From Wikipedia, the free encyclopedia
ابومعین حامدالدین ناصر ابن خسروقبادیانی یا ناصر خسرو قبادیانی (پیدائش: اگست 1004ء – وفات: 1088ء) فارسی کے مشہور شاعر، فلسفی، اسماعیلی دانشور اور سیاح تھے۔ ناصر خسرو قبادیان میں پیدا ہوئے، جو جدید دور کے تاجکستان میں گاؤں باکترا میں واقع تھا۔ آپ کی وفات یاماگان نامی ایک گاؤں میں ہوئی جو افغانستان کے صوبے بدخشاں میں واقع ہے۔
ناصر خسرو کا شمار فارسی ادب میں بہترین شاعروں اور ادیبوں میں کیا جاتا ہے۔ آپ کے سفرنامے فارسی ادب میں آج بھی ممتاز حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
ناصر خسرو | |
---|---|
(فارسی میں: ناصرخسرو) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: نَاصِر بْنُ خُسْرُو بْنِ حَارِث القُبَادیَانِي البَلِْخي) |
پیدائش | 3 ستمبر 1004ء قبادیان |
وفات | سنہ 1088ء (83–84 سال) یامگن ضلع |
مدفن | بلخ ، افغانستان |
رہائش | بلخ ماری، ترکمانستان قاہرہ بدخشاں |
شہریت | سلطنت غزنویہ سلجوقی سلطنت |
مذہب | اسلام [1]، اہل تشیع [2] |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنف ، فلسفی ، ریاضی دان ، مضمون نگار ، سیاح ، داعی ، فاضل |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی [3] |
شعبۂ عمل | فارسی ادب [4]، سفرنامہ [4]، اسلام [4]، اسماعیلی [4] |
کارہائے نمایاں | سفرنامہ ناصر خسرو |
درستی - ترمیم |
ناصر خسرو 1004ء میں قبادیان میں پیدا ہوئے جو اس وقت کے افغان صوبہ بلخ کا حصہ تھا اور بعد میں خراسان عظیم میں شامل کر دیا گیا۔ آپ سائنس، طب، حساب، فلکیات اور فلسفہ جبکہ الکندی، ال فارابی اور ابن سینا کی تصانیف بارے ماہر تصور کیے جاتے تھے اور آپ نے قران مجید کی تفسیر کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ ایک تفسیر آپ سے منسوب بھی کی جاتی ہے۔ آپ زبانوں میں عربی، ترک، یونانی اور ہندوستان کی کئی زبانوں کو سمجھنے، بولنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ لاہور اور ملتان بھی تشریف لائے اور غزنوی دور میں یہاں عدالتی فرائض بھی سر انجام دیے۔ بعد ازاں آپ نے مرو میں سکونت اختیار کی اور وہاں گھر اور ایک باغ تعمیر کروایا۔
1046ء تک ناصر خسرو ترک سلطان طغرل بیگ کے دربار میں مالی امور کے سربراہ مقرر رہے اور بعد ازاں یہی خدمات آپ نے مذکورہ سلطان کے بھائی جاگیر بیگ کے دربار میں خراسان میں بھی سر انجام دیں۔ جاگیر بیگ نے 1037ء میں مرو کو فتح کیا تھا جہاں بعد میں ناصر خسرو نے سکونت اختیار کی۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دور میں ناصر خسرو نے خواب میں بشارت کے نتیجے پر آسائشِ زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ انھوں نے حج کی نیت باندھی اور مکہ اور مدینہ کی جانب سفر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ حج کے دوران میں اور بعد میں بھی ناصر خسرو مکمل طور پر اپنی ذات سے منسلک روحانی مسائل کے حل کے لیے تگ و دو میں مصروف ہو گئے۔
آپ کے سفر کی داستان آپ کی تحریر کردہ تصویری کتاب “سفرنامہ“ میں ملتی ہے، جو آج بھی سفرناموں میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ چونکہ اس سفرنامے میں زیادہ تر معلومات گیارہویں صدی کے مسلمان دانشوروں اور مصدقہ ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں، اس لیے اس سفرنامے کی بے پناہ پزیرائی ہوئی۔ یہاں تک کہ یروشلم بارے نقشے اور معلومات آج بھی قابل عمل و تصدیق سمجھے جاتے ہیں۔
19000 کلومیٹر اور سات سالوں پر محیط سفر میں ناصر خسرو نے مکہ میں چار بار حاضری دی اور یہاں حج کی سعادت حاصل کرتے رہے۔ مکہ کے بعد وہ مصر کے دار الحکومت قاہرہ سے بہت متاثر تھے، جہاں فاطمید خلیفہ امام حماد بن مستنصر باللہ جو شعیہ مسلمانوں کے امام بھی تھے رہائش پزیر تھے۔ جس وقت ناصر خسرو نے یہاں کا سفر کیا، اس وقت فاطمید سلطنت میں شام، حجاز، افریقا شامل تھے اور امام حماد بن مستنصر باللہ خلیفہ وقت تھے۔ بعد ازاں بغداد کے عباسی خلیفہ اور طغرل بیگ کی فوجوں کے ساتھ خلافتی جنگ میں امت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
قاہرہ میں ناصر خسرو نے زیادہ تر تعلیم اور علم فاطمید خانقاہوں میں حاصل کی۔ یہاں آپ نے معیدفی الدین الشیرازی کی خانقاہ میں شیعہ اسماعیلی فرقہ بارے تمام علم حاصل کیا اور فاطمید سلطنت میں اس کی ترویج کی۔ چونکہ یہ تعلیمات آپ کی بنیاد اور آبائی وطن سے تعلق رکھتی تھیں، اسی وجہ سے ان کی ترویج آپ کی زندگی کے اس دور کا مقصد بن گیا۔ آپ کو اسی دور میں خانقاہ کے “داعی“ کے عہدے پر ترقی دی گئی اور آپ کو بطور “حجت خراسان“ نامزد کیا گیا، لیکن آپ سیاسی حربوں اور خراسان عظیم میں سنی فرقے کی 1052ء مذہبی ارتقا کو برداشت نہ کر پائے اور یہاں سے رخصت حاصل کی۔ اسی خودساختہ جلاوطنی کے دور میں انھوں نے 1060ء میں یاماگان میں پناہ لی، جو بدخشاں کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ یہی آپ نے اپنی زندگی کی آخری دہائیاں گزاریں اور اسی دور میں آپ کی شاعری، ادب، فلسفہ میں تصانیف تاریخ میں ملتی ہیں اور آپ کے کئی پیروکار اسی دور میں تیار ہوئے جو آنے والی نسلوں تک آپ کے علم کو پہنچانے کا سبب بنے۔
ناصر خسرو سنجی شہر قبادیان میں پیدا ہوا ،اسے علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔چنانچہ قرآن کریم حفظ کیا۔حدیث و فقہ کی تعلیم پائہ،رجاضی ،طب ،موسیقی ،نجوم و فلسفہ اور علم کلام میں کمال حاصل کیا ناصر خسرو کو مختلف مذاہب کی تحقیقی کا بہت شوق تھا۔چنانچہ اس نے مذہب زرتشت ،مذہب ماینہ ،یہودو نساری اور ہندوؤں کے مذاہب کا بہت گہرا مطالعہ کیا۔[5]
ناصر خسرو فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصہ غزنوی بادشاہوں محمود اور مسعود کے درباروں سے وابستہ رہا۔جیساکہ اس نے اپنے سفر نامہ میں اشارہ کیا ہے۔بعد میں دربار سلجوقیہ کی ملازمت اختیار کی۔یہاں اسے دبیر کا منصب ملا۔پھر محکمہ مال کے ایک ذمے دار عہدے پر بھی فائز ہوا۔آخر پنتالیس سال کی عمر میں ملازمت کو خیر باد کہہ کر 439ھ بمطابق 1047ء میں حج کعبہ کو روانہ ہوا۔مکہ سے دشق ہوتا ہو بیت المقدس پہنچا۔وہاں سے مصر آیا اور قاہزہ میں مقیم ہوا۔دوران سیاحت اس نے ارمنستان،ایشیائے کوچک،طرابلس ،شام ،فلسطین،جریزہ العرب ،قیروان اور سوڈان کی سیاحت کی اور چار مرتبہ حج کی سعادت سے بھی سرفراز ہوا۔[6]
ناصر خسرو مصر اور حجاز سے لوٹ کر بلخ واپس آگیا۔یہاں اس نے دین اسماعیلیہ کی اشاعت کرنی چاہی ،لیکن علمائے اسلام اور امرائے سلجوقیہ نے اس کی شدیدمخالفت کی اور اس کی دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔کوئی ایسا ضرر نہ تھا جو اسے نہ پہنچایا جاتا۔وہ سخت بے بس تھالیکن دین اسماعیلی کی محبت میں سب کچھ برداشت کرتا۔اب اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہا کہ بلخ کو خیر باد کہہ جائے۔ناصر یہاں سے چل کر پوشیدہ طور پر اسماعیلی عقائد کی اشاعت کرتا رہا لیکن جہاں کہیں جاتا اس کے لیے پریشانیاں پیدا ہوجاتیں۔
اس غریب الوطنی کی یاد گار اس کی تصنیف’’زاد المسافرین‘‘ہے اس کتاب میں ناصر خسرو نے اسماعیلی عقائد کو دلائل و براہین سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ناصر خسرو مازندران اور طہرستان سے ہوتا ہوا 456ھ بمطابق 1063ء میں بدخشان پہنچا اور یمگان میں گوشہ نشینی اختیار کی اور یہیں آخر کار 481ھ بمطابق 1088ء وفات پائی۔[7]
“سفرنامہ“نامی تصنیف جو آپ نے بطور سیاح تحریر کی، آپ کی تمام تصانیف اور تخلیقی کارناموں میں ممتاز شمار ہوتی ہے۔ سات سالہ سفر کے دوران میں آپ نے بیسیوں شہروں کا دورہ کیا اور ان تمام شہروں میں مدارس، درسگاہوں، خانقاہوں، مساجد، علاقے، آبادی، سائنسدانوں، بادشاہوں، عوام اور دلچسپ واقعات بارے درج کیا۔ 1000 سال گزرنے کے باوجود آج بھی یہ تصنیف جو “سفرنامہ“ کے نام سے موجود ہے فارسی زبان میں پڑھی جا سکتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب میں استعمال ہونے والی فارسی زبان نہایت سہل ہے۔اسے اردو زبان میں سفرنامہ ناصر خسرو کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔
آپ کی دوسری تصانیف میں آپ کی شاعری کا مجموعہ “دیوان“ کے طور پر شائع کیا گیا، جو آپ کے اواخر عمر میں تخلیق ہوا اور اس کے چیدہ موضوعات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جرات، ان کے پیشرو (خاص کر امام مستنصر)، خراسان کا حال و حکمران، ہجرت، سفر، یاماگان کا خاموش ماحول، دنیا کی بے ثباتی اور زندگی ہیں۔ آپ کے کلام میں موجود موضوعاتی تنوع میں خاص بات یہ ہے کہ ہر موقع کی مناسبت سے امید اور مایوسی کے عین بیچ سبق آموز گوہر بکھرے ہیں۔ آپ کے کلام میں جا بجا دنیا کی بے ثباتی، کائنات میں پھیلی خوبصورتی، انسانی چالوں، ناانصافی، غداری، جدیدیت اور درباری حالات کا تذکرہ عام ہے۔
ناصر خسرو کی ایک اور تصنیف جو خالصتاً فارسی زبان میں فلسفے کا بیان ہے، گشایش و رہایش کے نام سے تخلیق ہوئی۔ اس تصنیف کا انگریزی ترجمہ ایف۔ ایم۔ ہنزائی نے کیا جس کا عنوان "Knowledge and Liberation" ہے۔ اس تصنیف کے موضوعات میں روح، روحانی منازل، اسلامی اور اسماعیلی فرقوں کی تشکیل بارے بیانات ہیں۔ لسانی اعتبار سے آپ کی یہ تصنیف اوائل دور میں فارسی زبان کی بہترین اور سہل ادب میں شامل کی جا سکتی ہے۔
آپ نے اسی دور میں شاعری پر بھی کام کیا جو دو مثنوی مجموعات شائع ہوئے، جو شش فاسی اور روشنایی نامہ کے نام سے دستیاب ہیں۔
ناصر خسرو نے حساب کے موضوع پر بھی ایک کتاب تحریر کی جو اب دستیاب نہیں ہے۔ ناصر خسرو کے مطابق انھیں تمام خراسان اور مشرق میں کوئی ایک بھی ایسا عالم (بشمول ان کے ) نہیں ملا جو حساب کے پیچیدہ سوالات کے جوابات دے سکتا ہو۔ لیکن انھوں نے اپنے آنے والی نسلوں کی آسانی کے لیے بنیادی باتیں قلمبند کرنا اپنی ذمہ داری سمجھ کر یہ کتاب تحریر کی۔
یہ کتاب نثر میں ہے اور اس میں اسماعلیہ عقائد کی وجاحت کی گئی ہے ۔[8]
مثنوی روشنائی نامہ ،بحر ہزج میں ہے۔اس میں عقل ،دانش،علم اخلاق اور علم الٰہیات پر بحث کی گئی ہے ،دانش کے متعلق لکھتے ہیں:
زدانش زندہ مانے جاودانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زنادانی نے ابے زندگانے
نبینی از جہان در دل ملالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کاری کنی مزدی ستانی[9]
ناصر خسرو کی شاعری نصیحت اور عقل سے بھرپور ہے۔ چونکہ آپ خراسان کے فاطمید اماموں کے نمائندہ تھے، اپنے نظریات بارے پیروکاروں کو تعلیم بھی دی۔ ناصر کی فارسی شاعری آج بھی عام فارسی سمجھنے اور بولنے والا پڑھ اور سمجھ سکتا ہے اور یہ اب بھی ایران کے اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔
Have you heard? A squash vine grew beneath a towering tree.
In only twenty days it grew and spread and put forth fruit.
Of the tree it asked: "How old are you? How many years?"
Replied the tree: "Two hundred it would be, and surely more."
The squash laughed and said: "Look, in twenty days, I've done
More than you; tell me, why are you so slow?"
The tree responded: "O little Squash, today is not the day
of reckoning between the two of us.
"Tomorrow, when winds of autumn howl down on you and me,
then shall it be known for sure which one of us is the most resilient!"
نشنیدهای کہ زیر چناری کدو بنی بر رست و بردوید برو بر بہ روز بیست؟پرسید از آن چنار کہ تو چند سالهای؟ --- گفتا دویست باشد و اکنون زیادتی است
خندید ازو کدو کہ من از تو بہ بیست روز --- بر تر شدم بگو تو کہ این کاهلی ز چیست
او را چنار گفت کہ امروز ای کدو --- با تو مرا هنوز نہ هنگام داوری است
فردا کہ بر من و تو وزد باد مهرگان --- آنگہ شود پدید کہ از ما دو مرد کیست
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.