عبد اللہ بن ابی سرح
From Wikipedia, the free encyclopedia
عبد اللہ ابن سعد (عربی: عبداللہ بن سعد بن أبي السرح) عثمان بن عفان کے رضاعی بھائی اور سعد ابن سرح کے بیٹے تھے۔ مصر کی گورنری کے دوران میں (646ء تا 656ء)، ابن سعد نے مصری عرب بحریہ کی بنیاد رکھی۔ ان کی سپاہ سالاری میں مسلم بحریہ نے کئی فتوحات سمیٹیں جن میں 655ء میں بازنطینی حکمران قسطن ثانی سے پہلی بڑی بحری جنگ جنگ مستول بھی شامل ہے۔ ان کے عہد گورنری میں ایک اور اہم فتح 647ء میں تریپولی/طرابلس کی فتح بھی تھی، جس سے موجودہ لیبیا کا علاقہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔
عبد اللہ بن ابی سرح | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 7ویں صدی مکہ | ||||||
وفات | سنہ 656ء (5–6 سال) عسقلان | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
مناصب | |||||||
گورنر (2 ) | |||||||
برسر عہدہ 646 – 656 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | عسکری قائد ، والی | ||||||
درستی - ترمیم |
صحابی رسول اور کاتب وحی تھے۔ یہ عثمان غنی کے رضاعی بھائی ہیں، فتحِ مکہ سے پہلے ہی ایمان قبول کیا اور ہجرت کی، پھر شیطان کے بہکاوے میں آکر مرتد ہو گئے اور مشرکینِ مکہ سے جا ملے، فتحِ مکہ کے دن عثمان غنی کی سفارش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو امان دیا، پھر انھوں نے اسلام قبول کر لیا اور بہت پختہ مسلمان رہے، اسلام ہی پر ان کا خاتمہ ہوا۔[1]
ارتداد سے پہلے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کتابت کا بھی موقع نصیب ہوا، اہلِ تاریخ و سیر کا اس پر اتفاق ہے۔[2]
ان کے سلسلے میں بعض کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ: ابن ابی سرح قرآن مجید کی کتابت میں تبدیلی کر دیا کرتے تھے، اس پر ڈاکٹر محمد مصطفٰی اعظمی نے بڑی مفصل گفتگو کی ہے انھوں نے متعدد روایتوں کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
”حقیقت یہ ہے کہ سارا قصہ غلط ہے اور ابن ابی سرح کی طرف غلط منسوب ہے اس طرح کی بات کی نسبت متعدد لوگوں کی طرف کی گئی ہے، انھیں میں سے عبد اللہ بن خطل انصاری بھی ہے، جو مرتد ہو کر مرا تھا اور دفنائے جانے کے بعد زمین نے اس کو باہر پھینک دیا تھا،[3]
قرآن مجید کی ہر قسم کی تحریف سے سلامتی، اللہ تعالیٰ کا اس کی حفاظت کا ذمہ اٹھانا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرآن مجید کے معاملہ میں نمایاں درجہ کی احتیاط جس کی شہادت دوستوں سے قبل دشمنوں نے دی، ان تمام چیزوں کی موجودگی میں، ہمارے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم قرآن مجید میں تغیر کے اس قسم کے قصوں کو تسلیم کر لیں، خصوصاً ایسی روایات کی بنا پر جو بے سند ہیں اور جن کو ابن ابی سرح کے دشمنوں نے تراشا اور پھر ان سے دوسروں نے نقل کی۔
”معتمد علیہ قدیم مصادر میں ابن ابی سرح کے متعلق اس قسم کا کوئی قصہ مذکور نہیں ہے، قدیم مصادر میں سے ہمارے پاس سیرة ابن ہشام، سیرة ابن اسحاق وغیرہ ہیں ان میں صرف کتابت اور ارتداد کی بات ہے اور بس“۔
”اصل میں یہ حکایت ابن کلبی سے منقول ہے جو شیعہ تھا اور عثمانیوں کا دشمن تھا اور واقدی سے منقول ہے جو ضعیف بلکہ وضعِ حدیث کیساتھ متہم تھا۔“اخیر میں خلاصہ کے طور پر لکھتے ہیں:
”کاتبانِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب کوئی ایسی بات کہ فلاں اور فلاں قرآن میں تحریف کیا کرتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے غافل تھے، جھوٹی اور خلافِ واقع بات ہے، دین اس قسم کی ہفوات کو تسلیم کرتا ہے نہ علمی مباحث میں ایسی باتوں کو کوئی حیثیت حاصل ہے“۔ [4]