بھارتی سیاست دان، وزیر اعلا ریاست تمل ناڈو From Wikipedia, the free encyclopedia
متُوویل کرونانِدھی (پیدائش 3 جون 1942- وفات 7 اگست 2018) بھارتی سیاست دان اور ریاست تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ وہ 1969ء سے 2011ء کے دوران میں پانچ بار سیاست کے وزیر اعلیٰ رہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک دراوڑ تحریک کے رہنما رہے اور دو مرتبہ دراویڑا مونیترا کازاگم سیاسی پارٹی کے صدر رہے۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ تمل فلم انڈسٹری میں بحیثیت منظر نویس کام کرتے تھے۔ انھوں نے تمل زبان میں کئی افسانے، ڈرامے، ناول اور کئی جلدوں کی ذکریات لکھ کر تمل لٹریچر میں اپنی خدمات دی ہیں۔ [6][7]
ایم کروناندھی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(تمل میں: மு. கருணாநிதி) | |||||||
مناصب | |||||||
وزیر اعلیٰ تمل ناڈو | |||||||
برسر عہدہ 10 فروری 1969 – 4 جنوری 1971 | |||||||
وزیر اعلیٰ تمل ناڈو | |||||||
برسر عہدہ 15 مارچ 1971 – 31 جنوری 1976 | |||||||
وزیر اعلیٰ تمل ناڈو | |||||||
برسر عہدہ 27 جنوری 1989 – 30 جنوری 1991 | |||||||
وزیر اعلیٰ تمل ناڈو | |||||||
رکن مدت 13 مئی 1996 – 13 مئی 2001 | |||||||
حلقہ انتخاب | تریوارور | ||||||
| |||||||
وزیر اعلیٰ تمل ناڈو | |||||||
رکن مدت 13 مئی 2006 – 15 مئی 2011 | |||||||
حلقہ انتخاب | چیپوک | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائشی نام | (تمل میں: மு. கருணாநிதி) | ||||||
پیدائش | 3 جون 1924ء [1][2] ترکوولائی | ||||||
وفات | 7 اگست 2018ء (94 سال)[3][4] کاویری اسپتال | ||||||
وجہ وفات | متعدد اعضا کی خرابی | ||||||
طرز وفات | طبعی موت | ||||||
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) | ||||||
جماعت | دراویڑا مونیترا کازاگم | ||||||
اولاد | ایم کے اسٹالن ، ایم کے الگیری ، کنیموجھی ، ایم کے مُتو | ||||||
تعداد اولاد | 6 | ||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سیاست دان ، منظر نویس ، صحافی ، مصنف ، فلم ساز ، شاعر | ||||||
مادری زبان | تمل | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | تمل ، انگریزی | ||||||
دستخط | |||||||
ویب سائٹ | |||||||
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ | ||||||
IMDB پر صفحات[5] | |||||||
درستی - ترمیم |
کرونا نیدھی کی وفات 7 اگست 2018ء کو 6:10 شام چینائی کے کاویری ہسپتال میں ہوئی۔ عمر کے آخری حصہ میں وہ کئی بیماریوں کے شکار ہو گئے اور جسم کے متعدد اعضا نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ [8][9][10]
ان کی ولادت ناگاپٹینم ضلع کے تھریککولائی نامی گاؤں میں ہوئی۔ ان کے والد موتھویلو اور والدہ انجو تھیں۔ اسکول کی تعلیم کے دوران میں کرونا ندھی کو ڈراما، شاعری اور ادب میں دلچسپی تھی۔ کرونا ندھی اسپیکر الگیریسامی سے متاثر تھے[11]، وہ جسٹس پارٹی کے ستون تصور کیے جاتے تھے اور عمر کے چودہویں سال ہی سماجی خدمات سے وابستہ ہو گئے تھے۔
کرونا ندھی نے اپنے کیئر کا آغاز تمل فلموں میں بحیثیت منظر نگا ر کیا۔ [12] ان کی پہلی فلم بحیثیت منظر نگار راجکماری تھی، کوئبمٹور میں واقع جوپیٹر پکچرذ نے اس فلم کو پروڈیوز کیا اور اے ایس اے نے ہدایات دیں۔ اس فلم کے ہیرو ایم جی راما چندرن تھے۔ اس دوران مستقبل کے فلمی ہیرو اور بعد میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے بانی ایم جی راما چندرن کرونا ندھی کے پکے دوست بن گئے اور بعد کے دنوں میں دونوں دوست ایک دوسرے کے سیاسی حریف بن گئے۔ اس فلم سے ان کو خوب شہرت ملی۔ اور یہیں سے ان کی منظر نگاری کی صلاحیت کا اندازہ ہوا اور یہ سلسلہ کئی فلموں تک چلا۔کرونا ندھی 2011ء تک منظرنگاری کرتے تھے جب کہ وہ سیاست میں کافی فعال تھے۔ اسی سال انھوں نے تاریخی فلم پونار شنکر لکھی۔ بعد میں انھوں نے سینٹرل اسٹوڈیوز کے لے کام کیا اور ایم جی آر کے لیے ابھیمانیو 1948 لکھی اور ایم جی راما چندرن کے لیے کے لیے بھی دو فلمیں لکھیں۔ 1949ء میں وہ موڈرن تھیٹر کے لیے منظر نویس بن گئے اور کئی فلمیں لکھیں۔
ان کی سب سے اہم فلم پارا شکتی ہے جو تمل سنیما میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ [13]کیونکہ اس فلم سے ہی دراویڑی تحریک کو تقویت ملی۔[14] ابتداءا اس فلم کو تنازعات کا سامنا کرنا پڑا مگر بالآخر 1952ء کو ریلیز ہوئی۔ [14] اور باکس آفس پر بڑی ہٹ ثابت ہوئی۔ راسخ الاعتقاد ہندؤوں نے اس فلم پر سخت ناراضگیاں جتائیں کیونکہ اس میں برہمن واد پر تنقید کی گئی تھی۔ [15] دو اور فلمیں جن میں اسی طرح کے پیغامات پوشید تھے، پانام 1952 اور تھانگراتھنم (1960ء) تھیں۔ ان فلموں میں بیوہ عورتوں کی دوسری شادی، اچھوت روک تھام، زمینداری روک تھام اور مذہبی منافقت جیسے موضوعات کو جگہ دی گئی تھی۔
اپنی عقلمندی اور طرز تکلم کے باعث وہ بہت ایک مشہور سیاست دان کے طور پر ابھرنے لگے۔ کیونکہ ان کی فلموں اور ڈراموں میں بہت واضح اور اہم سماجی پیغامات عوام میں مقبول ہونے لگے تھے،یہ بات الگ ہے کہ ان کی فلموں کو سنسرشپ کا شکار ہونا پڑا اور 1952ء یں دو فلمیں پابندی کا شکار ہوئیں۔[14]وہ تاریخ اور سماجی اصلاح پر خوب لکھتے تھے جن سے ان کی دراویڑی تحریک کو بھی تقویت ملتی تھی۔ وہ سی این اننادورائی کے ساتھ تمل فلموں کے ذریعے اپنی تحریک کو بڑھاوا دینے لگے اور لوگوں میں دراویڑی تحریک کے لیے سماج واد اور نسل واد کا پیغام دینے لگے اور اپنے سیاسی خیالات کی تشہیر کرنے لگے۔
تمل ادب میں ان کی شراکت داری کافی معنی رکھتی ہے۔ انھوں نے نظمیں، خطوط، منظر نگاری، ناول، سوانح عمری، تاریخی ناول، سٹیج ڈراما، مکالمہ اور فلمی گانے لکھے ہیں۔ انھوں نے کئی مضامین اور کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ادب کے علاوہ انھوں نے اپنے فن اور فن تعمیر کے ذریعے تمل زبان کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔ کنیاکماری میں انھوں نے تھریوللوار کے اعزاز میں ان کا 133 فٹ اونچا مجسمہ بنایا۔
ان تصنیف کردہ کتابوں میں سانگا تھامیز، تھریروککورال اورائی، پوننار سنکار، رومپوری پاندیان، تھینپندی سنگم، ویللیکھزمائی، نینجوککو نیدھی، ینیئاوائی ایروباتھی اور کورالویام شامل ہیں۔ ان کی نظمی اور نثر کتب کی تعداد 100 سے کچھ اوپر ہے۔
جسٹس پارٹی کے رکن الگرسوامی کی ایک تقریر سے متاثر ہو کر کرونا ندھی نے 14 سال کی عمر میں ہی سیاست میں قدم رکھ دیا، انھوں نے ہندی مخالف تحریک میں حصہ لیا۔ اپنے علاقہ کے نوجواں کے ساتھ مل کر ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے ارکان کو انھوں نے ہاتھ سے لکھا ایک اخبار مانور یسان تقسیم کیا۔ پھر انھوں نے طالب علموں کے لیے ایک تنظیم بنائی جس کا نام تمل ناڈو مانور مندرام رکھا۔ اور یہ دراویڑی تحریک کی پہلی طالب علموں کی تنظیم تھی۔ کرونا ندھی اپنی تنظیم کے ساتھیوں کے ساتھ سماجی خدمات میں ہمیشہ ملوث رہے۔ یہاں انھوں نے تنظیم کے ارکان کے لیے ایک اخبار جاری کیا، جو بعد میں موراسولی کے نام سے مشہور ہو کر ڈی ایم کے کا رسمی اخبار بن گیا۔وہ پہلی تحریک جس کی بنا پر کرونا ندھی کو تمل سیاست میں ابتدائی مقام حاصل ہوا وہ کللاکوڈی کی تحریک تھی۔ اس قصبہ کا اصلی نام کللاکوڈی تھا، ایک سیمینٹ کی کمپنی کے نام پر اس کا نام ڈالمیاپورم کر دیا گیا، ڈی ایم کے مانگ کی کہ قصبہ کا نام واپس کللاکوڈی رکھا جائے۔ اس احتجاج میں کرونا ندھی نے اور ان کے ساتھوں نے ویلوے اسٹیشن سے ڈالمیاپورم ہٹا دیا اور ریلوے پٹری پت لیٹ گئے جس سے ٹرین کی آواجاہی بند ہو گئی۔ اس احتجاج میں دو اموات ہوئیں اور کرونا ندھی کو گرفتار کر لیا گیا۔ [16]
1957ء کے انتخابات میں 33 سال کی عمر میں کرونا ندھی نے اسمبلی انتخابات میں کولیتھالائی حلقہ سے جیت حاصل کر کے تمل ناڈی اسبلی میں قدم رکھا۔ 1961ء میں ڈی ایم کے کے خزانچی بنے اور 1962ء میں صوبائی ام]سمبلی میں حزب مخالف کے لیڈر بنے اور 1967ء میں جب ان کی جماعت اقتدار میں آئی تو وہ وزیر برائے عوامی خدمات بنے۔
969ء میں اننادورائی کی وفات ہوئی اور کرونا ندھی تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم کے کے صدر ول بن گئے ۔ صدر کو عہدہ پیریار کے لیے خالی تھا کیونکہ اننادورائی پارٹی کے صرف جنرل سکریٹری تھے۔ تمل ناڈو کی سیاست میں سیاست کے اپنے طویل سفر میں انھوں نے پارٹی اور حکومت میں کئی عہدے سنبھالے۔
ڈی ایم کے وہ واحد حکمراں جماعت تھی جس نے ایمرجنسی کی مخالفت کی تھی جس کے نتیجہ میں اندرا گاندھی نے کرونا ندھی ی حکومت کو ختم کر دیا اور جماعت کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ ایمجرنسی کے بعد ڈی ایم کے نے جنتا پارٹی سے اتحاد کر لیا لیکن بدعنوانیوں کے الزامات کی وجہ سے اسمبلی انتخابات ہور گئی۔ کرونا ندھی نے اپنے گہرے دوست ایم جی راما چندرن کو پارٹی سے نکال دیا جس کے جواب میں انھوں نے اے آئی اے ڈی ایم کے پارٹی بنائی اور جلد ہی حکومت بنا لی۔ اور 1987ء میں ایم جی راما چندرن کی وفات تک کرونا ندھی حکومت نہیں بنا سکے اور مسلسل انتخابات ہارتے رہے۔
1080 کی دہائی میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد مرکزی حکومت نے کرونا ندھی قانون اور آرڈر میں ڈھیل دینے پر وزارت اعلیٰ سے برطرف کر دیا، ایک قلیل مدت کی پابندی کے بعد 1996ء کے انتخابات میں ایک طرفہ جیت حاصل کرنے کے بعد وہ پھر وزیر اعلیٰ بنے ۔ پانچ سال کی حکومت کے بعد ان کی جماعت 2001ء کے انتخابات میں جے للتا کی اے ائی اے ڈی ایم کے سے ہار گئی۔
13 مئی 2006ء کو پھر وہ انتخاب جیتے اور حکومت می واپسی کی جب ان کے اتحاد نے ان کی بنادی حریفہ جے للتا کو 2006 کے انتخابات میں ششکست دی۔ [17]At پانچ کی انتظامیہ کے بعد 2011ء میں کرونا ندھی جے للتا سے انتخابات ہار گئے اور حکومت گنوا بیٹھے۔ 2016ء کے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے درمیان میں قریبی مقابلہ رہا مگر جے للتا کی اے ائی اے ڈی ایم کے بازی مارگئی۔ انھوں نے 1957ء سے 2016ء کے دوران میں 13 بار اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
1970ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی تمل کانفرنس کے اففتاحی دن کرونا ندھی نے خصوصی خطاب دیا۔ 1087ء میں کوالالامپور میں ہوئے چھٹے عالمی تمل کانفرس کے افتتاحی دن بھی اپنا خصوصی خطاب دیا۔ کرونا ندھی نے عالمی کلاسیکل تمل کانفرسن 2010ء کا رسمی گانا لکھا جسے اے آر رحمان نے موسیقی دی۔ [18]
اکتورب 2016ء سے ہی ان کی طبیعت ناساز چل رہی تھی جس کی وجہ سے عوام کے سامنے آنا کم کر دیا تھا۔ آخرہ دفعہ انھوں نے 3 جون 2018ء کو اپنے 94ویں یوم پیدائش کے موقع پر اپنی زیارت کروائی تھی۔ 28 جولائی کو ان کی حالت انتہائی نازک ہو گئی اور ان کو کاویری ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ [19] اسی ہسپتال میں وہ 7 اگست 2018ء کو 6:10 شام موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ان کی موت کی وجہ لمبی بیماری اور کئی جسمانی اعضا کا ناکام ہونا بتایا جا رہا ہے۔ [8][20]
حکومت تمل ناڈو نے 8 اگست کو یوم تعطیل کا اعلان کر دیا ۔ او ر اگلے سات دنوں تک ماتم منانے کا بھی اعلان کیا۔ اور قومی پرچم بھی سرنگوں کر دیا جائے گا۔[21]
حکومت ہند نے بھی 8 اگست کو قومی یوم ماتم منانے کا اعلان کیا۔ اوربشمول دہلی تمام صوبہ جات کی دارالحکومات میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔ [22]
حکومت کرناٹک اور بہار نے بالترتیب ایک اور دو دنوں کی چھٹی کا اعلان کیا۔ [23]
اعزازات و انعامات
کرونا ندھی نے ہندوؤں کے بھگوان رام کے وجود پر سوال اٹھائے۔ انھوں نے کہا کہ
” | ایسا کہا جاتا ہے کہ ہزاروں برس قبل ایک بھگوان تھا جسے رام کہا جاتا ہے اس لیے ان کے بنائے پل کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ میں پوچھتا ہوں کہ رام کون تھا؟ کس انجینئرنگ کالج سے اس نے تعلیم حاصل کی تھی؟ | “ |
ان کے اس بیان سے پورے ملک میں تنازعات کا ماحول پیدا ہو گیا۔ بی جے پی رہنما روی شنکر پرساد نے کرونا ندھی پر مذہبی بھید بھاؤ کا الزام لگایا اور کہا “ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا کرونا ندھی دوسرے مذاہب کے خلاف بھی ایسے بیانات دے سکتے ہیں؛ امید ہیں یا نہیں دے سکتے۔“[30]
راجیو گاندھی قتل کی تحقیقات کی سربراہی کرنے والی جین کمیشن نے کرونا ندھی پر تامل ٹائگرز کو ترغیب دینے کا الزام لگایا۔ ۔[31] عبوری رپورٹ کے مطابق تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ان کے ہم جماعت ارکان لٹے کو راجیو گاندھی کے خلاف ورغلانے اور قتل پر آمادہ کرنے کے ملزم تھے۔ لیکن حتمی رپورٹ میں سارے الزامات غلط ثابت ہوئے۔ [32] اپریل 2009ء میں این ڈی ٹی وی کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں کرونا ندھی نے ایک متنازع بیان دیا؛ “پربھاکرن میرا ایک اچھا دوست ہے“ انھوں نے مزید کہا ‘‘بھارت راجیو گاندھی کے قتل کے لیے لٹے کو کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ [33][34][35]
کرونا ندھی کے سیاسی حریفوں نے ان پر اقرباء پروری کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔ [36][صفحہ درکار] 1975ء کے بعد سے انھوں نے کافی تکالیف برداشت کیں، میسا ایکٹ کے تحت ان کو جیل میں ڈال دیا گیا اور بہت بری طرح ان کو مارا گیا، ان کو بچانے کی پاداش میں ان کا ایک ہم جماعت مارا گیا۔ [37] 1989ء اور 1996ء میں جب کرونا ندھی وزیر اعلیٰ تھے تب ان کے بیٹے اسٹالن ایم ایل اے تھے مگر کبھی ان کو کابینہ میں کوئی جگہ نہیں ملی۔ حالانکہ ان کے مخالفین اور خود جماعت کے سینئر رہنما پارٹی میں اسٹالن کی ترقی کو لے کر پریشان رہے ہیں۔ اسٹالن چینائی کے 44ویں میئر بنے اور پہلی بار براہ راست منتخب ہونے والے میئر تھے۔ جب وہ چوتھی بار ایم ایل اے بنے تب کروندھی حکومت میں ان کو وزیر بنایا گیا اور 2009ء میں ان کو ترقی دیکر نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ کرونا ندھی کی دختر کنی موزھی فی الحال راجیہ سبھا میں ایم پی ہیں۔
1957ء سے انھوں نے ہمیشہ تمل ناڈو اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کی ہے سوائے 1984ء کے کہ اس بار انھوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔
سال | حلقہ | نتیجہ | ووٹ فیصد | حزب مخالف امیدوار | حزب مخالف جماعت | حزب مخالف ووٹ فیصد |
---|---|---|---|---|---|---|
1957 | کولی تھلائی | جیت | کے اے دھرما لنگم | انڈین نیشنل کانگریس | ||
1962 | تنجاور | جیت | اے وائی ایس پاریسوتھا ندار | انڈین نیشنل کانگریس | ||
1967 | سعیدا پیٹ | جیت | ایس جی وینایگامورتی | انڈین نیشنل کانگریس | ||
1971 | سعیدا پیٹ | جیت | کودنتھائی رامالنگم | کانگریس او | ||
1977 | انا نگر | جیت | 50.1 | جی کرسنامورتی | ای ڈی ایم کے | 30.98[38] |
1980 | انا نگر | جیت | 48.97 | ایچ وی ہانڈے | ای ڈی ایم کے | 48.31[38] |
1984 | حصہ نہیں لیا | حصہ نہیں لیا | حصہ نہیں لیا | حصہ نہیں لیا | حصہ نہیں لیا | حصہ نہیں لیا |
1989 | ہاربر | جیت | 59.76 | کے اے وہاب | مسلم لیگ | 13.84[39] |
1991 | ہاربر | جیت | 48.66 | کے سپو | ای ڈی ایم کے | 47.26[39] |
1996 | چیپاک | جیت | 77.05 | این ایس نیلائی کنان | انڈین نیشنل کانگریس | 17.24[40] |
2001 | چیپاک | جیت | 51.91 | آر دامودھرن | انڈین نیشنل کانگریس | 43.5[40] |
2006 | چیپاک | جیت | 50.96 | داود میاں خان | آزاد | 38.25[40] |
2011 | تھیرور | جیت | 62.9 | ایم راجیندرن | ای ڈی ایم کے | 33.93[41] |
2016 | تھیرور | جیت | آر پینرسیلوم | ای ڈی ایم کے |
اسمبلی | آغاز مدت | اختتام مدت | عہدہ | جماعت-نشست پر انتخاب لڑی/جیت حاصل کی |
---|---|---|---|---|
تیسری اسمبلی | 1962 | 1967 | نائب حزب مخالف رہنما | 50/143[42] |
چوتھی اسمبلی | 1967 | 1969 | اسٹیٹ وزیر برائے عوامی خدمات | 138/233[43] |
چوتھی اسمبلی | 10 فروری 1969 | 5 جنوری1971 | وزیر اعلیٰ 1 [44] | 136/233[45] |
پانچویں اسمبلی | 15 مارچ 1971 | 31 جنوری1976 | وزیر اعلیٰ1 [44] | 182/203[46] |
چھٹی اسمبلی | 25 جولائی 1977 | 17 فروری 1980 | حزب مخالف کے رہنما 1 [44] | 48/230[47] |
ساتویں اسمبلی | 27 جون 1980 | 18 اگست1 983 | حزب مخالف کے رہنما 2 [44] | 37/112[48] |
نویں اسمبلی | 27 جنوری 1989 | 30 جنوری1991 | وزیر اعلیٰ 3 [44] | 150/202[49] |
دسویں اسمبلی | 26 اپریل1991 | 30 مارچ 1996 | ایم ایل اے [44] | 2/176 [50] |
گیارہویں اسمبلی | 13 مئی 1996 | 14 مئی 2001 | وزیر اعلیٰ 4 [44] | 173/182[51] |
تیرہویں اسمبلی | 13 مئی 2006 | 14 مئی2011 | وزیر اعلیٰ 5 [44] | 96/132[52] |
چودہویں اسمبلی | 16 مئی 2011 | 19 مئی 2016 | ایم ایل اے | 23/124 |
پندرہویں اسمبلی | 19 مئی2016 | وفات: 7 اگست 2018 | ایم ایل اے | 89/176 |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.