشتہ منقطع نہیں ہوجاتا ‘ نیز ابن کثیر اور دوسرے مؤرخین کی تحقیق میں وہ ان کے چچا حاران کی بیٹی تھیں ‘
اس لیے چچا زاد بہن بھی تھیں ‘ اور بلاشبہ ان کا مزاج ناساز تھا گو سخت بیماری نہ سہی اس لیے اِنِّيْ سَقِیْمٌ ہر حیثیت سے صحیح ہے اور بلاشبہ انھوں نے مناظرانہ طرز خطابت میں دشمن کو لاجواب کرنے کے لیے فرمایا بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ اور یہ علمی دنیا میں کسی حیثیت سے بھی جھوٹ نہیں تھا تو پھر ان ہر دو احادیث میں اس طرح کی تعبیر کیوں اختیار کی گئی ؟
اس اشکال کے جواب میں علمائے اسلام نے دو راہیں اختیار فرمائی ہیں :
یہ اخبار آحاد ہیں اس لیے جرأت کے ساتھ یہ کہہ دینا چاہیے کہ اگرچہ یہ روایتیں صحیحین کی ہیں اور اس لیے مشہور کی حد تک پہنچ گئی ہیں مگر راوی کو ان روایات میں سخت مغالطہ ہوا ہے لہٰذا ہرگز قابل قبول نہیں ہیں اس لیے کہ ایک نبی کی جانب کذب کی نسبت کے مقابلے میں راویوں کی غلطی کا اعتراف بدرجہ ہا بہتر اور صحیح طریق کار ہے۔
امام رازی (رحمۃ اللہ علیہ) کا رجحان اسی جانب ہے اور انھوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
یہ قطعی اور یقینی عقیدہ ہے کہ نبی اور رسول کی جانب ” کذ ب “ کی نسبت کسی حال میں درست نہیں ہے ایسی صورت میں اگر مستند اور صحیح روایات میں جو حد شہرت و تواتر کو پہنچ چکی ہوں اس قسم کی کوئی نسبت موجود ہو جو نبی کی نبوت کی شان کے منافی ہو تو ان روایات کو صحیح مانتے ہوئے ان خصوصی جملوں کی ایسی توجیہ کرنی چاہیے جس سے اصل مسئلہ پر بھی زد نہ پڑے اور صحیح روایات کا انکار بھی لازم نہ آئے پس چونکہ صحیحین کی یہ روایات تلقی بالقبول کی وجہ سے صحت اور شہرت کے اس درجہ اور مرتبہ کو پہنچ چکی ہیں جو اخبار آحاد میں شمار نہیں ہو سکتیں ‘ اس لیے ان روایات کو مردود قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ” ثلث کذبات “ کے جملہ کی یہ توجیہ کرنی چاہیے کہ اس مقام پر کذب سے مراد یہ ہے کہ ایسا کلام جو صحیح اور پاک مقصد کے لیے بولا گیا ہو لیکن مخاطب اس کا وہ مطلب نہ سمجھے جو متکلم کی مراد ہے بلکہ ان الفاظ کو اپنی ذہنی مراد کے مطابق سمجھے اور یہ معنی صرف ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے لیے ہی نہیں تراشے گئے بلکہ علم بدیع کی اصطلاح میں اس کو معاریض کی اقسام میں شمار کیا گیا ہے اور فصحاء و بلغاء کے کلام میں اکثر رائج ہے۔
اس طرح روایات کا انکار بھی لازم نہیں آئے گا اور صداقت نبی کا مسئلہ بھی اپنی جگہ بغیر کسی غل و غش کے صحیح رہے گا چنانچہ حدیث شفاعت کے وہ الفاظ ” ما منھا کذبۃ الاماحل بہ عن دین اللّٰہ “ ہماری اس توجیہ کی تائید کرتے ہیں جمہور علمائے اسلام کی یہی رائے ہے اور وہ امام رازی اور ان کے ہم نوا علما کی پہلی رائے کو صحیح تسلیم نہیں کرتے۔
مشہور مصری عالم عبد الوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں امام رازی کی رائے کے ساتھ موافقت کی ہے اور مصری علمائے عصر کی رائے کے خلاف (جو دراصل جمہور کی تائید میں نجار کی رائے پر تنقید کی شکل میں ظاہر کی گئی ہے) کافی شرح وبسط کے ساتھ لکھا ہے جس میں حضرت ابراہیم و سارہ (علیہا السلام) کے اس واقعہ سے انکار کیا ہے۔
مگر ان ہر دو آراء سے الگ سادہ اور صاف راہ یہ ہے کہ صحیح حدیث کے انکار اور اس کے الفاظ کی رکیک تاویل کیے بغیر ہی مسئلہ کو اس طرح حل کر دیا جائے کہ اصل مسئلہ عصمت پیغمبر پر بھی حرف نہ آنے پائے اور اس قسم کے مواقع سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں اور احادیث نبوی کے ساتھ تمسخر اور مذاق کرنے والوں کو بھی الحاد کی جرأت نہ ہو سکے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عصمت پیغمبر کا مسئلہ بلاشبہ اصول دین اور مہمات عقائد میں سے ہے بلکہ دین و مذہب کی صداقت کی اساس و بنیاد صرف اسی ایک مسئلہ پر قائم ہے کیونکہ یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ بعض حالات میں نبی اور پیغمبر بھی کذب کی کوئی نہ کوئی شکل و صورت اختیار کرسکتا ہے خواہ وہ حمایت حق ہی کے لیے کیوں نہ ہو اس کی لائی ہوئی تمام تعلیم سے یہ امتیاز اٹھ جائے گا کہ اس میں سے کون ساجزء اپنی حقیقی مراد کے ساتھ وابستہ ہے اور کون سا کذب کے رنگ میں رنگا ہوا ‘ اور اگر یہ مان لیا جائے تو پھر دین ‘ دین نہیں رہ سکتا اور نہ مذہب ‘ مذہب ۔
اس لیے قرآن عزیز کا یہ منصوص عقیدہ ” عصمت پیغمبر “ اپنی جگہ غیر متزلزل اور غیر متبدل عقیدہ ہے اور اس لیے بلاشبہ جو اس عقیدہ کی صداقت پر حرف گیری کا باعث بنے وہ خود اپنی جگہ یا قابل ردوانکار ہے اور یا اپنی صحت تعبیر کے لیے جواب دہ ‘ پس اس محکم عقیدہ کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ اس سے معارض شے کو یا اس کے مطابق ہونا پڑے گا ورنہ تو مٹ جانا ہوگا۔
اسی طرح یہ امر بھی مسلم ہے کہ قرآن عزیز کی تفسیر و تشریح صرف لغت عرب سے ہی نہیں کی جا سکتی بلکہ جس طرح اس کے مفہوم سمجھنے کے لیے لغت کی معرفت ضروری ہے اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال ‘ اعمال اور احوال کی معرفت کی ضرورت ہے جو کلام اللہ کی صحیح توجیہ تفسیر اور تشریح کے حامل ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ قرآنی احکام مثلاً ” اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ “ ” وَاٰ تُوا الزَّکوٰۃَ “ ” اَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ “ ‘ ” فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ “ میں نماز ‘ زکوۃ ‘ حج اور روزہ کے مفہوم اور معنی کو ہم کسی طرح بھی لغت عربی کے ذریعہ متعین نہیں کرسکتے اور تنہا یہ لغوی معنی و مفہوم قرآنی احکام کا مصداق نہیں بن سکتے بلکہ ان کی معرفت کے لیے ہم مجبور ہیں کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان اقوال و اعمال کی طرف رجوع کریں جو ان فرائض کی تفسیر و تشریح میں کہے گئے یا کیے گئے ہیں ‘ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف تعامل کے ذریعہ ہم ان فرائض کی حقیقت سے آگاہ ہو سکیں اس لیے کہ اگر دقت نظر سے کام لیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تعامل کا مبدء بھی آخر کار قول و عمل رسول پر ہی جا کر منتہی ہوتا ہے ‘ لہٰذا پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول وعمل کو بھی جزو دین سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے اور بغیر اس تسلیم و رضا کے آیت :
{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ } [91]
” بلاشبہ خدا کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس شخص کے لیے عمدہ نمونہ ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر امید لگاتا ہو “
کے کوئی معنی نہیں بنتے ‘ کیونکہ یہ اسوہ حسنہ خود قرآن عزیز اور اس کی آیات نہیں ہیں بلکہ اس پیغمبر کا قول ‘ عمل اور حال ہی اسوہ حسنہ ہے اور جبکہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ اقوال ‘اعمال اور احوال جزو دین ہیں تو ضروری تھا کہ ان کی حفاظت کا ایسا سامان مہیا ہو جو خاتم النّبیین کی امت کے لیے رہتی دنیا تک محفوظ طریقے سے پہنچ سکے اور اس جوہر خالص میں جب کبھی کھوٹ کی ملاوٹ کی جائے۔تو اس کے محافظین اور فن کے ماہرین فوراً دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے کھرے کھوٹے کو الگ کرسکیں پس اسی طریقہ حفاظت کا نام روایت حدیث اور نقد حدیث ہے اور اسی فن کو فن حدیث کہتے ہیں اور یہی وہ شریف اور مقدس خدمت ہے جس نے اپنوں سے نہیں بلکہ غیروں سے بھی خراج تحسین حاصل کیا ہے اور اس خدمت کو اسلام کا امتیازی نشان تسلیم کرایا ہے۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان اقوال و اعمال کی روایت کی حفاظت کے سلسلہ میں کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کے لیے زمانہ نبوت سے اب تک جو خدمت ہوتی آرہی ہے اس کی اہمیت اس سے ظاہر ہو سکتی ہے کہ روایت حدیث کا فن تقریباً چودہ فنون اور شاخوں میں منقسم ہے۔
لہٰذا از بس ضروری ہے کہ ہم کسی ایک ایسی روایت یا روایت کے جملہ کو جو اپنی لفظی اور ظاہری تعبیر میں مسلمہ عقیدہ کے بارے میں ایہام پیدا کرتا ہو صحیح اور مقبول مشہور اور متواتر روایات حدیثی کے انکار پر حجت و دلیل قائم نہ کر لیں اور اس کو انکار حدیث کا ذریعہ بنا کر قرآن عزیز کو ایک ایسی اجنبی کتاب نہ بنادیں جس کی تعبیر کے لیے نہ کسی پیغمبر کے تفسیری اقوال ہیں اور نہ تشریحی اعمال بلکہ وہ کسی ویرانہ یا پہاڑ پر نازل ہوئی ہے اور صرف اپنی زبان کی لغت اور ڈکشنری سے حل کی جا سکتی ہے۔
البتہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہے کہ تمام احادیث رسول روایت باللفظ نہیں ہیں بلکہ بعض روایات بالمعنی ہیں یعنی یہ نہیں ہے کہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بھی الفاظ زبان مبارک سے فرمائے ہوں راوی نے ایک ایک لفظ اسی طرح نقل کر دیا ہو ‘بلکہ معنی اور مفہوم کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس روایت کے الفاظ راوی کی اپنی تفسیر ہوتے ہیں۔
پس ان اہم اور بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھنے کے بعد اب مسئلہ زیر بحث کو اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ بخاری کی احادیث کو بلاشبہ ” تلقی بالقبول “ حاصل ہے۔
اور یہ بھی تسلیم کہ یہ کتاب جرح و نقدپر کسے جانے اور پرکھے جانے کے بعد امت میں شہرت و قبولیت کا وہ درجہ رکھتی ہے کہ کتاب اللہ کے بعد اس کو اصح الکتب کہا جاتا ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے اس کی کسی روایت میں راوی سے لفظی تعبیر میں سقم پیدا ہو گیا ہو اور روایت اگرچہ اپنے سلسلہ سند اور مجموعہ متن کے اعتبار سے اصولاً قابل تسلیم ہو مگر اس جملہ کی تعبیر کو سقیم سمجھا جائے اور اصل روایت کو رد کرنے کی بجائے صرف اس کے سقم کو ظاہر کر دیا جائے چنانچہ اس کی بہترین مثال بخاری کی حدیث معراج ہے۔
محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلم کی حدیث اسریٰ عن انس (رضی اللہ عنہ) کے مقابلہ میں بخاری کی حدیث عن شریک بن عبداللّٰہ بن ابی نمر میں سقم ہے اور اس کی ترتیب میں غلطیاں ہیں اور مسلم کی روایت ان اسقام و اغلاط سے پاک صاف ہے حالانکہ یہ دونوں روایتیں روایت و درایت کے اعتبار سے صحیح اور قابل تسلیم ہیں۔
تب بغیر کسی شک اور تردد کے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے متعلق یہ دونوں طویل روایات ” روایت بالمعنی “ کی قسم میں داخل ہیں ‘ اور یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ الفاظ اور جملوں کی یہ پوری نشست نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان حق ترجمان کے نکلے ہوئے الفاظ اور جملوں کی نشست ہے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مفہوم اور معنی کو ادا کرتی ہیں لہٰذا ہو سکتا ہے۔
ہر دو روایات میں بیان کردہ واقعات کی صحت کے باوجود زیر بحث الفاظ سلسلہ سند کے کسی راوی کے اختلال لفظی کا نتیجہ ہوں اور اس سے یہ تعبیری سقم پیدا ہو گیا ہو۔
خصوصاً جبکہ اس کے لیے یہ قرینہ بھی موجود ہے کہ حضرت ابراہیم وسارہ (علیہا السلام) اور شاہ مصر کا یہ واقعہ توراۃ میں بھی مذکور ہے اور وہاں اس قسم کے غیر محتاط جملے بکثرت موجود ہیں لہٰذا یہ ممکن ہے کہ راوی سے اس اسرائیلی روایت اور صحیح روایت کے درمیان تعبیر میں خلط ہو گیا ہو اور اس لیے اس نے معاملہ کی تعبیرزیر بحث الفاظ سے کردی ہو۔
گذشتہ سطور سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کی ہدایت کے لیے کس درجہ مضطرب اور بے چین تھے اور دلائل وبراہین کی وہ کون سی صورت ہو سکتی ہے جو انھوں نے حق کے آشکارا کرنے میں صرف نہ کردی ہو ؟ سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو سمجھایا پھر ” جمہور “ کے سامنے حق کی روشنی کو پیش کیا ‘اور آخر میں نمرود سے مناظرہ کرکے اس کے سامنے بھی احقاق حق کو بہتر سے بہتر اسلوب کے ساتھ ادا کیا
اور ہر لمحہ یہی سب کو تلقین کی کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش جائز نہیں اور اصنام پرستی اور کواکب پرستی کا نتیجہ خسران اور ذلت کے سوائے دوسرا نہیں ہے اس لیے شرک سے باز آنا چاہیے اور ملت حنیفیہ ہی کو صراط مستقیم سمجھنا چاہیے جس کی اساس و بنیاد صرف توحید الٰہی پر قائم ہے۔
مگر بدبخت قوم نے کچھ نہ سنا اور کسی طرح رشد و ہدایت کو قبول نہ کیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی حضرت سارہ اور ان کے برادر زادہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی ایک بھی ایمان نہیں لایا اور تمام قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دینے کا فیصلہ کر لیا اور دہکتی آگ میں ڈال دیا۔
اور جب خدائے تعالیٰ نے دشمنوں کے ارادوں کو ذلیل و رسوا کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں آگ کو ” بردوسلام “ بنادیا تو اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ارادہ کیا کہ کسی دوسری جگہ جا کر پیغام الٰہی سنائیں اور دعوت حق پہنچائیں اور یہ سوچ کر فدان آرام ١ ؎ سے ہجرت کا ارادہ کر لیا۔
{ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ } [92]
” اور ابراہیم نے کہا ” میں جانے والا ہوں اپنے پروردگار کی طرف ‘ قریب ہی وہ میری رہنمائی کرے گا “
یعنی اب مجھے کسی ایسی آبادی میں ہجرت کرکے چلا جانا چاہیے جہاں خدا کی آواز گوش حق نیوش سے سنی جائے خدا کی زمین تنگ نہیں ہے یہ نہ سہی اور سہی ‘ میرا کام پہنچانا ہے خدا اپنے دین کی اشاعت کا سامان خود پیدا کر دے گا۔
بہرحال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد آزر اور قوم سے جدا ہو کر فرات کے غربی کنارہ کے قریب ایک بستی میں چلے گئے۔جو اور کلدانیین کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت سارہ ہم سفر رہیں اور کچھ دنوں کے بعد یہاں سے حران یا حاران کی جانب روانہ ہو گئے اور وہاں دین حنیف کی تبلیغ شروع کردی۔
مگر اس عرصہ میں برابر اپنے والد آزر کے لیے بارگاہ الٰہی میں استغفار کرتے اور اس کی ہدایت کے لیے دعا مانگتے رہے اور یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ وہ نہایت رقیق القلب ‘ رحیم اور بہت ہی نرم دل و بردبار تھے۔اس لیے آزر کی جانب سے ہر قسم کی عداوت کے مظاہروں کے باوجود انھوں نے آزر سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگرچہ میں تجھ سے جدا ہو رہا ہوں اور افسوس کہ تو نے خدا کی رشد و ہدایت پر توجہ نہ کی تاہم میں برابر تیرے حق میں خدا سے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔
آخر کار حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو وحی الٰہی نے مطلع کیا کہ آزر ایمان لانے والا نہیں ہے اور یہ انہی اشخاص میں سے ہے جنھوں نے اپنی نیک استعداد کو فنا کرکے خود کو اس کا مصداق بنا لیا :
{ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَ عَلٰی سَمْعِھِمْط وَ عَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ} [93]
” اللہ نے مہر لگا دی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ “
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہو گیا تو آپ نے آزر سے اپنی برأت کا صاف صاف اعلان کر دیا کہ جو امید موہوم میں نے لگا رکھی تھی وہ اب ختم ہو گئی اس لیے اب استغفار کا سلسلہ بے محل ہے ‘ قرآن عزیز ‘ سورة توبہ میں اس واقعہ کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے :
{ وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُج فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُط اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ} [94]
” اور نہ تھا ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے مگر اس وعدہ کے مطابق جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا پھر جب اس پر یہ ظاہر ہو گیا کہ یہ خدا کا دشمن ہے (یعنی اس کا آخری انجام یہی ہوگا) تو اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا ‘ بیشک ابراہیم تھا ضرور رقیق القلب بردبار۔ “
ابراہیم (علیہ السلام) اس طرح تبلیغ کرتے کرتے فلسطین پہنچے ‘ اس سفر میں بھی ان کے ہمراہ حضرت سارہ ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی تھیں۔ سورة عنکبوت میں ہے :
{ فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌم وَ قَالَ اِنِّیْ مُھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْط اِنَّہٗ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } [95]
” پس لوط ‘ ابراہیم ((علیہ السلام)) پر ایمان لے آیا اور کہنے لگا میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں بیشک وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔ “
روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت عثمان ذی النورین اپنی زوجہ مطہرہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کرگئے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
( (اَنَّ عُثْمَانَ اَوَّلُ مُھَاجِرٌ بِاَھْلِہٖ بَعْدَ لُوْطٍ )) (الحدیث)
” بلاشبہ لوط (علیہ السلام) کے بعد عثمان پہلے مہاجر ہیں جنھوں نے اپنی بیوی سمیت ہجرت کی۔ “
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فلسطین کے غربی اطراف میں سکونت اختیار کی ‘ اس زمانہ میں یہ علاقہ کنعانیوں کے زیر اقتدار تھا ‘ پھر قریب ہی شکم (نابلس) میں چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ قیام کیا ‘ اس کے بعد یہاں بھی زیادہ مدت قیام نہیں فرمایا اور غرب ہی کی جانب بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ مصر تک جا پہنچے۔
جب نابلس سے چل کر مصر پہنچے تو بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق ملک جبار کا واقعہ پیش آیا جو گذشتہ سطور میں سپرد قلم ہو چکا ہے اور توراۃ میں اس قصہ کو اس طرح نقل کیا گیا ہے :
” سو جب ابرام مصر پہنچا ‘ مصریوں نے اس عورت کو دیکھا کہ وہ نہایت خوبصورت ہے اور فرعون کے امیروں نے بھی اسے دیکھا اور فرعون کے حضور میں اس کی تعریف کی اور اس عورت کو فرعون کے گھر میں لے گئے اس نے اس کے سبب ابرام پر احسان کیا کہ اس کو بھیڑ بکری اور گائے بیل اور گدھے اور غلام اور لونڈیاں اور گدھیاں اور اونٹ ملے ‘ پھر خداوند نے فرعون اور اس کے خاندان کو ابرام کی جورو سری کے سبب بڑی مار ماری ‘ تب فرعون نے ابرام کو بلا کر اس سے کہا کہ تو نے مجھ سے یہ کیا کیا ؟ کیوں نہ بتایا کہ یہ میری جورو ہے ‘ تو نے کیوں کہا کہ وہ میری بہن ہے ؟ یہاں تک کہ میں نے اسے اپنی جورو بنانے کو لیا ‘ دیکھ یہ تیری جو رو حاضر ہے اس کو لے اور چلا جا اور فرعون نے اس کے حق میں لوگوں کو حکم کیا تب انھوں نے اسے اور اس کی جورو کو اور جو کچھ اس کا تھا روانہ کیا۔ “ [96]
صحیحین (بخاری و مسلم) کی روایت اور توراۃ کی اس روایت کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ صحیحین کی روایت میں حضرت سارہ کے بد دعا والے واقعہ میں ملک جبار فرعون نے شیطانی (جنی) اثر سمجھ کر حضرت سارہ سے جان چھڑائی اور حضرت ہاجرہ کو ان کے حوالہ کرکے ابراہیم (علیہ السلام) کو مع ان کے رفقا اور سازو سامان کے مصر سے چلے جانے کی اجازت دی ‘ فتح الباری میں ہے کہ مصری ” جن “ کی عظمت کے قائل تھے ‘ اس لیے شیطان سے مراد یہاں جن ہے۔
اور توراۃ کی روایت یہ کہتی ہے کہ فرعون مصر نے سارہ کے واقعہ کو کرامت سمجھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر یہ عتاب کیا کہ انھوں نے شروع ہی سے یہ کیوں نہ بتادیا کہ سارہ ان کی بہن نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اور پھر بڑے انعام و اکرام اور عزت کے ساتھ ان کو مصر سے رخصت کیا۔ توراۃ کی روایت کے مطابق اس وقت حضرت سارہ کی عمر ستر سال کی تھی۔
بہرحال صحیحین کی روایت ہو یا توراۃ کی ‘ معنی اور مفہوم کے اعتبار سے دونوں روایات قریب قریب ہیں اور دونوں کے درمیان کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔
البتہ ان تمام روایات سے اس قدر یقینی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیوی سارہ اور اپنے برادر زادہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے ساتھ مصر تشریف لے گئے اور یہ وہ زمانہ ہے جبکہ مصر کی حکومت ایسے خاندان کے ہاتھ میں ہے جو سامی قوم سے تعلق رکھتا تھا اور اس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے نسبی سلسلہ میں وابستہ تھا ‘ یہاں پہنچ کر ابراہیم (علیہ السلام) اور فرعون مصر کے درمیان ضرور کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس سے اس کو یقین ہو گیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کا خاندان خدا کا مقبول اور برگزیدہ خاندان ہے یہ دیکھ کر اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی حضرت سارہ کا بہت اعزاز کیا اور ان کو ہر قسم کے مال و منال سے نوازا ‘ اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے قدیم خاندانی رشتہ کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے اپنی بیٹی ہاجرہ کو بھی ان کی زوجیت میں دے دیا ‘ جو اس زمانہ کے رسم و رواج کے اعتبار سے پہلی اور بڑی بی بی کی خدمت گزار قرار پائیں ‘ چنانچہ اس تاریخی قیاس کی سب سے بڑی شہادت خود یہود کے یہاں بھی موجود ہے :
” سفر ایشیا میں (جو یہودیوں کی ایک معتبر تاریخ ہے) مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں مصر کا بادشاہ حضرت کا ہم وطن تھا۔ “ [97]
اور اسی طرح یہود کی معتبر روایات سے یہ مسئلہ بھی صاف اور روشن ہوجاتا ہے کہ حضرت ہاجرہ ” شاہِ مصر “ فرعون کی بیٹی تھیں ‘ لونڈی اور باندی نہیں تھیں ‘ توراۃ کا ایک معتبر مفسر ربی شلومو اسحاق کتاب پیدائش باب ١٦ آیت ١ کی تفسیر میں لکھتا ہے :
( (اَبَثْ بَرْعُہ ھَایثا کِشّر انسیّم شِنعِسُّوا سَارَہْ اَمَرْ مُرْتَاب شِتَّھَا بَتّی شِفحَہْ بَیْتَ زِہْ وَلَوْ کَبِیْرَۃ بِبَیْتِ اَخِیْرِ ))
” جب اس نے (رقیون شاہ مصر نے) سارہ کی وجہ سے کرامات کو دیکھا تو کہا : میری بیٹی کا اس کے گھر میں لونڈی ہو کر رہنا دوسرے گھر میں ملکہ ہو کر رہنے سے بہتر ہے۔ “ [98]
اس تفسیر اور توراۃ کی آیت کو جمع کرنے سے یہ حقیقت بخوبی آشکارا ہوجاتی ہے کہ توراۃ میں حضرت ہاجرہ کو صرف اسی لیے لونڈی کہا گیا کہ شاہ مصر نے ان کو حضرت سارہ اور ابراہیم (علیہا السلام) کے سپرد کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ سارہ کی خدمت گزار رہے گی ‘ یہ مطلب نہ تھا 1 کہ وہ لونڈی بمعنی ” جاریہ “ ہیں اس لیے کہ ربی شلو مو تصریح کرتا ہے کہ حضرت ہاجرہ فرعون مصر کی بیٹی تھیں۔
حاشیہ:1
صحیح البخاری ‘ کتاب الانبیاء ‘ باب قول اللہ تعالیٰ (واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا) ‘ حدیث : ٣٣٥٨۔
بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے ملک جبار کی جو روایت مذکور ہے اس میں بھی یہ جملہ موجود ہے اور ربی شلومو کی تفسیر کی تائید کرتا ہے :
( (وَاَخْدَمَھَا ھَاجِرَہ ))
” اور ہاجرہ کو سارہ کے حوالہ کر دیا کہ ان کی خدمت گزار رہے “
اس لیے بنی اسرائیل کا یہ طعن کہ بنی اسماعیل ہم سے اس لیے کمتر ہیں کہ وہ لونڈی سے ہیں اور ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ سے ‘ صحیح نہیں ہے اور واقعہ اور تاریخ دونوں کے خلاف ہے اور جس طرح توراۃ کے دوسرے مضامین میں تحریف کی گئی ہے اسی طرح اس واقعہ میں بھی تحریف کی گئی ہے اور واقعہ کی تمام تفصیلات کو حذف کرکے صرف ” لونڈی “ کا لفظ باقی رہنے دیا گیا ہے۔
ہاجرہ اصل میں عبرانی لفظ ” ہاغار “ ہے جس کے معنی بیگانہ اور اجنبی کے ہیں ٢ ؎ ان کا وطن چونکہ مصر تھا اس لیے یہ نام پڑ گیا ‘ لیکن اسی اصول کے پیش نظر زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ ” ہاغار “ کے معنی ” جدا ہونے والے “ کے ہیں اور عربی میں ” ہاجر “ کے معنی بھی یہی ہیں ‘ یہ چونکہ اپنے وطن مصر سے جدا ہو کر یا ہجرت کرکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریک حیات اور حضرت سارہ کی خدمت گزار بنیں اس لیے ہاجرہ کہہ لائیں۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زیرعنوان بحث ختم کرنے سے قبل دو ایسے اہم مقامات کا ذکر کردینا از بس ضروری ہے جن کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بہت گہرا تعلق ہے اور جو پیروان ملت ابراہیمی کے لیے مقام بصیرت کی حیثیت رکھتے اور مجدد انبیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ عظمت و جلال کو تابندہ تر بناتے ہیں۔
سورة الممتحنۃ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک خاص دعا کا تذکرہ ہو رہا ہے ‘ وہ بارگاہ الٰہی میں دست طلب دراز کیے عجز و نیاز کے ساتھ یہ عرض کر رہے ہیں۔
{ رَبَّنَآ لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا } [99]
” اے ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا جو کافر ہیں “
فتنہ ” فتن “ سے ماخوذ ہے جب سونے کو اس لیے آگ میں تپاتے ہیں کہ کھوٹ اور میل جل کر خالص سونا باقی رہ جائے تو اس کے لیے ” فتن الذہب “ بولتے ہیں اب اصطلاح میں امتحان اور آزمائش اور پرکھ کو کہتے ہیں اور اس لیے حضرت انسان پر جو شدائد و مصائب آتے ہیں وہ اس مناسبت سے ” فتنہ “ کہلاتے ہیں قرآن حکیم نے بھی مال ‘ اولاد اور منصب و جاہ کو اسی معنی کے پیش نظر فتنہ کہا ہے اور صاف صاف اعلان کیا ہے کہ صادق و کاذب کی جانچ کے لیے ” مومن “ کو اس کسوٹی پر ضرور پرکھا جاتا ہے۔
{ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ } [100]
” کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ جو لوگ دعویٰ ایمان کرتے ہیں وہ یوں ہی چھوڑ دیے جائیں گے اور آزمائے نہ جائیں گے۔ “
{ وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ } [101]
” اور ان مشرکوں سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور دین سب کا سب خالص اللہ کے لیے رہ جائے۔ “
تو اب قابل توجہ ہے یہ بات کہ اس دعائے ابراہیمی کی مراد کیا ہے ؟ اور وہ کافروں کے لیے فتنہ نہ بننے سے متعلق کیا خواہش رکھتے ہیں ؟
اختلافِ ذوق کے پیش نظر علمائے حق نے اس سوال کو تین طرح سے حل کیا ہے لیکن ان تینوں حقیقتوں پر غائر نظر ڈالنے کے بعد بآسانی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا اپنی وسعت اور دقیق تعبیر کے لحاظ سے بیک وقت تینوں باتوں پر حاوی ہے :
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) درگاہ رب العزت میں یہ دعا کر رہے ہیں : پروردگار عالم مجھ کو وہ زندگی بخش کہ میرا قول وعمل اور میری رفتار و گفتار ” اسوہ حسنہ “ کی تعبیر ہو ‘ میں اگر ہادی بنوں تو اسوہ حسنہ کا اور مجھ کو قیادت نصیب ہو تو رشد و ہدایت کی اور پھر اس پر استقامت عطا فرما ایسا نہ ہو کہ میں اسوہ سیہ کا رہنما اور قائد بن جاؤں اور فردائے قیامت میں امت کے گمراہ اور کافر تیرے حضور مجھ کو یہ کہہ کر شرمندہ کریں :
{ رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآئَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا } [102]
” اے ہمارے پروردگار اس میں ذرا شک نہیں کہ ہم نے اپنے قائدین اور اپنے بڑوں کی پیروی اختیار کرلی تھی پس انھوں نے ہی ہم کو راہ سے بے راہ کیا۔ “
یعنی وہ خواہش رکھتے ہیں کہ اگر راہنمائی اور قیادت ان کا نصیب ہے تو پھر وہ اسوہ اور قدوہ چھوڑ کر جائیں کہ کل کے دن ” اولیاء الرحمن “ کے زمرہ میں جگہ ملے اور ان کی زندگی کا راز ” اولیاء الشیطان “ کے ساتھ عداوت بن جائے۔ آیت کا سیاق وسباق اس معنی کی پوری تائید کرتا ہے اس لیے کہ آیت سے قبل مشرکین کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی پاکباز امت کے اس اعلان کا تذکرہ ہے :
{ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ} [103]
” اور ہمارے تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت و بغض کا آغاز ہو گیا ہے تا این کہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لے آؤ۔ “
اور زیر بحث آیت کے بعد پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پیرو ” مومنین قانتین “ کے اسوہ حسنہ کا ذکر خیر ہے اور شروع سورة میں بھی ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ حسنہ کا ذکر موجود ہے۔
ابراہیم (علیہ السلام) اپنے ان جامع کلمات میں بارگاہ حق سے اس کے طالب ہیں کہ خدایا تو ہم کو کافروں کے ہاتھوں آزمائش کے لیے نہ چھوڑ دینا کہ وہ ہم کو ایمان سے برگشتہ اور کفر کے قبول کرنے کے لیے طرح طرح کے مصائب و آلام کا شکار بنائیں اور جبرو ظلم کے ذریعہ راہ سے بے راہ بنانے پر آمادہ و دلیر ہوجائیں۔
اس معنی کا قرینہ یہ ہے کہ آیت زیر عنوان سے قبل یہ ذکر آچکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی امت اجابت نے ذی اقتدار اور بااختیار کافر و مشرک جماعت کے سامنے جرأت حق کے ساتھ یہ اعلان کر دیا کہ ہم تمھارے معتقدات کے قطعاً منکر ہیں ” کَفَرْنَا بِکُمْ “ اور ہمارے اور تمھارے درمیان اسلام کے اقرار و انکار اور قبول و عدم قبول کے لیے کھلا چیلنج ہے تو اس صورت حال میں از بس ضروری تھا کہ ایک باخدا انسان ‘ جلیل القدر پیغمبر ‘ عظیم المرتبہ ہادی ‘ اپنی انسانی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے درگاہ الٰہی میں دست بدعا ہو کہ اے لازوال قدرت کے مالک تو کسی طرح اور کسی حالت میں بھی کافروں کو ہم پر غلبہ عطا نہ فرما اور کافر کسی شکل میں بھی ہم پر ایسے قابو یافتہ نہ ہو سکیں کہ ایمان و کفر سے متعلق ہمارا یہ اعلان جنگ ہمارے لیے باعث امتحان و فتنہ بن جائے اور مشرک ہم کو کفر کی جانب واپس لانے کی جرأت بے جا کرسکیں۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس مقام پر فتنہ کہہ کر ” عذاب “ مراد لیتے ہیں اس لیے کہ فتنہ کی مختلف شکلوں میں سے ایک بھیانک شکل یہ بھی ہے ‘ اور عرض کرتے ہیں ‘ پروردگار ہم کو ایسی حالت پر کبھی نہ پہنچانا کہ کافروں اور مشرکوں کے ہاتھوں طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوجائیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ اپنی پستی ‘ نکبت ‘ ذلت و غلامی اور دشمنوں کی دنیوی عزت وجاہ ‘ عروج و ترقی اور حاکمانہ اقتدار کو دیکھ دیکھ کر یہ کہہ اٹھیں کہ اگر ہم حق پر ہوتے تو اس ذلت و خسران میں نہ ہوتے اور اگر شرک و کفر خدا کی نگاہ میں مبغوض ہوتا تو ان کافر اور مشرک جماعتوں کو یہ عزت و جاہ اور یہ فروغ حاصل نہ ہوتا یعنی ہم سے حق و باطل کا امتیاز ہی اٹھ جائے پس ایسے فتنہ سے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رکھ۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا یہ پہلو ہمارے لیے صد ہزار سامان عبرت و بصیرت رکھتا ہے اس لیے کہ گذشتہ ڈیڑھ صدی سے خصوصیت کے ساتھ اسلامی دنیا اپنی خود ساختہ غیر اسلامی روش کی بدولت جس طرح غیر اسلامی اقتدار ‘ حاکمانہ جبر اور پنجہ استبداد کے نیچے دبی ہوئی ہے اور ہر طرح بے چارہ و مجبور نظر آتی ہے اس نے ہم کو اس درجہ حقیرو ذلیل بنادیا ہے کہ ہم سے ہمارے قوائے فکرو عمل بھی مفقود ہو چکے ہیں اور احساس کمتری میں مبتلا ہو کر ہم بے خوف و خطریہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسلام نہ خدا پرستی کا نام ہے اور نہ عقائد و اعمال صالحہ کی زندگی کا بلکہ صرف مادی قوت و شوکت (حکومت) اور اس کے ذریعہ حصول عیش و عشرت کا دوسرا نام ” مذہب “ یا ” اسلام “ ہے اور نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوۃ اس مادی قوت کے حصول کے لیے ڈسپلن اور ضبط و نظم کے لیے صرف ایک طریق کار ہیں نہ کہ مقصد حیات ملی ‘ اور صرف یہی حقیقت ہے اس جنت کی جس کا وعدہ ارباب حق کے لیے قرآن میں کیا گیا ہے پس اگر یہ حاصل نہیں تو پھر اس کا دوسرا نام جہنم ہے اور وعدہ آخرت ‘ بعثت وحشر اور جنت و جہنم سب محض فرضی تخیلات ہیں جو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوں گے۔ (العیاذباللّٰہ)
اور یہ کہ جن قوموں کو دنیا میں اقتدار اور طاقت اور اس کے ذریعہ عیش و عشرت حاصل ہے قرآن میں مذکور حقیقی مومن وہی ہیں اور وہی اس طغرائے امتیاز کے مستحق ‘ نہ کہ وہ خدا پرست مسلمان جو اس دولت سے محروم اور مجبور ہیں چنانچہ کتاب ” تذکرہ “ ١ ؎ اسی خیال کی صدائے بازگشت ہے اور دین حق (اسلام) کی تعلیم سے نا آشنا اور مادیت سے مرعوب اکثر نوجوانان قوم کے بے باک خیالات اور ملحدانہ جذبات اسی پست اور شکست خوردہ ذہنیت کے آئینہ دار ہیں ‘ یہی وہ خوفناک حقیقت ہے جس کے تصور نے مرکز وحدت ‘ کعبہ کے موسس ‘ ملت ابراہیمی کے داعی ‘ دین حق کے مبلغ اور خدا کے مقدس رسول ‘ ابراہیم (علیہ السلام) کو لرزہ بر اندام کر دیا اور انھوں نے عجزو زاری کے ساتھ اس ناپاک زندگی سے محفوظ رہنے کے لیے حضرت حق کے سامنے دست طلب دراز کیا کہ ہم پر وہ وقت کبھی نہ آئے کہ کفر کی شوکت و طاقت اس طرح کچل ڈالے کہ پرستاران توحید اس سخت کڑی آزمائش میں مبتلا ہو کر حق و باطل کے درمیان امتیاز بھی کھو بیٹھیں۔
{ رَبَّنَآ عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ رَبَّنَآ لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَآ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } [104]
سورة شعرا میں بہ سلسلہ عبرت و بصیرت ‘ انبیا (علیہم السلام) کی دعوت رشد و ہدایت کا جو ذکر ہو رہا ہے ‘ اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی تذکرہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کو توحید الٰہی کی تلقین اور شرک و کفر سے بیزاری و نفرت کی ترغیب دلا رہے ہیں ‘ اسی حالت میں وہ توحید ذات وصفات کا ذکر خیر کرتے ہوئے یک بیک خدائے واحد کی جانب دست بدعا ہوجاتے ہیں ‘ گویا ایک دوسرے رنگ میں قوم کو اللہ رب العٰلمین کا پرستار بنانے کی سعی فرما رہے ہیں ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دعا کرتے کرتے درگاہ ایزدی میں عرض کرتے ہیں۔
وَلَا تُخْزْنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ ”
(پروردگار ) اور جس روز لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے تو اس دن مجھ کو رسوا نہ کرنا۔ “
اس آیت کے تحت امام بخاری (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی الجامع الصحیح میں حضرت ابوہریرہ (رضی اللّٰہ عنہ) سے ایک حدیث نقل فرمائی ہے جو کتاب التفسیر میں مختصر اور کتاب الانبیاء میں تفصیل کے ساتھ منقول ہے کتاب التفسیر میں منقول حدیث کا ترجمہ یہ ہے :
” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے والد کو پراگندہ حال اور رو سیاہ دیکھیں گے تو فرمائیں گے پروردگار دنیا میں تو نے میری اس دعاء کو قبول فرما لیا تھا وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ (یعنی پھر یہ رسوائی کیسی کہ میدان حشر میں اپنے باپ کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ابراہیم میں نے کافروں پر جنت کو حرام کردیا ہے۔ “
اور کتاب الانبیاء میں یہ روایت ان اضافات کے ساتھ مذکور ہے :
” جب قیامت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد کو پراگندہ حال اور روسیاہ دیکھیں گے تو باپ سے مخاطب ہو کر فرمائیں گے کیا میں نے بارہا تجھ سے یہ نہیں کہا تھا کہ میری راہ ہدایت کی مخالفت نہ کر۔ آزر کہے گا جو ہوا سو ہوا ‘ آج کے دن سے میں تیری مخالفت نہیں کروں گا ‘ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) درگاہ الٰہی میں عرض رسا ہوں گے پروردگار تو نے میری اس دعا کو قبول فرما لیا تھا رَبِّ لَا تُخْزِنِيْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ مگر اس سے زیادہ رسوائی اور کیا ہوگی کہ میرا باپ (آزر) تیری رحمت سے انتہائی دور ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بلاشبہ کافروں پر جنت کو حرام کر دیا ہے پھر ہاتف غیبی آواز دے گا (اور بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی پکارے گا) ابراہیم قدموں کے نیچے دیکھ کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دیکھیں گے کہ گندگی میں لتھڑا ہوا ایک بجو پیروں میں پڑا لوٹ رہا ہے تب فرشتے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں اس کو پھینک دیں گے۔ “
مختصرحدیث میں قیامت کے دن آزر کی ہیئت کذائی کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ تو ٹھیک ٹھیک قرآن عزیز سورة عبس کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں قیامت کے دن کافروں کی یہ حالت بیان کی گئی ہے :
{ وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ } [105]
” اور کتنے (لوگوں کے) منہ اس دن (ایسے) ہوں گے کہ ان پر گرد پڑی ہوگی اور ان پر کلونس (سیاہی) چھا رہی ہوگی ‘ یہی (وہ لوگ) ہیں جو (دنیا میں ) کافر اور بدکار ہیں۔ “
اور سورة یونس میں مومنوں اور اصحاب جنت کے لیے اسی حالت کی نفی کی گئی ہے :
{ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰے وَ زِیَادَۃٌ وَ لَا یَرْھَقُ وُجُوْھَھُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّۃٌ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ } [106]
” جن لوگوں نے دنیا میں بھلائی کی ان کے لیے (آخرت میں بھی) بھلائی ہے اور کچھ بڑھ کر بھی اور گنہگاروں کی طرح ان کے منہ پر نہ کلونس چھائی ہوئی ہوگی اور نہ ذلت ‘ یہی ہیں جنتی کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ “
طویل حدیث میں دو نئی باتیں کہی گئی ہیں ایک یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آزر کی یہ حالت دیکھ کر درگاہ الٰہی میں مسطورہ بالا دعا کا ذکر کریں گے جو انبیا (علیہم السلام) کی دعاؤں کی طرح شرف قبول حاصل کرچکی ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ باپ کی یہ رسوائی دراصل میری رسوائی ہے دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آزر کو بجو کی شکل میں مسخ کر دیا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کے اجزاء پر بحث کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آزر کو اس لیے مسخ کر دے گا تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وہ حزن و ملال جاتا رہے جو آزر کے بشکل انسان رہنے کی صورت میں ناری اور جہنمی ہونے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا اور وہ اس کی اس ہیئت کذائی کو دیکھ کر متنفر ہوجائیں اور فطرت ابراہیمی اس سے بیزار ہوجائے۔
اور بجو کی شکل میں مسخ ہوجانے کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ ماہرین علم الحیوانات کے نزدیک بجو گندہ بھی ہے اور درندوں میں احمق بھی تو چونکہ آزر بھی بت پرست ہونے کی وجہ سے نجاست میں ملوث تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی پیش کردہ آیات بینات اور توحید الٰہی کے روشن دلائل وبراہین کے قبول نہ کرنے کی بنا پر احمق بھی تھا اس لیے قانون الٰہی ” پاداش عمل از جنس عمل “ کے پیش نظر اسی کا مستحق تھا کہ ایک احمق اور نجس درندہ کی شکل میں مسخ کر دیا جائے۔
مگر مشہور محدث اسماعیلی اس روایت ہی کو مجروح اور لائق طعن سمجھتے اور صحت سند کے اعتراف کے باوجود سقم درایت کی بنا پر اس کو قبول نہیں کرتے وہ فرماتے ہیں :
” اس حدیث میں یہ ” سقم “ ہے کہ اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ العیاذ باللّٰہ خدائے برتر کے متعلق ” خلف وعد “ کا شک کرتے تھے ‘ تبھی تو یہ سوال کیا ؟ حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اولوالعزم انبیا میں سے ہیں اور وہ بلاشبہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی ہرگز نہیں کرتا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ [107] لہٰذا ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب ایسی بات کی نسبت کرنا قطعاً درست نہیں ‘ وہ کسی طرح بھی آزر کی مشرکانہ زندگی و موت کے علم ہوتے ہوئے ایسا سوال نہیں کرسکتے “
اسماعیلی کے علاوہ بعض دوسرے محدثین نے بھی اس تفصیلی روایت پر جرح کی ہے ‘ وہ کہتے ہیں یہ روایت بظاہر قرآن کے خلاف ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہے :
{ وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُط اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ} [108]
” اور (وہ جو) ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا مانگی تھی سو (وہ) ایک وعدہ (کی وجہ) سے مانگی تھی جو ابراہیم نے اپنے باپ سے کر لیا تھا ۔ پھر ان کو جب معلوم ہو گیا کہ یہ دشمن خدا ہے تو باپ سے (مطلقاً ) دست بردار ہو گئے ‘ بیشک ابراہیم البتہ بڑے نرم دل اور بردبار تھے۔ “
یہ آیت ناطق ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا ہی میں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ ان کا باپ آزر حیات کے آخری لمحہ تک خدا کا دشمن ہی رہا اور اسی پر اس کی موت ہوئی اس لیے انھوں نے دنیا ہی میں اس سے اپنی بیزاری اور بے تعلقی کا اعلان کر دیا تھا اور بتلا دیا تھا کہ خلیل الرحمن کو عدو الرحمن کے ساتھ کسی قسم کا واسطہ نہیں ہو سکتا۔
پس اس صورت حال کے بعد روایت کا یہ مضمون کس طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟
حافظ ابن حجر مسطورہ بالا دونوں جرح کو نقل کرنے کے بعد ان کا جواب اس طرح دیتے ہیں :
” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ آزر سے اظہار بیزاری کس وقت پیش آیا ؟ اس سلسلہ میں دو روایات منقول ہیں ایک حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے ابن جریر نے بسند صحیح اس طرح روایت کی ہے کہ جب آزر کا بحالت شرک و کفر انتقال ہو گیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یقین ہو گیا کہ وہ دشمن خدا ہو کر مرا لہٰذا انھوں نے آزر سے جو وعدہ استغفار کیا تھا اب اس کو ترک کر دیا اور اس سے اظہار بیزاری کر دیا۔ اور دوسری روایت کہ وہ بھی ابن جریر ہی نے روایت کی ہے ‘ یہ ہے : ابراہیم (علیہ السلام) کی ” تَبَرِّیْ “ (آزر سے اظہار بیزاری) کا یہ معاملہ دنیا میں نہیں قیامت کے دن پیش آئے گا اور اسی طرح پیش آئے گا جیسا کہ مسطورہ بالا تفصیلی روایت میں مذکور ہے یعنی جب آزر مسخ کر دیا گیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے یقین کر لیا کہ اب استغفار کی قطعاً گنجائش باقی نہیں رہی۔
نقد و جرح کے اصول کو پیش نظر رکھ کر دونوں روایات کے درمیان تطبیق کی شکل یہ ہے کہ اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دنیا ہی میں آزر کی مشرکانہ موت کے پیش نظر اس سے اظہار بیزاری کر دیا تھا لیکن جب میدان حشر میں باپ کی زبوں حالت کو دیکھا تو صفت رافت و رحمت جوش میں آگئی اور بہ تقاضائے فطرت انھوں نے پھر طلب مغفرت پر اقدام کیا مگر جب اللہ تعالیٰ نے آزر کو مسخ کر دیا تب ابراہیم (علیہ السلام) اس کے انجام سے مایوس ہو گئے اور سمجھ گئے کہ اس کی مغفرت کی قطعاً کوئی صورت نہیں ہے لہٰذا دوسری مرتبہ اس دارو گیر کے دن بھی تبری کا اعلان فرمایا۔ “ [109]
حافظ ابن حجر کے اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ قرآن عزیز نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نمایاں خصوصیات میں سے اس صفت کا بھی اعلان کیا ہے :
{ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ} [110]
چنانچہ اس کے مختلف مظاہر میں سے ایک مظہر یہ بھی ہے کہ آزر کی شرک پر موت اور ابراہیم (علیہ السلام) کے دنیا ہی میں اس سے اظہار تبری کے باوجود جس کا ذکر قرآن عزیز کی سورة توبہ میں موجود ہے جب وہ فردائے قیامت میں آزر کو اس زبوں حال میں دیکھیں گے : غَبَرَۃٌ عَلَیْھَا قَتَرَۃٌ تو ان کی رافت و رحمت جوش میں آجائے گی اور اولوالعزم پیغمبر کی طرح حقیقت حال سے با خبر رہتے ہوئے بھی ان کی صفت کریمانہ کا اس درجہ فطری غلبہ برسر کار آجائے گا کہ وہ آزر کے لیے طلب مغفرت پر آمادہ ہوجائیں گے اور یہ دیکھ کر کہ آزر کی مشرکانہ زندگی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے کہ اس کو حیلہ شفاعت بنایا جاسکے ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اس دعا کی پناہ لیں گے جو دنیا ہی میں قبولیت کا شرف دوام حاصل کرچکی تھی اور باپ کی رسوائی کو اپنی رسوائی ظاہر کرکے درگاہ حق میں اس وعدہ کا ذکر کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں یہ فرما کر کہ ” کافر پر میں نے جنت کو حرام کر دیا ہے “ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس جانب توجہ دلائے گا کہ اپنی اس فطری رافت و رحمت کے باوجود تم کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ دنیائے عمل نہیں بلکہ روز جزاء ہے اور آج میزان عدل قائم ہے جس کے لیے ہمارا یہ غیر متبدل قانون ابدیت کا شرف حاصل کرچکا ہے کہ کافر و مشرک کے لیے جنت میں کوئی جگہ نہیں اور یہ کہ مشرک کی رسوائی ہرگز مومن کی رسوائی کا باعث نہیں ہو سکتی خواہ ان دونوں کے درمیان علاقہ دنیوی کے مضبوط رشتے ہی کیوں نہ قائم رہے ہوں اور ساتھ ہی حکمت الٰہی ایسی صورت حال پیدا کر دے گی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حزن و ملال کا وہ اثر ہی باقی نہ رہے گا جس کی وجہ سے ان کے فطری ملکات نے طلب مغفرت پر آمادہ کیا تھا چنانچہ آزر کو درندہ کی شکل میں مسخ کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پاک اور سلیم فطرت اس کو دیکھ کر نفرت و کراہت کرنے لگے گی۔
غرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ سوال اس لیے نہ تھا کہ وہ العیاذ باللّٰہ اس صورت حال کو ” خلف وعد “ سمجھ رہے تھے بلکہ ایک فطری تقاضے کے پیش نظر تھا جو اگرچہ نتائج وثمرات کو تو نہیں بدل سکتا مگر اس شخصیت کے ملکات حسنہ اور اوصاف کریمانہ کے نمایاں کرنے کا باعث ضرور بن جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر کا یہ جواب اگرچہ اسماعیلی اور بعض دوسرے محدثین کے طعن و جرح کو بلاشبہ بڑی حد تک ہلکا کردیتا ہے تاہم اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللّٰہ عنہ) سے منقول بخاری کی مختصر حدیث کے علاوہ طویل حدیث کے بعض اجزاء ضرور محل نظر ہیں تبھی تو غالباً حافظ حدیث عماد الدین ابن کثیر نے ان روایات کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد مختصر حدیث کو قبول کرتے ہوئے بخاری کی کتاب الانبیاء والی طویل حدیث پر ” تفرد “ کا اور نسائی کی حدیث پر ” غرابت “ و ” نکارت “ کا حکم لگایا ہے مشہور محدث کرمانی نے بھی اس مسئلہ کو سوال و جواب کی شکل میں پیش کرکے اس کے حل کرنے کی سعی فرمائی ہے جو اپنی جگہ قابل مراجعت ہے۔ [111]
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ابھی تک اولاد سے محروم تھے اور ان کے گھر کا مالک ایک خانہ زادالیعزر دمشقی تھا۔ایک روز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں فرزند کے لیے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان کو تسلی دی :
” ابراہام نے کہا اے خداوند تو مجھے کیا دے گا کیونکہ میں تو بے اولاد جاتا ہوں اور میرے گھر کا مختار دمشقی الیعزر ہے پھر ابراہام نے کہا دیکھ تو نے مجھے کوئی اولاد نہیں دی اور دیکھ میرا خانہ زاد میرا وارث ہوگا ‘ تب خداوند کا کلام اس پر اترا اور اس نے فرمایا یہ تیرا وارث نہ ہوگا۔بلکہ وہ جو تیری صلب سے پیدا ہوگا وہی تیرا وارث ہوگا۔ “ [112]
اور یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی چھوٹی بی بی(زوجہ) حضرت ہاجرہؑ حاملہ ہوئیں :
” اور وہ ہاجرہؑ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی۔ “ [113]
جب حضرت سارہؑ کو یہ پتہ چلا تو انھیں بہ تقاضائے بشریت ہاجرہ سے رشک پیدا ہو گیا اور انھوں نے حضرت ہاجرہؑ کو تنگ کرنا شروع کر دیا ‘حضرت ہاجرہؑ مجبور ہو کر ان کے پاس سے چلی گئیں :
” اور خداوند کے فرشتے نے اسے میدان میں پانی کے ایک چشمہ کے پاس پایا یعنی اس چشمہ کے پاس جو صور کی راہ پر ہے اور اس نے کہا کہ اے سری(سارہؑ) کی لونڈی ہاجرہؑ تو کہاں سے آئی ؟ اور کدھر جاتی ہے ؟ وہ بولی کہ میں اپنی بی بی سری(سارہؑ) کے سامنے سے بھاگی ہوں ‘اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو اپنی بی بی کے پاس پھر جا اور اس کے تابع رہ پھر خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا اور وہ وحشی (بدوی) آدمی ہوگا۔ اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے ‘ اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودوباش کرے گا۔ “ [114]
حضرت ہاجرہؑ جس مقام پر فرشتہ سے ہم کلام ہوئیں اس جگہ ایک کنواں تھا ‘
ہاجرہؑ نے یادگار کے طور پر اس کا نام ”زندہ نظر آنے والا کنواں “ رکھا۔تھوڑے عرصہ کے بعد ہاجرہ کے بیٹا پیدا ہوا۔اور فرشتہ کی بشارت کے مطابق اس کا نام اسماعیلؑ رکھا گیا :
” اور ہاجرہؑ ابراہام کے لیے بیٹا جنی اور ابراہام نے اپنے اس بیٹے کا نام جو ہاجرہ جنی ‘اسماعیل رکھا اور جب ابراہام کے لیے ہاجرہ سے اسماعیل پیدا ہوا تب ابراہام چھیاسی برس کا تھا۔ “ [115]
اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کے بعد ابراہیم (علیہ السلام)کو اسحاق کی بشارت دی جیسا کہ ابھی مفصل ذکر آئے گا ‘مگر ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بشارت پر چنداں مسرت کا اظہار نہیں کیا اور اس کی جگہ یہ دعا مانگی :
” اور ابرام نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے “[116]
اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا کا یہ جواب دیا :
” اسماعیلؑ کے حق میں میں نے تیری سنی ‘دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اس کو بہت بڑھاؤں گا اور اس کے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اس کو بڑی قوم بناؤں گا۔ “[117]
اسمٰعیل ” اسمع “ اور ” ایل “دو لفظوں سے مرکب ہے عبرانی میں ” ایل “
اللہ کے مرادف ہے اور عربی میں اسمع اور عبرانی میں شماع کے معنی ہیں ” سن “ چونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کے بارے چونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم
(علیہ السلام) کی دعا سن لی اور ہاجرہ کو فرشتہ سے بشارت ملی اس لیے ان کا یہ نام رکھا گیا عبرانی میں اس کا تلفظ ” شماع ایل “ ہے۔
حضرت ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل (علیہ السلام)کا پیدا ہوجانا حضرت سارہ پر بے حد شاق گذرا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پہلی اور بڑی بیوی ‘ قدیم سے گھر کی مالکہ ‘ہاجرہ چھوٹی بیوی اور ان کی خدمت گزار ‘یہ سب باتیں تھیں جنھوں نے بشری تقاضے کے پیش نظر اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کو حضرت سارہؑ کے لیے سوہان روح بنادیا تھا۔ اس لیے حضرت سارہؑ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اصرار کیا کہ ہاجرہ اور اس کا بچہ اسماعیلؑ میری نگاہ کے سامنے نہ رہیں ان کو علاحدہ کسی جگہ لے جاؤ۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ اصرار بے حد ناگوار گذرا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو مطلع کیا کہ ہاجرہ ‘اسماعیل اور تیرے لیے مصلحت اسی میں ہے کہ سارہ جو کچھ کہتی ہے اس کو مان لے۔
” اور سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو وہ ابراہام سے جنی تھی۔
ٹھٹھے مارتا ہے تب اس نے ابراہام سے کہا کہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہو گا پھر اپنے بیٹے کی خاطر یہ بات ابراہام کی نظر میں نہایت بری معلوم ہوئی خدا نے ابراہام سے کہا کہ وہ بات اس لڑکے اور تیری لونڈی کی بابت تیری نظر میں بری نہ معلوم ہو ‘ہر ایک بات کے حق میں جو سارہ نے تجھے کہی اس کی آواز پر کان رکھ کیونکہ تیری نسل اسحاق سے کہلائے گی ‘ اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی ایک قوم پیدا کروں گا اس لیے کہ وہ تیری نسل ہے۔ “ [118]
تورات کی اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہو چکے تھے ‘اس لحاظ سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سن رشد کو پہنچ چکے ہوں گے کیونکہ تورات ہی کی روایت کے مطابق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے تیرہ سال بڑے ہیں۔
لیکن اسی واقعہ میں تورات کی دوسری آیات مسطورہ بالا آیات کے خلاف یہ کہتی ہیں کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ابھی شیر خوار بچے تھے :
” تب ابراہام نے صبح سویرے اٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور ہاجرہ کو اس کے کاندھے پر دھر کردی اور اس لڑکے کو بھی اور اسے رخصت کیا ‘وہ روانہ ہوئی اور بیر سبع کے بیابان میں بھٹکتی پھرتی تھی ‘اور جب مشک کا پانی چک گیا۔تب اس نے لڑکے کو ایک پہاڑی تب اس نے لڑکے کو ایک پہاڑی ایک پتھر کے ٹپے پر دور جا بیٹھی کیونکہ اس نے کہا کہ میں لڑکے کا مرنا نہ دیکھوں۔ “ [119]
اس لیے تورات کے ان مخالف و متضاد بیانات کے مقابلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ ہاجرہ و اسماعیل (علیہا السلام) کے خروج کے وقت اسماعیل شیر خوار بچہ تھے اور اسحاق ابھی تک پیدا نہیں ہوئے تھے۔
بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے جو روایت منقول ہے وہ بھی اسی قول کی تائید کرتی ہے اس روایت کا مضمون یہ ہے :
” ابراہیم (علیہ السلام) ہاجرہ اور اس کے شیر خوار بچہ اسماعیل کو لے کر چلے اور جہاں آج کعبہ ہے اس جگہ ایک بڑے درخت کے نیچے زم زم کے موجودہ مقام سے بالائی حصہ پر ان کو چھوڑ گئے وہ جگہ ویران اور غیر آباد
تھی اور پانی کا بھی نام و نشان نہ تھا۔اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور بھی ان کے پاس چھوڑ دیں اور پھر منہ پھیر کر روانہ ہو گئے ہاجرہ ان کے پیچھے پیچھے یہ کہتی ہوئی چلیں اے ابراہیم تم ہم کو ایسی وادی میں کہاں چھوڑ کر چل دیے۔جہاں نہ آدمی ہے نہ آدم زاد اور نہ کوئی مونس و غمخوار ‘ہاجرہ برابر یہ کہتی جاتی تھیں مگر ابراہیم (علیہ السلام) خاموش چلے جا رہے تھے۔ آخر ہاجرہ نے دریافت کیا ‘ کیا تیرے خدا نے تجھ کو یہ حکم دیا ہے ؟ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں ‘یہ خدا کے حکم سے ہے ‘ ہاجرہ نے جب یہ سنا تو کہنے لگیں۔اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو بلاشبہ وہ ہم کو ضائع
اور برباد نہیں کرے گا ‘ اور پھر واپس لوٹ آئیں ‘ ابراہیم چلتے چلتے
جب ایک ٹیلہ پر ایسی جگہ پہنچے کہ ان کے اہل و عیال نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو اس جانب جہاں کعبہ ہے رخ کیا اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی :
{ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَ ارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ } [120]
” اے ہم سب کے پروردگار (تو دیکھ رہا ہے کہ) ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں ‘میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا کر بسائی ہے کہ نماز قائم رکھیں (تاکہ یہ محترم گھر عبادت گزاران توحید سے خالی نہ رہے) پس تو (اپنے فضل و کرم سے ) ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لیے زمین کی پیداوار سے
سامان رزق مہیا کر دے تاکہ تیرے شکر گزار ہوں “
ہاجرہ چند روز تک مشکیزہ سے پانی اور خورجی سے کھجوریں کھاتی اور اسماعیل کو دودھ پلاتی رہیں لیکن وہ وقت بھی آگیا کہ پانی رہا نہ کھجوریں تب وہ سخت پریشان ہوئیں ‘چونکہ وہ بھوکی پیاسی تھیں اس لیے دودھ بھی نہ اترتا تھا اور بچہ بھی بھوکا پیاسا رہا جب حالت دگرگوں ہونے لگی اور بچہ بیتاب ہونے لگا تو ہاجرہ اسماعیل کو چھوڑ کر دور جا بیٹھیں تاکہ اس حالت زار میں اس کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھیں ‘کچھ سوچ کر قریب کی پہاڑی صفا پر چڑھیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ نظر آجائے یا پانی نظر آجائے مگر کچھ نظر نہ آیا۔پھر بچہ کی محبت میں دوڑ کر وادی میں آگئیں اس کے بعد دوسری جانب کی پہاڑی مروہ پر چڑھ گئیں اور وہاں بھی جب کچھ نظر نہ آیا تو پھرتیزی سے لوٹ کر وادی میں بچہ کے پاس آگئیں
اور اس طرح سات مرتبہ کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقام پر پہنچ کر فرمایا کہ یہی وہ ” سعی بین الصفا والمروہ “ ہے۔جو حج میں لوگ کرتے ہیں آخر میں جب وہ مروہ پر تھیں تو کانوں میں ایک آواز آئی ‘
چونکیں اور دل میں کہنے لگیں کہ کوئی پکارتا ہے کان لگایا تو پھر آواز آئی ہاجرہ کہنے لگیں۔اگر تم میری مدد کرسکتے ہو تو سامنے آؤ تمھاری آواز سنی گئی دیکھا تو خدا کا فرشتہ (جبرئیل) ہے۔فرشتہ نے اپنا پیر (یا ایڑی) اس جگہ مارا جہاں زم زم ہے اس جگہ سے پانی ابلنے لگا ہاجرہ نے یہ دیکھا تو پانی کے چاروں طرف باڑ بنانے لگیں مگر پانی برابر ابلتا رہا۔
اس جگہ پہنچ کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ام اسماعیل پر رحم کرے اگر وہ زم زم کو اس طرح نہ روکتیں اور اس کے چار جانب باڑھ نہ لگاتیں تو آج وہ زبردست چشمہ ہوتا۔ہاجرہ نے پانی پیا اور پھر اسماعیل (علیہ السلام) کو دودھ پلایا فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا خوف اور غم نہ کر اللہ تعالیٰ تجھ کو اور اس بچہ کو ضائع نہ کرے گا ‘ یہ مقام ” بیت اللہ “ ہے۔جس کی تعمیر اس بچہ (اسمٰعیل) اور اس کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی قسمت میں مقدر ہو چکی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس خاندان کو ہلاک نہیں کرے گا۔بیت اللہ کی یہ جگہ قریب کی زمین سے نمایاں تھی مگر پانی کا سیلاب داہنے بائیں اس حصہ کو برابر کرتا جارہا تھا ‘ اسی دوران میں بنی جرہم کا ایک قبیلہ اس وادی کے قریب آکر ٹھہرا ‘دیکھا تو تھوڑے سے فاصلہ پر پرندے اڑ رہے ہیں جرہم نے کہا یہ پانی کی علامت ہے وہاں ضرور پانی موجود ہے جرہم نے بھی قیام کی اجازت مانگی ہاجرہ نے فرمایا قیام کرسکتے ہو ‘ پانی بھی استعمال کرسکتے ہو ‘ لیکن پانی میں ملکیت کے حصہ دار نہیں ہو سکتے۔ بنی جرہم نے یہ بات بخوشی منظور کرلی اور وہیں مقیم ہو گئے۔رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاجرہ خود بھی باہمی انس ورفاقت کے لیے یہ چاہتی تھیں کہ کوئی یہاں آکر مقیم ہو اس لیے انھوں نے مسرت کے ساتھ بنی جرہم کو قیام کی اجازت دے دی ‘بنی جرہم نے آدمی بھیج کر اپنے باقی ماندہ اہل خاندان کو بھی بلا لیا اور یہاں مکانات بنا کر رہنے سہنے لگے۔ انھی میں اسماعیل (علیہ السلام)بھی رہتے اور کھیلتے اور ان سے ان کی زبان سیکھتے ‘ جب اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہو گئے تو ان کا طرز و انداز اور ان کی خوبصورتی بنی جرہم کو بہت بھائی اور انھوں نے اپنے خاندان کی لڑکی سے ان کی شادی کردی ‘اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہاجرہ کا انتقال ہو گیا ابراہیم (علیہ السلام) برابر اپنے اہل و عیال کو دیکھنے آتے رہتے تھے ایک مرتبہ تشریف لائے تو اسماعیل (علیہ السلام) گھر پر نہ تھے۔ان کی اہلیہ سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ روزی کی تلاش میں باہر گئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے دریافت کیا ‘
گزران کی کیا حالت ہے ؟ وہ کہنے لگی سخت مصیبت و پریشانی میں ہیں اور سخت دکھ اور تکلیف میں ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ سن کر فرمایا اسماعیل سے میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کر دو ‘اسماعیل (علیہ السلام) واپس آئے تو ابراہیم (علیہ السلام) کے نور نبوت کے اثرات پائے پوچھا کہ کوئی شخص یہاں آیا تھا ‘ بی بی نے سارا قصہ سنایا اور پیغام بھی ‘ اسماعیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ میرے باپ ابراہیم تھے اور ان کا یہ مشورہ ہے کہ میں تجھ کو طلاق دے دوں ‘ لہٰذا میں تجھ کو جدا کرتا ہوں۔
اسمٰعیل (علیہ السلام) نے پھر دوسری شادی کرلی ایک مرتبہ ابراہیم (علیہ السلام) پھر اسمٰعیل (علیہ السلام) کی غیوبت میں آئے ‘اسی طرح ان کی بی بی سے سوالات کیے ‘بی بی نے کہا خدا کا شکر و احسان ہے اچھی طرح گذر رہی ہے ‘ دریافت کیا کھانے کو کیا ملتا ہے ؟ اسماعیل کی بی بی نے جواب دیا گوشت ‘ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا اور پینے کو ؟ اس نے جواب دیا ‘ پانی ‘ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا مانگی :
( (اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِی اللَّحْمِ وَالْمَائِ ) )
” اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ “
اور چلتے ہوئے پیغام دے گئے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو محفوظ رکھنا ‘ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) آئے ‘ تو ان کی بی بی نے تمام واقعہ دہرایا
اور پیغام بھی سنایا ‘ اسماعیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ میرے باپ
ابراہیم تھے اور ان کا پیغام یہ ہے کہ تو میری زندگی بھر رفیقہ حیات رہے۔ “ (الخ)
یہ طویل روایت بخاری کتاب الرؤیا اور کتاب الانبیاء میں دو جگہ منقول ہے اور دونوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) وادی غیر ذی زرع (بن کھیتی کی سر زمین) یعنی مکہ میں بحالت شیر خوارگی پہنچے تھے۔
مگر سید سلیمان ندویؒ ارض القرآن میں تورات کی روایت کی تردید یا تصحیح کرتے ہوئے یہ تحریر فرماتے ہیں کہ اسماعیل (علیہ السلام) اس وقت سن رشد کو پہنچ چکے تھے ‘اور قرآن کی ان آیات سے استدلال کرتے ہیں :
{ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰیط قَالَ یَا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَّااِبْرٰہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَاج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَـلَائُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَلَامٌ عَلٰی اِبْرٰہِیْمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَبَشَّرْنَاہُ بِاِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحَاقَ } [121]
” اے پروردگار عطا کر مجھ کو نیک لڑکا پس بشارت دی ہم نے اس کو بردبار لڑکے کی ‘پھر جب پہنچا وہ اس سن کو کہ باپ کے ساتھ دوڑے تو باپ نے کہا میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں ‘ دیکھو تم کیا سمجھتے ہو ‘ بیٹے نے کہا میرے باپ جو حکم کیا گیا ہے کر گزرو ‘مجھے صابر پاؤ گے۔۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی جو نبی ہوگا ‘ اور نیکوکاروں میں سے ہوگا اور اس پر اور اسحاق پر برکت نازل کی۔ “ [122]
” اے ہمارے پروردگار میں نے بسایا ہے اپنی اولاد میں سے بن کھیتی کی سرزمین میں تیرے محترم گھر کے پاس “ اور آخر میں ہے :
{ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ } [123]
” سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے بخشا مجھ کو بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق۔ “
وجہ استدلال یہ ہے کہ صافات کی پہلی آیت میں بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) سن رشد تک حضرت ابراہیم (علیہ السلام)
کے ساتھ رہے اور آخر کی آیت بتاتی ہے کہ اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہو چکے تھے اور اسماعیل (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) سے ١٣ سال بڑے تھے۔
اور سورة ابراہیم کی آیتوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل جب مکہ میں لائے گئے ہیں تو وہ سن رشد کو پہنچ چکے تھے تبھی تو ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا میں دونوں کا ذکر فرمایا ہے۔ [124]
اس استدلال کے بعد سید صاحب بخاری کی روایت کو ابن عباس ؓ پر موقوف اور اسرائیلیات سے قرار دیتے ہیں مگر سید صاحب کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اور نہ ان کی پیش کردہ آیات سے اس کی تائید نکلتی ہے۔
اول۔۔ اس لیے کہ صافات میں بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ کا یہ مطلب لینا کہ اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زیر سایہ فلسطین ہی میں پرورش پاتے رہے تب صحیح ہو سکتا تھا کہ اس جملہ کے بعد آیت میں کوئی دوسرا جملہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے مکہ پہنچنے کے متعلق مذکور ہوتا تاکہ ذبح اسماعیل کے واقعہ کے ساتھ صحیح جوڑ لگ سکتا کیونکہ
اس پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے اور سید صاحب بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ ذبح اسماعیل کا واقعہ مکہ کی زندگی سے وابستہ ہے ‘اور آیت یہ کہتی ہے کہ ” جب اسماعیل (علیہ السلام) سن رشد کو پہنچے تو ان کے باپ نے ان سے اپنا خواب بیان کیا “ پس سید صاحب کی توجیہ کے مطابق اس آیت میں
سخت ابہام ہے ‘ حالانکہ قرآن عزیز کے طرز خطابت اور اصول بیان کے یہ قطعاً خلاف ہے کہ ایک آیت کے اندر اس طرح کا ابہام پیدا کر دے جس سے دو اہم زندگیوں کے درمیان کوئی ربط قائم نہ رہ سکے۔
دوم۔۔ اس لیے کہ صٰفٰت میں اسماعیل (علیہ السلام) سے متعلق جس واقعہ کا ذکر ہے۔ وہ ذبح عظیم کا تذکرہ ہے نہ کہ مکہ پہنچنے کا اور وہ بلاشبہ اسماعیل (علیہ السلام) کے سن رشد کا زمانہ ہے اور اسحاق (علیہ السلام) اس وقت پیدا ہو چکے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اگرچہ ہاجرہ اور اسماعیل (علیہا السلام) کو مکہ کے بیابان و صحرا میں چھوڑ آئے تھے لیکن باپ تھے ‘ نبی و پیغمبر تھے ‘ اہلیہ اور بیٹے کو کیسے بھول سکتے ‘ اور ان کی نگہداشت سے کیسے بے پروا ہو سکتے تھے ‘ وہ برابر اس بے آب وگیاہ صحرا میں آتے رہتے اور اپنے خاندان کی نگرانی کرتے رہتے تھے اور آیت ” بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ “ سے یہی مراد ہے لہٰذا اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت کا ذکر بالکل برمحل ہے ‘خود سید صاحب تورات کے ایک فقرہ کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” تورات میں یہ مذکور نہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی ساتھ آئے تھے۔لیکن کون شقی ہوگا جو اپنے عزیز بچہ کو جس کی پیدائش کی اس نے خود دعا کی ہو جس کے لیے زندگی اس نے خدا سے مانگی ہو ‘ اس کو تنہا بے آب وگیاہ مقام میں ہمیشہ کے لیے جانے دے۔ “[125]
اسی طرح سورة ابراہیم (علیہ السلام) کی آیت میں عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمْ کے بعد یہ جملہ ہے :
{ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ }[126]
” اے ہمارے پروردگار (میں نے کعبہ کے پاس ان کو اس لیے بسایا) تاکہ یہ نماز کو قائم کریں پس تو لوگوں کو ان کی طرف پھیر دے۔ “
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا بیت اللہ کی تعمیر کے بعد سے متعلق ہے اور آیت کا سیاق وسباق صاف صاف اسی پر دلالت کرتا ہے اس میں قیام صلوٰۃ کا ذکر ہے اس میں حج کی طرف اشارہ ہے اور اس میں یہاں کے بسنے والوں کے لیے رزق کی وسعت کی تمنا جھلکتی ہے اور یہ سب باتیں جبھی موزوں ہو سکتی ہیں کہ بیت اللہ اپنی تعمیر کے ساتھ موجود ہو البتہ ابن عباس ؓ کی روایت میں بھی اس دعا کا ذکر آتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خاندان کو یہاں چھوڑتے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو دعا مانگی تھی وہ اسی دعا کے قریب قریب تھی ‘ اس لیے ابن عباس ؓ کی روایت میں اس آیت کو بطور استشہاد نقل کر دیا گیا ہے ‘ یہ مطلب نہیں ہے کہ بعینہٖ یہی وہ دعا ہے جو اس وقت انھوں نے مانگی تھی اور اس میں اسحاق (علیہ السلام) کا بھی ذکر تھا۔جب ابن عباس ؓ خود روایت کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ اسماعیل (علیہ السلام) کی شیر خوارگی کا ہے تو وہ کس طرح یہ کہہ سکتے تھے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت ایسی دعا مانگی جس کے آخر میں اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کا بھی ذکر تھا۔
سوم۔۔ اس بن کھیتی کی سرزمین (مکہ) کے چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ میں شور پانی کے سوائے شیریں پانی کا نام و نشان نہیں ہے اور آج بھی آلات جدیدہ کی اعانت کے باوجود اس زمین سے شیریں پانی کا اخراج ناممکن بنا ہوا ہے تو ” زمزم “ کا وجود یہاں کیسے ہوا ؟ یہ مذہبی اور تاریخی دونوں حیثیت سے اہم سوال ہے۔سو اس کے متعلق اگرچہ آیات قرآنی کوئی تصریح نہیں کرتیں ‘ مگر بخاری کی یہی ابن عباس ؓ والی ہر دو روایات اس
کے وجود کی تاریخ بیان کرتی ہیں جس میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو شیر خوار ظاہر کیا گیا ہے ‘ اور تورات میں بھی جس طرح اس کا ذکر ہے وہ انھی آیات میں سے ہے جو اسماعیل (علیہ السلام) کو شیر خوار ظاہر کرتی ہیں۔
بہرحال اگرچہ قرآن عزیز کی کسی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسماعیل (علیہ السلام) اس سرزمین (مکہ) میں کس سن میں پہنچائے گئے ‘مگر بخاری کی روایات کہتی ہیں کہ یہ زمانہ اسماعیل (علیہ السلام) کی شیر خوارگی
کا تھا ‘ اور یہی صحیح ہے پس ابن عباس ؓ کی یہ روایت اسرائیلیات میں سے نہیں ہے بلکہ زبان وحی ترجمان کی بیان کردہ تفصیلات کی صحیح ترجمانی ہے۔
قرآن عزیز نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کے متعلق ان کا نام لے کر صاف صاف کوئی ذکر نہیں کیا ‘البتہ بغیر نام لیے ہوئے ان کی ولادت کی بشارت کا تذکرہ موجود ہے۔
ابراہیم (علیہ السلام) ابھی تک اولاد سے محروم ہیں اس لیے درگاہِ الٰہی میں ایک نیک اور صالح فرزند کے لیے دعا مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشتا اور ولادت فرزند کی بشارت دیتا ہے :
{ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ } [127]
” اے پروردگار مجھ کو ایک نیکوکار لڑکا عطا کر ‘پس ہم نے اس کو ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔ “
یہ ” غلام حلیم “ کون ہے ؟وہی اسماعیل ((علیہ السلام)) جو ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوا ‘اس لیے کہ قرآن عزیز کی اس آیت سے دوسری آیت کے بعد حضرت اسحاق کی بشارت کا ذکر ہے :
{ وَبَشَّرْنَاہُ بِاِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحَاقَ } [128]
” اور بشارت دی ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی جو نیکوکاروں میں سے ہوگا ‘ نبی ہوگا اور برکت دی ہم نے اس پر اور اسحاق پر۔ “
پس جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ابھی دو بیٹے تھے اسماعیل ((علیہ السلام)) اور اسحاق ((علیہ السلام)) اور تورات و تاریخ کی متفقہ نقل کے پیش نظر اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہیں اور اسحاق (علیہ السلام)
چھوٹے تو صاف ظاہر ہے کہ سورة صافات کی پہلی آیت میں جس لڑکے کی بشارت مذکور ہے اس سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرا کون مراد ہو سکتا ہے ؟
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے ہاجرہ و اسماعیل (علیہا السلام) کو مکہ میں آباد کیا تھا تو ان کے لیے دعا کرتے ہوئے اس طرح اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا :
{ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ } [129]
” تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھ کو بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحاق عطا کیے۔ “
یہ آیت بھی اسی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سورة الصافات کی آیت میں جس بشارت کا ذکر ہے اس سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی مراد ہیں۔
جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر ننانوے سال ہوئی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی تیرہ سال تو اللہ تعالیٰ کا حکم آیا کہ ختنہ کرو ‘ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیل حکم میں پہلے اپنی ختنہ کی ‘اور اس کے بعد اسماعیل (علیہ السلام) اور تمام خانہ زادوں اور غلاموں کی ختنہ کرائیں :
” تب ابراہام نے اپنے بیٹے اسماعیل اور سب خانہ زادوں اور اپنے سب زر خریدوں کو یعنی ابراہام کے گھر کے لوگوں میں جتنے مرد تھے۔سب کو لیا اور اس روز ان کا ختنہ کیا جس طرح خدا نے اس کو فرمایا تھا جس وقت ابراہام کا ختنہ ہوا تو وہ ننانوے برس کا تھا اور جب اس کے بیٹے اسماعیل کا ختنہ ہو وہ تیرہ برس کا تھا۔ “ [130]
یہی رسم ختنہ آج بھی ” ملت ابراہیمی “کا شعار ہے اور سنت ابراہیمی کے نام سے مشہور ہے۔
مقربین بارگاہ الٰہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ وہ نہیں ہوتا جو عام انسانوں کے ساتھ ہے ان کو امتحان و آزمائش کی سخت سے سخت منزلوں سے گذرنا پڑتا اور قدم قدم پر جاں سپاری اور تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم گروہ انبیا اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعو بتوں میں ڈالے جاتے ہیں۔
ابراہیم (علیہ السلام) بھی چونکہ جلیل القدر نبی اور پیغمبر تھے اس لیے ان کو بھی مختلف آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا اور اپنی جلالت قدر کے لحاظ سے ہر دفعہ امتحان میں کامل و مکمل ثابت ہوئے۔
جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تو اس وقت جس صبر اور رضا بہ قضائے الٰہی کا انھوں نے ثبوت دیا ‘اور جس عزم و استقامت کو پیش کیا وہ انہی کا حصہ تھا ‘اس کے بعد جب اسماعیل اور ہاجرہ (علیہا السلام) کو فاران کے بیابان میں چھوڑ آنے کا حکم ملا تو وہ بھی معمولی امتحان نہ تھا ‘آزمائش اور سخت آزمائش کا وقت تھا۔بڑھاپے اور پیری کی تمناؤں کے مرکز ‘ راتوں اور دنوں کی دعاؤں کے ثمر اور گھر کے چشم و چراغ اسماعیل کو صرف حکم الٰہی کی تعمیل و امتثال میں ایک بے آب وگیاہ جنگل میں چھوڑتے ہیں اور پیچھے پھر کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری جوش میں آجائے اور امتثال امر الٰہی میں کوئی لغزش ہوجائے۔
ان دونوں کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب ایک تیسرے امتحان کی تیاری ہے جو پہلے دونوں سے بھی زیادہ زہرہ گداز اور جاں گسل امتحان ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تین شب مسلسل خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابراہیم تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی دے۔
انبیا (علیہم السلام) کا خواب ” رویائے صادقہ “اور وحی الٰہی ہوتا ہے اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) رضا و تسلیم کا پیکر بن کر تیار ہو گئے کہ خدا کے حکم کی جلد سے جلد تعمیل کریں ‘مگر چونکہ یہ معاملہ تنہا اپنی ذات سے وابستہ نہ تھا بلکہ اس آزمائش کا دوسرا جزء وہ بیٹا تھا۔جس کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا ‘اس لیے باپ نے بیٹے کو اپنا خواب اور خدا کا حکم سنایا ‘بیٹا ابراہیم جیسے مجدد انبیا ورسل کا بیٹا تھا فوراً سر تسلیم خم کر دیا اور کہنے لگا کہ اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو انشاء اللہ آپ مجھ کو صابر پائیں گے اس گفتگو کے بعد باپ بیٹے اپنی قربانی پیش کرنے کے لیے جنگل روانہ ہو گئے۔باپ نے بیٹے کی مرضی پا کر مذبوح جانور کی طرح ہاتھ پیر باندھے ‘ چھری کو تیز کیا اور بیٹے کو پیشانی کے بل بچھاڑ کر ذبح کرنے لگے ‘فوراً خدا کی وحی ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ‘اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھلایا ‘بیشک یہ بہت سخت اور کٹھن آزمائش تھی ‘اب لڑکے کو چھوڑ اور تیرے پاس جو یہ مینڈھا کھڑا ہے اس کو بیٹے کے بدلہ میں ذبح کر ‘ ہم نیکوکاروں کو اسی طرح نوازا کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جھاڑی کے قریب ایک مینڈھا کھڑا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا کا شکر شکرادا کرتے ہوئے اس مینڈھے کو ذبح کیا۔
یہی وہ ” قربانی “ ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہوئی کہ بطور یادگار کے ہمیشہ کے لیے ملت ابراہیمی کا شعار قرار پائی اور آج بھی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو تمام دنیائے اسلام میں یہ ” شعار “اسی طرح منایا جاتا ہے۔
مگر اس پورے واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ” ذبیح “کون ہے ‘ اسماعیل ((علیہ السلام)) یا اسحاق ((علیہ السلام)) ؟
قرآن عزیز نے اگرچہ ” ذبیح “ کا نام نہیں لیا مگر جس طرح اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے اس سے بغیر کسی کنج وکاؤ کے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نص قرآنی اسماعیل کو ذبیح بتاتی ہے اور یہی واقعہ اور حقیقت ہے۔سورة الصافات میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :
{ رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُـلَامٍ حَلِیْمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰیط قَالَ یَا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَّا اِبْرٰہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَاج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَـلَائُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَـلَامٌ عَلٰی اِبْرٰہِیْمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَبَشَّرْنَاہُ بِاِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنْ الصَّالِحِیْنَ وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحَاقَ } [131]
” اے پروردگار مجھ کو ایک نیکوکار لڑکا عطا کر پس بشارت دی ہم نے ان کو بردبار لڑکے کی پھر جب وہ اس سن کو پہنچا کہ باپ کے ساتھ دوڑنے لگے ‘ابراہیم نے کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس تو دیکھ کیا سمجھتا ہے ؟ کہا اے میرے باپ جس بات کا تجھے حکم کیا گیا ہے وہ کر ‘ اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھ کو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ پس جب ان دونوں نے رضا و تسلیم کو اختیار کر لیا اور پیشانی کے بل اس (بیٹے) کو پچھاڑ دیا ہم نے اس کو پکارا اے ابراہیم تو نے خواب سچ کر دکھایا بیشک ہم اسی طرح نیکوکاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں بلاشبہ یہ کھلی ہوئی آزمائش ہے اور بدلہ دیا ہم نے اس کو بڑے ذبح (مینڈھے) کے ساتھ ‘ اور ہم نے آنے والی نسلوں میں اس کے متعلق یہ باقی چھوڑا کہ ابراہیم پر سلام ہو ‘اس طرح ہم نیکوکاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں بیشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے اور بشارت دی ہم نے اس کو اسحاق کی جو نبی ہوگا اور نیکوکاروں میں سے ہوگا اور برکت دی ہم نے اس پر اور اسحاق پر۔ “
ان آیات میں ابراہیم (علیہ السلام) کے دوصاحبزادوں کی بشارت کا ذکر ہے پہلے لڑکے کا نام نہیں لیا اور غُلَام حَلِیْمٍ کہہ کر اس کے ذبح عظیم کے واقعہ کا تذکرہ کیا اور اس کے بعد دوسرے لڑکے کی بشارت کا ذکر نام لے کر کیا بَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰق اور یہ طے شدہ امر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے
دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق ((علیہا السلام)) میں سے اسماعیل بڑے ہیں اور اسحاق چھوٹے۔پس جبکہ چھوٹے لڑکے کا ذکر بعد کی آیت میں نام لے کر کر دیا گیا تو پہلی آیت میں اسماعیل (علیہ السلام) کے علاوہ اور کس کا ذکرہو سکتا ہے ؟ بلاشبہ وہ اسماعیل (علیہ السلام) ہی ہیں جنھوں نے سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ کہہ کر اور وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ کا مظاہرہ کرکے وَفَدَیْنٰــہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ کا اعزاز حاصل کیا علاوہ ازیں صرف قرآن عزیز ہی اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبیح نہیں کہتا بلکہ تورات کی عبارت کو اگر غور سے مطالعہ کیجئے تو وہ بھی یہی بتاتی ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) اور صرف اسماعیل (علیہ السلام) ہی ذبیح ہیں :
” ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابراہام کو آزمایا اور اسے کہا کہ تو اپنے بیٹے ہاں اپنے ” اکلوتے بیٹے “ کو جس کو تو پیار کرتا ہے ” اسحاق کو لے “اور زمین موریاہ میں جا اور اسے وہاں پہاڑوں میں سے ایک پر جو میں تجھے بتاؤں گا ‘ سو ختنی قربانی کے لیے چڑھا۔ “ [132]
” تب خداوند کے فرشتے نے دوبارہ آسمان پر سے ابراہام کو پکارا اور کہا کہ : خداوند فرماتا ہے اس لیے کہ تو نے ایسا کام کیا اور ”اپنا اکلوتا ہی بیٹا “ دریغ نہ رکھا ‘ میں نے اپنی قسم کھائی کہ میں تجھے برکت دوں گا۔ “ [133]
تورات کی ان ہر دو عبارات کے نشان زدہ فقروں ” اپنے اکلوتے بیٹے “ اور ” اپنا اکلوتا ہی بیٹا “ کو دیکھیے اور پھر تورات کی ان گذشتہ آیات کو پڑھیے کہ جن میں اسماعیل (علیہ السلام) کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اکلوتابیٹا بتایا گیا ہے کیونکہ اسماعیل جب چودہ برس کے ہو چکے ہیں تب اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی ہے کیا ان سے یہ صاف طور سے واضح نہیں ہوتا کہ ”ذبیح “ جیسے اعزاز کو بنی اسرائیل کے ساتھ وابستہ کرنے کی یہ غلط حرص تھی جس نے یہود کو اس تحریف پر آمادہ کیا کہ انھوں نے اس عبارت میں ” اکلوتے بیٹے “ کے فقرے کے ساتھ ” اسحاق “ کا نام بے محل جوڑ دیا ؟ پس یہ اضافہ تورات کی تصریحات کے بھی خلاف ہے اور نص قرآنی کے بھی اور واقعہ و حقیقت کے بھی قطعاً خلاف ہے۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ” ذبیح اللہ “ کا عظیم الشان شرف اسماعیل (علیہ السلام) ہی کے لیے مقسوم تھا۔
{ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُط وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ } [134]
” یہ اللہ کا فضل ہے جس کو وہ چاہے اس کو دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “
سخت تعجب ہے کہ چند علما اسلام بھی اس غلطی میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ ” ذبیح “ اسماعیل ((علیہ السلام)) نہ تھے ‘ اسحاق ((علیہ السلام)) تھے اور جو دلائل انھوں نے اس سلسلہ میں بیان کیے ہیں افسوس کہ ہم ان سے متفق نہیں ہو سکتے ‘کیونکہ ان کی بنیاد و اساس محض وہم وظن پر قائم ہے
نہ کہ یقین کی روشنی پر مثلاً ان کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ” سورة الصافات “ کی مسطورہ بالا آیات میں سے پہلی آیت ” بَشَّرْنٰہُ بِغُـلَامٍ حَلِیْم “
میں کوئی نام مذکور نہیں ہے اور اس کے بعد کی آیات میں اس کے ذبح سے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا ” بَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰقَ “ تو کیا ” غُلَامٍ حَلِیْمٍ “ بھی یہی ”اسحاق “ نہیں ہیں ؟ مگر آپ خود اندازہ کیجئے کہ یہ کس قدر غلط
استدلال ہے اول ان آیات کے سیاق وسباق کا مطالعہ کیجئے اور پھر غور کیجئے کہ وَبَشَّرَنٰہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ کے بعد وَبَشَّرْنٰـہُ بِاِسْحٰق کو عطف کے ذریعہ جس طرح جدا کیا گیا ہے عربی اصول نحو کے مطابق کون سی گنجائش ہے کہ ان
دونوں کو ایک ہی شخصیت قرار دیا جائے خصوصاً جب کہ دونوں کی بشارت کے ذکر کے ساتھ ساتھ جدا جدا ان کے اوصاف بھی بیان کیے گئے ہیں ‘صاحب قصص الانبیاء عبد الوہاب نجار نے اس موقع پر آیت وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحٰقَ میں عَلَیْہِ کی ضمیر ” ذبیح “کی جانب راجع کی ہے اور یہ ترجمہ کیا ہے ” ہم نے برکت نازل کی اس ” ذبیح “ پر اور اسحاق پر “ اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ پورا قصہ بیان کرنے کے بعد اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت کا ذکر اس بات کے لیے ” نص “ ہے کہ صاحب قصہ لڑکا اسحاق ((علیہ السلام)) کے علاوہ ہے اور وہ صرف اسماعیل ((علیہ السلام)) ہی ہو سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ واقعہ مکہ کے قریب منیٰ میں پیش آیا ہے اور تورات کا جملہ ” اکلوتا بیٹا “ اس بات کی زندہ شہادت ہے کہ ابھی تک حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت بھی نہیں ہوئی لہٰذا تورات کا اس واقعہ کو موریاہ کے قریب بتانا اسی قسم کی تحریف ہے جس سے تورات کا کوئی باب خالی نہیں اور جس کا انکار بداہت کا انکار ہے۔ ١ ؎
(١ ؎ تحریف کے لیے مولانا رحمت اللہ کیرانوی قدس اللہ سرہٗ کی کتاب ” اظہار الحق “ قابل مطالعہ ہے۔
یہ مسئلہ اگرچہ بہت زیادہ تفصیل طلب ہے لیکن ہم نے صرف ضروری امور کے بیان کردینے پر اکتفا کیا ہے۔ [135]
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اگرچہ فلسطین میں مقیم تھے مگر برابر مکہ میں ہاجرہ و اسماعیل (علیہا السلام) کو دیکھنے آتے رہتے تھے ‘ اسی اثناء میں ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ ” کعبۃ اللہ “ کی تعمیر کرو۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے تذکرہ کیا اور دونوں باپ بیٹوں نے بیت اللہ کی تعمیر شروع کردی۔
حافظ ابن حجر عسقلانؒ نے فتح الباری ٢ ؎[136] میں ایک روایت نقل کی ہے ‘ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی اساس حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں رکھی گئی اور ملائکۃ اللہ نے ان کو وہ مقام بتادیا تھا جہاں کعبہ کی تعمیر ہوئی تھی ‘مگر ہزاروں سال کے حوادث نے عرصہ ہوا اس کو بے نشان کر دیا البتہ اب بھی وہ ایک ٹیلہ یا ابھری ہوئی زمین کی شکل میں موجود تھا یہی وہ مقام ہے جس کو وحی الٰہی نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بتایا اور انھوں نے اسماعیل (علیہ السلام) کی مدد سے اس کو کھودنا شروع کیا تو سابق تعمیر کی بنیادیں نظر آنے لگیں ‘انہی بنیادوں پر بیت اللہ کی تعمیر کی گئی ‘مگر قرآن عزیز نے بیت اللہ کی تعمیر کا معاملہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے شروع کیا ہے اور اس سے پہلی حالت کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
حاصل یہ کہ اس واقعہ سے قبل تمام کائنات اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں بتوں اور ستاروں کی پرستش کے لیے ہیکل اور مندر موجود تھے اور انھی کے ناموں پر بڑی بڑی تعمیرات کی جاتی تھیں۔
مصریوں کے یہاں سورج دیوتا ‘ اِزریس ‘ اُزریس ‘حوریس اور بعل دیوتا سبھی کے نام پر ہیکل اور مندر تھے اشوریوں نے بعل دیوتا کا ہیکل بنایا اور ابوالہول کا مجسمہ بنا کر اس کی جسمانی عظمت کا مظاہر کرایا ‘کنعانیوں نے مشہور قلعہ بعلبک میں اسی بعل کا مشہور ہیکل بنایا تھا جو آج تک یادگار چلا آتا ہے ” غزہ کے باشندے “ ” داجون “ مچھلی دیبی کے مندر پر چڑھاوے چڑھاتے تھے۔
جس کی شکل انسان کی اور جسم مچھلی کا بنایا گیا تھا عمونیوں نے سورج دیوتا کے ساتھ عشتارون (قمر) کو دیبی بنا کر پوجا اور اس کے لیے عظیم الشان ہیکل تیار کیے فارس نے آگ کی تقدیس کا اعلان کرکے آتش کدے تیار
کیے رومیوں نے مسیح اور کنواری مریم (علیہا السلام) کے بت بنا کر کلیساؤں کو زینت دی اور ہندیوں نے مہاتما بدھ ‘ شری رام چندر ‘شری مہاویر اور مہادیو کو دیوتا اور اوتارمان کر اور کالی دیوی ‘ سیتلا دیوی ‘ سیتا دیوی اور پاربتی دیوی ناموں سے ہزاروں بتوں کی پرستش کے لیے کیسے کیسے عظیم الشان منادر تیار کیے ‘ہر دوار ‘ پر یاگ ‘ کاشی پوری ‘ ٹیکسلا ‘سانچی اور بودہ گیا جیسے مذہبی مقامات اس کی زندہ شہادتیں ہیں۔
مگر ان سب کے برعکس صرف خدائے واحد کی پرستش اور اس کی یکتائی کے اقرار میں سر نیاز جھکانے کے لیے یا یوں کہیے کہ توحید الٰہی کی سر بلندی کے اظہار کے لیے دنیا کے بتکدوں میں پہلا گھر جو خدا کا گھر کہلایا وہ یہی ” بیت اللہ “ ہے۔
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ }[137]
” بیشک سب سے پہلا وہ گھر جو لوگوں کے لیے (خدا کی یاد کے لیے) بنایا گیا البتہ وہہے جو مکہ میں ہے ‘ وہ سرتا پا برکت ہے اور جہان والوں کے لیے ہدایت (کا سرچشمہ) “
اسی تعمیرکو یہ شرف حاصل ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) جیسا جلیل القدر پیغمبر اس کا معمار ہے اور اسماعیل (علیہ السلام) جیسا نبی و ذبیح اس کا مزدور ‘باپ بیٹے برابر اس کی تعمیر میں مصروف ہیں اور جب اس کی دیواریں اوپر اٹھتی ہیں اور بزرگ باپ کا ہاتھ اوپر تعمیر سے معذور ہوجاتا ہے تو قدرت کی ہدایت کے مطابق ایک پتھر کو باڑ بنایا جاتا ہے جس کو اسماعیل (علیہ السلام) اپنے ہاتھ سے سہارا دیتے اور ابراہیم (علیہ السلام) اس پر چڑھ کر تعمیر کرتے جاتے ہیں یہی وہ یادگار ہے جو آج مقام ابراہیم کے نام سے موسوم ہے جب تعمیر اس حد پر پہنچی جہاں آج حجر اسود نصب ہے تو جبرائیل امین نے ان کی راہنمائی کی اور حجراسود کو ان کے سامنے ایک پہاڑی سے محفوظ نکال کر دیا جس کو جنت کا لایا ہوا پتھر کہا جاتا ہے تاکہ وہ نصب کر دیا جائے۔
بیت اللہ تعمیر ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بتایا کہ یہ ملت ابراہیمی کے لیے (قبلہ) اور ہمارے سامنے جھکنے کا نشان ہے اس لیے یہ توحید کا مرکز قرار دیا جاتا ہے تب ابراہیم و اسماعیل (علیہا السلام) نے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی ذریت کو اقامت صلوٰۃ و زکوۃ کی ہدایت دے اور استقامت بخشے اور ان کے لیے پھلوں ‘میووں اور رزق میں برکت عطا فرمائے اور تمام اقطاع عالم کے بسنے والوں میں سے ہدایت یافتہ گروہ کو اس طرف متوجہ کرے کہ وہ دور دور سے آئیں اور مناسک حج ادا کریں اور ہدایت ورشد کے اس مرکز میں جمع ہو کر اپنی زندگی کی سعادتوں سے دامن بھریں۔
قرآن عزیز نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ابراہیم و اسماعیل (علیہا السلام) کی مناجات ‘ اقامت صلوٰۃ اور مناسک حج کی ادا کے لیے شوق و تمنا کے اظہار اور بیت اللہ کے مرکز توحید ہونے کے اعلان کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے اور نئے نئے اسلوب و طرز ادا سے اس کی عظمت اور جلالت و جبروت کو ان آیات میں واضح فرمایا ہے :
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ اٰ یٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ ٥ ج وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًاط وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْـلًاط وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ } [138]
” بلاشبہ پہلا گھر جو انسان کے لیے (خدا پرستی کا معبد و مرکز)
بنایا گیا ہے وہ یہی (عبادت گاہ) ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ‘اس میں (دین حق کی) روشن نشانیاں ہیں ‘
ازاں جملہ مقام ابراہیم ہے (یعنی ابراہیم کے کھڑے ہونے اور عبادت کرنے کی جگہ جو اس وقت سے لے کر آج تک بغیر کسی شک و شبہ کے مشہور و معین رہی ہے) اور (ازاں جملہ یہ بات ہے کہ) جو کوئی اس کے حدود میں
داخل ہوا وہ امن و حفاظت میں آگیا اور (ازاں جملہ یہ کہ) اللہ کی طرف سے لوگوں کے لیے یہ بات ضروری ہو گئی کہ اگر اس تک پہنچنے کی استطاعت پائیں تو اس گھر کا حج کریں ‘(بایں ہمہ) جو کوئی (اس حقیقت سے) انکار کرے (اور اس مقام کی پاکی و فضیلت کا اعتراف نہ کرے) تو یاد رکھو اللہ کی ذات تمام دنیا سے بے نیاز ہے (وہ اپنے کاموں کے لیے کسی فرد اور قوم کا محتاج نہیں ) “
{ وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاط وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّیط وَ عَھِدْنَآ اِلٰیٓ اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰکِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِط قَالَ وَ مَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّہٗٓ اِلٰی عَذَابِ النَّارِط وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَص وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاج اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } [139]
” اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ کے) اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کی گروہ آوری کا مرکز اور امن و حرکت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنائی جائے اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں ‘عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا (اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا ) اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے خدا کے حضور دعا مانگی تھی اے پروردگار اس جگہ کو (جو دنیا کی آباد سرزمینوں سے دور اور سرسبزی و شادابی سے یک قلم محروم ہے) امن وامان کا ایک آباد شہر بنا دے ‘ اور اپنے فضل و کرم سے ایسا کر کہ یہاں کے بسنے والوں میں جو لوگ تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں ان کے رزق کے لیے ہر طرح کی پیداوار مہیا ہو جائے اس پر ارشاد الٰہی ہوا تھا کہ (تمھاری دعا قبول کی گئی اور یہاں کے باشندوں میں سے) جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا ‘ جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا ‘سو اسے بھی ہم (سروسامانِ رزق سے) فائدہ اٹھانے دیں گے ‘البتہ یہ فائدہ اٹھانا بہت تھوڑا ہوگا ‘کیونکہ بالآخر اسے (پاداش عمل میں ) چاروناچار دوزخ میں جانا ہے اور (جو بدبخت نعمت کی راہ چھوڑ کر عذاب کی راہ اختیار کرلے تو کیا ہی بری اس کی راہ ہے اور) کیا ہی برا اس کا ٹھکانا ہے اور (پھر دیکھو وہ کیسا عظیم الشان اور انقلاب انگیز وقت تھا) جب ابراہیم خانہ کعبہ کی بنیاد چن رہا تھا اور اسماعیل بھی اس کے ساتھ شریک تھا (ان کے ہاتھ تو پتھر چن رہے تھے ‘ اور دل و زبان پر یہ دعا طاری تھی) اے پروردگار (ہم تیرے دو عاجز بندے تیرے مقدس نام پر اس گھر کی بنیاد رکھ رہے ہیں) ہمارا یہ عمل تیرے حضور قبول ہو بلاشبہ تو ہی ہے جو دعاؤں کو سننے والا اور (مصالح عالم کا) جاننے والا ہے۔ اے پروردگار (اپنے فضل و کرم سے) ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہم سچے مسلم (یعنی تیرے حکموں کے فرماں بردار) ہوجائیں اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی امت پیدا کر دے جو تیرے حکموں کی فرماں بردار ہو خدایا ہمیں عبادت کے (سچے) طور طریقے بتادے ‘ اور ہمارے قصوروں سے درگزر کر ‘ بلاشبہ تیری ہی ذات ہے۔جو رحمت سے درگزر کرنے والی ہے اور جس کی رحیمانہ در گذر کی کوئی انتہا نہیں اور خدایا (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کرنا کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول
مبعوث ہو جو انہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے کتاب اور حکمت کی انھیں تعلیم دے اور (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے ‘ اے پروردگار بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے۔ “
{ وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا وَّ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْقَآئِمِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِج فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ذٰلِکَق وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖط وَ اُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ حُنَفَآئَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖط وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ ذٰلِکَق وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ }
[140]
” اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ مقرر کردی (اور حکم دیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کر ‘اور میرا یہ گھر ان لوگوں کے لیے پاک رکھ جو طواف کرنے والے ہوں ‘ عبادت
میں سر گرم رہنے والے ہوں ‘ رکوع و سجود میں جھکنے والے ہوں اور (حکم دیا کہ) ” لوگوں میں حج کا اعلان پکار دے ‘ لوگ تیرے پاس دنیا کی تمام
دور دراز راہوں سے آیا کریں گے پاپیادہ اور ہر طرح کی سواریوں پر ‘ جو
(مشقت سفر سے) تھکی ہوئی ہوں گی ‘وہ اس لیے آئیں گے کہ اپنے فائدہ پانے کی جگہ میں حاضر ہوجائیں اور ہم نے جو پالتو جانور پائے ان کے لیے مہیا کردیے ہیں ان کی قربانی کرتے ہوئے مقررہ دنوں میں اللہ کا نام
لیں ‘ پس قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ ‘ پھر قربانی کے بعد وہ اپنے جسم و لباس کا میل کچیل دور کر دیں (یعنی احرام اتار دیں) نیز اپنی نذریں پوری کریں اور اس خانہ قدیم (یعنی خانہ کعبہ) کے گرد پھیرے پھر لیں۔ “ تو دیکھو (حج کی) بات یوں ہوئی اور جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمتوں کی عظمت مانے ‘ تو اس کے لیے اس کے پروردگار کے حضور بڑی ہی بہتری ہے ‘ اور (یہ بات بھی یاد رکھو کہ) ان جانوروں کو چھوڑ کر جن کا حکم قرآن میں سنا دیا گیا ہے تمام چارپائے تمھارے لیے حلال کیے گئے ہیں ‘ پس چاہیے کہ بتوں کی ناپاکی سے بچتے رہو ‘ نیز جھوٹ بولنے سے ‘ صرف اللہ ہی کے ہو کر رہو ‘ اس کے ساتھ
‘کسی کو شریک نہ کرو ‘ جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو اس کا حال ایسا سمجھو جیسے بلندی سے اچانک نیچے گرپڑا ‘ جو چیز اس طرح گرے گی ‘اسے یا تو کوئی پرندہ اچک لے گا یا ہوا کا جھونکا کسی دور دراز گوشہ میں لے جا کر پھینک دے گا (حقیقت حال) یہ ہے پس (یاد رکھو) جس کسی نے اللہ کی نشانیوں کی عظمت مانی ‘ تو اس نے ایسی بات مانی جو فی الحقیقت دلوں کی پرہیزگاری کی باتوں میں سے ہے ‘ ان (چارپایوں) میں ایک مقررہ وقت تک تمھارے لیے (طرح طرح کے) فائدے ہیں۔ پھر اس خانہ قدیم تک پہنچا کر ان کی قربانی کرنی ہے “
{ وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌق صلے فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّج فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْط وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ } [141]
” اور (دیکھو ) قربانی کے یہ اونٹ (جنہیں دور دور سے حج کے موقع پر لایا جاتا ہے) تو ہم نے اسے ان چیزوں میں سے ٹھہرا دیا ہے جو تمھارے لیے اللہ کی (عبادت کی) نشانیوں میں سے ہیں ‘ اس میں تمھارے لیے بہتری کی بات ہے پس چاہیے کہ انھیں قطار در قطار ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام یاد کرو پھر جب وہ کسی پہلو پر گرپڑیں (یعنی ذبح ہوجائیں) تو ان کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤ اور فقیروں اور زائروں کو بھی کھلاؤ ‘ اس طرح ہم نے ان جانوروں کو تمھارے لیے مسخرکر دیا تاکہ (احسانِ الٰہی کے) شکر گزار ہو یادرکھو اللہ تک ان قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے نہ خون ‘ اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ صرف تمھارا تقویٰ ہے (یعنی تمھارے دل کی نیکی ہے) ان جانوروں کو اس طرح تمھارے لیے مسخر کر دیا کہ اللہ کی رہنمائی پر اس کے شکر گزار ہو اور اس کے نام کی بڑائی کا آوازہ بلند کرو ‘اور نیک کر داروں کے لیے (قبولیت حق کی) خوشخبری ہے۔ “
حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادہ ہیں ‘ ان کے والد کا نام ہاران تھا ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) کا بچپن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے زیرسایہ گذرا اور ان کی نشو و نما حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہی آغوش تربیت کی رہین منت تھی۔ اسی لیے وہ اور حضرت سارہ (علیہا السلام) ” ملت ابراہیمی “ کے پہلے مسلم اور ” السابقون الاولون “ میں داخل ہیں۔
{ فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌم وَ قَالَ اِنِّیْ مُھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ } [142]
” پس ایمان لایا لوط ابراہیم (کے دین) پر اور کہا میں ہجرت کرنے والا ہوں ١ ؎ اپنے رب کی جانب۔ “
یہ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بی بی ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرتوں میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مصر میں تھے تو اس وقت بھی یہ ہم سفر تھے۔
توراۃ میں ہے کہ مصر کے قیام میں چونکہ دونوں کے پاس کافی سازوسامان تھا اور مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ تھے اس لیے ان کے چرواہوں اور محافظوں کے درمیان بہت زیادہ کشمکش رہتی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چرواہے چاہتے تھے کہ اس چراگاہ اور سبزہ زار سے پہلے ہمارے ریوڑ فائدہ اٹھائیں اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے چرواہوں کی خواہش ہوتی کہ اول ہمارا حق سمجھا جائے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس صورت حال کا اندازہ کرکے حضرت لوط (علیہ السلام) سے مشورہ کیا ‘ اور دونوں کی صلاح سے یہ طے پایا کہ باہمی تعلقات کی خوشگواری اور دائمی محبت و الفت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) مصر سے ہجرت کرکے شرق اردن کے علاقہ سدوم اور عامورہ چلے جائیں اور وہاں رہ کر دین حنیف کی تبلیغ کرتے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی رسالت کا پیغام حق سناتے رہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پھر واپس فلسطین چلے جائیں اور وہاں رہ کر اسلام کی تعلیم و تبلیغ کو سر بلند کریں۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جنگل میں سیر کر رہے تھے انھوں نے دیکھا کہ تین اشخاص سامنے کھڑے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہایت متواضع اور مہمان نواز تھے اور ہمیشہ ان کا دسترخوان مہمانوں کے لیے وسیع تھا ‘ اس لیے تینوں کو دیکھ کر وہ بے حد مسرور ہوئے اور ان کو اپنے گھر لے گئے اور بچھڑا ذبح کرکے تکے بنائے اور بھون کر مہمانوں کے سامنے پیش کیے مگر انھوں نے کھانے سے انکار کیا یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھا کہ یہ کوئی دشمن ہیں جو حسب دستور کھانے سے انکار کر رہے ہیں اور کچھ خائف ہوئے کہ آخر یہ کون ہیں ؟
مہمانوں نے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اضطراب دیکھا تو ان سے ہنس کر کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم خدا کے فرشتے ہیں اور قوم لوط کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں اس لیے سدوم جا رہے ہیں۔
جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اطمینان ہو گیا کہ یہ دشمن نہیں ہیں بلکہ ملائکۃ اللہ ہیں تو اب ان کی رقت قلب ‘ جذبہ ہمددری اور محبت و شفقت کی فراوانی غالب آئی اور انھوں نے قوم لوط کی جانب سے جھگڑنا شروع کر دیا اور فرمانے لگے کہ تم اس قوم کو کیسے برباد کرنے جا رہے ہو جس میں لوط جیسا خدا کا برگزیدہ نبی موجود ہے اور وہ میرا برادر زادہ بھی ہے ‘ اور ملت حنیف کا پیرو بھی ‘ فرشتوں نے کہا :
ہم یہ سب کچھ جانتے ہیں مگر خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ قوم لوط اپنی سرکشی ‘ بدعملی ‘ بے حیائی اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور ہلاک کی جائے گی ‘ اور لوط (علیہ السلام) اور اس کا خاندان اس عذاب سے محفوظ رہے گا البتہ لوط کی بیوی قوم کی حمایت اور ان کی بداعمالیوں اور بدعقیدگیوں میں شرکت کی وجہ سے قوم لوط ہی کے ساتھ عذاب پائے گی۔
{ فَلَمَّا ذَھَبَ عَنْ اِبْرٰھِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآئَتْہُ الْبُشْرٰی یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ یٰٓاِبْرٰھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَاج اِنَّہٗ قَدْ جَآئَ اَمْرُ رَبِّکَج وَ اِنَّھُمْ اٰ تِیْھِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ } [143]
” پھر جب ابراہیم سے خوف جاتا رہا اور اس کو ہماری بشارت (ولادت اسحاق کی) پہنچ گئی تو وہ ہم سے قوم لوط کے متعلق جھگڑنے لگا ‘ بیشک ابراہیم بردبار ‘ غمخوار ‘ رحیم تھا ‘ اے ابراہیم اس معاملہ میں نہ پڑ ‘ بلاشبہ تیرے رب کا حکم آچکا ہے اور بلاشبہ ان پر عذاب آنے والا ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا “
{ قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّہَا الْمُرْسَلُوْنَ قَالُوْا اِنَّا اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ لِنُرْسِلَ عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِینٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِینَ } [144]
” (ابراہیم نے) کہا ” اے خدا کے بھیجے ہوئے فرشتو تم کس لیے آئے ہو ؟ “ انھوں نے کہا ” ہم مجرم قوم کی جانب بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر پتھروں کی بارش کریں یہ نشان کر دیا گیا ہے تیرے رب کی جانب سے حد سے گزرنے والوں کے لیے۔ “
{ وَ لَمَّا جَآئَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰیلا قَالُوْٓا اِنَّا مُھْلِکُوْٓا اَھْلِ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِج اِنَّ اَھْلَھَا کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ قَالَ اِنَّ فِیْھَا لُوْطًاط قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْھَاز وقفہ لَنُنَجِّیَنَّہٗ وَ اَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗق ز کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ }
[145]
” اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے کہنے لگے بیشک ہم ہلاک کرنے والے ہیں اس (سدوم) قریہ کے بسنے والوں کو بلاشبہ اس کے باشندے ظالم ہیں ابراہیم نے کہا کہ اس بستی میں تو لوط ہے فرشتوں نے کہا ہمیں خوب معلوم ہے جو اس بستی میں آباد ہیں ‘ ہم البتہ لوط کو اور اس کے خاندان کو نجات دیں گے مگر اس کی بی بی کو نہیں کہ وہ بھی بستی میں رہ جانے والوں کے ساتھ ہے۔ “
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ علیہ السلام آپ کی زندگی میں کنعان کے علاقے میں " حبرون" کے مقام پر 127 سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔اور آپ نے چار سو مثقال کے عوض ایک غار خریدا اور حضرت سارہ کو وہاں دفن کیا۔پھر ابراہیم علیہ السلام 175کی عمر میں فوت ہوئے اور اپنی زوجہ محترمہ کے قریب مذکورہ بالا غار میں دفن ہوئے جو جبرون میں واقع ہے۔ آپ علیہ السلام کے دفن کا اہتمام حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام نے کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی اہلیہ سارہ کے ساتھ مغربی کنارے کے پرانے شہر حبرون کے غار میں دفن کیا گیا تھا۔جسے مکفیلہ کا غار بھی کہتے ہیں مسلمانوں کے لیے ابراہیم کی پناہ گاہ کے طور پر جانا جاتا ہے، یہ ان کے بیٹے اسحاق علیہ السلام، ان کی بیوی ربقہ، ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام اور ان کی بیوی لیہ کی تدفین کی جگہ بھی سمجھا جاتا ہے۔[146][147]
ان مسلسل واقعات سے بہت سے بصائر وعبر حاصل ہونے کے علاوہ ایک سب سے اہم بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت منصب نبوت و رسالت میں بھی خاص امتیازی شان رکھتی ہے یوں تو خدا کا ہر ایک پیغمبر توحید کا داعی اور شرک کا دشمن ہے اور اس لیے تمام انبیا (علیہم السلام) کی تعلیمات میں یہ دو باتیں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ روحانی دعوت و ارشاد کی اساس و بنیاد صرف انہی دو مسئلوں پر قائم ہے
مگر یہ خصوصیت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے حصہ میں آئی تھی کہ اس دنیا میں وہ پہلی ہستی ہیں جنھیں اس راہ عزیمت میں سخت سے سخت آزمائشوں اور کڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ‘ اور وہ ان مصائب کے مقابلے میں کامران و کامیاب ثابت ہوئے ۔
غور کیجئے بڑھاپے اور یاس کی عمر میں ہزاروں دعاؤں اور لاکھوں آرزو وں کے بعد ایک بچہ پیدا ہوا ہے اور ابھی بچہ شیرخوار ہے کہ خدائے تعالیٰ کا حکم آتا ہے ” ابراہیمــ اس کو اور اس کی والدہ کو اپنے گھر سے جدا کرو ‘ اور ایک لق و دق بیابان اور بن کھیتی کی زمین میں جہاں نہ پانی ہے نہ سبزہ ان دونوں کو چھوڑ آؤ “ پھر کیا ہوا ؟ کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک لمحہ بھی تامل کیا اور تعمیل ارشاد میں کسی قسم کا کوئی عذرسامنے آیا ؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ بے چون وچرا ان دونوں کو مکہ کی سرزمین پر چھوڑ آئے۔
اور اس کے بعد جب وہ سن رشد کو پہنچتا اور ماں باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنتا ہے تواب پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو خدا کا حکم ملتا ہے کہ اس کو ہمارے نام پر قربان کرو اور اپنی فدا کاری و اطاعت شعاری کا ثبوت دو ۔
اس نازک وقت میں ایک مطیع سے مطیع اور فرمان بردار سے فرمان بردار ہستی کے ایمان و یقین کی کشتی کس طرح بھنور میں آجاتی ہے اس کا اندازہ خود کرو اور پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب دیکھو کہ نہ خدا کی وحی کی جو ” خواب اور رؤیا کی شکل میں “ دکھائی گئی تھی انھوں نے کوئی تاویل کی ‘ نہ اس کے لیے حیلہ بہانہ سوچا اور نہ اس کو ٹالنے کے لیے کوئی فکر و تردد کیا ‘ صبح اٹھے اور اپنے لخت جگر کو لیا اور تعمیل ارشاد الٰہی میں وہ سب کچھ کیا جو ان کے انسانی ہاتھ کرسکتے تھے اور اس طرح اپنی محیر العقول وفاتشی کا ثبوت دیا۔
اور تیسری سخت آزمائش کا وہ وقت تھا کہ جب باپ ‘ قوم اور بادشاہ وقت سب نے متفق ہو کر یہ فیصلہ کر لیا کہ ابراہیم ((علیہ السلام)) یا اپنے پیغام حق سے باز آجائے ورنہ تو اس کو دہکتی آگ میں ڈال کر خاکستر کر دیا جائے ‘ تب ظالموں کا یہ فیصلہ اور اتحاد کیا ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم ڈگمگا سکا ؟ نہیں بلکہ وہ ایک عزم کا پہاڑ بن کر اسی طرح اپنی جگہ کھڑا رہا اور پیغام حق اور خدا کی رشدو ہدایت کو اسی عزم و ثبات کے ساتھ سناتا رہا جس طرح شروع سے کرتا رہا پھر دشمنوں نے جو کچھ کہا تھا آخر کر دکھایا اور اس کو دہکتی آگ میں جھونک دیا ‘ مگر ابراہیم (علیہ السلام) کے سکون و اطمینان میں مطلق کوئی فرق نہیں آیا ‘ البتہ دشمنوں کی دشمنی اور ان کے تمام مکروفریب کو ابراہیم (علیہ السلام) کے خدا نے پادر ہوا کر دیا اور خاک میں ملا دیا اور آگ کے شعلے اس کے لیے ” بردوسلام “ بن گئے ‘ اور اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اپنے قوی تر نگہبان کے زیر سایہ سعادت و ہدایت کے فیضان سے بندگان خدا کو برابر منور و روشن کرتا رہا اور اس کی جرأت حق اور دعوت الی اللہ تیز تر ہو گئی۔
ان تمام سخت امتحانوں اور آزمائشوں اور پھر ان میں ثابت قدمی اور استقامت کے علاوہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے شرک اور توحید کی متضاد زندگی کے لیے ایک ایسا امتیاز قائم کر دیا جو انہی جیسے جلیل القدر پیغمبر کے شایان شان تھا۔
یعنی انھوں نے اصنام پرستی اور کواکب پرستی کی تردید و تذلیل اور ان کی شناعت کا اظہار کرتے ہوئے یہ تصریح فرمائی :
{ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [148]
” بلاشبہ میں نے اپنا رخ اسی ذات کی طرف جھکا دیا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے ‘ خالص اس کا ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ “
ابراہیم (علیہ السلام) کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے تصور کی دو راہیں ہیں ایک صحیح اور دوسری غلط ‘ غلط راہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ قائم کر لیا جائے کہ خدا کو راضی کرنے ‘ اس کو خوش رکھنے اور اس کی عبادت و پرستش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بتوں اور ستاروں کی پوجا کی جائے کیونکہ جب یہ ارواح ہم سے خوش ہوجائیں گی تو یہ خدا کو ہم سے راضی کر دیں گی ‘ اس عقیدہ کا نام ” شرک اور صابئیت “ ہے کیونکہ اس عقیدہ کے مطابق عبودیت و پرستش کے تمام وہ خصوصی امتیازات جو صرف ” ذات واحد “ کے لیے مخصوص رہنے چاہئیں تھے دوسروں کے لیے بھی مشترک ہوجاتے ہیں ‘ اور یہی شرک کی حقیقت ہے۔
اس کے مقابلہ میں صحیح راہ یہ ہے کہ اس علم و یقین کو عقیدہ بنایا جائے کہ خدائے تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کا طریقہ اس کے علاوہ دوسرا نہیں ہے کہ خود اسی کی پرستش کی جائے اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جائے ‘ نفع و ضرر ‘ صحت و مرض ‘ افلاس و تمول ‘ رزق کا قبض و بسط اور موت و زیست غرض تمام امور میں اسی کو اور صرف اسی کو مالک و مختار مطلق تسلیم کیا جائے اور اس کی رضا و عدم رضا کی معرفت کے لیے اس کے بھیجے ہوئے سچے پیغمبروں اور رسولوں کی ہی ہدایت و رشد پر عمل کیا جائے گویا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ دیا جائے کہ خدا کو راضی رکھنے اور اس سے قربت حاصل کرنے کے لیے دیوی دیوتاؤں کو ذریعہ بنانے کی حاجت نہیں بلکہ صرف اس ذات احدیت کی عبودیت و بندگی کو سرمایہ حیات بنایا جائے اسی عقیدہ کا نام ” اسلام “ اور ” حنیفیت “ ہے۔
اس لیے یہ پہلا دن تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی راہ کو ” شرک و صابئیت “ اور دوسری راہ کو ” اسلام وحنیفیت “ کا نام دے کر دونوں راہوں کے درمیان مستقل امتیاز قائم کر دیا اور یہ امتیاز ایسا مقبول ہوا کہ آنے والی تمام پیغمبرانہ تعلیم و دعوت کی بنیاد و اساس اسی نام سے موسوم کی گئیں حتیٰ کہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ کے آخری پیغام کا نام بھی ” ملت حنیف “ اور اس کے پیرو کا نام ” مسلم “ قرار پایا۔
{ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا } [149]
” اور پیروی کی ملت ابراہیم کی جو حنیف تھا۔ “
{ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ ٥ لا مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا } [150]
” اس (ابراہیم) نے تمھارا نام پہلے ہی سے مسلمان رکھا ہے اور اس قرآن میں بھی (یہی نام پسندیدہ رہا) “
یہی وجہ ہے کہ سورة ” ابراہیم “ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں انبیا (علیہم السلام) کے ظہور اور ان کے حالات و تشخصات اور نتائج کو مجموعی طور پر پیش کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کی دعوت رشد و ہدایت کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟ اور یہ کہ خیرو شر ‘ طاعت و بغاوت اور تسلیم و انکار میں کیا غیر اللہ کی خوشنودی کو بھی کوئی مقام حاصل ہے یا صرف رضاء و عدم رضائے الٰہی ہی اصل ایمان ہے ؟
پس ان مجموعی خصوصیات ابراہیمی کے پیش نظر بلاشبہ یہ کہنا صحیح ہے کہ نبیوں اور رسولوں کی مقدس زندگی میں ابراہیم (علیہ السلام) کا مقام ” مجدد انبیا ورسل “ کا مقام ہے۔
جب انسان کسی عقیدہ کو علم و یقین کی روشنی میں قائم کرلیتا ہے ‘ اور وہ اس کے قلب میں جاگزیں ‘ اس کی روح میں پیوست ‘ اور اس کے سینہ میں نقش کالحجر ہوجاتا ہے تو اس کا فکر و خیال ‘ اس کا سوچ بچار ‘ اور اس کا استغراق اس بارے میں اس درجہ زبردست اور ثابت و راسخ ہوجاتا ہے کہ کائنات کا کوئی حادثہ اور دنیا کی کوئی سخت سے سخت مصیبت بھی اس کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتی وہ اس کے لیے آگ میں بے خطر کود پڑتا ‘ سمندر میں بے جھجک چھلانگ مار دیتا اور سولی کے تختہ پر بے خوف جان دے دیتا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عزم و ثبات کی مثال اس کے لیے ایک زندہ اور روشن مثال ہے۔
حمایت حق کے لیے ایسے دلائل وبراہین پیش کرنے چاہئیں جو دشمن اور باطل پرست کے تہ قلب میں اتر جائیں اور وہ زبان سے خواہ اقرار حق نہ کرے لیکن اس کا ضمیر اور اس کا قلب حق کے اقرار پر مجبور ہوجائے بلکہ بعض مرتبہ زبان بھی بے اختیار اعلان حق سے باز نہ رہ سکے آیت قرآن
{ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ } [151]
اسی حقیقت کا اعلان کرتی ہے۔
" پیغمبروں اور رسولوں کی راہ یہی ہے ‘ وہ جدل و مخاصمت کی منطقیانہ راہوں پر نہیں چلتے ‘ ان کے دلائل وبراہین کی بنیاد محسوسات و مشاہدات پر ہوتی ہے یا سادہ وجدانیات و عقلیات پر ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اصنام پرستی و کواکب پرستی کے متعلق جمہور سے مناظرہ اور مناظرہ نمرود ‘ اس کی واضح اور روشن مثال ہے۔
کسی امر حق کو ثابت کرنے کے لیے دلیل میں مخالف کے باطل عقیدہ کو فرضی طور پر تسلیم کرلینا جھوٹ یا اس باطل عقیدہ کا اقرار نہیں ہے بلکہ اس کو ” فرض الباطل مع الخصم “ یا ” معاریض “ کہا جاتا ہے اور یہ طریقہ استدلال مخالف کو اپنی غلطی کے اعتراف پر مجبور کردیتا ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جمہور کے ساتھ مناظرہ میں دلیل کا یہی پہلو اختیار کیا تھا جس نے صنم پرستوں کو مجبور کر دیا کہ وہ اقرار کر لیں کہ بیشک بت کسی حال میں بھی نہ سنتے ہیں اور نہ جواب دے سکتے ہیں۔
اگر ایک مسلم کے والدین مشرک ہوں اور کسی طرح شرک سے باز نہ آتے ہوں تو ان کی مشرکانہ زندگی سے بیزار اور علاحدہ رہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ دنیوی معاملات اور آخرت کی پند و نصائح میں عزت و حرمت کا معاملہ کرنا چاہیے اور سختی اور درشتی کو کام میں نہ لانا چاہیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طرز عمل آزر کے ساتھ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریق عمل ابو طالب کے ساتھ اس مسئلہ کے لیے قطعی اور یقینی شہادت ہے۔
اگر قلب مومن صحیح عقائد پر اطمینان قلب اور زبان و قلب کی مطابقت کے ساتھ ایمان رکھتا ہے مگر عینی اور حقیقی مشاہدہ و محسوس کے لیے یا اس کو حق الیقین کے درجے تک حاصل کرنے کے لیے کسی ایمانی یا اعتقادی مسئلہ میں بھی سوال و جستجو کی راہ اختیار کرتا اور طمانیت قلب کا طالب ہوتا ہے تو یہ جستجو ریب و کفر نہیں ہے بلکہ عین ایمان ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب وَلٰکِنْ لَّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ سے اسی حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے ۔
& دسترخوان کی وسعت اگر ریاء ونمود سے پاک ہو اور فطری تقاضے کے پیش نظر مہمان نوازی میں وسعت قلب اور فراغ حوصلگی پائی جاتی ہو تو اخلاق کریمانہ میں بہت فضیلت شمار ہوتی ہے اور ” سخائے نفس “ اور ” کرم “ کے نام سے موسوم ہے۔
یہ وصف گرامی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حقیقت نفس بن چکا تھا اور فطری تھا۔ مہمان نوازی ‘ دسترخوان کی وسعت ‘ آنے والوں کا احترام ایسے اوصاف تھے جو ابراہیم (علیہ السلام) میں ” مثل اعلیٰ “ کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔
بعض کتابوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مہمان نوازی کے سلسلہ میں ایک عجیب واقعہ منقول ہے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حسب دستور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کسی مہمان کے انتظار میں جنگل میں کھڑے تھے ‘ کیونکہ بغیر مہمان کے نہ ان کا دسترخوان بچھتا تھا اور نہ وہ کھانا کھاتے تھے۔ سامنے سے ایک بہت بوڑھا آدمی نظر پڑا جس کی کمر بھی کج ہو گئی تھی اور لکڑی کے سہارے بمشکل چل رہا تھا ‘ ابراہیم (علیہ السلام) آگے بڑھے اور مسرت کے ساتھ اس کو سہارا دیتے ہوئے گھر لائے دسترخوان بچھا ‘ اور کھانا چنا گیا جب سب فارغ ہو گئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ‘ اس خدائے یکتا کا شکر ادا کر جس نے ہم سب کو یہ نعمتیں عطا فرمائیں ‘ بوڑھے نے خشم ناک ہو کر کہا میں نہیں جانتا کہ تیرا خدائے واحد کون ہے ‘ میں تو اپنے معبود (بت) کا شکر ادا کرتا ہوں جو میرے گھر میں رکھا ہے یہ جواب ابراہیم (علیہ السلام) کو بہت شاق گذرا ‘ اور اس کو فوراً گھر سے رخصت کر دیا ‘ لیکن کچھ وقفہ نہ گذرا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دل پر اپنے اس طرز عمل سے تکدر ہوا ‘ انھوں نے سوچا جس خدائے واحد کا شکر میں اس سے کرانا چاہتا تھا اس کی شان تو یہ ہے کہ اس بوڑھے کی اس طویل عمر میں وہ برابر اپنی نعمتوں سے اس کو نوازتا رہا اور اس کی بت پرستی ‘ کفر اور شرک سے ناراض ہو کر ایک وقت بھی اس پر رزق کا دروازہ بند نہیں کیا پھر تجھ کو کیا حق تھا کہ اگر اس نے تیری بات نہ مانی اور حق کے کلمہ کو قبول نہ کیا تو خفا ہو کر اس کو گھر سے نکال دیا۔
یہ واقعہ اپنی تاریخی حیثیت میں قابل قبول ہو یا ناقابل قبول لیکن اس حقیقت کا ضرور اعلان کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اخلاق کریمانہ کی وہ بلندی جو ” حقیقی مثل اعلیٰ “ تک پہنچی ہوئی تھی ضرب المثل اور زبان زد خلائق تھی ‘ اور بلاشبہ ان کا یہ فکر پیغام حق اور دعوت اسلام کے لیے بہترین اسوہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ جن ہستیوں کو اپنے ابلاغ حق کے لیے چن لیتا ہے ان کے قلب و دماغ کو اپنے نور سے اس درجہ روشن کردیتا ہے کہ ان کے سامنے عشق حق و صداقت کے سوائے دوسری کوئی چیز باقی ہی نہیں رہتی اور اس لیے ان میں شروع ہی سے یہ استعداد ودیعت ہوتی ہے کہ وہ عہد طفولیت ہی سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز اور نمایاں نظر آنے لگتے اور راہ حق میں ابتلا و امتحان کو خوشی سے سہتے اور صبر و رضا کا اسوہ حسنہ پیش کرتے رہتے ہیں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ اس کی شہادت کے لیے شاہد عدل اور باعث صد ہزار عبرت و عظمت ہے ۔
( حضرت لوط (علیہ السلام) اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادرزادہ اور ان کے پیرو تھے مگر شرف نبوت سے بھی سرفراز ہو چکے تھے اور خدا کے ایلچی بنا دیے گئے تھے اس لیے سدوم اور عامورہ میں ہمہ قسم کے مصائب اور وطن سے دور دشمنوں کے نرغہ کی تکالیف کے باوجود انھوں نے صبر و استقامت سے کام لیا اور اپنے بزرگ چچا اور خاندان کی مدد کی طلب کی بجائے صرف خدائے عزوجل ہی پر بھروسا رکھتے ہوئے اس کے احکام کے سامنے رضا و تسلیم کا ثبوت دیا۔ یہ مقام ” مقربین وانبیاء “ کا مقام ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.