صحابی و مؤذن From Wikipedia, the free encyclopedia
بلال ابن رباح رضی اللہ تعالٰی عنہ(42ق.ھ / 20ھ) (عربی: بلال بن رباح الحبشي) المعروف بلال حبشی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور صحابی تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مؤذن بنایا تھا۔سفر و حضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔آپ بہت ہی مشہور صحابی ہیں ۔ آپ کے والد کا نام رباح ہے ۔ آپ حبشہ کے رہنے والے تھے اور مکہ مکرمہ میں ایک کافر امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ اسی حال میں مسلمان ہو گئے ۔امیہ بن خلف نے آپ کو بہت ستایا اور آپ پر بڑے بڑے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے مگر آپ رضی اللہ عنہ پہاڑ کی طرح اسلام پر ڈٹے رہے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
بلال ابن رباح | |
---|---|
(عربی میں: بلال بن رباح) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | بلال بن رباح |
پیدائش | سنہ 581ء مملکت اکسوم |
وفات | سنہ 642ء (60–61 سال) دمشق |
مدفن | باب صغیر |
شہریت | خلافت راشدہ |
کنیت | ابو عبد الکریم ابو عبد اللہ ابو عمرو |
زوجہ | ہند الخولانیہ |
والدہ | حمامہ |
عملی زندگی | |
نسب | حبشی |
پیشہ | صحابی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوات نبوی |
درستی - ترمیم |
عنہ نے ایک کثیر رقم اور ایک غلام دے کر ان کو امیہ بن خلف سے خرید لیا اور اللہ و رسول کی رضا جوئی کے لیے ان کو آزاد کر دیا۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انھوں نے ہمارے سردار (بلال) کو آزاد کیا۔
خدا کی شان کہ جنگ بدر میں امیہ بن خلف کو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے چند انصاریوں کی مدد سے قتل کیا ۔ تمام اسلامی جہادوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ جہاد فرماتے رہے اور مسجد نبوی کے مؤذن بھی رہے ۔ وصال نبوی کے بعد مدینہ طیبہ میں رہنا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی جگہ کو خالی دیکھنا ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا۔فراق رسول میں ہروقت روتے رہتے اس لیے مدینہ منورہ کو خیر باد کہہ دیا اور ملک شام میں سکونت اختیار کرلی ۔ پھر 20ھ میں 63 برس کی عمر پا کر شہر دمشق میں وفات پائی اور باب الصغیر قبرستان میں مدفون ہوئے اور بعض مؤرخین کا قول ہے کہ آپ کی وفات شہر حلب میں ہوئی اور باب الاربعین میں آپ کی قبر مبارک بنائی گئی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ [1] [2][3]
[4]
بلال نام ، ابو عبد اللہ کنیت ، والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ یہ حبشی نژاد غلام تھے ؛لیکن مکہ ہی میں پیدا ہوئے ، بنی جمح ان کے آقا تھے۔[5] [6]
حضرت بلال ؓ صورت ظاہری کے لحاظ سے تو ایک سیاہ فام حبشی تھے،تاہم آئینۂ دل شفاف تھا۔اس کو ضیائے ایمان نے اس وقت منور کیا، جب کہ وادیٔ بطحاء کی اکثر گوری مخلوق غرورِ حسن وزعمِ شرافت میں ضلالت و گمراہی کی ٹھوکریں کھا رہی تھی۔جن معدودے چند بزرگوں نے داعیِ حق کو لبیک کہا تھا ان میں صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی۔ جن میں ایک یہ غلام حبشی بھی تھا، سچ ہے۔ [7][8]
کمزور ہمیشہ سب سے زیادہ ظلم و ستم کا آماجگاہ رہتا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو ذاتی حالت تھی، اس کے لحاظ سے وہ اور بھی اس ناموس جفا کے شکار ہوئے ، گوناگوں مصائب اور طرح طرح کے مظالم سے ان کے استقلال و استقامت کی آزمائش ہوئی، تپتی ہوئی ریت ،جلتے ہوئے سنگریزوں اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹائے گئے، مشرکین کے لڑکوں نے گلے مبارک میں رسیاں ڈال کر بازیچۂ اطفال بنایا؛ لیکن ان تمام روح فرسا آزمائشوں کے باوجود توحید کی مضبوط رسی کو ہاتھ سے نہ چھوڑا، ابوجہل ان کو منہ کے بل سنگریزوں پر لٹا کر اوپر سے پتھر کی چکی رکھ دیتا اور جب آفتاب کی تمازت بے قرار کردیتی تو کہتا، بلال ؓ اب بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا سے باز آجا لیکن اس وقت بھی دہن مبارک سے یہی احد احد نکلتا تھا۔[9]
ستم پیشہ مشرکین میں امیہ بن خلف سب سے زیادہ پیش پیش تھا، اس کی جدت طرازیوں نے ظلم وجفاکے نئے طریقے ایجاد کیے تھے۔وہ ان کو طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتا ، کبھی گائے کی کھال میں لپیٹتا ،کبھی لوہے کی زرہ پہنا کر جلتی ہوئی دھوپ میں بٹھا تا اور کہتا تمھارا خدا لات اور عزیٰ ہے۔ لیکن اس وارفتۂ توحید کی زبان سے احد احد کے سوا اور کوئی کلمہ نہ نکلتا، مشرکین کہتے کہ تم ہمارے ہی الفاظ کا اعادہ کرو تو فرماتے کہ میری زبان ان کو اچھی طرح ادا نہیں کرسکتی۔ [10] [11]
حضرت بلال ؓ ایک روز حسبِ معمول وادیٔ بطحاء میں مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گذرے تو یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر دل بھر آیا اور ایک گرا نقد رقم معاوضہ دے کر آزاد کر دیا ، آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا، ابوبکر تم مجھے بھی اس میں شریک کرلو، عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آزاد کراچکا ہوں۔ [12] [13]
وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو حضرت سعد بن خثیمہ ؓ کے مہمان ہوئے حضرت ابوردیحہ ؓ عبد اللہ بن عبد الرحمن خثعمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مواخات ہوئی ، ان دونوں میں نہایت شدید محبت پیدا ہو گئی تھی، عہدِ عمر فاروق میں حضرت بلال ؓ نے شامی مہم میں شرکت کا ارادہ کیا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا ، بلال ؓ تمھارا وظیفہ کون وصول کرے گا؟ عرض کیا"ابوردیحہ ؓ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہم دونوں میں جو برادرانہ تعلق پیدا کر دیا ہے وہ کبھی منقطع نہیں ہو سکتا۔ [14] [15]
مدینہ کا اسلام مکہ کی طرح بے بس اور مجبور نہ تھا، یہاں پہنچنے کے ساتھ شعارِ اسلام و دین متین کی اصولی تدوین و تکمیل کا سلسلہ شروع ہوا، مسجد تعمیر ہوئی ، خدائے لایزال کی عبادت و پرستش کے لیے نماز پنجگانہ قائم ہوئی اور اعلان عام کے لیے اذان کا طریقہ وضع کیا گیا ، بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے وہ بزرگ ہیں جو اذان دینے پر مامور ہوئے۔ [16] حضرت بلال ؓ کی آواز نہایت بلند وبالا و دلکش تھی،ان کی ایک صدا توحید کے متوالوں کو بے چین کر دیتی تھی، مرد اپنا کاروبار ، عورتیں شبستان حرم اور بچے کھیل کود چھوڑ کر والہانہ وارفتگی کے ساتھ ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے ، جب خدائے واحد کے پرستاروں کا مجمع کافی ہو جاتا تو نہایت ادب کے ساتھ آستانہ نبوت پر کھڑے ہوکر کہتے حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح، الصلوۃ یا رسول اللہ! یعنی یارسول اللہ نماز تیار ہے،غرض آپ تشریف لاتے اور حضرت بلال رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی صدائے سامعہ نواز تکبیر اقامت کے نعروں سے بندگانِ توحید کو بارگاہِ ذوالجلال والاکرام میں سر بسجود ہونے کے لیے صف بصف کھڑا کر دیتی۔ [17] حضرت بلال ؓ اگر کسی روز مدینہ میں موجود نہ ہوتے تو حضرت ابو محذورہ ؓ اور حضرت عمرو ابن ام مکتوم ؓ ان کی قائم مقامی کرتے تھے، صبح کی اذان عموماً کچھ رات رہتے ہوئے دیتے تھے،یہی وجہ ہے کہ صبح کے وقت دواذانیں مقرر کی گئی تھیں، آخری اذان حضرت عمرو ابن ام مکتوم ؓ دیتے تھے، چونکہ وہ نابینا تھے،اس لیے ان کو وقت کا پتہ نہ تھا ،جب لوگ ان سے کہتے کہ"صبح ہو گئی"تو اُٹھ کر ندائے تکبیر بلند فرماتے تھے، اسی بنا پر رمضان میں حضرت بلال ؓ کی اذان کے بعد کھانا پینا جائز تھا،کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ بلال ؓ کی اذان صرف اس لیے ہے کہ جو لوگ رات بھر عبادتِ الہی میں مصروف رہے ہیں وہ کچھ آرام کریں اور جو تمام رات خواب راحت میں سرشار رہے ہیں وہ بیدار ہوکر نمازصبح کی تیاری کریں، لیکن وہ صبح کا وقت نہیں ہوتا ؛بلکہ کچھ رات باقی رہتی ہے۔ [18] حضرت بلال ؓ سفروحضر ہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کے مؤذن خاص تھے، ایک دفعہ سفر درپیش تھا،ایک جگہ رات ہو گئی، بعض صحابہ ؓ نے عرض کیا،یا رسول اللہ اگر اسی جگہ پڑاؤ کا حکم ہوتا تو بہتر تھا، ارشاد ہوا،مجھے خوف ہے کہ نیند تم کو نماز سے غافل کر دے گی،حضرت بلال ؓ کو اپنی شب بیداری پر اعتماد تھا، انھوں نے بڑھ کر ذمہ لیا کہ وہ سب کو بیدار کر دیں گے، غرض پڑاؤ کا حکم ہوا اور سب لوگ مشغولِ راحت ہوئے، حضرت بلال ؓ نے مزید احتیاط کے خیال سے شب زندہ داری کا ارادہ کر لیا اور رات بھر اپنے کجاوہ پر ٹیک لگائے بیٹھے رہے، لیکن اتفاقِ وقت اس حالت میں بھی آنکھ لگ گئی اور ایسی غفلت طاری ہوئی کہ طلوعِ آفتاب تک ہوشیار نہ ہوئے،آنحضرت ﷺ نے خواب راحت سے بیدار ہوکر سب سے پہلے ان کو پکارا اور فرمایا"بلال رضی اللہ عنہ تمھاری ذمہ داری کیا ہوئی؟" عرض کیا یارسول اللہ آج کچھ ایسی غفلت طاری ہوئی کہ مجھے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا تھا، ارشاد ہوا ، بے شک خدا جب چاہتا ہے تمھاری روحوں پر قبضہ کرلیتا ہے اور جب چاہتا ہے تم میں واپس کر دیتا ہے اچھا اُٹھو ،اذان دو اور لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرو۔ [19] [20]
حضرت بلال ؓ تمام مشہور غزوات میں شریک تھے۔ غزوۂ بدر میں انھوں نے امیہ بن خلف کو تہِ تیغ کیا جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اور خود ان کی ایذارسانی میں بھی اس کا ہاتھ سب سے پیش پیش تھا۔ [21] فتح مکہ میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب تھے،آپ ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس مؤذن خاص کو معیت کا فخر حاصل تھا۔(کتاب المغازی باب دخول النبی ﷺ من اعلی مکہ)انھیں حکم ہوا کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر توحید کی پرعظمت صدائے تکبیر بلند کریں، خدا کی قدرت وہ حریم قدس جو ابوالانبیاء ابراہیم علیہ السلام نے خدائے واحد کی پرستش کے لیے تعمیر کیا تھا، مدتوں صنم خانہ رہنے کے بعد پھر ایک حبشی نژاد کے نغمہ توحید سے گونجا۔ [22] آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی وفات کے بعد حضرت بلال ؓ نے اپنے محسن وولی نعمت حضرت صدیق اکبر ؓ سے عرض کیا ‘یا خلیفۂ رسول اللہ ﷺ آپ نے خدا کے لیے آزاد کیا ہے یا اپنی مصاحبت کے لیے، فرمایا خدا کے لیے، بولے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ راہِ خدا میں جہاد کرنا مومن کا سب سے بہتر کام ہے،اس لیے میں چاہتا ہوں کہ پیامِ صوت تک اسی عمل خیر کو لازمہ حیات بنالوں،حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا بلال ؓ! میں تمھیں خدا اور اپنے حق کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس عالم پیری میں داغِ مفارقت نہ دو، اس مؤثر فرمان نے حضرت بلال ؓ کو عہد صدیقی کے غزوات میں شریک ہونے سے باز رکھا۔ [23]
حضرت ابوبکرؓ صدیق کے بعد حضرت عمرؓ فاروق نے مسند خلافت پر قدم رکھا تو انھوں نے پھر شرکتِ جہاد کی اجازت طلب کی، خلیفہ اول کی طرح خلیفہ دوم نے بھی ان کو روکنا چاہا ؛لیکن جوشِ جہاد کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا ، بے حد اصرار کے بعد اجازت حاصل کی،اور شامی مہم میں شریک ہو گئے،[24] حضرت عمرؓ بن خطاب نے 16ھ میں شام کا سفر کیا تو دوسرے افسرانِ فوج کے ساتھ حضرت بلال ؓ نے بھی مقام جابیہ میں ان کو خوش آمدید کہا اور بیت المقدس کی سیاحت میں ہمرکاب رہے، ایک روز عمر بن خطاب نے ان سے اذان دینے کی فرمائش کی تو بولے گو میں عہد کر چکا ہوں کہ حضرت خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا ، تاہم آج آپ کی خواہش پوری کروں گا یہ کہہ کر اس عندلیب توحید نے کچھ ایسے لحن میں خدائے ذوالجلال کی عظمت و شوکت کا نغمہ سنایا کہ تمام مجمع بیتاب ہو گیا، حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ عنہ اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی، حضرت ابوعبیدہ ؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ بھی بے اختیار رو رہے تھے، غرض سب کے سامنے عہد نبوت کا نقشہ کھینچ گیا اور تمام سامعین نے ایک خاص کیفیت محسوس کی۔ [25] [26] .[6][26]
حضرت بلال ؓ کو ملک شام کی سرسبز و شاداب زمین پسند آگئی تھی، انھوں نے خلیفہ دوم سے درخواست کی کہ ان کو اور ان کے اسلامی بھائی حضرت ابوردیحہ ؓ کو یہاں مستقل سکونت کی اجازت دی جائے، یہ درخواست منظور ہوئی تو ان دونوں نے قصبہ خولان میں مستقل اقامت اختیار کرلی اور حضرت ابوالدرداء انصاری ؓ کے خاندان سے جو پہلے ہی یہاں آکر آباد ہو گیا تھا، رشتہ و مناکحت کی سلسلہ جنبانی فرماتے ہوئے کہا، ہم دونوں کافر تھے، خدا نے ہماری ہدایت کی، ہم غلام تھے ، اس نے آزاد کرایا، ہم محتاج تھے، اس نے مالدار بنایا،اب ہم تمھارے خاندان سے پیوستہ ہونے کی آرزو رکھتے ہیں، اگر تم رشتہ ازوداج سے یہ آرزو پوری کرو گے تو خدا کا شکر ہے،ورنہ کوئی شکایت نہیں، اسلام نے کالے،گورے حبشی اور عربی کی تفریق مٹادی تھی،انصار ؓ نے نہایت خوشی کے ساتھ ان کے اس پیام کو لبیک کہا اور اپنی لڑکیوں سے شادی کردی۔ [27]
حضرت بلال ؓ نے ایک عرصہ تک شام میں متوطن رہنے کے بعد ایک روز رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں"بلال ؓ!خشک زندگی کب تک؟ کیا تمھارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری زیارت کرو؟ اس خواب نے گذشتہ زندگی کے پر لطف افسانے یادلائے،عشق ومحبت کے مرجھائے ہوئے زخم پھر ہرے ہو گئے،اسی وقت مدینہ کی راہ لی اور روضہ اقدس پر حاضر ہوکر مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے،آنکھوں سے سیل اشک رواں تھا،اور مضطربانہ جوش ومحبت کے ساتھ جگر گوشگانِ رسول عینی حضرت امام حسن ؓ اورحضرت امام حسین ؓ کو چمٹا چمٹا کر پیارکر رہے تھے،ان دونوں نے خواہش ظاہر کی کہ آج صبح کے وقت اذان دیجئے، گوارادہ کر چکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد وہ اذان نہ دیں گے؛ تاہم ان کی فرمائش ٹال نہ سکے، صبح کے وقت مسجد کی چھت پر کھڑے ہوکر نعرہ ٔتکبیر بلند کیا تو تمام مدینہ گونج اٹھا، اس کے بعد نعرہ ٔتوحید نے اس کو اور بھی پر عظمت بنادیا؛ لیکن جب "اشہد ان محمد رسول اللہ" کا نعرہ بلند کیا تو عورتیں تک بے قرار ہوکر پردوں سے نکل پڑیں اور تمام عاشقانِ رسول ﷺ کے رخسارے آنسوؤں سے تر ہو گئے،بیان کیا جاتا ہے کہ مدینہ میں ایسا پر اثر منظر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ [28] ،[29]
20ھ میں دنیائے فانی کو خیر باد کہا، کم و بیش ساٹھ برس کی عمر پائی، دمشق میں باب الصغیر کے قریب مدفون ہوئے۔[30] ،[31]
محاسنِ اخلاق نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پایہ فضل و کمال کو نہایت بلند کر دیا تھا، حضرت عمرؓ بن خطاب فرمایا کرتے تھے: ابوبکر صدیق "سیدنا واعتق سیدنا"یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں اور انھوں نے سردار بلال ؓ کو آزاد کیا ہے۔ [32] حبیب خدا ﷺ کی خدمت گزاری ان کا مخصوص مقصدِ حیات تھا، ہر وقت بارگاہ نبوی ﷺ میں حاضر رہتے ، آپ ﷺ کہیں باہر تشریف لے جاتے تو خادم جان نثار کی طرح ہمراہ ہوتے ،عیدین و استسقاء کے مواقع پر بلّم لے کر آگے آگے چلتے۔[33]وعظ وپند کی مجلسوں میں ساتھ جاتے، افلاس وناداری کے باوجود ان کو جو کچھ میسر آجاتا اس کا ایک حصہ رسول اللہ ﷺ کی ضیافت کے لیے پس انداز کرتے ، ایک دفعہ برنی کھجوریں (جو نہایت خوش ذائقہ ہوتی ہیں) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے، آپ نے تعجب سے پوچھا، بلال ؓ یہ کہاں سے؟ عرض کیا میرے پاس جو کھجوریں تھیں وہ نہایت خراب قسم کی تھیں، چونکہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنا تھا اس لیے میں نے دوصاع دے کر یہ ایک صاع اچھی کھجوریں حاصل کیں ،ارشاد ہوا،اُف !اُف ایسا نہ کرو ، یہ تو عین ربا ہے ،اگر تمھیں خریدنا تھا تو پہلے اپنی کھجوروں کو فروخت کرتے پھر اس کی قیمت سے اس کو خرید لیتے۔ [34] حضرت بلال رضی اللہ عنہ مکہ کی زندگی میں جن عبرتناک مظالم و مصائب کے متحمل ہوئے، اس سے ان کی غیر معمولی استقامت واستقلال کا اندازہ ہوا ہوگا، تواضع و خاکساری ان کی فطرت میں داخل تھی، لوگ ان کے فضائل ومحاسن کا تذکرہ کرتے تو فرماتے، میں صرف ایک حبشی ہوں جو کل تک معمولی غلام تھا،[35]صداقت ،بے لوثی اور دیانت داری نے ان کو نہایت معتمد علیہ بنادیا تھا ،ان کے ایک بھائی نے جو بزعم خود اپنے آپ کو عرب سمجھتے تھے،ایک عربی خاتون کے پاس نکاح کا پیام بھیجا،اس کے خاندان والوں نے جواب دیا کہ اگر بلال ؓ ہمارے پاس آکر تصدیق کریں گے تو ہم کو بخوشی منظور ہے،حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا،صاحبو! میں بلال بن رباح ؓ ہوں اور یہ میرا بھائی ہے،میں جانتا ہوں کہ اخلاق و مذہب کے لحاظ سے یہ بُرا آدمی ہے،اگر تم چاہو تو اس سے بیاہ دوورنہ انکار کرو،انھوں نے کہا، بلال ؓ !تم جس کے بھائی ہوگے اس سے تعلق پیدا کرنا ہمارے لیے عار نہیں۔ [36] [37]
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن خاص تھے، اس بنا پر اس کو ہمیشہ خانۂ خدا میں حاضر رہنا پڑتا تھا، معاملات دنیاوی سے سروکار نہ ہونے کے باعث عبادت وشب زندہ داری ان کا خاص مشغلہ تھا، ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم کو کس عملِ خیر پر سب سے زیادہ ثواب کی امید ہے، عرض کیا میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے، البتہ ہر طہارت کے بعد نماز ادا کی ہے۔[38]نماز میں سب سے پہلے آمین کہتے تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے سبقت نہ کیا کرو۔ [39]
ایمان کو تمام اعمال حسنہ کی بنیاد سمجھتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ سب سے بہتر عمل کیا ہے؟ بولے خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، پھر جہاد، پھر حج مبرور [40] [3]
حلیہ یہ تھا ، قد نہایت طویل ، جسم لاغر ، رنگ نہایت گندم گوں، بلکہ مائل بہ سیاہی، سر کے بال گھنے، خمدار اور اکثر سفید تھے۔ [41]
بلال رضی اللہ عنہ نے متعدد شادیاں کیں ، ان کی بعض بیویاں عرب کے نہایت شریف و معزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سے خود رسول اللہ ﷺ نے نکاح کرا دیا تھا، بنو زہرہ اور ابودرداء کے خاندان میں بھی رشتہ مصاہرت قائم ہوا تھا، لیکن کسی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[42]یہ ابو بکر نہیں بلکہ ابو بکیر بن عبدیالیل ہیں بعض اردو سیرت نگاروں نے بغیر تحقیق کے انھیں ابو بکر کا داماد لکھ دیا ہے۔ [43]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.