فدک
From Wikipedia, the free encyclopedia
From Wikipedia, the free encyclopedia
فدک (عربی: فدك ) ایک زمینی رقبہ ہے جو سعودی عرب کے شمال میں خیبر کے مقام پر مدینہ سے تیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ بھی کہاگیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمے اور کھجوروں کے درخت ہیں۔[1] مسلمانوں کے دو بڑے گروہ اس کی ملکیت سے متعلق جدا تاریخی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
زندگی | |
---|---|
فہرست القابات فاطمہ زہرہ · اختلاف مالی فاطمہ و عباس با خلافت · واقعہ در و دیوار · خطبہ فدکیہ · وفات فاطمہ | |
قرآن میں | |
سورہ دہر · سورہ کوثر · آیت تطہیر · آیت مباہلہ · آیت نور | |
مقامات | |
مکہ میں: محلہ بنی ہاشم · شعب ابی طالب · مدینہ میں: جنت البقیع · بیتالاحزان · درخت کنار · سقیفہ · مسجد نبوی · شمال حجاز میں: فدک | |
افراد | |
خاندان | محمد · خدیجہ · علی |
فرزند | حسن · حسین · زینب · ام کلثوم · محسن |
وفد | فضہ نوبیہ · ام ایمن · اسماء · سلمان |
دیگر | قنفذ · مغیرہ · عمر · ابوبکر |
مرتبط | |
تسبیح فاطمہ · مصحف فاطمہ · لوح فاطمہ · واقعہ مباہلہ · ایام فاطمیہ | |
نامکمل حوالہ جات کو مکمل کیا جائے۔ |
اہلسنت کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ یعنی تحفہ نہیں کیا تھا۔ اس حوالے سے شیعہ قرآن مجید کی اس آیت کا تذکرہ کرتے ہیں " اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو " [15] اور کہتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک ہبہ کر دیا تھا۔ اہلسنت کے مطابق اس روایت کے حوالے سے جو روایات نقل ہوئی ہیں، ان میں عطیہ العوفی نامی ضعیف راوی موجود ہے۔ اور یہ آیت چونکہ مکی ہے اور فدک تو بہت بعد میں دورِ مدینہ میں مسلمانوں کے قبضے میں آیا تھا، لہذا شان نزول کے حوالے سے بھی یہ بات درست نہیں۔ دراصل فدک کا تعلق مال فئے سے تھا۔ تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ "اگر قدرے جنگ ہونے کے بعد کفار مرعون ہو کر صلح کی طرف مسارعت کریں اور مسلمان قبول کر لیں۔ اس صورت میں جو اموال صلح سے حاصل ہوں گے وہ حکم "فئے" میں داخل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اموال "فئے" خالص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار و تصرف میں ہوتے تھے۔" چونکہ فدک بھی بغیر کسی جنگ و جدل کے مسلمانوں کے قبضے میں آیا تھا، لہذا اس کا تعلق بھی مال فئے سے تھا۔ اہلسنت کے مطابق انبیا کی کوئی مالی وراثت نہیں ہوتی، البتہ انبیا وراثت میں اپنا علم چھوڑتے ہیں۔ لہذا قرآن کریم میں کہیں پر بھی مالی وراثت کا تذکرہ نہیں آیا۔ جہاں پر وراثت کا تذکرہ ہے، وہ صرف اور صرف علم و نبوت سے خاص ہے۔ لہذا مستند روایت کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فدک کو بطور میراث طلب کرنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں، لیکن انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہماری وراثت نہیں ہوتی، جو مال ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے لیے ایک خادمہ مانگنے گئی تھیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خادمہ نہیں دی، بلکہ ان کو 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر کا ذکر کرنے کی ہدایت کی۔ بہرحال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت سے کوئی مال نہیں دیا اور یہی معاملہ تمام امہات المومنین کے ساتھ فرمایا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوئیں لیکن امام شعبی کی ایک صحیح مرسل روایت کے مطابق وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گئی تھیں۔ علما کا کہنا ہے کہ بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تا حیات ناراضی کا قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نہیں بلکہ امام زہری کا ادراج ہے اور ان کا ادراج ضعیف شمار ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہ توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک ٹکڑا زمین پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی سے تمام عمر ناراض رہیں، جس نے اپنا تمام مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کر دیا تھا۔ کائنات کی بہترین خاتون سے ایسی توقع رکھنا بھی منفی سوچ ہے اور اسلام ایسی بدگمانیوں سے ممانعت کی تلقین دیتا ہے۔
یہ حدیث اہل تشیع کی معتبر کتب میں علی المرتضی اور امام جعفر صادق سے مروی ہے إن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر[20]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.