ضلع رحیم یار خان
پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع From Wikipedia, the free encyclopedia
پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع From Wikipedia, the free encyclopedia
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.
ضلع رحیم یار خان پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر رحیم یار خان ہے۔ مشہور شہروں میں رحیم یار خان اور صادق آباد شامل ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا تخمینہ 31,41,053 تھا۔ ضلع رحیم یار خان میں عمومی طور پر سرائیکی، پنجابی اور اردو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 11,880 مربع کلومیٹر ہے۔
Rahim Yar Khan District | |
---|---|
ضلع | |
ضلع رحیم یار خان | |
ضلع رحیم یار خان پنجاب، پاکستان کے نقشے پر | |
متناسقات: 28°25′12″N 70°18′00″E | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | پنجاب |
ہیڈکوارٹر | رحیم یار خان |
تحصیلیں | 4 |
رقبہ | |
• کل | 11,880 کلومیٹر2 (4,590 میل مربع) |
آبادی (1998 مردم شماری)[1] | |
• کل | 3,141,053 |
• تخمینہ (2009)[1] | 4,741,053 |
• جنس تناسب | 108.8 مرد / 100 خواتین[1] |
منطقۂ وقت | پاکستان معیاری وقت (UTC+5) |
ویب سائٹ | www |
اسے انتظامی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
1751 ءمیں ایک قدیم ویرانہ (ٹھیڑ) پھل وڈا پر ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی گئی اور اسے نوشہرہ کا نام دیا گیا۔ سٹیٹ گزٹئیر 1904 ءمیں اس کی تاریخ کی بابت یہ الفاظ درج ہیں:”سومرودور حکومت میں یہاں پھل اور اس کا بیٹا لاکھا حکمران رہے۔”1881ء میں اس شہر کا نام رحیم یار خان رکھا گیا۔ 1881ء میں ریلوے حکام نے نواب آف بہاولپور سے درخواست کی کہ نوشہرہ نام کا شہر صوبہ سرحد میں بھی موجود ہے جو ریلوے حکام کے لیے مغالطہ کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے اس کا نام تبدیل کیا جائے۔ نواب صادق محمد خان رابع نے اپنے بیٹے کے نام پر اس شہر کا نام تبدیل کرکے رحیم یار خان رکھ دیا۔ شہزادہ رحیم یار خان چار سال کی عمر میں آگ میں جھلس جانے سے فوت ہو گیا تھا۔رحیم یار خان شہر کو اہمیت 1928ء میں ملنا شروع ہوئی جب ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت پنجند ہیڈ ورکس تعمیر ہوا ۔ دوامی اور غیر دوامی انہار کا اجراءہوا۔1934ء میں رحیم یار خان کو ضلعی ہیڈ کوارٹر بنایا گیا جبکہ اس سے قبل خانپور ضلعی ہیڈکوارٹر ہوتا تھا۔ رحیم یار خان بہاول پور ریاست کا حصہ تھا۔ قیام پاکستان کے وقت ریاست کا پاکستان سے الحاق ہو گیا اور 1956ءمیں ون یونٹ کے قیام کے وقت ریاست بہاولپور کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا اور یوں ضلع رحیم یار خان پنجاب کا ایک ضلع بن گیا۔
ضلع رحیم یار خان کی کل آبادی 1998 ءکی مردم شماری کے مطابق 31,41,053 افراد پر مشتمل ہے جبکہ 2008ءتک آبادی میں اضافہ 31فیصد کی شرح سے(3.1فیصد سالانہ) ضلع کی کل آبادی 41,14,779 (اکتالیس لاکھ چودہ ہزار سات سو اناسی )ہے ۔
ضلع رحیم یار خان شمالی عرض بلد میں 40-27 ڈگری سے 16-29 ڈگری اور مشرقی طول بلد میں 45-60ڈگری سے 01-70ڈگری پر واقع ہے۔ رحیم یار خان سطح سمندر سے 88 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ ضلع کا کل رقبہ 11,880مربع کلومیٹر ہے ضلع کی شمال سے جنوب کی طرف لمبائی180 کلومیٹر اور چوڑائی مشرق سے مغرب کی طرف 165 کلومیٹر ہے اس میں چولستان کا غیر پیمودا رقبہ شامل نہیں ہے۔ضلع کے شمال میں مظفر گڑھ، مشرق میں بہاولپور، جنوب میں انڈیا کی ریاست جیسلمیر اور ضلع گھوٹکی (سندھ) اور مغرب میں ضلع راجن پور واقع ہے۔
رحیم یار خان ایک گرم ترین علاقہ ہے یہاں کا درجہ حرارت 52سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور سردیوں میں 3/4سنٹی گریڈ تک ہو جاتاہے۔
ہیڈ پنجند پر پنجاب کے پانچ دریا ملتے ہیں ہیڈ پنجند سے ایک ہی دریا ،دریائے پنجند یا دریائے چناب 20 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ضلع رحیم یارخان کی حدود میں داخل ہوتا ہے یہ دریاشمالاًجنوباًبہتاہوا رحیم یارخان کے تاریخی قصبہ چاچڑاں سے شمال مغرب کی طرف تقریباً 15/10 کلومیٹر پر دریائے سندھ کے ساتھ مل جاتاہے۔پھر یہی دریادریائے سندھ بن کر رحیم یارخان کے مغرب میں تحصیل صادق آباد کے ایک قصبہ ماچھکا کی حدود تک بہتا ہے اور پھر صوبہ سندھ کی حدود میں داخل ہو تا ہے۔
ضلع رحیم یارخان ہر انداز میں ایک زرخیز علاقہ ہے یہاں پاکستان کی نمایاں شخصیات نے جنم لیا ہے ان میں خواجہ غلام فریدرحمتہ اللہ علیہ ہیں جن کی شاعری سرائیکی زبان میں ایک مقتد رحیثیت رکھتی ہے۔ضلع رحیم یارخان کی ایک بہت بڑی آبادی انھیں ملک الشعر ءمانتی ہے۔ان کے علاوہ پاکستان کی متعد د سیاسی شخصیات کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے ۔
ضلع میں ریلوے کا نظام 1881ءمیں قائم کیا گیا۔90ء کی دہائی میں فضائی سفر شیخ زیدبن سلطان کی وجہ سے حاصل ہوا۔
صحت کی بہتر ین سہولتوں کے ساتھ ایک ہسپتال اور میڈیکل کالج بھی ہزہائی نس شیخ زائد بن سلطان النہیان کی ذاتی دلچسپی کے باعث قائم کیا گیا ہے ۔
پولیس کا محکمہ کرنل منچن نے 1867ء میں متعارف کرایا۔اس وقت پوری ریاست میں تین کوتوال ہوتے تھے جن میں سے ایک خانپور میں ہوتا تھا۔1866ء تک خانپور میں جیل تھی جو سیلاب کی نذر ہو گئی 1949ءمیں پھر رحیم یارخان میں جیل بنائی گئی ۔
ضلع رحیم یارخان تہذیبی اور معاشرتی اعتبار سے منفرد اور غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے اس کے صحرا ﺅں میں جہاں ہزاروں سالوں کے تہذیبی راز دفن ہیں وہاں یہ زندگی کے جدید ترین اور غالب رجحانات کا مرکز بھی ہے۔گویا ضلع رحیم یارخان میں انسان کے قدیم دور سے جدید دور تک معاشرتی ،تہذیبی اور ثقافتی سفر کے ارتقائی عمل کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔یہاں ایک طرف توعظیم صحرائے چولستان کے ٹیلوں میں زندگی کا فطری اور قدرتی انداز اور رنگ موجود ہے جبکہ دوسری جانب زندگی جدید ترین شعور اور انداز کے تحت جلوہ گ رہے موہنجوداڑو اور ہڑپہ سے بھی قدیم تہذیب کے مد فن دریائے ہاکڑہ کے ساتھ ساتھ قدیم آبادی کی تہذیبی میراث ہیں۔سندھ کے قرب کی وجہ سے لسانی وثقافتی اشتراک ہے۔پاکستان کے مختلف صوبوں اور شہروں سے آبادکاروں کی آمد سے قبائلی ،پوٹھوہاری ،پنجابی اور قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آمد بشمول سرائیکی پنجابی اور اہل زبان (اردو)کے معاشرتی وثقافتی اور تہذیبی عوامل کے تال میل نے ضلع رحیم یارخان کو منی پاکستان کا درجہ دیدیا ہے۔ان تمام معاشرتی گروہوں نے اپنی انفرادیت بھی برقرار رکھی ،تغیرپذیری اور باہمی ا ثر پذیری سے ان کی خوبصورتی میں اضافہ بھی ہوا۔ضلع رحیم یارخان میں3 62.6 فیصد لوگ سرائیکی زبان بولنے والے ہیں نئے آبادکاروں میں ارائیں ،جٹ ،راجپوت اور گجروں کی کثرت ہے جو پنجاب کے مشرقی اور مغربی اضلاع سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں۔قدیم مقامی آبادکاروں میں سانگی سیال عباسی پنوار راجپوت رحمانی دشتی گوپانگ مستوئی جتوئی ملک جوئیہ ،وٹو ،داﺅ دپوترا ،بلوچ سید اور پٹھان شامل ہیں۔چولستان میں بوہڑ ،لاڑ بھیل ،ڈاہر اور ککر آباد ہیں ۔