بھارت کے سابق مفتی اعظم From Wikipedia, the free encyclopedia
صدر الشريعہ مفتى محمد امجد على اعظمى (نومبر 1882ء تا 6 ستمبر، 1948ء) ایک مسلم اسلامی قانون دان، مصنف اور سابق مفتی اعظم ہند تھے آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی کے ایک خاص شاگرد اور تصوف میں ان کے خلیفہ تھے۔ چونکہ اعلیٰ حضرت انگریز کی کچہری کو عدالت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے لہٰذا آپ نے مفتی امجد علی اعظمی کو صدر الشريعہ کا لقب دیا اور انھیں پورے ہندوستان کے لیے قاضی مقرر فرمایا۔ مفتی امجد علی بھارت محلہ کریم الدین پور، قصبہ گھوسی، ضلع اعظم گڑھ، اتر پردیش، بھارت میں، 1882ء (1300ھ) کو پیدا ہوئے۔ آپ کی ایک اہم ترین تصنیف جو عوام و خواص میں مقبول ہے "بہار شریعت" ہے
صدر الشریعہ ،مفتی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
محمد امجد علی اعظمی | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | اکتوبر1882ء گھوسی | ||||||
وفات | 6 ستمبر 1948ء (65–66 سال) ممبئی | ||||||
مدفن | گھوسی | ||||||
رہائش | دفتر مفتی اعظم | ||||||
شہریت | بھارت برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت | ||||||
رکن | دفتر مفتی اعظم ، اسلامک کیمونٹی آف انڈیا | ||||||
مناصب | |||||||
مفتی اعظم ہند (7 ) | |||||||
برسر عہدہ 1900ء کی دہائی – 1948 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
تخصص تعلیم | فقہ | ||||||
استاذ | احمد رضا خان | ||||||
تلمیذ خاص | عبد العزیز مراد آبادی | ||||||
پیشہ | منصف ، مصنف ، معلم ، مفتی اعظم | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
کارہائے نمایاں | بہار شریعت | ||||||
درستی - ترمیم |
اولاد
مولانا عبد المصطفی ازہری
، مولانا قاری رضاء المصطفی اعظمی،
مولانا ضیاء المصطفی اعظمی،
مولانا عطاء المصطفی اعظمی،
مولانا فداء المصطفی اعظمی
، مولانا علاء المصطفی اعظمی
، مولانا بہاء المصطفی اعظمی
، مولانا جمال المصطفی اعظمی
، مولانا ثناء المصطفی اعظمی
، مولانا ریاض مصطفی
مولانا یحییٰ اعظمی امجدی
مولانا حکیم شمس الہدی
۔
آپ کا پورا نام محمد امجد علی ہے۔ والد ماجد کا نام مولانا حکیم جمال الدین، دادا کانام مولانا خدا بخش اور پردادا کا نام مولانا خیر الدین تھا۔ ان کے والد ماجد اور جد امجد فن طب اور علم و فضل میں باکمال تھے۔
آپ نے ابتدائی کتابیں جد امجد سے پڑھیں اس کے بعد اپنے چچرے بھائی مولانا محمد صدیق صاحب سے علوم فنون کی ابتدائی کتابیں پڑھ کر انھیں کے مشورہ سے مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری سے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ حنفیہ جون پور میں داخل ہوئے۔ علوم و فنون کی تکمیل کے بعد مولانا وصی احمد محدث سورتی سے مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں حاضر ہوئے اور حدیث کا درس لیا اور 1330ھ/1902ء میں سند حاصل کی۔ 1323ھ میں حکیم عبد الولی چھوائی ٹولہ لکھنؤ سے علم طب حاصل کیا۔ 1324ھ سے 1327ھ تک مولانا وصی احمد سورتی کے مدرسہ میں درس دیا اس کے بعد ایک سال تک پٹنہ میں طب کا کام کیا بعد میں اپنے استاد مولانا وصی احمد سورتی کے کہنے پر طب کا کام چھوڑ کر امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانااحمد رضا خان بریلوی کے مدرسہ مظہر اسلام بریلی میں درس و تدریس کا کام انجام دینے لگے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی صحبت میں رہ کر ان کے علم میں وسعت پیدا ہوئی اور اس وقت کے فقیہوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔
مولانا امجد علی بڑے ذہین تھے ذاتی اور خداداد خوبیوں کا یہ عالم تھا کہ خود فرماتے ہیں: ”کسی کتاب کا یاد کرنے کی نیت سے تین دفعہ دیکھ لینا کافی ہوتا تھا۔“ حافظہ کی یہ قوت خدا کسی کسی کو بخشتا ہے ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ اپنی علمی صلاحیتوں کی داد حاصل کرتے آئے اور آخر عمر تک خراج تحسین حاصل کیا۔
امجد علی اعظمی نے ایک لمبے عرصے تک مدرسہ منظر اسلام بریلی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے اور 1924ء میں صدر المدرسین کی حیثیت سے دار العلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر (راجستھان) چلے گئے۔ 1932ء میں پھر بریلی واپس آئے اور کچھ دنوں کے بعد نواب حاجی غلام محمد خاں شروانی رئیس ریاست دادوں، علی گڑھ کی دعوت پر مدرس اول کی حیثیت سے دار العلوم حافظیہ سعیدیہ میں ان کا تقرر ہوا جہاں سات سال تک بحسن و خوبی درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اس کے بعد ایک سال مظہر العلوم کچی باغ، بنارس میں بھی رہے۔ پھر آخر کار 1945ء تک منظر اسلام بریلی میں درس دیا اور پوری زندگی درس و تدریس کی نظر ہوئی۔ فروری 1926ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نصاب کی تشکیل کے سلسلہ میں جن اہم مدرسین سے رابطہ قائم کیا گیا ان میں مولانا صاحب کا بھی نام تھا۔
انھوں نے ابتدا ہی سے درس کا اہم فریضہ اپنے لیے چنا اور اسی پیشہ کو اپنی نجات سمجھا۔ ایک لمبے عرصے تک مدرسہ منظر اسلام بریلی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے اور 1924ء میں صدر المدرسین کی حیثیت سے دار العلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر (راجستھان) چلے گئے۔ 1932ء میں پھر بریلی واپس آئے اور کچھ دنوں کے بعد نواب حاجی غلام محمد خاں شروانی رئیس ریاست دادوں، علی گڑھ کی دعوت پر مدرس اول کی حیثیت سے دار العلوم حافظیہ سعیدیہ میں ان کا تقرر ہوا جہاں سات سال تک بحسن و خوبی درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اس کے بعد ایک سال مظہر العلوم کچی باغ، بنارس میں بھی رہے۔ پھر آخر کار 1945ء تک منظر اسلام بریلی میں درس دیا اور پوری زندگی درس و تدریس کی نظر ہوئی۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی نے جو ایک زمانہ میں حیدرآباد دکن میں صدر امور مذہبی رہ چکے تھے 1356ھ کے سالانہ جلسہ امتحان کے موقع پر اپنی تقریر میں مولانا امجد علی صاحب کی مہارتِ درس اور تبحر علمی کا اعتراف کیا اور کہا کہ ”مولانا امجد علی صاحب پورے ملک میں ان چار پانچ مدرسین میں ایک ہیں جنہیں میں منتخب جانتا ہوں۔“
غرض کہ مولانا امجد علی صاحب مختلف درس گاہوں کے تجربہ کار عالم تھے۔ جدید ضرورتوں سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ نصاب تعلیم کابھی انھیں بخوبی تجربہ تھا اسی لیے فروری 1926ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نصاب کی تشکیل کے سلسلہ میں جن اہم مدرسین سے رابطہ قائم کیا گیا ان میں مولانا صاحب کا بھی نام تھا۔ ان کا شمار ان کے دور کے اعلیٰ پایہ کے اساتذہ میں ہوتا تھا۔ درس کے لیے جن خوبیوں کو اہم مانا جاتا ہے وہ مولانا کا شعائر زندگی بن گئی تھیں۔ حدیث و تفسیر کے علاوہ مختلف علوم و فنون کا درس بھی اس طرح دیتے کہ طلبہ بخوبی سمجھ جاتے۔
مولانا امجد علی صاحب جہاں ایک باکمال مدرس اور خطیب تھے وہیں اعلیٰ مرتبہ مصنف بھی تھے۔ ان کی زبان سادہ، سہل اردو زبان تھی۔ انھوں نے اسلام کی خوب اشاعت کی اور اجمیر کے زمانہ قیام میں نومسلم راجپوتوں میں تبلیغ کا کام بھی بخوبی انجام دیا۔ مولانا امجد علی صاحب کی تقریر خالص علمی مضامین اور قرآن و حدیث کی تفسیر و تفصیل پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ فقہی جزئیات نوک زبان پر رہتی تھی
امجد علی اعظمی کو اللہ تعالی نے جملہ علوم و فنون میں مہارت تامہ عطا فرمائی تھی انھی خصوصیات کی بنا پر مولانا احمد رضا خاں نے ان کو ”صدر الشریعہ“ کا لقب دیا۔[1]
مولانا امجد علی صاحب کی تقریر خالص علمی مضامین اور قرآن و حدیث کی تفسیر و تفصیل پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ فقہی جزئیات نوک زبان پر رہتی تھی انھی خصوصیات کی بنا پر مولانا احمد رضا خاں نے ان کو ”صدر الشریعہ“ کا لقب دیا۔
اجمیر کے قرب و جوار میں راجا پرتھوی راج کی اولاد تھی جو اگرچہ مسلمان ہو چکی تھی لیکن ان میں فرائض و واجبات سے غفلت اور مشرکانہ رسوم بہت زیادہ پائی جاتی تھیں۔ مولانا امجد علی صاحب کے ایماء پر ان کے شاگردوں نے ان میں تبلیغ کا پروگرام بنایا تبلیغی جلسوں کا خوشگوار اثر ہوا اور ان لوگوں میں مشرکانہ رسوم سے اجتناب اور دینی اقدار اپنانے کا جذبہ پیدا ہو گیا اس کے علاوہ اردگرد کے بڑے شہروں اور قصبات مثلاً نصیر آباد، لاڈنوں، جے پور، جودھپور، پالی مارواڑ اور چتوڑ وغیرہ میں بھی خود مولانا اور ان کے تلامذہ نے تبلیغی سرگرمیاں برابر جاری رکھیں۔ مولانا کی تقریر ایسی جامع اور مو ¿ثر ہوتی تھی کہ علماءاور مشائخ جھومتے اور داد تحسین دیتے تھے۔
امجد علی صاحب ایک صاحب قلم ادیب تھے حالانکہ دوسری مصروفیات کے مقابلے میں تصنیف و تالیف کا کام بہت نہیں ہوا لیکن جو کچھ بھی کام کیا وہ ان کی علمی صلاحیت اور اردو دانی پر بیّن ثبوت ہے۔ تلاش و تحقیق کے بعد ان کی جو تصانیف دستیاب ہوئیں ان کی تعداد 25 تک پہنچتی ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں:
حاشیہ شرح معانی الآثار: امجد علی اعظمی نے امام ابو جعفر طحاوی (م321ھ) کی معرکہ آرا تصنیف ”شرح معانی الآثار“ پر حاشیہ لکھنا شروع کیا تھا۔ کثرتِ کار کے سبب یہ کام صرف پہلی جلد تک چل سکا مگر جتنا ہوا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جلد اول کا نصف حاشیہ باریک قلم سے 450 صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحہ میں 35،36 سطریں ہیں قادری منزل میں دائرة المعارف الامجدیہ گھوسی کے دفتر میں اس حاشیہ کا قلمی نسخہ موجود ہے انھوں نے دادوں ضلع علی گڑھ میں قیام کے دوران یہ حاشیہ عربی زبان میں لکھنا شروع کیا اور سات ماہ کی مختصر مدت میں نصف اول پر مبسوط حاشیہ لکھ دیا۔[2]
فتاویٰ امجدیہ: چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے یہ مصنف کے ان فتاویٰ کا مجموعہ ہے جسے انھوں نے 7 ربیع الاول 1340 ھ سے لے کر 8 شوال 1367 ھ تک صادر کیے ہیں پہلی جلد کتاب الطہارت سے شروع ہوکر کتاب الحج پر ختم ہوتی ہے جو 403 صفحات پر مشتمل ہے دوسری جلد ”کتاب النکاح“ سے شروع ہوکر ”حدود و تعزیر کا بیان“ پر ختم ہوتی ہے یہ 341 صفحات پر مشتمل ہے۔[2]
امجد علی صاحب سے مختلف زبانوں میں لوگوں نے سوال کیے اور فتوے پوچھے انھوں نے سفر میں، حضر میں، وطن میں اور باہر ہر جگہ بے شمار فتوے لکھے اور بیان کیے ان میں سے بعض اہم حصے دست برد زمانہ سے محفوظ نہ رہے لیکن آخر میں انھوں نے ایک یا دوجلدیں خاص کر اپنے فتاوی کے لیے سفید کاغذ کی تیار کرائیں اور اس میں اپنے فتاوے اندراج کرائے اور ان فتاوے کی اکثر و بیشتر نقلیں مولانا سردار احمد (محدث پاکستان) کے ہاتھوں کی گئی ہیں۔ مولانا عبد المنان کلیمی فاضل اشرفیہ مبارکپور نے ان کو فقہی ترتیب کے ساتھ مرتب کیا اور مولانا مفتی شریف الحق صاحب نے ان فتووں پر اپنے مفید حواشی کا اضافہ کیا۔ مولانا امجد علی کے یہ فتاوے دلائل و ترجیحات و عبارات فقہیہ پر مشتمل ہیں۔ ان فتاوے کی زبان نہایت سادہ ہے اور کم الفاظ میں زیادہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے جس کو بہت سراہا گیا اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔
بہار شریعت:
اس کتاب میں انھوں نے فقہ حنفی کے مطابق فقہی ترتیب سے آسان انداز میں مسائل بیان کیے ہیں۔ مصنف فقہ اسلامی اور مسائل شرعیہ کو مکمل طور پر بیس جلدوں میں سمیٹنا چاہتے تھے مگر عمر نے ساتھ نہ دیا اور سترہ حصے لکھنے کے بعد دنیائے دار فانی سے 2 ذی قعدہ، 6ستمبر 1367ھ/1948ء دوشنبہ کو 12 بج کر 6 منٹ پر انتقال کر گئے اور وصیت کر گئے کہ اگر میری اولاد یا تلامذہ یا علمائے اہل سنت میں سے کوئی صاحب اس کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا ہے اس کو پورا کر دیں۔ چنانچہ ان کے شاگرد اور دیگر علماءبہار شریعت کے باقی تین حصے 18،19،20 ضبط تحریر میں لاچکے ہیں جو چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ مصنف کی وصیت کے مطابق یہ خیال رکھا گیا ہے اور اس میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ مسائل کے مآخذ کتب کے صفحات کے نمبر اور جلد نمبر بھی لکھ دیے ہیں تاکہ اہل علم کو مآخذ تلاش کرنے میں آسانی ہو اکثر کتب فقہ کے حوالہ جات نقل کردیے ہیں جن پر آج کل فتوی کا مدار ہے حضرت مصنف کے طرز تحریر کو حتی الامکان برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فقہی موشگافیوں اور فقہا کے قیل و قال کو چھوڑ کر صرف مفتی بہ یعنی جس پر فتوی ہے اقوال کو سادہ اور عام فہم زبان میں لکھا گیا ہے۔[2][3][4]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.