قرآن مجید کی 15 ویں سورت From Wikipedia, the free encyclopedia
قرآن مجید کی 15 ویں سورت جس میں 6 رکوع اور 99 آیات ہیں۔ سوائے پہلی آیت کے پوری سورت 14 ویں پارے میں ہے۔
آیت 80 کے فقرے "کذب اصحب الحجر المرسلین" سے ماخوذ ہے۔
مضامین اور انداز بیاں سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کا زمانہ نزول سورۂ ابراہیم سے متصل ہے۔ اس کے پس منظر میں دو چیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دعوت دیتے ایک مدت گذر چکی ہے اور مخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی، استہزا، مزاحمت اور ظلم و ستم کی حد ہو گئی ہے، جس کے بعد اب تفہیم کا موقع کم تنبیہ و انذار کا موقع زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوم کے کفر و حجود اور مزاحمت کے پہاڑ توڑتے توڑے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھکے جا رہے ہیں اور دل شکستگی کی کیفیت بار بار آپ پر طاری ہو رہی ہے، جسے دیکھ کر اللہ تعالٰیٰ آپ کو تسلی دے رہا ہے اور آپ کی ہمت بندھا رہا ہے۔
یہی دو مضمون اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ یعنی تنبیہ اُن لوگوں کو جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کا انکار کر رہے تھے اور آپ کا مذاق اڑاتے اور آپ کے کام میں طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے تھے اور تسلی و ہمت افزائی آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورت تفہیم اور نصیحت سے خالی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالٰیٰ نے مجرد تنبیہ یا خالص زجر و توبیخ سے کام نہیں لیا ہے۔ سخت سے سخت دھمکیوں اور ملامتوں کے درمیان بھی وہ سمجھانے اور نصیحت کرنے میں کمی نہیں کرتا۔ چنانچہ اس سورت میں بھی ایک طرف توحید کے دلائل کی طرف مختصر اشارے کیے گئے ہیں اور دوسری طرف قصۂ آدم و ابلیس سنا کر نصیحت فرمائي گئی ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.