میر عثمان علی خان
حیدرآباد دکن کے آخری بادشاہ / From Wikipedia, the free encyclopedia
(ایچ ای ایچ) نواب میر عثمان علی خان صدیقی، بیافانندی - (6 اپریل 1886ء-24 فروری 1967ء)، حیدرآباد، دکن اور برار کے آخری بادشاہ تھے۔ نظام ایک مؤثر منتظم اور ایک رعایا پرور بادشاہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انھیں "نظام سرکار" اور "حضور نظام" جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا.[1] ان کی بادشاہت 86000 مربع میل (223000 کلو میٹر²) کے ایک علاقے میں تھی، یہ تقریبا موجودہ برطانیہ کا اندازہً رقبہ تھا.
| ||||
---|---|---|---|---|
نظام حیدرآباد MP GCSI GBE | ||||
دور حکومت | نظام: 1911–1948 نظام : 1948–1967 | |||
تاج پوشی | 18 ستمبر1911 | |||
اردو | میر عثمان علی خان | |||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | 6 اپریل 1886(1886-04-06) پرانی حویلی، حیدرآباد, حیدرآباد، دکن, حیدرآباد (فی الحال تلنگانہ, بھارت) | |||
وفات | 24 فروری1967 (عمر80) کنگ کوٹھی پیلس, حیدرآباد، دکن | |||
شہریت | ریاست حیدرآباد (18 ستمبر 1911–) | |||
مذہب | اسلام | |||
زوجہ | دلہن پاشا بیگم اور دیگر | |||
اولاد | اعظم جاہ ، معظم جاہ | |||
تعداد اولاد | ||||
والد | محبوب علی خان، آصف جاہ ششم | |||
والدہ | اماۃ-ال-زہرالنساء بیگم | |||
نسل | اعظم, معظم, اور 18 فرزندان اور 19 دختران | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | سیاست دان ، حاکم ، شاہی حکمران | |||
اعزازات | ||||
درستی - ترمیم |
حیدرآباد دکن نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع 1912ء میں تخت نشین ہوئے۔
ان کے دور میں انجمن ترقی اردو نے آپ کے مراحم خسروانہ سے بے حد ترقی کی اور بے شمار کتب شائع ہوئیں۔ علما، مشائخ ، مساجد و مدارس اور ہر مذہب کے عبادت خانوں کو آپ کے دربار سے معقول امداد ملتی تھی۔ آپ کے عہد میں شہر حیدرآباد کی ازسرنو تعمیر ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت نے ریاست حیدرآباد کے خلاف پولیس ایکشن کرکے اُسے ہندوستان میں مدغم کر لیا۔[2]
عثمانیہ جنرل ھاسپٹل، عثمان ساگر، ضلعاور شہر عثمان آباد، عثمانیہ یونیورسٹی، عثمانیہ بسکٹ یہ تمام چیزیں انھی کی بنائی ہوئی ہیں اور انھی کے نام سے منسوب ہیں۔