اردو مزاح نگار From Wikipedia, the free encyclopedia
مشتاق احمد یوسفی (4 ستمبر 1921ء - 20 جون 2018ء) اردو کے بھارتی نژاد پاکستانی مزاح نگار تھے۔ ان کی ولادت تب کے ہندوستان اور اس وقت کے بھارت میں ہوئی، مگر انھوں نے بطور مزاح نگار خود کو پاکستانی کہلوانا زیادہ پسند کیا اور تقسیم ہند کے بعد بھارت کو جو نقصان ہوا ان میں مشتاق احمد یوسفی کا ہجرت کر جانا بھی ہے۔ یوسفی بہت سے قومی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے صدر بھی رہے۔ سنہ 1999ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ستارہ امتیاز ملا، پھر سنہ 2002ء میں پاکستان کا سب سے بڑا تعلیمی اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ مشتاق احمد یوسفی بڑے نستعلیق انسان تھے۔ وہ بینکر تھے۔ عوامی اور تعلقات عامہ کے آدمی نہیں تھے۔ وہ لکھتے کم تھے لیکن معیار پر نظر رکھتے تھے۔
مشتاق احمد يوسفی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 ستمبر 1923ء ٹونک ، ریاست ٹونک ، برطانوی ہند |
وفات | 20 جون 2018ء (95 سال) کراچی ، سندھ ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند (4 ستمبر 1923–31 دسمبر 1949) پاکستان (1 جنوری 1950–20 جون 2018) |
مذہب | اسلام |
عملی زندگی | |
مادر علمی | شعبہ قانون، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
پیشہ | مزاحیہ اداکار ، مصنف |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1923ء کو ہندوستان کے شہر جے پور میں ایک تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبد الکریم خان یوسفی جے پور بلدیہ کے صدر نشین تھے اور بعد میں جے پور قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر مقرر ہوئے۔ مشتاق احمد یوسفی نے راجپوتانہ میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اور بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں آگرہ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری لی۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان سرحد پار کے شہر کراچی میں منتقل ہو گیا۔ وہ سنہ 1950ء میں مسلم کمرشیل بینک (ایم سی بی بینک لمیٹڈ) سے متعلق ہوئے اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سنہ 1965ء میں الائیڈ بینک لمیٹڈ میں بحیثیت مینیجنگ ڈائریکٹڑ مقرر ہوئے۔ سنہ 1974ء میں یونائٹیڈ بینک کے صدر اور 1977ء میں پاکستان بینکنگ کونسل کے صدر نشین بنے۔ بینکاری کے شعبہ میں ان کی غیر معمولی خدمات پر انھیں قائد اعظم میموریل تمغا عطا ہوا۔
مشتاق احمد یوسفی نے اپنے اوپر بھی کافی کچھ لکھا ہے۔ یہ ان کی خاص بات تھی کہ انھوں نے دوسروں کے ساتھ خود کو بھی نہیں بخشا ہے۔ چنانچہ وہ چراغ تلے کے مقدمہ میں خود کا تعارف یوں کرواتے ہیں:
پالتو جانوروں میں کتوں سے پیار ہے۔ پہلا کتا چوکیداری کے لیے پالا تھا۔ اسے کوئی چرا کر لے گیا۔ اب بر بنائے وضع داری پالتا ہوں کہ انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ بعض تنگ نظر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلاوجہ چڑتے ہیں حالانکہ اس کی ایک نہایت معقول اور منطقی وجہ موجود ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں۔ گانے سے بھی عشق ہے۔ اسی وجہ سے ریڈیو نہیں سنتا۔
پھر جب سرگزشت میں اپنا تعارف کرایا تو انداز بدل گیا گو کہ اس بار بھی وہ مزاح کی پھلجھڑیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
چراغ تلے 1961ء میں چھپی اور خاکم بدہن 1969ء میں، جب کہ زرگزشت 1976ء میں اور ان تین کتابوں کے ذریعے انھوں نے شگفتہ نثر نگاری کا جو اعلی معیار قائم کیا اس کا نمونہ دور دور تک کہیں اور نظر نہیں آتا تھا۔ آبِ گم، جو 1990ء میں چھپی ناول کی طرح مقبول ہوئی۔ یہ ایسی کتابیں تھیں جن کے وسیلے سے یوسفی صاحب اردو ادب کا ایک مستقل باب ہو چکے تھے۔ ایک اور کتاب بھی آئی تھی یوسفی صاحب کی، شامِ شعرِ یاراں۔ یہ کتاب 2014ء میں منظر عام پر آئی جو ان کی متفرق تحریروں کو جہاں تہاں سے جمع کرکے مرتب کر لی گئی تھی۔
شامِ شعرِ یاراں جب شائع ہوئی تو ان کے مداحوں کو اس سے مایوسی ہوئی کیونکہ ان کے شائقین کے سامنے ان کا سابقہ معیار تھا جس کے وہ نئی کتاب میں منتظر تھے۔ شامِ شعرِ یاراں یوسفی کے مانوس اسلوب کے معیار پر نہیں اتری تھی۔ دراصل یہ آخری کتاب ان کے مضامین اور بعض تقریروں کا مجموعہ ہے۔
یوسفی کی آخری تصنیف کو ربع صدی گذر چکی تھی۔ چونکہ ان کے مداحوں کو ان کا چکسا لگ چکا تھا چنانچہ وہ آنے والی نئی تصنیف کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ مشتاق احمد کی پرانی کتابیں، ان میں موجود گدگداتے جملے اور ان کا منفرد لب و لہجہ والا طنز و مزاح کچھ ایسی باتیں تھیں جو سب کو شوق انتظار میں مزہ دے رہی تھیں۔ کچھ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ شاید اس میں آب گم والا معیار ہو یا چونکہ 25 برس بعد کچھ لا رہے ہیں تو اس سے بھی بڑھ کر کچھ ہو۔ مگر جب کتاب منظر عام پر آئی تو امیدوں کے سارے ارمان پانی میں بہ گئے۔ یہ کتاب کیا تھی تقریروں کا مجموعہ تھی اور پرانی کتابوں کے ڈھیروں اقتباس درج تھے۔ خدا جانے یوسفی صاحب نے اس کتاب کو کس نیت سے شائع کیا تھا مگر اس میں ان کا وہ معیار نظر نہ آیا جس کے لیے وہ مشہور تھے۔ ظفر سید بی بی سی اردو میں لکھتے ہیں کہ:
” | کتاب آنے سے پہلے سب سوچتے تھے کہ اس میں یوسفی صاحب کو شاید ’آبِ گم‘ کے فلک بوس معیار کو ایک بار پھر چھونے میں مشکل پیش آئے گی۔ لیکن دلِ خوش فہم کے ایک گوشے میں ایک کرن یہ بھی پنپتی رہی کہ 25 سال بعد کتاب لا رہے ہیں تو کیا پتہ، اس میں کچھ چمتکار دکھا ہی دیں۔
ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ یوسفی صاحب کے اندر کا نقاد بہت سخت ہے، جب تک تحریر خود ان کے کڑے پیمانے پر سولہ آنے نہ اترے، اسے دن کی ہوا نہیں لگنے دیتے۔ ان کا مسودے کو پانچ سات سال تک ’پال میں رکھنے‘ والا فقرہ تو ویسے ہی بڑا مشہور ہے۔ کچھ امیدیں اس وجہ سے بھی بندھیں کہ افتخار عارف نے کراچی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یوسفی صاحب نے گذشتہ عشروں میں سات سات سو صفحے کے دو سفرنامے، چار سو صفحے کا ایک ناول اور پتہ نہیں کیا کیا لکھ رکھا ہے، لیکن وہ انھیں شائع نہیں کروا رہے کہ ایک آدھ آنچ کی کسر ہے۔ بالآخر دکانوں کے چکر لگا لگا کر کتاب ہاتھ آئی تو پڑھ کر امیدوں کے محل زمین پر آ رہے۔ کتاب کیا ہے، طرح طرح کی الم غلم تحریریں جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔ اگر کالموں کے کسی مجموعے کی تقریبِ رونمائی میں تقریر کی ہے تو اسے بھی کتاب کی زینت بنا دیا ہے، کسی مرحوم کی یاد میں تاثرات پیش کیے تو کتاب میں درج کر ڈالے، سالانہ مجلسِ ساداتِ امروہہ میں اظہارِ خیال کیا تو لگے ہاتھوں اسے بھی شامل کر دیا اور پھر تکرار ایسی کہ خدا کی پناہ۔ |
“ |
مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتابوں بے شمار ایسے جملے کہے لکھے ہیں جو ضرب المثل بن گئے۔ لوگ ان کو مزین اور رنگین تصاویر میں سجا کر فیس بک پر شیئر کرتے ہیں۔ واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگاتے اور اقوال زریں کی طرح ان کو پھیلاتے ہیں۔ ان کے چند اقوال درج ذیل ہیں:
20 جون، سنہ 2018ء کو کراچی میں وفات ہوئی، کل 94 سال کی عمر پائی۔ 20 جون کو سلطان مسجد کراچی میں نماز جنازہ کے بعد ان کو سپرد خاک کیا گیا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.