پاکستانی سیاست دان From Wikipedia, the free encyclopedia
میر ظفر اللہ خان جمالی (1 جنوری 1944ء - 2 دسمبر 2020ء) پاکستانی سیاست دان اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم تھے جنھوں نے 2002ء سے لے کر 2004ء تک پاکستان کے 15 ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیا۔
ظفراللہ خان جمالی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
15th وزیر اعظم پاکستان | |||||||
مدت منصب 23 نومبر2002 – 26 جون2004 | |||||||
صدر | پرویز مشرف | ||||||
| |||||||
وزیر اعلیٰ بلوچستان | |||||||
مدت منصب 9 نومبر1996 – 22 فروری1997 ایکٹنگ | |||||||
گورنر | |||||||
| |||||||
مدت منصب 23 جون1988 – 24 دسمبر1988 | |||||||
گورنر | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 1 جنوری 1944ء [1] ڈیرہ مراد جمالی | ||||||
وفات | 2 دسمبر 2020ء (76 سال)[2] راولپنڈی | ||||||
وجہ وفات | دورۂ قلب | ||||||
طرز وفات | طبعی موت | ||||||
شہریت | برطانوی ہند (1944–1947) پاکستان (1947–2020) | ||||||
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ ق | ||||||
رشتے دار | A.R. Jamali (brother) | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ایچی سن کالج | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، بلوچی | ||||||
درستی - ترمیم |
ظفر اللہ جمالی صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم تھے۔ ظفر اللہ جمالی انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو پر عبور رکھتے تھے۔
وہ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم روجھان جمالی میں ہی حاصل کی۔ بعد ازاں سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی مری، ایچیسن کالج لاہور اور 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
جمالی خاندان قیام پاکستان سے ہی ملکی سیاست میں سرگرم رہے تھے۔ ظفر اللہ جمالی کے تایا جعفر خان جمالی قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے علاقے میں آئیں تو ظفراللہ جمالی محافظ کے طور پر ان کے ساتھ تھے۔ جمالی خاندان کے افراد ہر دور میں صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائی میر تاج محمد جمالی (مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر رہے۔ میر عبد الرحمٰن جمالی اور میر فائق جمالی صوبائی کابینہ میں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سن اٹھاسی کے بعد سے ان کے آبائی گاؤں روجھان جمالی سے تین وزراء اعلیٰ بلوچستانمنتخب ہو چکے ہیں جن میں تاج محمد کے علاوہ ظفراللہ کے بھتیجے جان جمالی بھی شامل ہیں۔ میر ظفراللہ کے والد میر شاہنواز جمالی پرانے مسلم لیگی رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھائی تھے جنھوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ظفراللہ کی شادی خاندان میں ہی ہوئی جس سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ دو بیٹے، شاہنواز اور جاوید، پاک فوج میں افسر ہیں جبکہ تیسرے، فریداللہ باپ کی طرح سیاست میں ہیں اور سن ستانوے میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے قبیلے کا ایک بڑا حصہ بلوچستان کے علاوہ صوبہ سندھ میں بھی آباد ہے۔ یوں ان کا سیاسی اور قبائلی اثر و رسوخ دو صوبوں پر محیط ہے۔[3]
ذو الفقار علی بھٹو، میر جعفر خان جمالی کو اپنا سیاسی مرشد مانا کرتے تھے۔17 اپریل 1967ء کو جعفر خان جمالی کی وفات کے موقع پر جب ذو الفقار علی بھٹو روجھان جمالی گئے تو ظفر اللہ جمالی کے والد شاہ نواز جمالی سے انھوں نے کہا کہ اس گھرانے سے سیاست کے لیے مجھے ایک فرد دے دیجیئے، جس کے جواب میں شاہ نواز جمالی نے ظفر اللہ جمالی کا ہاتھ ذو الفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ یہی سے ظفر اللہ خان جمالی نے باقاعدہ عملی سیاست میں قدم رکھا۔[4]
1970ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے۔ 1982ء میں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنے۔ 1985ء کے انتخابات میں نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔ 29ء مئی 1988ء کو جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو انھیں وزیر ریلوے لگادیا۔ 1986ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بنے۔ 1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انھوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا لیکن اسمبلی توڑ دی جسے بعد میں عدالت کے حکم سے بحال کیا گیا۔ اس کے بعد نواب اکبر بگٹی وزیر اعلیٰٰ بنے۔ 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ 1993ء میں کامیاب ہو گئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیر اعلیٰٰ رہے۔ 1997ء میں سینٹ کے ارکان منتخب کیے گئے ۔
1999ء نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو جمالی مسلم لیگ (ق) لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔ یہ جماعت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے والے صدر جنرل پرویز مشرف کی زبردست حمایت کر رہی تھی۔ مخالف دھڑے میں ہونے اور وزیر اعظم کی نامزدگی کے امیدوار ہونے کے باوجود وہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے خواہش مند تھے ۔
انتخابات 2002اکتوبر کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کیا۔ وزیر اعظم کا انتخاب کئی سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا۔ یہ مرحلہ اس وقت روبہ عمل ہوا جب پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا الگ ہو کر مسلم لیگ (ق) کی حمایت پر آمادہ ہوا۔
وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی کی کابینہ میں خورشید قصوری،فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، شیخ رشید احمد، عبدالستار لالیکا، ہمایوں اختر، کنور خالد یونس، نواز شکور، غوث بخش مہر، لیاقت جتوئی، اولیس لغاری، سمیر املک اور سردار یار محمد رند شامل تھے۔
وزیر اعظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے، انھوں نے دورانِ حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی۔ ظفر اللہ جمالی ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اور 26 جون 2004ء کو وزیر اعظم کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے ۔[7]
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعظم جمالی کے لیے اقتدار پہلے دن سے ہی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوا۔ ان کی جماعت کے ارکان پارلیمنٹ میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا جن پر چوہدری برادران کی گرفت خاصی مضبوط تھی۔ مئی 2004ء تک جمالی اور شجاعت اختلافات شدت اختیار کر گئے اور اسمبلی ٹوٹنے اور وسط مدتی انتخابات کی باتیں ہونے لگیں ۔[8] [9]
سیاست دان ہونے کے علاوہ جمالی ایک اسپورٹسمین بھی ہیں۔ جوانی کے دور میں انھوں نے سندھ بھر میں والی بال کے کئی ٹورنامنٹ منعقد کروائے اور یوں اس صوبے میں اس کھیل کو مقبول کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود والی بال کے اچھے کھلاڑی اور کرکٹ اور ہاکی کے شوقین ہیں۔ 2006ء سے 2008ء تک وہ پاکستانی ہاکی فیڈریشن کے صدر اور مختلف ادوار میں انتخابی بورڈ کے رکن بھی رہے ہیں۔
نومبر 2020ء میں، ظفر اللہ خان جمالی کو دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد وینٹیلیٹر لگایا گیا تھا۔ 2 دسمبر 2020ء کو 76 سال کی عمر میں راولپنڈی میں ان کا انتقال ہو گیا۔[11][12][13]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.