پاکستانی ٹی وی میزبان اور اداکار From Wikipedia, the free encyclopedia
طارق عزیز (28 اپریل: 1936ء|وفات: 17 جون 2020ء) پاکستان کے نامور صداکار، اداکار اور شاعر تھے۔ وہ جالندھر کے ارائیں خاندان میں میاں عبدالعزیز پاکستانی کے ہاں پیدا ہوئے، جنھوں نے قیام پاکستان سے گیارہ سال قبل اپنے نام کے ساتھ ’پاکستانی‘ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے حوالے سے نازیبا کلمات کہنے پر میاں عبد العزیز پاکستانی نے اپنے انگریز افسر کے دانت توڑ دیے تھے۔[1]
طارق عزیز | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 28 اپریل 1936 ء جالندھر، برطانوی ہندوستان |
وفات | 17 جون 2020ء (84 سال) لاہور |
مدفن | لاہور |
قومیت | پاکستانی |
جماعت | پاکستان مسلم لیگ (ن) |
زوجہ | حاجرہ طارق عزیز |
والدین | میاں عبد العزیز پاکستانی |
عملی زندگی | |
پیشہ | اداکار، ٹی وی میزبان، شاعر |
وجہ شہرت | بزم طارق عزیز ٹی وی شو |
کارہائے نمایاں | بزم طارق عزیز |
ٹیلی ویژن | نیلام گھر ٹی وی سوال جواب کا شو |
اعزازات | |
تمغا حسن کارکردگی 1992ء میں | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ساہیوال منتقل ہوئے۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو اپنے قریبی دوست مہدی حسن کے ساتھ لاہور کے لیے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ ’آج کے بعد ہم نے گھروالوں سے کچھ نہیں لینا (یعنی اپنا خرچہ اب خود اٹھائیں گے۔)[2] آپ نے اپنا بچپن ساہیوال میں گزارا۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم ساہیوال سے ہی حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔
1964ء میں جب پاکستان ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز پی ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر تھے۔[3] تاہم 1975ء میں شروع کیے جانے والے ان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔[4] یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا اور اسے بعد میں بزمِ طارق عزیز شو کا نام دے دیا گیا۔
جیسے علم و سائنس کی دنیا کی ابتدا ارسطو سے جا ملتی ہے اسی طرح برصغیر میں انٹرٹینمنٹ اور نیوز چینلز پر دکھائے دینے والے ٹی وی پروگراموں کے ہر فارمیٹ کے بانی طارق عزیز جا نکلتے ہیں۔ اس خطے میں اُن کی حیثیت اُستادوں کے اُستاد کی سی تھی۔ نیوز کاسٹنگ ہو یا ہوسٹنگ، اہم شخصیات کے سٹوڈیو انٹرویوز ہوں یا تعلیمی و تفریحی ٹیلی ویژن شوز سکرین پر ان سب کی ابتدا طارق عزیز نے کی۔ اداکار سہیل احمد بتاتے ہیں کہ گذشتہ دو، تین دہائیوں میں پاکستان اور آس پاس کے ممالک کے نجی ٹیلی ویژن چینلز میں جو کچھ بھی دکھایا گیا اُس کی شروعات طارق عزیز کے ہاتھوں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے بڑے انڈین سٹارز کی میزبانی میں چلنے والے ٹی وی شوز کا مرکزی آئیڈیا اور فارمیٹ طارق عزیز کے ٹی وی شوز سے مستعار لیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ سے انڈین نجی ٹی چینل پر مقبول ساجد خان اور رتیش دیش مکھ کا پروگرام ’یاروں کی بارات‘ بالواسطہ طور پر اور پاکستان میں فہد مصطفیٰ کے انعامی ٹی وی شو پر طارق عزیز کے انداز کی گہری چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں اداکاری بھی کی۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت (1967ء) تھی اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔ انھیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1992ء میں حسن کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا گیا۔[4] طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔[5]
26 نومبر 1964ء کو پاکستان ٹیلی ویژن نے جب لاہور سے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو طارق عزیز اُس پر دکھائی دینے والا پہلا چہرہ تھے۔ وہ پی ٹی وی پر 56 برس کی طویل مدت تک نظر آتے رہے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ انھوں نے پی ٹی وی کے علاوہ کسی بھی نجی ٹی وی کے لیے کبھی کام نہ کیا حالانکہ پرائیویٹ سیکٹر سے انھیں بھاری معاوضے کی پیشکشیں کی جاتی رہیں۔ سنہ 2000ء میں جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی شروعات ہوئی تو پی ٹی وی کے سٹارز اور سپر سٹارز کو منہ مانگے معاوضوں پر پرائیویٹ چینلز نے ہائر کیا جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ عوام کو اپنے چینل سے وابستہ کرنا تھا۔ اس مہم کے تحت لگ بھگ پی ٹی وی کے پلیٹ فارم سے معروف ہونے والا ہر چہرہ پرائیویٹ چینلز پر جلوہ گر ہوا، لیکن طارق عزیز پرائیویٹ سیکٹر کی دسترس سے باہر رہے، حالانکہ وہ چاہتے تو نجی ٹی وی شعبے سے اچھی خاصی رقم بنا سکتے تھے۔ زندگی کے آخری 16 برسوں میں طارق عزیز کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کرنے والے آغا قیصر بتاتے ہیں کہ نجی ٹی وی کے ہر قابل ذکر میڈیا ہاؤس کی خواہش رہی کہ طارق عزیز اُن کی ٹی وی سکرین پر آ کر ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگائیں، لیکن انھوں نے قومی ٹی وی سے وابستہ رہنا ہی اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ آغا قیصر نے ایک معروف میڈیا ہاؤس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے ’رمضان ٹرانسمیشن‘ کی پیشکش ہوئی مگر لاکھوں روپے کی آفر کے باوجود انھوں نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ ’جب میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے لاکھوں روپے ٹھکرا دیے ہیں، تو طارق صاحب نے کہا تھا کہ چاہتا ہوں میری بات اور آواز قومی ادارے ( پی ٹی وی) کے ذریعے ہی قوم تک پہنچے۔‘ آغا قیصر نے بتایا کہ طارق عزیز بیماری میں بھی ریکارڈنگ کینسل نہیں کرایا کرتے تھے۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ طارق صاحب کو شدید بخار تھا، ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ ریکارڈنگ کینسل کر دیتے ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ ’نئیں یار لوگ گھراں نوں مایوس واپس جاون گئے‘ (نہیں دوست لوگ مایوس گھروں کو لوٹیں گے)۔ کیمرے آن ہوتے تو شدید بخار میں بھی اُن کے جسم میں بجلی کوند جاتی۔' طارق عزیز کے کیمروں کے سامنے آنے کے حوالے سے سہیل احمد کہتے ہیں کہ ’طارق عزیز ونگ سے یوں سٹیج پر آتے تھے جیسے شیر میدان میں نکلتا ہے[6]
طارق عزیز اپنے کیریئر میں ملک کے سب سے مہنگے ٹی وی ہوسٹ رہے ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا انھوں نے ایک گھنٹے کا معاوضہ دس لاکھ روپے تک بھی وصول کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک گھنٹے سے جتنے منٹ زیادہ ہوتے تو اس کا معاوضہ الگ ملتا تھا۔ لیکن یہ تو ان کے کیریئر کے عروج کا زمانہ تھا۔ وہ سنہ 1960ء میں ریڈیو لاہور سے وابستہ ہوئے جہاں ان کا معاوضہ ڈیڑھ سو روپے طے ہوا تھا۔[7]
لاہور میں وہ دونوں اُردو بازار اور اولڈ کیمپس لا کالج سے ملحقہ محلے کی سڑک پر چارپائیاں بچھا کر سوتے تھے۔ طارق عزیز بتایا کرتے تھے کہ ’ہم دونوں صبح ہونے سے پہلے وہاں سے اٹھ جایا کرتے کیونکہ ہم دونوں اپنے آپ کو ہیروز سمجھتے تھے اور ہمیں شک تھا کہ سامنے والے چوبارے سے ہمیں کوئی دیکھتا ہے۔‘ طارق عزیز پر اُن کی ابتدائی زندگی میں ترقی پسند نظریات کے گہرے اثرات رہے تاہم بعد ازاں وہ عملی سیاست بھی کرتے رہے۔ پاکستانی سوسائٹی میں اُن کا تشخص فنکار اور براڈکاسٹر سے بڑھ کر رہا یہی وجہ ہے کہ انھیں سیاست میں بھی سنجیدہ لیا گیا۔ طارق عزیز نے سنہ 1997ء کے عام انتخابات میں لاہو ر سے قومی اسمبلی کی نشست سے آج کے وزیر اعظم عمران خان کو بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ حملہ کیس کے بعد طارق عزیز عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے[8]
ایک زمانے میں طارق عزیز سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کے ساتھیوں میں شامل تھے۔ انھوں نے بھٹو صاحب کے ہمراہ سرکاری وفد کے ساتھ مختلف ممالک خاص طور پر سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ ان کی زندگی میں ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے بائیں بازو کی سیاست سے آغاز کیا اور پھر بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے دوست بن گئے اور کچھ عرصے بعد نون لیگ کی ٹکٹ سے قومی اسمبلی بھی پہنچ گئے؟ ان سوالات کے جواب میں وہ کہا کرتے تھے کہ ’بھٹو پڑھے لکھے، ذہین، خوبصورت انسان تھے، وہ مجھے پسند بھی تھے لیکن یہاں کوئی بھی بالشویک سیاسی پارٹی نہیں تھی۔‘ہمار ے ہاں تو سیاسی رہنماؤں کو اُردو بولنی بھی نہیں آتی اور جہاں تک آپ جنرل ضیاالحق کی دوستی کا طعنہ دیتے ہیں، مجھے دوست جنرل ضیا نے بنایا تھا، میری یہ خواہش نہیں تھی[9]
طارق عزیز کالم نگار اور شاعر بھی تھے ان کے کالموں کامجموعہ ’داستان‘ اور پنجابی شاعری پر مشتمل کتا ب ’ہمزاد دا دکھ‘ بھی شائع ہوئی تھی۔ وہ ادب اور شاعری سے گہری رغبت رکھتے تھے اور اس کی مثال یہ ہے کہ اُن کے چاہنے والوں نے دیکھا کہ اپنے 40 سالہ طویل ٹی وی شو میں کسی قابل ذکر شاعر کا کوئی ایسا شعر نہ تھا جو انھیں ازبر نہ ہوتا۔ طارق عزیز ایک عرصہ فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے لگ بھگ 25 فلموں میں مرکزی اور اہم نوعیت کے رول کیے۔ یہ طارق عزیز کی خوش قسمتی رہی کہ پاکستانی فلم میکرز نے ان کے لیے کردار بھی ایسے لکھے جن میں انھیں جوشِ خطابت کے مواقع ملتے رہے[10]
اُن کی پہلی فلم ’انسانیت‘ تھی جس میں وہ ’کلک‘ کر گئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب مشرقی اور مغربی پاکستان کا ایک وسیع سرکٹ موجود تھا اور فلم ساز اپنی فلموں کے پوسٹروں پر گھریلو، معاشرتی اور اصلاحی فلم کے سابقے بھی نمایاں لکھواتے تھے۔ پرویز ملک نے طارق عزیز کو کاسٹ کر کے فلم ’سوغات‘ بنائی تھی جس میں انھوں نے ایک سچے اور کھرے انسان کا کردار نبھایا تھا۔ فیاض شیخ کی فلم ’زخمی‘ میں انھوں نے اداکار محمد علی کے سامنے بہترین پرفارمنس دی تھی۔ مذکورہ فلم کے مکالمے ریاض شاہد نے لکھے تھے جسے طارق عزیز نے اپنی متاثر کن آواز سے یادگار بنا دیا تھا۔ ہدایتکار قمر زیدی کی فلم ’سالگرہ‘ حسن طارق کی ’کالو‘ اُن کی اہم فلمیں تھیں۔ ’ساجن رنگ رنگیلا‘ خود طارق عزیز نے پروڈیوس کی اور جو کچھ فلم سے کمایا تھا سب اس فلم پر لگا دیا۔ ’ہار گیا انسان‘ طارق عزیز کے فلمی کیریئر کی اہم فلم تھی لیکن بُری طرح فلاپ ہوئی تھی حالانکہ اس میں طارق عزیز نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا تھا جو ککھ پتی سے لکھ پتی بن کر اپنے آپ کو فرعون سمجھنے لگتا ہے مگر پھر خدا کے عذاب کا شکار ہوتا ہے[11]
ٹیلی ویژن کے حوالے سے ان کا نظریہ رہا کہ اس میڈیم سے قوم کو تفریحی فراہم کرنے کے ساتھ تعلیم اور تربیت کا اہم فریضہ بھی سر انجام دیا جائے۔ آغا قیصر بتاتے ہیں کہ ’ایک مرتبہ میں نے طارق صاحب سے کہا کہ نجی ٹی وی کے انعامی شو میں معمولی سوالات پر موٹرسائیکلیں دی جا رہی ہیں، آپ بھی یہ سلسلہ شروع کریں۔ اس پر طارق صاحب نے قدرے سخت لہجے میں کہا کہ No & Never ایسا کبھی دوبارہ نہ کہنا کیونکہ میں اپنی قوم کو لالچ، حرص اور تن آسانی کی نہیں بلکہ محنت، ریاضت اور علم حاصل کرنے کی عادت ڈالنا چاہتا ہوں۔‘ صوفی تبسم کے پوتے ڈاکٹر جاوید صوفی بتاتے ہیں کہ ’سنہ 1978ء میں اور میرا دوست نیلام گھر میں مہمان بنے۔ ہم دونوں دوست طارق عزیز کے روبرو تھے اور گاڑی کے لیے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔‘ہمیں ٹارگٹ دیا گیا تھا کہ ہم نے 22 سوالات کا جواب دے کر گاڑی جیتنا تھی۔ میں اور میرے دوست نے بیس سوالات کے جواب دیے، ہم سے دوغلطیاں ہوئیں جس کے بعد ہم گاڑی کی بجائے ٹیلی ویژن جیت کر گھر لوٹے تھے۔‘ ڈاکٹر ٹونی نے بتایا کہ ’نیلام گھر‘ کا فیڈ بیک اس قدر زبردست تھا کہ ہم پورے علاقے میں ایک طویل عرصہ تک ہم لائق فائق مشہور ہو گئے تھے[12]
طارق عزیز بتایا کرتے تھے کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ انھوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے متبرک کام میں ایک مزدور کی حیثیت سے کچھ دیر کام کیا۔ آغا قیصر کے مطابق طارق عزیز بتاتے تھے کہ انھیں خانہ کعبہ میں ایک اینٹ لگانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ’انھیں یہ سعادت خانہ کعبہ کی تعمیر نو پر تعینات ایک پاکستانی کنٹریکٹر کے تعاون سے نصیب ہوئی تھی جو اُن کا مداح تھا[13]
’دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘ یہ وہ جملہ ہے جو ربع صدی سے زائد وقت سے ہماری سماعتوں میں گونجتا رہا۔ طارق عزیز جب اپنے ٹی وی شو کے آغاز میں بھاگتے ہوئے لوگوں کے سامنے آتے اور یہ جملہ ادا کرتے توسب ہاتھ دیوانہ وار تالیاں بجا کر اُن کا استقبال کیا کرتے۔سینیئر اداکار اور طارق عزیز کے قریبی دوست محمد قوی خان بتاتے ہیں کہ یہ ابتدائیہ طارق نے یوں اختراع کیا تھا کہ ایک دن اسے ایک ایسا پُرستار ملا جو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔’اُس نے کہا طارق عزیز صاحب میں تو آپ کا ہر پروگرام سنتا ہوں، بلکہ کانوں سے سنتے ہوئے آپ کو دیکھتا ہوں، لیکن آپ مجھے کبھی مخاطب ہی نہیں کرتے۔ اس نابینا پرستار کی فرمائش پر خدا نے طارق کو یہ خیال بخشا اور اس کے دماغ میں یہ جملہ اُترا کہ ’دیکھتی آنکھوں سُنتے کانوں کو طارق کا سلام پہنچے۔‘ اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ طارق عزیز کا سلام ساری دنیا تک پہنچ گیا۔
طارق عزیز ایک علم دوست شخصیت ہونے کے حوالے سے خود بھی قلم کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے رہے ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ’’داستان‘‘ کے نام سے اور پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’’ہمزاد دا دکھ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے نہ صرف اردو بلکہ اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی ہے۔
پنجابی غزل
گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے | ایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے | |
میں سوچناں واں چونہوں دِناں لئی | ایہہ خواہشاں دا حباب کیہ اے | |
جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکدا | تے فیر جگ دی کتاب کیہ اے | |
ایہہ سارے دھوکے یقین دے نے | نئیں تے شاخ گلاب کیہ اے | |
ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے | ||
تے حکم عالی جناب کیہ اے |
٭٭٭٭٭
آزاد نظم سے اقتباس [14]
دوست یہ تو کی ہے تو نے بچوں کی سی بات | ||
جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبووں کے بھید | ||
اس میں دل پر گہرے درد کا بھالا کھانا پڑتا ہے | ||
ہنستے بستے گھر کو چھوڑ کے بن میں جانا پڑتا ہے | ||
تنہائی میں عفریتوں سے خود کو بچانا پڑتا ہے | ||
خوشبوگھر کے دروازوں پر کالے راس رچاتے ہیں | ||
جو بھی واں سے گزرے اس کو اپنے پاس بلاتے ہیں | ||
زہر بھری پھنکار سے اس کے جی کو خوب ڈراتے ہیں | ||
جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبووں کے بھید |
٭٭٭٭٭
پی ٹی وی کراچی کے سابق جی ایم قاسم جلالی نے طارق عزیز کی بحیثیت پروگرام کمپئیر فنی صلاحیتوں کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔
” | ان دنوں جبکہ پروگرام ریکارڈ کرنے کی بجائے براہ راست چلائے جاتے تھے،طارق عزیز کو سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔پروگرام شروع کرنے کے بعد کسی اداکار یا کردار نے آنا ہوتا تھا اور اسے آنے میں تاخیر ہوجاتی تو طارق عزیز دیکھنے والوں کو اپنی ایسی باتوں میں لگا لیتے کہ تاخیر محسوس ہی نہیں ہوتی تھی ، یوں تاخیر کا عرصہ کمال خوبی سے ازخود نکل جاتا تھا۔[15] | “ |
طارق عزیز نے 17 جون 2020ء کو 84 سال کی عمر میں، لاہور میں وفات پائی۔
طارق عزیز کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی انھوں نے مرنے سے قبل اپنی تمام جائداد اپنے پیارے وطن پاکستان کو وقف کردی۔ ان کی وصیت کے مطابق تدفین سے قبل ان کی پراپرٹی اور 4 کروڑ 41 لاکھ روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرادی گئی،
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.