نظام حیدرآباد
From Wikipedia, the free encyclopedia
نظام الملک حیدرآباد جنہیں عموماً نظام حیدرآباد کے نام سے جانا جاتا تھا، 1724ء سے 1948ء تک قائم ریاست حیدرآباد کے حاکموں کو کہا جاتا تھا۔ یہ خطاب مملکت آصفیہ کے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ سطح مرتفع دکن میں یہ حکومت مغلوں کے زیر اثر مقامی نواب میر قمر الدین صدیقی نے قائم کی تھی جنھوں نے 1724ء میں آصف جاہ کا لقب اختیار کیا اور خود مختار ہو گئے۔ یہ 1707ء میں اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے بعد تیموری سلطنت کو پہنچنے والا بہت بڑا دھچکا تھا۔
1798ء کے بعد سے ریاست حیدرآباد برطانوی ہند کے زیر اثر ریاستوں میں سے ایک تھی تاہم نظام داخلی امور خود حل کرتا تھا۔
1947ء میں تقسیم ہند تک دو صدیوں میں سات نظاموں نے حیدرآباد پر حکومت کی۔ تقریباً یہ تمام ہی آصف جاہی حکمران ادب، فن، طرز تعمیر، ثقافت، زیورات و جواہر کے بہت بڑے سرپرست و دلدادہ تھے۔
نظام حیدرآباد کی یہ حکومت 17 ستمبر 1948ء کو بھارت کی عسکری مہم کے خاتمے تک قائم رہی۔ اس کے نتیجے میں نظام کو بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اقوام متحدہ اور لندن میں حکومت برطانیہ کو بھیجے گئے وفد میں تاخیر کے باعث بھارت کی سرزمین پر اس آزاد ریاست کا وجود ختم ہو گیا۔ ابتدائی طور پر اسے ہندی اتحاد میں شامل کیا گیا اور 1956ء میں لسانی بنیادوں پر توڑ کر پڑوسی ریاستوں آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر میں تقسیم کر کے ختم کر دیا گیا۔