From Wikipedia, the free encyclopedia
عربی شاعری (عربی: الشعر العربي) عربی ادب کی سب سے پہلی شکل ہے۔ عربی شاعری کا سب سے پہلا نمونہ چھٹی صدی میں ملتا ہے مگر زبانی شاعری اس سے بھی قدیم ہے۔ عربی شاعری، اس کی صحیح تعریف اور اس کے اجزا میں محققین کا خاصا اختلاف رہا ہے۔ ابن منظور کے مطابق شعر وہ منظوم کلام ہے جو وزن اور قافیہ میں مقید ہو، وہ آگے لکھتے ہیں کہ شعر منظوم اور موزوں کلام کا نام ہے جس کی ترکیب مضبوط ہو اور شعر کہنے کا قصد بھی پایا جاتا ہو۔ اگر ایک بھی شرط فوت ہوئی تو شعر نہیں کہلائے گا اور اس کے کہنے والے کو شاعر نہیں کہا جائے گا۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں جو موزوں کلام ملتا ہے وہ قصد و ارادہ کے فقدان کی وجہ سے شعر نہیں کہلاتا۔ ابن منظور اس کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شعر میں شعری احساس کا ہونا ضروری ہے اور یہ احساس بالارادہ اور دانستہ ہو تبھی اس کلام کو شعر سمجھا جائے گا۔ اسی بنا پر شعر کے چار ارکان ہیں: معنی، وزن، قافیہ اور قصد۔ جرجانی کے مطابق شعر عرب کا ایک علم ہے جو فطرت، روایت اور احساس پر مشتمل ہے۔ شریف جرجانی نے شعر کو یوں متعارف کرایا ہے، لغوی طور پر شعر ایک علم ہے اور اصطلاحاً شعر موزوں اور مقفی ہو اور انھیں شاعری جے ارادے سے کہا گیا ہو۔ چنانچہ اس آخری شرط کی بنا پر قرآن کی یہ آیت شاعری نہیں ہے: "الذي أنقض ظهرك، ورفعنا لك ذكرك"۔ یہ موزوں اور مقفی کلام تو ہے مگر شعر نہیں ہے کیونکہ اس کلام کو شعر کے ارادے سے نہیں کہا گیا۔ قدیم شاعری میں وزن اور قافیہ لازمی اجزا تصور کیے جاتے ہیں۔ قافیہ بیت کا آخری حرف یا کلمہ ہوتا ہے۔ لیکن جدید شاعری کو قافیہ کی پابندی سے آزد کر دیا گیا اور "شعر مرسل" وجود میں آیا۔ شعر مرسل اس شاعری کو کہا جاتا ہے جس میں خارجی قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی مگر داخلی قافیہ موجود رہتا ہے۔ شعر کی کسی بھی قسم میں یا کسی بھی زمانے میں قافیہ سے بیزاری نہیں برتی گئی۔
عربی شاعری کی دو اقسام ہیں: موزون اور غیر موزون۔ غیر موزون شاعری خال خال ہی نظر آتی ہے۔ موزون شاعری فراہیدی کے متعارف کردہ 15 بحور (طویل، مدید، بسیط، وافر، کامل، ہزج، رجز، رمل، سریع، منسرح، خفیف، مضارع، مقتضب، مجتث، متقارب، متدارک اور خَبب) میں محدود ہوتی ہے۔ خلیل بن احمد فراہیدی (711ء – 786ء) علم عروض کے امام مانے جاتے ہیں اور یہ عروضی بحریں انہی کی ایجاد ہے۔ بعد میں ان کے ایک شاگرد الخفش نے ایک اور بحر کا اضافہ کرکے بحور کی تعداد 16 کردی۔ ایک بحر کئی اکائیوں پر مشتمل ہوتی ہے، اس کو تفعلہ کیا جاتا ہے۔ ہر بحر میں کچھ تفعلے ہوتے ہیں جن کا ہر بیت میں خیال رکھنا ضروری ہے۔ محققین نے عربی شاعری کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے، کلاسیکی شاعری اور جدید شاعری۔ النہضہ سے قبل کی شاعری کلاسیکی کہلاتی ہے۔ کلاسیکی شاعری کا ہر شعر دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں شاعر اپنی بات مکمل کرتا ہے۔ پھر اگلا شعر ایک نئے مضمون کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کو روایتی شاعری بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں روایتی انداز اور ساخت استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم النہضہ کے بعد عالم عرب میں انقلاب کی ایک زبردست لہر اٹھی جس سے عربی شاعری نے بھی خاصا استفادہ کیا۔ عربی شاعری کی تاریخ میں بہت سی ایسی تحریکیں وجود میں آئیں جنھوں نے روایتی شاعری میں تبدیلی کی وکالت کی اور یوں نئی عربی شاعری وجود میں آئی جس میں شاعری کو ایک نیا انداز، دو مصرعوں کے قید سے آزادی، پورے قصیدے کے ہم وزن ہونے کی شرط سے خلاصی، قصائد کے موضوعات میں وسعت و تنوع، ساخت میں تبدیلی وغیرہ بہت سی نئی خصوصیات ملیں۔عربی شاعری کی ساخت پر بیسوں صدی کے نصف اول کے شعرا نے نت نئے تجربات کیے اور شعری نثر، نثری شاعری اور آزاد نظم کی روایت پڑی، حتی کہ نثری قصیدہ بھی لکھا گیا۔ نثری قصیدہ کی اصطلاح کا استعمال سنہ 1960ء کے لبنانی رسالہ مجلہ شعر میں پہلی بار نظر آتا ہے۔
ظہور اسلام سے قبل جو بھی شاعری کی گئی اس کو جاہلیت سے تعبیر کیا گیا۔ دور جاہلیت کا مشہور مقولہ ہے الشعر دیوان العرب (ترجمہ: شاعری عرب کی کھتونی ہے) اور یہ درحقیقت صحیح ہے۔ ان کا سارا علم شاعری پر محیط تھا، ان کے یہاں شاعری سے بڑھ کر علم، سرداری اور عزت و افتخار کا اور کوئی پیمانہ نہیں تھا۔ کسی کو باعزت کرنا ہو تو اس کی شان میں مدحیہ قصیدہ لکھتے اور ذلیل کرنا ہو تو اس کی ہجو کرتے۔ نیز یہ شعرا جس کو ذلیل کر دیتے پھر اس کی عزت خاک میں مل جاتی اور جس کی تعریف کر دیتے وہ عزت و ناموری کی بلندیوں پر پہنچ جاتا۔ دور جاہلی میں شعر کے علاوہ خطابت اور خطوط کو بھی کچھ اہمیت حاصل تھی۔ آغاز اسلام میں شاعری دفاع کا ایک ذریعہ ثابت ہوئی، چنانچہ حسان بن ثابت اور دوسرے مسلمان شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعہ کفار قریش کے خلاف اسلام اور مسلمانوں کا خوب دفاع کیا۔ عہد اموی اور عباسی میں عربی شاعری کے مقاصد بدل گئے۔ اب وہ سیاست، فکر و فلسفہ، تنازع و مخالفت اور بادشاہ سے قربت کے لیے استعمال کی جانے لگی۔ الغرض جیسے جیسے عرب معاشرے نے ترقی کی، ان کا فن شاعری بھی ارتقا کی منزلیں طے کرتا رہا۔ زمانہ اور علاقہ کے لحاظ سے نئے اسلوب، اوزان و قوافی، مضامین اور زبان کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ شعر وصف، شعر اطلال، غزل عذری، شعر سیاسی، شعر صوفی، شعر اجتماعی و وطنی اور موشحات جیسی متنوع اصطلاحات سے اس ترقی یافتہ عربی شاعری کے تنوع کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عرب ناخواندہ قوم تھے اس لیے انھوں نے اپنے اشعار کی تدوین نہیں کی۔ وہ اپنے حافظے پر قناعت کرتے اور کچھ راویوں کی مدد لیا کرتے تھے۔ چنانچہ زہیر بن ابی سلمی نے ابن حجر سے روایت کیا ہے۔ نیز زہیر سے ان کے بیٹے کعب اور حطیئہ نے، ہدبہ بن خشرم نے حطیئہ سے، ہدبہ بن خشرم سے جمیل بن معمر نے اور جمیل بن معمر سے کثیر عزت نے روایت کی ہے۔ اس طرح سینہ بسینہ عربی شاعری کا خزانہ منتقل ہوتا رہا۔
گوکہ کہ زیادہ تر شعرا نے اپنے اشعار محفوظ نہیں کیے تاہم عربی شاعری کا جو ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے وہ عربی شاعری کا سب سے زیادہ ادبی، عمدہ، بلیغ، فنیت سے بھرپور اور قواعد و مفردات کے لحاظ سے سب سے زیادہ فصیح ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دور جاہلیت کی شاعری قواعد و مفردات میں فصیح عربی زبان کی بنیاد ہے۔ وہ اس دور کی سیاست، تہذیب اور تاریخ کا مرقع بھی ہے۔ جاہلی دور کا سب سے بڑا شاعر امرؤ القيس بن حُجر بن حارث کندی (520ء - 565ء) تھا۔ قبیلہ کندہ کی طرف سے شاعری کرتا تھا۔ واضح رہے کہ اس دور کے عرب معاشرے میں ہر قبیلہ کا ایک ممتاز شاعر ہوتا تھا اور کوئی بھی قبیلہ اپنے یہاں شاعر کو پیدا نہ کرکے خود کو بانجھ کہلانا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ قبیلہ کندہ کی نمائندگی امرؤ القيس نے کی جو متفقہ طور پر عربی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے۔[1] اس کو "الملك الضليل" اور "ذي القروح" کے القاب سے نوازا گیا۔[2] اس کی زندگی 100 فیصد شاعرانہ تھی۔ باپ بادشاہ تھا لہذا بچپن عیاشی میں گذرا۔ بے فکری اور ضرورت سے زیادہ عیش نے خیال میں وسعت پیدا کی۔ زندگی جب آزاد ہوتی ہے تو خیال بھی آزاد ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کچھ کرنے کے مقابلے میں سوچنا زیادہ آسان ہے۔ زمانہ جاہلی کے شاعر میں بیک وقت مورخ، کاہن، اپنے قبیلے کا مداح اور اپنے دشمن قبیلے کا ہجو گو ہونا ضروری تھا اور امرؤ القيس میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اسی وجہ سے عربی شاعری نے عرب معاشرے میں اتنی اہمیت حاصل کی۔ تعریف والی شاعری کو مدح اور کسی کی برائی والی شاعری کو ہجو کہا جاتا تھا۔ جاہلی شاعری میں مدح اور ہجو بہت کثرت سے پائی جاتی ہے۔ دو قبیلوں کی لڑائی تلوار سے زیادہ اشعار سے ہوا کرتی تھی۔ عکاظ کے بازار میں شاعری کا مقابلہ منعقد ہوتا جہاں مدح، ہجو اور زجل کی مشق ہوتی تھی۔ ہر بڑا شاعر اپنے شاگرد کے ساتھ جلوہ گر ہوتا، شاگرد کا کام اپنے استاد کی شاعری کو یاد کرنا، اس کو پڑھنا اور ضروری تفصیل بیان کرنا تھا۔ بعد ازاں مقابلے میں فتح مند شاعر کے قصیدے کو خانہ کعبہ کے پردے پر لٹکا دیا جاتا اور اسی معلق شاعری سے "معلقات" وجود میں آئے۔
معلقات جاہلی شاعری کے بہترین نمونے ہیں۔ چونکہ ان کی تعداد سات تھی اس لیے انھیں سبعہ معلقات بھی کیا جاتا تھا، نیز انھیں "المذہبات" اور "السُّموط" کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ بیشتر محققین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان کی تعداد سات ہی ہے گوکہ بعض محقمحققین کے بھی قائل ہیں۔ ابن الانباری اور زوزنی نے ان سات پر ہی اکتفا کیا ہے۔ ساتوں معلقات حسب ذیل ہیں۔
اسی میلے میں سیکھنے سکھانے کا رواج بھی پایا جاتا تھا۔ ہر استاد اپنے راوی شاگرد کو مشق کراتا۔ طفیل نے اوس بن حجر کو سکھایا تو اوس نے زہیر کو۔ زہیر سے ان کے فرزند کعب نے تربیت حاصل کی اور پھر حطیئۃ کو سکھایا اور انھوں نے جمیل بثینہ کی شاعری کو مالا مال کیا اور جمیل نے کثیر عزہ پر محنت کی۔
جاہلی شاعری میں گھڑ سواری، اونٹ، جنگ، شکار، نیل گائے، ہرن، ماں، بیوی، محبوبہ، لونڈی، شراب اور ساتھیوں کا تذکرہ خوب ملتا ہے۔ لیکن بایں ہمہ یہ شاعری خشونت، خالص عربی الفاظ، تکلف اور مصنوعی پن سے عاری نظر آتی ہے اور اس ہر طبعی احساس غالب ہے۔
اسلام کی آمد کے بعد عربی شاعری کو اپنی راہ کچھ بدلنی پڑی۔ چونکہ اسلام میں بت پرستی، شراب و شباب اور فحاشی کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے، لہذا ان موضوعات کو مسلمان شعرا نے یکسر نظر انداز کیا۔ اسی لیے اس زمانہ کے شعرا پر یہ الزام لگا کہ ان کی شاعری کمزور ہو گئی کیونکہ ان پر بہت ساری ایسی پابندیاں لگ گئی تھیں جن کے بغیر شاعری کا حسن جاتا رہتا ہے۔ قرآن نے اس زمانے کے شعرا اور ادبا کو ایک چیلنج دیا۔ جنہیں اپنی شاعری پر ناز تھا وہ قرآن کا ادب سن کر بھونچکے رہ گئے۔ بعض اس کو معجزہ مان کر اس کے گرویدہ ہو گئے اور کچھ نے اس کے خلاف شاعری شروع کی۔ صرف قرآن ہی نہیں بلکہ پیغمبر اسلام کو بھی نشانہ بنایا اور یوں عربی شاعری مخاصمہ بین المذاہب میں داخل ہو گئی۔ اس زمانے کے شعرا میں عبد اللہ بن رواحہ، کعب بن زہیر، حطیئہ اور حسان بن ثابت ہیں جنہیں مخضرمی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی نصف زندگی دور جاہلیت اور نصف اسلام میں گذری۔ مخضرمی ان شعرا کو کہا جاتا جنھوں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں شاعری کی ہو۔
دور اموی میں درباری شاعری کو فروغ ملا۔ فرزدق، جریر اور اخطل یہ تین ایسے شعرا ہیں جنھوں نے ہجویہ شاعری کو بام عروج تک پہنچایا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا ہجویہ شاعری جس بلندی پر اس زمانے میں تھی اسے ایسی بلندی پھر کبھی نصیب نہ ہوئی۔ ہجویہ شاعری عوام میں بہت مقبول تھی۔ جریر اور فرزدق کے مابین ہجویہ مخاصمت خاصی مشہور ہے اور یہ عربی شاعری کا ایک مکمل باب ہے۔ انھوں نے جاہلیت کے زجل کو پھر سے زندہ کیا اور عربی شاعری نے پھر سے اپنی چمک دمک قائم کی۔ ذو الرُمّہ غیلان بن عقبہ غالباً آخری بدوی شاعر ہے جس نے اس دور میں جاہلی شاعری کو اپنائے رکھا۔ رنگینی اور رعنائی کے اس دور میں وہ سادگی اور صحرائی شاعری کر رہا تھا جبکہ جدید اور شہری شعرا نے اپنی راہ الگ کرلی تھی۔ بنو امیہ کی شان و شوکت اور عیش و عشرت نے اس دور کی شاعری کو ایک نئی راہ دی اور غزل کی بنیاد پڑی۔ اس زمانے میں حقیقی عشقیہ شاعری نظر آتی ہے۔ ابو نواس اس قبیل کا سب سے بڑا شاعر ہے جس کو خمریات کا استاد مانا جاتا ہے۔ اس نے ہم جنس پرستی پر بھی بہت کچھ کہا ہے۔ اس زمانے کے بعض شعرا ابو نواس سے بھی آگے نکل گئے اور اسلامی حدود سے تجاوز کرنے لگے۔
وضاح اليمن (89ھ / 708ء) یمن کا قومی شاعر تھا۔ اسے ولید بن عبد الملک کی بیوی ام البنین پر غزل کہنے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک اور شاعر صالح بن عبد القدوس کو اسلام کے خلاف اور بدعت کی حمایت میں شاعری کرنے پر قتل کیا گیا۔ عمر بن ابی ربیعہ نے محبت کی شاعری کو خوب فروغ دیا اور عربی غزل کا سب سے بڑا شاعر کہلایا۔ اسی دور میں عربی شاعری میں تصوف نے بھی اپنا قدم جمانا شروع کیا۔ غزل اور خمریہ کی شکل میں صوفی شاعری کی جانے لگی۔ رابعہ بصری، عبد یزید اور منصور حلاج کچھ مشہور صوفی شاعر ہیں۔ مگر ان کی شاعری کو ظاہری اسلام کے لیے خطرہ سمجھا گیا اور حلاج کو پھانسی دے دی گئی۔ دربار میں شعرا نے اپنی مخصوص جگہ بنا لی تھی اور اس طرح انھیں بادشاہ سے دولت کمانے کا آسان ذریعہ مل گیا۔ خود بادشاہ بھی شاعر بن جاتا تھا۔ ولید ثانی نے کچھ کوشش کی مگر اس کی شاعری پسند نہیں کی گئی۔ اس زمانے میں تشبیہات، استعارات، موشحات اور زجل سے عربی شاعری کو خوب مزین کیا گیا اور اسے بدیع کا نام دیا گیا۔ بشار بن برد اس قسم کا بے تاج بادشاہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بدیع والی شاعری تھوڑی مشکل ہوتی ہے اور دوسری زبانوں کے مقابلے میں اس قسم کی عربی شاعری کو دوسری زبان میں منتقل کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ اگر جاہلی دور میں امرؤ القيس سب سے بڑا شاعر ہوا تو اسلامی دور میں یہ سہرا متنبی کے سر جاتا ہے۔ متنبی کی شہرت اور قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اندلس میں جب ابن زیدون نے اپنی شاعری کا لوہا منوایا تو اسے مشرق کا متنبی کہا گیا۔
ایک طرف جزیرہ نما عرب، شام و عراق اور افریقا میں عربی شاعری اپنے عروج پر تھی وہیں اندلس میں بھی عربی شاعری نے خوب پر نکالے اور خاصی مقبول رہی۔ اندلس میں وصف، مرثیہ، پیغمر اسلام اور صحابہ سے محبت، فلسفہ اور علوم و فنون کے موضوعات پر شاعری کی گئی۔ اندلسی شاعری واضح، آسان اور لفظی و معنوی پیچیدگیوں سے کوسوں دور تھی۔ ابن زيدون (1070ء)، ابن عبدون فہری (1134)، لسان الدین ابن الخطیب (1374ء) اور ابن قزمان (1159ء) چند مشہور اندلسی شعرا ہیں۔ اندلسی شاعری میں موشحات اور زجل کا استعمال خوب ملتا ہے۔
تیرہویں صدی عیسوی کے بعد فارسی اور ترکی ادب کو عروج ملتا ہے اور عربی ادب اپنے انحطاط کی منزلیں طے کرنا شروع کرتا ہے تاہم اندلس میں عربی شاعری نسبتاً زیادہ عرصے تک باقی رہی۔ 1499ء میں فرانسسکو خیمنز دی سیسنروس کے حملہ نے رہی سہی کسر پوری کردی، اس حملے میں اس نے تقریباً 1,025,000 عربی کتابیں جلا کر خاکستر کر دی تھیں۔
انیسویں صدی عیسوی کا آغاز عربی شاعری کے لیے امید کی ایک نئی کرن لے کر آیا جب احمد شوقی اور ان کے رفقا نے کلاسیکی عربی شاعری کے احیا کی طرف توجہ دی۔ گرچہ ان کے کلاسیکی میلان پر خاصی نکتہ چینی کی گئی مگر ان کے اس قدم نے عربی شاعری کے مردہ جسم میں جان پھونک دی تھی۔ النہضہ کے بعد کا دور عربی شاعری کا جدید دور کہلاتا ہے جہاں سے عربی شاعری پھر سے ابھرنا شروع ہوئی۔ مگر اس بار اس کی اٹھان ذرا مختلف انداز میں ہوئی۔ فرانسیسی اور انگریزی ادب نے عرب شعرا کو خوب متاثر کیا اور اس کے نتیجے میں عربی شاعری میں کئی تحریکیں وجود میں آئیں۔
فرنسيس مرّاش، احمد شوقی اور حافظ ابراہیم جیسے کچھ شعرا نے کلاسیکی ادب کے احیا کے امکانات تلاش کرنا شروع کیے۔ گرچہ وہ جدید مغربی ادب سے کچھ متاثر نظر آتے ہیں لیکن بہرحال کلاسیکی شکل کو اپنائے رکھا، جبکہ دوسرے شعرا نے ان کی سخت تنقید کی اور فرانسیسی و انگریزی ادب کی وکالت کی۔ نئے دور کے کلاسیکی شعرا میں محمد سامی بارودی، احمد شوقی، احمد محرم، حافظ ابراہیم، عبد العزیز مصلوح، شفیق جبری اور احمد سقاف قابل ذکر ہیں۔
عربی شعرا کا جب مغربی ادب سے سابقہ پڑا تو اس کی خوبیوں سے استفادہ کرکے عربی ادب کو سجانے سنوارنے میں انھوں نے دیر نہیں کی۔ نئی تحریک رومانی کہلائی اور اس میں ذات کی صحیح ترجمانی، وجدان کا وجود اور تقلیدی نہج کے مکمل بائیکاٹ پر توجہ دی گئی۔ رومانی شعرا میں خلیل مطران، ابو القاسم شابی، ایلیا ابو ماضی، عمر ابو ریشہ اور فہد العسکر شامل ہیں۔
یہ جماعت انسانی نفسیات اور اس کے معاملات، اس کی زندگی، امیدوں، جھگڑوں اور آرزوؤں پر شاعری کی نمائندگی کرتی ہے۔ انھوں نے رومانی تحریک پر زندگی اور واقعیت سے فرار پر سخت تنقید کی۔ صلاح عبد الصبور، احمد عبد المعطی حجازی، محمد فیتوری، ادونیس، بدر شاکر سیاب اس جماعت کے ممتاز شعرا ہیں۔
عہد حاضر میں عرب دنیا میں شاعری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ عراقی شاعروں میں عبد الرازق عبد الواحد، لامیہ عباس امارا، نازک المالک، محمد مہدی الجواہری، بدر شاکر سیاب، احمد مطر، عبد الوہاب البیاتی، وحید خیون، مصطفٰی جمال الدین اور مظفر النواب شامل ہیں۔ محمود درویش کو فلسطین کا قومی شاعر قرار دیا گیا اور ان کے جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ شام کے شاعر نزار قبانی نے سیاسی موضوعات میں کم ہی دلچسپی دکھائی، لیکن انھیں ایک ثقافتی علامت قرار دیا گیا اور ان کی نظموں نے متعدد مقبول نغموں کو اشعار فراہم کیے۔ دیگر معروف شامی شاعروں میں بدوی الجبل اور أدونيس شامل ہیں۔
امیر الشعرا ابو ظبی کے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا ایک شعری مقابلہ جاتی پروگرام ہے جس میں ہزاروں شاعر کلاسیکی اور نباتی عربی شاعری کی ترویج کی خاطر حصہ لیتے ہیں۔ ان مقابلوں میں حصہ لینے والے مشہور شعرا تميم برغوثی، حصہ ہلال اور ہشام الجخ ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.