![cover image](https://wikiwandv2-19431.kxcdn.com/_next/image?url=https://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/9/90/%25D8%25B9%25D8%25A8%25D8%25AF_%25D8%25A7%25D9%2584%25D9%2584%25D9%2587_%25D8%25A8%25D9%2586_%25D8%25B9%25D9%2585%25D8%25B1.png/640px-%25D8%25B9%25D8%25A8%25D8%25AF_%25D8%25A7%25D9%2584%25D9%2584%25D9%2587_%25D8%25A8%25D9%2586_%25D8%25B9%25D9%2585%25D8%25B1.png&w=640&q=50)
عبد اللہ بن عمر
From Wikipedia, the free encyclopedia
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (10ق.ھ / 74ھ)یہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ ان کی والدہ کا نام زینب بنت مظعون ہے۔یہ بچپن ہی میں اپنے والد ماجد کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ یہ علم و فضل کے ساتھ بہت ہی عبادت گزار اور متقی وپرہیز گار تھے ۔ میمون بن مہران تابعی کا فرمان ہے کہ میں نے عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے بڑھ کر کسی کو متقی وپرہیز گار نہیں دیکھا۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے امام ہیں۔ یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات اقدس کے بعد ساٹھ(60) برس تک حج کے مجمعوں اور دوسرے مواقع پر مسلمانوں کو اسلامی احکام کے بارے میں فتویٰ دیتے رہے۔ مزاج میں بہت زیادہ سخاوت کا غلبہ تھا اور بہت زیادہ صدقہ وخیرات کی عادت تھی۔اپنی جو چیز پسند آجاتی تھی فوراً ہی اس کو راہ خدا عزوجل میں خیرات کردیتے تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں ایک ہزار غلاموں کو خرید خرید کر آزاد فرمایا ۔ جنگ خندق اور اس کے بعد کی اسلامی لڑائیوں میں برابر کفار سے جنگ کرتے رہے ۔ ہاں البتہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں آپ ان لڑائیوں میں غیر جانبدار رہے۔ عبد الملک بن مروان کی حکومت کے دوران حجاج بن یوسف ثقفی امیر الحج بن کر آیا۔ آپ نے خطبہ کے درمیان اس کو ٹوک دیا۔حجاج ظالم نے جل بھن کر اپنے ایک سپاہی کو حکم دے دیا کہ وہ زہر میں بجھایا ہوا نیزہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں مار دے چنانچہ اس مردود نے آپ کے پاؤں میں نیزہ مار دیا۔ زہر کے اثر سے آپ کا پاؤں بہت زیادہ پھول گیا اور آپ علیل ہو کر صاحب فراش ہو گئے۔ مکار حجاج بن یوسف آپ کی عیادت کے لیے آیا اور کہنے لگا کہ حضرت !کاش! مجھے معلوم ہو جاتا کہ کس نے آپ کو نیزہ مارا ہے ؟آپ نے فرمایا :اس کو جان کر پھر تم کیا کرو گے؟ حجاج بن یوسف نے کہا کہ اگر میں اس کو قتل نہ کروں تو خدا مجھے مار ڈالے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم کبھی ہرگز ہرگز اس کو قتل نہیں کروگے اس نے تو تمھارے حکم ہی سے ایسا کیا ہے۔ یہ سن کر حجاج بن یوسف کہنے لگا کہ نہیں نہیں ، اے ابو عبد الرحمن! آپ ہرگز ہرگز یہ خیال نہ کریں اور جلدی سے اٹھ کر چل دیا۔ اسی مرض میں 74ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے تین ماہ بعد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چوراسی یا چھیاسی برس کی عمر پا کر وفات پا گئے اور مکہ معظمہ میں مقام ”محصب” یا مقام ”ذی طویٰ”میں مدفون ہوئے ۔ [4][5]
عبد اللہ بن عمر | |
---|---|
(عربی میں: عبد الله بن عمر ابن الخطاب) ![]() | |
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 610ء ![]() مکہ [1] ![]() |
وفات | سنہ 693ء (82–83 سال)[2] ![]() مکہ ![]() |
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
زوجہ | صفیہ بنت ابی عبید [3] ![]() |
اولاد | سالم بن عبد اللہ ، حمزہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ، عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ، Bilal ibn Abdullah ibn Umar ، واقد بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب ، زید بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب ![]() |
والد | عمر ابن الخطاب [1] ![]() |
والدہ | زینب بنت مظعون ![]() |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | نافع مولی ابن عمر ، طاؤس بن کیسان ، بکیر بن الاخنس السدوسی ، محمد بن سیرین ، ابراہیم بن ابی عبلہ ![]() |
پیشہ | عسکری قائد ، محدث ، مفسر قرآن ، مفتی ![]() |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ![]() |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق ، جنگ موتہ ، غزوہ تبوک ، فتح مکہ ![]() |
درستی - ترمیم ![]() |