موہن جو دڑو
پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہزاروں سال پرانی تہذیب کی نشانی From Wikipedia, the free encyclopedia
پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہزاروں سال پرانی تہذیب کی نشانی From Wikipedia, the free encyclopedia
موہن جو دڑو (سندھی:موئن جو دڙو اور اردو میں عموماً موئن جو دڑو بھی؛ انگریزی: Moenjo-daro) وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی، وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ صوبہ پنجاب سے 686 میل دور ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ء میں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔[2]
مقام | لاڑکانہ، سندھ، پاکستان |
---|---|
متناسقات | 27°19′45″N 68°08′20″E |
قسم | آبادی |
رقبہ | 250 ha (620 acre)[1] |
تاریخ | |
قیام | 26–پچیسویں صدی قبل مسیح |
متروک | انیسویں صدی قبل مسیح |
ثقافتیں | وادیٔ سندھ کی تہذیب |
یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ | |
باضابطہ نام | موئن جو دڑو اصلی نام (موہانڑوجودڑو) یعنی موہانڑو قوم کا ٹیلہ وادی سندھ کا سب سے پرانا قبیلہ میں آثار قدیمہ کے کھنڈر |
معیار | ثقافتی: ii, iii |
حوالہ | 138 |
کندہ کاری | 1980 (4 اجلاس) |
علاقہ | 240 ہیکٹر |
1921ء کا واقع ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار راکھال داس بینرجی کو موہن جودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ [3] اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی، ڈائریکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ آثاریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا تاہم کھدائی کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔[4]
وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922ء میں موہن جو دڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جا سکا۔ موہن جو دڑو کے کھنڈر دوکری سے کوئی نو میل کے فاصلے پر لاڑکانہ کی حدود میں واقع ہے۔ [5]
موہن جو دڑو کا عمومی پلان ہڑپہ جیسا ہی تھا۔ شہر کے مغرب میں قلعہ ہے۔ شہر کی گلیوں کی ترتیب و مکانات اور اناج گھر سب ہڑپہ جیسے ہیں۔ البتہ یہاں کی منفرد اور سب سے نمایاں چیز بڑا اشنان گھر ہے۔ بڑا غسل خانہ، بڑی باؤلی یا عظیم حمام۔ یہ ایک بڑی سی عمارت ہے۔ جس کے وسط میں ایک بڑا سا تالاب ہے۔ یہ تالاب شمالاً جنوباً 39 فٹ لمبا اور شرقاً غرباً 23 فٹ چوڑا اور آٹھ فٹ گہرا ہے۔ شمال اور جنوب دونوں سمت سے اینٹوں کے زینے اندر اترتے تھے۔ جن پر لکڑی کے تختے چپکا دیے گئے تھے۔ تالاب کی چار دیواری کی بیرونی سمت پر بھی لک ( بچومن ) کا لیپ کیا گیا ہے۔ لک ہائیڈرو کاربن کا قدرتی طور پر نکلنے والا مادہ ہے اور فطرت میں مختلف حالات میں دستیاب ہے۔ لک کے لیپ سے تالاب میں سے پانی کے رسنے کا سد باب کیا گیا ہے۔
اسی طرح موہنجودڑو دریائے سندھ کے اندر ایک جزیرہ نما خشکی پر واقع تھا۔ اس کے ایک طرف دریائے سندھ تھا اور دوسری طرح دریائے سندھ سے نکلنے والا نالہ (جسے نارا کہتے ہیں) بہتا تھا۔ یہ آگے جا کر واپس دریا میں مل جاتا تھا۔ اسی لیے شہر کی حفاظت کے لیے ایک میل لمبا حفاظتی بند باندھا گیا تھا۔ موہنجودڑو میں بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے۔ سیلاب کی لائی ہوئی گار سے اس شہر کی سطح اردگرد کی زمین سے تیس فٹ بلند ہو گئی۔
ہم جب موہن جو دڑو جیسا عالی شان شہر دیکھتے ہیں جس کے مکانات پختہ اور مضبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں۔ ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں، ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ عجیب بات موہن جو دڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں، وہ سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے زوال آتا رہا۔
موہن جو دڑو میں قلعہ اصل شہر کے اندر ایک منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا تھا، جس کے اردگرد گلیاں ایک جال کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں اور گلیوں کے اس جال میں جگہ جگہ عمارتوں کے بلاک میں قلعہ اور شہر اور قلعے کے درمیان میں ایک واضح خلا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قلعہ کے اردگرد وسیع اور گہری خندق ہو۔ جس میں پانی چھوڑا گیا ہو یا پھر دریا کا پانی لایا گیا ہو یا قدرتی طور پر دریا کی ایک شاخ نے اس کو جزیرے کی شکل میں گھیر رکھا ہو۔
موہن جودڑو کا قلعہ ایک ٹیلے پر واقع ہے، جو جنوب میں سطح زمین سے بیس فٹ اونچا ہے اور شمال میں چالیس فٹ۔ آج کل دریائے سندھ کی ایک شاخ اس سے تین میل کے فاصلے پر بہتی ہے۔ جب یہ شہر آباد تھا اس وقت قلعے کی مشرقی دیوار کے پاس سے دریا کی ایک شاخ گزرتی تھی۔ مغربی جانب جو حفاظتی بند تھا، اس سے ایک میل دور دریا تھا۔ قلعہ ایک چبوترے پر واقع ہے۔ چبوترا مٹی اور کچی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ جس زمانے سے اناج گھر اور اشنان گھر تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے نیچے بھی کئی دور رہائش کے مدفون ہیں۔ مگر زیر زمین پانی کی سطح اونچی ہونے کی وجہ سے ابھی تک کھدائی نہیں ہو سکی۔ تاہم جو کچھ ہو سکا ہے اس کے مطابق اوپر سے نیچے تک سات سطحیں ملی ہیں۔ ساتویں سطح سے نیچے ابھی تک کھدائی نہیں ہو سکی۔ چھٹی اور ساتویں سطح کے درمیان میں بیس فٹ موٹی تہ مٹی اور اینٹ کے روڑوں کی بچھائی گئی ہے۔ گویا پرانا شہر سیلاب سے تباہ ہوا یا سیلاب آیا تو پورے شہر کے اوپر بیس فٹ اونچا چبوترا بنا کر نیا شہر تعمیر کر لیا گیا۔ موہن جو وڑو کے قلعے کے جو برج بنائے گئے ہیں، ان میں بعض جگہ لکڑی کے شہتیر کا ردا لگایا گیا ہے۔ جو نو فٹ لمبا اور پانچ فٹ چوڑا ہے۔ لیکن بعد میں یہ شہتیر گل گئے تو کہیں کہیں اینٹوں کی مرمت کر دی گئی۔ شہتیروں کا یہ عجیب و غریب استعمال ہڑپہ کے اناج گھر میں بھی کیا گیا ہے۔ بعد میں آنے والے معماروں نے یہ طریقہ ترک کر دیا۔ دو برج ایک چور دروازے کے دائیں بائیں بنائے گئے تھے۔ بعد میں یہ چور دروازہ بند کر دیا گیا اور یہاں فصیل تعمیر کر دی گئی۔ اس فصیل کے اوپر دونوں طرف قد آدم دیواریں بنا کر دونوں برجوں کے اس چور دروازے کو بند کر دیا گیا۔ اس جگہ سے مٹی کے 100 باٹ ملے ہیں۔ جن میں کچھ چھ اونس وزن کے ہیں اور باقی ماندہ بارہ اونس کے (بالترتیب ایک پاؤ اور آدھا سیر) قلعے کے جنوب میں ایک برج ہے اور اس کے قریب عقبی دروازہ ہے۔ موہن جو دڑو قلعے کا دفاعی نظام ہڑپہ کے قلعے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
حمام کے فرش کو پانی بند بنانے کے لیے فرش کے نیچے کھڑیا مٹی ( جپسم) کا گارا لگا کر اس کے بغل کے بل اینٹیں کھڑی جوڑی گئی تھیں۔ کھڑی اینٹوں کے درمیان میں کھڑیا مٹی کا گارا لگایا گیا تھا۔ کھڑی اینٹوں کے اس فرش کے اوپر لک کی ایک موٹی تہ بچھائی گئی تھی۔ اس کے اوپر پختہ اینٹیں چن دی گئی تھیں۔ دیواروں میں بھی یہی اصول اپنایا گیا تھا۔ حمام کی اندرونی سمت پختہ اینٹوں کی دیوار۔ اس کے پیچھے آخر میں اینٹوں کی چنائی۔ جنوب مغربی کونے پر پانی کی نکاس کی ایک خوبصورت زاغ بند قد آدم نالی تھی۔
اس حمام کے ارد گرد ایک غلام گردش چلی گئی ہے۔ جس کے تین اطراف میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں اور ایک سمت برآمدہ ہے۔ ایک کمرے میں ایک کنواں ہے۔ جس سے پانی نکال کر مذہبی غلام حمام کو بھرتے ہوں گے۔ شمال میں ایک جانب ترتیب کے ساتھ آٹھ غسل بنائے گئے تھے۔ چار چار غسل خانوں کی دو قطاریں آمنے سامنے تھیں۔ ان کے پختہ فرش تھے اور سائز 9 1/2 * 6 فٹ تھا۔ ان کی دیواریں بہت موٹی تھیں اور کمروں کے اندر سے پختہ اینٹوں کے زینے اوپر جاتے تھے۔ دیواروں کی صخامت اس بات کا ثبوت ہے کہ اوپر ایک منزل اور تھی۔ گویا ان غسل خانوں کے اوپر رہائشی کمرے تھے یا لباس تبدیل کرنے کے کمرے۔ ہو سکتا ہے کہ پچاری اوپر رہتے ہوں گے اور نیچے کے غسل خانے ان کے زیر استعمال ہوں گے۔ جب کہ عوام تالاب میں غسل کرتے ہوں گے۔ ماہرین آثار کا خیال ہے یہ غسل خانے صاحب اقتدار مذہبی پیشواؤں کے قبضے میں تھا اور عوامی سے زیادہ سرکاری اشنان گھر معلوم ہوتا تھا۔
عظیم حمام کے مغرب میں ایک ایسی عمارت ملی ہے جس کا فرش زمین فرش پانچ فٹ اونچا تھا اور اس کے نیچے پختہ دمدمے بنا کر ان کے درمیان میں ہوا کے گزرنے کے رستے بنے ہوئے تھے۔ یہ ہوا دن بھر بل کھا کر دیواروں کے اندر چلے گئے تھے۔ یقینی طور پر یہ گرم حمام تھا۔ جس کے فرش کے نیچے اور ارد گرد کی دیواروں کے اندر بنے ہوا دانوں میں گرم ہوا گھومتی تھی۔ 1950ء میں اس گرم حمام کی پوری عمارت ہٹادی گئی اور اس کے نیچے کھدائی میں ایک بڑا اناج گھر نکل آی۔ اس کا طول بلد شرقاً غرباً 150 فٹ اور عرض شمالاً جنوباً 75 فٹ تھا۔ اس عمارت کے 27 حصے تھے اور اناج گھر کے فرش کے نیچے ہوا گزرنے کے ہوا دان بنائے گئے تھے۔ فرش اور دیگر تعمیرات میں لکڑی کا وافر استعمال کیا گیا تھا۔
اناج گھر اشنان گھر سے قدیم تر عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ اناج گھر کے جنوب میں ایک بہت بڑا زینہ ملا ہے۔ جو 22 فٹ چوڑا ہے۔ یہ زمین سے شروع ہو کر قلعے کی سب سے اونچی سطح تک جاتا ہے۔ یہ زینہ اناج گھر کا ہم عصر ہے۔ زینے کے گھر کے قریب ایک کنواں ہے۔ اس سے آگے چند دیواروں کے اندر بہت سے کنویں ہیں۔
اشنان گھر کے شمال مشرق میں ایک طویل عمارت ہے۔ جو 230 * 78 فٹ ہے۔ اس کے وسط میں 33 مربع فٹ صحن بھی ہے۔ اس میں تین برآمدے کھلتے ہیں۔ چاروں طرف بیرکوں کی طرح سے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ اکثر کمروں کے فرش پختہ اینٹوں کے ہیں۔ اس عمارت کو شاہی محل یا بڑے بچاری کا گھر سمجھنا مشکل ہے۔ کیوں کہ اس کا طرز تعمیر رہائشی مکانوں جیسا نہیں ہے۔ اس لیے کھدائی کرنے والوں نے اسے کالج کا نام دیا تھا۔ جب تک مزید کھدائی سے اس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا کہ یہ عمارت کیا تھی اور اس کا مقصد کیا تھا۔
اشنان گھر اور کالج کے جنوب میں ایک اور اجتماعی مقصد کی عمارت ملی ہے۔ جو بعد میں تبدیل کردی گئی ہے۔ لیکن ابتد میں یہ ایک بہت بڑا مربع شکل کا ہال تھا۔ جس کا ہر مربع 90 فٹ کا تھا۔ اس کے اندر اینٹوں سے بیٹھنے کی نشتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ پورے ہال میں گزرنے کے پانچ رستے ہیں۔ ہر دو رستوں کے درمیان میں نشتوں کی چار قطاریں ہیں۔ ہر قطار میں پانچ نشتیں ہیں۔ یا تو ان کے اوپر لکڑی کی خوبصورت نشتیں لگائی گئی تھیں یا انہی پر ہی سامعین بیٹھے تھے۔ یہ کل ایک سو نشتیں ہیں۔
موہن جو وڑو میں ایک ایسی عمارت ملی ہے۔ جو اگرچہ رہائشی قسم کی ہے مگر بہت بڑی ہے۔ یہ شرقاً غرباً 250 فٹ لمبی ہے۔ یقیناً یہ ایک محل ہے۔ بیرونی دیوار 1/2 3 فٹ سے لے کر 7 فٹ تک موٹی ہے، اس میں دو بڑے صحن ہیں۔ جن کو ایک پانچ فٹ چوڑی غلام گردش آپس میں ملاتی ہے۔ اس کے ایک سرے پر 8 فٹ چوڑا دروازہ ہے۔ گھر کے دو مختلف کمروں میں کنویں تھے۔ ایک کمرے میں ایک گول تنور تھا۔ اس کا قطر تین فٹ آٹھ انچ اور اونچائی 1/2 3 فٹ ہے، اس کی شکل موجودہ تنوروں سے جیسی ہے۔ محل میں چار زینے اوپر جاتے تھے۔
شہر میں ایک اور پبلک بلڈنگ ملی ہے جو یا تو مسافروں کے ٹہرنے کے لیے سرائے تھی یا پھر ترتھ یاتریوں کے ٹہرنے کے یاتری استھان تھی۔ اصل عمارت ایک بہت بڑے ہال پر مشتمل ہے جو انگریزی کے حروف ایلL کی شکل کا ہے۔ اس ہال کی دیواروں کے باہر ارد گرد اینٹوں کے ستون بنے ملے ہیں، جن کے اوپر غالباً برآمدے کی چھت ڈالی گئی تھی۔ جو ہال کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی۔ جنوب مشرقی کونے پر ایک چار فٹ گیارہ انچ چوڑا دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ بعد میں یہ دروازہ بند کرکے شمالی جانب مرکز میں دیوار کاٹ کر ایک دروازہ نکلا گیا تھا۔ اس کے قریب ایک رستہ پانی کے نکاس کا بنایا گیا تھا۔ جو زمین دوز سفالی پائپ سے ملحق تھا۔ ہال کے ایک کونے میں ایک فلیش سسٹم بیت الخلا بنایا گیا تھا۔
ایک اور بڑی عمارت ملی ہے، 87 * 1/2 64 فٹ ہے۔ اس میں کچھ کمرے تو اندر صحن میں کھلتے ہیں جو رہائشی معلوم ہوتے ہیں اور کچھ باہر گلی میں کھلتے ہیں۔ ان کے فرش پختہ اینٹوں کے ہیں اور نہایت عمدگی سے بنائے گئے ہیں۔ باہر کا ایک بہت بڑا کمرہ ایسا ہے جس میں پانچ گول مخروطی گڑھے اینٹوں سے بنائے گئے۔ ان میں کڑاہ یا دوسرے برتن جو دھات کے ہوں گے ٹکائے جاتے ہوں گے۔ یا تو یہ کوئی ریستوان ہوگا یا رنگریز کا کارخانہ۔
ایک اور اجتماعی نوعیت کی عمارت ملی ہے جو 52 * 40 فٹ ہے۔ اس کی دیواریں چار فٹ موٹی ہیں۔ اس کا دروازہ جنوب کی طرف سے ہے۔ جس میں دو متوازی سیڑھیاں اوپر چڑھتی ہیں۔ جو مرکز میں آ کر مل جاتی ہیں۔ دروازہ بہت بڑا ہے۔ اس عمارت کے اندر صحن میں اینٹوں کا ایک دائرہ تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کا اندونی قطر چار فٹ ہے۔ ماہرین آثار کا خیال ہے کہ یہ کسی درخت کے گرد حفاظتی حصار ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ درخت مقدس تھا اور یہ عمارت اس مقدس درخت کا مندر تھی۔ شاید پیپل مندر۔ اس عمارت کے مختلف حصوں میں سفید چونے کے پتھر کے بنے ہوئے ایک بڑے مجسمے کے تین ٹکڑے ملے ہیں۔ ان کو جوڑیں تو مجسمہ مکمل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک بیٹھا ہوا آدمی ہے۔ مجسمے کی مکمل اونچائی 1/2 16انچ ہے۔ اس داڑھی ہے مگر موچھیں منڈی ہوئی ہیں، بال اکٹھے کرکے سر کے پیچھے ان کا جوڑا بنایا ہوا ہے اور ایک باریک مینڈھی گوند کر سر کے ارد گرد باندھی گئی ہے۔ جو آگے ماتھے کے اوپر سے گزرتی ہے۔ اگر مینڈھی نہیں تو کپڑے کی باریک پٹی ہے جو باندھی گئی ہے۔ اس آدمی نے دونوں ہاتھ کولہوں پر رکھے ہوئے ہیں۔ ایک قدر اونچا ہے اور دوسرا نیچا۔ آنکھوں کے اندر غالباً موتی جڑے گئے تھے جو بعد میں گر گئے۔
اس عمارت کی دیواریں موٹی، دروازہ عظیم الشان مگر رقبہ مختصر ہے۔ ہو سکتا ہے صحن میں موجودہ مددر حصار کے اندر یہی مجسمہ رکھا ہو۔ مجسمے کا سر گول حصار کے قریب ہی سے ملا ہے۔ بہر حال کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔
موہنجودڑو میں ایک اور عمارت پر مندر ہونے کا شبہ کیا گیا ہے۔ اس کی بیرونی دیواریں 1/2 چار فٹ موٹی ہے اور آٹھ دس فٹ انچائی محفوظ ملی ہے۔ اس کے اندر کچھ اینٹوں کے چبوترے بنے ہوئے ہیں۔ یہ یا تو ان کے اوپر ستون تعمیر کیے گئے تھے۔ جن پر کوئی زبردست عمارت کھڑی تھی۔ یا پھر ان کا دوسرا کوئی مقصد بھی ہو سکتا ہے۔ عمارت کے وسط میں صحن ہے۔ جو 23 * 19 فٹ سائز کا ہے۔ دو چھوٹے صحن اس بڑے صحن کے شمال اور جنوب میں ہیں۔ جنوبی صحن میں ایک کنواں ہے۔
ایک نہایت دلچسپ عمارت شہر کے شمال مغربی کونے پر ہے۔ اس میں آمنے سامنے دو قطاروں میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔ جن کی تعداد سولہ ہے۔ ان سولہ کمروں میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک اندرونی کمرہ ہے۔ گویا کل چوبیس کمرے ہیں۔ ہر بیرونی کمرے کے مقابلے میں اندرونی کمرے کا رقبہ دگنا ہے۔ سولہ کمروں میں سے ہر ایک میں ایک کونے میں پانی کا کھرا بنایا گیا ہے۔ دیوار میں پانی کی نکاسی کے سوراخ ہیں۔ سر مارٹیمر ویلر اور دوسرے ماہرین کا خیال ہے اندرونی کمرہ بیڈ روم تھ۔ لگتا ہے یہ غلاموں کی بیرکیں تھیں۔ پہلے اس عمارت پر مندر کا شبہ کیا گیا تھا مگر یہ بہت بڑی ہے۔ تو پھر ان بیرکوں کا غلاموں کی رہائش گاہ ہونا اور بھی یقینی ہوجاتا ہے۔ ان بیرکوں دیواریں بہت پتلی ہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے یہ ایک منزلہ تھیں۔ ان کے پاس ایک کنواں ہے۔
شہر کا کچھ حصہ ابھی تک کھودا گیا۔ خاص طور پر بدھ اسٹوپہ جوں کا توں کھڑا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے نیچے کچھ ایسی اہم عمارتیں یا زیادہ اہم مواد مل جائے جو ہمارے علم میں اضافہ کرے۔ بہر حال اس کی کھدائی ضروری ہے۔
قلعہ کے اندر رہائشی گھر بھی ملے ہیں۔ قلعہ، اشنان گھر کالج اور بڑے حال کے پیش نظر رکھیں تو یہ یقین کرنا مشکل نہیں رہتا کہ یہ شہر یا تو مذہبی مرکز تھا یا دار الحکومت یا دونوں۔ اجتماعی غسل کے بعد میں بھی اس علاقے کے لوگوں کا سماجی اور مذہبی زندگی کا رہا ہے۔ ہرشہر میں چند ایسی باولیاں بنی ہوتی تھیں۔ جن میں لوگ مذہبی فریضہ کے طور پر نہاتے۔ باؤلی ایسے کنویں یا تالاب کو کہتے ہیں جس میں زینہ اترتا ہو۔ موہنجودڑو کا عظیم اشنان گھر بھی اپنے وسط میں ایک وسیع عریض باؤلی رکھتا تھا۔
موہن جو وڑو کے قلعے کے مشرقی جانب پہلے تو کافی ساری جگہ خالی ہے۔ جہاں کسی آبادی کے آثار نہیں۔ یہاں غالباً دریائے سندھ کا کوئی شاخ بہتی ہوگی یا نہر بنائی گئی ہوگی۔ اس سے پھر آگے ٹیلے ہیں۔ جن کے نیچے تعمیرات کے آثار ملے ہیں۔ یا تو یہ بھی رہائشی علاقہ تھا اور اگر نہیں تو کم از کم یہاں دریا سے حفاظت کے لیے بڑے بڑے پختہ اینٹوں کے پشتے بنائے گئے تھے اور ان سے سیڑھیاں نیچے دریا کی موجودہ سطح تک اتری چلی جاتی ہوں گی۔
اصل شہر موہن جو وڑو ایک ہی سائز کے مستطیل بلاکوں پر مشتمل تھا۔ ہر بلاک شمالاً جنوباً 1200 فٹ اور شرقاً غرباً 800 فٹ تھا۔ اس کے اندر چھوٹی گلیاں قائمہ زاویہ پر ایک دوسرے کو کاٹتی تھیں۔ اس طرح کے چھ سات بلاک اب تک کھود کر نکالے گئے ہیں۔ اگر کھدائی مکمل کرلی جائے تو شاید ایک میل کا پورا شہر برآمد ہو جائے۔ جس میں بارہ رہائشی بلاک ہوں گے، قلعہ مغربی جانب کا مرکزی بلاک ہوگا۔ بڑی گلیاں تیس فٹ چوڑی ہیں۔ چھوی گلیاں کہیں کہیں سے خمیدہ کردی گئی ہیں تاکہ آندھی کی صورت میں گلیوں میں ہوا کا زور ٹوٹ جائے۔ یہ عموماً پانچ سے دس فٹ چوڑی ہیں۔ گھروں کے دروازے بڑی گلیوں یا گذر گاہوں میں نہیں کھلتے تھے بلکہ بغل بند گلیوں میں کھلتے تھے۔ کھڑکیوں کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ کہیں کہیں کھڑکیاں تھیں تو ان میں پختہ جالیاں لگا کر اس میں سے ہاتھ پاؤں یا سر نکالنے کا راستہ بند کر دیا گیا تھا۔ بالائی طبقات کی عورتیں کسی قسم کے پردے کی پابند ہوں گی۔ گھر کی چادر اور چاردیورای میں مقید رہتی ہوں گی۔
موہن جو وڑو میں ایک گھر مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اس میں دائیں جانب سب سے اوپر کا گھر جس کے اندر پانچ فٹ چوڑی بڑی بغلی گلی میں گھر کا دروزاہ ہے جو ایک ڈیورھی میں کھلتا ہے۔ اس میں دروازے کے عین سامنے ایک چھوٹا سا کمرہ چوکیدار یا نوکر کے لیے ہے۔ دائیں جانب ایک اور دروازہ ہے جو ایک مختصر گلیارے میں کھلتا ہے۔ گلیارے میں دائیں جانب ایک کمرہ ہے جس میں کنواں ہے اور سامنے چند قدم چل کر صحن آجاتا ہے۔ صحن 33 مربع فٹ ہے۔ صحن پہلے کھلا ہوا تھا پھر اس کے کچھ حصے میں چھت ڈال دی گئی۔کنواں والے کمرے میں ایک زاغ بند محرابی راستہ برابر کے کمرے میں کھلتا ہے۔ جو پختہ فرش کا غسل خانہ ہے۔ غسل خانے سے اگلے کمرے کے نیچے سے پختہ مٹی کا پائپ گزرتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ بھی ایسا ہی زمین دوز پائپ بچھایا گیا ہے۔ گھر کی دیواریں موٹی ہیں۔ جس کا مطب ہے دوسری منزل بھی ہوگی۔ پختہ اینٹوں کا زینہ اوپر جاتا ہے۔ گلیارے میں صحن سے داخل ہونے کی بجائے بائیں جانب دروازے میں داخل ہوں تو ایک برآمدہ ہے۔ جو بائیں جانب جاتا ہے۔ پھر دائیں جانب مڑجاتا ہے۔ یہاں ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں طاق بنے ہوئے ہیں۔ غالباً یہاں وہ بت رکھے جاتے ہوں گے جن کی پوجا کی جاتی ہوگی۔ اگر یہ گمان درست ہے تو پھر یہ پوجا انفرادی رنگ رکھتی اور اجتماعی عبادت خانے اس لیے کہیں نہیں ملے۔
بعض گھروں میں کمروں میں کے اندر اینٹوں سے کھڈی بنی ہوئی ہے۔ جس میں سوراخ دار برتن ہے۔ جو خمدار راستے سے زمین دوز نالی سے ملحق ہے۔ یہ فلیش سسٹم لیٹرین ہے۔ خمدار راستے کے باعث برتن میں پانی کھڑا رہتا تھا، مگر بعض گھروں میں سیدھا فلیش ہوجاتا تھا۔ گھر سے گندے پانی کے نکاس کے لیے دیوار میں سوراخ بنایا جاتا تھا اور باہر زمین دوز نالیوں کے ذریعے غلاظت شہر سے باہر چلی جاتی تھی۔
موہن جو وڑو کے مقابلے میں میسوپوٹیمیا میں ار شہر کا نقشہ ہے اس میں سارا شہر ایک بڑی گلی سے پھوٹتا ہے۔ جو ٹیرھی میڑھی گھومتی ہوئی جاتی ہے۔ گلیوں کا بے ترتیب یا گولائی میں ہونا خودرو گاؤں کی خصوصیت۔ جب کہ قائمۃ الزاویہ پر کاٹتی ہوئی ترتیب دار گلیاں منصوبہ سے بنائے ہوئے شہر کی خاصیت ہوتی ہے۔ شہر اور گاؤں کے درمیان میں ایک واضح فرق۔ اس معیار کو پرکھیں تو موہن جو وڑو کا شہر ٹاؤن پلاننگ کے پختہ دور کی پیداوار ہے۔
موہن جو وڑو کے عروج کے زمانے میں گلیاں کچی ہوتی تھیں۔ مگر ان میں پختہ زمین دروز نالیاں ہوا کرتی تھیں۔ ان کی نفاست اور عمدگی اور کمال اس وجہ سے تھا کہ ہم عصر دنیا ان کا دنیا کے کسی خطہ میں جواب نہ تھا۔ مناسب مقامات پر پختہ اینٹوں کے مین ہول تھے۔ جن کو شہر کا عملہ صفائی صاف کرتا رہتا تھا۔ یہ بھی امکان ہے کہ گھروں کی صفائی کرنے والے بھی حکومت سے تنخواہ لیتے تھے۔ یعنی ذاتی غلام نہ تھے۔ مگر آزاد شہریوں کی غلامی پر اجتماعی ملکیت تھی۔ ہر گھر میں ایک کنواں تھا اور گلیوں میں بھی کہیں کہیں کنواں تھا۔ گندے پانی کی نکاس کا زمین دوز انتظام تھا۔ گھر سے جب پانی نکل کر گلی میں آتا تھا تو دیوار کے ساتھ ایک گڑھا یا مدفون برتن یا پختہ اینٹوں کا گٹر بنا ہوتا تھا۔ تاکہ پانی گلی میں بہہ نہ جائے۔ اہم گلیوں کے موڑ پر یا چورستوں پر ایک چھوٹا سا کمرہ ہوتا تھا۔ جو گلی میں کھلتا تھا۔ بظاہر یہ چوکیدار کا ٹھکانہ تھا۔ اسی سے لگتا ہے کہ شہری معملات کے بارے میں سرکاری انتظام بہت مفصل اور سخت گیر تھا۔
دیواروں کا عام طریقہ تعمیر آڑے سیدھے کا تھا۔ یعنی ایک ردے میں سیدھی اینٹیں چنی جاتی تھیں تو دوسری میں آڑی۔ مگر ایک جگہ آرائشی اسلوب بھی اختیار کیا گیا ہے۔ دیواریں صرف اندر سے پلستر کی جاتی تھیں، باہر سے نہیں۔ چھتیوں میں لکڑی کا استعمال یقینی ہے اور باہر بڑھی بھی ہوتی ہوں گی۔ اوپر جھروکے ہوتے ہوں گے۔ جن سے عورتوں کو باہر جھانکنے کی کم ہی اجازت ہوگی۔ تعمیراتی جمالیات ساری لکڑی سے وابستہ تھی یا شاید کوئی رنگ و روغن یا تصویریں ہوتی ہوں گی۔ اینٹوں سے کوئی جمالیاتی کام نہیں لیا گیا۔
اس شہر کے مکانات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ امیر اور غریب کے گھر بھی تھے۔ امیر گھروں سے پہلے صحن ہوتا تھا۔ جس کاراستہ بڑی گلی میں نہیں بلکہ بغلی گلی کھلتا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ایک چوکیدار کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی تھی۔ اس کے بعد صحن تھا اور صحن کے اطراف میں چھوٹے بڑے کمرے ہوتے تھے۔ بعض گھروں میں دو اطراف میں کمرے اور بعضوں میں صرف سامنے کی سمت میں چھوٹے بڑے کمرے ہوتے تھے۔ ایک کمرہ امیر گھر میں غسل خانے کا ہوتا تھا۔ جس کا فرش پختہ اور عمدگی سے بنایا جاتا تھا۔ غلاظت کے اخراج کے لیے ہر گھر میں زمین دوز نالیاں بنی ہوتی تھیں۔ جو باہر گلیوں کی بڑی نالیوں سے جاملتی تھی۔ اس کے علاوہ گھر کے کوڑا کرکٹ کی صفائی کے لیے دیوار میں ایک سوراخ ہوتا تھا۔ جس سے باہر کوڑا پھینکا جاتا تھا اور باہر اس سوراخ کے نیچے اینٹوں کی کچرا پیٹی بنی ہوتی تھی۔ یقینا یہاں سے شہر سرکاری عملہ صفائی اس کچرے کو لے جاتا ہوگا۔ چونکہ یہ ایک دریائی تہذیب تھی۔ اس لیے صفائی کی طرف زیادہ رجحان تھا۔ جہاں پانی وافر ہو وہاں نہانا دھونا اور صفائی کے کاموں میں پانی کے استعمال میں کنجوسی کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ صحرائی تمدن میں ہوتا ہے۔
امیر گھروں میں کنویں تو تھے لیکن نسبتاً غریب گھروں کے لیے پبلک کنویں بھی تھے۔ پبلک کنویں پر پانی پلانے کی سبیلیں بنی ہوتی تھیں۔
یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم تین دفعہ سیلاب آیا۔ جس میں پورا شہر غرق ہو گیا اور پھر بعد میں اس کے اوپر دوبارہ بسایا گیا۔ ہر بار جب نیا شہر بنا تو اس کا فن تعمیر زوال کا شکار ہوا۔ تہذیب اور معیار زندگی اور خوش حالی میں انحطاط پیدا ہوا۔ زوال پر آمادہ شہر کو آخر میں حملہ آوروں نے برباد کر دیا۔ یوری گنگوفسکی کا خیال ہے کہ موہنجودڑو کی آبادی ایک لاکھ سے کم نہ تھی۔
موہن جو وڑو میں پہلی آبادی سے لے کر آخری تک شہر کا نقشہ جوں کا توں وہی رہا۔ مکانوں کا گلی میں کھلنے راستہ اور بغلی گلیاں سب اپنی جگہ بار بار بنتی رہیں۔ اس سے پگٹ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان تمام برسوں میں یا تو ایک ہی خاندان کی حکومت رہی اور اگر خاندان تبدیل بھی ہوا تو بھی قدیم روایات بغیر کسی گڑبڑ کہ من وغن منتقل ہوتی رہی ہیں اور ایسا مذہبی تسلسل کے ذریعے ممکن ہوا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ پیداواری آلات ذرائع اور نظام معیشت میں تبدیلی نہیں ہوتی ہوگی۔ ملکی قوانین مذہبی عقائد کی شکل میں رائج ہوں گے۔ نہ سماج میں واضح ترقی ہوتی ہوگی، نہ عقائد بدلے ہوں گے۔ شہر کے مغربی کنارے پر ایک بڑا قلعہ ہے۔ جو تقریباً مستطیل شکل کا ہے۔جس کا طول شمالاً جنوباً چار سو گز ہے اور عرض شرقاً غرباً دو سو گز ہے۔ قلعہ 30 فٹ اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ اس چبوترے کے گرد پکی اینٹوں کی مظبوط دیوار ہے اور اس کا پیٹ کچی اینٹوں سے بھرا گیا ہے۔ اس قلعے کے اندر بڑے بڑے ہال کمرے ہیں۔ بڑے بڑے دروازے اور چبوترے ہیں۔ قلعے کے باہر شہر کے مکانات ہیں اور غلاموں کے کواٹر ہیں، ان کے پاس گندم پیسنے کے فرش بنے ہیں اور ان کے آگے عظیم اناج گھر ہے۔ بڑی گلیاں زاویہ قائمہ پر مڑتی تھیں اور ان میں سے باقیدہ سیدھی گلیاں اور کوچے نکلتے تھے۔ شہر میں کسی جگہ کھلے میدان، پارک یا باغات نہ تھے۔ گھروں کے اندرنی نقشہ ہر دور میں بدل جاتے تھے لیکن کنواں وہی رہتا تھا۔ اس کے اوپر مزید گول دیوار کھڑی جاتی تھی۔ چنانچہ اب کنواں کھود کر نکالے ہیں تو وہ بیس سے تیس فٹ اونچے کھڑے ہیں۔
موہن جو وڑو میں کل نو رہائشی پرتیں نکالی گئیں۔ ان میں کئی جگہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے لیکن ان متفرق ادوار کی مادی ثقافت میں ذرا فرق نہیں ملتا۔ نہ زبان بدلی ہے نہ رسم الخط۔ ایک ایسی زمین پر جس میں زبان نے متعدد شکلیں اختیار کی ہیں اور رسم الخط بار بار یکسر تبدیل ہوا ہے اس میں ایک ہی رسم الخط کا تسلسل اس کے ٹھہراؤ کا بڑا ثبوت ہے۔
ایک طرف تو ان کے عکاد اور سومیر سے تعلقات تھے۔ دوسری طرف تیرہ سو سال تک انھوں نے عکاد اور سومیر سے بدلتے ہوئے صنعتی طریقوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس مطلب ہے کہ ٹھہراؤ کی وجوہات اندرونی اور بہت مضبوط تھیں اور بیرونی اثرات کمزور تھے۔
معلوم ہوتا ہے اس نظام کا ایک انتہائی ترقی یافتہ افسر شاہی مشنری پر مشتمل مذہبی بادشاہت کا نظام تھا۔ لوگ مذہب کو مانتے تھے اور اس مستعد اور ماہرانہ نظام سے مطمئن تھے یا اسے نوشتہ تقدیر سمجھ کر راضی بہ رضا تھے۔
ریاست غلاموں سے سرکاری سطح پر اجتماعی مشقت لیتی تھی۔ اس میں جو کا چھڑانا اور گندم کا آٹا پیسنا، جنگلات کی دیکھ بھال، لکڑی کاٹنا اور ملک کے طول و عرض میں پہچانا، خشت سازی، سرکاری سطح پر تھوک پیداوار کے حساب سے ہوتی تھی۔ اینٹوں کے بھٹے شہر کے قریب نہیں ملے۔ جس کا مطلب ہے یہ شہر سے بہت دور ہوتے تھے اور ریاستی منصوبہ بندی کے تحت تھے۔ موہنجودڑو کے دورِ زوال میں برتن پکانے کی بھٹیاں شہر کے اندر گھر میں اور گلی میں ملی ہیں۔
بڑی اجناس گندم اور جو تھیں، اس کے علاوہ تل اور مٹر بھی کاشت کیے جاتے تھے۔ کپاس کاشت کا ثبوت موہنجودڑو سے ملا ہے۔ کپاس کے دھاگے سے بنے ایک کپڑے کا ٹکڑا بھی یہیں سے ملا ہے۔ جس پر سرخ اور مجیٹھی رنگ چڑھایا گیا تھا۔ آج بھی سندھی اجرک کے یہ مخصوص رنگ ہیں۔ اس دور کے سامان تجارت کی ایک نہایت اہم شے کپاس تھی۔ چاہے وہ روئی کی شکل میں ہوں، دھاگے کی شکل میں ہو یا کپڑے کی شکل میں۔ میسوپوٹیمیا کو یہاں کی کپاس برآمد کی جاتی تھی۔ بکری وہی نفیس اون والی بکری جس سے شالیں بنتی ہیں۔لہذا وادی سندھ میں اونی لباس کا استعمال خارج امکان نہیں۔
موہنجودڑو کے مال تجارت میں زرعی اشیائ کے علاوہ مویشیوں کا بھی وافر حصہ تھا۔ ہڑپہ سے ملنے والی ہڈیوں کی کثیر تعداد سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ان میں کوہان والا بیل جنہیں سانڈ کہتے ہیں پالتو جانور تھے۔ اس طرح کوہان والا بیل بھی عام تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے پالتوں جانورں میں بھینس، بکری، بھیڑ اور سؤر شامل تھے۔ کتا پالنے اور بلی بھی پالی جاتی تھی۔ گھوڑا اور گدھا بھی اس دور میں پایا جاتا تھا۔
وادی سندھ سے جو چیزیں میسوپوٹیمیا چیزیں جاتی تھیں ان تانبا، ہاتھی دانت، بندر، موتی، شامل تھے۔ ہاتھی دانت کی کنگیاں، بابلی تحریروں کے مطابق ’ ملوہہ ‘ سے منگائی جاتی تھیں۔ ملوہہ کے بارے میں عام رجحان ہے کہ وہ وادی سندھ کا کوئی شہر تھا۔ کوسامبی کا خیال ہے کہ یہ موہن جو وڑو تھا۔ کیوں کہ موہنجودڑو سے ایسی ہی ایک کنگی ملی ہے۔ ان کے علاوہ کپاس، سوتی دھاگہ، سوتی کپڑا اور اجرک بھی برآمد ہوتی تھی۔
ذرائع آمد و رفت میں ایک بہت بڑا ذریعہ تو دریا اور کشتیاں تھیں۔ اس کے علاوہ بیل گاڑیاں اور گھوڑا میدانی علاقوں میں، پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں اونٹ استعمال ہوتا تھا۔ غالباً سب سے بڑا ذریعہ بیل گاڑی تھی۔ جس کے پیہے ٹھوس ہوتے تھے اور اس کا قطر تین فٹ چھ انچ ہوتا تھا۔
اندرون ملک تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ دریائی کشتیاں تھیں یا بیل گاڑیاں۔ تھورا بہت ثبوت اونٹ استعمال کرنے کا ملا ہے۔ موہنجودڑو میں ایک اونٹ کا ڈھانچہ پندرہ فٹ گہرائی میں مدفون ملا ہے۔ گدھے اور خچر کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ البتہ موہن جو وڑو سے ایک گھوڑے کا ڈھانچہ ملا ہے جو اس تہذیب کے زمانہ عروج کے بعد کا ہے۔ ان کے برعکس جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ بیل کی بے شمار تصویریں، مجسمے اور بیل گاڑیوں کے سفالی اور تانبے کے ماڈل ہیں۔ لہذا یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ تجارت کشتیوں اور بیل گاڑیوں پر ہوتی ہوگی۔ اس کے علاوہ سامان ڈھنونے والے مزدور یا غلاموں کا ثبوت شاہراؤں کے قریب بنے چند فٹ اونچے ستون، پتھر کے ڈھیروں اور چھجوں سے دیا جا سکتا ہے۔ جو سر سے گٹھڑی اتارنے کے کام آتے ہوں گے۔
وادی سندھ بنیادی طور پر زرعی ہے۔ دیوی ماں، مْقدس درخت، شجر حیات، لنگم دیوتا، یونی دیوی یہ سب مقامی تصورات ہیں اور زرخیزی اور مذہب تعلق رکھتے ہیں۔ ان سب مذاہب کی بنیاد دیوی ماں پر تھا۔ وادی سندھ کی تہذیب سے کوئی قد آدم یا دیو قامت مجسمے نہیں ملے۔ نہ کہیں چٹانوں پر کندہ عبارتیں ملیں۔ اگرچہ مذہب کی گرفت اجتماعی تھی، مگر عبادات کی ادائیگی انفردی معاملہ تھا۔ اشنان ایک مذہبی عبادات تھی اور مذہبی باولیاں بن چکی تھیں۔ کہنا مشکل ہے کہ موہن جو وڑو کا عظیم حمام دیوی ماں اشنان گھر تھا یا بھینس دیوتا کا۔ لیکن شاندار تعمیر اس کے شاہی ملکیت ہونے کا ثبوت کافی ہے۔ جس کی بنا پر اسے دیوتا کا اشنان گھر سمجھنا زیادہ قرین قیاس ہے۔
بعض مہروں پر مرد دیوتاؤں کی تصویریں بھی ملی ہیں۔ مثلاً ایک مہر پر تین چہروں اور سینگوں والا دیوتا آلتی پالٹی مارے بیٹھا ہے۔ ایک اور مہر پر اس کے ارد گرد چار جانور ہاتھی، شیر، گینڈا اور بھینس ہے۔ دو ہرن اس کے تخت کے پاس بیٹھے ہیں۔ دیوتا ننگا ہے اور آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے۔ اس سر پر سینگ ہے یہ سینگ بھینس کے ہیں۔ سینگوں کے درمیان میں کوئی پودا ہے یا مور کی کلغی ہے۔ اس کا عضو ایسادہ ہے۔ یہ یقیناً ذرخیزی کا دیوتا ہے۔ مارشل کا خیال ہے یہ شیو کی ایک پرانی شکل ہے۔ یہ شیو کی ترمکھی مورتی سے ملتی جلتی ہے۔ یہ دیوتا چہرے پر بھیانک تاثرت رکھتا ہے جو حاکم کے ہو سکتے ہیں۔
موہن جو وڑو سے 1200 سے زائد مہریں ملی ہیں۔ اوسط درجہ کی مہریں اتنی شاندار ہیں کہ دستکاری کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ عموماً مہروں پر جانوروں کی حقیقت پسندانہ شکلیں ہیں۔ کہیں کہیں دیو مالائی شکلیں ہیں۔ مثلاً ایک سنگھا۔ یعنی ایک ایسا گھوڑا جس ماتھے پر سینگ ہے۔
ایک مقبول عام تصویر بیل کی ہے۔ چھوٹے سینگوں والا بیل جس کے آگے کھرلی رکھی ہوئی ہے۔ بڑے سینگوں والا بیل بھی عام ہے۔ جس کی گردن پر گوشت کی چادر سی لٹکی ہوئی ہے۔ ایک سینگ والے گینڈے کی کچھ تصویریں بھی ملتی ہیں۔ یہ جانور اس زمانے میں یہاں موجود تھا۔ شیر خاص کر لکیروں دار شیر ان مہروں میں نظر آتا ہے۔ یہ بھی وادی سندھ کے جنگلوں میں ہوتا تھا۔ ایک مہر پر ایک آدمی درخت پر بیٹھا ہے نیچے شیر کھڑا اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ایک آدھ مہر پر ہاتھی بھی بنایا گیا ہے۔ گھڑیال کی شکل کئی مہروں پر نظر آتی ہے۔ ایک مہر پر تین سینگوں پر والا اک سنگھا ہے۔ سر ہرن کے ہیں اور بدن اک سنگھے کا۔ ایک مہر پر چھ مختلف جانوروں کے سر ہیں۔ جن میں ایک سنگھا، سانڈ، مرگ ( ہرن کی ایک قسم ) اور شیر نظر آ رہے ہیں۔ باقی حصہ ٹوٹا ہوا ہے۔ کسی مہر پر تین سر ہیں کسی پر دو۔ ایک مہر پر پیپل کے درخت میں سے ایک اک سنگھے کے دوسرا اگ رہا ہے۔ بعض مہروں میں انسان جانورں یا بلاؤں سے لڑ رہا ہے یا جانوروں کی خدمت میں ہے۔ ایک جگہ ایک آدمی بھینس پر بھالے سے وار کررہا ہے۔ دو مہروں پر تین سروں والا آدمی بیٹھا ہوا ہے۔ جس کے بازو کندھوں تک چوڑیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
ان مہروں کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب کی سب دستخطی مہروں کی حثیت رکھتی ہیں۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ عہدہ یا اٹھارٹی کے اظہار سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ افسروں کی سرکاری مہریں، ٹھپے یا چانک ہیں۔ تجارتی سامان کی حفاظت کے لیے یہ مہریں گٹھڑیوں یا بوریوں پر ثبت کی جاتی تھیں اور اپنے وقت میں اس مہر ثبت کرنا بھی دنیاوی سے زیادہ مذہبی عمل تھا۔ مہروں پر پیتل کے پتے مذہبی اہمیت کے ساتھ بنائے جاتے تھے۔
( 1 ) موہن جو وڑو سے ملنے والا صابن پتھر سے تراشہ ہوا داڑھی والا پجاری کا مجسمہ جس کا نچلا دھڑ ٹوتا ہوا ہے۔ جو کچھ ملا ہے یہ سات انچ اونچا ہے۔ اس نے اجرک اوڑھ رکھی ہے۔ پگٹ نے اس کو کشیدہ کاری شدہ چادر کہا ہے۔ چادر پر تین پھولوں والے پھول بنائے گئے ہیں اور دائیں بازو پر جو تعویز باندھاگیا ان میں دھات کی غالباً سونے کی پٹریاں جڑی ہوں گی۔ کیوں کہ ان کے کنارے ابھرے ہوئے ہیں اور اندر گہرائی ہے۔ اس طرح آنکھوں اور کانوں میں غالباً سونے کا جڑاؤ کام کیا ہوگا۔ اس طرح دونوں کانوں کے پیچھے سوراخ کیے گئے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً گلے میں سونے کا کالر پہنانے کے لیے کالر کے دونوں سروں کے کنڈے یہاں پھنسائے جاتے ہوں گے۔ اصل مجسمہ نیشنل میوزم آف پاکستان اسلام آباد میں خفیہ محفوظ ہے۔ نمائش کے لیے نقل رکھی گئی ہے۔ [6]
( 2 ) چونے کے پتھر کا 1/2 5 انچ کا مجسمہ جو گھسا پٹا ہے۔
( 3 ) چونے کے پتھر کا سات انچ اونچا سر اس کی مونچھیں منڈی ہوئی ہیں اور مختصر داڑھی بھی ہے بال گنگی کر کے جوڑا بنایا گیا ہے۔ آرائش گیسو میں کمال درجے کی نفاست ہے۔ اسے کھود کر نکالنے نے اسے پورٹیٹ قرار دیا تھا۔ یعنی کسی حقیقی فرد کا مجسمہ ہے۔ اس کی مونچھیں صاف بال ترتیب سے بنے ہوئے ہیں۔ داڑھی مختصر چہرے کے نقوش ملتے جلتے، مجسمہ کی تیکنک ایک جیسی۔ اب ظاہر ہے کہ مجسمہ کسی غریب یا عام آدمی کا بنے سے رہا۔ یہ طبقہ امرائ یا صاحبان اقتدار سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ ان کی وضع قطع ایسی تھی جو مذہبی رنگ و روپ رکھتی تھی۔
( 4 ) چونے کے پتھر کا پونے آٹھ انچ اونچا سر۔ بالوں کا اسلوب جیسا ہے اوپر والے جیسا۔ سر کے پیچھے جوڑا۔ داڑھی نہیں ہے۔
( 5 ) سنگ جراحت کا مجسمہ۔ ایک بیٹھا ہوا شخص۔ اونچائی 1/2 11انچ۔ قمیض نہیں پہنی۔کمر میں دھوتی باندھی ہے۔ جو گھٹنوں سے قدرے نیچے تک پہنی ہے۔ باریک کپڑے کا صافہ بائیں کندھے پر ڈالا ہوا ہے۔ جو دائیں بازو کے نیچے سے ہو کر گزرتا ہے۔ جس کو اس نے بائیں ہاتھ سے پکڑ رکھا ہے۔ مجسمے کا سر ٹوٹا ہوا ہے۔ بناوت غیر معیاری ہے۔
( 6 ) سنگ جراحت کا مجسمہ۔ آلتی پالتی مار کر ایک شخص بیٹھا ہوا ایک شخص اونچائی 1/2 16 انچ ہے۔ دایاں گھٹنہ اٹھا ہوا ہے۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں میں دھرے ہیں۔ اس شخص نے ایک دھوتی سی باندھ رکھی ہے۔ چہرے پر داڑھی ہے۔ مگر دیگر تفصیلات گھس چکی ہیں۔ چہرہ سر سے بڑا ہے۔ یہ خرابی سارے مجسموں میں ہے یا پھر حقیقت ہی ایسی تھی۔ کہ لوگوں کے سر چھوٹے اور چہرے بڑے ہوتے تھے۔ ( 7 ) چونے کے پتھر کے ایک مجسمہ کا ٹکرا جس میں صرف گھٹنے پر ہاتھ رکھا ہوا نظر آرہا ہے۔
( 8 ) چونے کے پتھر کا 1/2 8انچ اونچا مجسمہ۔ ایک آدمی پالتی مار کے بیٹھا ہوا ہے۔ جس نے ہاتھ گھٹنے پر ہاتھ رکھا ہے۔ٹخنوں سے ذرا اوپر پنڈلیوں کے ارد گرد سوراخ کیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کوئی پائل پہنائی گئی تھی بیٹھنے کا انداز 6 نمبر ایک جیسا ہے۔
( 9 ) کسی جانور کا ٹکڑا جو چونے کے پتھر سے بنایا گیا تھا۔ اس ٹکڑے کی اونچائی 1/2 4 انچ ہے۔ یہ غالباً دنبے کا مجسمہ ہے۔
( 10 ) چونے کے پتھر کا آلتی پالتی مارے ایک شخص۔ یہ مجسمہ 1/2 8انچ ہے۔ اس صفائی ستھرائی اور تکمیل نہیں کی گئی اور ابھی کھدرا ہے۔ اس شخص کے ہاتھ بھی گھٹنوں پر ہیں اور اس نے بھی دھوتی پہن رکھی ہے۔ سر کے ارد گر پٹی ہاندھی ہوئی ہے۔ بیٹھنے کا انداز 6 نمبر جیسا ہے۔
( 11 ) چونے کے پتھر کا دس انچ اونچا کسی اساطیری جانور کا مجسمہ۔ اس کا سر کافی ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن پھر بھی دنبے کے سینگ اور ہاتھی کی سونڈ پہچانی جا سکتی۔ باقی سارا بدن دنبے کا ہے۔
ان گیارہ مجسموں کا مجموعی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پانچ مجسموں میں ایک ایسا شخص دیکھایا گیا ہے جو آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے۔ یقینا یہ کوئی گیانی دھیانی ہے جو مذہبی استغراق ) گیان دھیان، مراقبے ( میں ہے۔ ویلر کا خیال ہے یہ دیوتا ہے۔ لیکن یہ زیادہ درست ہے یہ کوئی مذہبی رہنما ہے۔ رشی منی، پیر فقیر۔ کیوں کہ بعد میں بدھ کے مجسمے اسی حالت میں ملتے ہیں۔ دنبے اور ہاتھی کی شکل والا مجسمہ بھی مذہبی ہے۔ کیوں کہ تین شاخوں والا پھول اس میں بار بار بنایا گیا ہے۔ گویا گیارہ میں سے سات مجسمے یقینا مذہبی اہمیت کے ہیں۔ باقی ٹکڑے بہت مختصر ہیں۔
( 1 ) موہنجودڑو کی رقاصہ سرزمین پاکستان کے قدیم کاریگروں کی مہارت کا شہکار ہے۔ یہ مجسمہ آج بھی دنیا بھر میں وادی سندھ کی تہذیب کی علامت بن گیا ہے۔ اس کے پاؤں اور ٹخنے غائب ہیں اور موجودہ حالت میں اس کی اونچائی 2/1 4 انچ ہے۔ یہ مونجودڑو میں ایک گھر میں سطح زمین سے چھ فٹ چار انچ نیچے مدفون ملا تھا۔ یہ ایک کم سن فنکارہ ہے، جو خوشی سے چور، زیوارات میں لدی جام شراب اس کے ہاتھ میں لیے برہنہ رقص کررہی ہے۔ دایاں ہاتھ اس نے کولہے پر رکھا ہے اور بائیں ہاتھ میں غالباً پیالہ پکڑا ہوا ہے۔ بایاں ہاتھ کندھوں تک چوڑیوں میں چھپا ہوا ہے اور دائیں بازو میں اس نے چند گنگن پہنے ہوئے ہیں۔ اس کی شکل بلوچستان کی قدیم آبادیوں سے ملنے والی مٹی کی مورتیوں میں دکھائی گئی عورتوں جیسی ہے۔ کانسی کا یہ اصل مجسمہ نیشنل میوزم آف انڈیا دہلی میں ہے۔ [7][8]
( 2 ) کانسی کا ایک اور چھوٹا سا مجسمہ بھی ہے جو بناوٹ میں معمولی ہے۔
( 3 ) ایک تیسرا مجسمہ ہے جس میں پاؤں نظر آ رہے ہیں۔ جنھوں نے پائل پہن رکھی ہے۔ اس کی بناوٹ عمدہ ہے۔ ہم قیاس کرنے میں بجانب ہیں کہ موہنجودڑو کی رقاصہ نے بھی پائل پہن رکھی ہوگی۔
( 4 ) تین بیل گاڑیاں بھی ملی ہیں۔ ایک کے پہیے ہیں جو ٹھوس ہیں۔ دوسرا پہیوں کے بغیر مگر زیادہ نفیس ہے۔
( 5 ) جہاں کانسی کے دو بیل ملے ہیں۔ جو بڑی سہولت کے ساتھ ان تانگوں میں لگ سکتے ہیں۔ دونوں بیلوں اور تانگوں کے نیچے کانسی کے چھلے لگائے گئے ہیں۔ جن میں سے پہیا گزارنے کے لیے ڈنڈیاں گزاری جاتی ہوں گی۔ یہ چھلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان بیلوں کا تعلق ایسے ہی تانگوں سے ہے۔ یہ پردہ دار تانگے سامان کے لیے نہیں انسانوں کے سفر کی گاڑیاں ہوں گی۔
مٹی کی بہت ساری مورتیاں ملی ہیں۔ جن میں انسانی مورتیاں بھی ہیں اور حیوانی مورتیاں بھی۔ ان پر عموماً سرخ رنگ چڑھایا گیا ہے اور بعض پر پالش کی گئی ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔
( 1 ) ایک مرد کی مورتی جس کی داڑھی موچھیں صاف ہیں۔ اس کی ناک لمبی، آنکھیں بڑی اور ابھری ہوئی اور ٹھوڑی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ویلر کا خیال ہے کہ یہ سامی النسل مرد کی شکل ہے لیکن یہ مقامی کلی مورتیوں جیسی ہے۔
( 2 ) ایک عورت کی مورت جس نے بال سنوانے کے بعد سر پر تاج پہن رکھا ہے اور ایک مختصر سی دھوتی جو جانگیے سے زیادہ لمبی نہیں ہے پہن رکھی ہے اور گھٹنوں سے کافی اوپر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے نقوش، وضع قطع اور لباس والی مورتیاں اکثر مل جاتی ہیں۔ یہ نمائندہ مورتی ہے اور دیوی ماں بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے سر پر جو تاج ہے اسے چراغ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو، کیوں کہ اس میں دونوں طرف پیالہ نما بناوٹ ہے۔
( 3 ) مٹی کی بہت سی مورتیاں مضحکہ خیز ہیں اور مذہبی مجسموں سے زیادہ کھلونے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا چہرہ تفصیلات سے خالی ہے اور نہایت مضحکہ خیز ہیں۔ اس میں مقامی نقوش کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
( 4 ) دیوی ماں کی مورتیاں۔ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان مورتیوں میں ایک ایسی عورت کی شبیہ ہے۔ جس نے ہار اور گلوبند پہن رکھے ہیں۔ گلے میں یکے بعد دیگر کئی گلوبند ہیں۔ ہار ناف تک پہنچتے ہیں اور سر پر تاج ہے۔ ان مورتیوں کے نقوش وہی ہیں، جو دیگر مورتیوں کے اور وہی مقامی رنگ ہے جو قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔
( 5 ) کافی ساری زنانہ مورتیاں کو گھریلو کام و کاج کرتے دیکھایا گیا ہے۔ مثلاً آٹا گوندھتی ہوئی عورت۔
( 6 ) حیوانی مورتیوں میں زیادہ تر چھوٹے سینگوں والے بیلوں کی مورتیاں ہیں، بھینس بھی ہے اور گائے مفقود ہے۔ اس کے علاوہ بندر، ہاتھی، سؤر، گینڈا، اکا دکا بھیڑ اور کتا بھی مورتی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ موہنجودڑو سے گھوڑے کا مجسمہ بھی ملا ہے۔ جانوروں کے دیومالائی مجسمے بھی ملے ہیں مثلاً چہرہ داڑھی والے مرد کا اور بدن کسی جانور کا۔ اس کے سینگ بھی بنائے گئے ہیں۔ یہ تمام مجسمے ہاتھ کے بنائے گئے ہیں اور ان کے لیے سانچے کا استعمال کم نظر آتا ہے۔ ان میں بیشتر مجسمے سادہ اور مہارت سے خالی ہیں۔ ان میں ایک پر بکری کا شبہ ہوتا ہے، لیکن جن میں مہارت نظر آتی ہے وہ انتہائی درجہ کی ہے۔ مثلاً بھینس اور گائے کے مجسمے میں مہارت کمال کی ہے۔
( 7 ) مٹی کی بنی بیل گاڑیاں، ان کے پہیے ٹھوس ہیں۔ ان کے پہیے جیسا کے پہلے ٹھوس لکڑی کے ہوتے تھے۔ یہ سب کھلونے ہیں۔ ان میں سے بعض کے سر علاحدہ بنا کر جوڑے گئے ہیں جو ایک دھاگے کے ذریعے بیل گاڑی کے لیور سے بنائے جاتے تھے اور کھلونے کو ایک دھاگے سے باندھ کر بچے کھینچتے ہوں گے تو لیور کے زمین کے ٹکرانے سر ہلتا ہوگا۔
موہنجودڑو کے مٹی کے برتن عموماً چاک پر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس تہذیب کے سارے عرصے میں ہمیشہ ایک قلیل تعداد برتنوں کی ہاتھ سے بنتی رہی ہے۔ ان میں ایک نمایاں برتن وہ رکابی جو اونچے پائیدان پر جڑی گئی ہے۔ اسے عموماً اسے چڑھاوے کا پائدان کہا گیا ہے۔ منقوش برتنوں میں سرخ زمین پر سیاہ نقاشی کی گئی ہے۔
ان پر جو سجاوٹی نمونے بنے ہیں۔ ان میں ایک تو دائرے کا کاٹتا ہوا دائرہ ہے۔ جس کی تکرار سے ایک جال سا بن جاتا ہے۔ ۔ دوسرے جانوروں کی تصویریں۔ بعض برتنوں پر مور کی شکل ہے، جو برتن کے اوپر کے حصے میں نظر ہوتی ہے۔ اس سے مور کی تعظیم کا احساس ہوتا ہے۔ بکری کی شکلیں بہت کم ہیں۔ مچھلی کی شکلیں بھی برتنوں پر نظر آتی ہیں۔ انسانی شکل کم ہی نظر آتی ہیں۔ ایک جگہ ہرنی اپنے بچے کو دودھ پلارہی ہے۔ ہرنی کی کمر پر ایک پرندہ بیٹھا ہے اور پس منظر میں ایک مچھلی، نرسل کے کچھ پودے اور دوسری چیزیں نظر آرہی ہیں۔ پیپل کا بھی ملتا ہے اور تین پتیوں والا گلاب کا پھول بھی۔ ایک برتن کے ایک ٹکڑے پر ایک آدمی اور اس کا بچہ ہے، دونوں نے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں اور ان کے ساتھ پرندے اور مچھلیاں ہیں۔ ایک اور جگہ ایک آدمی نے مچھلیاں پکڑنے کے دو جال ایک لاٹھی پر لکائے ہوئے ہیں اور لاٹھی کندھوں پر لاد رکھی ہے۔ قریب ہی ایک دوسرا آدمی ہے۔ درمیان میں مچھلیاں اور ایک کچھوا نظر آرہا ہے۔
کچھ برتن ایسے بھی ہیں جن پر کثیر رنگی مصوری کی گئی ہے۔ پہلے برتن پر زرد پانی چڑھایا گیا، پھر اس پر سبز اور سرخ رنگ میں تصویریں بنائی گئیں ہیں۔ کہیں زرد زمین پر کالے، سفید اور سرخ رنگ میں پرندے اور جانور بنائے گئے ہیں۔ ان تمام برتنوں کے بنانے رنگنے اور مصور کرنے کی تیکنک نہایت پیچیدہ اور ماہرانہ ہے اور اکثر برتنوں پر روغنی تہ چڑھائی گئی ہے۔ بعض برتنوں پر ایسی مہر کندہ کی گئی جو یا تو کارخانے کا نام ہیں یا تو یہ برتن کے مالک کا نام بھی ہو سکتا ہے جس کے حکم سے یہ برتن بنائے گئے ہیں۔ یہ آبخورے ہیں اور ان کا پیندا ہے۔ یہ پیندے پرکھڑے نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ملے ہیں کہ شاید ایک دفعہ استعمال کرکے پھینک دیے جاتے ہوں گے۔ ہڑپہ سے دس برتن ایسی مہروں والے ملے ہیں۔
ایک عجیب و غریب برتن عمودی کناروں والا گول کم چوڑا مگر بہت لمبا برتن تھا۔ جس کا سارا بدن سوراخوں سے چھلنی ہے یہ یا تو دودھ دہی مکھن نکال نے کے سلسلے میں یا پھلوں کا رس نکالنے کے کام آتا ہوگا یا مذہبی آگ جلانے خاص کر لکڑیوں کو سلگتے رکھنے کے کام آ سکتا تھا۔ ایک دو جگہ راکھ کے پاس ملا ہے۔
کچھ مرتبان، پائدان والے پیالے، پائدان والی طشتریاں اور ڈھکن دار روٹی دان بھی ملا ہے۔ آخری دنوں میں یہی برتن طشتری نما سے پیالہ نما بن جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ان برتنوں کی اور ان پر بنی سجاوٹی تبدیلی آجاتی ہے۔
وادی سندھ میں منکے اور ہیت میں کثیر النوع ہیں۔ سونے، چاندی، تانبے کانسی، روغنی مٹی، صابن پتھر، قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں اور گھونگے سیپی اور مٹی سب چیزوں سے منکے بنائے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ منکے پتھر کے بنے ہوئے ملے۔ ٹھوس پتھر سے تراشنے کے علاوہ صابن پتھر کو پیس کر اس کے سفوف کو پانی میں گوند کر بھی بنائے جاتے تھے۔ منکوں کو بنانے کے طریقے بھی بہت سے تھے۔ چیرنے، تراشنے، رگڑنے، ، چھیدنے، برمانے اور کاٹنے کے سب طریقے برتے جاتے تھے۔ پتھر کو پہلے چیر کر لمبی لمبی سلاخیں بنالیں جاتی تھیں۔ پھر ان کو کاٹ کر ٹکڑے کیے جاتے تھے۔ پھر ان کو اندر سے برمایا جاتا تھا اور باہر سے رگڑا جاتا تھا۔ برما پتھر کا ہوتا تھا اور برمانے میں پانی بھی استعمال ہوتا تھا۔ سونے، چاندی اور قیمتی پتھر کے منکے سے تو بیگمات کے زیورات بنتے ہوں گے لیکن مٹی کے منکے جوگیوں کا پہناوا رہے ہوں گے۔ کچھ منکے نقلی سونے بھی ملے ہیں۔ جن میں تانبے کے منکوں پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔بعض منکے قتلے دار بھی ملے ہیں۔ بعد کے زمانے میں ڈھولک نما بھی ہو گئے یعنی لمبوترے منکے جو گول ہیں اور ان کے درمیان میں ابھار ہے۔ ان پر تین پتیوں دار پھول بھی بنا ہے۔ بعض منکوں پر سرخ اور سیاہ رنگ بھی کیا ہوا ہے۔ ان کو الکلی، تیزاب اور دوسرے کیمیاوی مادوں سے رنگا جاتا تھا۔
امیر عورتیں بکثرت زیور استعمال کرتی تھیں۔ جس میں سونے، چاندی اور نیم قیمتی پتھروں سے بنے ہار، گلوبند اور بازوں بند شامل تھے۔ ان کے علاوہ سونے کے تعویز جن میں سفید لئی جڑ کر پھول بنائے جاتے تھے۔ سادہ سونے کے کنگن اور بازو بند ہوتے تھے۔ جن پر سونے کا کام ہوتا تھا۔ گول منکے اور سفید مخروطی جو کانوں میں پہنے جاتے تھے۔ طرح طرح کے گلوبند اور ہاروں کے علاوہ کمر بند ہوتے تھے۔ کمر بند لباس کے اوپر باندھا جاتا تھا۔ قیمتی پتھروں میں سنگ یشب کا استعمال عام تھا۔ لاجور بھی کسی قدر استعمال ہوتا تھا۔ سرخ عقیق سے منکے بنائے جاتے تھے۔ جن پر باریک نقش کھود کر ان میں سفید رنگ بھرا جاتا تھا۔ یوں تو سرخ منکے پر سفید پھول بنائے جاتے تھے۔
منکوں کے علاوہ کانوں کی بالیاں اور ناک کے لونگ بھی بنتے ہوں گے۔ تانبے کے آئینہ ہوتے تھے جن کو پکڑنے کا دستہ ہوتا تھا۔ آنکھوں میں سرمہ لگایا جاتا تھا۔ سرمہ دانی، سرمہ لگانے کی سلائی اور سرمہ دانی میسر تھا۔ تانبے کے استرے سے ہی بال مونڈے جاتے تھے۔
مٹی کی کئی ننھی منی چیزیں بنائی جاتی تھیں۔ جن میں مٹی سیٹیاں جو پرندوں خاص کر مرغیوں کی شکل کی ہیں۔ اس کے علاوہ مٹی کے گول جھنجنے جن میں مٹی کی باریک گولیاں ڈالی جاتی تھیں۔ مٹی کے بنے ہوئے گول اور چوکور پانسے۔ مٹی کے جھانوے، مٹی کے ننھے پنجرے جن میں جھینگر رکھے جاتے ہوں گے اور مٹی کے چوہے دان بھی ملے ہیں۔ اس طرح کے ننھے منے برتن بھی ہیں، مٹی کی چوڑیاں، گنگن، انگوٹھی اور بٹن وغیرہ ہیں جن پر روغن چڑھایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بازو بند، کھیل کے مہرے اور ننھی منی بے شمار چیزیں بنائی جاتی تھیں۔ بعض جگہ سے نہایت تنگ منہ والی چھوٹی سرمہ دانیاں بھی ملیں ہیں۔ کانسی اور تانبے سرمچو بھی ملے ہیں۔جو ساڑھے چار انچ سے پانچ انچ تک لمبے ہیں۔ تانبے کے پیالے، پیالیاں اور تھالیاں عام تھیں۔
پختہ مٹی کی بہت سی کھلونا گڑیاں اور دوسرے کھلونے ملے ہیں۔ مٹی کے بنے رتھ اور چھکڑے ہیں۔ مٹی کی بنی پرندوں کی شکل کی سیٹیاں ہیں جو آج بھی پھونک ماریں تو بجتی ہیں۔ دو اینٹوں پر ایسے پانسے بنے ہیں جن سے پانسا پھینک کر کھلینے والا کوئی کھیل کھیلا جاتا ہوگا۔ پانسوں جو نشانات لگے ہیں ان کا طریقہ موجودہ طریقہ کار سے مختلف ہے۔ موجودہ پانسے پر کوئی سی دو مخالف سمتوں کا مجموعہ سات بنتا ہے۔ یعنی ایک کے مخالف چھ ہیں، دو کے مخالف پانچ، تین کے مخالف چار اور پانچ کے مخالف چھ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ لوگ ان کھیلوں پر جوا کھیلتے تھے یا نہیں۔
لباس تو کوئی نہیں ملا ہے نہ مورتیوں سے ہی لباس کی تفصیلات پر روشنی پڑتی ہے۔ صرف اتنا لگتا ہے کہ مرد چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھتے تھے۔ کچھ لوگ مونچھیں منڈاتے تھے اور مرد کشیدہ چادریں اوڑھتے تھے یا چوغہ پہنتے تھے۔ جس میں دایاں بازو ننگا رہتا تھا۔ عورتیں مختصر دھوتی یا تہمد باندھتی تھیں۔ امیر عورتیں اس کے اوپر کمر بند باندھتی تھیں۔ جو چوڑی پٹی کا ہوتا تھا۔
موہنجودڑو میں وزن اور پیمائش کا ایک صحت کے ساتھ طے شدہ نظام تھا، جو علاقے کے طول و عرض میں رائج تھا۔باٹ مختلف اقسام کے پتھروں سے تراشے جاتے تھے۔ جن میں ناقص عقیق، چونا پتھر، سلپہ پتھر، سفید عقیق، ورقی پتھر اور سنگ سیاہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے بعض سوراخ دار ہوتے تھے اور بہت سارے چھوٹے بڑے باٹوں کا ایک سیٹ تار میں پرویا ہوتا تھا۔ نہایت چھوٹے باٹ بھی تھے۔ جو سناروں کے کام آتے تھے۔
عموماً ترازو کی ڈنڈی اور دونوں پلڑے لکڑے ہوتے تھے۔ جو دھاگے سے بندھے ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے ترازو کی زیادہ باقیات نہیں ملیں۔ بعض صورتوں میں ڈنڈی تانبے اور اس کے علاوہ پختہ مٹی کے بنے ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ نمونے محفوظ ملے ہیں۔
موہن جو وڑو کے معیاری اوزان کا نظام قدیم دنیا کے کسی دوسرے نظام سے نہیں ملتا جلتا ہے۔ ان اوزان کا اندرونی تناسب اس طرح ہے۔
1 ، 2 ، 4 ، 8 ، 16 ، 32 ، 64 ، 160 ، 200 ، 320 ، 640
ان میں وہ وزن جس کو 16 کہا گیا ہے بنیادی اکائی کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کا وزن 13.64 گرام تھا۔ موجودہ تولہ 66ء11 گرام کا ہے۔ اسے ہم پکا تولہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بنیادی وزن یعنی پکا تولہ جب اوپر کو جاتا تھا تو اعشاری ترتیب سے بڑھتا تھا۔ جب نیچے جاتا تھا تو 2 سے تقسیم ہوتے ہوئے چلتا تھا۔ سولہ کا یہ نظام پاکستان میں اعشاوی نظام سے پہلے رائج تھا۔
اوزان کی طرح نہایت پیمائش کا ایک صحت کے ساتھ طے شدہ نظام تھا۔ موہنجودڑو سے گھونگے سے بنایا گیا ایک پیمانہ ملا ہے جو ذرا سا ٹوٹا ہوا ہے۔ اس پر برابری کے نشانات لگے ہیں۔ ہر حصہ11.32 انچ یا 33 سینٹی میٹر کے برابر ہے۔
موہن جو وڑو سے ملنے والا گھونگے کا پیمانہ جو بنیادی اکائی 11.32 کے برابر دیکھاتا ہے۔ اس میں ہر اکائی کے بعد ایک دائرے کا نشان بنایا گیا ہے۔ اس بنیادی اکائی کی ضمنی تقسیم بھی کی گئی ہے۔ جو پانچ حصوں (سوتروں ) میں ہے۔ ہر حصے کو الگ کرنے کے لیے کھڑی لکیر لگائی گئی ہے۔ اس طرح پانچ سوتر کی پور اور دس پور کا ایک پاؤں ہوتا ہوگا۔ مختلف عمارتوں کی پیمائش کرکے رکھا گیا تو اس میں دو پیمائش نظر آئیں۔ ایک کے مطابق بیس انچ کا ہاتھ ہوتا ملتا ہے ) 20.03 انچ سے لے کر 20.08 انچ تک ( دوسری پیمائش کے مطابق اس کی صحیح پیمائش 13 انچ سے لے کر 13.2 انچ تک۔ تمام عمارتوں کی لمبائی چوڑائی سختی سے دو میں سے کسی ایک پیمانے پر اترتی ہے۔ مثلاً اشنان گھر کا تلاب اسی پاؤں کے حساب سے 36 * 21 پاؤں ہے۔ جب کہ یہ پاؤں 13.1 انچ کا ہے۔
کچھ بھی ہو ان اوزان پیمائش کی تفصیل اور صحت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں جیومیٹری کا علم کافی ترقی کرچکا تھا اور اس کی تعلیم کا کوئی نہ کوئی سلسلہ تھا۔
وادی سندھ کے بہت سے سربستہ رازوں میں سے سب سے دلچسپ راز وادی سندھ کا رسم الخط ہے۔اسے پڑھنے کوششیں دنیا بھر کے ماہرین نے کی ہیں۔لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ وادی سندھ کی کل تحریریں 5000 سے بھی زائد ہیں۔ جو مختلف مہروں، ٹکیوں اور برتنوں پر ثبت ہیں۔ ان میں سے بعض عبارتیں دہرائی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے کل عبارتیں 1500 سو ہیں۔ ان عبارتوں میں بنیادی علامات 396 سو ہیں۔ جو اپنے زمانے کے اعتبار سے خاصی مختصر ہیں اور زبان کے ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔اس رسم الخط کو پڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ دستیاب عبارتیں نہایت مختصر ہیں۔ کوئی سی تحریر ایک آدھ جملے سے زیادہ نہیں۔ سب سے طویل عبارت میں صرف سترہ علامتیں یا شکلیں ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شاید بعض افراد کے نام ہیں یا قبیلوں کے نام یا خطابات یا کسی تجارتی ادارے یا مذہب ( مندر ) یا تجارت کے نام ہیں۔
وادی سندھ کے لوگ کون تھے۔ وادی سندھ کے طول و عرض میں کون سی نسل یا نسلیں آباد تھیں۔ اس بارے میں پرانا تصور ہے کہ یہ لوگ دراوڑ تھے، مغربی ایشیائ سے آئے تھے اور تہذیب سندھ کے زوال کے ساتھ ہی جنوب و مشرق کی طرف چلے گئے۔لیکن موجودہ نظریہ اس سے مختلف ہے۔ اس میں اختلاف ان کی نسلی ساخت کے بارے میں ہے۔ دراوڑ کہلانے کے بارے میں نہیں۔ ان لوگوں کی نسل جاننے کے بارے میں دو بڑے ماخذ ہیں۔
( 1 ) پتھر اور کانسی کے انسانی مجسمے
( 2 ) موہنجودڑو سے پچاس ڈھانچے اس دور کے ملے ہیں۔
موہنجودڑو میں باقیدہ قبریں نہیں ملی ہیں۔ پانچ جگہوں پر لاشیں یکجا ملی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ سب لوگ قتل ہوئے ہیں اور لاشیں اپنی جگہ پڑی پڑی مرود ایام سے دفن ہوگئیں۔ سر مارٹیمر ویلر کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے باقاعدہ قبرستان شہر کے مضافات میں کہیں ہوگا۔ جسے اب تک کھودا نہیں گیا۔ لیکن جو ڈھانچے اب تک ملے ہیں وہ آخری قتل عام کے مقتولین لگتے ہیں۔ ان میں سے تین کاکیشائی (پروٹو آسٹریلائڈ) ہیں۔ ان کے قد چھوٹے، سر لمبوترے اور ناک چوڑی تھی۔ ان کا نچلا جبڑا قدرے آگے کو بڑھا ہوا تھا۔ ان کے علاوہ چھ ڈھانچے رومی یا ہند یورپی یا خضری یا کیپسیئن نسل کے ہیں۔ ( جو ایک ہی نسل کے متفرق نام ہیں ) ان کے سر لمبوترے، مگر زیادہ نہیں، ناک لمبائی میں کم، تنگ اور اونچی تھی۔ ان کے نقوش تیکھے اور نفیس تھے۔ ان میں ایک مرد کا قد پانچ فٹ ساڑھے چار انچ۔ ایک عورت کا قد 4 فٹ 6 انچ ہے اور ایک دوسری عورت کا قد 4 فٹ 1/2 4انچ ہے۔چار ڈھانچے غالباً الپائن نسل کے ہیں اور ایک ڈھانچہ الپائن نسل کی منگولیائی شاخ کا تھا۔ یہ واحد مرد یا تو کوئی مسافر تھا یا پردیسی۔
اگرچہ وادی سندھ کی تہذیب تجارت و صنعت سے وابستہ متوسط طبقے کو ثابت کرتی ہے۔ لیکن سندھ سلطنت کی بنیادی معیشت لازماً زرعی تھی۔ بڑی اجناس گندم اور جوار تھیں۔ گندم پتھر کے کھرل میں پتھر ہی کے موصل سے پیسی جاتی تھی اور جو لکڑی کی اوکھلی میں لکڑی ہی کے موصل سے جھڑے جاتے تھے۔ مٹر، خربوزے اور تل بھی ہوتے تھے۔ موہنجودڑو میں کچھ پتھر کی کجھوریں اور پتھراہی گھٹلیاں ملی ہیں، برتنوں پر بنے درختوں میں کھجور کا درخت، ناریل کا پھل، انار اور کیلا بھی دکھائی دیتا ہے۔ موہنجودڑو سے تانبے اور چاندی کی اشیائ کے ساتھ سوتی کپڑے کا ٹکڑا بھی ملا ہے۔ موہنجودڑو سے پٹ سن کا ریشہ بھی ملا ہے۔ لہذا پٹ سن کی رسیاں اور بوریاں عام استعمال ہوتی تھیں۔ ایک جگہ مچھلی پکڑنے کا کانٹا اور اس کے ساتھ پٹ سن کا ریشہ لپٹا ہوا تھا۔
کتے، بیل، گائے اور بھینس عام پالے جاتے تھے۔ بعض جگہوں پر سؤر کی ہڈیاں ملی بھی ہیں۔ گھوڑے بھی تھے۔ گدھے اور خچر کو بھی شامل سمجھنا چاہیے۔ بلی یقینا پالی جاتی ہوگی۔ کیوں کے اناج کے وسیع ذخیروں کو چوہوں سے بچانا ضروری تھا۔ دوسرے جانوروں یا پرندوں کے وجود کے جو ثبوت ملے ہیں۔ ان میں خرگوش، بندر، فاختہ، طوطے، وغیرہ شامل ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مٹی کے پنجرے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھنکارنے والے جھینگر اوردوسرے موسیقار کیڑے پالے جاتے تھے۔ جیسا کہ چین میں رواج تھا۔ جنگلی جانوروں میں سانڈ ( بائی سن ) گینڈے، شیر، سانبھر ہرن، چتکبرا ہرن، پاڑا ہرن وغیرہ عام تھے۔
موہنجودڑو کی کھدائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر بتدریح زوال پزیر ہوا۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار جب نئی تعمیرات ہوئیں تو ان کا معیار پہلے سے بہت پست تھا۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دار الحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہو گیا۔
اس غربت کی وجہ کھیتوں کی ذرخیزی میں کمی یا آبپاشی کے نظام کا آہستہ آہستہ ناکارہ ہوجانا تھا یا اینٹوں اور برتنوں کے بھٹیوں میں جلانے کے جنگلات کو کاٹ کاٹ کر ختم کردینا سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بارشیں کم ہوئیں اور خشک سالی ہو گئی۔ لیکن موہنجودڑو کی کھدائی شدہ سطحوں میں کم از کم تین سیلابوں کا ثبوت ملا ہے۔ جس سے شہر بالکل تباہ ہو گیا۔ ہو سکتا ہے ایسی تباہی نچلے حصہ میں بھی آئی ہو۔ ان سیلابوں نے جو مٹی بجھائی ہے اس کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مٹی ٹہرے ہوئے پانی کی ہے، بہتے ہوئے پانی کی نہیں۔ جس کا مطلب ہے دریا کے نچلے حصے کی زمین ارضیاتی تبدیلوں سے اوپر اٹھی دریا نے واپس حملہ کیا اور شہر غرق ہو گیا۔
یہ طے شدہ ہے کہ بار بار کے سیلابوں نے تباہی مچائی اور یہ ایک عنصر تھا۔ لیکن تہذیب کی حتمی تباہی کسی عظیم طوفان نوح کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ بار بار کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں بتدریج تھی۔ کچھ شواہد حملے اور قتل عام کے بھی ملتے ہیں۔ چھ جگہوں سے لاشیں ملی ہیں۔ جن میں پانچ جگہوں پر متعدد آدمی یکجا مرے اور ایک جگہ ایک اکیلا آدمی ملا ہے۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے :
ایک عوامی کنواں ایک کمرے میں واقع ہے۔ برابر کی گلی سے اونچی ہے اور گلی میں سے سیڑھیاں اس کنویں کے کمرے میں اترتی ہیں۔ ان سیڑھیوں پر دو آدمی مرے پڑے ہیں۔ ایک عورت اور ایک ان میں سے ایک الٹا گرا ہے۔ دو لاشیں گلی میں پڑی ہیں۔ یہ شہر کے آخر زمانے کے لوگ تھے۔ ایک لاش کمرے کے پختہ فرش پر پڑی تھی دوسری پختہ کمرے میں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کنواں اس وقت زیر استعمال تھا اور اسی وقت یہ لوگ مر کر گرے ہیں۔ ان کے ڈھانچے مدفون حالت میں نہیں پائے گئے ہیں۔
ایک گھر میں چودہ ڈھانچے ملے ہیں تیرہ مرد ایک عورت اور ایک بچہ۔ ان میں سے کسی نے گنگن پہن رکھے تھے، کسی نے انگوٹھیاں اور کسی نے منکوں کے ہار۔ یہ لوگ یقینا ایک ہی حملے میں قتل ہوئے ہیں۔ ایک آدمی کی کھوپڑی میں 1146 ملی میٹر لمبا کٹاؤ ہے۔ جو یقینا تلوار یا خنجر کا زخم ہے۔ بعض دوسری کھوپڑیوں پر تشدد کے آثار ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے یہ لاشیں شہر کی آخری تباہی کے وقت کی ہیں۔
ڈاکٹر جارج ایف ڈیلز میں 1942ء میں موہن جو وڑو کی کھدائی میں پانچ ڈھانچے ڈھونڈے جو چاروں شانے چت پڑے تھے۔ یہ گلی کے ایک کونے سے ملے ہیں۔ سر مارٹیمر ویلر کا خیال ہے شاید یہ لوگ حملے کے وقت چھپے ہوئے کھڑے تھے۔ ان میں تین مرد، ایک عورت اور ایک بچہ ہے۔ ان کا زمانے بھی موہنجودڑو کا آخری زمانہ تھا۔
ایک گلی میں چھ ڈھانچے ان میں ایک بچہ ملا ہے۔ ایک گلی میں ایک ڈھانچہ ملا ہے۔
ایک جگہ نو ڈھانچے ملے ہیں جو مڑے تڑے تھے۔ ایسا لگتا ہے کسی نے جلدی میں نو لاشیں گڑھے میں ڈال دی ہیں۔ مگر ان کے پاس ہاتھی کے دو بڑے دانت ملے ہیں۔ اس کا مطب ہے یہ ہاتھی کے دانت کا کام کرنے والا کنبہ تھا۔ جو جلدی میں بھاگ رہا تھا کہ قتل ہو گیا اور کسی نے انھیں گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔ یہ واحد شعوری طور پر دفن کیے گئے ہیں۔ یہ بھی شہر کا آخری زمانہ ہے۔کل اڑتیس لاشیں اس افراتفری کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر میں قتل عام ہوا تھا۔ قلعہ لاشوں سے پاک ہے۔
سر مارٹیمر ویلر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ دوسری ہزاروی قبل مسیح میں بلکہ اس کے وسط میں یعنی 1500 قبل مسیح میں آریاؤں نے حملہ کرکے اس شہر کو تاراج کیا ہوگا۔
جب موہن جو وڑو بتدریج زوال پزیر ہوا۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار نئے لوگوں کا معیار پہلے سے بہت پست تھا۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دار الحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہو گیا اس غلاموں کی بغاوت کا لامتناہی سلسلہ وہ بنیادی سبب ہے جس نے سندھ تہذیب اور سندھ سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا۔ متفرق شہروں کے بار بار جلنے اور اس کے بعد کمتر دستکاری کے مروج ہونے کے بہت سے ثبوت آثار قدیمہ نے فراہم کیے۔ یہ کمتر دستکار دیہی کمی تھے جو سماج کی پست ترین سیڑھی پر تھے۔ یہ کوئی باہر سے آنے والی فاتح اقوام کے افراد نہیں تھے۔ مقامی غلام تھے۔ یہی وجہ ہے سندھ کا کوئی شہر یا قصبہ تباہ ہوتا تو اگلی مرتبہ کمتر ثقافت دیکھنے میں آتی۔ کو بغاوتوں اور تجارتی قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملوں اور شہروں پر کسانوں کے حملے ہونا فطری سی بات ہے۔ ان روز روز کی بغاوتوں نے سلطنت کو بہت کمزور کر دیا۔ جگہ جگہ ریاستی مشنری شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی۔
یہ صورت حال تھی جب آریاؤں کے وحشی قبائل مغرب سے داخل ہوئے اور ان کے پے درپے حملوں نے سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یہ ماننا پڑے گا کہ زوال آمادہ تہذیب 1700 ق م میں آریاؤں کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ مگر آریاؤں کا حملہ آخری عنصر کی حثیت رکھتا ہے۔[9]
موہن جو وڑو کے آثار کو مزید خطرات جنوری 2014ء میں لاحق ہوئے جب پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے سندھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کے لیے اس مقام کا انتخاب کیا۔ 31 جنوری 2014ء کو سندھ عدالت عالیہ میں ایک کیس داخل کیا گیا جس میں حکومت سندھ کو اس مقام پر تقریبات کرنے کی پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ [10][11]
موہنجوداڑو صوبہ سندھ کا ایک تاریخی شہر ہے جو اپنی گرمی کی وجہ سے مشہور ہے اور اسے پاکستان کا سب سے گرم علاقہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے کیونکہ یہاں 26 مئی 2010 کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے گرم ترین درجہ حرارت ریکارڈ ہُوا اور گرمی 53.5 ڈگری تک چلی گئی لیکن 6 جنوری 2006 میں اس شہر میں موسم اتنا سرد ہُوا کے درجہ حرارت منفی 5.4 ڈگری کو چھُو گیا اور یہ اس شہر کی تاریخ کا سب سے سرد ترین دن تھا جسے ریکارڈ کیا گیا۔
27 مئی 1980ء کو پیرس میں اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) نے اس کے تحفظ کے فنڈ کی بحالی کے ابتدائی معاہدے پر اتفاق کیا۔ اس منصوبے میں متعدد ممالک کی مدد سے حصہ لیا گیا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.