From Wikipedia, the free encyclopedia
نجی کاری (Privatisation) اس عمل کو کہتے جس کے تحت کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا سرکاری ایجنسیوں کے زیر انتظام ادارے کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے۔
نقصان میں رہنے والے اداروں کی نج کاری سے عموماً ادارے کی کارکردگی اور خدمات میں بہتری آتی ہے اور ادارہ کچھ عرصے میں منافع بخش بن جاتا ہے۔
لیکن منافع بخش ادارے کی نج کاری ملک کے لیے گھاٹے کا سودا ہوتی ہے اور یہ حکمرانوں کی بدعنوانی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
دفاعی اہمیت کے حامل اداروں کی نج کاری خودکشی کے مترادف ہوتی ہے۔ ایسا کرنے والے حکمران صرف رشوت خور ہی نہیں بلکہ غدار بھی ہوتے ہیں۔
بقول ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد کے کہ "نجکاری اندرونی قدر میں نہ تو اضافہ کرتی ہے اور نہ ہی روزگار کو بڑھاتی ہے بلکہ گھٹاتی ہے"۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ نجکاری کے عمل سے مقامی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، نہ ہی پیداواری قوتیں توانا ہوتی ہیں جس سے عوام کو فائدہ ہو۔ امپیریل قوتوں کے مراکز میں نجکاری کی حکمت علی اس طرح طے کی جاتی ہے کہ سامراجی معیشت کے خطوں میں ارتکاز دولت مزید بڑھتا ہے تا کہ عالمی سرمائے کے بہاؤ میں کوئی رکاوٹ یا سرحد حائل نہ ہو سکے۔ نجکاری کے یہ معنی نہیں ہیں کہ صرف کسی ادارے کو ”ٹیک اوور" کرنا ہے۔ بلکہ ایسے پیداواری اسٹرکچر کو ختم کرنا مقصود ہوتا ہے جوعالمی مسلط کردہ سامراجی کنٹرول یا عالمی سرمائے کے لیے چیلنج ہو۔ اس لیے ان طاقتوں کو اس امر سے کوئی غرض یا دلچسپی نہیں کہ پرانا اسٹرکچر قائم رہتا ہے یا نہیں۔ ایک مرتبہ اثاثوں کی نجکاری ہو جائے تو ازخود ہی اس کا پھل عالمی ساہوکار کھائیں گے۔ مثلاً پاکستان کے بڑے چار قومی بینکوں کی نجکاری کی گئی۔ اب تمام نجی شعبے کے بینکوں نے گذشتہ چار ماہ میں 171ارب روپے کا منافع کمایا ہے جو ڈالروں کی صورت میں باہر چلا جائے گا۔ نج کاری کے اس عمل میں سوشلزم اور نیشنلزم کے خوف کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کنٹرولڈ جمہوریت یا ملٹری حکومتوں کے ذریعے سے عمداً یہ کام پارلیمینٹ کے بغیر ہی کرایا جاتا ہے۔ اس لیے اس قسم کی جمہوریت عوام کے لیے بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس سارے کھیل میں اجتمائی جدوجہد، سماجی انصاف کا حصول اور تبدیلی کا عمل ابہام کا شکار ہو کر دم توڑ دیتا ہے اور نتیجے میں قومی ریاست کا تشخص عالمی تجارتی تنظیم اور آئی ایم ایف کے تابع ہو جاتا ہے۔
نجکاری کے جو منطقی نتائج سامنے آ رہے ہیں اور معاشیات کی مبادیات کے سائنسی تجزیوں کے حوالے سے باوصف مذکورہ عوامل سے انکار ممکن نہیں۔ اسی پس منظر میں ہیوی کمپلکس ٹیکسلا (ایچ ایم سی) اور دیگر بھاری صنعتوں کی نجکاری سے پیدا ہونے والے نقصانات اور مضمرات، پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے جو پیشرفت ہوئی اور اس سے پہلے جن شعبوں کی نج کاری ہو چکی ہے اس کے اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے جو عوامی سطح پر جدوجہد اور اس کے خلاف مزاحمت کو تیز کرنے کا تقاضاکرتا ہے۔ اسی کے ساتھ دیگر انجینئری کی بنیاد پر بنے ہوئے کا تذکرہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ عموماً ایچ ایم سی کے بارے میں تمام محب وطن افراد کو تشویش لاحق ہے۔ آپ سب دیکھ رہے ہیں اور مشاہدہ بھی کر رہے ہیں کہ ایک عرصے سے عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر ڈس انوسٹمنٹ، ڈی ریگولیشن، لبرلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن جیسی نئی اصطلاحیں پاکستان میں عمل پزیر ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی شپ یارڈ جو ایک بہترین ادارے کی شکل میں ابھرا اسے سرکاری نظام کی بیوروکریسی نے تباہ کر دیا۔ چنانچہ شپ یارڈ کوڈس انویسٹ کیا گیا۔ آج اس کا نام ونشان نہیں۔ سندھ انجینئری بھی حکومتوں کی نااہلی اور کر پٹ بیورو کریسی کی نذر ہو گئی۔ کسی حکومت نے معمولی نوٹس بھی نہ لیا۔ پاکستان اسٹیل کو اس طرح نہیں چلایا گیا جس طرح اتفاق فونڈری کو چلایا گیا۔ مختلف حکومتوں نے ناقص پالیسیوں سے اور آخر لال جی اور آصف زرداری کی حکمت عملیوں سے اسے ناکارہ بنا دیا۔ موجودہ حکومت ڈالروں کا ذخیرہ کرنے اور سڑکیں بنانے میں مشغول ہے۔ شوکت عزیز منی لانڈرنگ کے استاد نے جس طرح پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی ہے اس کو مجرمانہ فعل کہا جا سکتا ہے۔ اور اب پاکستان کا عظیم منصوبہ ایچ ایم سی جو چینی اور پاکستانی انجینئروں کی ہنرمندی کا شاندار مظہر ہے، نج کاری کے لیے پیش کیا جا رہا ہے جبکہ دنیا بھر میں اسٹیل ملیں اور بھاری صنعتیں سرکاری اجارہ داریاں کہلاتی ہیں جو سرمایہ داروں کو سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ عوام کو زر تلافی فراہم کرتی ہیں۔ اس سے نجی شعبے کوتقویت ملتی ہے۔ اس لیے ترقی یافتہ ملکوں میں بھاری صنعتوں کی نج کاری کا کوئی رواج نہیں۔ فرانس میں یورپی یونین کے ابتدائی آئین کی منسوخی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آئین میں واضح طور پر تحریر تھا کہ بھاری صنعتوں کی نج کاری کی جائے گی۔ عالمی صارف، اکنامک نیشنلزم سے جڑی حکومتیں اورمحنت کش یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نج کاری کا پہلا حملہ روزگار اور قیمتوں پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھاری صنعتوں کو مقابلے سے بچانے کے لیے دغام بھی کیا جاتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹوں میں ان کی قوت سے جوا بھی کھیلا جاتا ہے۔ اس طرح عالمی سرمائے کے ڈھیروں اور ذخیروں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھے کہ پاکستان کے سرکاری معیشت دان گڈ گورننس کا غل مچاتے ہیں اور ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ساتھ بڑے اداروں کی نج کاری کرکے ثابت کرتے ہیں کہ وہ کتنے نااہل ہیں۔
بھاری صنعتوں کی نجکاری کے بعد حاصل ہونے والی رقم سے قرض اتارا جاتا ہے تو نجی ملکیت میں آنے والی مل اور قیمتی اثاثوں سے حاصل ہونے والی رقم دونوں عالمی سرمائے میں ضم ہو جاتے ہیں۔ جیسے بینکوں اور پی ٹی سی ایل کا منافع ڈالروں کی صورت ملک سے قانونی طور پر باہر چلا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک سرکاری بھاری صنعتوں کو زر تلافی فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں انکم ٹیکس درست وصول کیا جاتا ہے اور دستاویزی معیشت لازمی ہے۔ سرمایہ داری نظام میں ٹیکس وہاں بھی چوری ہوتا ہے لیکن وہاں بے ایمانی ایمانداری سے کی جاتی ہے۔ انجینئری سے جڑی ہوئی ایچ ایم سی نے ماضی میں کئی ملکی اور بیرون ملک صنعتوں کو پلانٹ بنا کر فراہم کیے تھے اور برآمدات میں بھی معاون رہی ہے۔ پاكستان ہیوی کمپلیکس ٹیکسلا (ایچ ایم سی) ہیوی الیکٹریکل کمپلکس (ایچ ای سی)، مشین ٹول فیکٹری کراچی (پی ایم ٹی ایف) اور اتار پیٹرو سروس (انجینئری کنسلٹنٹ کمپنی) ان سب کو سب سے پہلے 2006ء میں نج کاری کے لیے پیش کیا جا رہا تھا۔
اس وقت پرائیویٹائزیشن کمیشن ایچ ایم سی کے اثاثوں کی تخمینہ کاری کرائے گا۔ یاد رہے کہ ایچ ایم سی کے دو اہم حصے ہیں۔ ایک میکانیکل ورکس کہلاتا ہے جسے 1960ء میں قائم کیا گیا۔ دوسرا ہم حصہ ایچ ایف ایف یا فونڈری اینڈ فورج ورکس ہے جو 1970ء میں قائم ہوا۔ یہ دونوں منصوبے پی آئی ڈی سی کے تھے جو چین کی تکنیکی معاونت سے وجود میں لائے گئے تھے۔ اول اول یہ منافع کے حصول کے لیے نہیں لگائے گئے تھے بلکہ اس سے حقیقی قدر یعنی پاکستان میں صنعتی ترقی کی جائے اورخود کفالت کے حصول کوممکن بنایا جائے مقصود تھا۔ چین کی مثال سامنے ہے جو ٹیکسٹائل کے شعبے کو بجلی اور انفراسٹرکچر مفت فراہم کرتا ہے۔ ایچ ایم سی پیداواری یونٹس کی ایک زنجیر کے طور پر بنائی گئی تھی جس میں تمام سہولتیں دستیاب تھیں جن میں لائیٹ، میڈیم اور ہیوی فیبریکیشن، اسمبلی، اسٹیل فونڈری، کاسٹ آئرن فونڈری، نان فیرس فونڈری، ہیٹ ٹریٹمنٹ، سرفیس ٹریٹمنٹ، گلوانائزنگ، ووڈ ورکنگ، ڈائی اور ٹول روم کے علاوہ دیگر انفراسٹرکچر قابل ذکر ہیں۔ کوالٹی اور کنٹرول کے عالی شان نظام ہائے جدید نصب کیے گئے۔ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے 1986سے 1990 تک اسے کمپیوٹرائزڈ کیا گیا، آئی ایس او 9001کی سرٹیفیکیشن بھی حاصل کی گئی۔ مزید براں ایچ ایم سی کا ادا شدہ سرمایہ 1,077 ملین روپے تھا جو حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔ حکومت کا نامزد کردہ بورڈ اسے چلاتا ہے۔ 1971ء میں پیداواری عمل کے آغاز کے بعد ایچ ایم سی نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ اندازہ کیجیے کہ پہلے عشروں میں ایچ ایم سی نے نہ صرف اربوں ڈالر کمائے بلکہ پاکستان انجینئری کے شعبے کوفروغ دینے میں پیش پیش تھا۔ اشیائے سرمایہ کی مینوفیکچرنگ (مشینری) میں اس کا معیار عالمی سطح کا تھا۔ ایچ ایم سی وہ عظیم منصوبہ ہے جس نے نہ صرف بھاری منافع کمایا بلکہ ہزاروں ہنرمند اور غیر ہنرمندوں کوروزگار فراہم کیا۔ اس کے ذریعے سینکڑوں انجینئروں اور تکنیکی ماہرین کی بڑی کھیپ تیار ہوئی جو پاکستان کے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ایچ ایم سی نے دفاعی ضرورتوں کے لیے نہایت نازک اور پیچیدہ پروڈکٹس بھی بنائے۔ ملک میں ڈیزائن اور مینوفیکچرڈ تنصیبات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایچ ایم سی نے 23 شوگر ملیں اور پانچ سیمنٹ پلانٹس بنائے اوربجلی کے شعبے کے لیے 35ہزار ٹن سازوسامان تیار کیا۔ تعمیراتی مشینری، انڈسٹریل بوائلرز مختلف اقسام کی کرینز، ریلوے کا سامان، ٹرک کے چیسز، مزید براں ایکسل، کھاد، آئل ریفائنریز کے آلات بنا کر ایسی انڈیجنس (مقامی) ترقی کا آغاز کیا جس سے پاکستان صنعتی ترقی میں جست لے سکتا تھا۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے انڈیجنس ترقی کے برعکس راستہ اختیار کیا۔ کرپشن کو فروغ دیا اور نااہلی کا ثبوت فراہم کر دیا۔ آج حالات ایسے ہیں کہ اب کوئی زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت کچھ بے نقاب ہو چکا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ قومی اثاثوں کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے انھیں برباد کیا گیا ہے اور اس کا کوئی افسوس کسی حکمران کو نہیں ہے۔ اب ایسے ایک ادارے کی نج کاری کی جا رہی ہے جو ملکی ترقی کا شاندار ستون ہے۔ ایک ایسے ادارے کی نج کاری کی جا رہی ہے جس نے عالمی مقابلے میں کئی ٹینڈر جیتے ہیں اور متعدد ممالک میں پلانٹس نصب کیے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں سیاسی اور فوجی حکومتوں کی رسہ کشی نے مذکورہ عظیم منصوبے کی مارکیٹنگ کی جانب عدم توجہ کے نتیجے میں اسے زوال پزیر بنا دیا۔ 2005ء تک اس کا نقصان 776 2 میلین روپے ریکارڈ کیا گیا۔ یوں گولڈن ہینڈ شیک اور رضا کارانہ اسکیموں کا اجرا 1996ء میں شروع ہوا۔ اس وقت 5 ہزار ہنرمندوں کو ڈاؤن سائیزنگ کر کے محنت کشوں کی تعداد کو 1,057 افراد تک لے آئے۔ حکومت کی طرف سے جو محصولاتی سہولتیں تھیں وہ بھی واپس لے لی گئیں۔ اس طرح قومی ترقی کو روک دیا گیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عالمی بینک نے گولڈن ہینڈ شیک کے لیے (بینکوں کو) ڈھائی سو میلین ڈالر قرض دیے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایچ ایم سی کے بورڈ اور دیگر مینیجمنٹ کے ارکان نے اپنے تیئں 2005ء کے آخری مرحلوں میں مارکیٹنگ کی کوشش کی۔ ٹریڈ یونین بھی ساتھ تھی۔ ایچ ایم سی کی بہترین سا کھ کی وجہ سے اس وقت 2,927 میلین کے آرڈر ملک آ چکے تھے۔ لیکن دوبارہ سے کھڑے ہونے پر عالمی مالیاتی ادارے خوش نہ تھے اور اس کی نج کاری پر زور دیتے رہے۔ آپ دیکھے اور اندازہ کیجیے کہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ماضی بعید میں ایران اور ازبکستان سے سیمنٹ پلانٹس سازی اور نصب کرنے کے معاہدوں پر حکومتوں نے دستخط کیے تھے ان کا کیا ہوا؟
اگر کسی ملک کی خارجہ پالیسی بھاری صنعتوں کے دفاع سے عاری ہوتی ہے تو ایسی خارجہ حکمت عملی کے امن، دوستی اور بقائے باہمی جیسے باقی سب دعوؤں کی مثال ان دانوں کی طرح ہے جو منطقی دھاگے کے بغیر بکھرے پڑے ہوں۔ جدید دور میں ترقی سے مراد قرضوں سے زر مبادلہ کے ذخائر بنانا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہے اور خود مختاری سے اس ترقی کا راستہ کھلا رکھنا ہے۔ صنعت اور ٹیکنولوجی کی راہیں پاکستان میں تنگ ہو رہی ہیں اس لیے دماغ بند ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی قومی خود مختاری کی سرحدیں بھی سکڑ رہی ہیں۔ آپ جاپان اور چین کی مثال دیکھ سکتے ہیں۔ ان دونوں ملکوں نے استعمار سے بچنے کا راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے بھاری صنعتوں کی اہمیت کو بروقت بھانپ کر قومی بجٹ اور خارجہ حکمت عملی کا سارا زور مغربی ٹیکنولوجی کا ادراک حاصل کرنے پر لگا دیا اور بھاری صنعتوں کوقومی معیشت کی بنیاد بنا کر مغربی طاقوں کا غلام بننے کی بجائے ان کے حریف بن گئے۔
پاکستان نے اس کے برعکس قرضوں پر انحصار کیا۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایسے مقروض سے جو غلامی کی حد تک آپ کا مقروض ہو کہو کہ سورج مشرق سے نہیں مغرب سے نکلتا ہے تو وہ تسلیم کر لے گا کیونکہ قرض ایسی ہی لعنت ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کی اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کی شرائط میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ وہ ہدایت کرتا ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھاؤ، وزیر خزانہ بڑھا دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے اپنے اثاثوں کی نجکاری کرو تا کہ قرضوں کی ادائیگی ہو۔ آپ پہلے اپنے اثاثوں کو خراب کرتے ہیں پھر اونے پونے داموں میں فروخت کردیتے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پاکستان کی بھاری صنعت، جس کی ماضی کی کارکردگی پر ناز کیا جا سکتا ہے اسے آہستہ آہستہ برباد کر کے اب نج کاری کے نیلام گھر میں رکھا جا رہا ہے۔ یوں حکومتیں اپنی نااہلی کو چھپانے کی آڑ میں اور کک بیکس کی لالچ میں قرض ادا کرنے کے لیے قومی اثاثوں کی نجکاری کر رہی ہیں۔ اب ہیوی میکینکل کمپلکس ٹیکسلا (HMC) کو نج کاری کے لیے پیش کرکے اُن اثاثوں کو جو عوام کے دیے گئے ٹیکسوں سے بنائے گئے تھے، انھیں عالمی سرمائے میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ بجٹ میں قرضوں کے سود کی ادائیگی بجٹ اخراجات کا52 فیصد ہو گئی ہے۔
پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ تیسری دنیا کو اپنے خام مال کی قیمت درآمدی تیار شدہ مال کی قیمت کے لحاظ سے مقرر کرنا ہو گی۔ تیل پیدا کرنے والے مسلم ممالک کے سربراہان کو کہا کہ وہ تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کریں لیکن شاہ فیصل اور ذوالفقارعلی بھٹو کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ البتہ ان کی پارٹی کے لیڈر جن میں سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی، سابق ایم این اے چوہدری منظور، سینیٹر تاج حیدر، سینیٹر سعید غنی، خواجہ محمد اعوان، حبیب جنیدی، لطیف مغل، راحیل اقبال، ریلوے مزدور یونین کے رہنما اور کامریڈ مرزا ابراہیم کے شاگرد منظور رضی بہت سے دیگر ٹریڈ یونین کے رہنما اور کارکن اور کامریڈ ڈاکٹر لال خان نج کاری کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن مسلسل جدوجد کرنے والوں کو ناکامی اس لیے ہو رہی ہے جن کا میں بھی ہمسفر ہوں کہ ہم نعرہ تو لگاتے ہیں کہ”دنیا کے مزدور ایک ہوجاؤ“ لیکن ایک فیکٹری کا مزدور ایک نہیں ہوتا۔ اس لیے عالمی سامراج کے حواریوں کو نجکاری کے خلاف و سیع تر مزاحمت نظر نہیں آتی۔ اس لیے وہ قومی اثاثوں کے ساتھ کھل کر کھیل رہے ہیں۔ معراج محمد خان اور احفاظ الرحمان کو ہم نے بہت نچوڑ لیا ہے اب جدوجہد کے لیے نئے ساتھی سامنے آئیں تو استحصال میں کمی آسکتی ہے۔ مذکورہ پس منظر میں ہیوی میکینکل کمپلکس ٹیکسلا کا جائزہ لینا وقت کا تقاضا ہے۔
پی آئی اے نے متحدہ عرب امارات کی ایئر ایمرٹ اور اتحاد ایئرلائن بنائی اور آج وہ کہاں پہنچ چکی ہیں۔ 1951ء میں اورینٹ ایئرلائن جب قومی ایئرلائن پی آئی اے میں منتقل ہوئی تو چند سالوں ہی میں اس کی بہترین گورننس اور اعلیٰ پروفیشنلز نے اسے دنیا کی بہترین پروفیشنلز کی صف میں لا کھڑا کیا۔ 1975ء تک قومی ایئرلائن کی ساکھ دنیا تسلیم کرتی تھی۔ اس کے بعد یہ آہستہ آہستہ زوال کی طرف بڑھنے لگی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی کارپوریٹ ادارے میں تین ایم بہت ضروری ہوتے ہیں۔ مین، منی اور میٹریل۔ اسے ایک مثال سے وا ضح کیا جاتا ہے۔ انجینئری کے شعبے میں پی آئی اے میں انٹر سانس کا امیدوار لیا جاتا تھا، اسے آٹھ، دس سال تک بین الا قوامی سطح کی تربیت دی جاتی تھی۔ ایوی ایشن کی پیچیدہ باریکیوں کو سمجھنا پڑتا ہے تب جاکر ایئرکرافٹ انجینئر کے عہدے پر کوئی فائز ہوتا ہے اس کے بعد پرنسپل انجینئر اور پھر چیف آنجینئر کے عہدے تک پہنچنا پڑتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی نظر اس بہترین قومی اثاثے پر تھی۔ اسے زوال پزیر بنانے کی حکمت عملی امپیریل قوتوں نے تیار کرلی تھی۔ 1995ء کے سال میں قرضدار ملک پاکستان کو عالمی بینک نے گولڈن شیک ہینڈ کے لیے رقم دی چنانچہ سالہا سال کے تیار کیے گئے بہترین تیکنیکی ماہرین، انجینئرز اور پائلٹس کو مذکورہ اسکیم کے تحت نکال باہر کیا۔ یہ قومی ایئرلائن کے اثاثے تھے۔ ان ماہرین کی طلب ساری دنیا میں تھی۔ سب سے پہلے قطر ایئرلائن نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جن کوپی آئی اے نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا اور یہ اثاثے مزید دوسروں کو بھی تیار کرتے۔ بعد ازاں دنیا بھر کی ایئرلائنوں نے ان بہترین افراد کی خدمات حاصل کر لیں۔ پی آئی اے کا سربراہ عموماً ایئر فورس سے لیا جاتا تھا چاہے اسے مارکیٹنگ اور سیلز کا تجربہ ہو یا نہ ہو۔ البتہ ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان نے گڈ گورننس کے ذریعے پی آئی اے کو تیزی سے زوال پزیر نہیں ہونے دیا۔ تاہم سہگل ایک ایسے سربراہ تھے جن کی فنانشل ان پٹ بہت اچھی تھی انھوں نے پی آئی اے کو بڑی خوبصورتی سے چلایا۔ جب 1995/96ء میں ماہرین کو نکال باہر کیا گیا تو پھر پروفشنلز کی جگہ اقربا پروری نے لے لی اور احمقوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا گیا جو مینجمنٹ گورننس میں کورے تھے۔ طیاروں کی دیکھ بھال اور فنانشل مینیجمنٹٹ بحران کا شکار ہو گئی۔ امریکا کسی طرح دفاعی اہمیت کی اس قومی ایئرلائن میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ وہ اس کے لیے سیبر (SABER) ریزولیشن سسٹم لے کر آ گیا حالانکہ قومی ایئرلائن نے KLM سے اپنا ریزولیشن سسٹم خرید لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اسے اپڈیٹ کرنا تھا اس بہائے امریکی مذکورہ کمپنی سیبر کو پی آ ئی اے میں داخل ہونے کا موقع مل گیا حالانکہ پرانے پروفیشلز اس سسٹم کو کامیابی سے چلا رہے تھے۔ اس کا تعلق خاص طور پر شناخت وغیرہ کے ریکارڈ سے تھا اور وہ پاکستانی ریزولیشن سسٹم میں محفوظ ہو جاتا تھا۔ اگر پاکستانی سائنس دان باہر جاتے تھے یا کسی خاص سفر کے لیے روانہ ہوتے تھے تو اس کی خبر کسی اور کو نہیں ہوتی تھی اب یہ کام سیبر کو دے دیا گیا جو دفاعی لحاظ سے نہایت خطرناک تھا۔ اس کمپنی نے اس کے لیے PNR بنانے کے لیے ایک یونٹ پر ساڑھے 3 ڈالر وصول کیے جبکہ یہ کام 57 سینٹ میں ہو سکتا تھا۔ ریزولیشن سسٹم کا ہیڈکوارٹر اسٹیلانٹا اور علاقائی دفتر ممبئی میں ہے۔ ان کے پاس ہمارا ریکارڈ سیبر کے ذریعے موجود ہے۔ انجینئری کے شعبے میں زبردست دفاعی اہمیت کے کام ہوتے تھے جن کو بند کرنا پڑا۔ نالائق اور نااہل لوگوں کی اعلیٰ سطح پر بھرتی سے فنانشل گورننس بگڑ گئی۔ اوپن اسکائی پالیسی میں سول ایوی ایشن نے روٹس کی تقسیم سے قومی ایئرلائن کو مزید ناچار کر دیا۔ ان تمام خرابیوں کے ساتھ سیاسی اثرورسوخ، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور تیل کی قیمتوں کے اضافے سے قومی ایئرلائن کی حالت مزید ابتر ہو گئی۔ عام طور پر سارا نزلہ نچلے ملازمین پر گرتا ہے اوپر کی سطح پر جو نااہلی اور اقربا پروری ہوتی ہے اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جو حلقے یہ کہتے ہیں کہ ایک جہاز پر 120 افراد کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں 700 افراد ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ باہر کی فضائی کمپنیوں میں آٹومائزیشن بہت زیادہ ہے وہاں کے ملازمین کو زبردست سہولتیں اور تنحواہیں میسر ہیں۔ پاکستان میں نچلے عملے کی زندگی بیرونی فضائی کمپنیوں کے مقابلے میں غلامی جیسی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس کے فوری حل کے لیے پرانے پروفیشلز کی ایک کونسل بنائی جائے جن کا تعلق آپریشن، انجینئری، مارکیٹنگ ایئرپورٹ سروس اور ایڈمنسٹریشن سے ہو۔ 1995ء کے پروفیشلز کم معاوضے پر راضی ہو جائیں جو پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔
پی ٹی سی ایل سرکاری شعبے میں تھی۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود 28 سے 30 ارب روپے کا سالانہ منافع دے رہی تھی۔ جس معاہدے کے تحت اسے فروخت کیا گیا وہ عمل پزیر نہ ہوا اور اب تک خریدنے والا منافع میں سے قسطیں ادا کر رہا ہے۔
اب غور کیجیے کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا نے پہلی مرتبہ اپنے بجلی گھروں کی نجکاری کی۔ کچھ ہی عرصے میں کیلیفورنیا کی حالت پاکستان جیسی ہو گئی چنانچہ حکومت نے اپنا جان وین ہوائی اڈا پانچ ارب ڈالر میں فروخت کر کے بجلی گھر واپس سرکاری شعبے میں لے لیا۔ اگر حکومت بھاری صنعتوں کو نہیں چلاسکتی تو اسے حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ 1990ء کے عشرے میں جن منافع بخش اداروں اور اسٹیل ملوں کی نجکاری کی گئی آج 95 فیصد بند پڑی ہیں۔ ان میں پائپ ملز کراچی، میٹروپولیٹن اسٹیل کارپوریشن کراچی، کوالٹی اسٹیل ورکس كراچی ، پاکستان سوئچ گیئر لمیٹڈ لاہور، ٹیکسٹائل مشینری اور پائنیر اسٹیل قابل ذکر ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان سب کی نج کاری اونے پونے داموں کی گئی۔ ایک ادارہ ایسا بھی ہے جو اربوں روپے بنا رہا تھا اسے ایک روپے کے ٹوکن پر کسی دوست کو دے دیا گیا اس کی انکوائری ہو رہی ہے"۔ (حوالہ کتاب پاکستان کے ما لک کون؟)
کئی ادارے بے دردی سے فروخت کیے گئے تھے اور ان کی نجکاری اونے پونے داموں میں کی گئی حالانکہ ان میں بیشتر سے پاکستان کی حکومت کو اچھا خاصا ریونیو مل رہا تھا۔ یہ سب یونٹس 140 ملین روپے (14 کروڑ روپے) میں فروخت ہوئے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے تک پائنیر مل کے علاوہ باقی سب ادارے بند پڑے تھے۔ اتنے بڑے پیمانے پر بھاری صنعتوں کا یہ حال ہے اور اب کنزیومرازم کی ترقی چاہنے والے صرف بینکوں اور اسٹاک مارکیٹوں کو ہرحال میں ترقی دینا چاہے ہیں۔ اس کے علاوہ نمائشی ترقی پر زور دیا جا رہا ہے جو حقیقی ترقی نہیں حالانکہ انسانی ترقی اور قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر معاشی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ حکومتیں کوشش کریں تو سرکاری شعبے میں بھی انجینیئرنگ سے متعلق شعبے چلائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً حکومت کے تحت بعض مائیکرو سطح پر چلائے جانے والے یونٹس منافع بخش ہیں۔ ان یونٹس میں ملت ٹریکٹرز، الغازی ٹریکٹر، بلوچستان ویلز کاسٹنگ، انڈس پائپ اور راوی انجینئری شامل ہیں ان یونٹس کو بھی مالیاتی ادارے نجکاری کا کہہ رہے تھے۔ ان کا اب حشر کیا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
او جی ڈی سی ایل پاکستان ایک اور اہم ادارہ ہے جو منافع بخش ہے باوجود اس کے کہ اسے کرپٹ لوگوں نے برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی۔ 2013ء کے اعدادوشمار کے مطابق او جی ڈی سی ایل کے اثاثوں کی مالیت 480 ارب روپے ریکارڈ کی گئی ہے جو پاکستان میں 55 فیصد تیل کی پیداوار میں نمایاں ہے۔ اسی طرح گیس میں حصہ اس کا 28 فیصد ہے۔ او جی ڈی سی ایل کے ذخائر 358 ارب روپے ہیں اور 2012ء میں اس کمپنی نے 129 ارب روپے ٹیکس کی صورت میں قومی خزانے میں جمع کرائے تھے۔ اس کے باوجود اس کا خالص منافع 90 ارب روپے تھا اور پاکستان کی موجودہ حکومت ایسے منافع بخش ادارے کو فروخت کرنے میں مصروف عمل ہے جو نہایت افسوسناک امر ہے اور معاشی حب الوطنی کی صریحاً نفی ہے۔ سینٹ کے چیئرمین رضاربانی نے اس بارے میں کہا تھا کہ ”اس سلسلے میں صوبوں سے نہیں پوچھا گیا اور نہ ہی پارلیمینٹ میں اس پر کوئی مباحثہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اوجی ڈی سی ایل کی نج کاری غیر آئینی ہے کیونکہ اسٹیک ہولڈرز صوبوں سے نہیں پوچھا گیا“۔ یہ کام یقینا پاکستان کومکمل طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے آگے فروخت کر کے عوام کو ہمیشہ کے لیے غلام بنانا ہے۔
دنیا بھر میں سماجی تحریکیں نجکاری کے خلاف جڑ پکڑ رہی ہیں۔ سامراجی ایجینڈے پر جس طرح زور دیا جا رہا ہے اور جس طرح (IFIS) عالمی مالیاتی پالیسیاں بنا رہی ہیں ان کے خلاف بنگلور ہندوستان میں کسانوں کی بڑی تعداد نے کرناٹکا پاور ٹرانسمیشن پر دھاوا بول دیا۔ اس طرح بجلی کی کمپنیوں کی نجکاری کے خلاف بھی احتجاج کیا ہے۔ سول سوسائٹی گروپس ارجنٹائنا سے تھائی لینڈ گیٹ معاہدوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ انھیں ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ پیرس کے محنت کش ملازمتوں سے بے دخلی اور اجرتوں کی کمی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ 50 ممالک کی 347سول سوسائٹیز جکارتا اعلان کی حمایت کر رہی ہیں جس میں عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کا ذکر ہے۔ ترکی کے ڈیم LLISU کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ اس ڈیم کے بننے سے 78 ہزار کرد افراد بے گھر ہوجائیں گے۔ کارپوریٹ کیپیٹلزم کے خلاف دنیا بھر میں مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ ادھر پاکستان میں نج کاری کی وجہ سے چھ لاکھ محنت کشوں کو بے روزگار کر دیا گیا ہے۔ نجکاری کے خلاف مزاحمت ہر محب وطن پاکستانی کو کرنی ہو گی ورنہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.