دھشت گردی کے خلاف جنگ From Wikipedia, the free encyclopedia
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2001ء میں امریکی ٹریڈ سنٹر پر حملے کو جواز بنا کر "دہشت گردی کے خلاف جنگ" (war on terror) کا اعلان کیا۔ اس جنگ کا پہلا نشانہ افغانستان بنا۔ اس کے بعد عراق۔ شروع ہی میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس جنگ کو صلیبی جنگ (Crusade war) بھی کہا جس سے اس کی اصل نیت واضح ہوتی ہے اگرچہ بعد میں اس لفظ کو استعمال نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ دو تہذیبوں کی جنگ نہیں ہے۔ [44]
دہشت کے خلاف جنگ War on Terror | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
Clockwise from top left: Aftermath of the 11 ستمبر attacks; American infantry in افغانستان; an American soldier and Afghan interpreter in صوبہ زابل، Afghanistan; explosion of an Iraqi car bomb in بغداد۔ | |||||||
| |||||||
مُحارِب | |||||||
NATO participants: full list Non-NATO participants: full list
International missions *:
|
Main targets: Others
Former
| ||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
جارج ڈبلیو بش |
al-Qaeda اسامہ بن لادن Islamic State of Iraq and the Levant ابوبکر البغدادی Taliban ملا عمر Tehrik-i-Taliban ملا فضل اللہ Haqqani Network جلال الدین حقانی |
11 ستمبر 2001ء کو دو مسافر بردار طیارے نیویارک میں واقع عالمی تجارتی مرکز (ورلڈ ٹریڈ سینٹر ٹاورز) کی بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرا گئے، جس سے یہ مینار زمین بوس ہو گئے۔ امریکی انتظامیہ کے مطابق طیاروں کو فضا میں اغوا کر کے جان بوجھ کر عمارتوں سے ٹکرایا گیا اور اس کی ذمہ داری القاعدہ نامی تنظیم کے سر ڈالی گئی۔ اس واقع کو امریکی ذرائع ابلاغ نے 9/11 (نائن الیون) کا نام دیا۔ تاہم ابھی تک غیر جانبدار ذرائع سے اس دن کے حالات و واقعات کی مکمل و درست تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔ بہت سے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔[45] امریکی اس معاملے میں حقیقت سے بالا ہو چکے ہیں۔ چنانچہ امریکی صدر کے ایلچی کارل روو کا بیان ہے کہ
- "ہم اب ایک بادشاہت ہیں۔۔ ہم اپنی حقیقت خود بناتے ہیں۔"
- we're an empire now – we create our own reality
9/11 کو جواز بنا کر افغانستان اور عراق پر امریکا اور اس کے حواریوں نے جنگ مسلط کی۔ افغانستان سب سے پہلے نشانہ بنا۔ افغانستان کے خلاف اس جنگ میں تقریباً تمام مغربی ممالک امریکا کے حواری بن کر شامل ہو گئے۔ ان ممالک میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیٹو تنظیم کے بیشتر ممالک شامل ہیں۔ اس کارروائی میں نیٹو فوجوں نے ہوائی طاقت کا بے شمار استعمال کرتے ہوئے فرضی دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہوئے انگنت بم افغانستان کے علاقہ پر گرائے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج انوکھے انداز سے جنگ لڑ رہی ہے۔ اگر امریکی فوجی فائرنگ کی زد میں آ جائیں تو فوراً بمبار لڑاکا ہوائی جہازوں کی مدد مانگ لیتے ہیں۔ لڑاکا جہاز سارے علاقے پر اندھا دھند بمباری کر کے سینکڑوں رہائشیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔[46] ویڈٰیو گیم کی طرح لوگوں کو فضا سے نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے۔[47] نئے امریکی صدر بارک اوبامہ نے 2009 میں جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے خلاف جنگ تیز کرنے کے لیے میرین برگیڈ روانہ کیا۔[48] نیٹو فوجوں کی طرف سے قتل و غارت کا سلسہ 2011ء تک بھی جاری و ساری ہے۔[49]
بہت سے لوگوں کو دنیا کے مختلف حصوں سے اغوا کر کے امریکا نے کیوبا کی خلیج گوانتانامو میں واقع ایک امریکی فوجی اڈے کے زندانوں میں قید کر رکھا ہے۔ یہ قید خانہ امریکی نظامِ انصاف کے ماتحت نہیں آتا بلکہ امریکی فوج اور خفیہ ادارے اسے چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ CIA نے یورپ کے کئی ممالک میں نجی جیل قائم کیے، جو ہر طرح کی عدالتی نگرانی سے آزاد تھے۔ اس کے علاوہ بحری جہازوں میں بھی اغواشدگان کو قید کیا گیا۔[50] یہاں قیدوں پر اذیت ناک تشدد (torture) کیا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ "پانی تختہ" کی اذیت بھی استعمال کی گئی، جس کی اجازت امریکی حکومت کے بالائی ایوانوں نے دی۔[51][52] صلیب احمر (ریڈکراس) نے اس کی تصدیق کی ہے کہ امریکی جنیوا معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قیدیوں پر تشدد میں ملوث رہے ہیں۔[53] FBI کے کارندوں نے گوتانمو میں امریکی فوجی اور CIA کے ہاتھوں ہونے والے تشدد پر ایک فائل کھولا، جس کا عنوان "جنگی جرائم" تھا۔[54] 2008ء میں بارک اوبامہ امریکا کا صدر بنا، تو اس نے گوتانامو کا عقوبت خانہ بند کرنے کا وعدہ کیا۔ پھر امریکی تشدد کے طریقوں کی تفصیل اخبارات کو جاری کیں۔ نیز کہا کہ تشدد کے جرائم پر کسی امریکی اہلکار کو سزاوار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔[55] اگست 2009ء میں ACLU نے امریکی حکومت سے بگرام ہوائی اڈا کے شمال میں محبوس 600 سے زائد قیدیوں کے بارے استفسار کیا، اس خدشے کے پیش نظر کہ یہ جگہ نیا گوتوانمو عقوبت خانہ بن چکا ہے۔[56]
برطانیہ اپنے شہریوں کو تیسرے ملک بھیج کر تشددی تفتیش میں ملوث رہا۔[57] برطانوی فوج بھی عراقی شہریوں کے اغوا، تشدد اور قتل میں ملوث رہی۔[58][59] نازی پولیس کی طرح برطانوی فوجی بھی شہریوں کو گرفتار کر کے ان کے سروں پر گھٹن ٹوپ ڈالتے رہے۔[60]
امریکی سرکاری اداروں اور فوج نے بہت سے جنگی کام تجارتی اداروں کو ٹھیکے پر دے دیے۔ اس میں سب سے زیادہ بدمشہور کمپنی بلیکواٹر ہے جس کے امریکی نائب صدر ڈک چینی سے تعلقات تھے۔ تجارتی کمپنی کو اسی کام کے پانچ گنا پیسے ملتے جو ایک سرکاری ملازم کو ملتے۔ CIA نے بھی تجارتی اداروں کو تشدد اور جیل چلانے کے ٹھیکے دیے۔ مشہور ہوائی جہاز کمپنی بوئنگ بھی اس کام میں ملوث رہی۔ ان کمپنیوں کو عدالتی کارروائی سے بچانے کے لیے امریکی حکومتیں جارج ڈبلیو بش اور بارک اوبامہ کی صدارت میں سینہ سپر رہیں۔[61]
اس جنگ کی آڑ لے کر امریکی حکومت نے اپنے عوام کی آزادیاں بھی سلب کرنا شروع کر دیں۔ امریکی کانگریس نے امریکی عوام پر وسیع پیمانے کی جاسوسی کی منظوری دی۔[62] اس قانون سے امریکی آئین کی چوتھی ترمیم عضو معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے ایک امریکی شہری ہوزے پاڈیلا پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر خصوصی عدالت میں مقدمہ چلانے میں ناکامی کے بعد فلوریڈا کی ایک jury سے چھوٹے موٹے دہشت گردی الزامات میں سزا کا فیصلہ حاصل کر لیا۔[63]فلوریڈا یونیوسٹی پروفیسر سمیع کے خلاف دہشت الزامات میں عدالتی ناکامی کے بعد امریکی انتظامیہ نے اسے ملک بَدر کر دیا۔[64] امریکا میں مقیم 5000 مسلمان افراد کو بغیر کسی الزام کے جیل میں بند کر دیا گیا۔[65] امریکی ایف۔بی۔آئی۔ باقاعدہ مسلمانوں کو پھانسنے کے لیے عادی مجرموں کو بھاری رقوم دیتی ہے جو باتوں باتوں میں نوجوان مسلمانوں سے "قابلِ اعتراض" جملے کہلوا لیتے ہیں جس پر امریکی عدالتوں سے آسانی سے سزا کا فیصلہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔[66] کینیڈا کے خفیہ ادارے شہریوں کو غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک کے حوالے کرنے میں ملوث رہیں۔[67]
2006ء میں امریکی کانگریس نے سرکار کی طرف سے قید کو عدالت میں اعتراض کا بنیادی انسانی حق (Habeas Corpus) معطل کر دیا۔[68] دوسرے مغربی ممالک میں بھی آئینی آزادیاں سلب کرنے کے قانون بنائے گئے جن کی توثیق عدالتی فیصلوں سے ہوئی۔[69]
عالمی سیاست میں "terror" اور "terrorist" کے الفاظ امریکا اور مغربی طاقتوں کا عملی طور پر نشان تجارہ بن چکے ہیں۔ جس کو چاہیں "دہشت گرد" قرار دے دیں اور کوئی دوسرا ان الفاظ کو اپنے مرضی سے استعمال نہیں کر سکتا۔ اس تدبیر کے تحت پاکستان کے انسداد دہشت گردی کا قانون [70] جس میں اجتماعی آبروریزی کو دہشت گردی میں شامل کیا گیا تھا، کو امریکی فیصلے کے مطابق ختم کر دیا گیا کیونکہ دہشت گردی کی تعریف امریکی مرضی سے ہی ہو سکتی ہے۔ اگست 2007ء میں امریکا نے ایران کی ایک سرکاری فوجی تنظیم پاسداران انقلاب کو "دہشت گرد" قرار سے دیا۔[71]
اس "جنگ" میں مغربی ممالک کی انتظامیہ کو دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ذرائع ابلاغ (اخبارات، ریڈیو، ٹی وی) کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔[72][73] مغربی ممالک کی انتظامیہ بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جھوٹے دعوے لوگوں تک پہنچانے پر زور صرف کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ جامعات کے پروفیسر بھی جھوٹ پر مبنی مقالے لکھ رہے ہیں۔ بقول جارج سمتھ کے، [74]
A significant and noticeable part of the US and European academy of terrorism studies is like a shark. If it stops swimming forward, it dies.
- امریکی اور یورپی اکادمیِ مطالعۂ دہشت ایک شارک کی ماند ہے، اگر یہ آگے کی طرف تیرنا بند کر دے تو مر جاتی ہے۔
امریکی صدر اور اس کی انتظامیہ کے تشدد میں ملوث ہونے کی کہانی طشت از بام ہونے کے بعد نیو یارک ٹائمز جیسے اخبار پردہ پوشی کی کوشش میں لگ گئے۔[75] عراقی شہر فالوجہ میں امریکی فوج کے بے دریغ قتل عام کو بہادر جنگ کا نام دیتے ہوئے اس پر منظرہ کھیل تیار کیے گئے[76] اور بچوں کی کتابوں پر اجارہ دری رکھنے والی کمپنی سکالسٹک نے کتابیں چھاپیں۔[77]
جنگجو مغربی ممالک میں "حزب اختلاف" نے بھی اپنی حکومتوں کا بالعموم بھرپور ساتھ دیا۔ امریکا میں ڈیموکریٹ پارٹی نے کانگریس میں عراق جنگ کے حق میں ووٹ ڈالے۔[78] 2006ء میں ڈیموکریٹ جماعت نے امریکی کانگریس میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی عراق جنگ کو ختم کرنے کی طرف کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔[79]
کینیڈا میں لبرل اور قدامت پسند جماعتوں نے حکومت اور حزب اختلاف دونوں میں ہوتے ہوئے افغانستان پر جنگ کی بھرپور حمایت جاری رکھی۔
برطانیہ کی قدامت پسند حزب اختلاف نے بھی حکمران لیبر پارٹی کی تدابیر کی بھرپور حمایت کی۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے "دہشت گردی" مغربی حکومتوں کی نفسیات پر سوار ہے۔ مغربی ممالک کا طریقہ واردات یہ بن رہا ہے کہ دہشت گردی کے الزامات میں مسلمانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ میں اس کی بے پناہ تشہیر کرتے ہوئے ان کا تعلق القاعدہ سے جوڑا جاتا ہے۔ مثلاً برطانیہ کے مکین اپنے ملک میں سیاست دانوں کے جھوٹے دعوٰں کو تو شاید بھانپ جائیں مگر دوری کے سبب آسٹریلیا میں دہشت گرد کی گرفتاری کو درست سمجھ جانے کا امکان زیادہ ہو گا۔
آسٹریلیا میں جھوٹے دہشت گردی الزامات میں ایک بھارتی مسلمان ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا، اسی وقت جب برطانیہ میں کچھ مسلمان ڈاکڑ "دہشت گردی" کے الزامات میں گرفتار کیے گئے۔ آسٹریلوی حکومت کو البتہ منہ کی کھانی پڑی جب ڈاکٹر کے خلاف الزامات وکیلوں نے بآسانی جھوٹے ثابت کر دیے۔[80]
عراق پر حملہ کو جائز ثابت کرنے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے میں آسٹریلوی وزیر اعظم جان ہاورڈ آگے آگے رہا اور اپنی فوج کو بھی شرمناک حملے میں حصہ لینے بھیجا۔ آسٹریلیا نے افغانستان پر امریکی حملے میں بھی اپنی افواج سے حصہ لیا۔
ایک مسلمان نوجوان کو "غیر جمہوری دہشت گرد رویہ" پر دہشت گردی قانون مروجہ 2000ء اور 2006ء کے تحت سزا سنا دی گئی۔[81] 21 سالہ نوجوان محمد عاطف کو اپنے کمپیوٹر پر "دہشت مواد" رکھنے پر آٹھ سال کی قید سنائی گئی۔[82] نئے کالے قوانین کے تحت مسلمان خاتون کو قابل اعتراض نظم لکھنے پر سزا۔[83] برطانیہ نے طالب علم محمود ہاشمی کو کسی ملزم کے اس بیان پر کہ وہ ایک رات محمود کے گھر ٹھیرا تھا، دہشت کے الزام میں گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کر دیا۔[84]
برطانیہ نے عراق اور افغانستان پر امریکی حملے میں اپنی افواج سے حصہ لیا۔ برطانوی شاہی خاندان کے شہزادے ہیری نے افغانستان میں بم برسانے میں بطور معاون کچھ ہفتے گزارے اور مغربی دنیا میں بے تحاشا داد پائی۔ [85]
2006ء میں اٹھارا مسلمانوں کو جن میں بچے بھی شامل تھے، پولیس نے دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کر لیا جو اب تک قید ہیں۔ مقدمے کی تفصیلات شائع کرنے پر عدالت نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔[86] عدالت کے ایک رکنی جج نے کینیڈا کے خاص دہشت گردی نئے قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر ثبوت کے ایک بچے کو سزا سنا دی۔[87]
کینیڈا نے افغانستان پر امریکی قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اپنی افواج بھجوائیں۔ کینڈائی سرکاری افسر نے پارلیمان کو بتایا کہ 2006-2007ء میں کینڈائی فوج کا معصوم افغانوں کو پکڑ کر تشدد کے لیے افغانی سرکاری پولیس کے حوالے کرنا معمول تھا۔[88]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.