From Wikipedia, the free encyclopedia
گرین لینڈ ڈینش زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب "لوگوں کی سرزمین" ہے۔ یہ خود مختار ملک ڈنمارک کی مملکت کا حصہ ہے اور بحرِ منجمد شمالی اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کے مغرب میں کینیڈا کا کچھ علاقہ موجود ہے۔
گرین لینڈ Greenland Kalaallit Nunaat | |
---|---|
ترانہ: | |
دار الحکومت | نوک |
سرکاری زبانیں | گرین لینڈک[a] |
ڈینش[a] | |
نسلی گروہ |
|
آبادی کا نام | گرین لینڈک |
حکومت | آئینی بادشاہت میں پارلیمانی جمہوریت |
• ملکہ | مارگریتھ دوم |
• ہائی کمشنر | Mikaela Engell |
Kuupik Kleist | |
مقننہ | گرین لینڈ پارلیمنٹ |
مملکت ڈنمارک کے تحت خود مختاری | |
• ناروے سے آزادی | 1261 |
• رابطہ دوبارہ قائم | 1721 |
• معاہدہ کیل | 14 جنوری 1814 |
• حیثیت | 5 جون 1953 |
• مقامی حکومت | 1 مئی 1979 |
• مزید خود مختاری اور مقامی حکومت | 21 جون 2009[1][2] |
رقبہ | |
• کل | 2,166,086 کلومیٹر2 (836,330 مربع میل) (بارھواں) |
• پانی (%) | 83.1[d] |
آبادی | |
• تخمینہ | 56,370[3] |
• کثافت | 0.026/کلو میٹر2 (0.1/مربع میل) (242nd) |
جی ڈی پی (پی پی پی) | 2012 تخمینہ |
• کل | 11.3 بلین کرون۔[4] (n/a) |
ایچ ڈی آئی (1998) | 0.927[5] ویری ہائی · دستیاب نہیں |
کرنسی | ڈینش کرون (DKK) |
منطقۂ وقت | یو ٹی سی+0 to −4 |
ڈرائیونگ سائیڈ | دائیں جانب |
کالنگ کوڈ | +299 |
آیزو 3166 کوڈ | GL |
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈی | ۔gl |
|
1979 میں ڈنمارک نے گرین لینڈ کو اندرونی خود مختاری دے دی تھی اور 2008 میں گرین لینڈ نے مقامی حکومت کو زیادہ اختیارات دینے کے لیے رائے دی ہے۔ اگلے سال سے یہ باقاعدہ عمل میں آ گیا تھا اور ڈنمارک کی بادشاہت کے پاس اب خارجہ، دفاع اور معاشی پالیسی ہی باقی رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈنمارک گرین لینڈ کو کل 11300 امریکی ڈالر فی باشندہ مہیا کرتا ہے۔
رقبے کے لحاظ سے گرین لینڈ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے جو برِ اعظم کا درجہ نہیں رکھتا اور دنیا کا سب سے کم گنجان آباد ملک بھی گرین لینڈ ہی ہے۔گرین لینڈ کا مرکزی حصہ برف کے نیچے دبنے کی وجہ سے سمندر کی سطح سے نیچے دھنس گیا ہے اور اگر یہ برف پگھل جائے تو گرین لینڈ کا زیادہ تر وسطی علاقہ زیر آب آ جائے گا۔
قبل از تاریخ گرین لینڈ میں لگاتار اسکیمو ثقافتیں موجود رہی تھیں جن کے ثبوت اب آثار قدیمہ کی صورت میں موجود ہیں۔2500 ق م سے لے کر 800 ق م تک جنوبی اور مغربی گرین لینڈ میں سقاق ثقافت کے لوگ بستے تھے۔ اس دور کی زیادہ تر نشانیاں ڈسکو کی خلیج کے آس پاس موجود ہیں۔ 2400 ق م سے لے کر 1300 ق م تک شمالی گرین لینڈ کی پہلی آزاد ثقافت قائم رہی تھی۔ یہ ثقافت آرکٹک کی چھوٹے اوزاروں کی صنعت کا حصہ تھی۔
800 ق م میں جب سقاق لوگ یہاں سے ناپید ہوئے تو ان کی جگہ ڈورسیٹ ثقافت نے لے لی جو مغربی گرین لینڈ میں آباد تھے اور شمال میں دوسری آزاد ثقافت آن بسی۔ ڈورسیٹ ثقافت پورے گرین لینڈ کے ساحلوں پر پھیلی ہوئی پہلی تہذیب تھی اور 15ویں صدی عیسوی میں یہ ختم ہوئی۔ ان کی جگہ ٹھل لوگ آئے۔ ڈورسیٹ لوگوں کا زیادہ تر انحصار وہیل کے شکار پر تھا۔ ٹھل لوگ گرین لینڈ کے موجودہ باشندوں کے آبا و اجداد ہیں۔ یہ لوگ 1000 عیسوی میں الاس کا سے ادھر آنے لگے اور تیرہویں صدی عیسوی میں گرین لینڈ آن پہنچے۔ انہی لوگوں نے گرین لینڈ میں پہلی بار نئی جدتیں جیسا کہ کتا گاڑی اور رخ بدلتے ہارپون متعارف کرائے۔
986 عیسوی سے گرین لینڈ کا مغربی ساحل آئس لینڈ اور ناروے کے باشندوں نے آباد کرنا شروع کر دیا۔ یہ آبادیاں جزیرے کے انتہائی جنوب مغربی دو کھاڑیوں پر واقع تھیں۔ ان کے ساتھ ہی ڈورسیٹ لوگ شمالی اور مشرقی علاقوں میں آباد تھے۔ بعد ازاں ڈور سیٹ لوگوں کی جگہ ٹھل لوگ آ بسے۔ ان میں سے کچھ آبادیاں صدیوں تک قائم رہیں اور پندرہویں صدی میں ختم ہوئیں۔ شاید ان کے خاتمے کی وجہ مختصر برفانی دور تھا۔ برفانی تہوں کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ آٹھویں اور تیرہویں صدی کے درمیان یہاں کا موسم کافی مناسب تھا اور یہاں درخت بھی موجود تھے اور لوگ گلہ بانی کرتے تھے۔ تاہم یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ ایک لاکھ سالوں کے دوران میں گرین لینڈ میں درجہ حرارت میں ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
آئس لینڈ کی آبادیاں یہاں سے چودہویں اور پندرہویں صدی کے دوران میں ختم ہو گئیں جس کی ممکنہ وجہ قحط سالی یا انوئت لوگوں سے بڑھتے ہوئے لڑائی جھگڑے ہو سکتے ہیں۔ یہاں سے ملنے والی ہڈیوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے نورس لوگ غذا کی کمی کا شکار تھے جس کی ممکنہ وجوہات کچھ ایسی ہو سکتی ہیں:
ہم جاء کے معائنے سے پتہ چلتا ہے کہ گرین لینڈ میں سمندری جانور نورس باشندوں کی خوراک کا 50 سے 80 فیصد تک حصہ بن چکے تھے۔
1721 میں ایک بہت بڑی مہم بنائی گئی جس کے تحت ناروے کے مشنری اور دیگر افراد پر مشتمل افراد گرین لینڈ گئے۔ ان کی سربراہی ہینز ایگیڈ کر رہا تھا جو خود بھی مشنری تھا۔ یہ مہم امریکا کے براعظم پر ڈنمارک کے قبضے کے منصوبے کا حصہ تھی۔ پندرہ سال تک گرین لینڈ میں رہنے کے بعد ہینس ایگیڈ اپنے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنا کر خود ڈنمارک لوٹا۔ اس طرح گرین لینڈ کے لیے ڈنمارک کے تاجروں کے لیے کھلتا جبکہ دیگر ملکوں کے لیے بند ہوتا چلا گیا۔
جولائی 1931 میں ناروے نے مشرقی گرین لینڈ کے اس وقت کے غیر آباد علاقوں پر یہ کہہ کر اپنا قبضہ جما لیا کہ یہ علاقے کسی کی ملکیت نہیں۔1933 میں ناروے اور ڈنمارک نے اس مسئلے پر بین الاقوامی عدالت انصاف سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کا فیصلہ ناروے کے خلاف آیا۔
9 اپریل 1940 کو گرین لینڈ کا رابطہ ڈنمارک سے دوسری جنگ عظیم کے اوائل میں ختم ہو گیا جب ڈنمارک پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا۔ تاہم گرین لینڈ پھر بھی امریکا اور کینیڈا سے ایک مخصوص معدن کے تبادلے سے اشیاء خریدتا رہا۔ جنگ کے دوران میں حکومتی نظام بدل گیا اور گورنر نے ایک مخصوص قانون کے تحت جس کے مطابق انتہائی حالات میں گورنر عنانِ مملکت سنبھال سکتا ہے، ملکی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ گرین لینڈ 1940 تک الگ تھلگ اور محفوظ رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گرین لینڈ پر ڈنمارک کی حکومت تھی جو یہ سمجھتی تھی کہ گرین لینڈ اگر دوسرے ملکوں کے لیے کھل گیا تو یہ اس کی اپنی ثقافت اور معاشرے کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوگا۔ تاہم جنگ کے دوران میں گرین لینڈ میں خود کفالت اور خود مختاری کا جذبہ بڑھا اور بیرونی دنیا سے آزادانہ رابطہ کرنے لگا۔
تاہم 1946 میں ایک کمیشن بنا جس نے دونوں اطراف کو صبر کرنے اور کسی قسم کی بڑی تبدیلی سے گریز کرنے کے لیے کہا۔ دو سال بعد حکومت کی تبدیلی کے لیے پہلا قدم اٹھایا گیا اور ایک بڑا کمیشن بنا۔ 1950 میں آخری رپورٹ آئی اور گرین لینڈ کو ایک جدید فلاحی ریاست کا درجہ دیا گیا اور ڈنمارک اس کے لیے رہنما اور معاون بنا۔ 1953 میں گرین لینڈ کو ڈنمارک کی سلطنت کے برابر کا درجہ دیا گیا۔ 1979 میں اندورنی خود مختاری عطا کر دی گئی۔
گرین لینڈ کی موجودہ سربراہ ملکہ مارگریٹ دوم ہیں۔ ملکہ کی حکومت کی طرف سے ڈنمارک کی حکومت اور بادشاہت کی نمائندگی کے لیے گورنر جنرل مقرر کیے جاتے ہیں۔
گرین لینڈ کی اپنی منتخب کردہ پارلیمان ہے جس کے کل 31 اراکین ہوتے ہیں۔ حکومتی سربراہ وزیرِ اعظم ہوتا ہے جو بالعموم پارلیمان کی اکثریتی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کُوپک کلیسٹ ہیں۔ ڈنمارک کی سلطنت کا حصہ ہونے کے باعث گرین لینڈ سے دو نمائندے منتخب ہو کر ڈنمارک کی پارلیمان میں موجود ہوتے ہیں۔
1985 میں گرین لینڈ نے یورپی کمیونٹی سے علیحدگی اختیار کی جبکہ ڈنمارک بدستور رکن رہا۔ یہ کمیونٹی بعد ازاں 1992 میں تبدیل ہو کر یورپی یونین بنی۔ گرین لینڈ ڈنمارک کے ذریعے ابھی بھی یورپی یونین سے چند مراسم برقرار رکھے ہوئے ہے۔ تاہم یورپی یونین کے قوانین گرین لینڈ کے تجارتی حصوں کے علاوہ کہیں لاگو نہیں ہوتے۔
نُوک کا سالانہ اوسط درجہ حرارت منفی 9 ڈگری سے لے کر 7 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔
گرین لینڈ کے جنوب مشرق میں بحرِ اوقیانوس موجود ہے۔ مشرق میں بحرِ گرین لینڈ ہے۔ بحرِ منجمد شمالی اس کے شمال میں اور خلیج بیفن مغرب میں واقع ہے۔ اس کے نزدیک ترین ممالک کینیڈا اور آئس لینڈ ہیں۔ گرین لینڈ میں دنیا کا سب سے بڑا قومی پارک موجود ہے اور گرین لینڈ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ بھی ہے اور رقبے کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی غیر آزاد ریاست ہے۔ تاہم 1950 سے سائنس دان اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ آیا یہاں ایک سے زیادہ جزائر موجود ہوں جو برف کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔
گرین لینڈ کا کل رقبہ 21,66,086 مربع کلومیٹر ہے جس میں سے گرین لینڈ کی برفانی تہ کا رقبہ 17,55,637 مربع کلومیٹر ہے جو کل رقبے کا 81 فیصد بنتا ہے۔ اس طرح یہاں برف کی کل مقدار 28,50,000 مکعب کلومیٹر بنتی ہے۔ گرین لینڈ کا ساحل 39,330 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ ساحلی رقبہ خطِ استوا پر زمین کے کل محور کے برابر ہے۔ گرین لینڈ کا بلند ترین مقام 3859 میٹر بلند ہے۔ تاہم گرین لینڈ کا زیادہ تر رقبہ 1,500میٹر سے کم بلند ہے۔
گرین لینڈ کی زیادہ تر آبادیاں برف سے پاک ساحلوں پر موجود ہیں اور مغربی ساحل پر ان کی کثرت ہے۔ شمال مشرقی علاقہ دنیا کے سب سے بڑے پارک پر مشتمل ہے۔
گرین لینڈ کے انتہائی شمال میں پیئری لینڈ ہے جہاں خشک ہوا کے سبب برف موجود نہیں۔ یہاں کی آب و ہوا اتنی خشک ہے کہ یہاں برف نہیں پیدا ہو سکتی۔ اگر گرین لینڈ کی پوری برف پگھل جائے تو دنیا بھر کے سمندروں کی سطح سات میٹر تک بلند ہو جائے گی جبکہ گرین لینڈ بذات خود جزائر کا مجموعہ بن کر رہ جائے گا۔
گرین لینڈ کا نام سکینڈے نیویا کے آباد کاروں نے متعارف کرایا۔
گرین لینڈ کا اسی فیصد سے زیادہ رقبہ برف سے گھرا ہوا ہے۔
آج گرین لینڈ کی معیشت کا دارومدار ماہی گیری اور اس سے متعلق برآمدات پر ہے۔ اس وقت جھینگوں کی صنعت سے سب سے زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے۔ حال ہی میں یہاں تیل اور گیس کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں تاہم انھیں قابلِ استعمال بنانے میں ابھی کئی سال لگیں گے۔ گرین لینڈ کی اپنی تیل کی کمپنی نونا آئل کو گرین لینڈ میں موجود تیل کی صنعت کی ترقی کے لیے بنایا گیا۔ اسی طرح دیگر معدنیات کی تلاش اور نکالنے کے کام کے لیے نونا منرل نامی کمپنی بنائی گئی جسے کوپن ہیگن کی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر کرایا گیا تاکہ حصص کی فروخت سے سونے کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔ 2007 میں ہی یاقوت کے ذخائر کو نکالنے کا کام بھی شروع ہوا۔ دیگر معدنیات کی پیداوار قیمتوں کے بڑھنے سے بہتر ہو رہی ہے۔ ان میں یورینئم، المونیم، نکل، پلاٹینیم، ٹنگسٹن، ٹائیٹینیم اور تانبا اہم ہیں۔ پبلک سیکٹر اور بلدیہ جات بھی گرین لینڈ کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ حکومتی وسائل کا نصف حصہ ڈنمارک کی حکومت دیتی ہے۔ فی کس آمدنی کے اعتبار سے گرین لینڈ یورپ کی کمزور معیشتوں میں سے ایک ہے۔
گرین لینڈ میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں معیشت کے سکڑاؤ کا عمل شروع ہوا تاہم 1993 سے صورت حال بہتری کی طرف مائل ہے۔ 1990 میں گرین لینڈ کی بیرونی تجارت میں خسارہ واضح ہو گیا ہے کیونکہ گرین لینڈ میں زنک اور سیسے کی آخری کانیں بھی بند ہو گئی تھیں۔ تاہم اب یاقوت کی دریافت سے بہتری کی امید ہے۔
فضائی نقل و حمل گرین لینڈ کے اندر اور باہر کے لیے بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ بحری سفر کے لیے کشتیاں بھی باقاعدگی سے چلتی ہیں لیکن لمبے فاصلوں کے لیے زیادہ سہولیات نہیں۔ شہروں کے درمیان میں سڑکیں موجود نہیں کیونکہ ساحلوں پر ہر جگہ کھاڑیاں ہیں۔ اس لیے شہروں کو سڑکوں کے علاوہ کشتی بھی درکار ہوتی ہے۔
مغربی ساحل پر موجود کنگر لوساق ائیرپورٹ ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا اور ملکی پروازوں کا مرکز ہے۔ بین البراعظمی پروازیں زیادہ تر کوپن ہیگن کو جاتی ہیں۔ مئی 2007 سے موسمی بنیادوں پر ائیر گرین لینڈ نے امریکی شہر بالٹی مور کو پروازیں چلانا شروع کی تھیں لیکن 10 مارچ 2008 کو مالی خسارے کے باعث بند کر دی گئی تھیں۔ ائیر آئس لینڈ بھی ہفتہ میں دو پروازیں چلاتی ہے۔
بحری مسافروں اور سامان کی منتقلی کے لیے آرکٹک امیاق لائن موجود ہے۔ تاہم یہ ہفتے میں صرف ایک بار چکر لگاتی ہے اور تقریباً 80 گھنٹے ایک طرف کا سفر طے کرنے میں لگتے ہیں۔
گرین لینڈ کی کل آبادی 57٫600 افراد پر مشتمل ہے جس میں 88 فیصد انوئت یا انوئت اور ڈینش کے ملاپ سے پیدا ہوئے لوگ ہیں۔ باقی 12 فیصد افراد یورپی النسل بالخصوص ڈینش ہیں۔ آبادی کی اکثریت ایوینجلیکل لوتھیرین ہیں۔ تقریباً ساری ہی آبادی جنوب مغربی کنارے پر کھاڑیوں کے ساتھ آباد ہے۔ اس جگہ موسم نسبتاً متعدل رہتا ہے۔
گرین لینڈک اور ڈینش دونوں ہی زبانیں سرکاری طور پر 1979 سے استعمال ہو رہی ہیں اور آبادی کی اکثریت دونوں زبانیں بول سکتی ہے۔ گرین لینڈک کو بولنے والے افراد 50٫000 ہیں۔ جون 2009 میں اسے واحد سرکاری زبان قرار دے دیا گیا۔ ایسے افراد جو ڈنمارک سے گرین لینڈ منتقل ہوئے ہیں اور جن کا انوئت لوگوں سے کوئی تعلق نہیں، کی مادری زبان ڈینش ہے۔ تاہم اعلیٰ تعلیم کے لیے ڈینش ہی استعمال ہوتی ہے۔ انگریزی کو تیسری بڑی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ملک میں شرحِ تعلیم 100 فیصد ہے۔
گرین لینڈ کی ثقافت کا بہت بڑا حصہ انوئت قبائل سے جڑا ہوا ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت انوئت قبائل سے ہی نکلی ہے۔ یہاں لوگ آج بھی آئس فشنگ اور سالانہ کتا گاڑی کی دوڑ کے مقابلے منعقد کراتے ہیں۔ تاہم مچھلی کے شکار کے لیے پرانے طریقوں کی بجائے اب آتشین اسلحے اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنا لیا گیا ہے۔
گرین لینڈ کا قومی کھیل فٹ بال ہے۔ جنوری 2007 میں گرین لینڈ نے مردوں کے ہینڈ بال کے عالمی مقابلوں میں حصہ لیا تھا جہاں اسے 24 ٹیموں میں 22واں درجہ ملا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.