From Wikipedia, the free encyclopedia
خیبر پختونخوا کا ایک ضلع۔ مانسہرہ سبز ہ زاروں،جھیلوں اور چراگاہوں کی سر زمین 1976ء میں ہزارہ سے عليحده هوكر معرض وجود ميں آيا۔ موجودہ ضلع "اپر تناول، بالاکوٹ، مانسہرہ، شنكياري، بٹل، چھترپلین، اوگي، ڈاڈر اور جبوڑی" پر مشتمل ہے۔ ضلع کی جغرافایئی خصوصيات یہ ہیں کہ اِس کی سرحدیں ضلع ایبٹ اباد اور کشمر ،شمالی علاقہ جات و مالاکنڈ ڈویژن سے ملی ہوئی ہیں۔ شاہراہِ ریشم اسی ضلع سے گزرتی ہے۔ تاریخی طور پر ضلع مانسہرہ سید احمد شہید کی جنگ بالاکوٹ کی و جہ سے مشہور ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہمہ گیر ترقی ہونے کے باوجود آج بھی لوگوں کا بڑا ذریعہ معاش جنگلات ہیں جو لوگوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی سنوارنے میں اہم کردار ادا کر ر ہے ہیں۔ یہاں کے لوگ رجعت پسند اور اپنی اخلاقی قدروں کے بارے میں بڑے حساس ہیں۔ سیر وسیاحت اِس علاقہ کی تیزی سے ترقی کرنے والی منافع بخش صنعت ہے۔ 8 اکتوبر 2005 کو قیامت خیز زلزلے نے اس ضلع کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر کے رکھدیا، بالاکوٹ سمیت کئی دیہات ملیامیٹ ہو گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں أفراد لقمہ اجل بن گئے تھے ۔
ضلع مانسہرہ | |
---|---|
نقشہ | |
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان [1] |
دار الحکومت | مانسہرہ |
تقسیم اعلیٰ | ہزارہ ڈویژن |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 34°38′54″N 73°27′53″E |
رقبہ | 4579 مربع کلومیٹر |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 1170950 |
درستی - ترمیم |
ضلع کا کُل رقبہ4579 مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں فی مربع کلو میٹر 296 افراد آباد ہیں جبکہ ضلع کی آبادی 1356000 تک ہے۔ دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ کُل قابِل کاشت رقبہ 80740 ہیکٹرز ہے
سکندر اعظم نے پنجاب کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد، ضلع مانسہر ہ کے تقریبا علاقے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ 327 قبل از مسیح میں سکندر اعظم نے اس علاقے کا انتظام ابیسارس کے حوالے کر دیا، جو ریاست پونچھ کا راجا تھا۔ مانسہرہ عرصہ دراز تک ریاست ٹیکسلا کا بھی حصہ رہا ہے۔ اشوکا اپنی ولی عہدی دور میں اس علاقے کا گورنر کا گورنر مقرر تھا، جبکہ اپنے والد بندوسارہ کی وفات کے بعد وہ سلطنت کا وارث ٹھہرا اور مانسہرہ کے علاوہ گندھارا کا حکمران ہوا۔ آج بھی اس کے دور حکومت کی نشانی کے طور پر تین یا اس سے زائد چٹانیں جس پر اس کے حکمنامے نقش ہیں، مانسہرہ شہر میں کوہ بریڑی کے دامن میں اس کے دور حکومت کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ ان نشانیوں سے یہ بھی واضع ہوتا ہے کہ یہ علاقہ کبھی مذہبی مرکز بھی رہا ہے۔ مانسہرہ کا نام "مان سنگھ" کے نام سے اخذ ہوا، جو ایک زمانے میں اس علاقے کا حکمران تھا۔ مشہور ریاست امب جو پٹھان قوم کے تنولی قبیل کے زیراثر تھی، بھی مانسہرہ کا حصہ ہے، جس کی ریاستی حیثیت 1969ء میں حکومت پاکستان نے ختم کر دی تھی۔ گذشتہ ریاست امب اور ہزارہ کے مضافات کی تاریخ کافی پرانی ہے، جس کا تعلق سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملوں سے ملتا ہے۔ آریان جو سکندر اعظم کا نامزد کردہ تاریخ دان تھا، نے کہیں بھی ریاست امب کے مرکز کی نشان دہی نہیں کی ہے، البتہ تاریخ میں یہ ضرور درج ہے کہ دریائے سندھ یا جسے یہاں مقامی طور پر اباسین کے نام سے جانا جاتا ہے، کے دائیں کنارے پر آباد مرکز تھا، جسے سکندر اعظم نے وسائل کی ترسیل کے لیے مرکز کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہی مرکز ریاست امب کا منبع کہلاتا ہے۔ 1854ء میں جنرل ایبٹ، جو برطانوی حکومت کے نامزد کردہ افسر تھے اور انھی کے نام پر ایبٹ آباد کا نام ہے، نے ریاست امب اور اس کے مرکز کی نشان دہی بونیر کے جنوبی علاقے میں کی ہے۔ ان کے مطابق رنجیت سنگھ کے وقت سے امب کا موجودہ گاؤں جو دریا سندھ یا اباسین کے دائیں کنارے پر واقع ہے کو ہی اس کا مرکز تھا۔ یہ مرکز مہابان کے علاقے سے تقریباً 8 کلومیٹر مشرق میں واقع علاقہ تھا، جہاں سے ریاست امب کے نوابوں نے اپنا نام منتخب کیا۔
دوسری صدی عیسوی میں ایک ہندہ راجا، راجا رسالو جو راجا سلباہان کا بیٹا تھا اور اس کا تعلق سیالکوٹ سے تھا نے اس علاقے پر قبضہ کیا۔ یہاں کی مقامی آبادی میں راجا رسالو اب بھی افسانوی داستانوں میں زندہ ملتا ہے۔ چینی سیاح ہیان تسانگ کے درج شدہ بیان کے مطابق کہ جب اس نے اس دور میں یہاں دورہ کیا تھا تو یہ علاقہ درلاباوردھانا، جو ریاست کشمیر کا حکمران تھا کے قبضے میں تھا۔ ترک راج اور ہندو راج پے در پے اس علاقے پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں جبکہ حکمرانی بھی اسی طور منتقل ہوتی رہی ہے۔ ہندو شاہی میں راجا جے آپالا نے زیادہ شہرت پائی جسے محمود غزنوی نے اپنی پہلی ہندوستانی مہم کے دوران شکست دی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تاریخ میں کہیں بھی محمود غزنوی کے مانسہرہ میں قیام یا یہاں سے گذد کے ثبوت میسر نہیں ہیں۔ گیارھویں صدی میں ہندو شاہی کے خاتمے کے بعد کشمیریوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا، جب وہاں کا حکمران کلشان تھا۔ 1112 سے 1120 تک راجا سوسالا نے یہاں حکمرانی کی۔ بارہویں صدی میں اصلات خان نے اس علاقے کو اپنی فوجی مہم میں فتح کیا، جبکہ اس کے جانشین غور محمد کے بعد ایک بار پھر یہ علاقہ کشمیریوں کے ذیر اثر آگیا۔
1399 میں، عظیم مسلمان جنگجو تیمور نے کابل سے واپسی پر اپنے ترک فوجیوں کو مانسہرہ میں تعینات کیا تا کہ اس اہم راستے کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے جو کشمیر کو کابل سے ملاتا ہےؕ۔ تاہم، 1472 میں شہزادہ شہاب الدین نے کابل سے یہاں کا رخ کیا اور صحیح معنوں میں اپنی عملداری قائم کی۔ شہاب الدین جو وسط ایشیائی شہزادہ تھا اس نے پکھلی سرکار کے نام سے یہاں ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور گلی باغ نامی قصبے کو اس ریاست کا مرکز بنا دیا۔ مغل دور میں یہی ترک جرنیل جو اس ریاست میں تعینات تھے، اس علاقے میں مغل عملداری کے پاسبان تھے۔ درحقیقت یہی علاقہ اور راستہ کشمیر کا سلطنت ہندوستان کا مرکز کے ساتھ رابطے کا ذریعہ تھا اور شہنشاہ اکبر نے اسی راستے کا استعمال کیا۔ شہنشاہ اکبر کی حکمرانی کے آخری حصے میں ترک سلطان حسین خان نے اس علاقے پر حملہ کیا اور مغل حکمرانوں کو دعوت جنگ دی۔ حملے کا جواز سلطان حسین خان نے اندرونی معاملات میں مرکز کی مداخلت کو قرار دیا۔ پہلے تو مغلوں نے سلطان کو ہندوستان سے جلاوطن کیا لیکن بعد ازاں اسے معافی اور علاقے کی عملداری عطا کر دی گئی۔ ترکوں کی نسلیں اب مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور میں آباد رہیں۔
پشتونوں اور ان کے حامیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے بالآخر ترکوں کی عملداری ختم ہو گئی۔ 1703 میں ترکوں کو سید جلال بابا کی سپہ سالاری میں سواتیوں کے ایک بڑے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ سید جلال بابا ترکوں کے آخری سلطان محمود کرد کے داماد تھے۔ اپنے سسر کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سید جلال بابا نے سواتیوں کی مدد سے ریاست پکھلی سرکار پر اپنا تسلط قاؕئم کیا۔ ترک شکست کے بعد تناول کے پہاڑی علاقوں اور ہزارہ کے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ترکوں کے پاس چند علاقوں کی عملداری بہر حال موجود رہی، جہاں وہ اپنے آپ کو راجا کہلا کر حکمرانی کرتے رہے۔ احمد شاہ درانی کی حکومت جب پنجاب میں بھی قائم ہو گئی تو ضلع مانسہرہ کا علاقہ بھی اس میں شامل تھا۔ درانی نے یہی بہتر سمجھا کہ مقامی قبائلی سرداروں کی مدد سے اس علاقے پر حکمرانی کی جائے، اس ضمن میں سادات خان جن کا تعلق گڑھی حبیب اللہ سے تھا، کافی مشہور ہوئے۔ درانیوں کی حکمرانی اس علاقے پر اٹھارہویں صدی کے اوائل تک رہی۔ تنولی قبائل نے اپنی عملداری تناول علاقہ میں قائم کر رکھی تھی اور کافی مہم جوئیوں کے بعد بھی درانی علاقہ تناول پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔ اس ضمن میں درانیوں کے متعلق حقائق میجر ویس نے 1872 میں اپنی تصانیف جو ہزارہ کی سرکاری رپورٹ پر مشتمل تھیں میں درج کی ہی٘ں۔ مختلف ادوار میں ہوئی تبدیلیاں اور نقشوں کی مدد سے مختلف حکمرانوں کی آمد اور حملوں کو واضع کیا گیا ہے۔ اسی تصنیف میں ریاست امب کو ملک تناول کے نام سے دکھایا گیا ہے۔ تنولی قبیلوں نے کبھی درانیوں کی حکمرانی کو تسلیم نہ کیا اور ریاست امب کے نواب جو پائندہ خان کے والد تھے نے ہمیشہ درانی فوجوں سے ٹیکس وصول کیا جب وہ تناول کے علاقے سے گذرنے والے راستے استعمال کرتے۔ انھی کی سربراہی میں اہل تناول نے درانیوں کو شکست دی لیکن نواب کی موت ایک درانی شاہ جو سردار عظیم خان درانی کے نام سے جانے جاتے تھے کے ہاتھوں 1818 میں ہوئی۔ درانیوں کی حکمرانی ختم ہونے کے بعد سکھوں نے رنجیت سنگھ کی سربراہی میں اس علاقے پر اپنی عملداری قائم کی۔ مانسہرہ پر سکھوں کا قبضہ 1818 میں ہوا اور اس علاقے کو انتظامی طور پر پنجاب کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ سید احمد شہید اور ان کے ساتھیوں کی مہمات کے سبب اس علاقے میں 1831 تک سکھوں اور پشتونوں میں جھڑپیں جاری رہیں اور بالاکوٹ کے مقام پر آخری معرکے میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید سمیت بڑی تعداد میں مجاہدین نے شہادت پائی اور یہ علاقہ مکمل طور پر سکھوں کے قبضے میں چلا گیا۔ رنجیت سنگھ کے بعد سکھوں کی حکومت اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور اسی اثناء میں انگریزوں نے پنجاب کی حکمرانی سنبھال لی، مانسہرہ بھی اسی طور برطانوی ریاست کا حصہ بن گیا۔
1849 میں حکومت برطانیہ نے مانسہرہ پر اپنا تسلط قائم کیا، لیکن مغربی پشتون قبائل کو زیر کرنے میں ناکام رہے۔ یہ قبائل وادی الائی، بٹگرام اور وادی نندھیار اور کالا ڈھاکہ میں آباد تھے۔ 1852 میں، تین سال کے جزوی امن کے بعد زمان شاہ جن کا تعلق کاغان سے تھا نے برطانوی تسلط کے خلاف مہم جوئی کا آغاز کیا، لیکن جیمز ایبٹ نے اپنی فوج کی مدد سے زمان شاہ کی اس مہم جوئی کو ناکام بنا دیا اور انھیں پکھلی کے میدانوں میں جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیا۔ لیکن بعد ازیں انھیں معافی ملی اور ان کا علاقہ انھیں واپس کر دیا گیا۔ 1852 سے لے کر 1892 تک برطونوی حکمرانوں نے سرکش گوجر،پشتون قبائل کے خلاف مہمات جاری رکھیں۔ برطانوی راج کے دوران ضلع ہزارہ کو تین انتظامی تحصیلوں میں تقسیم کیا جو مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور پر مشتمل تھیں اور انھیں پنجاب سے منسلک رکھا۔ بعد ازیں 1901 میں جب شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا گیا تو ضلع ہزارہ کو اس میں شامل کیا گیا۔ برطانوی راج گوجروں نے کبھی حکومتی عملداری کو تسلیم نہ کیا اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ برطانوی حکومت نے ریاست امب کی خود مختاری کو تسلیم کیا، جبکہ ذیلی ریاست پھلڑہ کی بھی نیم خود مختاری جو امب کے نواب پائندہ خان کی طرف سے اپنے بھائی ماداد خان کے زیر اثر تھی برقرار رکھی گئی۔ اس ضمن میں ایک معاہدہ جو ریاست امب اور برطانوی راج کے مابین طے پایا کافی شہرت رکھتا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران مقامی طور پرگوجر، پشتون، تنولی اور دوسرے قبیلوں نے ایک ساتھ جدوجہد کی۔ ریاست امب کے نواب سر محمد فرید خان کے قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خان کے ساتھ رابطہ برقرار رہا، جس کی مثال مختلف ادوار میں ہوئی خط کتابت سے دی جا سکتی ہے۔ 1947ء میں جب تقسیم ہند کا مرحلہ درپیش تھا تو تمام قبائل اور ریاست امب نے متفقہ طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ 1969ء میں ریاست امب کی خود مختاری ختم کر کے اسے پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا، جبکہ 1971ح میں شاہی ریاست امب کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ بھٹو دور میں مانسہرہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا جس میں مانسہرہ اور بٹگرام دو تحصیلیں تھیں۔ بعد میں بالاکوٹ کو بھی تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔ بٹگرام بعد ازیں ضلع کا درجہ پاگیا، جبکہ اب مانسہرہ میں تین تحصیلات، مانسہرہ، اوگی اور بالاکوٹ کی صورت میں موجود ہیں۔( ضلع مانسہرہ کی تحصیلوں میں مزید اضافہ کر دیا گیاہے جس کے مطابق دسمبر 2022 تک ضلع مانسہرہ کی پانچ تحصیلیں بن چکی ہیں۔ جن میں تحصیل دربند اور تحصیل تناول کے نام سے دو نٸی تحصلیں شامل ہیں۔ تحصیل تناول میں 4 یونین کونسلوں ، پڑھنہ ، پھلڑہ ، ساون میرا اور لساں نواب کے علاقہ جات کو شامل کیا گیا ہے )
مانسہرہ، شمال مغربی سرحدی صوبے کی مشرقی سرحد پر واقع ہے، جس کی پشاور سے فاصلہ تقریباً 217 کلومیٹر جبکہ اسلام آباد سے یہ 195 کلومیٹر ہے۔
ضلع مانسہرہ کی سرحدیں شمال میں ضلع دیامر اور کوہستان، جنوب میں ایبٹ آباد، مشرق میں آزاد کشمیر کا ضلع نیلم، مغرب میں ضلع سوات جبکہ شمال مشرق میں ضلع بٹگرام اور ضلع بونیر سے ملتی ہیں۔
ضلع مانسہرہ میں کئی چھوٹی اور بڑی جھیلیں ہیں، لیکن سیاحتی اور جغرافیائی لحاظ سے تین جھیلیں مشہور ہیں۔ ان میں جھیل لولوسر، جھیل دودی پت سر اور جھیل سیف الملوک شامل ہیں۔ یہ تینوں جھیلیں وادی کاغان میں واقع ہیں، جو تحصیل بالاکوٹ کا حصہ ہے۔
جھیل لولوسر ناران سے تقریباً 48 کلومیٹر دور واقع ہے جبکہ یہ سطح سمندر سے تقریبا 3325 میٹر بلند ہے۔ یہ جھیل اطراف میں جنگل سے گھری ہوئی ہے، جبکہ اس کے ارد گرد واقع جڑی بوٹیوں کے جنگلات ملکی شہرت کے حامل ہیں۔ یہ جھیل دریائے کنہار کا منبع بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ جھیل دودی پت سر بند شکل میں خوبصورت برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی انتہائی مشکل اور دشوارگذار کام ہے۔ اس جھیل تک رسائی کے لیے کم از کم سات سے بارہ گھنٹے تک انتہائی مشکل اور دشوار گزار گھاٹیوں میں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہے۔ جھیل کے اطراف میں چراہ گاہیں اور ہرا پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ضلع مانسہرہ کی سب سے مشہور اور خوبصورت جھیل سیف الملوک ہے، جس کا نام یہاں مشہور ایک افسانوی داستان، قصہ سیف الملوک کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ قصہ ایک فارسی شہزادے اور ایک پری کی محبت کی داستان ہے۔ جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے تقریبا 3244 میٹر بلندی پر واقع ہے۔
| شہر_نقشہ = Pakistan - Khyber Pakhtunkhwa - Mansehra.svg | موقع_جال = | ذیلی_نوٹ = } خیبر پختونخوا کا ایک ضلع۔ مانسہرہ سبز ہ زاروں،جھلورں اور چراگاہوں کی سر زمین 1976ء میں ہزارہ سے عليحده هوكر معرض وجود ميں آيا۔ موجودہ ضلع "بالاکوٹ، مانسہرہ، شنكياري، چهترپلين، بتل اور اوگي" پر مشتمل ہے۔ ضلع کی جغرافایئی خصوصيات یہ ہیں کہ اِس کی سرحدیں کشمر ،شمالی علاقہ جات اور مالاکنڈ ڈویژن سے ملی ہوئی ہیں۔ شاہراہِ ریشم اسی ضلع سے گزرتی ہے۔ تاریخی طور پر ضلع مانسہرہ سید احمد شہید کی جنگ بالاکوٹ کی و جہ سے مشہور ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہمہ گرٹ ترقی ہونے کے باوجود آج بھی لوگوں کا بڑا ذریعہ معاش جنگلات ہیں جو لوگوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی سنوارنے میں اہم کردار ادا کر ر ہے ہیں۔ یہاں کے لوگ رجعت پسند اور اپنی اخلاقی قدروں کے بارے میں بڑے حساس ہیں۔ سیر وسیاحت اِس علاقہ کی تیزی سے ترقی کرنے والی منافع بخش صنعت ہے۔
ضلع کا کُل رقبہ4579 مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں فی مربع کلو میٹر 296 افراد آباد ہیں جبکہ ضلع کی آبادی 1356000 تک ہے۔ دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ کُل قابِل کاشت رقبہ 80740 ہیکٹرز ہے
سکندر اعظم نے پنجاب کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد، ضلع مانسہر ہ کے تقریبا علاقے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ 327 قبل از مسیح میں سکندر اعظم نے اس علاقے کا انتظام ابیسارس کے حوالے کر دیا، جو ریاست پونچھ کا راجا تھا۔ مانسہرہ عرصہ دراز تک ریاست ٹیکسلا کا بھی حصہ رہا ہے۔ اشوکا اپنی ولی عہدی دور میں اس علاقے کا گورنر کا گورنر مقرر تھا، جبکہ اپنے والد بندوسارہ کی وفات کے بعد وہ سلطنت کا وارث ٹھہرا اور مانسہرہ کے علاوہ گندھارا کا حکمران ہوا۔ آج بھی اس کے دور حکومت کی نشانی کے طور پر تین یا اس سے زائد چٹانیں جس پر اس کے حکمنامے نقش ہیں، مانسہرہ شہر میں کوہ بریڑی کے دامن میں اس کے دور حکومت کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ ان نشانیوں سے یہ بھی واضع ہوتا ہے کہ یہ علاقہ کبھی مذہبی مرکز بھی رہا ہے۔ مانسہرہ کا نام "مان سنگھ" کے نام سے اخذ ہوا، جو ایک زمانے میں اس علاقے کا حکمران تھا۔ مشہور ریاست امب جو تنولی قبیلے پر مشتمل تھی، بھی مانسہرہ کا حصہ ہے، جس کی ریاستی حیثیت 1969ء میں حکومت پاکستان نے ختم کر دی تھی۔ گذشتہ ریاست امب اور ہزارہ کے مضافات کی تاریخ کافی پرانی ہے، جس کا تعلق سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملوں سے ملتا ہے۔ آریان جو سکندر اعظم کا نامزد کردہ تاریخ دان تھا، نے کہیں بھی ریاست امب کے مرکز کی نشان دہی نہیں کی ہے، البتہ تاریخ میں یہ ضرور درج ہے کہ دریائے سندھ یا جسے یہاں مقامی طور پر اباسین کے نام سے جانا جاتا ہے، کے دائیں کنارے پر آباد مرکز تھا، جسے سکندر اعظم نے وسائل کی ترسیل کے لیے مرکز کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہی مرکز ریاست امب کا منبع کہلاتا ہے۔ 1854ء میں جنرل ایبٹ، جو برطانوی حکومت کے نامزد کردہ افسر تھے اور انھی کے نام پر ایبٹ آباد کا نام ہے، نے ریاست امب اور اس کے مرکز کی نشان دہی بونیر کے جنوبی علاقے میں کی ہے۔ ان کے مطابق رنجیت سنگھ کے وقت سے امب کا موجودہ گاؤں جو دریا سندھ یا اباسین کے دائیں کنارے پر واقع ہے کو ہی اس کا مرکز تھا۔ یہ مرکز مہابان کے علاقے سے تقریباً 8 کلومیٹر مشرق میں واقع علاقہ تھا، جہاں سے ریاست امب کے نوابوں نے اپنا نام منتخب کیا۔
دوسری صدی عیسوی میں ایک ہندہ راجا، راجا رسالو جو راجا سلباہان کا بیٹا تھا اور اس کا تعلق سیالکوٹ سے تھا نے اس علاقے پر قبضہ کیا۔ یہاں کی مقامی آبادی میں راجا رسالو اب بھی افسانوی داستانوں میں زندہ ملتا ہے۔ چینی سیاح ہیان تسانگ کے درج شدہ بیان کے مطابق کہ جب اس نے اس دور میں یہاں دورہ کیا تھا تو یہ علاقہ درلاباوردھانا، جو ریاست کشمیر کا حکمران تھا کے قبضے میں تھا۔ ترک راج اور ہندو راج پے در پے اس علاقے پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں جبکہ حکمرانی بھی اسی طور منتقل ہوتی رہی ہے۔ ہندو شاہی میں راجا جے آپالا نے زیادہ شہرت پائی جسے محمود غزنوی نے اپنی پہلی ہندوستانی مہم کے دوران شکست دی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تاریخ میں کہیں بھی محمود غزنوی کے مانسہرہ میں قیام یا یہاں سے گذد کے ثبوت میسر نہیں ہیں۔ گیارھویں صدی میں ہندو شاہی کے خاتمے کے بعد کشمیریوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا، جب وہاں کا حکمران کلشان تھا۔ 1112 سے 1120 تک راجا سوسالا نے یہاں حکمرانی کی۔ بارہویں صدی میں اصلات خان نے اس علاقے کو اپنی فوجی مہم میں فتح کیا، جبکہ اس کے جانشین غور محمد کے بعد ایک بار پھر یہ علاقہ کشمیریوں کے ذیر اثر آگیا۔
1399 میں، عظیم مسلمان جنگجو تیمور نے کابل سے واپسی پر اپنے ترک فوجیوں کو مانسہرہ میں تعینات کیا تا کہ اس اہم راستے کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے جو کشمیر کو کابل سے ملاتا ہےؕ۔ تاہم، 1472 میں شہزادہ شہاب الدین نے کابل سے یہاں کا رخ کیا اور صحیح معنوں میں اپنی عملداری قائم کی۔ شہاب الدین جو وسط ایشیائی شہزادہ تھا اس نے پکھلی سرکار کے نام سے یہاں ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور گلی باغ نامی قصبے کو اس ریاست کا مرکز بنا دیا۔ مغل دور میں یہی ترک جرنیل جو اس ریاست میں تعینات تھے، اس علاقے میں مغل عملداری کے پاسبان تھے۔ درحقیقت یہی علاقہ اور راستہ کشمیر کا سلطنت ہندوستان کا مرکز کے ساتھ رابطے کا ذریعہ تھا اور شہنشاہ اکبر نے اسی راستے کا استعمال کیا۔ شہنشاہ اکبر کی حکمرانی کے آخری حصے میں ترک سلطان حسین خان نے اس علاقے پر حملہ کیا اور مغل حکمرانوں کو دعوت جنگ دی۔ حملے کا جواز سلطان حسین خان نے اندرونی معاملات میں مرکز کی مداخلت کو قرار دیا۔ پہلے تو مغلوں نے سلطان کو ہندوستان سے جلاوطن کیا لیکن بعد ازاں اسے معافی اور علاقے کی عملداری عطا کر دی گئی۔ ترکوں کی نسلیں اب مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور میں آباد رہیں۔
پشتونوں اور ان کے حامیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے بالآخر ترکوں کی عملداری ختم ہو گئی۔ 1703 میں ترکوں کو سید جلال بابا کی سپہ سالاری میں سواتیوں کے ایک بڑے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ سید جلال بابا ترکوں کے آخری سلطان محمود کرد کے داماد تھے۔ اپنے سسر کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سید جلال بابا نے سواتیوں کی مدد سے ریاست پکھلی سرکار پر اپنا تسلط قاؕئم کیا۔ ترک شکست کے بعد تناول کے پہاڑی علاقوں اور ہزارہ کے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ترکوں کے پاس چند علاقوں کی عملداری بہر حال موجود رہی، جہاں وہ اپنے آپ کو راجا کہلا کر حکمرانی کرتے رہے۔ احمد شاہ درانی کی حکومت جب پنجاب میں بھی قائم ہو گئی تو ضلع مانسہرہ کا علاقہ بھی اس میں شامل تھا۔ درانی نے یہی بہتر سمجھا کہ مقامی قبائلی سرداروں کی مدد سے اس علاقے پر حکمرانی کی جائے، اس ضمن میں سادات خان جن کا تعلق گڑھی حبیب اللہ سے تھا، کافی مشہور ہوئے۔ درانیوں کی حکمرانی اس علاقے پر اٹھارہویں صدی کے اوائل تک رہی۔ تنولی قبائل نے اپنی عملداری تناول علاقہ میں قائم کر رکھی تھی اور کافی مہم جوئیوں کے بعد بھی درانی علاقہ تناول پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔ اس ضمن میں درانیوں کے متعلق حقائق میجر ویس نے 1872 میں اپنی تصانیف جو ہزارہ کی سرکاری رپورٹ پر مشتمل تھیں میں درج کی ہی٘ں۔ مختلف ادوار میں ہوئی تبدیلیاں اور نقشوں کی مدد سے مختلف حکمرانوں کی آمد اور حملوں کو واضع کیا گیا ہے۔ اسی تصنیف میں ریاست امب کو ملک تناول کے نام سے دکھایا گیا ہے۔ تنولی قبیلوں نے کبھی درانیوں کی حکمرانی کو تسلیم نہ کیا اور ریاست امب کے نواب جو پائندہ خان کے والد تھے نے ہمیشہ درانی فوجوں سے ٹیکس وصول کیا جب وہ تناول کے علاقے سے گذرنے والے راستے استعمال کرتے۔ انھی کی سربراہی میں اہل تناول نے درانیوں کو شکست دی لیکن نواب کی موت ایک درانی شاہ جو سردار عظیم خان درانی کے نام سے جانے جاتے تھے کے ہاتھوں 1818 میں ہوئی۔ درانیوں کی حکمرانی ختم ہونے کے بعد سکھوں نے رنجیت سنگھ کی سربراہی میں اس علاقے پر اپنی عملداری قائم کی۔ مانسہرہ پر سکھوں کا قبضہ 1818 میں ہوا اور اس علاقے کو انتظامی طور پر پنجاب کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ سید احمد شہید اور ان کے ساتھیوں کی مہمات کے سبب اس علاقے میں 1831 تک سکھوں اور سید احمد شہید کی قیادت میں مجاہدین اور مقامی گجروں میں جھڑپیں جاری رہیں اور بالاکوٹ کے مقام پر آخری معرکے میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید سمیت بڑی تعداد میں مجاہدین نے شہادت پائی اور یہ علاقہ مکمل طور پر سکھوں کے قبضے میں چلا گیا۔ رنجیت سنگھ کے بعد سکھوں کی حکومت اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور اسی اثناء میں انگریزوں نے پنجاب کی حکمرانی سنبھال لی، مانسہرہ بھی اسی طور برطانوی ریاست کا حصہ بن گیا۔
1849 میں حکومت برطانیہ نے مانسہرہ پر اپنا تسلط قائم کیا، لیکن مغربی پشتون قبائل کو زیر کرنے میں ناکام رہے۔ یہ قبائل وادی الائی، بٹگرام اور وادی نندھیار اور کالا ڈھاکہ میں آباد تھے۔ 1852 میں، تین سال کے جزوی امن کے بعد زمان شاہ جن کا تعلق کاغان سے تھا نے برطانوی تسلط کے خلاف مہم جوئی کا آغاز کیا، لیکن جیمز ایبٹ نے اپنی فوج کی مدد سے زمان شاہ کی اس مہم جوئی کو ناکام بنا دیا اور انھیں پکھلی کے میدانوں میں جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیا۔ لیکن بعد ازیں انھیں معافی ملی اور ان کا علاقہ انھیں واپس کر دیا گیا۔ 1852 سے لے کر 1892 تک برطونوی حکمرانوں نے سرکش گوجراور پشتون قبائل کے خلاف مہمات جاری رکھیں۔ برطانوی راج کے دوران ضلع ہزارہ کو تین انتظامی تحصیلوں میں تقسیم کیا جو مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور پر مشتمل تھیں اور انھیں پنجاب سے منسلک رکھا۔ بعد ازیں 1901 میں جب شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا گیا تو ضلع ہزارہ کو اس میں شامل کیا گیا۔ برطانوی راج گوجروں نے کبھی حکومتی عملداری کو تسلیم نہ کیا اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ برطانوی حکومت نے ریاست امب کی خود مختاری کو تسلیم کیا، جبکہ ذیلی ریاست پھلڑہ کی بھی نیم خود مختاری جو امب کے نواب پائندہ خان کی طرف سے اپنے بھائی ماداد خان کے زیر اثر تھی برقرار رکھی گئی۔ اس ضمن میں ایک معاہدہ جو ریاست امب اور برطانوی راج کے مابین طے پایا کافی شہرت رکھتا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران مقامی طور پر پشتون، تنولی اور دوسرے قبیلوں نے ایک ساتھ جدوجہد کی۔ ریاست امب کے نواب سر محمد فرید خان کے قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خان کے ساتھ رابطہ برقرار رہا، جس کی مثال مختلف ادوار میں ہوئی خط کتابت سے دی جا سکتی ہے۔ 1947ء میں جب تقسیم ہند کا مرحلہ درپیش تھا تو تمام قبائل اور ریاست امب نے متفقہ طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ 1969ء میں ریاست امب کی خود مختاری ختم کر کے اسے پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا، جبکہ 1971ح میں شاہی ریاست امب کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ بھٹو دور میں مانسہرہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا جس میں مانسہرہ اور بٹگرام دو تحصیلیں تھیں۔ بعد میں بالاکوٹ کو بھی تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔ بٹگرام بعد ازیں ضلع کا درجہ پاگیا، جبکہ اب مانسہرہ میں تین تحصیلات، مانسہرہ، اوگی اور بالاکوٹ کی صورت میں موجود ہیں۔
مانسہرہ، شمال مغربی سرحدی صوبے کی مشرقی سرحد پر واقع ہے، جس کی پشاور سے فاصلہ تقریباً 217 کلومیٹر جبکہ اسلام آباد سے یہ 195 کلومیٹر ہے۔
ضلع مانسہرہ کی سرحدیں شمال میں ضلع دیامر اور کوہستان، جنوب میں ایبٹ آباد، مشرق میں آزاد کشمیر کا ضلع نیلم، مغرب میں ضلع سوات جبکہ شمال مشرق میں ضلع بٹگرام اور ضلع بونیر سے ملتی ہیں۔
ضلع مانسہرہ میں کئی چھوٹی اور بڑی جھیلیں ہیں، لیکن سیاحتی اور جغرافیائی لحاظ سے تین جھیلیں مشہور ہیں۔ ان میں جھیل لولوسر، جھیل دودی پت سر اور جھیل سیف الملوک شامل ہیں۔ یہ تینوں جھیلیں وادی کاغان میں واقع ہیں، جو تحصیل بالاکوٹ کا حصہ ہے۔
جھیل لولوسر ناران سے تقریباً 48 کلومیٹر دور واقع ہے جبکہ یہ سطح سمندر سے تقریبا 3325 میٹر بلند ہے۔ یہ جھیل اطراف میں جنگل سے گھری ہوئی ہے، جبکہ اس کے ارد گرد واقع جڑی بوٹیوں کے جنگلات ملکی شہرت کے حامل ہیں۔ یہ جھیل دریائے کنہار کا منبع بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ جھیل دودی پت سر بند شکل میں خوبصورت برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی انتہائی مشکل اور دشوارگذار کام ہے۔ اس جھیل تک رسائی کے لیے کم از کم سات سے بارہ گھنٹے تک انتہائی مشکل اور دشوار گزار گھاٹیوں میں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہے۔ جھیل کے اطراف میں چراہ گاہیں اور ہرا پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ضلع مانسہرہ کی سب سے مشہور اور خوبصورت جھیل سیف الملوک ہے، جس کا نام یہاں مشہور ایک افسانوی داستان، قصہ سیف الملوک کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ قصہ ایک فارسی شہزادے اور ایک پری کی محبت کی داستان ہے۔ جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے تقریبا 3244 میٹر بلندی پر واقع ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.