طلیحہ بن خویلد
From Wikipedia, the free encyclopedia
طلیحہ ابن خویلد اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو گئے اور دعوائے نبوت کر دیاـ بہت سارے عرب قبائل نے فتنہ ارتداد میں اس کی نبوت کو قبول کر لیا کیونکہ وہ بنو اسد کے ایک مشہور جنگجو اور دلیر سردار کے طور پر جانا جاتا تھا، طلیحہ نے لگ بھگ ستر ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ فتح کرنے کی مہم شروع کی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بطور خلیفہ قریش پر مشتمل ایک لشکر اس کی بیخ کنی کے لیے ارسال کیا جس کے تین حصے کیے گئے، حضرت علیؓ، حضرت زبیر ابن العوام ؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو ہر ایک حصے کا کمانڈر بنایا،، اس لشکر نے طلیحہ کی پیش قدمی تو روک لی، مگر اس کا لشکر بہت بڑا تھا لہذا خالد ابن ولید کو ان کی مدد کے لیے بھیجا گیا۔ طلیحہ کو شکست ہوئی، اس کے لشکر میں شامل دیگر عرب قبائل نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کر لیا، جبکہ طلیحہ پہلے شام فرار ہوا اور پھر شام کے فتح ہونے پر پلٹ کر دوبارہ اسلام قبول کر لیاـ
طلیحہ بن خویلد | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
وفات | سنہ 642ء [1] نہاوند |
وجہ وفات | لڑائی میں مارا گیا |
طرز وفات | لڑائی میں ہلاک |
شہریت | خلافت راشدہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ خندق ، جنگ بزاخہ ، قادسیہ کی لڑائی ، نہاوند کی لڑائی |
درستی - ترمیم |
بعد میں طلیحہ نے ایران کے خلاف اسلامی لشکر کے ایک حصے کی قیادت کی جو اس کے قبیلے کے جنگجوؤں پر مشتمل تھا، جبکہ لشکر کی قیادت سعد بن ابی وقاصؓ کے ہاتھ میں تھی، نہاوند کی جبگ میں ایرانی شکست کا سب سے بڑا حصے دار طلیحہ تھا، جس کی بہادری کی دھاک ایرانی لشکر پر بیٹھ گئی تھی، وہ رات کے اندھیرے میں 12 کلومیٹر تن تنہا اکیلے ایرانی لشکر کے کیمپ میں گئے اور کچھ ایرانی قتل کر کے قیدی بھی ساتھ لے آئے،، اسلام کی طرف سے ذو قصہ، قادسیہ اور جلولہ کی جنگوں میں شریک رہے اور آخری معرکے میں اللہ کی راہ میں شہادت پائی خلیفہ وقت حضرت عمرؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ نے ان کے بارے میں بہترین تعریفی کلمات فرمائےـ