بھارت کی ثقافت
From Wikipedia, the free encyclopedia
بھارت کی ثقافت، بھارتی ثقافت، ہندوستانی ثقافت یا ہندوستان کی ثقافت ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس سے مراد جنوبی ایشیا کے بر صغیر کے سب سے بڑے ملک بھارت کی تہذیب و تمدن، یہاں کے مذہب، یہاں کے فرقے اور برادریاں اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی بے شمار زبانیں اور بولیاں ہیں۔ چوں کہ بھارت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، اس وجہ ایک جغرافیائی خطہ ہو کر بھارت میں کافی تنوع دیکھنے میں آیا ہے۔ بھارت کی آبادی کی غالب اکثریت ہندو مت کی پیروکار ہے۔ تاہم کوئی ایک تعریف کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہ ہندو کون ہے۔ آریہ سماج کے کئی لوگ بت پرستی کو نہیں مان کر بھی ہندو ہیں۔ برہمو سماج کے لوگ توحید کا عقیدہ رکھ کر بھی ہندو ہیں۔ ہندو دھرم کے زیادہ تر لوگ کثرت الوہ اور بت پرستی کے قائل ہیں، مگر وہ ان لوگوں کو بھی اپنے میں قبول کرتے ہیں۔ حد یہ کہ خدا کو نہیں ماننے والے ملحد بھی ہندو ہیں۔[1] بھارت کی ثقافت زبانیں، مذاہب، رقص، موسیقی، فن تعمیر، پکوان اور مختلف تہذیبوں، تاریخی جغرافیائی نوعیتوں پر مشتمل ہے۔ بھارت کی زبانوں، پکوان، موسیقی، رقص، سنیما اور مارشل آرٹ نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی ہے۔
ماضی میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ملحد تھے[2]، 2013–18 تک کرناٹک ریاست کے وزیر اعلیٰ سدارمیا معلنہ طور پر ملحد رہے[3]۔ اس وجہ یہاں کا دایاں محاذ ہر بھارتی کو ہندو مانتا ہے لفظ ہندو کو بھارتی کے معنوں میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[4] تاہم اس بات سے ہر کوئی متفق نہیں ہے۔ اس کے باوجود، بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں جس طرح منادر جگہ جگہ موجود ہیں، اسی طرح مساجد، گرجا گھر اور گرودوارے ہیں۔ ملک میں کچھ وقت پہلے ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام صدر جمہوریہ تھے جو ایک مسلمان تھے۔ اسی طرح گیانی ذیل سنگھ سکھ ہو کر بھی بھارت کے صدر جمہوریہ تھے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی سکھ تھے اور بھارت میں دس سال تک وزیر اعظم تھے۔
اسی طرح سے بھارت میں کئی زبانیں اور بولیاں موجود ہیں، مگر ملک میں وفاقی حکومت کی سرکاری زبان ہندی کو قرار دینے کے باوجود اسے قومی زبان کا درجہ نہیں دے پائے ہیں۔ [5] اس کی وجہ غالبًا یہ ہے کہ ہم زبان اور بولی میں حد فاصل کیسے قائم کریں، یہ طے نہیں ہے۔ لوگ جدید طور پر بھوجپوری زبان بولتے ہیں جو ہندی زبان سے کافی مشابہ ہے اور دونوں زبان کے لوگ ایک ہی انداز میں بات کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ تاہم بھوجپوری لوگ اپنی زبان کو ہندی سے الگ ماننے لگے ہیں۔ یہی حال راجستھانی زبان اور کچھ اور بولیوں کا ہے۔ ہندی کے خلاف سے سب زیادہ احتجاج جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو میں ہوئے ہیں۔[6] اس کی وجہ سے ریاست کے زیادہ تر مدارس میں لوگ ہندی نہیں پڑھاتے۔ بھارت میں مرکزی اور ریاستی زبانوں کے جھگڑے بھی ہوئے ہیں۔[7] اور اس کے علاوہ اردو زبان کو اس کا مستحقہ مقام دینے کا مسئلہ ایسا رہا ہے، جس پر سیاسی حلقے سنجیدگی سے کام نہیں کرتے۔ [8] پھر بھی بھارت ایک ہمہ لسانی ملک کے طور عالمی پہچان بنا چکا ہے۔ اس کے کئی بین الاقوامی مطالعے بھی ہو چکے ہیں۔