یہودیت میں شادی
یہودیت میں شادی کا تصور / From Wikipedia, the free encyclopedia
یہودیت میں شادی کو مرد اور عورت کے درمیان میں ایک ایسا بندھن تصور کیا جاتا ہے جس میں خدا بذات خود شامل ہے۔[1] گوکہ ان کے یہاں شادی کا واحد مقصد افزائش نسل نہیں ہے لیکن اس عمل کو افزائش نسل کے ربانی حکم کے پورا کرنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔[2] اسی مقصد کے پیش نظر جب مرد و عورت شادی کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں تو انھیں یک جان دو قالب سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہودی مرد شادی نہ کرے تو تلمود کی نگاہ میں وہ ایک ”نامکمل“ مرد ہے۔[3][4] عصر حاضر میں بعض یہودی فرقے ہم جنسی کی شادی کو درست سمجھتے اور افزائش نسل کے مقصد کو کمتر خیال کرتے ہیں۔[5][6]
یہودیت کے ازدواجی نظام پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں عورت کا مقام نہایت پست ہے اور اس کی وجہ یہ نظریہ ہے کہ حوا نے آدم کو ممنوعہ پھل کھانے پر اکسایا اور اسی وجہ سے وہ جنت سے نکالے گئے۔ اور اسی بنا پر عورت کو مرد کی غلامی، حیض جیسی ناپاکی اور حمل کے درد کی سزا ملی۔ بائبل میں ہے:
مَیں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا۔ تُو درد کے ساتھ بچّے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شَوہر کی طرف ہوگی اور وہ تُجھ پر حُکومت کرے گا۔[7]
”تمدن عرب“ میں یہودی معاشرہ میں عورت کی حیثیت ان سخت الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
”گھوڑا اچھا ہو یا برا اسے مہمیز کی ضرورت ہے اور عورت اچھی ہو یا بری اسے مار کی ضرورت ہے۔“[8]
یہودیت میں عورت کی شادی خاوند کی خدمت اور اولاد پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اگر کسی کے یہاں کئی سال تک اولاد نہ ہو تو وہ بلا جھجک دوسری شادی کر سکتا ہے اور اس کام کے لیے اسے اپنی بیوی سے کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ بائبل میں ہے:
”بِیوِیاں کرو تاکہ تُم سے بیٹے بیٹِیاں پَیدا ہوں اور اپنے بیٹوں کے لِیے بِیوِیاں لو اور اپنی بیٹِیاں شَوہروں کو دو تاکہ اُن سے بیٹے بیٹِیاں پَیدا ہوں اور تُم وہاں پَھلو پُھولو اور کم نہ ہو۔“[9]
نکاح کے قانون کی طرح طلاق کا قانون بھی یہودی روایات میں عورت کی مظلومیت کی داستاں سناتا ہے۔ یہودی مرد جب چاہے چھوٹی سی لغزش پر طلاق دے دیتے اور ان کو یہ حق مذہب نے دیا تھا۔ بقول مولانا ابو الکلام آزاد:
”یہودیوں کو ان کے مذہبی تعلیمات کے ذریعے سے یہ حقوق حاصل ہیں کہ وہ جب چاہیں ایک ادنٰی سی لغرش پر عورت کو گھر سے نکال باہر کر سکتے ہیں۔“[10]
اگر کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو اسے دوسری شادی کا حق تو تھا مگر صرف اپنے شوہر کے بھائی سے۔ اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی تھی اور اسے اس شادی پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یہودیت میں تعدد ازدواج کی اجازت بھی تھی، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ ایک مرد جتنی چاہتا شادیاں کر سکتا تھا۔ سید امیر علی لکھتے ہیں:
”نبی موسٰی کے وقت سے پہلے بنی اسرائیل کے یہاں تعدد ازدواج کا دستور تھا۔ نبی موسٰی نے اسے قائم رہنے دیا یہاں تک کہ انہوں نے اس کی کوئی حد مقرر نہ کی کہ ایک یہودی مرد بیک وقت کئی عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا تھا۔“[11]