آئینی تحریک یا آئینی جمہوریت کا انقلاب ایران میں بادشاہ کے اختیار کو محدود کرنے اور حکومت اور عوام کے آئینی حقوق و فرائض کو معین کرنے کے لیے برپا ہوا۔ یہ ایشیا کا پہلا جمہوری انقلاب تھا اور اسے اس وقت کے شیعہ مراجع یعنی آخوند خراسانی، مرزا حسین تہرانی اور مرزا عبداللہ مازندرانی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ انفرادی آزادی ، عدالتی انصاف اور قانون کی حکمرانی کا مطالبہ لے کر یہ تحریک بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں شروع ہوئی اور اگست 1908 کے آخر میں کامیاب ہوئی۔ اس سے ایران ایک جدید ریاست بن گیا اور جدید پارلیمنٹ، تعلیم، صحت اور انتظامیہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔

اجمالی معلومات ایرانی آئینی انقلاب, تاریخ ...
ایرانی آئینی انقلاب
سردر ساختمان مجلس شورای ملی واقع در میدان بہارستان
تاریخ1284–1288
مقام
وجہآگاهی از پیشرفت‌های غرب، ظهور طبقه متوسط، تنگنای اقتصادی و بی عدالتی حکام و دادگاه ها نسبت به مردم
طریقہ کارتشکیل انجمن ها، بست‌نشینی، انتشار مطبوعات، سخنرانی‌های مذہبی، نبرد مسلحانه
اختتام  استقرار آئینی بادشاہی
  بنیان‌گزاری مجلس
  تدوین قانون اساسی آئینی
طرفداران آئینی سلطنت
  روحانیان آئین خواه
  روشنفکران
  مجاهدان آئین
طرفداران سلطنت مطلقہ
  دستگاه حکومتی قاجار
  مشروعه‌خواهان
  دولت روسیه تزاری
مرکزی رہنما
  • طباطبایی و بہبہانی
  • سردار اسعد
  • یپرم خان و سپہ دار
  • ستارخان و باقرخان
  • مظفرالدین شاه
  • محمدعلی‌شاه
  • عین‌الدوله
  • شیخ فضل‌الله نوری
  • لیاخوف
بند کریں

اس انقلاب کا نتیجہ اس وقت کے شاہ ایران، مظفر الدین شاہ قاجار، کا دستوری فرمان پر دستخط کرنا تھا جس کے بعد قانون سازی کے اختیارات پارلیمان کو منتقل ہو گئے۔

اصطلاحات

دھخدا کا ماننا ہے کہ مشروطہ کا لفظ، جس کا مطلب قانون کی حکمرانی ہے، عربی یا فارسی زبان میں عام نہیں تھا اور عثمانی ترکوں نے اسے فارسی میں متعارف کرایا تھا۔ عہد قاجار کے کچھ افراد جیسے سعد الدولہ اور صادق آغا تبریزی نے مشروطہ کے لفظ کو استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ [1]

تاریخ نویسی اور کتابیات

آئینی جمہوری انقلاب کے تاریخی ماخذ کو تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ انقلاب کے دوران لکھی جانے والی کتابیں اور دستاویزات، جمہوری عہد کے متعدد سال بعد لکھی جانے والی کتابیں اور انقلاب کے ہم عصر مصنفین کی کتابیں۔ [2]

"ایرانی بیداری کی تاریخ" ناظم الاسلام کرمانی کی ایک کتاب ہے جو آئینی انقلاب کے وقت لکھی گئی تھی۔ وہ فروری 1903 سے ڈائری لکھ رہے تھے۔ [3] مصنف کا سید محمد طباطبائی سے گہرا تعلق تھا اور اسی وجہ سے وہ طباطبائی کی ملاقاتوں، تقاریر اور آراء کے بارے میں معلومات کا ایک اہم وسیلہ ہیں۔ اس کتاب میں جمہوری انقلاب کے دوران اندرونی تقسیم اور دھڑے بندیوں کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔

"آذربائیجان میں انقلاب اور تبریز میں ہونے والے واقعات کی تاریخ" محمد باقر ویجوہ کی ایک کتاب ہے ، جو تبریز کے جمہوریت نواز انقلابیوں میں سے ایک تھا۔ اس کتاب میں تبریز کے محاصرے کے واقعات کی تفصیل دی گئی ہے۔ [4] غیر ایرانی مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں بھی موجود ہیں۔ ان میں سب سے مشہور کتابیں اورنج (روسی وزارت خارجہ) ، دی بلیو (برطانوی دفتر خارجہ) ، تاریخ انقلاب مشروطہ ایران ( ایڈورڈ براؤن ) اور ایرانی جبر ( مورگان ششتر ) ہیں۔ [5] جمہوری انقلاب کے تیس سال بعد احمد کسروی، جو اس وقت نوجوان تھا، نے انقلاب کی تاریخ لکھنے کا سوچا۔ [6] [7]

جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا اور مراجع کا جواب

چوتھے قاجار بادشاہ ناصر الدین شاہ کو جمال الدین افغانی کے پیروکار مرزا رضا کرمانی نے اس وقت قتل کر دیا جب وہ یکم مئی 1896 کو شاہ عبدالعظیم کے مزار پر حاضری اور دعا مانگ رہے تھے۔ ان کے بیٹے مظفر الدین شاہ کو حکومت سنبھالتے ہی مالی بحران کا سامنا کرنا پڑاکیوں کہ سالانہ سرکاری اخراجات بہت زیادہ بڑھ چکے تھے۔ اپنے دور حکومت میں مظفر الدین شاہ نے معیشت میں کچھ اصلاحات کی کوشش کی۔ تاہم سابقہ دور میں اٹھائے گئے قرضوں نے نے اس کوشش کوناکام بنایا۔ مراعات اور غیر ملکی مداخلت کے بارے میں تعلیم یافتہ اشرافیہ اور مذہبی رہنماؤں کے درمیان پھیلی تشویش کے نتیجے میں 1906 میں عوام نے آئینی جمہوریت کے لیے احتجاج شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شاہ نے اکتوبر 1906 میں مجلس (قومی مشاورتی اسمبلی) بنانے کی تجویز کو قبول کیا، جس کے ذریعے بادشاہ کی طاقت کو کم کر دیا گیا مگر اس منصب کو باقی رکھا گیا کیونکہ شاہ نے عوام کو آئین اور پارلیمنٹ بنانے کا حق دے دیا تھا۔ بادشاہ مظفرالدین شاہ نے اپنی موت سے کچھ دیر پہلے 1906 میں بننے والے ایران کے پہلے آئین پر دستخط کیے۔ نوتشکیل شدہ پارلیمنٹ کے ارکان نجف کے مرجع اعلی آخوند خراسانی سے مسلسل رابطے میں رہے اور جب بھی قانون سازی کے بلوں پر بحث ہوتی تو فقہی رائے کے لیے تفصیلات ان کی طرف ٹیلی گراف کے ذریعے بھیجی جاتی تھیں۔ [8] 3 جون 1907 کو ایک خط میں پارلیمنٹ نے آخوند کو آئین مخالفوں کے ایک گروہ کے بارے میں بتایا جوشرعی نظام کے نام پر جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے جواب میں نجف سے تین مراجع نے متفقہ فتویٰ دیتے ہوئے کہا: [8] [9]

فارسی:

اساس این مجلس محترم مقدس بر امور مذکور مبتنی است. بر هر مسلمی سعی و اهتمام در استحکام و تشیید این اساس قویم لازم، و اقدام در موجبات اختلال آن محاده و معانده با صاحب شریعت مطهره علی الصادع بها و آله الطاهرین افضل الصلاه و السلام، و خیانت به دولت قوی شوکت است.

الاحقر نجل المرحوم الحاج میرزا خلیل قدس سره محمد حسین، حررّہ الاحقر الجانی محمد کاظم الخراسانی، من الاحقر عبدالله المازندرانی [10]

’’پارلیمنٹ کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی گئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس کی حمایت کرے۔ اور جو لوگ اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کایہ عمل شریعت کے منافی ہے۔‘‘
- مرزا حسین تہرانی، محمد کاظم خراسانی، عبد اللہ مازندرانی۔
Thumb
آیات ثلاث: (دائیں سے بائیں) آیۃ اللہ العظمی ٰ شیخ عبد اللہ مازندرانی، آیۃ اللہ العظمی ٰ مرزا حسین تہرانی اور آیۃ اللہ العظمی ٰ آخوند خراسانی

جمہوری تحریک کے آغاز میں شیخ فضل اللہ نوری نجف کے مراجع تقلید کی حمایت کرتے رہے۔ تاہم جب نئے بادشاہ محمد علی شاہ قاجار نے جمہوریت کو ختم کرنے اور فوجی اور غیر ملکی حمایت سے اپنی مطلق العنان حکومت دوبارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا، تو شیخ فضل اللہ نے ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ [11]

دریں اثنا نئے بادشاہ نے سمجھ لیا تھا کہ وہ شاہ سے وفاداری کے نام پر آئینی جمہوریت کو ختم نہیں کر سکتے نہ اس طرح پرانا دور واپس لا سکتے ہیں، اس لیے انھوں نے مذہب کا کارڈ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ [12] نوری ایک امیر اور اعلیٰ درجے کے درباری تھے۔ [13] انھوں نے پارلیمنٹ کے ادارے کی بنیادوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ انھوں نے اپنے پیروکاروں کو ساتھ لے کر 21 جون 1907 کو شاہ عبد العظیم کے مزار پر دھرنا شروع کر دیاجو 16 ستمبر 1907 تک جاری رہا۔ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کے تصور کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیاجس میں جدید دور کے ہر سوال کا جواز پہلے سے موجود تھا۔ انھوں نے کہا کہ جمہوریت "کیمسٹری، فزکس اور غیر ملکی زبانوں کی تعلیم" کی اجازت دے گی، جس کے نتیجے میں الحاد پھیلے گا۔ [14] اپنی باتوں کو ملک کے گوشہ و کنار تک پہنچانے کے لیے انھوں نے ایک پرنٹنگ پریس خریدا اورایک اخبار "روزنامہ شیخ فضل اللہ" شروع کیا اور چھوٹے چھوٹے کتابچے شائع کیے۔ [15] اس کا خیال تھا کہ حکمران خدا کے علاوہ کسی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں ہے اور لوگوں کو اختیارات کو محدود کرنے یا بادشاہ کے طرز عمل پر سوال اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ جمہوری طرز حکومت کی حمایت کرنے والے بے ایمان اور بدعنوان اور مرتد ہیں۔ [16] انھوں نے خواتین کی تعلیم کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ لڑکیوں کے اسکول بدکاری کے اڈے ہیں۔ [17] اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جدید صنعت کے لیے فنڈز مختص کرنے، جدید طرز حکمرانی، اقلیتوں کے لیے مساوی حقوق اور آزادی صحافت کی بھی مخالفت کی۔ ان کا ماننا تھا کہ لوگ مویشی ہیں، لیکن کھلا تضاد یہ ہے کہ وہ انہی مسلم بھائیوں کو بیدار بھی کرنا چاہتے تھے۔ [18]

جمہوریت مخالف مولویوں نے لوگوں کو تشدد پر بھی اکسایا اور پارلیمنٹ کے باہر جلسہ کرتے ہوئے نوری گروپ کے ایک مولوی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قریب جانا زنا، چوری اور قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ [19] زنجان میں ملا قربان علی زنجانی نے چھ سو غنڈوں کی ایک فوج کو جمع کیا جنھوں نے جمہوریت کے حامی تاجروں کی دکانیں لوٹ لیں اور کئی دنوں تک شہر پر قبضہ کر کے نمائندے سعد السلطنہ کو قتل کر دیا۔ [20] نوری صاحب نے جمہوریت کے حامیوں کو ہراساں کرنے کے لیے جرائم پیشہ گروہوں سے رابطہ کر کے کرائے کے غنڈوں کو بھرتی کیا۔ 22 دسمبر 1907 کو نوری ایک ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے توپخانہ اسکوائر کی طرف گئے اور تاجروں پر حملہ کیا اور دکانوں کو لوٹ لیا۔[21]  بادشاہ اور جاگیرداروں سے نوری کے تعلقات نے ان کے جنون کو مزید تقویت دی۔ حتیٰ کہ انھوں نے مدد کے لیے روسی سفارت خانے سے رابطہ کیا اور ان کے آدمیوں نے مساجد میں جمہوریت کے خلاف تقریریں کیں، جس کے نتیجے میں افراتفری پھیل گئی۔  [22] اس معاملے میں آخوند خراسانی سے مشورہ کیا گیا اور 30 دسمبر 1907 کو ایک خط میں تینوں مراجع نے کہا: [23]

فارسی:

چون نوری مخل آسائش و مفسد است، تصرفش در امور حرام است.

محمد حسین (نجل) میرزا خلیل، محمد کاظم خراسانی، عبدالله مازندرانی [24]

"چونکہ نوری مصیبت اور فتنہ کا باعث ہے، اس لیے اس کا کسی بھی معاملے میں دخل دینا حرام ہے۔"
- مرزا حسین تہرانی، محمد کاظم خراسانی، عبد اللہ مازندرانی۔

تاہم، نوری نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور چند ہفتوں بعد آخوند خراسانی اور باقی دو مراجع نے انھیں تہران سے نکالے جانے کا فتویٰ دے دیا: [25]

فارسی:

رفع اغتشاشات حادثه و تبعید نوری را عاجلاً اعلام.

الداعی محمد حسین نجل المرحوم میرزا خلیل، الداعی محمد کاظم الخراسانی، عبدالله المازندرانی [26]

"امن بحال کریں اور نوری کو جلد از جلد شہر بدر کریں۔"
- مرزا حسین تہرانی، محمد کاظم خراسانی، عبد اللہ مازندرانی۔

جہاں تک نوری کے استدلال کا تعلق ہے، آخوند خراسانی نے شاہ عبد العظیم کے مزار پر لگے ہوئے مجمعے کی سب ایرانیوں پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کا الزامی رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ "بہارستان چوک پر موجود پارلیمنٹ" کی حمایت کرتے ہیں۔ [27]

Thumb
آخوند خراسانی کو جدید دور میں اصولی شیعہ مکتب فکر کا سب سے بڑا نظریہ پرداز کہا جاتا ہے۔

شیعہ اسلام میں امام کی غیبت سے مراد اس عقیدے کی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی ، جو اسلام کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں ، ایک دن حضرت عیسیٰ کے ساتھ آئیں گے اور عالمی انصاف قائم کریں گے۔ آخوند خراسانی اور ان کے ساتھیوں نے امام کی غیر موجودگی میں مذہبی سیکولرازم کا ایک نظریہ پیش کیا، جو آج بھی شیعہ مدارس میں غالب ہے اور جس کے مطابق مذہبی رہنما اپنی مذہبی حیثیت کی بنیاد پر کوئی سیاسی عہدہ قبول نہیں کرتے۔ یہ نظریہ آیت الله خمینی کے نظریہ ولایت مطلقہ فقیہ کے برعکس ہے اور اس کے مطابق مثالی حکمران یعنی امام مہدی کی عدم موجودگی میں سیکولر جمہوریت بہترین دستیاب آپشن ہے۔ مثالی حکمران یعنی امام مہدی کی غیبت میں جمہوریت ایک کامل نظام نہیں لیکن غیر معصوم کی آمریت سے بہتر ہے۔ [28] وہ آئینی جمہوریت کی مخالفت کو امام مہدی کے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں۔ [29] انھوں نے آئینی جمہوریت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اورکہا کہ "جمہوری آئین کی بنیادوں" پر اعتراض غیر اسلامی ہے۔ [20] آخوند کے مطابق، "ایک صحیح مذہب انسانوں کے اعمال اور کردار پر پابندیاں عائد کرتا ہے"، جو مقدس متن یا منطقی استدلال سے سمجھی جاتی ہیں اور یہ پابندیاں بنیادی طور پر استبداد کو روکنے کے لیے ہیں۔ [30]ان کاکہنا ہے کہ اسلامی نظام حکومت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ امام معصوم حاضر نہ ہو۔ غیبت امام میں مناسب قانون سازی سے ریاستی جبر کو کم کرنے، امور کے بہتر انتظام اور امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی کوشش ہی کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا : [31]

"شیعہ عقیدہ کے مطابق صرف امام معصوم کو حکومت کرنے، لوگوں کے معاملات چلانے، مسلم معاشرے کے مسائل کو حل کرنے اور اہم فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ جیسا کہ انبیا علیہم السلام کے زمانے میں تھا یا امیر المومنین علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانے میں تھا اور جیسا کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور واپسی کے وقت ہوگا۔ اگر سیاسی ولایت مطلقہ معصوم کے علاوہ کسی کے پاس ہو تو یہ غیر اسلامی حکومت ہوگی۔ چونکہ یہ غیبت کا زمانہ ہے، اس لیے دو طرح کی غیر اسلامی حکومتیں ہو سکتی ہیں: پہلی نسبتاً عادلانہ جمہوریت جس میں لوگوں کے معاملات ایماندار اور پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھ میں ہوں اور دوسری ظالم حکومت جس میں ایک آمر کو مطلق اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا شریعت اور عقل دونوں کی رو سے عدل ظلم سے بہتر ہے۔ انسانی تجربے اور محتاط غور و فکر سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جمہوریت ریاست کے جبر کو کم کرتی ہے اور چھوٹی برائی کو ترجیح دینا واجب ہے۔"

- محمد کاظم خراسانی

فارسی: سلطنت مشروعه آن است کہ متصدی امور عامه ی ناس و رتق و فتق کارهای قاطبه ی مسلمین و فیصل کافه ی مهام به دست ‏شخص معصوم و موید و منصوب و منصوص و مامور مِن الله باشد مانند انبیا و اولیاء و مثل خلافت ‏امیر المومنین و ایام ظهور و رجعت حضرت حجت، و اگر حاکم مطلق معصوم نباشد، آن سلطنت غیر مشروعه است، ‏چنان‌ کہ در زمان غیبت است و سلطنت غیر مشروعه دو قسم است، عادله، نظیر مشروطه کہ مباشر امور عامه، عقلا و متدینین ‏باشند و ظالمه و جابره است، مثل آنکه حاکم مطلق یک نفر مطلق‌ العنان خودسر باشد. البته به صریح حکم عقل و به فصیح ‏منصوصات شرع «غیر مشروعه ی عادله» مقدم است بر «غیر مشروعه ی جابره». و به تجربه و تدقیقات صحیحه و غور ‏رسی‌ های شافیه مبرهن شده که نُه عشر تعدیات دوره ی استبداد در دوره ی مشروطیت کمتر می‌شود و دفع افسد و اقبح به ‏فاسد و به قبیح واجب است.[32]

- محمد کاظم خراسانی

آخوند کے نزدیک "جیسا کہ شریعت مقدسہ اور مذہب کی تعلیمات سے واضح ہے"، ایک اسلامی حکومت صرف معصوم امام ہی تشکیل دے سکتے ہیں۔[33] آقا بزرگ تہرانی کے بقول آخوند خراسانی کہتے تھے کہ اگر کسی بھی دور میں صحیح معنوں میں اسلامی حکومت کے قیام کا امکان ہو تو خدا امام زمانہ کی غیبت کو ختم کر دے گا۔ اس لیے آخوند نے فقیہ کی حکومت کے خیال کو باطل قرار دیا۔[34] آخوند کے مطابق شیعہ فقہا کو جمہوری اصلاحات کی حمایت کرنی چاہیے۔ وہ اجتماعی عقل کو فردی عقل پر ترجیح دیتے ہیں اور فقیہ کے کردار کو ایک مومن کے ذاتی زندگی کے معاملات میں مذہبی رہنمائی فراہم کرنے تک محدود سمجھتے ہیں۔ [35] وہ جمہوریت کی تعریف ایک ایسے نظام حکمرانی کے طور پر کرتے ہیں جو ریاست کے سربراہ اور سرکاری ملازمین پر کلی "حدود اور شرائط" نافذ کرتا ہے تاکہ وہ ان حدوں کے اندر کام کریں جو قوم کے ہر فرد کے لیے یکساں ہوں۔ آخوند کا خیال ہے کہ جدید سیکولر قوانین روایتی مذہب کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مذہبی احکام اور مذہب کے دائرہ سے باہر کے قوانین دونوں ہی "ریاستی استبداد" کا مقابلہ کرتے ہیں۔[36] آئین سازی کا تصور "انسانوں کی موروثی اور فطری آزادیوں" کے دفاع کے اصول پر قائم ہے اوراس کے برعکس مطلق طاقت مطلق بدعنوانی کا موجب بن کر قوم کی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ [37]

نوری نے شریعت کی تشریح اپنی انا اور تنگ نظری کی بنیاد پر کی، جبکہ آخوند خراسانی گہری ہمہ جانبہ تحقیق کے بعد کوئی رائے قائم کرتے اور معاشرے میں مذہب سے وابستگی کو ایک فرد یا ایک تشریح کی پیروی سے بالاتر سمجھتے تھے۔ [38] جوری نے شریعت کو ایک جدید معاشرے کے تحریری آئین کے ساتھ خلط ملط کیا، لیکن آخوند خراسانی دونوں کے فرق اور دائرہ کار کو سمجھتے تھے۔ [39]

سزائے موت

Thumb
شیخ ابراہیم زنجانی اس عدالت کے سربراہ تھے جس نے فضل اللہ نوری کو موت کی سزا سنائی۔

نوری نے محمد علی شاہ قاجار کے ساتھ مل کر روسی فضائیہ کی مدد سے 1907 میں مجلس (پارلیمنٹ)کو برخاست کر کے بمباری کرائی اور متعدد افراد کے قتل کا جواز فراہم کیا تھا۔آخوند خراسانی نے محمد علی شاہ کی بغاوت کا جواب دیتے ہوئے اس کو "سفاک جابر" قرار دیا اور لوگوں سے ٹیکس ادا کرنا بند کرنے اور ظالم سے لڑنے کو کہا۔ [40] ایک بیان میں، جس پر دوسرے دو مراجع نے بھی دستخط کیے، انھوں نے کہا:

فارسی:

به عموم ملت ایران، حکم خدا را اعلام می داریم، الیوم همت در دفع این سفاک جبار، و دفاع از نفوس و اعراض و اموال مسلمین از اهم واجبات، و دادن مالیات به گماشتگان او از اعظم محرمات، و بذل جهد و سعی بر استقرار مشروطیت به منزله جہاد در رکاب امام زمان ارواحنا فداه، و سر موئی مخالفت و مسامحه به منزله خذلان و محاربه با آن حضرت صلوات الله و سلامه علیه است. اعاذ الله المسلمین من ذلک. ان شا الله تعالیٰ

الاحقر عبدالله المازندرانی، الاحقر محمد کاظم الخراسانی، الاحقر نجل الحاج میرزا خلیل [41]

"ایرانی قوم کی شرعی ذمہ داری یہ ہے: آج اس ظالم غاصب کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرنا اور مسلمانوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا سب سے بڑا واجب ہے۔ اس حکومت کے افسروں کو ٹیکس دینا گناہ کبیرہ ہے۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے کام کرنا اتنا ہی اچھا ہے جتنا امام مہدی کے مقصد کے لیے لڑنا اور آئین کی مخالفت کرنا ان کے لشکر سے نکل جانے کے مترادف ہے۔ خدا ہم سب کی مدد کرے۔"
- مرزا حسین تہرانی، محمد کاظم خراسانی، عبد اللہ مازندرانی۔

16 جولائی 1909 کو شاہ کو معزول کر دیا گیا اور جمہوریت بحال ہوئی۔ نوری کو گرفتار کیا گیا، مقدمہ چلایا گیا اور " بدعنوانی اور بغاوت" کا مجرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی گئی۔ [42]

اسباب

آزادی فکر

یورپ میں ایرانیوں کی تعلیم عباس مرزا اور فرہانی کے نائب کے دور میں شروع ہوئی۔ جو ایرانی یورپ گئے تھے وہ پہلے ایرانی تھے جو آزادی کے نظریات اور قومی حکومت کے اصولوں سے واقف تھے۔ [43] ان افراد میں سے ایک مرزا صالح شیرازی ہیں ، جو ایران میں فارسی کتابوں کا پہلا پرنٹنگ ہاؤس اور پہلے اخبار کا بانی ہیں۔ اپنے سفر نامے میں ، انھوں نے برطانیہ میں پارلیمانی حکومت ، قانون ، عدلیہ ، یونیورسٹی ، اسپتال اور دیگر سیاسی ، معاشی ، صنعتی اور معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں اپنے مشاہدات کو بیان کیا۔ [44] اپنے سفر نامے میں ، انھوں نے برطانیہ کو ایک "صوبہ آزادی" کے طور پر حوالہ دیا جس میں برطانوی حکومت نے چھ مہینوں تک اسے ہٹانے کے لیے کوشش کی ، لیکن بادشاہ سے بھکاری تک ناکام رہا اور اس کی ہر خلاف ورزی کی سزا دی جائے گی۔ [45] مرزا صالح اپنے سفر نامے میں فرانسیسی انقلاب کی تفصیل بھی پیش کرتے ہیں ، جو فریڈون آدمیت کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس تاریخی واقعے کے بارے میں کسی ایرانی کا پہلا حوالہ ہے۔ [46]

یورپی ممالک کے ساتھ ایران کے خارجہ تعلقات کی ترقی کے ساتھ ، مختلف افراد نے بیرون ممالک کا سفر کیا اور ان ممالک کی پیشرفت کو قریب سے دیکھا۔ انھوں نے اپنے مشاہدات کی تفصیل اپنے سفری مقامات اور نوٹ میں لکھی۔ 1207 میں ، ایران سے ایک وفد ماسکو کا سفر کیا اور روسی سماجی سہولیات کا دورہ کیا ، جن میں اسپتالوں ، فوجی اسکولوں ، سائنسی اداروں ، یونیورسٹیوں اور فیکٹریوں سمیت شامل ہیں۔ بورڈ کی سربراہی کھسرو مرزا نے کی تھی اور مرزا تقی خان فرہانی (جو ابھی تک جوان تھے اور ابھی صدر نہیں بنے تھے) بورڈ میں تھے۔ مرزا مصطفی خان ، جو سکریٹری جو اس وفد کے سکریٹری تھے ، نے اس سفر کی تفصیل لکھی۔ [47]

مغربی دنیا کے ساتھ ان مقابلوں کا نتیجہ اشرافیہ کے ایک گروپ کی تربیت تھا ، جن میں سے تین انسانیت کے مطابق ، یعنی ، ایران میں اصلاحات کے آغاز اور ایرانیوں کی بیداری پر مرزا طغی خان فرہانی ، مرزا حسین خان سپہ سالار اور مرزا ملک خان اور ان کے رشتہ داروں اور پیروکاروں کے حلقے نے نمایاں اثر ڈالا۔ [48]

ایرانی بیداری

احمد قصراوی آئین کے ماخذ کو "ایرانیوں کی بیداری" سمجھتے ہیں۔ قصراوی کا مطلب ایرانیوں کی بیداری ، ان کی پسماندگی سے آگاہی ، ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں کمزوری اور آمرانہ حکمرانی کے خلاف احتجاج سے ہے۔ ایران کی آئینی تاریخ سے متعلق اپنی کتاب میں ، وہ وضاحت کرتے ہیں کہ نادر شاہ کے قتل کے بعد ، ایران کے زوال کا عمل شروع ہوا ، جبکہ مغرب میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ فرانسیسی انقلاب ، نپولین بوناپارٹ کی فتوحات ، عوامی تحریک ، نئی ایجادات ، فوجی پیش قدمی ، وغیرہ۔ دنیا کی دو بڑی طاقتیں۔ یعنی ، برطانیہ اور روس ایران کی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر نمودار ہوئے ، لیکن قار بادشاہوں کے دور حکومت میں ان تمام حکومتوں کے ساتھ ہونے والی تمام جنگوں میں ، ایرانی فوج کو شکست ہوئی اور ایران اپنی سرزمین کا کچھ حصہ کھو بیٹھا۔ اگرچہ اصلاحات کا آغاز کچھ قار وزرائے اعظم ، جیسے فرہانی ، امیر کبیر اور حسین سیپاحسالر نے کیا تھا ، لیکن یہ اصلاحات ان کے خاتمے کے ساتھ کہیں نہیں بڑھ سکیں۔ اگلے مرحلے میں ، سید جمال الدین اسدآبادی اور مرزا ملککمخان جیسے مفکرین نے عوام کو روشن کیا اور آخر کار تمباکو کی تحریک جیسے ایرانی بیداری کی پہلی علامت بن کر ابھری۔ قصراوی اخبارات اور رسالوں کی اشاعت ، عبدالرحیم طالبوف اور زین العابدین مراغی کی تخلیقات ، اسکولوں کی ترقی اور عالمی واقعات میں لوگوں کی دلچسپی کو اس فکری تبدیلی کی علامت سمجھتے ہیں۔ قصوروی سے پہلے ایڈورڈ براؤن اور ناظم الاسلام کرمینی بھی آئین کی جڑوں کو ایرانیوں کی بیداری سمجھتے تھے۔ [49]

میرزا ملکم خان ، جو فرانس میں فری میسنری تنظیم سے واقف تھے ، نے ایران میں ایک خفیہ تنظیم قائم کی جس کو فرسٹینگ ہاؤس کہا جاتا ہے ، جس میں بہت سارے اصلاح پسندوں اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔ یہاں تک کہ ناصرالدین شاہ ابتدا میں ہی اس کے بارے میں پر امید تھے اور کچھ قجر شہزادے اس کے ارکان بن گئے تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں اصلاحات کے پھیلاؤ کا اندیشہ ہوا اور انھوں نے ملککم خان کو جلاوطن کر دیا۔ [50]

بیسویں صدی کے موقع پر ، روس کے صنعتی شہروں میں سے ایک باکو ، آذربائیجان ، ایران سے آنے والے موسمی کارکنوں کی میزبانی کرتا تھا۔ 1279 ش ھ (1900 ء) میں باکو میں ایک لاکھ کے قریب ایرانی مزدور رہتے تھے ، جن میں زیادہ تر کسان اور عام مزدور تھے۔ روس اس وقت مزدوروں کی جدوجہد کا مرکز تھا اور ایرانی کارکنوں نے ان سیاسی تحریکوں میں مشاہدہ کیا اور یہاں تک کہ اس میں حصہ لیا۔ ان کارکنوں میں سے کچھ باکو میں سیکولر سوشلسٹ فرقے میں شامل ہوئے تھے۔ ایران واپسی پر ، وہ انقلابی نظریات کے علمبردار اور پھیلانے والے تھے۔ [51]

روس میں 1905 کے انقلاب کے پھیلنے سے خطے اور دنیا میں انقلابات اور اہم تحریکیں متاثر ہوئیں۔ حسن تغیزادہ ، سیسل اسپرنگ رائس (ایران میں برطانوی سفیر) ، ایوان الیسیویچ زینوویف (روسی سفارتکار) اور ایڈورڈ براؤن ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے سن 1905 کے روسی انقلاب اور ایرانی آئینی انقلاب کے مابین رابطے پر زور دیا ہے۔ اس انقلاب کا اثر قفقاز کے خطے پر واضح اور گہرا تھا اور ایرانی جو کام اور کاروبار کے لیے اس خطے میں آئے اور وہاں جانے والے علم اور تعلقات کی مدد سے آئینی انقلاب میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جیسا کہ بعد کے سالوں میں ، جارجیائی ، آذری اور ارمینی انقلابی ایرانی دستہ سازوں کی مدد کو پہنچے۔ [52]

متوسط طبقے کا عروج

آبراہمیان نے وسط اور انیسویں صدی کے آخر میں ایران میں دو قسم کے مڈل کلاس کے قیام کی وضاحت کی ہے : ایک: روایتی مڈل کلاس ، جو تاجروں پر مشتمل تھا اور روایتی معیشت اور اسلامی نظریے سے تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے ، بیرونی دنیا کے ساتھ معاشی تعلقات کے ذریعے۔ ، آہستہ آہستہ درد پر قابو پا لیا۔ اور ان کی عام پریشانیوں کا ادراک کیا۔ اور ایک اور ، دانشور طبقہ ، جو جدید تعلیمی اداروں سے فکری اور نظریاتی رابطے اور رابطے اور نئے نظریات اور نئی ملازمتوں کے ابھرتے ہوئے پیدا ہوا تھا۔ [53]

معاشی رکاوٹ

ایران ، جو صفوی کے دور میں خطے میں تجارت کا مرکز تھا ، یورپی اور روسی معاشی طاقتوں کے عروج کے ساتھ ، اسے آہستہ آہستہ عالمی سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے حاشیے پر دھکیل دیا گیا۔ غیر ملکی کمپنیوں کی آمد کے ساتھ ، چند بڑے تاجروں کی رعایت کے ساتھ ، باقی بزنس مین عملی طور پر ان کمپنیوں کے دلال بن گئے۔ برطانوی اور روسی تجارتی کمپنیوں کی مانگ کی وجہ سے زرعی خام مال جیسے کاٹن ، چاول اور افیون میں تجارت میں اضافہ ہوا اور اس کی بجائے ٹیکسٹائل اور ریشم جیسی مصنوعات میں تجارت میں اضافہ ہوا۔ تاجروں اور چھوٹے تاجروں نے اپنی معاشی طاقت کھو دی اور بڑے تاجروں نے زرعی اراضی خریدنے اور زیادہ مانگ والی فصلوں کی کاشت کرنا شروع کردی جس کی وجہ سے وہ زرعی مصنوعات برآمد کرنے میں حاصل ہوئے۔ اسی وجہ سے ، ایران جو ہمیشہ گندم اور جو کا برآمد کنندہ رہا ہے ، بیسویں صدی کے آغاز میں ان مصنوعات کا پہلا درآمد کنندہ بن گیا۔ [54]

انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ، ناصرالدین شاہ قاجار نے برطانویوں اور روسیوں کو متعدد مراعات دیں اور اس دوران غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم صفر سے بڑھ کر 12 ملین پاؤنڈ ہو گیا ۔ ان مراعات سے حاصل ہونے والی رقم ، ادھار کے ساتھ ساتھ ، مختلف استعمالات میں گئیں ، ان میں سے ایک شاہی دربار اور بادشاہ کے یورپ جانے کے زیادہ اخراجات تھے۔ ان محصولات کا ایک اور اہم حصہ افراط زر سے لڑنے کے لیے استعمال ہوا ، جو مختلف وجوہات کی بنا پر تشکیل دیا گیا ، جس میں چاندی کی عالمی قیمت میں کمی بھی شامل ہے۔ 1229 سے 1279 تک ، قیمتوں میں 600 فیصد اضافہ ہوا۔ [55] تمباکو کی رعایت کی منسوخی کے نتیجے میں بھی ایرانی حکومت برطانوی کمپنی کو معاوضے کی ادائیگی کے لئے رائل بینک سے پانچ لاکھ ڈالر قرض لینے پر مجبور ہو گئی ، جو ملک کا پہلا بڑا غیر ملکی قرضہ تھا۔ [56] نیز 1279 اور 1281 میں ، روس سے 2.4 اور 10 لاکھ پاؤنڈ کے دو قرض لیے گئے تھے ، جو پچھلے برطانوی قرضے کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوتے تھے اور مظفرالدین شاہ کے تین مہنگے دورے یورپ گئے تھے۔ ایران نے بھی روس کی منظوری کے بغیر کسی بھی ملک کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ [57]

1270 شمسی سال کے بعد کے سال ایرانی حکومت کے لیے معاشی پریشانیوں کے شدت کے سال تھے۔ ایک طرف ، اعلی افراط زر نے زمینی ٹیکس کی قدر کو کم کر دیا اور دوسری طرف ، چاندی کی عالمی قیمت میں کمی سے پاؤنڈ سٹرلنگ کے مقابلے میں قرآن کی قدر میں زبردست کمی واقع ہوئی۔ ان مسائل نے ایرانی عدالت کو بالترتیب 1279 اور 1281 میں روسی حکومت سے بیس لاکھ اور دس لاکھ پاؤنڈ ادھار لینے پر مجبور کیا۔ مملکت ایران ، جس نے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کی کوشش کی تھی ، جوزف نوز کی خدمات حاصل کرکے 1277 میں اپنی کسٹمز محصولات کو 200،000 ڈالر سے بڑھا کر 1283 میں 600،000 ڈالر کردی گئی تھی۔ [58] 1284 میں ، اقتصادی بحران ایران کو پڑا۔ ہیضے کی وباء ، زرعی مصنوعات کی ناقص فصل اور روس-جاپان جنگ اور اس کے نتیجے میں روسی انقلاب کی وجہ سے شمال میں تجارت میں کمی اس بحران کی وجوہات تھیں۔ کھانے کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ جیسا کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں تہران ، تبریز ، رشت اور مشہد کے شہروں میں ، چینی اور چینی 33 فیصد اور گندم میں 90٪ مہنگی ہو گئی ، کسٹم کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی اور حکومت کو نئے قرضوں کی درخواست منظور نہیں ہوئی۔ حکومت تاجروں پر محصولات بڑھانے اور مقامی قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنے پر مجبور تھی۔ یہ فسادات عوامی احتجاج کا باعث بنے اور بالآخر اگست 1285 کے انقلاب اور آئینی فرمان کے اجرا کا باعث بنے۔ [59]

خطے میں اقتدار کی جدوجہد

انیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ، بین الاقوامی تعلقات میں نئے تعلقات پیدا ہوئے جس نے ایران کی سیاسی اور سماجی منزل کو متاثر کیا۔ روس نے شمال سے ایران پر حملہ کیا اور نپولین بوناپارٹ نے ایران کے توسط سے ہندوستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف برطانیہ نے ایشیاء میں اپنی کالونیوں کے تحفظ کی کوشش کی۔ ایران روس کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لیے تیار ہونے کی کوشش کر رہا تھا ، لہذا وہ کبھی فرانس کی طرف جھکاؤ اور کبھی برطانیہ کی طرف۔ جب بھی روس کے ساتھ ان کے اختلافات شدت اختیار کرتے رہے تو انھوں نے اپنے سیاسی مفادات سے ایران کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ ہتھیاروں کی فیکٹری بنائیں ، ایک باقاعدہ فوج ، نقشہ بنانے ، بارودی سرنگوں کی کھوج لگانے میں مدد کریں۔ [60]

تقریبات

انقلاب

21 فارسی تاریخ آذر 1284 علا ، دو تہران کے شوگر کی قیمت کو آسمان سے نکالنے کی کوشش میں ، تہران کے گورنر۔ [61] اس خبر کے بعد ، کاروباری مالکان نے اپنی دکانیں اور ورکشاپس بند کیں اور بازار مسجد میں جمع ہو گئے۔ سید محمد طباطبائی اور سید عبد اللہ بہبہانی کی سربراہی میں دو ہزار تاجران اور سکالر شاہ عبد العزیز کے مزار پر بیٹھ گئے اور ان کے مطالبات کو اس طرح سے اعلان کیا: تہران کے حکمران کی برطرفی ، نوز کی برطرفی ، شریعت کا نفاذ اور عدالت کا قیام۔ [lower-alpha 1] آخر کار ایک ماہ بعد حکومت نے ہتھیار ڈال دیے اور تہران واپس لوٹنے والے مظاہرین کا استقبال بڑے ہجوم نے "ایرانی قوم کو زندہ باد" کے نعرے پر کیا۔ ناظم الاسلام کرمانی نے اپنی یادوں میں لکھا ہے کہ اس سے پہلے انھوں نے تہران میں "ایرانی قوم" کا جملہ کبھی نہیں سنا تھا۔ [63]

شاہ کی عدالت قائم کرنے اور نوز کو اقتدار سے بے دخل کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے مظاہروں کی بحالی کی راہ ہموار ہو گئی۔ محرم 1285 میں ، حکومت کے خلاف بولنے والے مبلغ کی گرفتاری کے بعد ، احتجاج کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا۔ طلبہ کا ایک گروپ پولیس ہیڈ کوارٹر میں جمع ہوا اور ان جھڑپوں کے بعد ایک طالب علم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اگلے ہی دن جب اس کے جسد خاکی کو دفنانے کے لئے تاجروں ، گلڈوں اور علمائے کرام کے ایک بہت بڑا ہجوم بازار سے گرینڈ مسجد تک نکلا ، ابراہیمیان کے مطابق ، ایک اور تصادم کوساکس اور مظاہرین کے مابین ہوا جس میں 22 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ زخمی ہوئے۔ اس تشدد کے بعد ، تبت بائی ، بہبہانی اور دیگر مذہبی شخصیات تہران سے قم روانہ ہو گئیں اور متعدد تاجروں اور علما نے باغ غلک میں برطانوی سفارت خانے میں قیام پزیر کیا۔ دفتر خارجہ کو لکھے گئے ایک نوٹ میں ، اس وقت کے برطانوی سفیر نے بتایا کہ یہ تعداد 14،000 سے زیادہ ہے۔ [64] دار الفونون طلبہ قیدیوں میں شامل ہونے کے ساتھ ہی ، یورپ میں آئینی نظام پر متعدد تقاریر کیں گئیں ، [65] اور نو تعلیم یافتہ ممبروں کے مشورے پر ، قومی اسمبلی کے قیام نے مظاہرین کے عدالت کے ابتدائی مطالبہ کی جگہ لے لی۔ [66]

عدالت نے ابتدا میں مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا ، لیکن آخر کار ، برطانوی سفارتخانے میں دھرنے کے تین ہفتوں بعد مظفرالدین شاہ نے آئینی فرمان پر دستخط کرکے مشیر الدولہ کو وزیر اعظم منتخب کیا۔ [67] اس پروگرام کی تاریخ 13 اگست 1285 تھی جو 14 جمادی الثانی 1324 کے برابر تھی۔ [68] [69]

قومی اسمبلی کا قیام

Thumb
پارلیمنٹ کے پہلے ممبروں کی تصویر

قومی اسمبلی کا افتتاح 5 اکتوبر 1285 ش ھ کو ہوا [lower-alpha 2] اور اس نے بیلجیم اور فرانس کے حلقوں پر مشتمل ایک آئین کا مسودہ تیار کرنا شروع کیا۔ [70] ارکان پارلیمنٹ جانتے تھے کہ ولی عہد شہزادہ محمد علی مرزا آئین کے منافی ہیں اور اگر وہ اقتدار میں آئے تو آئین پر دستخط کرنا مشکل ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے کام ختم کرنے میں جلدی کی جبکہ بیمار بادشاہ ابھی تک زندہ تھا۔ انھوں نے متن کو اس طرح ترتیب دینے کی کوشش کی کہ یہ بادشاہ کے لیے ناخوشگوار اور ذلت آمیز نہ ہو۔ لہذا ، اس کے کچھ اصول واضح طور پر نہیں لکھے گئے تھے۔ اس قانون میں لوگوں کے حقوق کا ذکر نہیں کیا گیا تھا اور پارلیمنٹ کے سامنے بادشاہ اور اس کے وزرا کی حیثیت اور ان کے فرائض غیر واضح رہے۔ اس قانون کے مطابق پارلیمنٹ میں توثیق کے بغیر کوئی بھی معاہدہ جائز نہیں تھا اور پارلیمنٹ ملک کا واحد قانون سازی اختیار تھا۔ [71] آئینی دستاویز کے مطابق ، پارلیمنٹ ، عوام کی نمائندہ کی حیثیت سے ، تمام قوانین ، ضوابط ، بجٹ ، معاہدوں ، قرضوں ، مراعات اور اجارہ داریوں کے ل. حتمی فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ کی ہر میعاد دو سال مقرر کی گئی تھی ، اس دوران پارلیمنٹ کے ممبروں کو ان کی اجازت کے بغیر نظربند کرنا غیر قانونی تھا۔ [72]

مظفرالدین شاہ نے بالآخر 29 دسمبر 1285 ش ھ کو آئین پر دستخط کیے ، لیکن پانچ دن بعد اس کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا محمد علی شاہ تخت نشین ہوا۔ [73] انھوں نے تاجپوشی کی تقریب میں مندوبین کو مدعو نہیں کیا ، کابینہ کے وزراء کو پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے کی ترغیب دی اور اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی اور نسلی تقسیم کو ہوا دی۔ [74]

پہلی پارلیمنٹ کا حکومت اور عدالت کے ساتھ شدید تنازع تھا۔ نائب افراد نے صدر مشیر الدولہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وزراء کو آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں نامزد کریں۔ آخر کار ، 5 فروری کو کابینہ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ، لیکن ان سب میں شامل نہیں۔ مندوب یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا کامران مرزا وزیر جنگ تھا اور جوزف نوز کسٹم وزیر تھے۔ سربراہ مملکت نے ان دونوں عہدے داروں کے لیے کسی کو بھی پارلیمنٹ میں متعارف نہیں کرایا تھا اور جواب دینے سے گریز کیا تھا۔ [75] اپریل 1285 ش ھ میں وزیر اعظم افخم کے نئے وزیر اعظم کی تقرری کے ساتھ ، صورت حال اب بھی وہی تھی۔ پارلیمنٹ کے وزرا کو لکھے گئے خطوط غیر جوابی ہیں اور جب کامران مرزا نے وزارت جنگ سنبھالی تو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں تھا۔ [76] اس کے برعکس ، غیر ملکی حکومتوں سے قرض لینے کے حکومتی بل کی پارلیمنٹ نے مخالفت کی اور اس کی بجائے نائب بینک نے نیشنل بینک تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ پارلیمنٹ نے کچھ بااثر آمروں اور وزراء ، جیسے زول سلطان ، اصفہ - الدولہ اور کامران مرزا کو معزول کر دیا ، پہلے متوازن بجٹ مرتب کیا ، مقامی حکمرانوں کو ریاستی خزانے کو جمع کردہ تمام ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت تھی (اور جزوی طور پر ان کا اپنا فائدہ)۔ نہیں تھام لیا) اور غیر قانونی [lower-alpha 3] اور تبادلہ کریں [lower-alpha 4] [77]

تاہم ، پارلیمنٹ میں پرسکون قدامت پسندی غالب تھی اور نائب افراد ابتدائی آزادی کے جذبے کو ترک کردیتے تھے۔ اگرچہ حکومت اور عدالت کی قوتیں مسلسل پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ، لیکن قصراوی کے مطابق ، پارلیمنٹ کی طاقت کے خاتمے کی سب سے بڑی وجہ نائب افراد کی ہی کمزوری تھی ، جن کے پاس آزادی کا جذبہ نہیں تھا۔ اور آزادی؛ چونکہ ان میں سے کچھ نے عدالت کے ساتھ سفر کیا اور پارلیمنٹ کی خبر عدالت تک پہنچا دی اور ان میں سے کچھ نے غیر ملکی حکومتوں سے رابطہ قائم کیا۔ مندوبین مستقبل میں شاہ کے حامیوں کی طرف سے ممکنہ پُرتشدد کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے یا اہم تاریخی مقامات پر فیصلہ کن فیصلے کرنے میں ضروری تیاری کرنے میں ناکام رہے۔ [78] جیسے ہی آئین کی کوتاہیاں عیاں ہوئیں ، پارلیمنٹ نے آئین میں ترمیم کی تیاری کا فیصلہ کیا ، جو مزید تنازعات کا بہانہ بن گیا۔ [79]

آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنا

آئینی معاملات جیسے مذہب اور بیورو آف اسمبلی کے اجلاسوں ، انتخابات ، ریاستی انجمنوں اور شہروں میں بلدیہ کے تصادم اور تصادم کے دائمی اور تمدنی معاملات بالواسطہ یا بلاواسطہ نہیں۔ لیکن آئینی ترمیم میں ایسے اصول شامل تھے جو کچھ علما کے خیال میں ، اسلامی قانون کے منافی تھے۔ شیخ فضل اللہ نوری ان مخالفین میں سے ایک تھے جنھوں نے انسانی قانون سازی کو شریعت قانون کی خلاف ورزی پر غور کرنے کے علاوہ ، آئینی ترمیم کے آزادی اصول (آٹھواں) اور مساوات (اصول بیس) کی بھی خاص طور پر مخالفت کی۔ اس وقت ، پہلی بار ، پارلیمانی قوانین کو اسلام کے مطابق اپنانے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ [80]

1286 میں ، فضل اللہ نوری کی سربراہی میں ایک آئینی مخالف تحریک نے پارلیمنٹ کی مخالفت اور اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ انھوں نے آئین کے اصولوں اور اس میں ہونے والی ترامیم پر اعتراض کیا ، خاص طور پر جنھوں نے تمام مذہبی گروہوں کی مساوات اور غیر شرعی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کا حوالہ دیتے ہوئے ، انھیں اسلام مخالف قرار دیا۔ انھوں نے ایک انجمن تشکیل دی اور محمد علی شاہ سے اتفاق کیا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ کے مادی یا ذاتی محرکات تھے ، لیکن دوسروں نے آئین کو اسلام میں نامناسب بدعت کے طور پر دیکھا۔ بعد میں، 1287 میں، نوری، جنھوں بہبہانی اور طباطبائی سے زیادہ ان کی سائنسی اور فقہی پوزیشن سمجھا، کھلے عام شاہ کی حمایت کی اور خارج صحافیوں اور آئینی چال. [81]

جینیٹ افاری کے مطابق ، آئینی رہنماؤں کی ایک قابل ذکر تعداد درحقیقت مذہبی مخالفین تھیں جنھوں نے اپنا جھکاؤ فری میسنری ، بابیزم ، بہائ ازم اور سوشلزم کی طرف چھپایا تھا۔ ان میں سے بہت سے ، جیسے سید جمال واعظ اور ملک المکلمین ، نے مبلغین اور مبلغین کی حیثیت سے کام کیا ، اسلامی روایات پر بھروسا کرکے لوگوں اور علما کو نئے نظریوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ عفاری کے مطابق ، بہت سے معاملات میں ، روایتی علما ان لوگوں کے فکری رخ و فکر سے واقف تھے ، لیکن اس وقت تک اس پر رد عمل ظاہر نہیں کیا جب تک کہ اسلامی ظہور کا مشاہدہ نہیں ہوتا اور مفادات کے تنازعات پیدا نہیں ہوتے۔ [82] دوسری طرف ، قصراوی کا خیال تھا کہ بابی کو آئینی قانون ساز نامزد کرنا اس تحریک کو دبانے کے لیے عدالت کے پادریوں اور ظالموں اور مقامی حکمرانوں کی مشترکہ سازش ہے۔ آئینی تحریک کے کارکنوں پر بابیس ہونے کا الزام لگانا ظالم حکومت اور اس سے وابستہ علما کے ذریعہ ان کو دبانے کے لیے سب سے عام طریقہ استعمال کیا گیا تھا۔[83]

آئینی ترمیم کی منظوری بادشاہ اور پارلیمنٹ کے مابین بھی بنیادی فرق تھا۔ بیلجیم کے آئین کی مثال کے بعد ، پارلیمنٹ نے آئین میں ایسی شقیں شامل کیں جن سے بادشاہ کے اختیارات کو سختی سے محدود کیا گیا اور پارلیمنٹ کو وسیع اختیارات دیے گئے۔ وزیر اعظم یا کسی بھی وزرا کی برطرفی اور تمام فوجی اخراجات کی سالانہ منظوری شامل ہے۔ شاہ نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور جرمن آئین کی بنیاد پر دوسری ترمیم کی تجویز پیش کی جس نے تہران ، تبریز ، کرمان شاہ ، اصفہان ، شیراز ، مشہد ، راشت اور انزالی بندرگاہ سمیت ایران کے مختلف حصوں میں لوگوں کی شدید مخالفت کی۔ [84]

امین السلطان کا قتل اور سینٹ پیٹرزبرگ کا معاہدہ

امین السلطان کو پارلیمنٹ چھوڑتے وقت 29 اکتوبر 1286 ش ھ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کا قاتل عباس آغا تبریز کا ایک 22 سالہ شخص تھا جو تہران میں منی چینجر کا کام کرتا تھا۔ اپنے قتل کے دن ، امین السلطان نے پارلیمنٹ میں شاہ کا ایک خط پڑھا تھا جس میں شاہ نے آئینی ترمیم پر دستخط کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ ایک طرف ، انھوں نے شیخ فضل اللہ کی احتجاجی تحریکوں کی حمایت کی ، دوسری طرف ، انھوں نے پارلیمنٹ کو روس سے قرض لینے پر راضی کرنے پر راضی کیا اور دوسری طرف ، انھوں نے شاہ کو آئینی ترمیم قبول کرنے پر راضی کیا۔ عفاری کا کہنا ہے کہ ان پر کبھی سوشل ڈیموکریٹ مجاہدین نے اعتماد نہیں کیا۔ [85]

امین السلطان کے قتل کے بعد ، شاہ نے آخر کار آئینی ترمیم سے دستبردار ہوکر ایک لبرل سیاست دان ناصر الملک کو وزیر اعظم منتخب کیا۔ وہ آئین کے لیے اپنی حمایت ثابت کرنے کے لیے اسمبلی برائے انسانیت کے رکن بن گئے۔ [86]

امین السلطان کا قتل سینٹ پیٹرزبرگ کے معاہدے کے ساتھ ہوا۔ [87] روس کی سلطنت اور برطانوی سلطنت نے 1286 ش ھ (1907) میں ایران کے شمالی علاقوں کو روسی زیر اثر علاقوں اور جنوبی علاقوں کو برطانوی زیر اثر علاقوں کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے پر دستخط کرکے ، برطانیہ نے ، 75 سال کے بعد ، ایران کے شمالی علاقوں میں اثر و رسوخ یا جارحیت کے لیے روس کی مخالفت ترک کردی اور روسیوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جو بھی اقدام اٹھانا پڑا ، اس کے تابع تھا۔ ان اقدامات کو ان کے زیر اثر علاقوں تک ہی محدود ہونا چاہیے۔ [88] اس معاہدے نے روس کے لیے محمد علی شاہ کے حق میں مداخلت کا دروازہ کھول دیا تاکہ وہ برطانیہ کے خوف کے بغیر کام کر سکے ، جو کسی نہ کسی طرح آئین سازوں کی طرف تھا۔ [89]

میدان توپخانہ واقعہ

اگرچہ محمد علی شاہ کی آئین کے خلاف مخالفت عمل میں نہیں آئی اور شاہ پارلیمنٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے ، لیکن ارکان اور مختلف سیاسی و مذہبی دھڑوں کے مابین اختلافات ظاہر ہو گئے۔ پارلیمنٹ میں لبرلز نے ایسی تجاویز اور تجاویز پیش کیں جو اعتدال پسندوں کی مخالفت سے ملیں۔ ان منصوبوں میں انتخابی نظام میں اصلاحات شامل تھیں ، جس نے انتخابات میں حصہ لینے اور ریاستی سطح پر نشستوں کو دوبارہ تقسیم کرنے کی پیشگی شرائط کو کم کرنے اور مذہبی اقلیتوں کے لیے نمائندوں کے انتخاب کے حق کو تجویز کیا تھا۔ [90] سور اسرافیل اور حبل الموتین جیسی اشاعتوں میں علما کی سیاست میں شمولیت کی مخالفت کی گئی ، جس سے قدامت پسندوں اور کچھ اعتدال پسندوں کے احتجاج کا آغاز ہوا۔ انھوں نے اس گروہ کو مذہب مخالف بتایا۔ اسی وقت ، پارلیمنٹ کے ساتھ نچلے طبقے میں عدم اطمینان بڑھ گیا۔ ناگوار معاشی حالات کی وجہ سے ، پارلیمنٹ نے آزاد بازار کی حمایت کرتے ہوئے ٹیکسوں کو کم کرنے اور قیمتوں پر قابو پانے پر توجہ نہیں دی۔ پارلیمنٹ کے منظور شدہ بجٹ میں ، جس نے عدالت کے اخراجات میں یکسوئی کم کردی تھی ، شہزادوں کی عدم اطمینان اور اشرافیہ کو بھی جنم دیا تھا۔ [91]

دسمبر 1907میں ، شیخ فضل اللہ نوری نے لوگوں کو دعوت دی کہ وہ "کافر آئینی لوگوں" کے خلاف اسلام کے دفاع کے لیے توپخانہ چوک میں جمع ہوں۔ ابراہیمیان کے مطابق ، لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس اجتماع میں شرکت کی ، جن میں زیادہ تر عالم ، علما ، درباری اور نوکر ، ورامن شاہی اراضی کے کسان ، تہران میں بازار کے عام کارکن اور شاہی محل کے نچلے درجے کے ملازمین شامل تھے۔ شیخ فضل اللہ نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے "مساوات " کو غیر ملکی عقیدت قرار دیا۔ مظاہرین پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے ، لیکن اس کے بدلے میں ، گلڈ برادری نے آئین کے دفاع کے لیے ایک عام ہڑتال کا اعلان کیا اور ابراہیمیین کے مطابق ، ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے پارلیمنٹ کا دفاع کرنے کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ بالآخر ، محمد علی شاہ دستبرداری کا حلف اٹھانے اور اپنے حامیوں کو منتشر ہونے پر زور دیا۔ [92]

محمد علی شاہ کا قتل

30 مارچ ، 1907 کو ، جب محمد علی شاہ تہران کی سڑکوں کو عبور کر رہے تھے ، شاہ کی گاڑی پر دو دستی بم پھینکے گئے۔ اگرچہ بادشاہ کے متعدد ساتھی اور متعدد راہ گیر ہلاک ہو گئے ، لیکن بادشاہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ شاہ کے حکم سے ، متعدد مشتبہ افراد کوگولستان محل میں گرفتار کیا گیا اور انھیں قید کردیا گیا۔ تاہم ، ارکان پارلیمنٹ نے اسے ملک کے انتظامی امور میں مداخلت کی ایک مثال سمجھا۔ انھوں نے شاہ کے حکم کو قبول کرنے کے لیے وزیر انصاف ، چیف آف آرڈر اور چیف آف کورٹ پر الزام لگایا ، حالانکہ شاہ کو خطرہ تھا۔ [93] سیاسی بحران کے پھوٹ پڑنے کے بعد ، احتشام السلطانہ نے اپریل 1908 کے آخر میں پارلیمنٹ کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور نظام السلطنہ نے 12 مئی کو حکومت کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ شاہ نے پارلیمنٹ کی رائے سے قطع نظر ، احمد مشیر السلطانہ کو کابینہ تشکیل دینے کے لیے مقرر کیا۔ [94] ان واقعات کے بعد ، پارلیمنٹ کے اجلاس غیر منظم طور پر منعقد ہوئے اور ملک کے حالات کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے لیے با اثر افراد کا ایک گروپ ، عضد الملک ، ایلخان قاجار کے گھر جمع ہوا۔ ریلی آہستہ آہستہ پھیل گئی اور انھوں نے امیر بہادر ، شاپل اور شاہ کے دیگر قریبی ساتھیوں کے ایک گروپ کو ختم کرنے اور ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اس صورت حال کے تسلسل سے قجر خاندان کے تسلسل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ [95]

پارلیمنٹ کو بند کرنا

5 جون 1287 کو ، محمد علی شاہ باغ شاہ گیا۔ شہر سے باہر ایک ایسی جگہ جس میں اچھی قلعے تھے اور گولسٹن محل کے برعکس ، شہر کے قلب میں دستیاب نہیں تھا۔ [96] اس کے فورا بعد ہی ، محمد علی شاہ نے "قوم کی نجات اور امید کی راہ" کے عنوان سے ایک بیان جاری کیا ، جس میں پریس قانون پر عمل درآمد ، انجمنوں کے لیے قواعد و ضوابط کی فراہمی اور متعدد آئینی لوگوں کے ملک سے علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بیان میں ، انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایرانی حکومت آئینی ہے اور کہا ہے کہ "بدعنوان" اور ان کی سرحدوں سے آگے جانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ [97]

22 جولائی کو ، محمد علی شاہ نے تہران اور دیگر شہروں میں مارشل لا کا اعلان کیا۔ [98] جولائی 1908 کے دوسرے دن [lower-alpha 5] فوجی دستے اور توپ خانہ گاڑیاں پارلیمنٹ کی طرف گامزن ہوگئیں اور آخر کار تنازع شروع ہو گیا۔ اس مہم کا سب سے بڑا بہانہ متعدد صحافیوں اور آئینی مبلغین کا سیاسی پناہ تھا ، جن میں ملکہ تھیلوگان ، سید جمال واعظ ، مرزا جہانگیر خان شیرازی اور سید محمد رضا مساوات شامل تھے۔ [99] ریاستی افواج کی فتح کے ساتھ ہی آئینی قوتوں کو ستایا گیا۔ مرزا ابراہیم تبریز ، شیخ احمد روح القدس ، بادشاہ الہیات ، مرزا جہانگیر خان ، سید جمال الد Waین واعظ اور جج اردغی کو گرفتار کیا گیا ، تشدد کیا گیا اور ہلاک کیا گیا۔ انزالی اور اردبیل جیسے دوسرے شہروں میں بھی آئینی لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں پھانسی دی گئی۔ دوسرے غیر ممالک یا سفارت خانوں میں پناہ مانگتے تھے یا کسی طرح چھپ جاتے تھے۔ اخبارات اور انجمنوں کے دفاتر کو توڑ کر لوٹ لیا گیا۔ محمد علی شاہ نے اعلان کیا کہ وہ آئین کے وفادار ہیں اور آئندہ تین ماہ میں نئی پارلیمنٹ تشکیل دیں گے۔ [100] وسط|تصغیر|500x500پکسل| باغیہ میں آزادی پسند جنگجو قید

خانہ جنگی

Thumb
ستار خان اور باقر خان کی تصویر میں تبریز کے آئینی پسند بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

پارلیمنٹ کی بندش اور محمد علی شاہ کے اقدامات سے عدم اطمینان ایران کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر بے امنی کا باعث بنا۔ تبریز ، اصفہان ، رشت اور متعدد دیگر شہروں میں مسلح رضاکار شاہ سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سب سے شدید جھڑپ تبریز میں ہوئی۔ تبریز اسٹیٹ ایسوسی ایشن نے قومی اسمبلی کی غیر موجودگی میں خود کو "آذر بائیجان کی عبوری حکومت" کہا۔ اوکولٹ سنٹر نے اپنے آپ کو ارمینی دانشوروں سے اتحاد کیا اور باکو سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ رابطے میں 100 کاکیشین مسلح رضاکاروں کی بھرتی کی۔ تبریز کے مسلح رضاکار ، جو عام طور پر شیخی محلے کے پڑھے لکھے طبقے سے تھے ، بھی ستار خان اور باقر خان کی سربراہی میں تشکیل پائے تھے۔ ستار خان امیرخیز محلے کا دیوتا تھا اور باقر خان تبریز میں گلی محلے کا دیوتا تھا۔ تبریز کے کچھ علاقوں میں عام طور پر شیخی اور عامرخیز جیسے اعتدال پسند محلوں پر قبضہ کیا گیا تھا ، جبکہ نماز جمعہ کے مقامی رہنما نے محمد علی شاہ کے حامی بنائے تھے اور شاہون قبائل کی حمایت سے ، سورخاب جیسے غریب علاقوں کو مضبوط بنایا تھا ۔ [101] قدامت پسند علما نے ، معاشرے کے غریب عوام کو متحد کرنے کے لیے ، ان کو لبرلز کے بارے میں مایوسی کا نشانہ بنایا۔ چنانچہ طبریز کے متوسط طبقے کے محلے آئین سازوں کا گڑھ بن گئے اور اس کے ناقص علاقے آئین سازوں کا مضبوط گڑھ بن گئے۔ اکتوبر 1908 میں جب آئین پسندوں نے پورے شہر پر قبضہ کرنے کے قابل ہو گئے ، [102] گاؤں والوں اور شاہسونوں نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ [103] 28 دسمبر ، 1908 کو ، قراداغ کے شاہی رہنما ، صمد شجاع الدولہ نے مراگاہ پر قبضہ کر لیا اور تبریز چلا گیا۔ [104] یہ محاصرہ 6 فروری 2009 کو مکمل ہوا تھا اور شہر کے تمام داخلی راستوں اور راستوں کو سرکاری فوج کے مکمل کنٹرول میں آ گیا تھا۔ [105]

اپریل 1909 کے وسط میں ، روس اور برطانیہ نے روسی فوج کے ایک گروپ کو ایران میں داخل ہونے اور محاصرے کو توڑنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا۔ انھوں نے یقین دلایا کہ تبریز میں ان قوتوں کی موجودگی عارضی ہوگی۔ اس فیصلے کی ابتدا ایسوسی ایشن نے منظور نہیں کی تھی ، لیکن آخر کار ایسوسی ایشن نے اس پر اتفاق کیا۔ [106] ستار خان اور باقر خان نے زنارسکی کا دورہ کیا اور مجاہدین فوج کو حکم دیا کہ روسی افواج کو تبریز میں داخل ہونے دیں۔ [107] ایرانی سرکاری فوج منتشر ہو گئی۔ لیکن اس شہر میں روسیوں کی موجودگی عارضی نہیں تھی۔ [108]

تبریز مزاحمت کی وجہ سے آئین سازوں کو دوسرے شہروں میں مشتعل کر دیا گیا اور اپنی کوششیں دوبارہ شروع کر دیں۔ خراسان ، فارس اور گورگن میں نئی تحریکیں تشکیل دی گئیں اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ تحریکیں ایسی تھیں جو اصفہان اور گیلان میں قائم ہوئیں۔ [109] دوسری طرف ، اتبت میں شیعہ علمائے کرام نے ، آئین کی نظریاتی حمایت کے علاوہ ، عملی اقدامات بھی کیے۔ نجف کے کچھ علما نے ٹیلیگرام بھیج کر اور فتویٰ جاری کرتے ہوئے اس واقعے پر رد عمل ظاہر کیا یا تو منفی (محمد علی شاہ کی حکمرانی کو مسترد کرتے ہوئے) یا مثبت طور پر (سامعین اور تقلید کرنے والوں کے خلاف مزاحمت کا حکم جاری کرتے ہوئے)۔ [110] اخوند خراسانی ، محمد حسین تہران اور عبد اللہ مازندانی شاہ اور حکمرانوں کو غاصب سمجھتے تھے۔ [111] انہوں نے غاصب حکومت کو ٹیکس ادا کرنے سے منع کیا اور آئین کی بنیاد کی مخالفت کو امام کے خلاف جنگ سمجھا۔ [112] نجف کے کچھ علمائے کرام نے استنبول میں سعادت ایسوسی ایشن سے گفتگو کرتے ہوئے تاجروں کو تبریز کے مجاہدین کی مدد کے لیے چندہ کی شکل میں مالی امداد اکٹھا کرنے کی اجازت دی تھی۔ [113]

رشت میں ، ییرم خاں کی سربراہی میں ایک گروپ نے ستار نامی ایک خفیہ کمیٹی تشکیل دی اور قفقاز میں سوشلسٹ اور قوم پرست سوشلسٹوں اور سائنس دانوں کے ساتھ رابطے قائم کیے۔رست پر قبضہ کرنے کے بعد ، یپرم نے ، محمد ولی تنکابنی کی مدد سے ، اپنی فوجیں تہران منتقل کیں۔ [114] اصفہان میں ، شمس السلطنہ ، ایلخان بختیاری اور سردار اسد بختیاری کے اتحاد کے بعد ، رضاکار دستے تہران چلے گئے۔ [115] ان واقعات نے دوسرے شہروں کے لوگوں کو بھی مشتعل کیا اور کچھ شہروں میں ، جن میں کرمان شاہ اور مشہد بھی شامل تھے ، بادشاہت پسند حکمرانوں کو گرفتار کیا گیا یا ملک سے نکال دیا گیا۔ [116]

دسمبر 1908میں ، اصفہان کے بازار اور گروہ شاہ مسجد پر جمع ہوئے اور بختیار گھڑسوار کی سربراہی میں زرغھم السلطنہ کی قیادت میں اصفہان میں سرکاری فوج کے ساتھ جھڑپ ہوئی اور کچھ دن بعد اصفہان کے حکمران اقبال الدولہ نے برطانوی قونصل خانے میں پناہ لی شمس السلطانیہ بختیاری 6 جنوری کو اصفہان پہنچی اور اس شہر کی انتظامیہ کا قلمدان سنبھالا۔ انھوں نے اپنے آپ کو اصفہان کا حاکم نہیں سمجھا اور اس کی بجائے انتخابات اور صوبائی ایسوسی ایشن کے قیام کا مطالبہ کیا۔ [117] شورش کا مقابلہ کرنے کے لیے ، حکومت نے اصفہان کی حکومت عبد الہوسین مرزا فرمان فرما کے حوالے کی اور اسے ظفر خان کی سربراہی میں چند سو بختیری گھڑسوار کے ساتھ اصفہان بھیج دیا۔ لیکن عبدالحسین مرزا نے اصفہان نہ جانے کا فیصلہ کیا اور کاشان سے آگے نہیں بڑھا۔ [118]

تہران کی فتح

Thumb
سعید آباد میوزیم میں تہران کی فتح ۔ میجر جنرل ٹونکابونی اور سردار اسد بختیاری گھوڑوں پر سوار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

راشت پر مکمل کنٹرول کے بعد ، گیلان کی آئینی قوتوں نے بھی انزالی کا کنٹرول حاصل کر لیا اور ، تہران کو فتح کرنے کے خیال میں ، مارچ 1908میں منجیل اور رودباداور قزوین کو 6 مئی 1909کو سرکاری فوج کے کنٹرول سے نکال لیا۔ [119]

بختیاری فوجیں ، سردار اسد بختیار کی سربراہی میں ، 20 مئی 1909کو اصفہان سے تہران چلی گئیں۔ شاہ کے وفادار بختاری قوتوں نے حسن آباد کی بلندیوں میں پوزیشن سنبھالی ، لیکن سردار اسد نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا اور روبیت کریم چلا گیا ، آخر کار گیلانی فوج میں شامل ہوا ، جو کارج سے ہوتا ہوا تہران کے قریب پہنچا تھا۔ گیلان اور بختیاری لشکروں کے ضم ہونے سے تشکیل پانے والی آئینی قوتیں 24 جولائی 1909کو تہران کی طرف چلی گئیں ، جب کہ محمد علی شاہ نے تہران کے دروازوں کو توپ خانے سے آراستہ کر دیا تھا اور روسی اور برطانوی ایلچیوں نے انھیں صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔ دار الحکومت [120] 13 جولائی کو یہ فورسز بہجت آباد گیٹ کھول کر تہران میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئیں۔ انھوں نے بحرین اور تہران کے شمالی محلوں پر قبضہ کر لیا اور سیپاہسالار مسجد میں آباد ہوگئے۔ محمد علی شاہ تین ہزار فوجیوں اور سولہ توپوں کے ساتھ سلطان آباد گیا۔ اس شہر میں جھڑپیں تین روز تک 16 جولائی تک جاری رہی ، جب محمد علی شاہ نے روسی سفارتخانے میں پناہ لی ، تو لیخوف نے ہتھیار ڈال دیے اور دار الحکومت آئینی لوگوں کے قبضے میں آگیا۔ [121]

اقتدار کی منتقلی

فتح تہران کے بعد ، محمد علی شاہ کو معزول کر دیا گیا اور اس کے بیٹے احمد مرزا کو تخت پر مقرر کیا گیا۔ نئے بادشاہ ، عزڈولمالک کی عمر کی وجہ سے ، ایلخان قجر کو وائسرائے کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ نیز ، محمد ولی خان ٹونیکبونی حکومت کے سربراہ اور وزیر جنگ بن گئے ، سردار اسد وزیر داخلہ اور یفرم خان تہران کے سربراہ بن گئے۔ [122]

آئین مخالف رہنماؤں کو آزمانے کے لیے تہران میں ایک مقدمہ چلایا گیا اور فضل اللہ نوری اور میر ہاشم تبریزی جیسے افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ [123]

20 اگست کو ، احمد شاہ کے بھائی ، محمد حسن مرزا کو ولی عہد کی حیثیت سے تعارف کرایا گیا اور محمد علی شاہ ، جو ایران میں قیام کی کوشش میں ناکام رہے تھے ، اپنے چالیس رشتہ داروںاور نوکروں سمیت 9 ستمبر کو ایران چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔اودیسا کے شہر کو گئے۔ [124]

ارباب کیخوسرو اور شیخ حسن میمر کی نگرانی میں بحریہ حویلی کو بحال کیا گیا تھا اور دوسری پارلیمنٹ کا افتتاح 14 نومبر 1909کو احمد شاہ کی تقریر سے ہوا تھا۔ ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ کے ساتھ ، مطمن الملک پیرنیا پارلیمنٹ کے اسپیکر بن گئے اور محمد ولی خان ٹونکابونی حکومت کے وزیر اعظم بن گئے۔ [125]

سول سوسائٹی کی تنظیمیں

ریاست اور صوبائی ایسوسی ایشن

انتخابی قانون کے آرٹیکل 9 میں یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ انتخابات کی نگرانی کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں انجمنیں تشکیل دی جائیں اور اس کے ارکان معروف مقامی افراد ہونے چاہئیں۔ یہ انجمنیں دو قسموں کی تھیں۔ ریاست کے دار الحکومت میں ریاستی انجمنیں اور دوسرے شہروں میں مقامی انجمنیں۔ [126] ریاستی اور صوبائی انجمنیں ، قانون کے ذریعہ ، ملک کے مختلف حصوں میں آئینی حکومت کا بازو ، امور کو سنبھالنے اور ٹیکسوں کے وصولی کی نگرانی میں گورنر کی مدد کرنے کا کام سونپی گئی تھیں۔ تاہم ، متعدد ریاستوں میں انجمنیں ایک سیاسی قوت بن گئیں ، جو اپنے حلقوں میں قومی اسمبلی کی مؤثر نمائندگی اور اس کی جگہ لے رہی ہیں۔ تبریز اسٹیٹ ایسوسی ایشن ان انجمنوں میں سے ایک تھی جس نے تبریز شہر کے تمام معمولی اور عمومی امور میں اور کسی حد تک پوری ریاست میں مداخلت کی۔ گیلان اسٹیٹ ایسوسی ایشن کا بھی اپنے علاقے پر مکمل کنٹرول تھا۔ [127]

ملک کی ریاستی انجمنوں میں ، تبریز اسٹیٹ ایسوسی ایشن نے اس شہر کے ساتھ ساتھ آذربائیجان کے دوسرے شہروں کے انتظام میں بھی وسیع کردار ادا کیا۔ ہر محلے میں ، انجمن کی ایک شاخ تشکیل دی جاتی تھی ، جو باقاعدگی سے ملاقات کرتی تھی ، مقامی امور کو حل کرتی تھی اور اس کا نتیجہ تحریری طور پر ایسوسی ایشن کے صدر دفتر کو بھیجتا تھا۔ اس ایسوسی ایشن نے نئے اسکولوں کے قیام میں سہولت فراہم کی اور ملک کی پہلی عدالت تبریز میں اپیل عدالت قائم کی۔ اس ایسوسی ایشن نے کھانے کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے وسیع پیمانے پر نگرانی کی اور اس کو اجارہ دار رکھنے والوں کو سزا دی۔ ایسوسی ایشن کے پادری ارکان بشمول شیخ سلیم ، مرزا حسین واعظ اور مرزا جواد نٹیگ نے شہر کی مساجد میں گفتگو کی اور نئے حکم کے فوائد کے بارے میں بات کی۔ [128] تبریز صوبائی ایسوسی ایشن پر ابتدا ہی سے ہی ارتداد اور تعصب کا الزام لگایا گیا تھا ، لیکن با اثر تبریز عالم دین ، طائقہ الاسلام تبریز کا دفاع ، اس کی نجات اور بقا کے لیے موثر تھا۔ [129]

ریاستی انجمنوں کے پاس عدالتی اور انتظامی اختیارات تھے ، لیکن قانون سازی کے اختیارات نہیں ہیں۔ مئی 1286 میں منظور ہونے والے ایک نئے قانون کے مطابق ، ان انجمنوں کا اختیار پارلیمانی انتخابات کی نگرانی ، حکمرانوں کی کارکردگی پر نظر رکھنا ، ٹیکس کی رقم کا تعین کرنا اور اسے جمع کرنا ، اسکولوں کی تعمیر جیسے امور میں مقامی ٹیکسوں کا ایک فیصد مختص کرنا تھا۔ سڑکیں اور کلینک۔ ، عوامی املاک سے رقم کمائیں ، ضرورت مند طلبہ کو گرانٹ فراہم کریں اور سرکاری ملازمین کے لیے پنشن فنڈ بنائیں۔ [130]

سیاسی جماعتیں

باکو میں مقیم ایرانی کارکنوں نے سول سوسائٹی فرقہ کی بنیاد 1905 میں رکھی تھی۔ اس کے ممبروں کے ہمت پارٹی (مسلم سوشل ڈیموکریٹک پارٹی) کے ساتھ اچھے تعلقات تھے ، جن کی باکو اور تبلیسی میں شاخیں تھیں۔ [131] باکو میں ایرانی تاجروں اور کارکنوں نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی ، جس کا تخمینہ 6،000 برطانوی نائب قونصل برائے راشت میں ہے۔ [132] افاری کا خیال ہے کہ عام لوگوں کو "ایک متفاوت خیال تھا۔" اس فرقے نے لبرل ازم اور سوشلزم کی حمایت کی اور اگرچہ اس نے شیعہ روایات کی حمایت کی ، لیکن اس نے روایتی علما کی طاقت کی مخالفت کی۔ انھوں نے طاقتور پارلیمنٹ اور آئین کی حمایت کی اور انقلاب کے لیے پرعزم تھے ، لیکن اسی کے ساتھ ہی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد اور دہشت گردی کے استعمال کی اجازت دی۔ ان کے دیگر مطالبات میں روزانہ کام کے اوقات میں آٹھ گھنٹے کی کمی اور زرعی اراضی کی تقسیم شامل تھے۔ ان کے اعمال کو مذہبی ذائقہ پیدا کرنے کے لیے ، انھوں نے مذہبی نعرہ لگایا کہ "خدا گدوک سے زیادہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔" [133] 1285 اور 1909کے درمیان ، پارٹی نے ایران کے مختلف شہروں میں متعدد شاخیں قائم کیں ، جن میں تبریز ، تہران ، راشت ، انزالی ، کھوئی ، اردبیل ، قزوین اور اصفہان شامل ہیں ، جو بنیادی طور پر مجاہدین ایسوسی ایشن کے نام سے کام کرتی ہیں۔ ہر ایسوسی ایشن میں "عقیدت مندوں کا حلقہ" ہوتا تھا جو تخریب کاری کی کارروائیوں کے لیے ان کا استعمال کرتا تھا۔ [134]

فورم

سیاسی سرگرمیوں میں اضافے کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا عمل دخل رہا۔ دار الحکومت کی طرح ، ٹریڈ یونین یا نسلی نژاد کی 30 سے زیادہ سیاسی انجمنیں ابھریں۔ آذربایجان ایسوسی ایشن ، جس میں 3،000 سے زیادہ ارکان ہیں ، ان انجمنوں میں سب سے بڑا انجمن تھا ، جس کی سربراہی ہیدار امیوگلو نے کی ۔ [135] اس فورم کے آئینی مقصد کا مقصد آزادی کے نظریات اور دفاعی اڈوں کی تشہیر کرنا تھا کہ پنڈال میں آئینی انتہا پسندی مولکمٹکلمین اور جمال مبلغ اور صحافی بن گئے ، جس میں اس جہادی میں خان جہانگیر خان شیرازی ، محمد رضا مساوات اور علی اکبر دھخدا شامل تھے۔ دوسرے شہروں میں بھی انجمنیں تشکیل دی گئیں۔ رشت میں ابولفزل ایسوسی ایشن اور تبریز میں ہیگیگھاٹ ایسوسی ایشن شامل ہیں۔ لیکن ان انجمنوں کے اثر و رسوخ کے شعبے اکثر مقامی ہوتے تھے اور دار الحکومت کے واقعات پر ان کا بہت کم اثر ہوتا تھا۔ [136]

دار الحکومت میں انجمنوں کی مرکزی سرگرمی سیاسی تھی۔ انجمنوں کی سرگرمیوں میں لیکچرز کا انعقاد ، اشاعتوں کی اشاعت اور جلسوں کا انعقاد شامل تھا۔ نازک لمحوں پر ، انھوں نے بہارسان اسکوائر میں اپنے حامیوں کو جمع کیا اور ارکان پارلیمنٹ اور وزرا ، ان کے ارکان پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے اور بعض اوقات ارکان پارلیمنٹ یا وزرا کے مباحث میں مداخلت کرکے پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت کی۔ لیکن پارلیمنٹ کے اہم حامی وہ انجمنیں تھیں جنھوں نے نازک اور نازک اوقات میں اس کی حمایت کی۔ [137]

جریدے

تقریبا 1998سے ، نئے اسکولوں کے قیام کی وجہ سے پرنٹنگ انڈسٹری کی توسیع اور لوگوں کی خواندگی کے ساتھ ، پریس پبلشنگ ، جو محمد شاہ کے زمانے سے شروع ہوئی تھی اور اس میں کم گردش ، سنسر شپ اور سرکاری اجارہ داری کا سامنا کرنا پڑا تھا ، فروغ پایا۔ آہستہ آہستہ. [138] آئینی انقلاب کے پھوٹ پڑنے کے ساتھ ہی ، قومی اسمبلی کے ذریعہ منظور شدہ آئین میں آزادی صحافت کو قوم کے بنیادی حقوق میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا اور محمد سدر ہاشمی کے مطابق ، جو بھی اشاعت شائع کرسکتا تھا۔ [139] ان کی تعداد 6 سے بڑھ کر 100 سے زیادہ ہو گئی۔ اس دور کی مشہور اشاعتوں میں مساوات ، اسرافیل ، روح القدس اور وائس آف فادر لینڈ کی تصاویر شامل تھیں۔ [140] اس دور کے پہلے اخبارات میں سے ایک ملانصریدین تھا جو جلیل محمد غوثیزدہ کی ترمیمی اور ترکی میں تبلیسی میں شائع ہوا تھا۔ 1905 کے روسی انقلاب کی شکست کے بعد ، اشاعت سنسرشپ کے تحت آئی اور پڑوسی ممالک کے سماجی اور سیاسی امور پر مواد شائع کیا۔ اس کے نتیجے میں ، اسے ایران سمیت خطے کے مختلف ممالک میں بہت سے گلوکار ملے۔ اس اشاعت نے سیاسی جبر اور مذہبی تعصبات کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور ایران میں بہت سارے حامی اور مخالفین پائے گئے۔ آفری کے مطابق ، یہ رسالہ ایران میں مختلف اشاعتوں کو متاثر کرتا ہے۔ ان تصاویر میں اسرائیل ، ندائے شمل اور آذربایجان کی قومی ایسوسی ایشن شامل تھیں ۔ [141]

اس عرصے میں پریس کی کثرت اور آزادی اتنی زیادہ تھی کہ آزاد کتب کی اشاعت بہت کم ہو گئی اور صدر ہاشمی کی رائے میں ، ماہرین نے اشاعت کے کالموں میں اپنی رائے شائع کی اور کتابیں نہیں لکھیں۔ محمد علی شاہ کی بغاوت اور پارلیمنٹ کی گولہ باری سے قبل ، پریس کو سنسر نہیں کیا جاتا تھا اور یہاں تک کہ وہ فحش مواد بھی استعمال نہیں کرتا تھا۔ [142] آدمیت کا کہنا ہے کہ محمد علی شاہ نے ایڈمیٹ کمپلیکس میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد بھی ، کچھ میڈیا نے پھر بھی شاہ کی بدنامی کی اور ان کی برخاستگی یا پھانسی کا مطالبہ کیا۔[143] محسنیان رادکے مطابق ، اس دور میں صحافت "ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ، جو مناسب صحافت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اور برسوں کے دباؤ اور جبر کی وجہ سے ، اخبارات رات کے اخبار بن گئے۔" پارلیمنٹ کی گولہ باری کے بعد ، بہت سارے صحافیوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ گرفتار ہوں ، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے ، جلاوطن کیا جائے اور انھیں پھانسی دی جائے۔ لہذا ، فتح تہران اور آئینی نظام کے ازسر نو قیام کے بعد بھی ، لوگوں نے آزادی کے متلاشی اپنے سابقہ جذبے کو دوبارہ حاصل نہیں کیا اور بولنے اور لکھنے میں احتیاط بڑھتی گئی۔ [144]

تاریخ کے میدان میں یونیورسٹی کے پروفیسر ، محمد امیر شیخ نوری ، حبل المطین ، سور اسرافیل ، تربیٹ ، روح القدس اور آذربایجان کی قومی ایسوسی ایشن کی پانچ اشاعتوں کی فہرست پیش کرتے ہیں ، ہر ایک وجہ سے ، اس دور کی اہم اشاعت کے طور پر۔ ان کے بقول ، حبلہ المطین پر ان کی 33 سال کی پریس زندگی کے دوران 47 مرتبہ پابندی عائد کی گئی تھی اور وہ بیرون ملک سے ایران جانے والی فکری تحریک کا ایک ٹرانسمیٹر تھا۔ تربیئت ، ایک آزاد اور اعتدال پسند اشاعت ، آئینی انقلاب سے دس سال پہلے شائع کی گئی تھی اور اس کی جاری اشاعت کے ساتھ ساتھ ، اس کے خوبصورت خوبصورت نثر کے ساتھ ، جس نے اسے استعمال کیا ہے ، بھی اس کی تمیز کرلی ہے۔ آذربائیجان کی قومی ایسوسی ایشن کے عہدے دار عضو تھی آذربائیجان ایسوسی ایشن ، جس میں قفقاز اور سلطنت عثمانیہ کی فکری دھاروں سے بہت متاثر تھے اور ایک بااثر سٹی اشاعت تھا. سورہ اسرافیل اور روح القدس بھی انڈیکس کی فراہمی انتہا پسندی کے آئینی مسائل تھے۔ [145]

آئین کے مخالفین نے مطبوعات بھی شائع کیں۔ مثال کے طور پر ، املاؤ اسلامی انجمن تبریز کا عضو تھا ، جو تبریز میں شائع ہوا تھا اور آئین سازوں کی مخالفت میں لکھا تھا اور انہیں بابی یا غیر مذہبی سمجھتا تھا۔ [146]

اس دور میں پریس اور پریس کے علاوہ عام طور پر خفیہ مقالے شائع ہوتے تھے کیونکہ خط مشہور شخصیات مشہور تھے۔ اخبارات چھوٹی شکل میں چھپتے تھے ، اکثر تاریخ کے بغیر اور مختلف شہروں میں فاسد طور پر۔ اخباروں میں عام طور پر حکومت کے خلاف متعدد مضامین یا انقلابیوں سے متعلق خبریں شامل ہوتی تھیں۔ [147] آفاری نے اطلاع دی ہے کہ آئینی انقلاب کے موقع پر نائٹ لیٹر کی تقسیم کا لوگوں نے بہت موثر اور خیرمقدم کیا۔ بعض اوقات ایک کتابچہ سو بار بھیجا جاتا تھا اور لوگ اس کے مشمولات پر گفتگو کرنے خفیہ ٹھکانے میں جمع ہو جاتے تھے۔۔ [148]

قانونی حیثیت کا دھارا

آئینی تحریک کی فتح کی دہائیوں کے دوران ، "آزادی " کے تصور پر ممتاز علمائے کرام اور علمائے کرام کے درمیان شدید اختلافات تھے۔ آئین کے مخالفین نے اسے غیر معقول اور بے غیرتی کے طور پر دیکھا اور اس کی مخالفت کی۔ اس کے برعکس ، ایسے مولوی موجود تھے جو مذہبی اصولوں کی ایک نئی تشریح پیش کرتے ہوئے اسلام کو قانون کی حکمرانی اور انفرادی آزادیوں سے مطابقت رکھتے تھے۔ شروع سے ہی پادری مسلمان میں سے ، نظریاتی طور پر دانشورانہ قانون سازوں کی بنیادوں کا دفاع کرنے کے لیے ، ملا عبد الکشانی ، جس نے ایک ایسا مقالہ لکھا اور شائع کیا ہے جس نے ایک انصاف نامہ نامی مقالہ شائع کیا ہے کہ اس بات کا خیال ہے کہ آزادی سے ضروری ہے کہ اسلام تنازع میں نہیں ہے اور تنازع کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان شریعت کے احکام کے روایتی تاثر کی وجہ سے ہے۔ [149] آئینی انقلاب کی فتح سے پہلے روایتی نظام حکومت کے حامی اور اصلاح پسندوں کے مابین نظریاتی بحث ہوئی۔ قومی اسمبلی کے قیام اور آئین کی منظوری کے بعد ، دونوں گروہوں کے مابین نئی بحثیں شروع ہوگئیں۔ روایتی نظام کو مقبول بنانے اور نئے تصورات کو عملی جامہ پہنانے کا خطرہ اس کے حامیوں پر تیزی سے ظاہر ہوتا جارہا ہے۔ آئین پرست اور آئین مخالف علما کے درمیان نظریاتی محاذ آرائی (جو قانون سازوں کے نام سے جانا جاتا ہے) انقلاب سے پہلے ہی شروع ہوا تھا۔ شیخ فضل اللہ نوری اس موجودہ افکار کے سب سے اہم اور مشہور نمائندے ہیں ، جو بالآخر اس طرح اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ [150] علما کا یہ گروہ ، جسے آفاری سے روایتی علما کرام کہتے ہیں ، آئینی انقلاب کے آخری مراحل میں شامل ہوئے اور ایسے آئین کا مطالبہ کیا جس میں صرف شیعہ اسلام کا قانون اور مذہبی علما کے احکام شامل ہوں۔ [151]

محمد علی شاہ کے ابتدائی دور میں پہلی بار ، وزیر تعلیم ، مختار السلطانah نے مشورہ دیا کہ آئینی کی بجائے لفظ "جائز" استعمال کیا جائے۔ توقع کی جارہی تھی کہ پارلیمنٹ کے علما اس تجویز سے اتفاق کریں گے اور دیگر ارکان پارلیمنٹ اس کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کریں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور پارلیمنٹ نے اس کی مخالفت کی۔ احتجاج کے دوران ، تہران میں متعدد علما عبد العظم کے مزار پر بیٹھ گئے ، لیکن لوگوں کی طرف سے ان کی تحریک کا خیرمقدم نہیں کیا گیا اور وہ بیکار ہو گیا۔ [152] اس پیکیج کے موقع پر ، شیخ فضل اللہ نے بلوں اور مقالوں کی اشاعت کرکے اپنے خیالات شائع کیے اور آئین کی حرمت پر مبنی فتوے جاری ک.۔ [153] 1286 میں ، تہران میں متعدد اسکالرز ، جن کی سربراہی شیخ فضل اللہ نے کی تھی ، نے محمد علی شاہ کو ایک خط میں لکھا تھا کہ یورپی پارلیمنٹ کے قوانین پر قائم پارلیمنٹ اسلامی قوانین کے منافی ہے اور اس کا اجلاس نہیں ہو سکتا ہے۔ [154]

آئینی نظام پر پہلا اور سب سے اہم اعتراض قوم کے نمائندوں کی طرف سے قانون سازی تھا۔ [155] اس مسئلے کوکشف‌المراد من المشروطه و الاستبداد کے عنوان سے ایک مقالے کی اشاعت کے ساتھ ہی ، آئین کے سب سے مضبوط مخالفین میں سے ایک محمد حسین تبریز نے بھی اٹھایا تھا۔ تبریز نے پارلیمنٹ جیسے نئے اداروں کو شریعت کے متن کے منافی سمجھا۔ ان کے بقول ، یورپی ممالک میں پارلیمنٹ تشکیل دینے کی ضرورت عیسائیت میں شرعی قانون کا فقدان ہے۔ اگرچہ اسلام میں شرعی قوانین کے کافی قواعد ہیں ، لیکن اس کی شرعی نفاذ کی نگرانی کے لیے صرف ایک پارلیمنٹ تشکیل دینا ہے۔ [156] نوری نے رائے عامہ یا ان کے نمائندوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام میں قانون وضع کرنا جائز نہیں سمجھا ، اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ اسلام نے شرعی حقوق کی تشکیل کی ہے [157] اور اس کے اصولوں میں ، آئین کے ان اصولوں کو جو اس کی رائے میں شریعت سے متصادم ہیں۔ . ، مخصوص ہے۔ [158]

تمام لوگوں کے حقوق کی مساوات یا مساوات ، آئینی ترمیم کے ان اصولوں میں سے ایک تھا ، جسے نوری غیر قانونی سمجھتے تھے اور کیونکہ ایک نائب نے اسے بتایا کہ یہ اصول اتنا اہم ہے کہ اس کے بغیر ، ایران میں مغربی حکومتیں نہیں چاہیں گی۔ آئینی حکومت۔ معرفت نے اعلان کیا تھا کہ "دولت اسلامیہ کو آئینی نہیں بنایا جائے گا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ کیوں کسی مسلمان کے لیے زرتشت ، عیسائی یا یہودی کے برابر ہونا ناممکن ہے۔ آئینی ترمیم کے آرٹیکل 18 کی ، جس نے آزادی صحافت کے لیے فراہم کی گئی "غلط کتابیں اور مذہب کے لیے نقصان دہ مواد کے علاوہ ،" شیخ فضل اللہ نے مخالفت کی تھی۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ اس سے غیبت کرنے کا دروازہ کھل جائے گا۔ البتہ وہ جانتا تھا کہ یہ قانون بدنامی اور جھوٹ بولنے سے منع کرے گا اور اس کی سزا فراہم کرے گا ، لیکن ان کا خیال تھا کہ اسلامی قانون میں مالی سزا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، آئین کے بارہویں ترمیم، کسی سزا پر عملدرآمد، قانون اور شیخ فضل اللہ کے مطابق میں سوائے ممنوع نفاذ کہ خیال کی اسلام طے ہو گئی ہے اور قانون منظور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے خیال میں ، اختیارات کی علیحدگی اور قانونوں کے لیے اختیارات کی تقسیم ، خالص مذہب تھا۔ شیخ فضل اللہ نے آئین میں ترمیم سے بیس اعتراضات اٹھائے تھے جو ان کی رائے میں شریعت کے مطابق نہیں تھے۔ [159]

اس کے برعکس ، کچھ شیعہ علما نے آئینی حکومت کے شرعی اصولوں کی وضاحت کے لیے شریعت کی نئی ترجمانی کی پیش کش کی ہے ، جس میں آئینی بادشاہت کے اظہار اور عماد العلما خلخی کے فوائد پر ایک معاہدہ بھی شامل ہے۔ اس مضمون میں ، انھوں نے کہا کہ سیاسی نظام دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے ایک روایتی نظام ہے اور یہ شریعت اور مذہب کے دائرے میں نہیں ہے ، جس کے ساتھ وہ تنازع پیدا کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے آئینی حکومت کو "دنیا میں خدا کی خود مختاری کی شبیہہ" قرار دیا جس میں ایک بندہ دوسرے بندے پر ظلم نہیں کرسکتا ہے۔ [160] سید نصراللہ تقوی نے قومی اسمبلی کے فوائد پر سوال و جواب کے عنوان سے ایک مقالہ بھی لکھا اور واضح کیا کہ قومی اسمبلی کا قیام شریعت کے منافی نہیں ہے۔ [161]

پارلیمنٹ پر گولہ باری اور چھوٹے چھوٹے ظلم کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی ، آئین پرست علما نے ، جواد تبت بائی کے الفاظ میں ، "جائز لوگوں کے خیالات کے خلاف ایک مکمل پیمانے پر جدوجہد کا آغاز کیا۔" اس عرصے کے دوران ، آئین کے دفاع میں مربوط مقالے تیار کرکے شائع کیے گئے۔ میرے مضافاتی علاقے قراوی ، فقہا اتاتاب نے بھی ایک معاہدہ جسے اللیalyی المبربھتھ فی ضرورت الشمشرت ( آئینی بادشاہت کے فارسی معنی میں ) نے لکھا ہے کہ مشروکواہن نے ان سوالات پر روشنی ڈالی اور ان کا جواب دیا اور پھر اس کی تصدیق عراق میں دو مارجہ شیعوں نے کی۔ یعنی ، وہ خراسانی اور عبد اللہ مازندرانی کو لے کر آیا تھا۔ [162] ان مقالوں کی ایک سب سے اہم مثال میرزا نینی کی <i id="mwAws">سزا ہے</i> ، جو نہ صرف آئین کے دفاع میں ایک معاہدہ ہے۔ بلکہ ، اسے شیعہ سیاسی فکر کا پہلا باقاعدہ مقالہ سمجھا جانا چاہیے۔ نینی نے شیخ فضل اللہ کے خیالات کو مسترد کرتے ہوئے یہ مقالہ مرتب کیا اور آمرانہ حکمرانی کو مسترد کر دیا۔ [163] مرزا نعینی نے حکومت کی بہترین قسم کی حکومت کو " عدم استحکام" پر مبنی نظام سمجھا ، جو عدم موجودگی کے دوران ممکن نہیں ہے۔ لیکن چونکہ کوئی معاشرہ حکومت کے نظام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ، اس لیے حکمرانی کے دو راستے قابل فہم ہیں۔ ایک ایسے شخص (بادشاہ) کے حکمرانی اور تسلط پر مبنی جو عوام کے حریف کا مالک سمجھا جاتا ہے اور عوام کو یتیم اور نابالغ سمجھا جاتا ہے۔ اور ایک اور ، ایسی حکومت جس میں بادشاہ اپنی دولت میں محدود ہو اور بادشاہت کی بنیاد "کچھ فرائض اور مفادات کا مظاہرہ" ہو۔ اس طرح ، ملک اور سیاسی اقتدار بادشاہ کے سپرد ہے کہ وہ عوامی مفاد کے مطابق مشروط طور پر اس کا انتظام کرے اور عوام ان عوامی مفادات سے متعلق تمام معاملات میں یکساں طور پر شریک ہیں۔ [164]

آئینی ادب

آئینی ادب نثر و شاعری کا کام ہے جو انیسویں صدی کے آخر سے لے کر 1921 ء (1300 ش ھ) تک دستور سازوں کے لبرل نظریات کے زیر اثر نمودار ہوا۔ آئینی ادب کی ابتدا ، خود آئینی تحریک کی طرح ، انیسویں صدی کے ایران میں سیاسی ، معاشرتی ، معاشی اور ثقافتی پیشرفت تھی۔ قدیم ادبی روایات کو جدید ادبی نقطہ نظر سے جوڑنے میں اس دور کا ادب اہم تھا۔ [165]

اسی کے ساتھ ہی ایران میں آئینی انقلاب کے ساتھ ، فارسی زبان میں ایک نئی ادبی لہر کا آغاز ہوا جس نے اس وقت کی سیاسی اور معاشرتی پیشرفتوں پر توجہ دی۔ نئی ادبی لہر نے ایک سیاسی قابو پالیا تھا اور اس دور کے شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات میں حب الوطنی ، ظلم کے خلاف جدوجہد ، انصاف اور قانون کی حکمرانی جیسے تصورات متعارف کروائے گئے تھے۔ کچھ الفاظ ، جو قدیم فارسی ادب میں مستعمل ہیں ، نے آئینی ادب میں ایک نیا رنگ لیا۔ مثال کے طور پر ، اس دور میں ، لفظ "آزادی" اپنے مغربی معنی میں استعمال ہوا ، یعنی قانون کی حکمرانی اور معاشرے کے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے۔ [166]

آئینی دور کے دوران ، ادب دربار اور اشرافیہ کے قابو سے باہر ہو گیا اور عام لوگوں میں اپنے سامعین کو پایا ، کیوں کہ بہت سارے مصنفین اور شاعروں نے معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ بہتر گفتگو کرنے کے لیے آسان زبان اور بعض اوقات بول چال کی زبان اور یہاں تک کہ الفاظ بھی استعمال کیے تھے۔ اپنی نظموں میں فرانسیسی زبان کا استعمال کیا۔ [167]

ناول لکھنا ، جیسا کہ مغرب میں عام ہے ، آئینی مدت کے دوران بھی عملی طور پر شروع ہوا۔ اس تاریخی دور میں ، ایران کے پرانے معاشرتی نظام میں سرمایہ داری نظام کی توسیع کے ساتھ ہی ایک تبدیلی آئی اور اس کے نتیجے میں ، فارسی ادب معاشرے کی مرکزیت ، معاشرتی اصلاحات اور صنعتی پن کی طرف اپنے رجحان میں مغربی ثقافت سے سخت متاثر ہوا۔ اس دور کے لکھاریوں نے ظلم پر تنقید کرنا اور توہمات اور پرانے عقائد کی مذمت کرنا اور روسی اور فرانسیسی ادب سے نئے تصورات اخذ کرنا اپنا مشن سمجھا۔ اس وقت ناول اور ڈرامے لکھنے والے پہلے ایرانی وہ تھے جو کسی نہ کسی طرح مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے واقف ہو چکے تھے۔ غیر ملکی دانشور ، تارکین وطن بزنس مین اور سیاسی جلاوطنی۔ قانون کی حکمرانی ، صنعتی ترقی اور حکومتوں کی بیوروکریسی کا مشاہدہ کرتے ہوئے ، انھوں نے اپنے زمانے کے ایران کی موجودہ صورت حال پر تنقید کی اور ، ان سے پہلے کے مصنفین کے برعکس ، عام لوگوں کو مخاطب کرنے کے لیے اس کی مشکل اور پرانی شکل سے نثر لیا ۔ اشرافیہ؛ متوسط طبقے کے لوگ جو اپنی زندگی اور اوقات کے بارے میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس طرح ، معاشرے میں شخصیت پسندی یا عام لوگوں کی زندگی پر توجہ مرکوز کرنا جیسے ایرانی افسانے میں خیالی کردار تشکیل پائے تھے۔ اس وقت کی ثقافتی اور معاشرتی پیشرفتوں نے اس ادبی صنف کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک میں مغربی تہذیب کے اظہار کی آمد (جیسے اسکول ، پرنٹنگ اور اخبارات ) کے ساتھ ہی معاشرے میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور زیادہ سے زیادہ لوگ ان نئے کاموں کو پڑھنے کے قابل ہو گئے۔ [168]

دوسری طرف ، آئین ساز لکھنے والوں نے ، شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر ، گہری خلاء کو دور کرنے کی کوشش کی جو فارسی میں بولی جانے والی زبان اور تحریری زبان کے مابین پیدا ہوئی تھی۔ فارسی ادب میں تخلیقی صلاحیتوں اور جدتوں کے بھیس نے (غالبا نویں صدی ہجری سے لے کر اس وقت تک) تحریری زبان کو اشرافیہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے ل dry ایک خشک بیانات میں بدل دیا تھا اور عام لوگوں نے اس سے خوف طاری کیا تھا۔ ان کاوشوں کا ایک نمایاں مظہر "اکھاڑے اور پرندوں" کے عنوان سے طنزیہ مضامین کا مجموعہ تھا جس کا نام " اکبر دہکھوڈا " نے رسالہ " اسرافیل " میں لکھا تھا۔ ایک نیا انداز نثر ایجاد کرکے ، دہکھوڑا تحریر اور تقریر کے مابین پائی جانے والی خلیج کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا ، جس سے تحریری طور پر روزمرہ بولی جانے والی زبان کے استعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ [169]

عالمی عکاسی

Thumb
نیو یارک ٹریبیون (5 جولائی ، 1908) میں پارلیمنٹ کی بندش اور آئینی پسندوں کی گرفتاری میں محمد علی شاہ کے اقدامات

عرب ممالک میں ، ایران میں صورت حال اور پیشرفت کے بارے میں کوئی درست معلومات موجود نہیں تھیں اور اسی وجہ سے عرب صحافیوں نے ایران میں سیاسی اور معاشرتی صورت حال کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے ایک مصری رسالہ الہلال ہے ، جس کے ہدایت کار اور مالک جارج زیدن تھے۔ «الدُستور الفارسی: تاریخهُ» (فارسی میں: ایرانی آئین کی تاریخ) کے عنوان سے ایک مضمون میں ، انھوں نے ایڈورڈ براؤن کی کتاب کا ایک خلاصہ شائع کیا ، جس میں انھوں نے تمباکو کی تحریک جیسے آئین کی تشکیل کو بیان کیا تھا۔ اور سید جمال الدین اسدآبادی اور ملک خان کے اقدامات کو انھوں نے پارلیمنٹ کو گولی مار ہونے کی داستان سنائی۔ [170] البیران ، ماہنامہ لبنان میں احمد عارف ال زین کی ہدایت کاری میں شائع ہوا ، جس میں خبروں اور مضامین کو شائع کرکے ایرانی آئین سے متعلق امور کو بھی شامل کیا گیا۔ 1909 میں ، اشاعت میں "ایران کے احرار" کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ، جس میں ایران کی سیاسی اور معاشرتی صورت حال کو بیان کیا گیا اور مظفرالدین شاہ کی آئین کو قبول کرنے پر تعریف کرتے ہوئے ، انھوں نے محمد علی شاہ کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اسی مسئلے میں ، محمد علی شاہ کو بادشاہت سے ہٹانے کی خبروں کا احاطہ کرتے ہوئے ، آئین سازوں کی فتح کو "علما اور دانشوروں" کی کاوشوں کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کوششوں کی مثال کے طور پر ، اشاعت میں نجف حکام کی جانب سے ایک فتوی شائع کیا گیا جس سے لوگوں پر زور دیا گیا کہ وہ "اس شیطان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔" » [171]

آئین اور اس کے واقعات کے دوران ، فرانسیسی اشاعتوں میں ایران میں ہونے والے واقعات کا آغاز ہوا۔ ان اشاعتوں میں ٹتان،سانچہ:یادچپ سیکل،سانچہ:یادچپ اومانیته،سانچہ:یادچپ دو جهانسانچہ:یادچپ و بولتن اور فرانسیسی ایشیا کمیٹی کا بلیٹن شامل ہے۔ تاہم ، ان اشاعتوں نے شاذ و نادر ہی مقبول تحریکوں کی حمایت کی۔ 1909 میں ، اخبار اومانیته نے جین جارسی کا ایران میں روسی اور برطانوی پالیسیوں کی مخالفت میں ایک مضحکہ خیز مضمون شائع کیا ، جس میں اس معاملے پر فرانسیسی وزارت خارجہ کی خاموشی پر تنقید کی گئی تھی۔ [172]

جائزہ اور تجزیہ

جینیٹ افاری کے مطابق ، آئینی انقلاب مختلف سیاسی ، مذہبی اور تجارتی یونین گروپوں کے اتحاد کے ذریعہ تشکیل پایا تھا ، لیکن اس اتحاد کی عظمت آہستہ آہستہ ان گروہوں کے مابین تنازعات کا باعث بنی اور آئین کی نوعیت کو کوتاہیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ [173]

سہراب یزدانی کا ماننا ہے کہ آئین سازوں کی فتح اور چھوٹے چھوٹے ظلم کا خاتمہ سیاسی اور معاشرتی اداروں میں بنیادی تبدیلی نہیں لاسکتے ہیں۔ کیونکہ حکمران طبقے کی سیاسی اور معاشی طاقت ، محمد علی شاہ کی برطرفی کے بعد ، باقی رہی اور ملک کے حکمران ، کچھ محدود اور غیر معمولی معاملات کے علاوہ ، پرانے نظام کے وہی وابستہ تھے۔ [174]

ویسٹرنائزیشن

احمد فردید نے آئین پرستی کو "بدعنوانی کیخلاف بدعنوانی" اور "فری میسنری" اور "یہودیت" کی تحریک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ، آئینی تحریک کے دوران ، "ترقی پسندی اور جدیدیت" کہلانے والی مغرب کی "بوسیدہ اور متروک تاریخ" ایران میں "ان پڑھ دانشوروں اور نقالیوں" کے ذریعہ داخل ہوئی اور پھیل گئی۔ [175] جلال الاحمد بھی اسے "آئینی تنازع" اور "آئینی فساد" قرار دیتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ تنازع ڈارسی معاہدے اور 1901 میں ایران کے تیل مراعات کی منتقلی سے متعلق ہے۔ وہ اسلام کو مغرب پسندی کے اثر و رسوخ کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہے اور آئینی لوگوں کو ملحد گروہ سے تعلق رکھنے والا سمجھتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شیخ فضل اللہ نوری کو شیعوں کی حمایت کرنے کی پاداش میں پھانسی دی گئی تھی اور وہ ایران میں مغربی تسلط کی علامت کے طور پر ان کے جسم کو پھانسی پر چڑھا رہے ہیں۔ دوسری طرف ، یہ واضح ہے کہ ان تمام تر تبدیلیوں اور بڑے چیلنجوں اور کارناموں کو کسی خاص واقعے میں کم کرنے میں کسی عظیم واقعے کی توڑ پھوڑ اور غیر حقیقی اور گمراہ کن نتائج اخذ کرنے کے سوا کچھ شامل نہیں تھا۔ [176]

عصری تاریخ کو متاثر کرنا

رسول مہربان ر جنگلات کی تحریک کو آئینی تحریک کے اولین جھٹکے میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ [177]

ہزویی اور ہیڈاری چالاکی سے سمجھتے ہیں کہ آئینی عہد میں "دانشورانہ گفتگو" ، مغربی آئین کا غلط نقش پیش کرکے ، مسلمان علما کے ایک حصے کے ساتھ اس قابل ہو گئی ، جسے "آئین پرست پادریوں کی گفتگو" کہا جاتا ہے۔ دانشورانہ علما کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے آئینی پاسداروں کا چرچا تاریخی طور پر غیر فعال ہو گیا تھا اور عدم موجودگی کے زمانے میں حکومت کے مسئلے کو حل کرنے سے ، اس نے آئینی تحریک میں سنجیدہ کردار ادا کیا اور ایک قسم کا اسلامی آئینی نمونہ تشکیل دیا۔ اگرچہ یہ گفتگو بہت جلد ناکام ہو گئی ، لیکن درج ذیل واقعات میں ، معاشرے کے تیرتی علامتوں کو جذب کرکے ، 1979 کے انقلاب کے دوران اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ [178]

الہام اور دوبارہ تخلیق

مشفق کاظمی کا خوفناک تہران ایک ایسا ناول ہے جس میں آئینی واقعات کو ایک فنکارانہ انداز میں دکھایا گیا ہے - تاریخی نہیں۔ ناول کی پہلی جلد میں آئینی تحریک کے تضادات اور کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی ہے اور دوسری جلد میں آئینی وقت کے معاشرے کے مسائل سے نکلنے کے لیے ایک روشن خیال ظلم کے ظہور کی بالواسطہ تائید کی گئی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ، جو دانشور طبقے کی نمائندگی کرتا ہے ، اسے پہلے اپنے اور اپنے عاشق کے مابین کوئی فاصلہ نظر نہیں آتا۔ لیکن آہستہ آہستہ مشکلات اور بربادی نے اسے مغلوب کر دیا اور اسے احساس ہوا کہ ایک برباد معاشرے میں انسانی اقدار کی تلاش بیکار ہے۔ لہذا وہ معاشرتی سرگرمیاں ترک کرتا ہے اور اپنی ذاتی زندگی میں خوشی کی تلاش کرتا ہے۔ [179]

محمد سعید اردوبادی نے 1933 سے 1940 تک آذربائیجان ترکی میں تبریز آلود لکھا۔ فوگی تبریز ایک ایسی محبت کی کہانی ہے جو محاصرے کے دوران تبریز میں ہوئی تھی۔ اردوبادی خود تبریز اور واقعات کے مرکز میں تھے اور ستار خان کے جنگی ہیڈ کوارٹر کا رکن تھا۔ اس کتاب کا سعید منیری نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ [180]

1351 میں ، علی حاتمی نے فلم ستار خان بنائی ، لیکن اس کی ریلیز کے بعد ، اس کے ساتھ کچھ مارجن بھی آئے اور اس کی ریلیز کو جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔ تبریز کے محاصرے سے متعلق اہم تاریخی نکات ، جیسے مجاہدین کی تخفیف اسلحہ یا تبریز میں آئینی لوگوں کی شکست اور ستار خان کی عثمانی سفارت خانے کو سیاسی پناہ ، جیسے اس فلم میں جھلکتی ہے۔ فلم تاریخی واقعات کا محض بیانیہ ہونے کی بجائے ، اس وقت کے معاشرتی اور طبقاتی تعلقات پر تنقیدی نگاہ ڈالتی ہے۔ [181] نیز ، محمد رضا ورزی کی ہدایت کاری میں ستار خان ٹی وی سیریز فروری 2017 میں دکھائی گئی تھی۔ یہ دس حصہ سیریز ستار خان کی زندگی کے آخری سالوں کا بیان کرتی ہے۔ [182]

خراج تحسین

1998 کے بعد سے ، تبریز مزاحمتی حلقہ کے قائدین میں سے ایک مہدی کوزہ کنانی کے گھر کو ثقافتی ورثہ کی تنظیم نے میوزیم کے طور پر استعمال کیا ہے اور اسے آئینی ایوان کا نام دیا گیا ہے۔ اس ایوان میں ، جو مزاحمت کے دوران آئینی رہنماؤں کی ملاقات کی جگہ تھا ، مزاحمتی رہنماؤں کے کام آویزاں ہیں۔ [183] اگست 2008 میں ، اصفہان میں نور اللہ نجفی اصفہانی کا مکان اصفہان کے آئینی ایوان کی حیثیت سے کھولا گیا۔ [184]

اگست 2006 میں ، آئین کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ [185] اس سے قبل ، آئین کی 50 ویں اور 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ، 1334 ش ھ اور 1354 ش ھ میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے تھے۔ [186]

ہر سال ، اگست میں آئینی فتح کی برسی کے موقع پر ، آئینی تحریک کے لیے یادگاری تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس شعبے میں ماہرین کی موجودگی کے ساتھ یہ تقریب کئی سالوں سے منعقد کی جارہی ہے۔ یہ تقریب 2004 میں آئینی میوزیم میں اس وقت کے صدر جمہوریہ سید محمد خاتمی کی موجودگی میں منعقد ہوئی تھی۔ [187]


متعلقہ موضوعات

  • آئین سازی
  • معمولی ظلم
  • آئینی تحریک میں خواتین
  • آئینی ایوان

نوٹ

  1. تهرانی خواسته‌های معترضان را هشت مورد گزارش کرده‌است: «اول عزل علاءالدوله از حکومت طهران، دوم عودت میرزا محمدرضای کرمانی از رفسنجان به کرمان، سوم عزل مسیو نُز، چهارم الغای امتیاز اصغر گاریچی از راه قم، پنجم برگرداندن تولیت مدرسه مروی به آشتیانی، ششم عودت موقوفاتی که توقیف از طرف شده به متصدیان اولیه، هفتم موقوف کردن تومان دهشاهی کسر از مواجب و مستمریات، هشتم معدلت‌خانه که مرجع تظلم عمومی باشد.»[62]
  2. برابر با ۱۸ شعبان ۱۳۲۴ و ۷ اکتبر ۱۹۰۶
  3. واگذاری مدت‌دار زمین به اشخاص با فرمان شاه
  4. پرداخت نقدی مالیات جنسی به خزانه دولت توسط حاکمان
  5. برابر با ۲۳ جمادی‌الاول ۱۳۲۶ و ۲۳ ژوئن ۱۹۰۸

فوٹ نوٹ

کتابیات

بیرونی روابط

Wikiwand in your browser!

Seamless Wikipedia browsing. On steroids.

Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.

Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.