عبد اللہ بن مطیع بن الاسود (وفات :73ھ )، کبار تابعین اور عبد اللہ بن زبیر کے بڑے حامیوں میں سے ہیں، صحیح مسلم کی روایت کے راویوں میں سے ہیں، کہتے ہیں: عبداللہ بن مطیع نے مجھ سے روایت کی ہے۔ ان کے والد سے روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ آج کے بعد کوئی قریشی آدمی قیامت تک باندھ کر قتل نہ کیا جائے گا۔ [1]
اجمالی معلومات تابعی, عبد اللہ بن مطیع ...
بند کریں
ان کے والد صحابی مطیع بن الاسود بن حارثہ بن نضلہ بن عوف بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب عدوی قرشی ہیں۔[2][3]
تلامذہ
ان کے بیٹوں ابراہیم بن عبداللہ بن مطیع، محمد بن عبداللہ بن مطیع، عامر شعبی، عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ اور محمد بن ابی موسیٰ نے ان کی سند سے روایت کی ہے۔ ا[4]
حالات زندگی
جب یزید بن معاویہ کے دور میں مدینہ والوں نے امویوں کو مدینہ سے نکال دیا اور یزید کی امارت کو معزول کیا تو عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ قریش کے امیر تھے اور عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ انصار کے امیر تھے۔ شامیوں نے مدینہ کے لوگوں کو شکست دی اور حرہ کی جنگ میں عبداللہ بن مطیع کو شکست ہوئی اور مکہ میں عبداللہ بن زبیر کے ساتھ مل گئے۔ اس نے مکہ کا پہلا محاصرہ اس وقت دیکھا جب یزید بن معاویہ کے دور میں جنگ حرہ کے بعد اہل حرم نے ان کا محاصرہ کیا اور وہ ابن زبیر کے ساتھ رہے یہاں تک کہ حجاج بن یوسف ثقفی نے محاصرہ کرلیا۔ عبد الملک بن مروان کے دور میں ابن زبیر مکہ میں تھے اور ابن مطیع ان کے ساتھ تھے تو وہ کہتے ہیں:
” |
میں وہ ہوں جو آزادی کے دن بھاگا تھا۔ آزاد آدمی صرف ایک بار بھاگتا ہے۔ اوہ، مجھے وقفے کے بعد گیند پسند ہے۔ ایک گیند کو گیند سے بدلہ دینا[5] |
“ |
وفات
عبداللہ بن مطیع حجاج بن یوسف ثقفی کے محاصرہ مکہ کے دوران عبداللہ بن زبیر کے ساتھ سال (73ھ – 692) میں مارا گیا، یحییٰ بن سعید انصاری کہتے ہیں: وہ عبد اللہ بن صفوان کے سر، عبد اللہ بن زبیر کے سر اور عبد اللہ بن مطیع کے سر کے ساتھ مدینہ آئے۔
حوالہ جات
ابن حجر العسقلاني (1995)، الإصابة في تمييز الصحابة، تحقيق: علي محمد معوض، عادل أحمد عبد الموجود (ط. 1)، بيروت: دار الكتب العلمية، ج. 4، ص. 302