مشہور فقیہ اور اسلامی عالم دین۔ چار فقہاء میں سے ایک۔ From Wikipedia, the free encyclopedia
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انھیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے فضائل و مناقب میں شیخ جلال الدین سیوطی (شافعی- مقلد) (849-911ھ) اپنی کتاب "التبييض الصحيفه في مناقب الإمام أبي حنيفه" میں تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق امام اعظم ابو حنیفہ رح النعمان ہیں۔
القرآن:
اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے
—
حدیث میں ہے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلمان فارسی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: اس کی قوم اور فرمایا: خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔[9]
اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں) سے نہیں ملے...
—
حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے (وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) 63۔ الجمعہ:3) کی نسبت سوال کیا گیا تو سلمان فارسی کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر علم یا (فرمایا) دین ثریا پر جا پہنچے گا تو اس کی قوم فارس کا مرد وہاں سے بھی لے آئے گا۔[10][11]
مورخ ابن خلکان نے امام اعظمؒ کا شجرۂ نسب اس طرح نقل کیا ہے ابو حنیفہالنعمان بن ثابت بن زُوْطیٰ بن ماہ اورزوطیٰ کو زاء کے پیش اورطا کے زبر اورآخر میں یاء مقصورہ کے ساتھ ضبط کیا ہے،لیکن امام صاحب کے پوتے نے جو شجرۂ نسب اپنے دادا کا خو دبیان کیا ہے وہ اس طرح ہے اسمعیل بن حماد بن النعمان بن ثابت بن النعمان بن المرزبان علامہ شبلی کا خیال یہ ہے کہ جب زوطی اسلام لائے ہوں گے تو ان کا نام نعمان رکھ دیا گیا ہوگا اس لیے جب اسمعیل نے اپنا شجرہ نسب بیان کیا تو اپنے دادا کو اسلامی نام ہی کا ذکر کیاہے۔ صحیح روایات کی بنا پر یہ طے شدہ ہے کہ امام صاحب کے والد ماجد کی ولادت اسلام ہی پر ہوئی ہے،خطیب بغدادی نے جو کچھ اس کے خلاف لکھا ہے وہ محض بے اصل اوران کے مشہور تعصب پرمبنی ہے،غالباً اسی خیال کی تائید کے لیے انھوں نے حسبِ ذیل روایت بھی نقل کی ہے۔ کان ابو حنیفۃ اسمہ عتیک بن زوطرۃ فسمی نفسہ النعمان واباہ ثابتاً ابو حنیفہ کا نام عتیک اوران کے والد کا زوطرۃ تھا پھر انھوں نے اپنا نام نعمان اوراپنے والد کا ثابت بدل دیا تھا اس کا راوی اساجی مختلف فیہ ہونے کے علاوہ مشہور متعصب ہے تاہم اگر اس کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو غالباً ثابت کو زوطرۃ ان کے والد زوطی کی مناسبت سے کہا گیا ہوگا۔
ہمارے نزدیک نام ونسب کے فیصلہ کے لیے نسب سے زیادہ معتبر شہادت خود اہل خاندان ہی کی ہو سکتی ہے لہذا یہاں اسمعیل کے بیان کے خلاف جو بیانات بھی ہیں وہ سب مرجوح یا قابلِ توجہ ہوں گے،اسمعیل یہ بھی نقل فرماتے ہیں کہ ہمارے پردادا ثابت زمانہ طفولیت میں حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے آپ نے اُن کے اوران کی اولاد کے حق میں دعا برکت فرمائی تھی اورہمیں امید ہے کہ ان کی یہ دعا ہمارے حق میں ضرور قبول ہوئی ہوگی،وہ کہتے ہیں کہ ثابت کے والد نعمان وہی ہیں جو حضرت علیؓ کی خدمت میں ھدیہ لے کر حاضر ہوئے تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اعظمؒ کے خاندان کو حضرت علیؓ سے ہمیشہ خاص تعلق رہا ہے اوراسی بنا پر انھوں نے ثابت اوران کی اولاد کے لیے خصوصیت سے دعافرمائی ہوگی، اسمعیل یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ہم فارسی النسل ہیں، ہمارے باپ دادا سب آزاد لوگ تھے اس کے بعد قسم کھاکر کہتے ہیں: واللہ ما وقع علینا رق قط خدا کی قسم ہے غلامی کی ذلت میں ہم کبھی مبتلاء نہیں ہوئے۔
اُن کے اس تاکیدی بیان سے اس غلط شہرت کی تردید ہوتی ہے جو امام صاحب کے دادا کے متعلق پیدا ہو گئی تھی کہ وہ بنی تیم اللہ کے آزاد کردہ غلام تھے،اسمعیل امام اعظمؒ کے پوتے ہیں،اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کو اپنے دادا کے حالات کی بھی پوری تحقیق نہ ہوگی،اسلامی عہد میں رقیۃ کی غلط فہمی پیدا ہوجانا وہ بھی عجم کے نسب میں کچھ بعید نہیں ہے اور واقعہ کی حقیقت منکشف ہوجانے کے بعد غلط فہمیوں کے اسباب بیان کرنے کی مفت درد سری اٹھانا بھی غیر ضروری ہے،ہمارے نزدیک اس افواہ کو شہرت دینے میں بہت بڑا دخل اس خلش کو بھی ہے جو امام اعظمؒ سے رقابت کے سلسلہ میں بعض علما کو پیدا ہو گئی تھی، علامہ کوثری نے مشکل الآثار کی ایک روایت کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کو مولیٰ حلیف کے معنی میں کہا گیا تھا،اگر بالفرض تاریخ سے صحیح طور پر آپ کا اولادِ موالی ہونا ثابت ہوجاتا تو اسلامی نقطۂ نظر سے یہ اتنا بڑا عیب بھی نہ تھا جس کی مدافعت کرنا ہمارے لیے ضروری ہوتا لیکن افسوس یہ ہے کہ عصبیت کی آنکھ جب خشم آلود ہوجاتی ہے تو وہ کوئی ہنر اپنے حریف میں دیکھنا پسند نہیں کرتی۔
آپ کی پیدائش کوفہ میں اوروفات بغداد میں ہوئی ہے،علمی پایہ کے لحاظ سے کوفہ ہمیشہ ممتاز شہر رہا ہے، علامہ کوثری نے نصب الرایہ کے مقدمہ میں اس کی مختصر تاریخ لکھی ہے ہم اس کا خلاصہ یہاں درج کرتے ہیں۔ کوفہ ایک اسلامی شہر ہے جو عہدِ فاروقی 17ھ میں بحکم امیر المومنین تعمیر کیا گیا تھا،اس کے ارد گرد فصحاء عرب بسائے گئے اوران کے تعلیمی نظم ونسق کے لیے سرکاری طور پر حضرت ابنِ مسعودؓ کو بھیجا گیا،ان کی علمی منزلت اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عمرؓ نے اہلِ کوفہ کو یہ لکھا تھا کہ ابن مسعودؓ کی مجھے یہاں خود بھی ضرورت تھی لیکن تمھاری ضرورت کو مقدم سمجھ کر تمھاری تعلیم کے لیے ان کو بھیج رہا ہوں،انھوں نے یہاں بیٹھ کر عہدِ عثمانؓ کے آخری دور تک لوگوں کو قرآن پاک اوردین کے مسائل کی تعلیم دی،ان کی تعلیمی جدوجہد کا یہ نتیجہ ہوا کہ بعض محدثین کے بیان کے مطابق اس نوآباد شہر میں چار ہزار علما ومحدثین پیدا ہو گئے،حتیٰ کہ جب حضرت علیؓ کوفہ میں داخل ہوئے تو علم کی یہ شان دیکھ کر بے ساختہ بول اٹھے،اللہ تعالیٰ ابنِ مسعودؓ کا بھلا کرے انھوں نے تو اس بستی کو علم سے بھردیا کوفہ بحالتِ موجودہ ہی کیا کم تھا کہ اس مدینۃ العلم کی آمدنے اُسے اور چار چاند لگادیئے، ایک سعید بن جبیر تنہا یہاں ابنِ عباسؓ کے علوم کا ایسا نسخہ موجود تھے کہ جب کوفہ والے اُن کے پاس کوئی فتٰوی پوچھنے جاتے تو وہ فرماتے کیا تمھارے یہاں سعید بن جبیر موجود نہ تھے یعنی ان کے ہوتے ہوئے یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔
شعبیؒ کے علم کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابنِ عمرؓ جب ان کو مغازی پر بحث کرتے ہوئے دیکھتے تو فرماتے میں ان غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک رہ چکا ہوں مگر ان کی یاداشت ان کو مجھ سے بھی زیادہ ہے۔ ابراہیم نخعی کا تو کہنا ہی کیا ہے،ابنِ عبد البر کہتے ہیں کہ اہلِ نقد کے نزدیک ان کے سب مراسیل صحیح سمجھے جاتے ہیں،انھوں نے ابو سعید خدریؓ اورحضر ت عائشہؓ وغیرہ کا زمانہ پایا ہے ابو عمران نے اُن کو اپنے زمانہ کے تمام علما سے افضل کہا ہے 95ء میں جب ان کی وفات ہوئی تو ابو عمران نے ایک شخص سے کہا آج تم نے سب سے زیادہ فقیہ شخص کو دفن کر دیا،اس نے کہا کیا حسن بصریؒ سے بھی زیادہ انھوں نے کہا ایک حسن بصریؒ سے نہیں ؛بلکہ تمام اہل بصرہ ،اہل کوفہ،اہل شام اوراہل حجاز سے بھی۔
شعبی کہا کرتے تھے کہ ابراہیم فقہ کے گہوارہ میں تو پیدا ہی ہوئے تھے،اس کے بعد وہ ہمارے پاس آئے اور ہماری وہ حدیثیں جو بے غبار تھیں اپنی فقہ میں شامل کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ مسروق جو کبار تابعین میں ہیں فرماتے ہیں آنحضرتﷺ کے صحابہ کا خلاصہ میں نے ان چھ اشخاص میں دیکھا، علی،عبد اللہ بن مسعود،عمر،زید بن ثابت،ابوالدرداء اورابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہم پھر نظر ڈالی تو ان سب کے علم کا خلاصہ پہلے دو شخصوں میں پایا ،حضرت معاذ بن جبلؓ نے جو زبانِ رسالت سے اعلم بالحلال والحرام کا تمغا حاصل کرچکے تھے اپنے خاص شاگرد عمرو بن میمون کو حکم دیا تھا کہ تحصیلِ علم کے لیے تم حضرت ابنِ مسعودؓ کی خدمت میں کوفہ جاؤ۔ کوفہ کی علمی قدرومنزلت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مصر میں آنے والے صحابہ کی تعداد محمد بن ربیع جیزی اورسیوطی تین سو سے زیادہ پیش نہیں کرسکے، اس کے بالمقابل صرف ایک کوفہ میں عجلی پندرہ 1500 سو صحابہ کا قیام لکھ رہے ہیں، جن میں ستر 70 صحابہ بدری تھے،عراق کے بقیہ شہروں میں بسنے والے صحابہ کا ابھی ذکر نہیں ہے(اوریہ تعداد بھی کم ہے ورنہ جو مقام مرکزی چھاؤنی بنادیا گیا ہو معلوم نہیں کہ وہاں کتنے اورصحابہ کا گذر ہوا ہوگا)رامہرمزی اپنی کتاب الفاصلمیں قابوس سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ کیا بات ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو چھوڑ کر علقمہ کے پاس جایا کرتے ہیں،یہ ابنِ مسعودؓ کے شاگرد تھے،فرمایا اے جانِ پدر بات یہ ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ کو خود ان کے پاس مسائل دریافت کرنے کے لیے آتا دیکھتا ہوں،شریح جو یہاں کے قاضی تھے اُن کے حق میں حضرت علیؓ کا یہ ارشاد ہے،اے شریح اٹھو اورفیصلہ کرو کیونکہ تم عرب میں سب سے بڑھ کر قاضی ہو،ان کے علاوہ تینتیس 33/ اشخاص یہاں اور بھی ایسے موجود تھے جو صحابہ کی موجود گی میں اربابِ فتویٰ سمجھے جاتے تھے۔
اس دور کے بعد دوسرا دوران حضرات کے تلامذہ کا شروع ہوتا ہے ان کا عدد بھی ہزاروں سے متجاوز تھا،امام ابوبکر جصاص لکھتے ہیں کہ دیر جما جم میں حجاج سے جنگ کرنے کے لیے ایک عبد الرحمن بن الاشعث کے ساتھ جو جماعت نکلی تھی اس میں چار ہزار کی تعداد صرف قراء تابعین کی تھی،رامہرمزی انس بن سیرین سے نقل کرتے ہیں جب میں کوفہ پہنچا تو اس وقت وہاں چار ہزار حدیث کے طلبہ اورچار سو فقہا ء موجود تھے(یہ عفان بن مسلم، امام احمد اوربخاری وغیرہ کے شیخ ہیں،علی بن مدینی ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی عادت تھی کہ اگر حدیث کے کسی حرف میں ان کو ذراشبہ پڑجاتا تو اسے سرے سے ترک کر دیا کرتے تھے(تقریب)اب اندازہ فرمائیے کہ جب اس سخت شرط کے ساتھ پچاس ہزار حدیثوں کا ذخیرہ ان کو کوفہ میں مل سکتا ہے تو،حدیث کے لحاظ سے کوفہ کا مرتبہ کیا ہوگا)نیز عفان بن مسلم سے ناقل ہیں کہ جب ہم کوفہ پہنچے تو ہم نے وہاں صرف چار ماہ اقامت کی،حدیث کا وہاں یہ چرچا تھا کہ اگر ہم ایک لاکھ حدیثیں لکھنا چاہتے تو لکھ لیتے مگر ہم نے صرف پچاس ہزار حدیثیں ہی پر اکتفاء کیا اورصرف وہی حدیثیں جمع کیں جو جمہور کے نزدیک مسلم تھیں انتہی،اسی لیے مسلم ائمہ وحفاظ کو بھی طلبِ حدیث کے لیے کوفہ کا سفر کرنا ناگزیر ہو گیا تھا، اگر آج بھی آپ رجال کی کتابیں کھول کر بیٹھیں تو ہزاروں راوی آپ کو کوفہ کے نظر آئیں گے، جن کی روایات سے صحیین اور غیر صحیحین بھری پڑی ہیں،حتیٰ کہ خود امام بخاریؒ فرماتے ہیں میں شمار نہیں کرسکتا کہ حدیث حاصل کرنے کے لیے کتنی بار کوفہ گیا ہوں۔ [12]
خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ کو اگر مہبطِ وحی ہونے کا فخر حاصل تھا تو کوفہ ہزاروں صحابہ کے مرجع ومسکن ہونے کا بجا فخر حاصل تھا،یہی وجہ ہے کہ محدثین کو دیگر بلادِ اسلامیہ کے ساتھ اہلِ کوفہ کا تعامل بھی بڑی اہمیت سے نقل کرنا پڑا ہے،یہاں تک کہ امامِ ترمذی نے فقہ کا کوئی باب کم چھوڑا ہے جہاں اعتنا کے ساتھ اہلِ کوفہ کا مذہب نقل نہ کیا ہو۔ یہ ہے امام ابو حنیفہؒ کا مولد اوران کا علمی گہوارہ جس کے آغوش میں رہ کر ان کی علمی پرورش ہوئی ہے کون کہہ سکتا ہے کہ جو فقہ اس سرزمین میں مدون کی گئی ہو وہ سرِ موبھی کتاب وسنت سے تجاوز کرسکتی ہے۔
آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80 ھ بمطابق 699ء میں ہوئی سنہ وفات 150ھ ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔
آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔ ابو حنیفہ میانہ قد، خوش رو اور موزوں جسم کے مالک تھے۔ گفتگو نہایت شیریں کرتے آواز بلند اور صاف تھی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ اکثر خوش لباس رہتے تھے۔ سرکاری وظیفہ خواری سے دور رہے۔ حریت فکر، بے نیازی اور حق گوئی ان کا طرہء امتیاز تھا۔
امام ابوحنیفہؒ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کا آخری دور پایا ہے
کئی صحابہ رضی اللہ عنہم کی زیارت کا شرف حاصل کیاہے ۔
اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت بھی کی ہے ۔
امام ابو حنیفہؒ کا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہکو دیکھنے پر تو تمام علما کا اتفاق ہے ۔
ابن سعدؒ ، خطیب بغدادیؒ ، بیہقیؒ ، ابن جوزیؒ ، ابو موسی المدینیؒ ، جصاصؒ ، قدوریؒ ، صیمریؒ ،
نوویؒ ، المزیؒ ، ولی عراقیؒ ، زین عراقیؒ ، ابن حجر عسقلانیؒ ، ابن ناصر الدین دمشقیؒ ، ابن عبد الہادیؒ،
کے علاوہ لا تعداد ائمہ محدثین فقہا مؤرخین نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ کی زیارت کا ذکر کیا ہے ۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں :
” | مولدہ سنۃ ثمانین رای انس بن مالک غیر مرۃ لما قدم علیہم الکوفۃ | “ |
ترجمہ: حضرت امام کی پیدائش سنہ 80ھ میں ہوئی، آپ نے حضرت انس بن مالک (93ھ) کو جب وہ کوفہ گئے تو کئی دفعہ دیکھا۔[13]
البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں اختلاف ہے ۔
لیکن دوسرے صحابی حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء الزبیدی رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے روایت کرنا بھی ثابت ہے ۔
جو ان کتب میں موجود ہے ۔
1- جامع بیان العلم - ابن عبد البرؒ
2- مسند ابی حنیفہؒ ، ابن المقرئ ؒ
3- مسند ابی حنیفہؒ ، ابو نعیم اصفہانی ؒ
4- الانتصار ، الجعابیؒ (بحوالہ مناقب موفق)
وغیرہ کتب
اور حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو دیکھنے کا ذکر ابن سعدؒ ، البیہقیؒ نے مدخل میں ، ابو موسی المدینی ؒ نے الرباعی فی التابعین میں ، ابن عبد البر ؒ نے استغنا فی الکنی میں بھی کیا ہے ۔
یہ تو دوسرے مسالک کے ائمہ کا ذکر ہے ، ورنہ ائمہ احناف کے تقریباََ تمام فقہا ، محدثین ، مورخین کا امام ابوحنیفہؒ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دیکھنے اور اُن سے روایت کرنے پر اتفاق ہے ۔
امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقه كے عالم ہیں۔آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انھیں حاصل ہے۔
امام ابوحنیفہ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ
” | میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو | “ |
آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزارہا انسانوں کے علاوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔
مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاً فارس سے ہیں۔ ‘‘ امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انھوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔ ‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبہ اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے ۔
حضرت امام ابو حنیفہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :
خطیب بغدادی ابو نعیم سے نقل کرتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ خوش رو، خوش لباس،خوشبو پسند کرنے والے خوش مجلس،نہایت کریم النفس اوراپنے رفقا کے بڑے ہمدرد تھے،ابویوسف ؒ فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قد میانہ تھا نہ بہت کوتاہ نہ زیادہ دراز،گفتگو نہایت شیریں، آواز بڑی دلکش اوربڑے قادرالکلام تھے،عمر،امام اعظمؒ کے پوتے فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ کسی قدر دراز قامت تھے،آپ کے رنگ پر گندم گونی غالب تھی، اچھالباس پہنتے، عام طور پر اچھی حالت میں رہتے، خوشبو کا اتنا استعمال کرتے تھے کہ آپ کی نقل حرکت کا اندازہ خوشبو کی مہک سے ہوجاتا تھا۔ [15]
آپ ریشم کی تجارت کرتے تھے،قیس بن الزبیع بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب مشائخ اورمحدثین سے ایک رقم لے کر اُن کے لیے بغداد سے سامان خریدتے اور کوفہ لاکر اُسے فروخت کردیتے اورسال بہ سال اس کا نفع اپنے پاس جمع رکھتے اور اس نفع سے محدثین کے خور و نوش لباس وغیرہ کی ضروریات مہیا کرتے اس سے جو بچ رہتا وہ اُن کے حوالہ کردیتے اورکہتے کہ اسے اپنی دیگر ضروریات میں صرف کرلو اورخدا کا شکر ادا کرومیرے شکر کی ضرورت نہیں ؛کیونکہ میں نے یہ مال اپنے پاس سے تو تم کو دیا نہیں تمھارے ہی مال کا نفع ہے،یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر کرم ہے کہ اس نے اس کا ذریعہ مجھے بنادیا۔ حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ اہلِ مجلس میں سے ایک شخص پر امام صاحب نے خستہ لباس دیکھا اس سے کہا بیٹھ جاؤ،جب محفل برخاست ہو گئی اوریہ تنہا رہ گیا تو فرمایا مصلیٰ اٹھا کر جو اس کے نیچے تم کو ملے وہ لے لو،اس نے جا نماز اٹھائی تو نیچے ہزار درہم تھے،آپ نے فرمایا یہ لے لو اوراپنا لباس درست کرلو، وہ بولا میں خود صاحبِ وسعت ہوں، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، فرمایا تو پھر اپنا حال ایسا بناؤ کہ تمھیں دیکھ کر تمھارے بھائی کو غم نہ ہو ،حدیث تم کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندہ پر اپنے نعمت وکرم کے آثار دیکھنا پسند کرتا ہے۔
جعفر بن عون بیان کرتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ کے پاس ایک عورت آئی اوراس نے ایک ریشمیں کپڑا، آپ سے مانگا آپ نے ایک کپڑا اس کے لیے نکالا تو وہ بولی میں بڑھیا عورت ہوں اوریہ معاملہ امانت کا ہے،مناسب ہے کہ آپ کو جتنے میں پڑا ہے اسی قیمت میں میرے ہاتھ فروخت کردیجئے فرمایا چار درہم دیدے، اُس نے کہا بڑھیا کا مذاق نہ بنائیے اورٹھیک ٹھیک قیمت بتادیجئے،آپ نے فرمایا میں نے دو کپڑے خریدے تھے اورایک ہی کپڑے سے چار درہم کم میری پوری قیمت وصول ہو گئی تھی،اب یہ کپڑا مجھے چار درہم میں بچ رہا ہے۔ [16] ابن مبارک نے سفیان ثوریؒ سے پوچھا،ابو حنیفہؒ غیبت کرنے سے بہت دور رہتے ہیں حتیٰ کہ اپنے دشمن کی غیبت بھی نہیں کرتے ،سفیانؒ نے جواب دیا ابو حنیفہؒ اس سے بالا تر ہیں کہ اپنی نیکیوں پر اپنے دشمن کو مسلط کریں (کہ وہ قیامت کے دن اپنی غیبت کے بدلہ میں ان کی نیکیاں لے لے) [17]
اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں بہت ہیں مفصل تذکروں میں دیکھے جا سکتے ہیں ان چند واقعات میں امام صاحب کی صرف ہمدردی اورمساوات قابلِ غور نہیں ہے، دنیا میں سخی اورکریم اور بھی گذرے ہیں دیکھنا تو یہ ہو کہ یہاں آپ نے صرف ہمدردی نہیں کی ؛بلکہ بے منت ہمدردی کرنے کے اصول بھی بتلادیئے، ہمدردی کا اخفا،محتاج کو ندامت کا خطرہ بھی نہ گذر سکے، سرِ دست اس کی حاجت رفع ہوجائے اورآئندہ کے لیے اس کو سوال کی عادتِ بد بھی نہ پڑنے پائے، یہ ایک قیمتی سبق ہے جو ان چند واقعات سے ہم کو ملتا ہے۔
ابنِ خلکان لکھتا ہے کہ امام صاحبؒ نے چار صحابہؓ کو پایا ہے،انس بن مالکؓ اورعبداللہ بن ابی اوفیٰ کو کوفہ میں سہل بن سعد الساعدی کو مدینہ منورہ میں اورابو الطفیل عامر بن واثلۃ کو مکہ مکرمہ میں،حافظ ذہبی خود امام صاحبؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے انس بن مالکؓ صحابی کو بارہا دیکھا ہے،حافظ ابنِ حجرؒ ان کے ساتھ اوربہت سے دیگر حفاظ حدیث نے حضرت انسؓ کی رویت تسلیم کی ہے،خلاف جو کچھ ہے،وہ روایت کے ثبوت وعدم ثبوت میں ہے، ہمارے نزدیک ایک ایسے شخص کے متعلق جو صحابہ ہی کے عہد میں پیدا ہوا ہو رؤیت تو درکنار روایت کا دعویٰ بھی بعید نہیں ؛بلکہ بہت ہی قرین قیاس تھا ؛لیکن کیا کیا جائے جن پر امام صاحب کا اولادِ احرار ہونا بھی شاق ہو ان پر آپ کا طبعاً تابعین میں شمار ہونا کیوں شاق نہ ہوتا، اس لیے یہ بھی ایک معرکۃ الآر مسئلہ بن کر رہ گیا ہے،متوسط قول یہ ہے کہ رؤیت سے تو انکار نہ کیا جائے اور روایت کا قطعی طور پر دعویٰ نہ کیا جائے،اس کے سواء جو کچھ ہو وہ افراط وتفریط کا میدان ہو۔
زفربن حذیل روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام اعظمؒ سے سنا ہے کہ مجھے علمِ کلام کا پہلے اتنا شوق تھا کہ میں اس علم میں شہرۂ آفاق ہو گیا تھا،حماد بن ابی سلیمان (حماد ابراہیم نخعی کے خاص تلامذہ میں تھے،تاریخ اصبہان میں ابوالشیخ ذکر کرتے ہیں کہ ایک دن نخعی نے ان کو ایک درہم کا گوشت لانے کے لیے بازار بھیجا،زنبیل ان کے ہاتھ میں تھی ادہر سے ان کے والد کہیں گھوڑے پر سوار آ رہے تھے یہ صورت دیکھ کر انھوں نے ان کو ڈانٹا اور زنبیل لے کر ہاتھ سے پھینک دی ،جب ابراہیم نخعیؒ کی وفات ہو گئی تو حدیث کے طلبہ ان کے والد(مسلم بن یزید) کے دروازہ پر آئے اوردستک دی، یہ چراغ لے کر باہر نکلے توانہوں نے کہا ہمیں آپ کی ضرورت نہیں، آپ کے فرزند حماد کی ضرورت ہے یہ خفیف ہوکراندر تشریف لے آئے اورحماد سے کہا جاؤ بھئی باہر جاؤ،اب مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ مقام تمھیں ابراہیم کی زنبیل کی بدولت ہی نصیب ہوا ہے،ابنِ عدی نے الکامل میں نقل کیا ہے کہ حماد فرماتے تھے میں قتادہ،طاؤس اورمجاہد سے ملا ہوں، جب ابراہیم نخعی سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے مسائل کا حل کس سے کیا کریں تو انھوں نے حماد ہی کا نام لیا تھا)کاحلقۂ درس میرے قریب تھا،ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ میرے پاس ایک عورت آئی اوراس نے مجھ سے یہ مسئلہ دریافت کیا: ایک شخص کی بی بی باندی ہے وہ سنت کے موافق اسے طلاق دینا چاہتا ہے، کتنی طلاقیں دے،میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کیا جواب دوں، میں نے کہا حماد سے پوچھ اورواپس آکر مجھے بھی بتا، وہ حماد کے پاس گئی،انھوں نے فرمایا جب وہ حیض سے پاک ہوجائے تو جماع کرنے سے پہلے اُسے صرف ایک طلاق دینا چاہیے، جب دو حیض اور گذر جائیں تو پھر وہ اپنا دوسرا نکاح کرسکتی ہے، اس نے واپس آکر مجھ سے ان کا جواب نقل کیا میں نے اپنے دل میں کہا کہ علمِ کلام بھلا کس کام کی چیز ہے اوراپنے جوتے اٹھا کرحماد کی خدمت میں حاضر ہو گیا وہ مسائل بیان کرتے ہیں ان کو سنتا اوریادرکھتا، جب دوسرے دن وہ تشریف لاتے پھر ان کا اعادہ فرماتے تو ان ان کو معلوم ہوتا کہ میں نے ان مسائل کو صحیح ضبط کیا ہے اوران کے دوسرے شاگردوں نے غلطیاں کی ہیں، اس لیے انھوں نے فرمایا کہ میرے سامنے صدر مقام پر ابو حنیفہؒ کے سوا اورکوئی شخص نہ بیٹھے، دس سال مسلسل بلکہ ان کی وفات تک میں ان کے ساتھ رہا، حماد کے فرزند کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے والد کسی سفر میں باہر تشریف لے گئے تھے، جب واپس تشریف لائے تو میں نے پوچھا کہ اس اثناء میں آپ کو زیادہ یاد کس کی رہی،میرا خیال تھا وہ یہی فرمائیں گے تیری ؛لیکن انھوں نے ابو حنیفہؒ کا نام لیا اورفرمایا کہ اگر مجھے یہ قدرت ہوتی کہ میں ابو حنیفہؒ سے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی نظر جدانہ کروں تو نہ کرتا۔
روایتِ مذکورہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحبؒ کی عمر کا ابتدائی حصہ علمِ کلام میں صرف ہوا ہے اورزمانہ تلمذ سے ہی آپ کی کنیت ابو حنیفہؒ تھی یہ تحقیق نہیں ہو سکا کہ یہ کنیت امام صاحب نے خود اختیار کی تھی یا دوسروں نے آپ کی یہ کنیت مقرر کی تھی،اسی روایت سے امام صاحب کے صحتِ ذوق سلامتی فطرت اورقوتِ حفظ کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے،آپ کے صرف درسِ حدیث کے صدر نشین نہ ہونے سے یہ خیال قائم کرلینا کہ آپ کا حفظ کمزور تھا بہت سطحی نظر ہے۔
خطیب بغدادی روایت کرتا ہے کہ امیر المومنین ابو جعفر نے امام صاحبؒ سے پوچھا آپ نے کن صحابہ کا علم حاصل کیا ہے،فرمایا عمر بن الخطاب،علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن مسعود اورعبداللہ بن عباس ؓ اوران کے شاگردوں کا، فرمایا آپ نے تو بہت صحیح اور پختہ علم حاصل کیا،یہ ہستیاں بہت مبارک اور بڑی مقدس ہستیاں تھیں، حضرت عمرؓ کی شان تو خود رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے ظاہر ہے کہ میرے بعد اگر کوئی شخص نبی ہوتا تو عمر ہوتے، حضرت علیؓ تو وہ ہیں جن کو آپ نے خود اپنے دستِ مبارک سے قاضی بنا کر بھیجا تھا،رہ گئے عبد اللہ بن مسعودؓ اورابن عباسؓ ان کی قرآن دانی اورقرآن فہمی امت میں ضرب المثل ہو چکی ہے اب سوچئے کہ جو علم اتنے جامع اورمضبوط مآخذ سے حاصل کیا گیا ہوگا وہ کتنا عمیق اورکتنا مستحکم ہو سکتا ہے،نفسیاتی طریق پر بھی مسائل حنفیہ کا مرجع یہی اصحاب ہونے چاہیے، کوفہ جو امام اعظمؒ کا مسکن تھا،حضرت عمرؓ ہی کا بسایا اورآباد کیا ہوا تھا، پھر جو صحابی اہلِ کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لیے سرکاری طور پر مقرر کیے گئے وہ ابن مسعودؓ ہی تھے، حضرت علیؓ کا تو کوفہ دارالخلافت ہی رہ چکا تھا اس لیے اہل کوفہ کے لیے ان اصحاب میں علمی کشش کے علاوہ ایک فطری کشش بھی موجود تھی،کسی مجتہد کے متعلق یہ خیال قائم کرنا کہ اس کے استفادہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہر ہر جزئی میں ایک مقلد کی طرح اتباع کرتا ہوگا ،انتہا درجہ کی ناواقفیت ہے ؛بلکہ اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ ان کے زیر تربیت رہ کر اس کا جو علمی مذاق اوراندازِ طبیعت قائم ہو چکا تھا، وہ ان حضرات ہی سے ملتا جلتا تھا، اس کے اصولِ استنباط ،اصولِ فکر، مصالح ومضار پر غور وخوض کا زاویۂ نظر سب انھی سے متحد تھا، اس لیے دونوں کے مجتہدات اورمسائل میں ایک قسم کی یک رنگی اوریکسانیت پیدا ہوجانا بھی ضروری امر تھا۔
یحیی بن ضریس کہتے ہیں میں سفیان کے پاس حاضر تھا ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپ کو امام صاحب پر کیا اعتراض ہے انھوں نے فرمایا اعتراض کیا ہوتا میں نے خود انھیں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سب سے پہلے قرآن کو لیتا ہوں، اگر کوئی مسئلہ اس میں نہیں ملتا تو پھر سنت رسول اللہﷺ میں تلاش کرتا ہوں، اگر کتاب اللہ اور حدیث رسولﷺ دونوں میں نہیں ملتا تو میں پھر صحابہ کے اقوال تلاش کرتا ہوں اور ان میں جو زیادہ پسند آتا ہے اسے اختیار کرلیتا ہوں، مگر ان کے اقوال سے باہر نہیں جاتا،ہاں جب تابعین کا نمبر آتا ہے تو پھر ان کا اتباع کرنا لازم نہیں سمجھتا جیسا انھوں نے اجتہاد کیا میں بھی اجتہاد کرلیتا ہوں۔
ابو یوسف روایت کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا خراسان میں دو قسم کے لوگ سب سے بدتر ہیں،جہمیۃ اور مشبہہ، ابو یوسفؒ سے دوسری جگہ اس طرح منقول ہے کہ امام صاحب جہم بن صفوان کی مذمت کیا کرتے تھے اوراس کی باتوں پر نکتہ چینی فرماتے تھے،عبد الرحمن حمانی کہتے ہیں:میں نے ابو حنیفہ کو یہ فرماتے خود سنا ہے کہ جہم بن صفوان کافر ہے [18]یحییٰ بن نضر کہتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ شیخین کو دوسرے صحابہ پر فضیلت دیتے تھے ختنین سے محبت رکھتے تھے،تقدیر کے قائل تھے اوراس میں کوئی مین میخ نہیں نکالتے تھے ،مسح علی الخفین کرتے تھے اوراپنے زمانہ کے سب سے بڑے اور متقی عالم تھے ابو سلیمان جوزجانی اورمعطی بن منصور رازی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے تلامذہ میں کسی نے قرآن کے مخلوق ہونے کے بارے میں کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالا ،ہاں بشر مریسی اورابن ابی داؤد نے اس مسئلہ میں بحث شروع کی اورانہوں ہی نے امام صاحبؒ کے تلامذہ کو بدنام کیا۔
امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مالکؒ پر رحمت نازل فرمائے اپنے وقت کے امام تھے ،شافعیؒ پر رحمت نازل فرمائے اپنے وقت کے امام تھے،ابو حنیفہؒ پر رحمت نازل فرمائے اپنے زمانہ کے امام تھے [19] امام احمدؒ جب کبھی امام ابو حنیفہؒ کے کوڑے کھانے اور قضاء قبول نہ کرنے کا واقعہ ذکر فرماتے تو روپڑتے تھے اورامام صاحب کے لیے دعا رحمت فرماتے ۔ [20] حسن بن علی حلوانی شبابۃ سے نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب کے بارے میں شعبہ اچھا خیال رکھتے تھے علی بن مدینی کہتے ہیں کہ امام صاحب سے ثوری،ابن مبارک،حماد بن زید، ہشیم، وکیع، عباد،جعفر بن عون جیسے اجلہ محدثین نے روایت کی ہے ،وہ ثقہ ہیں،ان کی روایت میں کوئی سقم نہیں، یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا اے ابو زکریا(ان کی کنیت ہے )کیا ابو حنیفہؒ حدیث کے بارے میں سچے شمار ہوتے تھے انھوں نے فرمایانہایت سچے اوربالکل صحیح روایت کرنے والے تھے،ایک مرتبہ اُن سے دریافت کیا گیا :کیا ابو حنیفہ کبھی خلافِ واقع بھی حدیث روایت کرتے تھے؟ فرمایا محدثین ابو حنیفہؒ اوران کے تلامذہ کے حق میں بڑی زیادتی کرتے ہیں،اُن کی شان اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ تھی۔
[21] خطیب یحیی بن معین سے نقل کرتا ہے کہ ابو حنیفہؒ کے نزدیک حدیث روایت کرنے کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ سننے کے بعد سے برابر یادرہنی چاہیے اگر یاد نہ رہے تو اس کو روایت کرنا درست نہ سمجھتے تھے،ایک مرتبہ امام صاحب کے متعلق ان سے دریافت کیا گیا تو دوبار فرمایا ثقہ ہیں ثقہ ہیں،ایک مرتبہ یہ کہا کہ حدیث وفقہ میں ثقہ اور سچے ہیں اور خدا کے دین کے بارے میں بھروسا کے قابل ہیں [22]خارجہ بن مصعب اورابو وہب عابد کہتے ہیں کہ جو شخص مسح علی الخفین کا قائل نہ ہو یا ابو حنیفہؒ پر نکتہ چینی کرے وہ بلا شبہ ناقص العقل ہے۔ [23] حافظ ابن حجر شافعی نے امام صاحب کے مناقب نقل کرکے یحییٰ بن معین سے اس کے خلاف کوئی نقل پیش نہیں کی اورآخر تذکرہ میں لکھا ہے کہ امام صاحبؒ کے مناقب بہت ہیں اللہ تعالی ان سے راضی ہو اورجنت فردوس میں ان کو جگہ دے،ذہبی نے مناقب امام پر مستقل ایک تصنیف لکھی ہے۔
اس عنوان پر علامہ کوثری مصری نے زیلعی کے مقدمہ میں ایک مختصر مقالہ سپرد قلم کیا ہے،ہم یہاں اس کا اختصار ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ فقہ حنفی صرف ایک شخصی رائے نہیں ؛بلکہ چالیس علما کی جماعتِ شوری کی ترتیب دادہ ہے،امام طحاویؒ اسناد کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب کی یہ جماعت شوریٰ چالیس افراد پر مشتمل تھی جن میں ممتاز ہستیاں یہ تھیں: ابو یوسف، زفربن الہذیل،داؤد الطائی، اسد بن عمرو، یوسف بن خالد السمتی، (یہ امام شافعیؒ کے شیوخ میں ہیں) یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدۃ،خطیب نے امام ابو یوسفؒ کے تذکرہ میں ان اسماء کا اوراضافہ کیا ہے،عافیہ ازدی قاسم بن سعن،علی بن مسہر، جان،مندل اسد بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب کی خدمت میں پہلے ایک مسئلہ کے مختلف مختلف جوابات پیش کیے جاتے پھر جو اس کا سب سے زیادہ تحقیقی جواب ہوتا آپ ارشاد فرماتے اسی طرح ایک ایک مسئلہ تین تین دن زیر بحث رہتا ،اس کے بعد کہیں وہ لکھا جاتا تھا،صمیری بیان فرماتے ہیں کہ امام صاحب کے تلامذہ امام صاحب کے ساتھ مسائل میں بحث و تمحیص کرتے اگر اس وقت قاضی عافیہ بن یزید موجود نہ ہوتے تو آ پ فرماتے،اُن کے آنے تک ابھی مسئلہ کا فیصلہ ملتوی رکھو جب وہ تشریف لے آتے اور وہ بھی دوسروں کی رائے سے اتفاق کرلیتے تو امام صاحبؒ فرماتے اب اس کو لکھ لو،جب تک مسئلہ تحقیق وتفتیش کے یہ مراحل طے نہ کرلیتا آپ اس کو لکھنے سے منع کرتے ،یحییٰ بن معینؒ التاریخ والعللؒ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے ایک دن امام ابو یوسفؒ سے فرمایا اے یعقوب جو کچھ مجھ سے سنا کرو اسے فورا ہی نہ لکھ لیا کرو کیونکہ کبھی ایک مسئلہ کے متعلق میری رائے آج کچھ ہوتی ہے اورکل کچھ ہوجاتی ہے،اس روایت سے موفق مکی کے بیان کی تائید ہوتی ہے کہ امام صاحب کا مسلک شورائی مسلک ہے،اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب نے اپنے تلامذہ پر اپنے مسائل تسلیم کرنے کے متعلق کبھی جبر نہیں کیا ؛بلکہ ہمیشہ اس کی پوری آزادی دی کہ وہ بہت خوشی سے اپنی اپنی رائے پیش کریں پھر اس پر خوب جرح وقدح ہو،اس کے بعد اگر سمجھ میں آجائے تو اس کو قبول کر لیں۔
مذکورہ بالا بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امام صاحبؒ کی مجلسِ شوریٰ نقلی و عقلی ہر دو لحاظ سے بہت مکمل مجلس تھی، اس میں اگر حفاظ ومحدثین ،عربیت و تفسیر کے جاننے والے شامل تھے تو زفرین ہذیل جیسے میزان عقل پر تولنے والے بھی موجود تھے انھی اہل علم وفہم علما کے تبادلہ خیالات کا نتیجہ تھا کہ مسئلہ کا ہر پہلو اتنا صاف ہوجاتا تھا اس کے مصالح و مضار سب اس طرح سامنے آجاتے تھے کہ زمانہ کی ہر ضرورت کی اس میں پوری پوری رعایت ہوجاتی تھی۔ خطیب امام ابو یوسفؒ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ کسی شخص نے وکیع سے کہا ابو حنیفہؒ نے اس مسئلہ میں غلطی کی ہے ،وکیع نے فرمایا ابو حنیفہؒ غلطی کر کیسے سکتے ہیں، جبکہ ان کے ساتھ ابو یوسفؒ وزفرؒ جیسے قیاس کے ماہر یحییٰ بن ابی زائدہ،حفص بن غیاث، حبان و مندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسے لغت وعربیت کے جاننے والے، داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسے زاہد و متقی شامل ہوں، اگر وہ غلطی کھائیں گے تو کیا یہ لوگ ان کی اصلاح نہ کریں گے، دراصل فقہ حنفی کی عام مقبولیت کا منجملہ دیگر اسباب کے ایک سبب یہ بھی تھا مگر اس کا یہی کمال محدثین کی نظروں میں موجب نقصان بن گیا تھا، ظاہر ہے کہ عام محدثین کا طور فکر بالکل اس سے جدا گانہ تھا،وہ اس تمام غور وخوض کو رائے کی مداخلت تصور کرتے تھے اور وہ اس میں بڑی حد تک معذور بھی تھے، کیونکہ آئین شریعت کی اس طرح ترتیب وتشکیل کا امت میں یہ پہلا قدم تھا اُسے اوپری نظروں سے دیکھا جانا چاہیے تھا، یہ دوسری بات ہے کہ پھر شد ہ شدہ دوسرے اماموں کو بھی اس ترتیب کی ضرورت محسوس ہوئی حتی کہ کوئی امام ایسا نہیں رہا جس کی فقہ بالآخراسی مرتب شکل پر نہ آگئی ہو مگر البادی اظلم) کے قاعدہ کے موافق اصحاب الرای کا اولین مخاطب صرف حنفیہ رہ گئے۔
(ربیعہ بن ابی عبد الرحمن جو امام مالکؒ کے استاد ہیں اپنی اسی خدمت کی وجہ سے ربیعۃ الرای کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے، عبد العزیز بن ابی سلمہ کہتے تھے اے اہلِ عراق تم تو ربیعہ الرای کہتے ہو اورخدا کی قسم ہے میں نے ان سے بڑھ کر کوئی حافظ حدیث نہیں دیکھا، ابنِ سعد فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ اورکثیر الحدیث شخص تھے اس کے باوجود ان کی طرف رائے کی نسبت اتنی مشہور ہو گئی کہ ان کا لقب ہی ربیعۃ الرایٔ پڑ گیا تھا۔) یہ مسئلہ بہت اہم اور طویل الذیل ہے کہ فقہ حنفی کے امتیازی اصول کیا کیا ہیں اورکیا اُن کو مداخلتِ رائے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے،ان تمام کا استقصاء اس مختصر تذکرہ میں نہیں کیا جا سکتا،مثال کے طور پر یہاں ہم صرف ایک دو مثالیں پیش کرتے ہیں جن پر غور کرنے کے بعد آپ فقہ حنفی کی گہرائی معلوم کرسکیں گے اوراس کے بعد یہ یقین کرنا بھی آسان ہوجائے گا کہ محدثین کی فقہ حنفی سے برہمی اور حنفیہ کی معذوری دونوں اپنی اپنی جگہ بجا ہیں، امام شاطبیؒ ابن عبد البر سے نقل کرتے ہیں کہ بہت سے محدثین امام صاحب پر طعن کرنا اس لیے جائز سمجھتے تھے کہ ان کے نزدیک آپ نے بہت سی صحیح اخبار آحاد کو ترک کر دیا تھا؛حالانکہ امام صاحب کا ضابطہ یہ تھا کہ آپ پہلے خبر واحد کا اُس باب کی دوسری احادیث کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھتے ،قرآن کریم کے بیان سے بھی ان کوملاتے اگر وہ قرآن کریم اوران احادیث کے بیان کے مطابق ہوجاتیں تو ان پر عمل کرلیتے ورنہ انھیں شاذ قرار دیتے اورعمل نہ کرتے۔
[24] انصاف کیجئے کہ ایک آئینی نظر کے لیے آئین سازی کا کہ کتنا صحیح راستہ تھا مگر جن مزاجوں میں معیار صحت صرف اسناد ٹھہر گیا ہو وہ اس کا نام صحیح احادیث کا ترک رکھ لیتے تھے،اس کی بہت مشہور مثال حدیثِ مضراۃ ہو حنفیہ پر اس مسئلہ کی وجہ سے ہمیشہ لے دے کی گئی اوریہ الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے محض اپنی رائے سے اس حدیث کو ترک کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر حنفیہ نے تاوان کے وسیع باب میں اس قسم کا تاوان کہیں نہ دیکھا اوراس لیے یہاں بھی اس باب کے عام ضابطہ ہی پر عمل کر لیا،تو کچھ بجا بھی نہیں کیا،بقول حافظ ابو عمرو کون ایسا ہے جس نے ہر باب کی ہر حدیث کو من و عن تسلیم کیا ہو، اپنے استقراء واجتہاد کے بعد جب ایک حدیث کو مختارو معمول بہ بنالیا گیا ہے تو اس کی مخالف حدیث میں سب نے تاویل و توجیہ جائز قرار دی ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ حنفیہ نے اکثر مواضع میں اصول کو جرئیات پر قربان نہیں کیا، جب کسی بات میں ان کے نزدیک صاحبِ شریعت سے ایک قاعدہ کلیہ ثابت ہو گیا تو پھر انھوں نے اس کے برخلاف جزئیات کو عموماً قابل ِ سمجھا ہے،مثلاً انسانی حاجت کے لیے بیٹھنے کا ایک آئین یہ ہے کہ قبلہ کو اپنے سامنے یا پشت کی جانب نہ رکھنا چاہیے، اس ضابطہ کو حنفیہ نے پہلے منقول اور معقول ہر طریق پر جانچا تولا جب اُن کے نزدیک ادب واحترام کا یہ آئین ثابت ہو گیا تو حضرت ابنِ عمرؓ کے صرف ایک جزئی واقعہ کی بناپر کہ انھوں نے ایکبار آنحضرتﷺ کو قضاء حاجت کے لیے قبلہ کی جانب پشت کیے ہوئے بیٹھے دیکھا تھا، اس ضابطہ کلیہ کی تاویل نہیں کی ؛بلکہ اس واقعہ ہی کی کوئی توجیہ کرلینا زیادہ مناسب سمجھا۔
دوسری مثال نماز میں بات کرنے کا مسئلہ ہے،عام طور پر احادیث سے نماز میں بات کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، قرآن کریم میں بھی یہاں کسی استثناء کی طرف ادنیٰ اشارہ نہیں ملتا صرف ایک ذوالیدین کی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز میں کسی کو سہوا اورکسی کو عمداً کچھ بات چیت کرنے کی نوبت آگئی تھی اس کے باوجود ان کی نمازوں کو فاسد نہیں سمجھا گیا،دیگرائمہ نے اس ایک جزئی واقعہ کی وجہ سے اصل قاعدہ ہی کی تخصیص وتوجیہ شروع کردی ہے حنفیہ نے یہاں بھی قاعدہ میں کوئی تخصیص نہیں کی ؛بلکہ اس کو بدستور اپنے عموم پر قائم رکھا ہے اوراس ایک واقعہ ہی کی کوئی توجیہ تاویل کرنا مناسب خیال کیا ہے،اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جہاں حنفیہ نے قاعدہ کلیہ کے مقابلہ میں جزئیات ہی کی تاویل کا راستہ اختیار کر لیا ہے،ضابطہ ہمیشہ ایک رہتا ہو اورجزئیات منتشر، اس لیے تاویل کرنے والوں کی صف میں زیادہ پیش پیش حنفیہ ہی نظر آنے لگے، اب آپ کو اختیار ہے کہ اس کا نام ترکِ حدیث رکھ لیجئے یا عمل بالحدیث رکھیے،اسی قسم کے امتیازات ہیں جن کی بنا پر ہر دور میں امت کا نصف حصہ اسی فقہ پر عمل پیرا رہا ہے اوراسی اصول نظر کی وجہ سے حنفی فقہ میں اتنی لچک ہے کہ اتنی دوسری فقہ میں نہیں اگر علما انسانوں کی ضرورت اوردینِ حنیف کی سہولت دونوں کو پیش نظر رکھتے تو ان کو حنفی کتاب الحیل پر اتنا غصہ نہ آتا اورنہ وہ حنفیہ کو محض رائے کا مقلد قرار دیتے۔
شداد بن حکیم فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا،مکی بن ابراہیم نے امام صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم تھے،وکیع فرماتے ہیں میں کسی عالم سے نہیں ملا جو ابو حنیفہؒ سے زیادہ فقیہ ہوا اوران سے بہتر نماز پڑھتا ہو،نظر بن شمیل کہتے ہیں لوگ علمِ فقہ سے بے خبر پڑے ہوئے تھے، ابو حنیفہؒ نے آکر انھیں بیدار کیا ہے،یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں ہم خدا کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے،واقعی بات یہ ہے کہ ابو حنیفہؒ سے بہتر فقہ ہم نے کسی کی نہیں سنی اور اس لیے لیے ان کے اکثر اقوال ہم نے بھی اختیار کرلیے ہیں،یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں کہ فتوے میں یحییٰ بن سعید کوفیوں کا قول اختیار کیا کرتے تھے،امام شافعیؒ فرماتے ہیں جسے علمِ فقہ میں مہارت حاصل کرنا ہو اُسے لازم ہے کہ ابو حنیفہؒ اوران کے تلامذہ کو نہ چھوڑے ؛کیونکہ تمام لوگ فقہ میں اُن کے محتاج ہیں، یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ فقہ تو بس امام ابو حنیفہؒ ہی کی ہے، جعفر بن ربیع کہتے ہیں میں پانچ سال ابو حنیفہؒ کی خدمت میں رہا، اُن جیسا خاموش انسان میں نے نہیں دیکھا،ہاں جب ان سے فقہ کا کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو اس وقت کھل جاتے اور دریا کی طرح بہنے لگتے تھی،عبد اللہ بن داؤد فرماتے ہیں کہ اہلِ اسلام پر فرض ہو کہ وہ اپنی نمازوں کے بعد امام ابو حنیفہؒ کے لیے دعا کیا کریں اور ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے امت کے لیے آنحضرتﷺ کی سنتیں اورمسائل فقہ جمع کرکے رکھ دیے ہیں،روح بن عبادہ کہتے ہیں کہ میں ابن جریج کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ انھیں امام صاحب ؒ کے وفات کی خبر پہنچی: انھوں نے فورا ًانالِللّٰہ کہا اورفرمایا افسوس کیسا عجیب علم جاتا رہا،اسی سال ابن جریج کا بھی انتقال ہو گیا۔
جو شخص امام صاحبؒ کے مناظرات وحالات سے ذرا بھی واقف ہے وہ اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ امام صاحب کو جمیع علوم میں پوری دستگاہ حاصل تھی علمِ کلام سے آپ کی ابجد شروع ہوتی ہے اورحدیث و تفسیر و فقہ تو آپ کا مشغلہ ہی تھا، مورخ ابن خلکان آپ کے متعلق یہ لکھتا ہے ولم یکن یعاب بشئی سوی قلۃ العربیۃ یعنی آپ پر قلتِ عربیت کے سوا اور کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی،اس کے اسباب بھی جو کچھ ہیں وہ تحقیق کے بعد کچھ نہیں رہتے ؛لیکن ہم اس سلسلہ میں ان چند اسباب کو ظاہر کرنا مناسب سمجھتے ہیں جن کی بنا پر امام صاحب نے دیگر علوم کی بجائے علم فقہ کو اپنا دائمی مشغلہ بنالیا تھا،اگرچہ یہ بات اپنی جگہ طے شدہ ہے کہ جو شخص حدیث وقرآن نہیں جانتا وہ فقہ سے بھی کوئی مجتہدانہ مذاق نہیں رکھ سکتا۔ ہمارے نزدیک اس موقع پر اختیاری اسباب کے ساتھ کچھ قدرتی اسباب بھی ایسے پیدا ہو گئے تھے جن کی وجہ سے فقہ ہی آپ کا سب سے بڑا مشغلہ ہوجانا چاہیے تھا،مناقب موفق اورتاریخ خطیب میں مذکور ہے کہ ابراہیم نخعی کی وفات کے بعد علمِ فقہ کی مہارت کے لحاظ سے جن پر نظریں پڑتی تھیں وہ حماد بن ابی سلیمان مفتی کوفہ تھی جب تک یہ بقید حیات رہے لوگ ان کی وجہ سے دوسروں سے بے نیاز رہے ؛لیکن جب ان کی وفات ہو گئی تو اب اس کی ضرورت محسوس ہونے لگی،کہ لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ان کا کوئی دوسرا جانشین ہو ،ادھر ان کے تلامذہ کو یہ اندیشہ ہونے لگا کہ ان کے محترم استاد کا نام اوران کا علم کہیں ختم نہ ہوجائے،حماد کے ایک فرزند تھے جو اچھے عالم تھے، ان پر اتفاق ہو گیا کہ انھیں اپنے والد کی مسند پر بٹھا دیا جائے،ابوبکر نہشلی اورابو بردۃ وغیرہ جو ان کے شاگرد تھے اب ان کے پاس آنے جانے لگے ؛لیکن ان حضرات پر شعر و سخن کا ذوق غالب تھا یہ اس جگہ کو نبھانہ سکے،پھر لوگوں کا خیال ابوبکر نہشلی کی طرف گیا ان سے درخواست کی گئی تو انھوں نے انکار کر دیا،اس کے بعد ابو بردہ کی خدمت میں یہ مسند پیش کی گئی مگر انھوں نے بھی انکار کیا،آخر کار لوگوں نے امام صاحبؒ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا میرا دل یہ نہیں چاہتا کہ علم فنا ہوجائے اس لیے ان کی درخواست کو منظور کر لیا اورمسند افتاء پر بیٹھ گئے۔ [25] واقعہ یہ ہے کہ جب مفتی کوفہ کی مسند پر بیٹھنے کے لیے قدرت نے امام صاحب ہی کو انتخاب کیا ہو تو اس جگہ کوئی دوسرا کیسے بیٹھ سکتا تھا۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ امام ابو حنیفہ وہی ہیں جن کے سامنے جب منصبِ قضا پیش کیا گیا تو ہر سختی دولت برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئے مگر منصبِ قضا قبول نہ کیا، اوریہی ہیں کہ جب ان سے ایک آزاد علمی خدمت کی درخواست کی گئی تو فوراً قبول کرنے کے لیے تیار ہو گئے،بہرحال اس روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ اتفاقاتِ سماویہ کی بنا پر علم کی جو مسند امام صاحب کے لیے مخصوص ہو چکی تھی وہ علمِ نبوت ہی کی گہرائیوں میں ثناوری کی مسند تھی،اس لیے قدرتی طور پر آپ کا مشغلہ فقہ ہی بن جانا چاہیے تھا۔
حافظ ابنِ عبد البرؒابو یوسف ؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے اعمش نے ایک مسئلہ دریافت کیا ،اس وقت میرے اوراُن کے سوا وہاں کوئی اورموجود نہ تھا،میں نے اس کا جواب دیا،انھوں نے فرمایا اے یعقوب یہ جواب تم نے کس حدیث سے اخذ کیا ہے میں نے کہا اُسی حدیث سے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی انھوں نے فرمایا یعقوب یہ حدیث تو مجھے تمھاری پیدائش سے بھی پہلے سے یاد تھی مگر میں آج تک اس کا یہ مطلب نہ سمجھ سکا تھا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ اعمش اورامام صاحب کے درمیان بھی پیش آیا ہے،عبیداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں اعمش کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ایک شخص ان کے پاس آیا اورایک مسئلہ دریافت کیا وہ اس کا جواب نہ دے سکے ،دیکھا تو وہاں ابو حنیفہؒ بھی بیٹھے ہوئے تھے فرمایا اے نعمانؓ اس کے متعلق تم کچھ بولو ،انھوں نے فرمایا اس کا جواب یہ ہے اعمشؒ نے فرمایا کہاں سے کہتے ہو؟امام صاحبؒ نے فرمایا اسی حدیث سے جو آپ نے ہم سے روایت کی تھی، اس پر اعمش نے کہا نحن الصیاد لۃ وانتم الاطباء (تم لوگ اطباء ہو اوربھئی ہم تو عطار ہیں)یعنی عطار کے پاس صرف دواؤں کا اسٹاک ہوتا ہے وہ اس کی ترکیب وخواص نہیں جانتا،اطباء ان کے اثرات اورترکیب بھی جانتے ہیں۔ [26] خطیب بغدادی امام ابو یوسفؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ان سے اعمش نے پوچھا کہ آپ کے استاد نے عبد اللہ کا یہ مسئلہ کیوں ترک کر دیا کہ باندی کے آزاد ہونے سے اُس پر طلاق ہوجاتی ہے،انھوں نے فرمایا کہ حضرت عائشہؓ کی اسی حدیث کی بنا پر جو آپ نے اُن سے بواسطہ ابراہیم واسود کے نقل فرمائی تھی کہ بریرہ جب آزاد ہوئیں تو ان کی آزادی طلاق نہیں سمجھی گئی ؛بلکہ ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے پہلے نکاح کو قائم رکھیں اور چاہیں تو فسخ کر دیں اس پر اعمش نے کہا بے شبہ ابو حنیفہؒ نہایت سمجھدار شخص ہیں،امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ اعمش کو امام صاحبؒ کا یہ استنباط بہت پسند آیا تھا۔ [27]
امام ترمذیؒ اپنی جامع میں غسلِ میت کے مسئلہ کی تحقیق کرنے کے بعد فرماتے ہیں :وکذالک قال الفقھاء وھم اعلم بمعانی الحدیث فقہا نے اس حدیث کا یہی مطلب بیان کیا ہے ا ور حدیث کے مطالب یہی لوگ زیادہ سمجھتے ہیں۔ ان روایات سے ظاہر ہے کہ حدیث وفقہ دو علاحدہ چیزیں نہیں ،فرق ہے تو یہ کہ محدث کے نزدیک الفاظِ حدیث کا حفظ مقدم ہوتا ہے اورفقیہ کے نزدیک ان کے معانی کا فہم مقدم۔ نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ امام صاحب نے شغلِ فقہ صرف امت کے نفع کی خاطر اختیار فرمایا تھا اور بجا اختیار فرمایا تھا، الفاظِ حدیث تو محفوظ ہو ہی چکے تھے اب جس خدمت کی ضرورت تھی وہ استخراج واستنباطِ مسائل اور ان کی آئینی تشکیل وترتیب ہی کی تھی،محدثین ہزاروں موجود تھے، لیکن فقہ کا یہ مقام خالی پڑا ہوا تھا ،اس لیے امام صاحب نے اس خالی گوشہ کو پُر کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ امام صاحب فنِ حدیث و قرآن سے نا آشنا تھے، ابھی آپ معلوم کرچکے ہیں کہ محدثین اگر الفاظ حدیث کے ذمہ دار ہیں تو فقہا اس کے صحیح استعمال کے جاننے والے ہیں،وہ عطار ہیں تو یہ اطباء، فقہ کا تمام تاروپود قرآن وحدیث سے ہی قائم ہے۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ کبار ائمہ کی قلت روایت کو ان کی علمِ حدیث سے بے بضاعتی کی دلیل سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ شریعت کا مآخذ کتاب وسنت ہی ہے،لہذا جو شخص بھی شرعی مسائل کے استنباط وترتیب کا ارادہ کرے گا اس کے لیے کتاب وسنت کے سوا اورکوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،امام صاحب کی قلتِ روایت کا مبنٰی اس علم سے بے بضاعتی نہ تھی ؛بلکہ درحقیقت روایت و تحمل کے وہ شرائط تھے جن کا معیار آپ نے عام محدثین سے بہت بلند قائم کیا تھا،اس لیے آپ کے لیے روایت کا میدان بھی زیادہ وسیع نہیں رہا تھا،امام صاحب کے علمِ حدیث میں ماہر اورمجتہد ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ محدثین کے درمیان آپ کی فقہ ہمیشہ بنظرِ اعتبار دیکھی گئی ہے، ایک طرف جہاں امام احمد وامام شافعیؒ کا مسلک نقل کیا گیا ہے اسی کے پہلو بہ پہلو امام صاحب کا مسلک بھی نقل کیا گیا ہے،یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ محدثین کے نزدیک آپ کی فقہ بھی اسی درجہ پر معتبر تھی جیسا کہ دیگر فقہا محدثین کی، خلاصہ یہ کہ ردوقبول کے اعتبار سے اس کا زیر بحث رہنا اس کی دلیل ہے کہ آپ کی فقہ بھی دیگر محدثین کی فقہ کی صف میں رہنے کے قابل تھی،یہ دوسری بات ہے کہ اگر ایک جماعت اسے قبول کرتی رہی تو دوسری جماعت ترک کرتی رہی۔ [28] امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ حدیث کی صحیح مراد اوراس میں مسائل کے مآخذامام صاحب سے زیادہ جاننے والا میں نے کوئی شخص نہیں دیکھا بعض مرتبہ میں آپ کی رائے چھوڑ کر کسی حدیث کے ظاہر پہلو کو اختیار کرلیتا تو بعد میں مجھے تنبہ ہوتا کہ حدیث کی صحیح مراد سمجھنے میں امام صاحب کی نظر مجھ سے زیادہ گہری تھی۔ [29]
اسرائیل جو مسلم ائمہ حدیث میں ہیں امام صاحب کی مدح میں بطریقِ تعجب فرماتے ہیں نعمان کیا خوب شخص ہیں جو احادیث مسائل فقیہ سے متعلق ہیں وہ ان کو کیسی محفوظ ہیں اورکیسی خوبصورتی سے وہ ان سے مسائل فقہ استنباط فرماتے ہیں یہی وجہ تھی کہ محدثین میں وکیع اوریحییٰ بن سعید القطان جیسے اشخاص امام اعظم کی فقہ کے مطابق فتویٰ دیتے تھے ،حافظ ابن ِ عبد البر یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں۔ وکان (وکیع) یفی برأی ابی حنیفۃ وکان یحفظ حدیث کلہ وکان فد سمع من انی حنیفۃ حدیثا کثیرا [30] وکیع امام صاحب کی فقہ کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے اورآپ کی روایت کردہ تمام حدیثیں یاد کیا کرتے تھے اورانہوں نے آپ سے بہت سی حدیثیں سنی تھیں۔ امام صاحب کے اساتذۂ محدثین کی جو تعداد علما نے لکھی ہے وہ ہزاروں تک پہنچتی ہے؛ لیکن چونکہ دیگر محدثین کی طرح خود امام نے باضابط روایتِ حدیث کے حلقے قائم نہیں کیے اور ترویج فقہ کو ترجیح دی،اس لیے بعد کے زمانہ میں آپ کی شانِ محدثیت نظری بن کر رہ گئی۔
تاریخ کا یہ بھی ایک تعجب خیز ورق ہے کہ وہ ایک طرف تو امام صاحب کی تعریف وتوصیف میں بکھری جاتی ہے،وہ جلی حروف میں یہ لکھ جاتی ہے کہ آپ عہد صحابہ میں پیدا ہوئے ورع وتقویٰ جود وسخا،علم و فیض،خردو عقل کے تمام کمالات آپ میں جمع تھے،ائمہ میں امام اعظمؒ آپ کا لقب تھا محدثین و علما کا ایک جم غفیر ہمیشہ آپ کے زمرۂ مقلدین میں شامل رہا اور امتِ مرحومہ کا نصف سے زیادہ حصہ اب بھی آپ کے پیچھے پیچھے جارہا ہے ،اسی کے ساتھ وہ دوسرے ہی ورق پر دیانت وعقل کا کوئی عیب ایسا اٹھا کر نہیں رکھتی جو آپ کی ذات میں لگا نہیں دیتی۔
خطیب بغدادی نے پورے سو صفحات پر امام صاحب کا تذکرہ لکھا ہے،پہلے امام صاحب کے مناقب میں صفحہ کے صفحہ رنگ دیے ہیں اس کے بعد پورے 54 صفحات پر آپ کی ذات میں وہ نکتہ چینیاں نقل کی ہیں جو دنیا کے پردہ پر کبھی کسی بد تر سے بدتر کافر پر بھی نہیں کی جاسکتیں،ایک متوسط عقل کا انسان ان متناقض بیانات کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسے دو متضاد وصفات کا حامل نہیں ہو سکتا یا اس کے مناقب کی یہ تمام داستان فرضی ہے یا پھر عیوب کی یہ طویل فہرست صرف مخترع حکایات اورصریح بہتان ہے،مورخ ابن خلکان نے خطیب کے اس غلط طرز پر حسب ذیل الفاظ میں تنقید کی ہے۔ وقد ذکرالخطیب فی تاریخد منھا شیا کثیرا ثم اعقب ذلک بذکر ما کان الا لیق ترکہ والا ضراب عنہ فمثل ھذا الامام لا یثک فی دیہ ولا فی ورعہ ولا فی حفظ ولم یکن یعاب بشئی سوی قلۃ العربیۃ [31] یعنی خطیب نے اپنی تاریخ میں آپ کے مناقب کابہت سا حصہ ذکر کیا ہے اس کے بعد ایسی ناگفتنی باتیں لکھی ہیں جن کا ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا مناسب تھا؛ کیونکہ امام اعظمؒ جیسے شخص کے متعلق نہ دیانت میں شبہ کیا جا سکتا ہے نہ حفظ ورع میں آپ پر کوئی نکتہ چینی ،بجز قلتِ عربیت کے اورنہیں کی گئی۔ حافظ ابن عبد البرؒ مالکی کا کلام یہاں نہایت منصفانہ ہے کیونکہ تنقید کا یہ شاخسانہ صرف ایک امام صاحب کی ذات ہی تک محدود نہیں رہتا؛بلکہ اورائمہ تک بھی پھیلتا چلا گیا ہے،اگر ذرا نظر کو اور وسیع کیجئے تو پھر صحابہ کا استثناء بھی مشکل نظر آتا ہے،غصہ اورمسرت انسانی فطرت ہے،ان دونوں حالتوں میں انسان کے الفاظ کا صحیح توازن قائم نہیں رہا کرتا اسی لیے غصہ کے حال میں فیصلہ کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے،یہ صرف ایک نبی کی شان ہے جس کے منہ سے غضب ورضا کے دونوں حالوں میں جچے تلے الفاظ ہی نکلتے ہیں اب اگر انسانوں کے صرف ان جذباتی پہلوؤں سے تاریخ مرتب کرلی جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پھر صحابہ کے الفاظ صحابہ کے متعلق اورا ئمہ کے ائمہ کے متعلق بھی ایسے مل سکتے ہیں جن کے بعد امت کا یہ مقدس گروہ بھی زیر تنقید آسکتا ہے حافظ محمد ابراہیم وزیر نے امام شعبی کا کیسا بصیرت افروز مقولہ نقل کیا ہے: قال الشعبی حدثنا ہم بغضب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فاتخذوہ دنیا [32]
شعبیؒ فرماتے ہیں ہم نے تو لوگوں سے آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے باہمی غصہ کی حکایات نقل کی تھیں انھوں نے اٹھا کر انھیں عقائد کی فہرست میں داخل کر لیا ہے۔ اس کے سوا دوسری مشکل یہ ہے کہ محدثین کے جو مبہم الفاظ آج کتب میں مدون نظر آتے ہیں کسے فرصت ہے کہ ان کے اصل معنی سمجھنے کی کوش کرے،مثال کی طور پر ملاحظہ کیجئے، ایک مرتبہ امام صاحب اعمش کی عیادت کے لیے گئے،اعمش نے کچھ روکھا پن دکھلایا اورامام صاحب کے متعلق کچھ غصہ کے الفاظ کہے،اس اخلاق پر اعمش کا یہ رویہ آپ کو ناگوار گذرا اورگذرنا چاہیے تھا،جب آپ باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ اعمش نہ تو رمضان کے روزے رکھتا ہے اور نہ کبھی جنابت سے غسل کرتا ہے ، واقعہ یہ ہے کہ کسی امام دین پر ان الفاظ کو کتنا ہی چسپاں کیجئے مگر چسپاں نہیں ہو سکتے اگر کہیں ان الفاظ کی تشریح ہمارے سامنے نہ ہوتی تو معلوم نہیں کہ اس مقولہ سے ہمارے خیالات کتنا کچھ پریشان ہوجاتے ؛لیکن جب ان الفاظ کی مراد ہاتھ آگئی تو آنکھیں کھل گئیں اور معلوم ہوا کہ ائمہ غصہ کے حال میں بھی ایک دوسرے کے متعلق عوام کی طرح بے سروپا کلمات منہ سے نہیں نکالا کرتے ؛چنانچہ اس واقعہ میں جب فضل بن موسیٰ سے اس کا مطلب دریافت کیا گیا(اس واقعہ میں وہ امام صاحب کے ساتھ ساتھ تھے) تو انھوں نے فرمایا کہ اعمش التقاختانین سے غسل کے قائل نہ تھے ؛بلکہ جمہور کے خلاف اس مسئلہ پر عمل کرتے تھے جس پر کبھی ابتدا اسلام میں عمل کیا گیا تھا ،یعنی انزال کے بغیر غسل واجب نہیں ہوتا ، اسی طرح بعض صحابہ کا مذہب یہ تھا کہ طلوع فجر کے بعد روشنی پھیلنے تک سحری کھانا درست ہے،ان دو مسئلوں کے لحاظ سے امام صاحب کی یہ دونوں باتیں بھی درست تھیں اور اعمش کا عمل بھی اپنے مختار کے مطابق درست تھا۔ [33] اگر اسی طرح امام کے حق میں بھی بہت سے مشہور مقولوں کی مرادیں تلاش کی جائیں تو ہاتھ آسکتی ہیں اوراس کے بعد اصل بات بھی اتنی قابلِ اعتراض نہیں رہتی جیسا کہ الفاظ کی سطح سے معلوم ہوتی تھی،کتبِ تذکرہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے محدثین کی ناراضی کا بڑا سبب صرف اختلافِ مذاق تھا نہ کہ اختلافِ مسائل، امام صاحب کے دور تک عام مذاق یہ تھا کہ مسائل کے متعلق بہت ہی محدود پیمانہ پر غور وخوض کیا جاتا تھا، صرف پیش آمدہ واقعات کا شرعی حکم وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ معلوم کر لیا جاتا اس کے بعد مسئلہ کی فرضی صورتوں سے بحث کرنا ایک لایعنی مشغلہ سمجھا جاتا تھا،خطیب بغدادی نے یہاں ایک بہت دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے۔ نضر بن محمدؒ روایت کرتے ہیں کہ قتادہ کوفہ آئے اورابوبردہ کے گھر اترے،ایک دن باہر نکلے تو لوگوں کی بھیڑ ان کے ارد گرد جمع ہو گئی،قتادہ نے قسم کھا کر کہا آج جو شخص بھی حلال و حرام کا کوئی مسئلہ مجھ سے دریافت کرے گا میں اس کا ضرور جواب دونگا، امام ابو حنیفہؒ کھڑے ہو گئے اور سوال کیا اے ابو الخطاب (ان کی کنیت ہے) آپ اس عورت کے متعلق کیا فرماتے ہیں جس کا شوہر چند سال غائب رہا اس نے یہ یقین کرکے کہ اس کا انتقال ہو گیا ہو اپنا دوسرا نکاح کر لیا اس کے بعد اس کا پہلا شوہر بھی آگیا اب آپ اس کے مہر کے متعلق فرمائیے کیا فرماتے ہیں اورجو بھیڑ ان کو گھیرے کھڑی تھی ان سے مخاطب ہوکر کہا اگر اس مسئلہ کے جواب میں یہ کوئی حدیث روایت کریں گے تو وہ غلط روایت کریں گے اوراگر اپنی رائے سے فتوے دیں گے تو وہ بھی غلط ہوگا،قتادہ بولے کیا خوب!کیا یہ واقعہ پیش آچکا ہے؟امام صاحب نے فرمایا نہیں، انھوں نے کہا پھر جو مسئلہ ابھی تک پیش نہیں آیا اس کا جواب مجھ سے کیوں دریافت کرتے ہو، امام صاحب نے فرمایا کہ ہم حادثہ پیش آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرتے ہیں تاکہ جب پیش آجائے تو اس سے نجات کی راہ معلوم رہے،قتادہ ناراض ہوکر بولے خدا کی قسم میں حلال وحرام کا کوئی مسئلہ اب میں تم سے بیان نہیں کروں گا، ہاں کچھ تفسیر کے متعلق پوچھنا ہو تو پوچھو اس پر امام صاحب نے ایک تفسیر ی سوال کیا ،قتادہ اس پر بھی لاجواب ہوئے اورناراض ہو گئے،آخر کار غصہ ہوکر اندر تشریف لے گئے۔ [34]
ابو عمرو نے سلف کے اس مذاق کی شہادت پر بہت سے واقعات لکھے ہیں اور بے شبہ علم و تقویٰ کے اس دور میں مناسب بھی یہی تھا لیکن جب مقدر یہ ہوا کہ علم کا بازار سرد پڑجائے،ورع وتقوی کی جگہ جہل و فریب لے لے ادہر روز مرہ نئے سے نئے واقعات پیش آنے لگیں تو اس سے پہلے کہ جہلا شریعت میں دست اندازی شروع کر دیں یہ بھی مقدر ہو گیا کہ شریعت کی ترتیب وتہذیب ایسے ائمہ کے ہاتھوں ہوجائے جنھوں نے صحابہ وتابعین کے دور میں پرورش پائی ہو،انصاف کیجئے اگر قتادہ کے زمانہ کی یہ احتیاط اسی طرح آئندہ بھی چلی جاتی تو کیا شرعی مسائل اسی ضبط وصحت کے ساتھ جمع ہوجاتے جیسا کہ اب جمع ہوئے،درحقیقت یہ امام صاحب کی بڑی انجام بینی اور امت کی بروقت دستگیری تھی کہ آپ نے اُن کے سامنے شریعت کو ایک مرتب آئین بناکر رکھ دیا، اسی لیے عبد اللہ بن داؤد فرماتے تھے کہ امت پر آپ کا یہ حق ہے کہ وہ آپ کے لیے نمازوں کے بعد دعائیں کیا کریں،یہ خدمت اپنی جگہ خواہ کتنی ہی ضروری اوربروقت سہی مگر واقعہ یہ ہے کہ محدثین کے مذاق کے خلاف جس دوزیں آثار مرفوعات کو علاحدہ علاحدہ ضبط کرنا بھی عام دستور نہ ہو اس دور میں صرف ابواب فقہیہ کی اونچی اونچی تعمیریں کھڑا کردینا کب قابلِ برداشت ہو سکتا تھا،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب مسائل منصوصہ سے آپ ذرا قدم ادھر اُدھر ہٹائیں گے تو آپ کو اجتہاد سے کام لینا ہوگا، ایسے دور میں جہاں خاموشی کے ساتھ عمل کرنے کے علاوہ ایک قدم ادھر ادھر اٹھانا بھی قابلِ اعتراض نظر آتا ہو، احادیث وآیات کے اشارات، دلالات اوراقتضاء سے ہزاروں مسائل اخذ کرکے ان کو احادیث سے ایک علاحدہ شکل دیدینا کب گوارا کیا جا سکتا تھا، آخر جب آپ کا دور گذرگیا تو بعد کے علما کے سامنے صرف پہلے علما کی ان ناگواریوں کی نقل باقی رہ گئی،پھر استادی وشاگردی کے تعلقات نے حقایق کو ایسا پوشیدہ کر دیا جس نے جہمی کو کافر کہا تھا اسے خود جہمی اورکافر کہا گیا،جس نے کتاب وسنت کے مقابلہ میں اپنی رائے ترک کرنے کی وصیت کی تھی اسی پر کتاب وسنت کی مخالفت کرنے کی تہمت رکھی گئی ہاں اگر خوش قسمتی سے ماحول کے تاثرات سے نکل کر کسی اللہ کے بندہ نے تحقیق کی نظر ڈالی تو بہت جلد اس کی آنکھوں سے یہ حجاب اُٹھ گیا اوراس نے اپنے خیال سے رجوع کر لیا ورنہ تاریخ انھی افواہوں پر چلتی رہی جو استادی وشاگردی کے انسلاک سے علما کے حلقوں میں گشت لگارہی تھیں۔
واقعہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کی زندگی میں اس کے متعلق مختلف خیالات قائم ہو سکتے ہیں اور فیصلہ کی راہ آسانی سے نہیں نکل سکتی،بہت سی زبانیں اس کی موافقت اوربہت سی اس کی مخالفت میں بولی ہیں تو اس کی وفات کے بعد جبکہ اس کی شخصیت بھی سامنے نہیں رہتی فیصلہ کرنا کتنا مشکل ہوگا،اسماء الرجال کے فن میں تاریخ کی اس تاریکی کو دور کرنے کی سعی کی گئی ہے اورایک معتدل مزاج انسان کے لیے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا مشکل بھی نہیں رہا لیکن تاریخ کی جو نقول اوراق میں درج ہو چکی ہیں،اُس سے ہر خیال کا انسان اگر مزاجی اعتدال نہیں رکھتا تو اپنے خیال کے موافق فائدہ اٹھانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس لیے اسماء الرجال کی پیدا کردہ روشنی تاریخ کی پھیلائی ہوئی تاریکی کے دور کرنے میں بسا اوقات ناکام ہوکر رہ جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ جب آپ امام صاحب پر جرح کرنے والوں کی صف پر نظر ڈالیں گے تو ان میں زیادہ تر آپ کو وہی افراد نظر آئیں گے جو آپ کے عہدِ حیات کے بعد پیدا ہوئے ہیں یا نرے محدث ہیں فقاہت سے زیادہ بہرہ ورنہیں صرف سنی ہوئی خبریں اُن تک پہنچتی ہے لیکن ان میں اکثر شاگرد بسلسلہ فقہ تھے کاش آپ کا درسِ حدیث کا حلقہ بھی اسی پیمانہ پر قائم ہوجاتا تو شاید امام کی تاریخ کا نقشہ آج آپ کو کچھ دوسرا نظر آتا؛چنانچہ جس حنفی نے بھی اس شغل کو قائم رکھا ہے اس کے ساتھ تاریخ زیادہ بے دردی کا سلوک نہیں کرسکی۔
ذیل کے ایک ہی واقعہ سے اندازہ لگائیے کہ افواہ کیا ہوتی ہے اورجب حقیقت سامنے آجاتی ہے تو پھر اس کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ عبد اللہ بن المبارکؒ کہتے ہیں کہ میں شام میں امام اوزاعیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا انھوں نے مجھ سے پوچھا اے خراسانی کوفہ میں یہ کون بدعتی شخص پیدا ہوا ہے جس کی کنیت ابو حنیفہ ہے یہ سُن کر میں گھر واپس آیا اورتین دن لگ کر امام صاحب کے عمدہ عمدہ مسائل انتخاب کیے،تیسرے دن اپنے ہاتھ میں کتاب لے کر آیا یہ اپنی مسجد کے امام ومؤذن تھے انھوں نے دریافت کیا یہ کیا کتاب ہے میں نے اُن کے حوالہ کردی، اس میں وہ مسئلے بھی ان کی نظر سے گذرے جن کے شروع میں میں نے یہ لکھد دیا تھا،اورنعمان اس کے متعلق یہ فرماتے ہیں،اذان دے کر جب کھڑے کھڑے وہ کتاب کا ابتدائی حصہ دیکھ چکے تو کتاب اٹھا کر اپنی آستین میں رکھ لی اور اقامت کہہ کر نماز پڑھی پھر نکالی اور پڑھنا شروع کی یہاں تک کہ ختم کردی پھر مجھ سے پوچھا اے خراسانی یہ نعمان کون شخص ہیں؟ میں نے عرض کیا ایک شیخ ہیں، اُن سے عراق میں میری ملاقات ہوئی تھی،فرمایا یہ تو بڑے پایہ کے شیخ ہیں، جاؤ ان سے اورعلم سیکھو،اب میں نے کہا جی یہ تو وہی ابو حنیفہؒ ہیں جن کے پاس جانے سے بھی آپ نے مجھے منع کیا تھا،اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ امام صاحبؒ کے متعلق انھوں نے سُن کیا رکھاتھا اورجب حقیقت سامنے آئی تو بات کیا نکلی اس لیے خارجی شہادت اورواقعات سے آنکھیں بند کرکے صرف کالے کالے حروف سے تاریخ مرتب کرنا کوئی صحیح عمل نہیں ہے، اس کے علاوہ انسان میں حسد، تنافس کا بھی ایک کمزور پہلو موجود ہے، اس کی بدولت بہت سے تاریخی حقائق پوشیدہ ہوکر رہ گئے ہیں،سؤ اتفاق سے یہاں یہ سب باتیں جمع ہو گئی ہیں۔ عبد اللہ بن المبارکؒ فرماتے ہیں،میں نے حسن بن عمارہ کو امام ابو حنیفہؒ کے گھوڑے کی رکاب پکڑے ہوئے دیکھا،وہ امام صاحبؒ کی توصیف کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ لوگ آپ کے متعلق صرف ازراہِ حسد چہ میگوئیاں کرتے ہیں،حافظ ابنِ ابی داؤدؒ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والے دوہی قسم کے لوگ ہیں یا حاسد یا ان کی شان سے ناواقف،میرے نزدیک ان دونوں میں ناواقف شخص پھر غنیمت ہے،وکیع کہتے ہیں کہ میں امام صاحبؒ کے پاس آیا دیکھا تو سرجھکائے کچھ فکر مند سے بیٹھے ہیں،مجھ سے پوچھا کدھر سے آ رہے ہو میں نے کہا قاضی شریک کے پاس سے آپ نے سراٹھا کر یہ اشعار پڑھے: ان یحسدونی فانی ،غیر لائمھم قبلی من الناس اھلا الفضل قد حسدوا فدام لی ولھم مابی ومابھم ومات اکثر ناغیظا بما مجد اگر لوگ مجھ پر حسد کرتے ہیں تو کریں میں تو انھیں کچھ ملامت نہیں کروں گا،کیونکہ اہلِ فضل پر مجھ سے پہلے بھی لوگ حسد کرتے آئے ہیں،میرا اوراُن کا ہمیشہ یہی شیوہ رہے گا۔اورہم میں اکثر لوگ حسد کرکر کے مرگئے ہیں۔ وکیع کہتے ہیں شاید امام صاحب ؒ کو ان کی طرف سے کوئی بات پہنچی ہوگی اس لیے انھوں نے یہ اشعار پڑھے ۔ جعفر بن الحنس ابو عمر کے شیخ کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہؒ کو خواب میں دیکھا تو اُن سے دریافت کیا اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا،فرمایا بخشد یا میں نے کہا علم و فضل کے طفیل میں، کہا بھئی فتوی تو مفتی کے لیے بڑی ذمہ داری کی چیز ہے، میں نے کہا پھر، فرمایا لوگوں کی اُن ناحق نکتہ چینیوں کے طفیل میں جو لوگ مجھ پر کیا کرتے تھے اوراللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ وہ مجھ میں نہ تھیں۔ [35]
ابو عمر تحریر فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث نے امام صاحب کے حق میں بڑی زیادتی کی ہے اورحد سے بہت تجاوز کیا ہے آپ پر جو زیادہ سے زیادہ نکتہ چینی کی گئی ہے وہ صرف ان دو باتوں پر،ایک آثار کے مقابلہ میں رائے اور قیاس کا اعتبار کرنا، دوسری ارجاء کی نسبت حالانکہ جس جگہ امام صاحب نے کسی اثر کو ترک کیا ہے کسی نہ کسی موزوں تاویل سے کیا ہے،اس کی نوبت بھی ان کو اس لیے آتی ہے کہ انھوں نے مسائل میں بیشتر اپنے اہل بلد کا اعتبار کیا ہے جیسے ابراہیم نخعی اورابن مسعودؒ کے تلامذہ، اس سلسلہ میں مسائل کی صورتیں فرض کرنے پھر اپنی رائے سے ان کے جوابات دینے اس پر اس کو مستحسن سمجھنے میں آپ نے اورآپ کے تلامذہ نے بھی افراط سے کام لیا ہے ان وجوہ سے سلف میں اُن سے مخالفت پیدا ہو گئی ورنہ میرے نزدیک اہلِ علم میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جسے کسی حدیث کے اختیار کرنے کے بعد کسی نہ کسی حدیث کا ترک یا تاویل یا دعویٰ نسخ کرنا لازم نہ آیا ہو، فرق صرف یہ ہے کہ دوسروں کو ایسا موقع کم پیش آیا ہے اورامام صاحبؒ کو زیادہ، اس پر ان کے ساتھ حسد اوربہتان کی مصیبت مزید براں ہے،لیث بن سعد کہتے ہیں کہ امام مالکؒ کے ستر مسئلے مجھے ایسے معلوم ہیں جو سنت کے خلاف ہیں ، امام مالکؒ نے صرف اپنی رائے سے نکالے ہیں اس بارے میں اُن سے خط کتابت بھی کرچکا ہوں،ابو عمر کہتے ہیں علما امت میں یہ حق تو کسی کو حاصل نہیں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی کوئی حدیث صحت کو پہنچ جائے تو وہ اس کی سند میں طعن یا اسی درجہ کی حدیث سے دعویٰ نسخ یا اس کے مقابلہ میں امت کا اجماع پیش کیے بغیر اس کو ترک کر دے اوراگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی عدالت ہی ساقط ہوجاتی ہے چہ جائیکہ اس کو دین کا امام مانا جائے،اس کے بعد لکھتے ہیں کہ امام صاحبؒ سے روایت کرنے والوں اورآپ کو ثقہ کہنے والوں کی تعداد اُن سے زیادہ ہے جنھوں نے آپ پر نکتہ چینی کی ہو ،پھر جنھوں نے نکتہ چینی کی بھی ہے تو وہ صرف انھی دو باتوں پر کی ہے جو ابھی مذکور ہوئیں پھر تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں یہ مشہور تھاکہ بزرگی وبرتری کا یہ بھی ایک معیار ہے کہ اس کے متعلق لوگ افراط وتفریط کی دوراہوں پر نکل جائیں جیسا کہ حضرت علیؓ یہاں بھی ایک جماعت افراط اوردوسری تفریط میں مبتلاء نظر آتی ہے[36] ،آخر میں حافظ عمر بطور قاعدہ تحریر فرماتے ہیں (اس قاعدہ کی پوری تفصیل کے لیے طبقات الشافعیہ میں احمد بن صالح مصری اورحاکم کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے انھوں نے اس کے ہر گوشہ پر تفصیلی بحث کردی ہے اوراس مجمل ضابطہ میں جن جن قید وشرط کی ضرورت تھی سب ذکر کردی ہیں):جس شخص کی عدالت صحت کے درجہ کو پہنچ چکی ہو،علم کے ساتھ اس کا مشغلہ ثابت ہو چکا ہو،کبائر سے وہ احتراز کرتا ہو،مروت اورہمدردی اس کا شعار ہو،اس کی بھلائیاں زیادہ ہوں اوربرائیاں کم تو ایسے شخص کے بارے میں بے سروپا الزامات ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوں گے [37] سچ تویہ ہے کہ مخلوق نے جب اپنی زبان خالق سے بند نہیں کی تو اب ہمہ وشما سے اس کی توقع فضول ہے ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار دعا کی اے پروردگار بنی اسرائیل کی زبان سے میرا پیچھا چھڑا دے ،وحی آئی جب میں نے مخلوق کی زبان اپنے نفس سے،بند نہیں کی تو تم سے کیسے بندکردوں۔ [38]
آپ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں :
1- فقہ اکبر - بروایت ، امام حماد بن ابی حنیفہ ؒ
2- فقہ اکبر - بروایت ، امام ابو مطیع بلخی ؒ
3- العالم والمتعلم - بروایت ، امام ابو حفص مقاتل السمرقندیؒ
4- الرسالہ الی البتی
یہ مشہور فقیہ اور امام عثمان البتیؒ کی طرف بعض مسائل کی وضاحت کے سلسلہ میں لکھا۔
5- الوصایا - ابو حنیفہؒ
امام صاحب نے اصول دین ، قضاء وغیرہ سے متعلق اپنے تلامذہ کو وصیتیں کیں۔
کتاب الآثار - ابو حنیفہ النعمان ؒ
حدیث کی قدیم ترین اور صحیح روایات پر مشتمل کتاب ہے ۔ اس کو ائمہ کی بڑی تعداد نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کیا ہے ۔[39]
اس کے علاوہ امام صاحب کی روایت کردہ احادیث کو جلیل القدر ائمہ نے مسانید ، اربعین ، وحدان ،موسوعہ کی شکل میں جمع کیا۔
امام ابوحنیفہؒ نے قرآن و سنت سے ہزاروں مسائل نکالے اور فقہ کی تدوین فرمائی ۔
جن کو ان کے تلامذہ کی جماعت نے ان کی زیر نگرانی کتب میں لکھا۔
امام صاحب کے تلامذہ نے ان مسائل کو امام صاحب سے روایت بھی کیا اور اُن پر اپنی آراء کا بھی اضافہ کیا ، جس کی تکمیل امام محمد بن حسن شیبانی ؒ نے
فرمائی ، انھوں نے ان مسائل کو 6 کتب میں بیان کیا ۔ یہ کتب ظاہر الروایۃ کہلاتی ہیں ۔ جو فقہ حنفی کی بنیاد ہیں ۔
1۔ کتاب الاصل (المبسوط ) 2۔ جامع الصغیر 3۔ جامع الکبیر 4۔ السیر الصغیر 5۔ السیر الکبیر 6۔ الزیادات
اس کے علاوہ امام صاحب کی تصانیف جو ہم تک نہیں پہنچ سکیں ۔
امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں : ’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اللہ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔ ‘‘ آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
ترتیب | نام امام | مکتبہ فکر | سال و جائے پیدائش | سال و جائے وفات | تبصرہ | |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ابو حنیفہ | اہل سنت | 80ھ ( 699ء ) کوفہ | 150ھ ( 767ء ) بغداد | فقہ حنفی | |
2 | جعفر صادق | اہل تشیع | 83ھ ( 702ء ) مدینہ | 148ھ ( 765ء ) مدینہ | فقہ جعفریہ، کتب اربعہ | |
3 | مالک بن انس | اہل سنت | 93ھ ( 712ء ) مدینہ | 179ھ ( 795ء ) مدینہ | فقہ مالکی، موطا امام مالک | |
4 | محمد بن ادریس شافعی | اہل سنت | 150ھ ( 767ء ) غزہ | 204ھ ( 819ء ) فسطاط | فقہ شافعی، کتاب الام | |
5 | احمد بن حنبل | اہل سنت | 164ھ ( 781ء ) مرو | 241ھ ( 855ء ) بغداد | فقہ حنبلی، مسند احمد بن حنبل | |
6 | داود ظاہری | اہل سنت | 201ھ ( 817ء ) کوفہ | 270ھ ( 883ء ) بغداد | فقہ ظاہری، |
حضرت ضرار بن صرد نے کہا، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوری ہیں یا امام ابو حنیفہ؟ تو انھوں نے کہا کہ: ابو حنیفہ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیان (ثوری) تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں . حضرت عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا: امام ابو حنیفہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) رکھنے والے تھے۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں : ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چین (محتاج) ہیں۔ “ (مناقب الامام ابی حنیفہ ص27 ) محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداؤد فرماتے ہیں : "ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔ ترجمہ: بے شک ابوحنیفہ (حديث میں) امام تھے۔ تذكرة الحفاظ، دار الكتب العلمية: صفحة # ١٦٨، جلد # ١، طبقه # ٥، بيان: أبو حنيفة الامام اعظم
جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے انھوں نے کبھی کسی خلیفہ کی خوشامد یا ملازمت نہ کی۔ ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ یزید نے ان کو مشیر بنانا چاہا تو آپ نے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا کہ ’’اگر یزید کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ بھی مجھے گوارا نہیں۔ ‘‘ امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم کے خروج کے موقع پر انھوں نے ابراہیم کی تائید کی تھی۔ منصور نے انھیں بلا کر عہدہ قضا پر فائز کرنا چاہا لیکن آپ کے مسلسل انکار پر اول بغداد کی تعمیر کے موقع پر انھیں اینٹیں شمار کرنے کے کام پر لگایا اور بعد میں قید خانہ میں ڈال دیا۔
ایک دفعہ حضرت امام اعظم اور امام شافعی کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہو گیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبد ﷲ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا: پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو۔ جب گنے گئے تو 80 تھے۔ پھر انھوں نے احناف سے فرمایا: اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انھوں نے شمار کیے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے۔
150ھ میں بغداد میں ان کا انتقال ہوا۔ پہلی بار نماز جنازہ پڑھی گئی تو پچاس ہزار آدمی جمع ہوئے جب آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا تو چھ بار نماز جنازہ پڑھائی گئی آپ ملکہ خیزراں کے مقبرہ کے مشرق کی جانب دفن ہوئے۔ اس دور کے ائمہ اور فضلا نے آپ کی وفات پر بڑے رنج کا اظہار کیا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.