Remove ads
مزاح نگار From Wikipedia, the free encyclopedia
کرنل محمدخان (انگریزی: Colonel Muhammad Khan) (پیدائش:5 اگست 1910ء – 23 اکتوبر، 1999ء) پاکستان کے نامور مزاح نگار اور پاک فوج کے شعبۂ تعلیم کے ڈائریکٹر تھے۔ نیز انھوں نے برطانوی راج میں ہندوستانی فوج میں بھی کام کیا اور دوسری جنگ عظیم میں مشرق وسطیٰ اور برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔ پاک فوج کی ملازمت کے دوران کرنل محمدخان نے کتاب بجنگ آمد تصنیف کی جو ایک مزاحیہ سوانح ہے، ان کی اس کتاب کو اردو ادب میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ بجنگ آمد کی کامیابی کے بعد انھیں اردو ادب کے بلند پایہ مزاح نگاروں میں شمار کیا جانے لگا۔ کرنل محمدخان، مشتاق احمد يوسفی، ضمیر جعفری اور شفیق الرحمن کے ہم عصر تھے۔[1]
کرنل محمدخان | |
---|---|
فائل:کرنل محمدخان.jpg | |
پیدائش | محمدخان 5 اگست 1910 بلکسر، ضلع چکوال، صوبہ پنجاب |
وفات | 23 اکتوبر 1999 راولپنڈی، پاکستان |
قلمی نام | کرنل محمدخان |
پیشہ | مزاح نگار |
قومیت | پاکستانی |
نسل | پنجابی، مغل |
تعلیم | ایم اے (اقتصادیات) |
مادر علمی | جامعہ پنجاب |
اصناف | مزاح نگاری |
نمایاں کام | بجنگ آمد بسلامت روی بزم آرائیاں |
کرنل محمد خان ضلع چکوال کے قصبہ بلکسر، صوبہ پنجاب میں 5 اگست، 1910ء کو امیر خان کے گھر میں پیدا ہوئے[2][3]۔ کہنے کو تو بلکسر ضلع چکوال کا ایک چھوٹا سا گمنام قصبہ ہے، بلکہ تھا، بالکل ایسا جیسا کہ پنجاب کے دوسرے دور اُفتادہ، خاموش، پُر سکون شہری ہنگاموں سے دور قصبہ جات ہوتے ہیں۔ لیکن کرنل محمد خان اپنے اس آبائی قصبے کا بڑے فخر سے ذکر کیا کرتے تھے کہ ضلع چکوال میں یہ وہ مقام ہے جہاں تیل نکلا ہے اور اس فخریہ انفرادیت کو اس حد تک بڑھا دیتے کہ کہتے کہ بلکسر تیل کی وجہ سے نہیں تیل بلکسر کی وجہ سے قابلِ شہرت ہے۔ سو اس گمنام مگر شہرت یافتہ قصبے کے لیے اب یہ امر بھی باعثِ فخر و انبساط ہے کہ یہ اب کرنل محمد خان کے حوالے سے معروف ہے۔
یوں تو چکوال اور کوہستان نمک کے سارے علاقے میں بیشتر مغل قبیلے کے افراد آباد ہیں۔ اور یہ سب غالباً اسی بنا پر جب کاشتکاری نہیں کرتے تو اپنے جوہر دکھانے کے لیے سپہ گری اختیار کرتے ہیں کیوں کہ اپنی اسی نسلی اور خونی صفت سے نہ انھیں فرار اور نہ قرار حاصل ہے لیکن کرنل محمد خان کی مانند میدانِ ادب کے شہسوار صرف چند ہی منظرِعام پر آئے ہیں اور ہر میدانِ مزاح میں چند تر۔ کرنل محمد خان مغلوں کی جس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اُس کا نام "مغل کسر" ہے۔[3]
محمد خان ابھی چار سال کے ہی تھے کہ ان کے سر سے والد کا سایۂ عاطفت اُٹھ گیا لیکن ان کی والدہ نے غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی ان کی تعلیم پر نہ صرف یہ کہ خصوصی نظر رکھی بلکہ اُسے خوب سے خوب تر پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ محمد خان نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز چوتھی جماعت میں داخلے سے کیا۔ ان کا داخلہ ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی اسکول چکوال میں ہوا۔ اب جب آٹھویں پاس کرنے کے بعد نویں جماعت میں داخلے کا وقت آیا تو اس کے لیے اضافی انگریزی کی استطاعت کی ضرورت پڑ گئی جس کے لیے انھیں چار سال صرف کرنے تھے لیکن ان کی یہ ضرورت گاؤں کے ایک لڑکے نے جو چھٹیوں پر گاؤں آیا ہوا تھا اس نے موسمِ گرما میں اُن کو پرائیویٹ طور پر پڑھا کر ان کی ضرورت کو پورا کروا دیا اور جب انھوں نے متعلقہ امتحان دیا تو دوسری پوزیشن حاصل کی اور یوں وہ داخلے کے مستحق گردانے گئے اور بعد میں اپنی کلاس کے مانیٹر بھی بنا دئے گئے جو ہمیشہ لائق طالب علموں کا منفرد اعزاز ہوتا ہے۔[4]
1927ء میں دسویں جماعت فرسٹ ڈویژن میں پاس کی اور رول آف آنر حاصل کیا۔ اس ابتدائی تعلیم کی پہلی منزل حاصل کرلینے کے بعد روایتی زمینداروں کے روایتی طرزِ زندگی کو تیاگتے ہوئے انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ٹھانی جس کے لیے لاہور جانا پڑتا تھا۔ ماں نے دوری اور جدائی برداشت کرلی اور بیٹے کے شوق کو اپنی محبت پر اولٰی جانا اور انھیں بخوشی اجازت دے دی۔ کالج کی زندگی بھی ایک عجیب دلچسپ اور ان کی صلاحیتوں کو جِلا دینے والی زندگی تھی۔ انھیں جن لوگوں کی شاگردی اور ہم جلیسی میسر ہوئی۔ ان میں نمایاں ھضرات ایم ڈی تاثیر، فیض احمد فیض، ن م راشد اور محمود نظامی (بعد میں ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان) تھے اور پھر اسلامیہ کالج لاہور میں اس دوران جو نابغۂ روزگار ہستیاں بطور پرنسپل تعینات رہیں ان میں قابلِ ذکر حضرات میں علامہ عبداللہ یوسف علی، ایک انگریز الیگزاندر اور کچھ بعد میں ایم اے غنی رہے۔ محمد خان نے ان تمام حضرات کے۔علم سے استفادہ کیا۔ ہاسٹل میں محمود نظامی کی شخصیت سے مسحور تھے تو کالج کے باہر کے حضرات میں اُن کی مثالی شخصیت پطرس بخاری تھے جنہیں وہ اپنی تحریری زندگی کا مرشد گردانتے تھے لیکن بعض ناقدین اُسے ان کی کسرِ نفسی گردانتے ہوئے یہ کہنے میں عار نہیں محسوس کرتے کہ وہ صنفِ مزاح میں اُن کو کہیں پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔[5]
1929ء میں ایف ایس سی میڈیکل گروپ میں درجہ اول میں کیا۔ اپنے حاصل کردہ نمبروں کی بنا پر انھیں لاہور کے ہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ بہ آسانی مل سکتا تھا لیکن ان کے ایک بزرگ چودھری حق نواز نے کہا "کیا کرو گے ڈاکٹری کرکے، دکان کھولو گے"۔ تب زمیندار بچے کے لیے دکان کھولنا ایک معیوب فعل سمجھا جاتا تھا اور بقول کرنل محمد خان کے "تب ڈاکٹروں کی وہ چاندی نہ تھی جو آج کل ہے۔ظاہر ہے انھوں نے متبادل مشورہ مانگا تو انھوں نے کہا کم از کم بی اے کرلو، اس کے بعد یا تو فوج میں قسمت آزمائی کرنا۔ یا پھر آئی سی ایس کے لیے امتحان دینا۔ سو انھوں نے ڈاکٹر بننے کے خیال کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے بی اے میں داخلہ لے لیا۔ اور یوں 1931ء میں بی اے بھی نمایاں نمبروں سے پاس کر لیا۔ اس کے بعد فارسی میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ غالباً یہ وہ مقام اور وقت تھا جب ان کی زبان دانی کو جِلا ملی اور اردو، فارسی کے اشعار معانی مطالب اور برمحل استعمال پر عبور حاصل ہوا۔ لیکن ابھی قسمت نے ان کے لیے تعلیمی میدان کی حدود کا تعین نہیں کیا تھا کیوں کہ فوج میں کمیشن اور آئی سی ایس کے امتحان کے لیے عمر کی قید آڑے آ رہی تھی۔ اب پھر وہ زندگی کے ایسے موڑ پر آکھڑے ہوئے تھے کہ یا پھر چشمۂ علم سے انھوں نے جو چلو بھرا تھا، مزید گھونٹ پی کے اپنی طلبِ علم کی پیاس کو بجھائیں۔ سو انھوں نے پنجاب یونیوسٹی میں ایم اے (اقتصادیات) میں داخلہ لے لیا جس کی ڈگری انھوں نے1934ء میں حاصل کی۔
یونیورسٹی سے فراغت کے بعد محمد خان نے اپنی تعلیمی قابلیت کو مزید جِلا دینے کے بارے میں سوچا اور بی ٹی میں داخلہ لیا تو یہ ایسے ہی تھا کہ جب کسی آزاد فضا میں رہنے والے پرندے کو پابندِ قفس کر دیا جائے۔ کرنل محمد خان کے بقول اسے ہم سنٹرل ٹریننگ کالج کی بجائے سنٹرل جیل زیادہ سمجھتے تھے۔ اگر کوئی استاد کسی طالب علم کی شکایت کر دے تو اس کی نہ صرف شنوائی ہوتی تھی بلکہ اس پر تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی تھی لیکن طلبہ کی کوئی نہیں سنتا تھا۔ آخر جب قوتِ برداشت جواب دے گئے تو ان سے ایک نظم سرزد ہو گئے۔ جس کا عنوان تھا بی ٹی نامہ۔ جب نظم چھپی تو کالج میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ طلبہ تو خیر بلا استثناء مظلوم صنف ہونے کی بنا پر سو فیصد اس کے حق میں تھے اور اس امر پر شاداں و فرحاں تھے کہ کوئی تو ایسا ہے جس نے ان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے انتظامیہ کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ معاملہ انگریز پرنسپل تک پہنچا۔ پرنسپل نے بلا کر تنبیہ کی لیکن ساتھ ہی اُس نے بہت سی شکایتوں کا ازالہ بھی کیا۔ بہر کیف نظم خاصی پسند کی گئی۔ بالآخر 1936ء میں بی ٹی کا امتحان پاس کر لیا۔[6]
محمد خان دورانِ ملازمت جب تلہ کنگ میں تھے جو اُن کے گاؤں بلکسر سے خاصا نزدیک تھا۔ اس وقت اُن کی والدہ نے اپنی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے محمد خان کی 1939ء میں ان کی پھوپھی زاد بخت بانو سے شادی کردی۔ کرنل محمد خان سے بخت بانو کی ازدواجی رفاقت 35 سال پر محیط رہنے کے بعد نومبر 1974ء میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔[7]
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی چودھری حق نواز (جنھوں نے ڈاکٹری میں داخلے سے منع کیا تھا) کے مشورے کے مصداق نہ تو فوج میں بھرتی کا مرحلہ ہوا اور نہ آئی سی ایس کے امتحان دینے کی نوبت آئی۔ اب صرف یہ رہ گیا تھا کہ معلمی کا پیشہ اختیار کیا جائے چنانچہ شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہو گئے اور اپنی لیاقت، قابلیت اور علمیت کی بنیاد پر اس وقت کے مروجہ گریڈ کی آخری تنخواہ پر مقرر ہوئے۔ پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ اسکول بھیرہ میں ہوئی لیکن صحت کی خرابی آڑے آئی اور وہاں سے چھ ماہ بعد رخصتِ سفر باندھنا پڑا۔ وہاں سے لنگر اُٹھایا تو تلہ کنگ پڑاؤ ڈالا۔ ایک سال وہاں رہنے کے بعد عازمِ چکوال ہوئے۔ جہاں مختصر عرصہ ٹھہرنے کا موقع ملا۔[8]
عجیب اتفاق ہے کہ جب فوج میں کمیشن کا اشتہار شائع ہوا تو محمد خان اس سے نا واقف تھے۔ وہ تو ان کے ایک بچپن کے ساتھی کرنل غلام علی نے جب اشتہار پڑھ کر فوج میں بھرتی ہونے کے لیے آئے تو محمد خان کو بھی اس خبر سے آگاہ کیا اور فوراً درخواست دلوائی اور وہ دونوں براستہ ڈپٹی کمشنر جہلم، راولپنڈی پہنچے۔ جہاں ان کاکلکتہ دفتر (موجودہ منسٹری آف ڈیفنس) میں انٹرویو ہونا تھا۔ پہلے دن کے انٹرویو کے بعد وہ اور دوسرے روز کے انٹرویو کے بعد ان کے دوست کرنل غلام علی فوج میں کمیشن کے لیے منتخب ہو گئے۔
کرنل محمد خان اپنی فوج میں داخلے اور آمد کے بارے بڑے پیارے انداز میں یوں تعارف کرواتے ہیں:
” | جنوری 1940ء میں ہر چند کہ پولینڈ اور ہٹلر کے دوسرے ہمسائے جرمن بمباروں اور ٹینکوں کے درمیان ایسی پُر سکون زندگی بسر نہیں کر رہے تھے۔ تاہم باقی دنیا بفضلِ خدا خیریت سے تھی اور ہمارے ملک ہندوستان میں انگریز کی برکت سے اس شدت سے امن برپا تھا کہ شیر بکری مع جملہ ہندوستانیوں کے ایک گھاٹ پانی پی رہے تھے۔ چنانچہ صلح و آتشی کے اس ماحول میں کسی کو گمان تک نہ تھا کی عین اس وقت ملک کے ایک گوشے میں ایک اہم جنگی واقعہ کی ابتداء ہورہی ہے۔ یعنی لاہور میں ایک نوجوان کالج چھوڑ کر جنگ میں کود پڑنے پر تل گیا ہے۔ یہ نوجوان میں ہی تھا[9]۔ | “ |
جب وہ بطورکیڈٹ آفیسر ٹریننگ اسکول مہو کے ادارے میں داخل ہوئے تو دراصل اب صحیح معنوں میں فوجی زندگی کے کرب و ابتلا سے متعارف ہو رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ اور مقام ہوتا ہے جہاں وہ لوگ جو ناز و نعم کے عادی ہوتے ہیں انھیں اس سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور کئی نہ صرف دل چھوڑ جاتے ہیں بلکہ جسم و جاں کا بچانا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اب لیفٹینی / کپتانی کا نشہ اُتر چکا ہوتا ہے اور جن حالات سے نبرد آزما ہونا ہوتا ہے اس کو بیان کیے بغیر اور وہ بھی محمد خان کی زبان میں آپ نہ تو صرف اُسے صحیح معنوں میں سمجھ پائیں گے اور نہ اسے سراہنا ممکن ہو سکے گا۔ اگرچہ مہو میں محمد خان کا قیام اپنے جلو میں اور کئی نئے نئے قسم کے تجربات اور مشاہدات لیے ہوئے تھا۔ اگرچہ مہو میں تربیت کی کل مدت نو ماہ تھی کہ چھٹے مہینے انھیں سگنل کور کے لیے چن لیا گیا اور بالآخر انھیں کمیشن بھی سگنل کور ہی میں ملی۔
تربیت کے بعد ان کی پہلی چو ائس لاہور تھی اور دوسرا پشاور۔ مگر قرعۂ فال پشاور کے نام نکلا جہاں انگریزی فوج کے گورے افسر بلکہ سارجنٹوں سے بنے افسروں سے واسطہ پڑا۔ ایسی سیکشن میں تعینات ہوئے جس کا کام پہاڑی توپ خانے کو مواصلات پہچانا تھا۔ لیکن وہاں باعثِ تمانیت یہ بات تھی کہ اس میں بیشتر مسلمان تھے۔
پشاور کے بعد محمد خان بمبئی کی بندرگاہ سے پہلی باراگست 1941ء کے آخری ہفتے میں سوئے مغرب روانہ ہوئے۔ بظاہر کسی کو منزل کا علم نہ تھا بقول کرنل محمد خان:
” | خیال تھا کہ سویز یا پورٹ سعید اُتریں گے، لیکن دوسرے روز ہی کسی نے کان میں آ کر کہا "بصرہ اُتریں گے لیکن بتانا کسی کو نہیں"۔ ہم نے کسی کو نہ بتایا۔ یعنی سوائے اپنے دوست کے۔ لیکن اُسے پہلے ہی علم تھا۔ | “ |
اس طرح ستمبر کے پہلے ہفتے میں بصرہ کی بندرگاہ میں جا اُترے جہاں سے اُن کے سفر زندگی کا معرکہ خیز دور شروع ہوا جو آدھی دنیا کا چکر لگانے، جنگ و جدل کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ، کیاہ، سدی امین، قاہرہ، شمالی افریقہ سے ہندوستان واپس اور پھر دوسری بار دوسرے میدانِ کارزار یعنی برما میں اس طرح جا پہنچے کہ یہاں ڈوبے وہاں نکلے۔ مگر وہاں جاپانیوں کی چیرہ دستیوں کا ایسا مشاہدہ کرنے کو ملا اور اُسے اس طرح محسوس کیا بھی کہ اس نے طبیعت کو اس حد تک مکدر کیا کہ انھوں نے اپنے ڈیڑھ سالہ قیام کو ڈیڑھ لمحہ لکھا ہے۔ اپنی واپسی کا ذکر کرتے ہوئے کرنل محمد خان لکھتے ہیں:
” | میمیو سے رنگون تک جیپ میں سفر کیا اور دیکھا کہ ہمارے قیام کے دوران برما کے بے شمار زخم بھر آئے ہیں۔۔۔۔۔" ہم نے دل ہی دل میں روبصحت برما سے کہا کہ تجھے احساس نہ ہومگر ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے۔ برما میں رنگون سے بحری جہاز میں سوار ہوکر ایک مختصر سفر کے بعد براستہ مدراس سرزمینِ ہند میں دوبارہ داخل ہوئے۔ وہاں سے جو سوئے شمال روانہ ہوئے تو راستے میں کئی تجربات سے گزرتے ہوئے ایک بار پھر پشاور آ ڈیرہ ڈالا۔ یوں دنیا گول ہے کے مصداق جہاں سے چلے تھے وہیں آ پہنچے[10]۔ | “ |
قیام پاکستان کے بعد ان کی فوجی زندگی کے پانچ سال پشاور میں گذرے۔ اب ایک آزاد ملک کی فوج کے ایک اعلیٰ آفیسر یعنی چیف ایجوکیشن آفیسر کے طور میجر کے رینک میں قلعہ بالاحصار میں رونق افروز تھے۔
اس کے بعد ایجوکیشن کور جی ایچ کیو میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدہ پر فائز کیے گئے۔
1957ء مین حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ ڈائریکٹر آرمی ایجوکیشن کی آسامی خالی ہو گئی۔ اس عہدے کے لیے اگرچہ ایک سے زائد حضرات نے اس عہدے کے لیے اپنا استحقاق جتانے کی کوشش کی لیکن اس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان کی مردم شناس نے رنگ دکھایا اور انھوں نے لیفٹنینت کرنل محمد خان کو فل کرنل کے رینک پر ترقی دلوا کر انھیں ڈائریکٹر آرمی ایجوکیشن کے عہدے پر لگائے جانے کے احکامات صادر کروا دیے۔[11]
ڈائریکٹر بننے کے سال ڈیڑھ سال بعد ہی ملک میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ اس دور میں جہاں اور بہت سی اصلاحات پر عمل درآمد ہونا شروع ہوا، مختلف کمیشن مقررہوئے۔ ان میں ایجوکیشن کمیشن بھی تھا، کرنل محمد خان اس کمیشن میں مسٹر شریف کی سربراہی میں رکن مقرر ہوئے۔ اپنی اس تفویض کردہ ڈیوٹی کے لیے وہ پندرہ دن [جی ایچ کیو میں اور پندرہ دن کمیشن کے ساتھ مختلف میٹنگز اور دورے میں مصروف رہتے لیکن دونوں کاموں میں سے کسی ایک کو دوسرے کام میں مُخل نہیں ہونے دیا۔ اپنی ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ کے علاوہ اس دوران جو ایک اور بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا وہ پی ایم اے کی عطا کردہ بی اے اور بی ایس سی کی ڈگری کو ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے برابر منوانا تھا۔ فوجیوں کے لیے اس فیصلے سے بڑے فائدہ مند اور دور رس نتائج مرتب ہوئے۔[12]
کرنل محمد خان نے فوج میں 29 برس سروس کرنے کے بعد بطور ڈائریکٹر آرمی ایجوکیشن کے 1969ء میں وردی کو خیرباد کہا۔[13]
ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے کوئی نوکری تو قبول نہ کی البتہ اعزازی طور پر آرمی لائبریری کی تشکیلِ نو اور بہتری کے لیے بطور ایڈوائزر لائبریری کا کام قبول کر لیا۔ اس دوران ہی برٹش کونسل کی جانب سے انگلستان کی فوجی لائبریریوں کا دورہ کیا جس کا ذکر اپنی کتاب بسلامت روی میں کیا ہے۔ فوجی لائبریریوں میں بہتری کے لیے انھوں نے ایک جامع رپورٹ بھی تیار کی۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی ملکی حالات میں تبدیلی کی بنا پر فوج میں بھی کٹوتی اور بچت مہم چلی۔ سو نزلہ بہ عضو ضعیف کے تحت اس اعزازی عہدے پر گرا اور کرنل صاحب بہ عزت تمام صحیح معنوں میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔[14]
کرنل محمد خان کے اندر ایک ادیب اسکول کے دوران ہی کروٹیں لے رہا تھا جس کا انھوں نے گاہے بگاہے اسکول، کالج اور یونیورسٹی اور پھر بی ٹی کے تربیتی ادارے میں اظہار کیا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق انھوں نے اسکول کے زمانے میں ہی خامہ فرسائی شروع کردی تھی۔ کوئی بارہ برس کی عمر میں انھوں نے پہلی بار جرأتِ رندانہ کرتے ہوئے بلی چوہے کے عنوان کے تحت کہانی لکھی۔ اگرچہ اسے وہ اپنی تخلیقی کاوش کی ابتدا گردانتے ہیں لیکن عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ بلی چوہے کے بارے میں کیا اور کس انداز میں لکھا ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کا بھی آغاز کیا۔ انھوں نے حمدِ خدا کے عنوان سے ایک نظم لکھی جو اس زمانے میں لاہور سے شائع ہونے والے ایک رسالے رہنمائے تعلیم میں شائع ہوئی۔ جیسے آج کل اخباروں میں ایک گوشۂ اطفال ہوتا ہے۔ اسی طرح اس رسالے کا ایک حصہ طلبہ کی تخلیقات کے لیے مختص تھا اس میں ان کی یہ نظم حمدِ خدا بھی چھپ گئی اگرچہ قدرے ترمیم کے ساتھ۔ محمد خان اس زمانے میں "صادق" تخلص اختیار کیے ہوئے تھے لیکن بقول کیپٹن شاکر ٹنڈان وہ نسیم تخلص کرتے تھے۔ ان کی ابتدائی نظم کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں [15]:
مقدس ذات بے انتہا خداوندِ جہاں تم ہو | نگہباں، رحمدل ہو، بیکسوں پر مہرباں تم ہو | |
ستونوں کے سوا قائم کیا ہے آسمانوں کو | دکھادی قدرت کامل نظر سے گونہاں تم ہو | |
کھڑا ہے دست بستہ تیرے در پر ملتجی 'صادق' | کرو نظرِ کرم ہاں حامیٔ افتادگاں تم ہو |
کھیلوں کا شوق دیکھنے کی حد تک تھا۔ ان کے پسندیدہ کھیلوں میں فٹ بال اور کرکٹ تھا اور کرکٹ ہمیشہ شوق سے دیکھتے تھے۔ کھیلوں میں حصہ نہ لینے کے باوجود انھوں نے اپنی اس پسند کو شوقِ تکمیل تک پہچانے کے لیے کھیلوں پر تبصرہ نگاری کا شغل اختیار کیا۔ یوں اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ساتھ ساتھ فیروز سنز کے ایک اخبار ایسٹرن ٹائمز کے اسپورٹس رپورٹر بن گئے۔[16]
کرنل محمد خان کے فن کا تھوڑا سا اظہار تو ان کی تعلیم کے ابتدائی زمانے میں ہوا اور پھر جیسے وہ ودیعت شدہ فن ایک طویل عرصے کے لیے خاموشی اختیار کر گیا۔ ان کی پہلی کتاب بجنگ آمد ہے۔ بجنگ آمد کرنل محمد خان کی زمانۂ جنگ کی گزاری ہوئی داستانِ حیات ہے۔ اس میں جہاں بہت سی ہونی اور انہونیوں کا ذکر ہے، جہاں بہت سے پُر لطف یادگار اور قابلِ ذکر واقعات، ادوار اور یارانِ دلدار کا ذکر ہے وہاں انھوں نے اپنی اس کتاب کی معرفت اور اپنی خوش بیانی کی بنا پر ان کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ اس نے ان سب کو داستانِ جاوداں بنا دیا ہے[17]۔ اس کتاب کا پسِ منظر دوسری جنگ عظیم ہے۔ یہ مضامین 1962ء اور 1965ء کے درمیان لکھے گئے اور ان میں سے چند مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ وسط 1965ء میں انھیں کتابی صورت میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بالآخر اگست 1966ء میں یہ کتاب شائع ہوئی۔[18] محمد خان بجنگ آمد کی ہر اشاعت میں تصحیح اور ترامیم کرتے رہتے۔ وہ بڑی حد تک چھوٹی چھوٹی جزویات پر نظر رکتے تھے اور ساتھ ساتھ سرخ روشنائی سے کتاب میں دَر آنے والی غلطیوں کو نظر سے قطعی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے اور حسبِ ضرورت مزید بہتری کے خیال سے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی کرتے جاتے تھے۔[19]
کرنل محمدخان مختلف اوقات میں بیرونِ ممالک کے تین دورے کیے جن میں سے ایک نجی اور دو سرکاری۔ ان تین سفروں پر مشتمل انھوں نے ایک سفرنامہ تحریر کیا جس کا نام انھوں نے بسلامت روی رکھا۔[20] بسلامت روی ان کی ریٹائرمنٹ کے چھ سال بعد 1975ءمیں منظرِ عام پر آئی۔ کرنل محمد خان کی یہ سب سے طول طویل کتاب ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔[21] ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے بسلامت روی کے بارے میں لکھتے ہیں[22]:
” | وہی بجنگ آمد والی حلاوت، لطافت، ظرافت، سلاست، بانکپن اور شگفتگی ہے، فرق ہے تو یہ کہ اس میں زبان کا چٹخارہ یعنی شعریت اور ادبیت زیادہ ہے اور اس میں بے ساختہ پن زیادہ ہے۔ | “ |
کرنل صاحب کی تیسری کتاب بزم آرائیاں ہے اور یہ بسلامت روی کے پانچ سال بعد 1980ء میں شائع ہوئی۔ اس میں متفرق مضامین اور کہانیاں شامل ہیں جن میں اکثر مختلف رسالوں میں چھپ چکی تھیں۔ جو غالباً کرنل صاحب نے مدیروں کی فرمائش پر تحریر کیں۔ کرنل محمد خان بزم آرائیاں کے بارے میں رقمطراز ہیں:
” | بجنگ آمد کا موضوع میری لیفٹینی تھی، یعنی یہ کہ کب اور کیسے نازل ہوئی اور بعد از نزول مجھ پر کیا گزری۔ بسلامت روی سفرِ فرنگ کی روداد تھی۔ موجودہ کتاب جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے، متفرق مضامیں کا مجموعہ ہے لیکن اس الوداعی باب میں یہ بتانا مقصود ہے کہ جب ایک روز یہ خاکسار یکا یک ایک عام آدمی سے مصنف بن گیا تو اس کے بعد اس پرکیا بیتی[23]۔ | “ |
پروفیسر مجتبیٰ حسین نے ان کی کتاب بزم آرائیاں کو جس انداز میں دیکھا اور پرکھا، وہ پیشِ خدمت ہے:
” | بزم آرائیاں۔ یہ ان کی تیسری تصنیف ہے---- کرنل محمد خان کے مزاح میں بے فکری اور فکرمندی دونوں اس وجہ سے پائی جاتی ہیں کہ بعض باتیں وہ کھل کر کہتے ہیں اور بعض جگہ خاموشی مصلحت کوشی بن جاتی ہے۔ کرنل محمد خان کے مزاح میں جڑواں بچوں سی ہم طبعی پائی جاتی ہے۔ ان کے منصب اور ان کی مزاح نگاری میں خوشگوار تعاون ہے۔ مثال کے طور پر شرابی کبابی، خیالاتِ پریشان، ضرورت ہے ایک خوشامدی کی اور ریٹائرمنٹ کا ذائقہ پڑھ لیجئے۔ مصنف کے نام کے جز و کل موجود ملیں گے[24]۔ | “ |
کرنل صاحب اپنی پہلی تین کتابوں (یعنی بجنگ آمد، بسلامت روی اور بزم آرائیاں) کو تو تمام تر اپنی کتابیں گردانتے تھے اور چوتھی کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ کہانیوں پر مشتمل ہے اس لیے وہ اسے اپنی تخلیق نہیں گردانتے تھے۔ کرنل محمد خان کی چوتھی کتاب بدیسی مزاح۔ پاکستانی لباس میں ہے جس میں انھوں نے انگریزی ادب کے مزاح پاروں کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب 1992ء میں شائع ہوئی۔
بزم آرائیاں لکھنے کے بعد کرنل محمد خان نے اپنے دوست احباب سے مشورے کے ساتھ ایک نیا رسالہ بنام اُردو پنچ کے نام سے نکالنے کی تیاری شروع کردی۔ تمام انتظامی امور اور فراہمیٔ مضامین کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد انھوں نے1981ء میں یہ رسالہ نکالہ جس کا پہلا شمارہ یکم اپریل 1981ء میں نکلا جو حجم کے لحاظ سے کسی کتاب سے کم نہ تھا۔[25] اُردو پنچ کے اولین اشاعت میں جن مصنفین کے مضامین شامل ہوئے ان میں شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، ڈاکٹر وزیر آغا، ممتاز مفتی، مشکور حسین یاد،رضیہ فصیح احمد، صدیق سالک، مستنصر حسین تارڑ، مختار زمن، ڈاکٹر انور سدید، پطرس بخاری، بشریٰ رحمن، محمد منشا یاد،کیپٹن اشفاق حسین، ڈاکٹر صفدر محمود، چراغ حسن حسرت، کرنل محمد خان، سید ضمیر جعفری اور منظومات میں سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری، رئیس امروہوی، دلاور فگار، مولانا احسن مارہروی، مسٹر دہلوی، قتیل شفائی، تابش دہلوی، انور مسعود، امیر الاسلام ہاشمی، سرفراز شاہد شامل وغیرہ شامل ہیں۔ رسالے کی جلد نمبر 15 (57) کرنل محمد خان نے 1995ء میں چھاپی جو شفیق الرحمن نمبر تھا اور یہ اردو پنچ کا آخری نمبر ثابت ہوا۔[26]
ان کی پہلی کتاب بجنگ آمد ہے۔ بجنگ آمد کرنل محمد خان کی زمانۂ جنگ کی گزاری ہوئی داستانِ حیات ہے۔ اس میں جہاں بہت سی ہونی اور انہونیوں کا ذکر ہے، جہاں بہت سے پُر لطف یادگار اور قابلِ ذکر واقعات، ادوار اور یارانِ دلدار کا ذکر ہے وہاں انھوں نے اپنی اس کتاب کی معرفت اور اپنی خوش بیانی کی بنا پر ان کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ اس نے ان سب کو داستانِ جاوداں بنا دیا ہے۔ اس کتاب کا پسِ منظر دوسری جنگ عظیم ہے۔ یہ مضامین 1962ء اور 1965ء کے درمیان لکھے گئے اور ان میں سے چند مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ وسط 1965ء میں انھیں کتابی صورت میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بالآخر اگست 1966ء میں یہ کتاب شائع ہوئی۔ محمد خان بجنگ آمد کی ہر اشاعت میں تصحیح اور ترامیم کرتے رہتے۔ وہ بڑی حد تک چھوٹی چھوٹی جزویات پر نظر رکتے تھے اور ساتھ ساتھ سرخ روشنائی سے کتاب میں دَر آنے والی غلطیوں کو نظر سے قطعی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے اور حسبِ ضرورت مزید بہتری کے خیال سے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی کرتے جاتے تھے۔
کرنل محمدخان مختلف اوقات میں بیرونِ ممالک کے تین دورے کیے جن میں سے ایک نجی اور دو سرکاری۔ ان تین سفروں پر مشتمل انھوں نے ایک سفرنامہ تحریر کیا جس کا نام انھوں نے بسلامت روی رکھا۔ بسلامت روی ان کی ریٹائرمنٹ کے چھ سال بعد 1975ءمیں منظرِ عام پر آئی۔ کرنل محمد خان کی یہ سب سے طول طویل کتاب ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔
کرنل صاحب کی تیسری کتاب بزم آرائیاں ہے اور یہ بسلامت روی کے پانچ سال بعد 1980ء میں شائع ہوئی۔ اس میں متفرق مضامین اور کہانیاں شامل ہیں جن میں اکثر مختلف رسالوں میں چھپ چکی تھیں۔ جو غالباً کرنل صاحب نے مدیروں کی فرمائش پر تحریر کیں۔
کرنل صاحب اپنی پہلی تین کتابوں (یعنی بجنگ آمد، بسلامت روی اور بزم آرائیاں) کو تو تمام تر اپنی کتابیں گردانتے تھے اور چوتھی کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ کہانیوں پر مشتمل ہے اس لیے وہ اسے اپنی تخلیق نہیں گردانتے تھے۔ کرنل محمد خان کی چوتھی کتاب بدیسی مزاح۔ پاکستانی لباس میں ہے جس میں انھوں نے انگریزی ادب کے مزاح پاروں کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب 1992ء میں شائع ہوئی۔
” | میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں، ضبطِ تولید سراسر جائز معلوم ہونے لگتا ہے[27]۔ | “ |
تشکیل پاکستان کے بارے میں بجنگ آمد کا آخری پیراگراف میں کرنل محمد خان رقمطراز ہیں:
” | سیسل ہوٹل مری کا کمرہ نمبر 26 ایک منکسر مزاج سا سنگل کمرہ ہے۔ لیکن ہمارے لیے عظیم تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کمرے میں ہم پر 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی صبح طلوع ہوئی۔ اسی کمرے میں ریڈیو پاکستان کا پہلا نشریہ سنا۔ گویا اسی کمرے میں وطنِ عزیز کی آزادی کا ابتداء ہوئی[17]۔ | “ |
” | ہمارا تجربہ ہے کہ دس میں سے نو ہم نشینوں کے مقابلے مین ایک پسندیدہ کتاب بہتر ساتھی ہے۔ ہاں اگر خوش قسمتی سے دسواں ہم نشیں، وہ جانِ آرزو میسر آ جائے تو کتاب کیا، جان بھی قربان کی جاسکتی ہے[28]۔ | “ |
ذرا اس فقرہ اور اس کی جامعیت ملاحظہ کریں:
” | کمرے میں داخل ہونے لگے تو پہلا تأثر حسرت کا تھا، دوسرا حیرت کا اور تیسرا عشرت کا[28]۔ | “ |
” | نہا کر چائے پینے لگے تو محسوس ہوا جیسے زندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ گویا مادام پیکارڈ نے آبِ حیات اُبال کر پتی ڈالی تھی۔ اور ہائے وہ مادام کی نفاست ذوق کہ چائے کے ساتھ دو پلیٹوں مین کچھ اشیائے قتل لے آئی تو تیسری میں فقط ایک تازہ پھول رکھ لائی۔ اس ادائے خاص کا ایک ہی جواب تھا۔ کہ پلیٹ واپس کرتے ہوئے اس میں دل رکھ دیتے۔ لیکن ایسی فضول خرچی بھی کیا۔ چھوٹا سا شکریہ ادا کر دیا----[28] | “ |
ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کرنل محمد خان کے بارے میں کہتے ہیں:
” | اُرردو مزاح کو کرنل محمد خان نے ایک نیا بانکپن اور اندازِ دلبری بخشا ہے، جو صرف انہی کا حصہ ہے[29]۔ | “ |
رشید نثار کرنل محمد خان کی شخصیت، تحریر، اندازِ تحریر اور کمال فن کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں ان کے بارے میں رقم طراز ہیں:
” | کرنل محمد خان ہمارے عہد کے ذہین مزاح نگار تھے۔ انہوں نے اپنی ذہانت کو صیغۂ راز میں رکھا۔ ایک دن اچانک اُن کے قلم نے شاہکار مزاحیہ ادب تخلیق کیا اور یہ باور کرایا کہ فوجی انسان جس کے ذہن میں جنگ اور امن دونوں ساتھ ساتھ آغاز کرتے ہیں، انسانی یک جہتی اور تحفظ کا احساس اور............ دائمی مفاہمت اور خلوص کی تائید کے لیے تخلیقی مزاح لکھتا ہے۔ اس اعتبار سے مزاح کرنل محمد خان کے لیے حسنِ فطرت کا درجہ رکھتا ہے........... چنانچہ مزاح کے بغیر زندگی اس طرح ہے جیسے پانی کے بغیر سمندر[30]۔ | “ |
ظہیر فتح پوری نے کرنل محمد خان کے بارے میں کہتے ہیں:
” | کرنل محمد خان کچھ ایسا معتدبہ فریفتگیٔ دل لے کر ہی ملک سے باہر گئے۔ انہیں جو بھی ملی "حسینۂ عالم" ہی ملی۔ سوائے پی آئی اے کی اس ائیر ہوسٹس کے جس نے اس سفر میں سب سے پہلے ان کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس لیے تو میں نے 99 فیصد کی قید لگائی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے بعد کرنل محمدخان ہیں جنہیں ہر جگہ ہر مقام پر کسی نہ کسی حسینہ نے صرف سلام نہیں کیا یہ کوئی خاص فخر کی ات نہیں۔ سلامِ محبت بھی کیا ہے[31]۔ | “ |
دنیائے ادب کے عظیم مزاح نگار ور مزاح کے جرنیل رومیل کرنل محمد خان کا انتقال 23 اکتوبر 1999ء کو راولپنڈی،[پاکستان میں ہوا اور اپنے گاؤں بلکسر، ضلع چکوال میں اپنی بیگم کے پہلو میں سپردِ خاک ہوئے۔[2]۔[32]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.