From Wikipedia, the free encyclopedia
مفتی اعظم پاکستان ولی حسن ٹونکی (پیدائش: 1924 - وفات : 3 فروری 1995) ایک پاکستانی مفتی ، اسلامی اسکالر اور مصنف تھے۔[1]
ولی حسن ٹونکی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 1924ء ضلع ٹونک | ||||||
وفات | 3 فروری 1995ء (70–71 سال) کراچی | ||||||
شہریت | برطانوی ہند پاکستان | ||||||
مناصب | |||||||
صدر (1 ) | |||||||
در | اقرأ روضۃ الاطفال ٹرسٹ | ||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | الہ آباد یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی مظاہر علوم سہارنپور دار العلوم دیوبند دار العلوم ندوۃ العلماء | ||||||
استاذ | حسین احمد مدنی ، عبد الحق ، مولانا حیدر حسن خان | ||||||
تلمیذ خاص | مفتی ابولبابہ شاہ منصور ، محمد تقی عثمانی ، محمد رفیع عثمانی ، مفتی زرولی خان ، مولانا حبیب اللہ مختار ، مفتی عبدالمجید دین پوری ، مفتی جمیل خان ، مزمل حسین کاپڑیا | ||||||
پیشہ | مفتی ، منصف ، معلم | ||||||
ملازمت | دارالعلوم کراچی ، جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن | ||||||
درستی - ترمیم |
مفتی ولی حسن صاحب کی پیدائش 1924ء میں ہندوستان کی ریاست ٹونک میں ہوئی.
آپ کا نام نامی ولی حسن ، والد کا نام مفتی انوار الحسن خان ، دادا مفتی محمد حسن خان اور پردادا مفتی احمد حسن خان تھے..
آپ کی والدہ ماجدہ سید خاندان سے تعلق رکھتی تھیں
آپ کا خاندان ایک علمی خاندان تھا اور تقریباً سبھی علمی ذوق کے حامل تھے، عرصہ دراز سے ریاست ٹونک کے مفتی اور عدالتِ شرعیہ کا عہدۂ قضاء آپ ہی کے خاندان میں تھا۔
آپ کے خاندان کی دو شخصیات حلقۂ علما میں نمایاں مقام کی حامل رہیں۔ یہ دونوں حضرات آپ کے والد کے چچا تھے
1) مولانا محمود حسن ٹونکی.. جو معجم المصنفین کے مصنف تھے..
2) مولانا حیدر حسن خان ٹونکی
جو کہ17؍سال تک دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم اور شیخ الحدیث رہے۔ مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی، مولانا عبد الرشید نعمانی، سید محمد عبد السمیع ندوی اور کئی نامور شخصیات نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا۔
ابتدائی تعلیم و تربیت آپ نے اپنے والد ماجد مفتی انوار الحسن سے حاصل کی ۔ تقریباً بارہ سال کی عمر تھی کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا
والد کے انتقال کے بعد آپ کے والد کے چچا اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم اور شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خان ٹونکی صاحبؒ نے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری قبول کی اور آپ کی والدہ صاحبہ سے اجازت لے کر اُن کو اپنے ساتھ لکھنؤ لے گئے
تقریبا چار سے پانچ سال تک مولانا حیدر حسن خان ٹونکی کے زیرسایہ علوم حاصل کرتے رہے ان کے انتقال کے بعد درس نظامی کی تکمیل کے لیے آپ مظاہر علوم چلے گئے وہاں کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد دار العلوم دیوبندعلوم دیوبند تشریف لے گئے
اور درجہ سابعہ اور دورہ حدیث وہیں سے کیا.
صحیح بخاری اور جامع ترمذی مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز سے پڑھیں۔
دیوبند سے فراغت کے بعد ٹونک واپس آگئے اور یہاں کی عدالت شرعیہ میں مفتی وقاضی مقرر ہوئے
*پاکستان کراچی آمد*
قیام پاکستان کے بعد 1948 میں آپ پاکستان آگئے
کراچی میں حضرت مفتی صاحب نے ابتدا میں کراچی کے ایک ہائی اسکول میں اسلامیات کے استاد کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا
اس کے بعد 1950 میں کراچی کے علاقے آرام باغ کی مسجد باب الاسلام میں واقع مدرسہ امدادالعلوم میں خدمات انجام دیں..
یہ مدرسہ مفتی محمد شفیع صاحب نے قائم کیا تھا جہاں پر حفظ و ناظرہ کے علاوہ ابتدائی فارسی اور عربی کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اور یہاں پر عوام کی سہولت کے لیے ایک دارالافتاء بھی موجود تھا
جب 1951ء میں نانک واڑہ میں مفتی شفیع نے دار العلوم کی بنیاد رکھی تو پھر مفتی صاحب وہاں مدرس مقرر ہوئے ۔ دار العلوم کراچی نانک واڑہ میں آپ عربی ادب اور فقہ کے کئی اہم اسباق پڑھاتے تھے،جس میں’’عربی کامعلم‘‘ سے لے کر ’’ہدایہ‘‘ تک کی کتب شامل تھیں۔
جب 1959ء میں ’’دار العلوم‘‘ نانک واڑہ سے شرافی گوٹھ کورنگی منتقل ہوا تو مفتی صاحب وہاں سے حضرت مولانا یوسف بنوری کے مدرسہ، ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ ‘‘(حال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن) تشریف لے آئے۔ اور پھر اخیر تک آپ اسی مدرسہ بنوری ٹاؤن میں مستقل دین کی خدمت کرتے رہے.. [1]
انھوں نے اپریل 1984میں اقرأ روضۃ الاطفال ٹرسٹ کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔[4]
فقہی مقام*
حضرت مفتی صاحب کی اصل اور خاندانی خاصیت فقہ اور افتاء تھی۔ آپ فقیہ کامل اور اجتہادی شان کے حامل تھے، جس کا واضح رنگ آپ کے درسِ حدیث میں بھی نظر آتا تھا. .
جبکہ تفقہ کا یہ عالم تھا کہ . حضرت مفتی محمد شفیع (رح).حضرت مفتی محمود (رح).اور حضرت مفتی رشیداحمد (رح) کے ساتھ مجالس علمیہ میں بٹھائے جاتے تھے۔
مفتی عبد السلام صاحب زید مجدہٗ فرماتے ہیں: ’’حضرت الاستاذ مولانا مفتی صاحب کی اصل چیز جو اُن کی خاندانی اور فطری ہے، وہ فقہ اور فتاویٰ کا کام ہے۔ آپ نے فرمایا: آپ کے آباء و اجداد کئی پشتوں سے مفتی اور قاضی گذرے ہیں۔‘ اسی طرح آپ کی پوری زندگی افتاء کی خدمت میں گذری، سب سے پہلے آپ ریاست ٹونک کے مفتی رہے، پھر مدرسہ امداد العلوم آرام باغ کراچی میں افتاء کی خدمت انجام دی، اس کے بعد دار العلوم نانک واڑہ میں اور پھر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں عرصہ دراز تک اس شعبہ سے منسلک رہے، یہاں تک کہ آپ پورے پاکستان کے مفتی اعظم کہلائے جانے لگے۔ آپ کے فتاویٰ جامع، مدلل اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے تھے، جزئیات کے استحضار میں آپ کا ثانی نہ تھا۔
مفتی صاحب کا کا درس ہدایہ بے حد مشہور تھا.. کافی عرصہ تک ہدایہ اول ثانی اور ثالث کا درس دیتے رہے..اور ہدایہ ثالث کے تو گویا امام مشہور تھے..
تصنیفی خدمات
حضرت مفتی صاحب کے علمی ورثہ کا اہم حصہ آپ کے قلم سے لکھے گئے جامعہ کے دارالافتاء سے جاری ہونے والے ہزاروں فتاویٰ ہیں ۔ اس کے علاوہ متعدد بیانات، مواعظ اور چھوٹی بڑی تحریرات موجود ہیں جن میں بے پناہ علمی خزینہ ہے، بعض ان میں سے طبع بھی ہو چکی ہیں۔
*تصانیف**
مفتی صاحب اپنی بے پناہ مصروفیات کے باعث زیادہ تصنیفی کام نہ کرسکے
مفتی صاحب کی جو تصانیف یا مضامین موجود ہیں وہ یہ ہیں:
1:…تذکرۃ الاولیاء ہند و پاکستان
2:…عائلی قوانین پر تحقیقی تبصرہ
3:…بیمہ و انشورنس پر تحقیقی مقالہ
4:… حضرت مولانا یوسف ببنوری اور ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’’معارف السنن‘‘ کی خصوصیات کے بارے میں فاضلانہ مضمون،
5:… فتنہ انکارِ حدیث پر تفصیلی فتویٰ جو بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوکر شائع ہوا۔
٦… درس الہدایہ، حضرتؒ کے تدریسی افادات کو ان کے فرزند مولانا سجاد حسن مدظلہ نے مرتب کیا ہے۔
٧) آپ کے چند مضامین ’’انتخابِ مضامین‘‘ کے نام سے جمع کیے گئے ہیں، جن کی تعداد ’’32‘‘ ہے
٨) فضائل سرمدی : درس شمائل ترمذی..(آپ کے فرزند مولانا سجاد حسن اس کو مرتب کیا ہے)
آپ کے فرزند حضرت مولانا سجاد حسن صاحب نے اس کو مرتب کیا ہے
کتابیں لکھیں اور ان کے مضامین مختلف جرائد میں شائع ہوئے۔[5]
علالت و انتقال*
1989 میں حضرت مفتی صاحب پر فالج کا شدید حملہ ہوا جس کی وجہ سے قوت گویائی باقی نہ رہی... علاج مسلسل چلتا رہا جس کی وجہ سے طبیعت میں اتار چڑھاؤ آتا رہا لیکن معذوری کی سی جو کیفیت پیدا ہو گئی تھی اس میں ایسا کوئی نمایاں فرق نہ آیا جو مفتی صاحب کو عملی زندگی میں دوبارہ لا سکے
حضرت مفتی صاحب چھ سال تک فالج کے عارضے میں مبتلا رہے.. اس پورے عرصہ میں تقریباً گھر ہی تک محدود رہے ..
یہاں تک کہ 3 فروری 1995 مطابق 2 رمضان المبارک بروز جمعہ آپ کا انتقال ہو گیا..
مولانا عبد الرشید نعمانی صاحب نے آپ کا جنازہ پڑھایا آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو دار العلوم کراچی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا
حضرت مفتی صاحب کی قبر دار العلوم کراچی کے عمومی قبرستان میں واقع ہے.
۔[1]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.