برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی
From Wikipedia, the free encyclopedia
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی یا برطانوی شرق الہند کمپنی جسے انگریزی (British East India Company) کہا جاتا ہے، جزائر شرق الہند میں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا تاہم بعد ازاں اس نے برصغیر میں کاروبار کے علاوہ تخت و تاج پر نظریں مرکوز کر لیں اور یہاں برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کا راج تھا۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔
سابقہ قسم | عوامی |
---|---|
صنعت | بین الاقوامی تجارت |
قسمت | تحلیل |
کالعدم | 1 جون 1874 (1874-06-01) |
صدر دفتر | لندن، انگلستان |
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1600ء میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان سے تجارت کا پروانہ ملا۔ 1613ء میں اس نے سورت کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی۔ جہاں سے مصالحہ جات برآمد کرکے یورپ میں بھاری داموں فروخت کیا جاتا تھا۔ 1623ء میں جب ولندیزیوں (ڈچ) نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرکوز کر دی۔ 1662ء میں بمبئی بھی اس کے حلقہ اثر میں آ گیا۔ اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتی بندرگاہ بن گیا۔ 1689ء میں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخر ہندوستان میں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی۔ 1795ء میں جب فرانس نے نیدرلینڈ (ڈچ) فتح کر لیا تو برطانیہ نے ڈچ کولونیوں پر قبضہ کر لیا۔ نیدر لینڈ کے بڑے بینکار (Hope) لندن منتقل ہو گئے اور اس طرح مالیاتی مرکز ایمسٹرڈم سے لندن منتقل ہو گیا۔
1858ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی 1602ء میں بنی تھی مگر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ بڑی ثابت ہوئی۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس 4785 بحری جہاز تھے جبکہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس 2690 جہاز تھے۔[1]
انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی لمیٹڈ کمپنی تھی۔ اس کے 125 شیئر ہولڈرز تھے اور یہ 72000 پاونڈ کے سرمائے سے شروع کی گئی تھی۔[2]
2010ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانی نژاد برطانوی کاروباری شخصیت سنجیو مہتا نے خرید لیا۔[3]