Remove ads
پاکستانی اردو شاعرہ From Wikipedia, the free encyclopedia
پروین شاکر (24 نومبر 1952ء - 26 دسمبر 1994ء) ایک پاکستانی شاعرہ اور حکومت پاکستان کی سرکاری ملازم تھیں۔ وہ اپنی نظموں کے لیے مشہور ہیں، جس سے اردو ادب میں ایک مخصوص نسائیت پسند آواز ملی۔[1]
پروین شاکر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 24 نومبر 1952ء کراچی |
وفات | 26 دسمبر 1994ء (42 سال) اسلام آباد |
وجہ وفات | ٹریفک حادثہ |
مدفن | اسلام آباد |
شہریت | پاکستان |
شریک حیات | سید نصیر علی |
عملی زندگی | |
صنف | غزل؛ آزاد نظم |
مادر علمی | جون ایف کینیڈذی سرکاری اسکول |
پیشہ | شاعر ، مصنفہ |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی |
شعبۂ عمل | شاعری |
کارہائے نمایاں | خوشبو |
متاثر شخصیات | اردو شاعری؛ حقوق نسواں اردو شاعری کے ذریعے |
IMDB پر صفحہ | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سڑک حادثے میں کم عمری میں وفات کے بعد سے ان کی یاد میں ہر سال پاکستان کے اسلام آباد شہر میں "پروین شاکر اردو ادب فیسٹیول" کا انعقاد کیا جاتا ہے۔[2]
پروین شاکر 24 نومبر، 1952ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔[3] ان کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا جو خود بھی شاعر تھے اور ثاقب تخلص استعمال کرتے تھے۔ [4] پروین کے والدین ہندوستانی صوبہ بہار کے ضلع گیا کے شیخوپورہ گاؤں کے رہنے والے تھے۔ [4][5] ان کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔[6]
سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990ء میں ٹرینٹی کالج جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔
شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔
یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے | ||
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے |
اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گئے | ||
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے |
رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا | ||
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے |
بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی | ||
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے |
پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر | ||
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے |
تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو | ||
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے |
روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال | ||
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے |
ان کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔
پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رہے جو درد کائنات بن جاتا ہے اسی لیے انھیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں میں کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں، لیکن ان کے یہاں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی ہم عصر دوسری شاعرات کے یہاں نظر نہیں آتی۔ اُن کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔ اُن کے پہلے مجموعے خوشبو میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہار ہے اور اس وقت پروین شاکر اسی منزل میں تھیں۔ زندگی کے سنگلاخ راستوں کا احساس تو بعد میں ہوا جس کا اظہار ان کی بعد کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ ماں کے جذبات شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل ان سبھی کو انھوں نے بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔
26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ لواحقین میں ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پروین شاکر صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کی کار ایک ٹریفک سگنل پر موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہوئیں، انھیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئیں اور اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں۔ ان کی لوح مزار پر انہی کے یہ اشعار کندہ ہیں:
یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخم ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
شہر سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستا سجھائی دے
یہاں سے آپ ان کی قبر پر لگے ہوئے کتبے کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔[7]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.