ایک پیغمبر اسلام From Wikipedia, the free encyclopedia
حضرت یعقوب علیہم السلام کا لقب اسرائیل ہے جس کے معنی عبد اللہ ہے یعنی اللہ کا بندہ ہے۔[3] حضرت یعقوب علیہ السلام کو مسلمان، یہودی اور مسیحی نبی مانتے ہیں۔ آپ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام آپ کے بیٹے ہیں۔ آپ کا ذکر عہد نامہ قدیم میں ایک سو ستر سے زائد بار[4] اور قرآن میں نام کے ساتھ دس سورتوں میں سولہ بار آیا ہے۔[5]
پیغمبر | |
---|---|
Yaqub يَعْقُوب | |
(عربی میں: يعقوب) | |
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | سوریہ |
مقام وفات | مصر |
مدفن | الخلیل |
قومیت | حبرون |
دیگر نام | اسرائیل (إِسْرَآءِیْل) |
زوجہ | لیہ راحیل باندی بلہاہ باندی زلفہ |
اولاد | یوسف علیہ السلام اور بنیامین (زوجہ راحیل سے) روبین ، شمعون ، لاوی ، یہودہ ، آشکار ، زبلون ، بیٹی دینہ (زوجہ لیا سے) |
والدین |
|
والد | اسحاق علیہ السلام [1][2] |
والدہ | ربقہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | اسلامی نبی |
درستی - ترمیم |
حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے بتوئیل کے نواسے ‘ ان کی والدہ کا نام رفقہ یا ربقہ تھا ‘ یہ اپنی والدہ کے چہیتے اور پیارے تھے اور ان کا حقیقی بھائی عیسو والد کا محبوب اور پیارا اور دونوں حقیقی بھائی تھے ۔[6][7]
رفقہ سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے توام دو لڑکے علی الترتیب عیسو اور یعقوب پیدا ہوئے اس وقت حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی عمر ساٹھ سال کی تھی ‘ اسحاق (علیہ السلام) عیسو کو زیادہ چاہتے تھے اور رفقہ یعقوب سے زیادہ پیار رکھتی تھیں ‘ عیسو شکاری تھے اور بوڑھے ماں باپ کو شکار کا گوشت لا کر دیتے تھے اور یعقوب خیمہ ہی میں رہتے تھے۔
ایک روز عیسو تھکے ماندہ آئے اور یعقوب سے کہنے لگے میں ماندہ ہوں اور آج شکار بھی ہاتھ نہیں آیا تو اپنے کھانے مسور اور لپسی میں سے مجھے بھی کچھ دے یعقوب نے کہا کہ فلسطینیوں کا یہ دستور ہے کہ میراث بڑے لڑکے کو ملتی ہے اس لیے باپ کا وارث تو ہوگا اگر تو اس حق سے دست بردار ہوجائے تو میں تجھ کو کھانا کھلاؤں گا ‘ عیسو نے کہا مجھے اس میراث کی کوئی پروا نہیں تو ہی وارث ہو جانا تب یعقوب نے عیسو کو کھانا کھلایا۔
ایک مرتبہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے (جبکہ بہت بوڑھے اور ضعیف البصر ہو گئے تھے) یہ چاہا کہ عیسو کو برکت دیں ‘ اور ان سے کہا کہ جا شکار کرکے لا اور عمدہ کھانا پکا کر میرے سامنے پیش کر ‘ رفقہ (رِبقہ) نے یہ سنا تو دل سے چاہا کہ یہ برکت یعقوب کو ملے ‘ فوراً یعقوب کو بلا کر کہا کہ جلدی عمدہ کھانا تیار کرکے باپ کے سامنے لے جا اور دعائے برکت کا طالب ہو ‘ یعقوب نے نام بتائے بغیر ایسا ہی کیا اور اسحاق (علیہ السلام) سے دعائے برکت حاصل کرلی ‘ جب عیسو آئے اور انھوں نے سب قصہ سنا تو انتہائی ناگواری محسوس کی اور یعقوب سے کینہ رکھنے لگے۔ تب رفقہ (ربقہ) نے یعقوب کو رائے دی کہ وہ یہاں سے اپنے ماموں لابان کے پاس کچھ دنوں کے لیے چلا جائے۔ یعقوب ماموں کے یہاں پہنچا اور وہیں کچھ مدت گزاری اور یکے بعد دیگرے لابان کی دونوں لڑکیوں لیاہ اور راحیل (راخل) سے شادی کرلی۔ [8]
حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنی والدہ کے اشارہ پر جب فدان آرام چلے گئے تو ان کے ماموں لابان نے ان سے یہ عہد لیا کہ وہ دس سال ان کے یہاں رہ کر ان کی بکریاں چرائیں تو وہ اس مدت کو مہر قرار دے کر اپنی لڑکی سے شادی کر دیں گے جب یعقوب (علیہ السلام) نے اس مدت کو پورا کر دیا تو لابان نے اپنی بڑی لڑکی لیا سے ان کا نکاح کرنا چاہا مگر حضرت یعقوب نے اپنا رجحان طبع چھوٹی لڑکی راحیل (راخل) کی جانب ظاہر کیا ‘ لابان نے یہ عذر کیا کہ یہاں کے دستور کے مطابق بڑی لڑکی کے نکاح سے قبل چھوٹی لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا ‘ اس لیے تم اس رشتہ کو منظور کرو اور اپنے قیام کو دس سال اور طویل کرو اور میری خدمت میں رہو تو راحیل بھی تمھارے نکاح میں دی جاسکے گی (کیونکہ اس زمانہ میں دو بہنوں کا ایک نکاح میں جمع ہونا شرعاً ممنوع نہ تھا) چنانچہ یعقوب (علیہ السلام) نے اس مدت کو بھی پورا کر دیا اور راحیل سے شادی کرلی ‘ ان دونوں کے علاوہ لیاہ کی خانہ زاد زلفا اور راحیل کی خانہ زاد بلہا (بلہاہ) بھی ان کی زوجیت کے رشتہ میں منسلک ہوگئیں اور ان سب سے اولاد بھی ہوئی۔ اور بنیامین کے علاوہ یعقوب (علیہ السلام) کی تمام اولاد اپنے ماموں کے ہی یہاں پیدا ہوئی اور جب یعقوب (علیہ السلام) وطن واپس آگئے تو یہاں بنیامین پیدا ہوئے لابان نے یعقوب (علیہ السلام) کو بیس سال اپنے پاس رکھنے کے بعد بہت سا مال و متاع اور ریوڑ دے کر رخصت کیا اور یہ پھر اپنے دادا کے دارالہجرت فلسطین میں آکر مقیم ہو گئے۔
یعقوب (علیہ السلام) جس زمانہ میں فدان ارام چلے گئے تھے ‘ اس زمانہ میں عیسو ناراض ہو کر اپنے چچا اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس آب سے تھے اور ان کی بیٹی سے شادی کرکے قریب ہی آباد ہو گئے تھے یہ تاریخ میں ادوم کے نام سے مشہور ہیں ‘ اس عرصہ میں دونوں بھائیوں کے درمیان جو چپقلش تھی وہ بھی دور ہو گئی اور دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ پھر استوار ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو تحائف بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔[9]
یہ تمام واقعات توراۃ کی کہانی اور داستان ہے ‘ قرآن عزیز ان تفصیلات کے حق میں قطعاً خاموش ہے اور صرف حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے جلیل القدر نبی ‘ صاحب صبر و عزیمت اور یوسف (علیہ السلام) کے برگزیدہ باپ ہونے کا ذکر کرتا ہے اور اسی ضمن میں نام لیے بغیر یوسف (علیہ السلام) کے دوسرے بھائیوں کا بھی ذکر آجاتا ہے۔
قرآن عزیز میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا نام سولہ جگہ آتا ہے اور اگرچہ سورة یوسف میں جگہ جگہ ضمائر اور اوصاف کے لحاظ سے اور بعض دوسری سورتوں مثلاً ” مومنون “ میں اوصاف کے اعتبار سے ان کا تذکرہ موجود ہے ؎ مگر نام کے ساتھ سورة یوسف صرف تین ہی جگہ ان کا ذکر کیا گیا ہے مسطورہ ذیل جدول اس کی وضاحت کرتی ہے :
سورت
آیت شمار
سورہ بقرہ
132‘ 133‘ 136‘ 140
سورہ آل عمران
84
سورہ انعام
84
سورہ مریم
6۔ 49
سورہ انبیاء
72
سورہ نساء
163
سورہ ہود
71
سورہ یوسف
6‘ 38‘ 68
سورہ ص
45
سورہ عنکبوت
28
حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا نام عبرانی میں اسرائیل ہے ‘ یہ اسرا (عبد) اور ایل (اللہ) دو لفظوں سے مرکب ہے ‘ اور عربی میں اس کا ترجمہ ” عبد اللہ “ کیا جاتا ہے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وہ اسحاقی خاندان جو ان کی نسل سے ہے اسی لیے ” بنی اسرائیل “ کہلاتا ہے اور آج بھی یہود و نصاریٰ کے قدیم خاندان اسی نسبت کے ساتھ منسوب ہیں۔
یوسف کو ایک خواب آیا کہ :اس کو سورج، چاند اور دس ستارے سجدہ کر رہے ہیں۔ یعقوب علیہ السلام نے یوسف کو یہ خواب اپنے بھائیوں کو بتانے سے منع فرمایا۔۔۔ تاہم یوسف نے ایسا ہی کیا۔ لیکن یعقوب عليه السلام کی پہلی بیوی راحیل کی باندی بلہاہ نے آپ عليه السلام کی باتیں سن لیں اور اپنے دس بیٹوں کو بتا دی یہ بات سن کر ان دس بیٹوں کو بہت غصہ آیا اور انھوں نے یوسف کو لے جاکر مارنے کا منصوبہ بنایا انھوں نے یعقوب عليه السلام سے اجازت مانگی تو انھوں نے منع فرما دیا پھر وہ سب اپنی ماں لیاہ کے پاس گیئے اور اس سے درخواست کی کہ وہ یعقوب عليه السلام سے انھیں یوسف کو لے جانے کی اجازت دلا دیں۔ لیاہ(دس بیٹوں کی ماں) کے اسرار پر اپ نے انھیں یوسف کو لے جانے کی اجازت دے دی۔ اور انھوں نے یوسف کو کنویں میں پھینک کر اس کی قمیض پر بکری کا خون لگا کر واپس چلے گیئے۔ جب یعقوب عليه السلام نے ان سے یوسف کا پوچھا تو انھوں نے کہا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے اس پر یعقوب عليه السلام بے حد غمگین ہوگیئے اور انھوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جب انھوں نے یعقوب عليه السلام کو یوسف کی خون سے بھری ہوئی قمیض دکھائی تو یعقوب عليه السلام کا سینا کھول اٹھا اس پر وہ بہت غمگین ہو گئے۔ جب آپ نے اس قمیض پر غور فرمایا تو دیکھا کہ قمیض تو کہیں سے نہیں پھٹی تو یوسف کو بھیڑیے نے کیسے کھالیا۔ آپ عليه السلام نے فرمایا: اگر یوسف کو بھیڑیوں نے کھایا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یوسف کی قمیض کہیں سے نہیں پھٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آپ عليه السلام کافی عرصہ اپنے بیٹوں سے ناراض رہے یہاں تک کہ بیٹوں سے الگ ہو کر اپنا الگ گھر بنالیا۔ یوسف کی جدائی کے بعد آپ عليه السلام پورا پورا دن کمرے میں رہ کر روتے رہتے یہاں تک کہ رو رو کر آپ عليه السلام کی بینائی بھی چلی گئی۔ اس کے تقریباً 40 سال بعد آپ کو معلوم ہوا کہ یوسف عزیزِ مصر ہے اور مصر میں آپ عليه السلام کا انتظار کر رہا ہے تو آپ عليه السلام سے برداشت نہ ہوا کہ آپ عليه السلام اتنی طاقت ہو کہ آپ اُڑ کر یوسف کے پاس پہنچ جایئں لیکن آپ عليه السلام تو نابینا تھے آپ عليه السلام اتنا سفر کیسے کرتے تو یوسف نے اپنے ایک بھائی لاوی کے ہاتھ ایک قمیض بھیجی جو ابراہیم علیہ السلام جو یعقوب عليه السلام کے دادا ان کی تھی جو انھوں نے اپنے بیٹےاسحاق علیہ السلام اور اسحاق عليه السلام نے یعقوب عليه السلام اور یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دی تھی بھجوائی یعقوب عليه السلام نے وہ قمیض اپنی انکھوں پر رکھی اور اللہ کے کرم سے آپ عليه السلام کی بینائی واپس آگئ۔ پھر آپ عليه السلام یوسف سے ملنے مصر گیئے جہاں4000(چار ہزار)مصری آپ عليه السلام کے استقبال میں کھڑے تھے پھر آپ عليه السلام اپنے بیٹے یوسف سے ملے اور خوشی خوشی زندگی بسر کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آپ عليه السلام 24(چوبیس)سال مصر میں رہے پھر 147(ایک سو سنتالیس) سال کی عمر میں وفات پاگئے آپ عليه السلام کی وفات پر اہلِ مصر 70(ستر) روز تک روئے آپ عليه السلام اپنے باپ،دادا اسحاق و ابراہیم کے ساتھ مسجدِ خلیل جو فلسطین میں ہے دفن ہیں۔[10]
یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ لڑکے تھے اور گذشتہ سطور میں واضح ہو چکا ہے کہ بنیامین کے علاوہ ان کی تمام اولاد فدان آرام ہی میں پیدا ہو چکی تھی ‘ صرف بنیامین فلسطین (ارض کنعان) میں پیدا ہوئے ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی یہ اولاد چونکہ چند بیبیوں سے ہے اس لیے ان کی تفصیل یہ ہے نیز اس کے علاوہ قرآن میں بھی یعقوب کے بارہ بیٹوں کا ذکر ہے لیکن ان کے نام اور ان کی ماؤں کے نام مذکور نہیں، سوائے یوسف نبی کے جن کے نام پر پوری سورہ قرآن میں ہے اور جن کے حالات کو قدرے تقصیل سے بیان کیا گيا ہے۔[11] جبکہ عہد نامہ قدیم میں آپ کی دو بیویوں اور دو باندیوں اور ان کے بارہ بیٹوں کا ذکر نام کے ساتھ آیا ہے۔<ref>عہد نامہ قدیم؛ پیدائش، اس کا 3/4 حصہ یعقوب اور ان کے خاندان کے حالات بیان کرتا ہے، جن میں سے کئی بیانات کو مسلمان نہیں مانتے۔
حضرت یعقوب (علیہ السلام) خدا کے برگزیدہ پیغمبر تھے اور کنعانیوں کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے انھوں نے برسوں اس خدمت حق کو انجام دیا ‘ قرآن عزیز میں چونکہ ان کا ذکر بیشتر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ کیا گیا ہے اس لیے وہیں قابل مراجعت ہے۔
یوسف علیہ السلام یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے اور قرآن میں یعقوب علیہ السلام کے 12 بیٹوں کا ذکر ہے یوسف علیہ السلام اور بن یامین یہ دونوں اپنے خاص بھائی تھے
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.