پیغمبر۔ قرآن میں متعدد جگہ آپ کا ذکر ہے۔ سورۃ النساء آیہ 163 اور سورۃ انعام آیہ 85 میں ‌دوسرے انبیا کرام کے ناموں کے ساتھ صرف آپ کا نام ہے، حالات نہیں۔ سورۃ انبیا (آیہ 83 تا 84) اور سورۃ ص (آیہ 41 تا 44) میں ‌آپ کا مختصر حال بیان کیا گیا ہے۔ قرآن سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہت خوش حال اور مالدار تھے۔ مفسرین نے آپ کے تفصیلی حالات لکھے ہیں جو تھوڑے سے اضافے کے ساتھ تمام تر بائبل سے ماخوذ ہیں۔ بائبل میں پورا ایک صحفہ (سفر ایوب) کے نام سے ہے۔ جو قدیم شاعری کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اس کے مطابق آپ کا نا یوباب تھا اور آپ زراح بن رعوائل بن عیسوا دوم بن اسحاق کے بیٹے تھے۔ عیسوا دوم حضرت اسحاق سے ناراض ہو کر اپنے چچا حضرت اسماعیل کے پاس چلے گئے تھے، کیونکہ ان کے بھائی یعقوب نے اپنے باپ سے نبوت حاصل کر لی تھی۔ بائبل نے آپ کا وطن بصری بتایا ہے جو فلسطین کے پاس ایک چھوٹا سا شہر ہے۔

 مکمل

اجمالی معلومات پیغمبر, Ayūbأيوب Job ...
پیغمبر
Ayūb
أيوب
Job
(عربی میں: أيوب)  ویکی ڈیٹا پر  (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش تخمیاً 1500 ق م
مدفن مقبرہ ایوب   ویکی ڈیٹا پر  (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر نام אִיּוֹב ʾIyyôḇ
عملی زندگی
پیشہ واعظ ،  اسلامی نبی   ویکی ڈیٹا پر  (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت اللہ کے ساتھ وفادار رہتے ہوئے سخت آزمائشوں کو برداشت کرنا
بند کریں

مورخین کا بیان ہے کہ آپ نے حضرت اسماعیل کی لڑکی سے شادی کی۔ علاوہ ازیں دو اور نکاح کیے اور ان سے جو اولاد ہوئی اُسے لے کر کوہ شعر (کوہ سرات) کے دامن میں ‌چلے گئے۔ یہ مقام شمال مغربی عرب میں واقع ہے۔ کچھ مدت بعد آپ کے قبیلے نے ایک طاقتور قوم کی شکل اختیار کر لی جس پر آٹھ بادشاہوں نے حکومت کی۔ حضرت ایوب دوسرے بادشاہ تھے، بائبل میں ان آٹھوں بادشاہوں کے نام درج ہیں۔ بعض مورخین نے آپ کا زمانہ 1000 ق م اور بعض نے 1520 ق م بتایا ہے۔ بائبل کے مطابق آپ نے ایک سو چالیس سال کی عمر پائی۔

حضرت ایوب (علیہ السلام) اور قرآن عزیز

قرآن عزیز میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر چار سورتوں میں آیا ہے : سورة نساءسورہ انعامسورہ انبیاء اور سورہ ص۔ سورہ نساء اور سورہ انعام میں تو انبیا (علیہم السلام) کی فہرست میں فقط نام مذکور ہے :
{ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ } [1]
” اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان۔ “
{ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ } [2]
” اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون۔ “
اور سورة انبیاء اور ” سورہ ص “ میں مجمل تذکرہ ہے اور صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر آزمائش و امتحان کا ایک سخت وقت آیا اور مصیبتوں اور بلاؤں نے چہار جانب سے ان کو گھیر لیا ‘ مگر وہ صبر و شکر کے ماسوا حرف شکایت تک زبان پر نہیں لائے اور آخر کار ان کو خدائے تعالیٰ نے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا اور مصائب کے بادل دور کر کے ان کو فضل و عطا سے مالا مال کر دیا۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن عزیز کے بیان کردہ واقعات سے قبل حضرت ایوب (علیہ السلام) کی شخصیت پر تاریخ کی روشنی میں بحث کرلی جائے تاکہ ہم اس ہستی کا صحیح تعارف کرسکیں جس کے صبر و شکر کی قرآن عزیز نے مدحت کی اور جس کی زندگی کو مبارک اور اخلاقی بلندی میں ضرب المثل ٹھہرایا ہے۔

خاندان

ابن عساکر کے مطابق ایوب علیہ السلام کی والدہ لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور ایوب کے والد ان لوگوں میں شامل تھے جو ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور نہیں جلے۔ پہلی بات کو زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے کہ ایوب ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ

وَوَهَبْنَا لَـهٝٓ اِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوُوْدَ وَسُلَيْمَانَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰى وَهَارُوْنَ ۚ وَكَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ

ترجمہ : اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا، ہم نے سب کو ہدایت دی اور اس سے پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون ہیں اور اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔[3][4]

مندرجہ بالا بیان کے تحت وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ کی ضمیر ابراہیم کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ نوح کی طرف۔ اور سب سے مستند یہی سمجھا جاتا ہے کہ ایوب عیض بن اسحاق کی نسل سے تھے۔ ایوب کی اہلیہ کا نام ”لیا بنت یعقوب“ تھا بعض روایات کے مطابق ”رحمت بنت افرائیم“ تھا۔ اور بعض کے مطابق لیا بنت منسا بن یوسف بن یعقوب تھا۔ اور لیا بنت منسا ہی سب سے مستند سمجھا جاتا ہے۔[3]

صاحبِ وحی

ایوب مذہبِ اسلام میں ان انبیاء علیہم السلام میں سے ہیں جن کی طرف وحی بھیجنے کی صراحت اللہ نے اپنے اس فرمان سے کری ہے :

إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإْسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا

ترجمہ :

ہم نے تیری(محمد) طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے وحی بھیجی نوح پر اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد آئے، اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر، اور ہم نے داؤد کو زبور دی۔[5]

حضرت ایوب (علیہ السلام) کی شخصیت

حضرت ایوب (علیہ السلام) کی شخصیت سے متعلق تحقیق کے لیے صرف دو مآخذ ہو سکتے ہیں ایک توراۃ اور دوسرے وہ اقتباسات جو تاریخ قدیم سے اخذ کر کے مورخین عرب اور مورخین اسلام نے نقل کیے ہیں اور اگر ان کے ساتھ چند خارجی قرائن کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس مسئلہ پر کافی روشنی پڑتی ہے۔
حضرت ایوب (علیہ السلام) کے متعلق سب سے قدیم شہادت سفر ایوب کی ہے ‘ یعنی وہ صحیفہ جو مجموعہ توراۃ میں ایوب (علیہ السلام) کی جانب منسوب ہے اور جس میں ان کی حیات طیبہ کے متعلق تفصیلی حالات درج ہیں۔ سفر ایوب میں تاریخی حیثیت سے ایوب (علیہ السلام) کے متعلق دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سر زمین عوض کے باشندہ تھے۔
” عوض کی سرزمین میں ایوب نام ایک شخص تھا۔ وہ شخص کامل اور راست باز تھا اور خدا سے ڈرتا اور بدی سے دور رہتا تھا۔ “ [6]
دوسری بات یہ ہے کہ ان کے مویشی اور چوپایوں پر سبا اور کسدیوں (بابلیوں) نے حملہ کر کے لوٹ لیا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان دونوں قوموں کے زمانہ عروج کے معاصر تھے۔

یوباب اور ایوب

سفرِ ایوب کے ان دو حوالوں کی وضاحت کے علاوہ ایک اور تاریخی مسئلہ بھی ہے جس سے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے زیر تحقیق مسئلہ میں مدد مل سکتی ہے وہ یہ کہ توراۃ اور کتب تاریخ میں ایک نام یوباب آتا ہے اور محققین کا خیال اس کے متعلق یہ ہے کہ ایوب اور یوباب ایک ہی شخصیت کے دونام ہیں۔دراصل عبرانی میں یوباب کو اوب کہا گیا ہے اور یہی اوب عربی میں ایوب ہو گیا۔ لیکن اس تحقیق کے باوجود کہ ایوب ‘ یوباب اور اوب مختلف زبانوں میں ایک ہی شخصیت کے نام ہیں ‘حضرت ایوب (علیہ السلام) کی شخصیت سے متعلق مسئلہ پھر بھی حل طلب رہتا اور کچھ تفصیل چاہتا ہے۔
توراۃ کے بیان کے مطابق یوباب دو جدا جدا شخصیتوں کا نام ہے۔ ایک بنی یقطان میں سے ہے اور دوسرا بنی ادوم میں سے۔ جو یوباب یقطان کی نسل سے ہے ‘اس کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی مقدم ہے کیونکہ اس کا سلسلہ نسب پانچ واسطوں سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے۔ یعنی یوباب بن یقطان بن عبر بن سلح بن ارفکسد بن سم (سام) بن نوح (علیہ السلام) [7] اور جو بنی ادوم میں سے ہے وہ بھی اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے ہے لیکن یوباب اول کے زمانہ سے اس کا عہد متاخر ہے۔اس لیے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے تذکرہ میں یہ ذکر آچکا ہے کہ ادوم حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے صاحبزادہ عیسو (عیص یا عیصو) کا لقب ہے اور یہ کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے بڑے تھے اور کنعان سے ترک وطن کر کے اپنے چچا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس حجاز میں آگئے تھے اور ان کی صاحبزادی محلات (مہلت) [8] یا بشامہ (باسمہ) سے شادی کر کے عرب کے اس حصہ سرزمین میں آباد ہو گئے تھے جو شام و فلسطین کے جنوب مغرب میں عرب کی آخری حد ہے اور جس جگہ کوہ ساعیر کا سلسلہ طول میں شمال سے جنوب تک چلا گیا ہے یا یوں کہہ دیجئے کہ وہ مقام جو عمان سے حضرموت تک وسیع ہے۔ [9]
ان عیسو (ادوم) کی نسل میں صدیوں تک حکومت و سطوت کا دور رہا ہے اور مورخین کے نزدیک ان کے دور حکومت کی ابتدا تقریباً 1700 ق م بتائی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں جب بنی اسرائیل مصر سے واپس آئے ہیں تو اس وقت بھی بنی ادوم شعیر (ساعیر) پر حکمراں تھے توراۃ میں ہے :
” تب موسیٰ نے قادس سے ادوم کے بادشاہ کو ایلچی کے ہاتھوں یوں کہلا بھیجا کہ تیرے بھائی اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ سب تکلیفیں جو ہم پر آن پڑی ہیں تو جانتا ہے۔اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت قادس سے روانہ ہو کر کوہ ہو رپر آئی اور خداوند نے کوہ ہور پر جو ادوم کی سرحد سے ملا ہوا تھا موسیٰ اور ہارون کو کہا۔ “ [10]
بنی ادوم ٣ ؎ کے ان حکمرانوں کی جو فہرست توراۃ میں مذکور ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل پر ساؤل (طالوت) کی وسیع حکومت سے پہلے جس کی وسعت خطہ ادوم تک پہنچی اور جو ١٠٠٠ ق م میں قائم ہوئی تھی ‘ آٹھ حکمراں برسر حکومت رہ چکے تھے اور ان میں سے دوسرے حکمراں کا نام یوباب بن زارح تھا۔ [11]
اس حد پر پہنچ کر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت ایوب (علیہ السلام) اور یوباب دونوں نام ایک ہی شخصیت کے ہیں تو ان دونوں میں سے کس یوباب کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے ؟ اس کے جواب میں مورخین کی دورائیں ہیں۔۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ یہ بنی یقطان کی نسل سے اور عرب عاربہ میں سے ہیں اور اس لیے حضرت ایوب (علیہ السلام) یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے معاصر ہیں اور یا کم از کم حضرت اسحاق و حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے معاصر۔ فرماتے ہیں :
” اولاً محققین توراۃ میں سے اکثر اس طرف گئے ہیں کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) عرب تھے ‘عرب میں ظاہر ہوئے تھے اور سفر ایوب اصلاً قدیم عربی میں لکھی گئی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے قدیم عربی سے عبرانی میں منتقل کیا۔سفر ایوب میں ہے کہ وہ عوض کے ملک میں رہتے تھے اور آگے چل کر تصریح کی ہے کہ ان کے مویشی پر شیبا ( سبا) کے لوگوں نے اور کسدیوں (بابلیوں) نے حملہ کیا تھا۔ [12]
ان دونوں تصریحوں سے بھی اس کی تصدیق ہوجاتی ہے کیونکہ کتاب پیدائش اور تواریخ اول میں عوض کو ارام بن سام بن نوح کا بیٹا کہا ہے اور ارامی بالاتفاق عرب عاربہ کی ابتدائی جماعتوں میں سے ہیں۔ “ [13]
عرب مورخ ابن عساکر (رحمۃ اللہ علیہ) کا رجحان بھی اسی جانب معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو قریب بعہد ابراہیمی مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے معاصر اور دین ابراہیمی کے پیرو تھے۔ [14]
اور نجار مصری اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا زمانہ حضرت ابراہیم سے ایک سو سال پہلے تھا۔ [15]
ان دونوں کے برعکس مولانا سید سلیمان فرماتے ہیں کہ ایوب (علیہ السلام) بنی ادوم میں سے ہیں اور ان کا زمانہ 1000 ق م اور 700 ق م کے درمیان ہے۔ چنانچہ ارض القرآن میں ہے :
” یہ مسئلہ کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) ایک ادومی عرب تھے خود سفر ایوب سے ثابت ہے ”
عوض کی سرزمین میں ایک مرد صالح ‘ راست گو ‘ خدا سے ڈرنے والا اور بدی سے دور تھا “ [16]
عوض توراۃ میں دو آدمیوں کانا م ہے۔ ایک تو نہایت قدیم عوض بن ارم بن سام بن نوح۔ [17]
دوسرا عوض بن ویسان بن عیسو بن اسحاق بن ابراہیم۔ [18]
باتفاق اہل کتاب اس سے عوض ثانی مراد ہے۔ عوض کے بنی ادوم عرب ہونے پر ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ سفر ایوب میں رفقائے ایوب کے جو مسکن بتائے ہیں۔
وہ تیمن ‘ نعمتان اور شوحان ہیں۔ [19]
اول کے متعلق تو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ مملکت ادوم کا ایک مشہور شہر تھا۔ [20]
زمانہ کے متعلق بھی فیصلہ اس لیے آسان ہے کہ ” کلدان “ اور سبا [21] [22]
ان کا اس میں ذکر معاصرت ہے۔
سبا کا عروج 1000 ق م میں ہوا ہے اور کلدانیہ کا اختتام 700 ق م میں۔ ان دونوں کا مشترک عہد 1000 ق م سے 700 ق م تک ہے۔ اس لیے ان دونوں زمانوں کے حدود میں کہیں حضرت ایوب (علیہ السلام) کا عہد قرار دینا چاہیے۔ “ [23]
یہ عجیب بات ہے کہ زمانہ کے تعین میں دونوں حضرات سبا اور کلدانیوں (بابلیوں) کی معاصرت کی سند پیش فرماتے ہیں ‘ مگر نتیجہ جدا جدا نکالتے اور ایک دوسرے کے متضاد فیصلہ دیتے ہیں۔
سید سلیمان ندوی صاحب کی تائید مشہور مورخ یعقوبی کے قول سے ہوتی ہے ‘ وہ لکھتا ہے :
( (یوباب ھو ایوب بن زارح الصدیق) )
” یوباب ہی ایوب صدیق بن زارح ہیں۔ “
ان تفصیلات کے بعد ہمارا خیال یہ ہے کہ بے شبہ یہ صحیح ہے کہ یوباب ہی ایوب (علیہ السلام) ہیں اور راجح یہ ہے کہ بنی یقطان میں سے نہیں بلکہ بنی ادوم میں سے ہیں۔

عہد ایوب (علیہ السلام)

البتہ زمانہ کے متعلق سید سلیمان ندوی صاحب کی تحقیق صحیح نہیں ہے اور ان کا یہ فرمانا کہ ایوب (علیہ السلام) کا عہد 1000 ق م سے 700 ق م کے درمیان ہے ‘ غیر تحقیقی ہے۔
بلکہ صحیح اور تحقیقی بات یہ ہے کہ ایوب (علیہ السلام) کا زمانہ حضرت موسیٰ اور حضرت اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) کے زمانہ کے درمیان ہے اور تقریباً 1500 ق م اور 1300 ق م کے حدود میں تلاش کرنا چاہیے۔
ہماری یہ تحقیق چند اہم قرائن پر مبنی ہے اور جو اس درجہ واضح ہیں کہ اگر ان کو دلائل بھی کہہ دیا جائے تو بے جا نہیں ہے :
پہلا قرینہ یہ ہے کہ بالاتفاق محققین توراۃ کے نزدیک صحیفہ ایوب (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قبل زمانہ کا ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قدیم عربی سے عبرانی میں منتقل کیا ہے اور یہ کہ مجموعہ توراۃ میں سب سے قدیم صحیفہ سفر ایوب ہے۔

شجرہ نسب

1 جن مورخین نے ایوب (علیہ السلام) کو بنی ادوم میں سے بتایا ہے وہ بھی ادوم (عیسو یا عیص) اور ان کے درمیان دو واسطوں سے زیادہ بیان نہیں کرتے یعنی ایوب بن زراح (زارح ) بن موص (عوض) بن عیصو (عیسو)
2 یہی مورخین حضرت ایوب (علیہ السلام) کا سلسلہ نسب بیان کرتے ہوئے جب مادری سلسلہ پر آتے ہیں تو لوط (علیہ السلام) کی صاحبزادی سے لے کر صاحبزادگان تک حضرت یوسف (علیہ السلام) کی صاحبزادیوں کے ذکر کے نیچے نہیں اترتے۔ مثلاً ابن عساکر کہتے ہیں کہ وہ بنت لوط (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں اور قاضی بیضاوی نقل کرتے ہیں کہ وہ لیا بنت یعقوب (علیہ السلام) یا ماخیر بنت میشا بن یوسف (علیہ السلام) یا رحمت بنت افرائیم بن یوسف (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں۔
3 سید سلیمان ندوی صاحب نے عوض کا جو نسب نامہ نقل کیا ہے اس کے پیش نظر بھی حضرت ایوب (علیہ السلام) کا نسب نامہ اس طرح بغیر کسی جرح و تنقید کے صحیح ہو سکتا ہے یعنی یوباب (ایوب) بن زارح بن عوض بن دیسان بن عیسو بن اسحاق (علیہ السلام) اور اس سلسلہ میں اگرچہ عام مورخین کے بیان کردہ نسب نامہ سے صرف ایک نام دیسان کا اضافہ ہوتا ہے تاہم اس سے یہ فرق نہیں پڑتا کہ ان کا زمانہ پیچھے ہٹ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے بھی بعد ہوجائے اور 1000 ق م اور 700 ق م کے درمیان پہنچ جائے۔
مسطورہ بالا قرائن یا دلائل میں سے پہلا قرینہ بہت مضبوط اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ محققین توراۃ نے تاریخی روشنی ہی میں یہ متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ سفر ایوب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد سے قبل زمانے کا ہے اور اس لیے یہ قرینہ نہیں بلکہ زبردست دلیل ہے اور دوسرا اور تیسرا قرینہ اگرچہ ناموں کے تعین کے لحاظ سے قابل بحث ہو سکتا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ توراۃ اور تاریخی نقول کا سلسلہ نسب کے متعلق یہ بیان کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے نواسہ یا حضرت لوط (علیہ السلام) کے نواسہ ہیں ‘ محض اتفاقی نہیں ہے بلکہ کسی حقیقت پر مبنی ہے اور چوتھا قرینہ بھی یہ واضح کرتا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا زمانہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ہونا چاہیے اور وہ 1500 ق م اور 1300 ق م کے درمیان ہو سکتا ہے۔ امام بخاری (رحمۃ اللہ علیہ) کی بھی غالباً یہی تحقیق ہے ‘ اسی لیے انھوں نے کتاب الانبیاء میں انبیا (علیہم السلام) کے متعلق جو ترتیب قائم کی ہے اس میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے قبل کیا ہے۔

غلط فہمی کا ازالہ

ایوب (علیہ السلام) کے سلسلہ نسب میں توراۃ کے ناموں اور مؤرخین عرب کے ناموں میں کچھ اختلاف ہے لیکن بہ نظر تحقیق یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقیقی اختلاف نہیں ہے بلکہ ناموں کے متعلق اس قسم کا اختلاف ہے جو عموماً مختلف زبانوں میں منتقل ہونے کی وجہ سے کتاب کی تصحیف و تبدیل کی شکل میں پیش آتا رہتا ہے۔ یعنی توراۃ کا عوض اور عرب مورخین کا موص اور اسی طرح توراۃ کا زارح اور مؤرخین کا زراح دونوں ایک ہی ہیں البتہ جن بعض مؤرخین نے موص یا اموص کو ایوب اور زراح (زارح) کے درمیان بیان کر دیا ہے۔
وہ صحیح نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ بعض حضرات نے ایوب (علیہ السلام) کا نسب بیان کرتے ہوئے روم بن عیص کہہ کر ان کو بنی روم سے بتایا ہے ‘ یہ قطعاً بے اصل ہے۔

حضرت ایوب (علیہ السلام) اور علمائے یہودو نصاریٰ

حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بارہ میں صحیح تحقیق کے بعد یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ ایوب (علیہ السلام) کے متعلق علما یہود و نصاریٰ کے درمیان سخت اختلاف ہے۔ان میں سے بعض تو یہ کہتے ہیں کہ یہ فرضی نام ہے اور ایوب کسی شخصیت کا نام نہیں مثلاً ربی ‘ ممانی دیز ‘ میکائیلس ‘ سملر ‘ استان اسی کے قائل ہیں۔اور کہتے ہیں کہ اس شخصیت سے متعلق جس قدر واقعات منسوب ہیں ‘ سب باطل اور فرضی ہیں۔
گویا ان کے نزدیک سفر ایوب اگرچہ تاریخی اعتبار سے قدیم صحیفہ ہے ‘ مگر فرضی ہے اور کانٹ اور انٹل وغیرہ کہتے ہیں کہ ایوب (علیہ السلام) ایک حقیقی شخصیت کا نام ہے اور اس سے منسوب ” صحیفہ “ کو فرضی اور باطل کہنا خود باطل ہے۔ [24]
مگر شخصیت تسلیم کرنے کے باوجود پھر تعین زمانہ کے متعلق ان کے درمیان سخت اختلاف ہے اور مورخین عرب کے درمیان بھی اختلاف ہے جو نقشہ ذیل سے معلوم ہو سکتا ہے :
بستانی۔ 100 قبل از عہد ابراہیم (علیہ السلام)
ابن عساکر۔ قریب بعہد ابراہیمی
کانٹ۔ معاصر یعقوب (علیہ السلام)
انٹل۔ معاصر موسیٰ (علیہ السلام)
طبری۔ بعد زمانہ شعیب (علیہ السلام) ، معاصر سلیمان (علیہ السلام)
ابن خیثمہ۔ بعد سلیمان (علیہ السلام)
ابن اسحق۔ اسرائیلی مگر زمانہ نامعلوم ، معاصر بخت نصر (بنوکدنصر) ، معاصر زمانہ قضاۃ بنی اسرائیل ، معاصر ارد شیر شاہ ایران
غرض حضرت ایوب (علیہ السلام) کی شخصیت کو جب تاریخ کی روشنی میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔تو یقینی طور پر حسب ذیل نتائج ظاہر ہوتے ہیں : حضرت ایوب (علیہ السلام) عرب ہیں اور تمام مختلف اقوال میں بھی ان کے عرب ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
1۔ مجموعہ توراۃ میں سے صحیفہ ایوب قدیم صحیفہ اور عبرانی میں عربی سے نقل ہو کر آیا ہے۔
2۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) بنی ادوم میں سے ہیں۔
3۔ ان کا عہد حضرت یعقوب اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا درمیانی عہد ہے۔

قرآن عزیز اور واقعہ ایوب (علیہ السلام)

حضرت ایوب (علیہ السلام) سے متعلق مسطورہ بالا حقائق روشن ہوجانے کے بعد اب اس مختصر اور مجمل واقعہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے جو سورة انبیا اور سورة ص میں مذکور ہے :
{ وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ۔ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰہُ اَھْلَہٗ وَ مِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ ۔ } [25]
” اور ایوب (کا معاملہ بھی یاد کرو) جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا ” میں دکھ میں پڑگیا ہوں اور خدایا ! تجھ سے بڑھ کر رحم کرنے والا کوئی نہیں “ پس ہم نے اس کی دعا قبول کرلی اور اس کا دکھ دور کردیا اور اس کو اس کا کنبہ اور اس کی مثل اس کے ساتھ اپنی رحمت سے اور اپنے عبادت گزار بندوں کی نصیحت کیلئے عطا کردیا۔ “
{ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا اَیُّوْبَم اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِی الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ۔ اُرْکُضْ بِرِجْلِکَط ہٰذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ وَّشَرَابٌ ۔ وَوَہَبْنَا لَہٗ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ ۔ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّہٖ وَلَا تَحْنَثْط اِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًاط نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗ اَوَّابٌ ۔ } [26]
” اور یاد کر ہمارے بندے ایوب (کے معاملہ ) کو جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا کہ مجھ کو شیطان نے ایذاء اور تکلیف کے ساتھ ہاتھ لگایا ہے (تب ہم نے اس سے کہا) اپنے پاؤں سے ٹھوکر مار (اس نے ایسا ہی کیا اور چشمہ زمین سے ابل پڑا تو ہم نے کہا) یہ ہے نہانے کی جگہ ٹھنڈی اور پینے کی اور ہم نے اس کو اس کے اہل (و عیال) عطا کئے اور ان کی مانند اور زیادہ اپنی مہربانی سے اور یادگار بننے کیلئے عقلمندوں کیلئے ‘ اور اپنے ہاتھ میں سینکوں کا مٹھا لے اور اس سے مار اور اپنی قسم میں جھوٹا نہ ہو ‘ بیشک ہم نے اس کو صبر کرنے والا پایا (اور وہ اچھا بندہ ہے) بےشبہ وہ (خدا کی جانب) بہت رجوع ہونے والا تھا۔ “
ان آیات میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کے واقعہ کو اگرچہ بہت مختصر اور سادہ طرز میں بیان کیا گیا ہے لیکن بلاغت و معانی کے لحاظ سے واقعات کے جس قدر بھی صحیح اور اہم اجزاء تھے ان کو ایسے اعجاز کے ساتھ ادا کیا گیا ہے کہ سفر ایوب کے ضخیم اور طویل صحیفہ میں بھی وہ بات نظر نہیں آتی۔
ایک پاک اور مقدس انسان ہے جو خدائے تعالیٰ کے یہاں انبیا ورسل کی جماعت میں شامل ہے اور اس کا نام ایوب ہے۔
وَاذْکُرْ عَبَدْنَا اَیُّوْبَ [27]
وہ دولت و ثروت اور کثرت اہل و عیال کے لحاظ سے بھی بہت خوش بخت اور فیروز مند تھا ‘ مگر یکایک امتحان و آزمائش میں آگیا اور متاع و مال ‘ اہل و عیال اور جسم و جان سب کو مصیبت نے آگھیرا۔ مال و منال برباد ہوا ‘ اہل و عیال ہلاک ہوئے اور جسم و جان کو سخت روگ لگ گیا ‘ تب بھی اس نے نہ شکوہ کیا اور نہ شکایت بلکہ صبر و شکر کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی جناب میں صرف عرض حال کر دیا :
{ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ } [28] پاس ادب کا یہ عالم ہے کہ یہ نہیں کہا : ” تو نے مصیبت میں ڈال دیا “ کیونکہ اس کو علم ہے کہ تکلیف و عذاب گو خدا ہی کی مخلوق ہیں مگر شیطانی اسباب پر ظہور پزیر ہوتے ہیں اس لیے یہ کہا ” شیطان نے مجھ کو تکلیف و عذاب کے ساتھ چھو دیا “ اور پھر عرض حال کے لیے نہایت عجیب و لطیف اور بلیغ پیرایہ بیان اختیار کیا کہ { اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ } ” خدایا مجھ کو مصیبت نے آگھیرا ہے۔
“ { وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ } ” اور تو مہربانوں میں سب سے بڑا مہربان ہے “ اور جب اس نے پکارا تو خدا نے سنا اور قبول کیا۔ جو مال و متاع برباد ہوا اور جو اہل و عیال ہلاک ہوئے خدا نے اس سے چند در چند اور زیادہ اس کو بخش دیے اور صحت و تندرستی کے لیے چشمہ جاری کر دیا کہ غسل کر کے چنگا ہوجائے :
{ اِرْکُضْ بِرِجْلِکَج ہٰذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ وَّشَرَابٌ ۔ وَوَہَبْنَا لَہٗ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ۔ } [29]
{ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰہُ اَھْلَہٗ وَ مِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَۃً } [30]
اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ” رحمت “ اس کا ذاتی وصف ہے :
{ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ } [31]
اور تاکہ اہل بصیرت اور فرمان بردار بندے اس سے نصیحت و عبرت حاصل کریں ۔
{ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ } [32] { رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ } [33]
اور پھر حضرت ایوب (علیہ السلام) کے صبر و عبودیت کی تعریف کرتے ہوئے اس نے یہ کہہ کر ان کی عظمت کو چار چاند لگادیے :
{ اِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًاط نِعْمَ الْعَبْدُط اِنَّہٗ اَوَّابٌ} [34]
” اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے ایوب کو بڑا ہی صابر پایا ‘ وہ بہت ہی اچھا بندہ اور ہماری جانب ہر حال میں رجوع ہونے والا تھا۔ “
ان چار پانچ آیات میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کے جس واقعہ کا اظہار کیا گیا ہے ‘ اس کے اعجاز کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انھی واقعات کو بیان کرنے میں سفر ایوب کے طویل بیالیس ابواب اور کئی سو آیات نے جگہ لی ہے۔

چند تفسیری حقائق

اس مقام پر چند تفسیری حقائق کا بیان کردینا بھی ضروری ہے۔ جو ایوب (علیہ السلام) کے واقعہ سے خاص تعلق رکھتے ہیں :
اسرائیلی روایات میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کے مرض کے متعلق مبالغہ آمیز روایات درج ہیں اور ان میں ایسے امراض کا انتساب کیا گیا ہے جو باعث نفرت سمجھے جاتے اور جن کی وجہ سے مریض انسان سے بچنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً جذام یا پھوڑے پھنسیوں کا اس حد تک پہنچ جانا کہ بدن گل سڑ جائے اور بدبو سے نفرت پیدا ہونے لگے۔ ان روایات کو نقل کرنے کے بعد بعض مفسرین نے یہ اشکال پیدا کیا کہ ” نبی “ کو ایسا مرض لاحق نہیں ہوتا جو انسانوں کی نگاہوں میں باعث نفرت ہو اور اس کی وجہ سے وہ مریض سے دور بھاگتے ہوں اس لیے کہ یہ نبوت کے مقصد تبلیغ و ارشاد کے منافی ہے اور رشدو ہدایت کے لیے رکاوٹ کا باعث اور پھر اس کے دو جواب دیے ایک یہ کہ شاید حضرت ایوب (علیہ السلام) کو یہ مرض نبوت سے پہلے لاحق ہوا ہو اور مصیبت و آزمائش پر صبر و شکر کے بعد جب ان کو شفا عطا ہوئی تب منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا ہو اور دوسرا جواب یہ کہ اسرائیلی روایات غیر مستند اور مبالغہ آمیز ہیں اور قرآن عزیز اور احادیث رسول میں اس کے متعلق کوئی تفصیل موجود نہیں ہے ‘ لہٰذا نہ اشکال پیدا ہوتا ہے اور نہ اس کے جواب کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ محققین کی رائے یہی ہے اور یہی صحیح اور درست ہے اور جبکہ قرآن عزیز نے مرض کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی اور تمام ذخیرہ حدیث اس کے ذکر سے خالی ہے تو اسرائیلی روایات پر بحث قائم کرنا فضول اور لغو ہے۔
پہلی نکتہ { مَسَّنَیَ الشَّیْطٰنُ } سے کیا مراد ہے ؟ اسرائیلی روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کے آزمانے کے لیے ان کے مال و منال ‘ اہل و عیال حتیٰ کہ ان کے جسم پر بھی شیطان کو قابو دے دیا تھا۔ اور محققین کہتے ہیں کہ ایوب (علیہ السلام) نے یہ بات پاس ادب کے طور پر فرمائی اس لیے کہ یہ حقیقت ہے کہ خدا کی جانب سے تو خیر ہی خیر ہے اور جس شے کو ہم ” شر “ کہتے ہیں ‘ وہ ہماری نسبت سے ” شر “ ہے ‘ ورنہ کائنات کے مجموعی مصالح کے لحاظ سے غور کرو گے تو اس کو بھی خیر ہی ماننا پڑے گا۔ ہماری زندگی اور ہمارے اعمال کی نسبتیں بعض چیزوں کو ” شر “ بنادیتی ہیں ‘ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بھی ” خیر “ ہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اسی حقیقت کے اظہار کے لیے متقین کا یہ طریقہ ہے کہ جب ان کو بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اس کی نسبت خدائے تعالیٰ کی جانب کرتے ہیں اور جب ان پر کوئی برائی حملہ کرتی ہے تو اس کو اپنے نفس کی جانب منسوب کرلیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن عزیز میں ایک جگہ اس مضمون کو اس طرح ادا کیا گیا ہے :
{ مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِز وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ } [35]
یہی حضرات کرام دوسری توجیہ یہ کرتے ہیں کہ سورة انبیا میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کا جو مقولہ بیان کیا گیا ہے { رَبِّ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ } (ص ٣٨/٤١) تو اس سے وہ مرض مراد ہے جو ایوب (علیہ السلام) کو لاحق تھا اور سورة ص کی اس آیت میں شیطان کی ایذاء (نصب) اور عذاب سے وہ وساوس و ہموم مراد ہیں جو اس کی جانب سے ان پر ہجوم کرتے اور آئی ہوئی مصیبت کی وجہ سے خدائے تعالیٰ کی ناشکرگزاری اور جزع و فزع پر آمادہ کرنے کے لیے حملہ آور ہوتے رہتے تھے اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے صبر و استقبامت اور انابت الی اللہ کے پاک جذبات کو ٹھیس لگا کر ان کی روحانی اذیت و تکلیف کا باعث ہوتے اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے جسمانی مرض کے مقابلہ میں بہت زیادہ پریشان کن بنتے رہتے تھے۔
دوسرا نکتہ آیت { وَوَھَبْنَا لَہٗ اَھْلَہٗ وَمِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ } [36] میں اہل و عیال کی عطا کا جو ذکر آیا ہے ‘ کیا اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کی صحت کے بعد ان کے ہلاک شدہ اہل و عیال کی جگہ پہلے سے زیادہ ان کے اہل و عیال میں اضافہ کر دیا اور جو اہل خاندان منتشر ہو گئے تھے ان کو دوبارہ ان کے پاس جمع کر دیا یا یہ مقصد ہے کہ ہلاک شدگان کو بھی حیات تازہ بخش دی اور مزید عطا کر دیے۔ ابن کثیر (رحمۃ اللہ علیہ) نے حسن اور قتادہ ; سے یہی دوسری معنی نقل ١ ؎ کیے ہیں اور شاہ عبد القادر صاحب نور اللہ مرقدہ کی بھی یہی رائے ہے ٢ ؎ اور امام رازی و ابوحیان ; کا رجحان پہلے معنی کی جانب ہے اور آیت میں دونوں معنی کی گنجائش ہے۔
تیسرا نکتہ سورة ص میں ہے { وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہٖ وَلَا تَحْنَثْ } [37] ” اور اپنے ہاتھ میں سینکوں کا مٹھا لے پھر اس سے مار اور قسم میں جھوٹا نہ ہو “ تو یہ کس واقعہ کی جانب اشارہ ہے ؟ قرآن عزیز اور احادیث صحیحہ میں تو اس کی کوئی تفصیل مذکور نہیں۔ البتہ مفسرین یہ کہتے ہیں کہ ایوب (علیہ السلام) کی ہر قسم کی بربادی کے بعد جب ان کی بیوی کے علاوہ کوئی ان کا غمگسار باقی نہ رہا تو وہ نیک بی بی ہر وقت ایوب (علیہ السلام) کی تیمار داری میں مشغول اور دکھ درد کی شریک رہتی تھی۔ ایک مرتبہ اس نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی انتہائی تکلیف سے بے چین ہو کر کچھ ایسے کلمات کہہ دیے جو صبر ایوبی کو ٹھیس پہنچانے والے اور خدائے تعالیٰ کی جناب میں شکوہ کا پہلو لیے ہوئے تھے۔ ایوب (علیہ السلام) اس کو برداشت نہ کرسکے اور قسم کھا کر فرمایا کہ میں تجھ کو سو کوڑے لگاؤں گا۔ جب حضرت ایوب (علیہ السلام) کی مدت امتحان ختم ہو گئی اور وہ صحت یاب ہوئے تو قسم پوری کرنے کا سوال سامنے آیا۔ ایک جانب رفیقہ حیات کی انتہائی وفاداری ‘ غم خواری اور حسن خدمت کا معاملہ اور دوسری جانب قسم کو سچا اور پورا کرنے کا سوال۔ ایوب (علیہ السلام) سخت تردد میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک بی بی کی نیکی اور شوہر کے ساتھ وفاداری کا یہ صلہ دیا کہ ایوب (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ وہ سوتنکوں کا ایک مٹھا بنائیں اور اس سے اپنی رفیقہ حیات کو ماریں اس طرح آپ کی قسم پوری ہو جائے گی ۔
چوتھا نکتہ سورة ص میں ہے { اُرْکُضْ بِرِجْلِکَج ہٰذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ وَّشَرَابٌ} [38] ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اس کی تفسیر میں جو کچھ فرمایا ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے :
” اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایوب اپنی جگہ سے اٹھو اور زمین پر ٹھوکر مارو۔ ایوب (علیہ السلام) نے ارشاد باری کی تعمیل کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک چشمہ جاری کر دیا جس میں انھوں نے غسل کیا اور جسم کا ظاہری رو گ سب جاتا رہا۔ اس کے بعد انھوں نے پھر ٹھوکر ماری اور دوسرا چشمہ ابل پڑا اور انھوں نے اس کا پانی پیا اور اس سے جسم کے باطنی حصہ میں مرض کا جو اثر تھا اس کا بھی قلع قمع ہو گیا اور اس طرح وہ چنگے ہو کر شکر خدا بجالائے۔ “ [39]
حافظ ابن حجر نے بو واسطہ ابن جریر ‘ قتادہ سے بھی اسی قسم کا قول نقل کیا ہے۔ [40]

شفایابی

اللہ تعالیٰ نے ایوب پر ایک وحی نازل فرمائی تھی جس کے بعد وہ شفایاب ہو گئے تھے۔

اُرْكُضْ بِـرِجْلِكَ ۖ هٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ

ترجمہ :
اپنا پاؤں (زمین پر) مار، یہ ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو ہے۔[41]

اور ایوب شفا کے پانی میں نہانے کے بعد شفایاب ہو گئے تھے۔ جب ان کی بیوی آئیں تو وہ ان کو دیکھ کر پہچان نہیں پائیں۔[3]

  • ابن کثیر کے مطابق ”جب ان کی بیوی دیر سے پہنچی تو دیکھنے لگ گئی اتنے میں ایوب علیہ السلام اس کی طرف آئے جب اللہ نے ان کی بیماری ختم کردی تھی۔ اور وہ بہت خوبصورت حالت میں تھے بیوی آپ کو دیکھ کر پہچان نہیں سکی اور کہنے لگی کیا تو نے اللہ کے نبی کو دیکھا ہے جو اس جگہ بیماری کی حالت میں موجود تھے؟ اللہ کی قسم میں نے کوئی نہیں دیکھا جو آپ کی مشابہ ہو جب وہ صحیح اور تندرست تھے انھوں نے جواب دیا میں وہی ہوں۔ “
  • ابن جریر طبری کے مطابق ”ایوب علیہ السلام کے دو کھلیان تھے ایک گندم کا ایک جو اللہ نے دو بادل بھیجے ایک بادل گندم کے کھلیان پر آیا اور اس نے سونا برسایا یہاں تک وہ لباب بھر گیا پھر دوسرے نے جو کے کھلیان پر چاندی برسائی یہاں تک کہ وہ لباب بھر گیا“۔[3]
  • ابن ابو حاتم نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کا لباس پہنایا۔ ایوب علیہ السلام ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے آپ کی بیوی آئی اور آپ کو پہچان نہ سکی۔ اور کہنے لگی اے اللہ کے بندے اس جگہ ایک مریض تھا وہ کہاں گیا شاید اسے کتے لے گئے یا بھیڑئیے کھا گئے وہ کچھ دیر بات کرتی رہی۔ تو آپ نے فرمایا میں ہی ایوب ہوں تو کہنے لگی اے اللہ کے بندے میرے ساتھ کیوں مذاق کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے میں ہی ایوب ہوں اللہ نے مجھے شفا عطا فرمائی اور میرا جسم درست کر دیا“۔[3]
  • ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ پاک نے حضرت ایوب علیہ السلام کو تندرستی دی تو ان پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش برسائی آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لے کر کپڑوں پر ڈالنے لگے آپ کو کہا گیا کہ کیا تو سیر نہیں ہوا آپ نے بارگاہ الہٰی میں عرض کی یا اللہ تیری رحمت سے کون سیر ہو سکتا ہے۔ “(ابن ابی حاتم)

چشمہ ایک تھا یا دو اس بحث سے قطع نظر ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے لیے صحت کا جو طریقہ اختیار فرمایا وہ فطری طریقہ ہے۔ آج بھی ایسے معدنی چشمے اس نے کائنات انسانی کے فائدے کی خاطر ظاہر کر رکھے ہیں جن میں غسل کرنے اور ان کا پانی پینے سے بہت سے امراض کم ہوجاتے یا دور ہوجاتے ہیں۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ ایسے چشمے کا ظہور ایوب (علیہ السلام) کے لیے اعجاز کی صورت میں ہوا اور عام حالات میں اسباب کے ماتحت ہوا کرتا ہے۔
امام بخاری (رحمہ اللّٰہ علیہ) نے اپنی صحیح میں روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حضرت ایوب (علیہ السلام) غسل فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سونے کی چند ٹڈیاں ان پر برسائیں ایوب (علیہ السلام) نے ان کو دیکھا تو مٹھی بھر کر کپڑے میں رکھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کو پکارا : ایوب ! کیا ہم نے تم کو یہ سب کچھ دھن دولت دے کر غنی نہیں بنادیا پھر یہ کیا ؟ ایوب (علیہ السلام) نے عرض کیا :
پروردگار ! یہ صحیح اور درست ہے مگر تیری نعمتوں اور برکتوں سے کب کوئی بے پروا ہو سکتا ہے۔ ولکن لا غنی عن برکتک۔ [42]
اس روایت کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں کہ امام بخاری کی اپنی شرط کے مطابق حضرت ایوب (علیہ السلام) کے واقعہ سے متعلق کوئی خبر ثابت نہیں ہو سکی ‘ اس لیے صرف مسطورہ بالا روایت ہی پر انھوں نے اکتفا کیا۔ اس لیے کہ وہ ان کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر اپنی جانب سے فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں اگر کوئی روایت صحت کو پہنچ سکی ہے تو وہ حضرت انس (رضی اللّٰہ عنہ) کا ایک اثر ہے جس کو ابن ابی حاتم اور ابن جریج نے روایت کیا ہے اور ابن حبان اور حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے اور وہ روایت اس طرح ہے :
حضرت انس (رضی اللّٰہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایوب (علیہ السلام) تیرہ سال تک مصائب کے امتحان میں مبتلا رہے ‘ حتیٰ کہ ان کے تمام عزیز و اقارب اور قریب و بعید کے متعارف سبھی نے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ البتہ اعزہ میں سے ان کے دو عزیز ضرور صبح و شام ان کے پاس آتے رہے۔ ایک مرتبہ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ایوب (علیہ السلام ) نے کوئی بہت ہی بڑا گناہ کیا ہے ‘ تبھی تو وہ اس کی پاداش میں ایسی سخت مصیبت کے اندر مبتلا ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو خدا ان پر مہربان نہ ہوجاتا اور ان کو شفا نہ ہوجاتی ؟ یہ بات دوسرے نے حضرت ایوب (علیہ السلام) سے کہہ سنائی۔ ایوب (علیہ السلام) یہ سن کر بہت بے چین اور مضطرب ہو گئے اور خدائے تعالیٰ کی درگاہ میں سر بسجود ہو کر دعا گو ہوئے۔ اس کے فوراً بعد ہی ایوب (علیہ السلام) رفع حاجت کے لیے جگہ سے اٹھے اور ان کی بیوی ان کا ہاتھ پکڑ کرلے گئیں۔ جب فارغ ہو گئے اور وہاں سے علاحدہ ہوئے تو خدا کی وحی نازل ہوئی کہ زمین پر پاؤں سے ٹھوکر مارو اور جب انھوں نے ٹھوکر ماری تو پانی کا چشمہ ابل پڑا اور انھوں نے غسل صحت کیا اور پہلے سے زیادہ صحیح و تندرست نظر آنے لگے۔ یہاں بیوی انتظار کر رہی تھیں کہ ایوب (علیہ السلام) تازگی اور شگفتگی کے ساتھ سامنے نظر آئے وہ قطعاً نہ پہچان سکیں اور ایوب (علیہ السلام) کے متعلق انھی سے دریافت کرنے لگیں۔ تب آپ نے فرمایا میں ہی ایوب ہوں اور خدا کے فضل و کرم کا واقعہ سنایا۔ روزمرہ کے کھانے کے لیے ایوب (علیہ السلام) کے پاس ایک گٹھڑی گیہوں کی اور ایک جو کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دولت میں اضافہ کرنے کے لیے گیہوں کو سونے اور جو کو چاندی سے بدل دیا۔ [43]
قریب قریب اسی قسم کا واقعہ ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللّٰہ عنہ) سے بھی روایت کیا ہے اور مدت مصیبت کے متعلق وہب بن منبہ تین سال بیان کرتے ہیں اور حسن سے سات سال منقول ہیں۔ [44]

مرض کا عرصہ

اس میں کئی اقوال ہیں :

  • وہب بن منبہ کے مطابق ”مکمل تین سال“
  • انس بن مالک کے مطابق ”سات سال اور کچھ مہینے اور آپ کو کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا گیا اور آپ کے جسم میں بہت سے کیڑے پیدا ہو گئے یہاں تک کہ اللہ نے ان کی تکلیف کو دور فرمایا“
  • حضرت حمید کے مطابق ”18 سال آپ اس مرض میں مبتلا رہے “۔
  • اسماعيل بن عبد الرحمن السدی فرماتے ہیں کہ
آپ کا گوشت گل سڑا گیا تھا، ہڈیاں اور پٹھے باقی رہ گئے تھے اور آپ کی زوجہ راکھ لاکر ان کے جسم کے نیچے بچھا دیتی جب تکلیف کی مدت زیادہ ہوگئی تو آپ کی بیوی نے کہا اے ایوب! آپ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ اس تکلیف سے چھٹکارا عطا کرے اور آزمائش ٹال دے۔ایوب علیہ السلام نے جواب دیا اللہ نے مجھے ستر سال صحت وسلامتی سے نوازا تو کیا میں ستر سال بیماری پر صبر نہیں کر سکتا تو آپ کی زوجہ روپڑیں اور لوگوں کے گھروں میں محنت ومزدوری کرتیں اور اس کی جو کچھ مزدوری ملتی تو اس سے آپ کے کھانے کا انتظام کرتیں۔

سفرِ ایوب

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور اس قسم کی روایات کا مآخذ سفر ایوب سے منقول اسرائیلی روایات ہیں۔ اس لیے کہ اس صحیفہ میں ہی ایوب (علیہ السلام) کے متعلق یہ دو باتیں خصوصیت سے درج ہیں جن کا ذکر قرآن عزیز میں موجود نہیں ہے۔ ایک یہ کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے چند دوستوں نے ان سے کہا تھا کہ تو نے کوئی سخت گناہ کیا ہے ‘ تبھی اس مصیبت میں مبتلا ہوا۔ دوسری یہ کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور ان سے مناظرہ کیا۔ یہ مناظرہ بہت طویل ہے اور صحیفہ کے اکثر ابواب اسی سے متعلق ہیں اور جب دونوں دوستوں نے کسی طرح یقین نہ کیا تب بے چین و مضطرب ہو کر ایوب (علیہ السلام) نے خدا کی درگاہ میں دعا کی کہ ان کی صداقت ظاہر کر اور شفا یاب کر دے۔ چنانچہ سفرایوب میں ہے :
” تب تیمنی الیفز نے جواب دیا اور کہا : اگر ہم تجھ سے ایک بات کہیں تو کیا تو ناراض ہوگا۔۔ یاد کرنا ‘ کیا کوئی بے گناہ ہوتے ہوئے بھی کبھی ہلاک ہوا اور کہاں صادق مارے گئے۔ “[45]
” تب نعماتی ضوفر نے جواب دیا اور کہا : کیا طول کلام کا جواب نہ دیا جائے اور کیا کوئی شخص اپنی زیادہ گوئی سے بے گناہ ٹھہرے ؟۔۔ جان رکھ کہ خدا نے تیری بدکاری کا بہت ہی کم بدلہ لیا ہے۔ کیا تو اپنی تلاش سے خدا کا بھید پاسکتا ہے ؟ “[46]
حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اپنے ان دوستوں کے اس الزام کو تسلیم نہیں کیا اور مناظرے میں ان کو بتایا کہ میں بے گناہ ہوں اور یہ مصیبت خدا کی جانب سے ایک امتحان ہے اور ہم اس کی حکمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ چنانچہ خدائے تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کے کلام کی تصدیق کی اور ان کے دوستوں کو قصور وار ٹھہرایا۔ ” اور ایسا ہوا کہ جب خداوند ایوب سے یہ باتیں کہہ چکا تو خداوند نے الیفز تیمنی سے کہا کہ میرا غضب تجھ پر اور تیرے دونوں دوستوں پر بھڑکا ہے ‘ کیونکہ تم نے میری بابت حق باتیں نہیں کہیں ‘ جیسی میرے بندے ایوب نے کہی ہیں۔ [47]
سفر ایوب نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ان دوستوں کے نام یہ بتائے ہیں : الیفز تیمانی ‘ سوخی بلدو ‘ ضوفر نعماتی۔ اور محققین توراۃ کا یہ دعویٰ ہے کہ سفر ایوب قدیم عربی زبان کی غیر غنائی شاعری کا بے نظیر شاہکار ہے اور یہ کہ دنیا کی قدیم ترین نظم سفر ایوب ہے اور تاریخی اعتبار سے صرف رگ وید اس کا معارضہ کرسکتا ہے جبکہ اس کی تصنیف کے زمانہ سے متعلق وہ مذہب تسلیم کر لیا جائے جو رگ وید کو 1500 ق م یا اس سے بھی پیچھے لے جانا چاہتا ہے۔ [48]

وفات

سفر ایوب میں ہے کہ ابتلا سے نجات پانے کے بعد ایوب (علیہ السلام) ایک سو چالیس سال زندہ رہ کر انتقال کر گئے : ” بعد اس کے ایوب ایک سو چالیس برس جیا اور اپنے بیٹے اور اپنے بیٹوں کے بیٹے چار پشت تک دیکھے اور ایوب بوڑھا اور دراز عمر ہو کے مرگیا۔“ [49] ابن جریر طبری اور دیگر مؤرخین کے مطابق وفات کے وقت ایوب کی عمر تقریباً ترانوے برس تھی اور بعض کے خیال میں اس بھی زائد تھی۔[3]

بصائر

حضرت ایوب (علیہ السلام) کے واقعہ میں صبر و ضبط ‘ استقلال و استقامت اور مصائب و بلایا میں شکر وسپاس گزاری کے جو اسرار اور حکمتیں موجود ہیں وہ اہل بصیرت کے لیے درس عبرت ہیں۔ ان میں سے چند مسطورہ ذیل ہیں :
بندگان خدا میں سے جس کو خدائے تعالیٰ کے ساتھ جس قدر تقرب حاصل ہوتا ہے اسی نسبت سے وہ بلایا و مصائب کی بھٹی میں زیادہ تپایا جاتا ہے اور جب وہ ان کے پیش آنے پر صبر و استقامت سے کام لیتا ہے تو وہی مصائب اس کے درجات تقرب کی رفعت و بلندی کے سبب بن جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مضمون کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا :
( (قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الصالحون ثم الامثل فالامثل)) [50]
” مصائب میں سب سے زیادہ سخت امتحان انبیاء (علیہم السلام) کا ہوتا ہے ‘ اس کے بعد صلحاء کا نمبر ہے اور پھر حسب مراتب و درجات۔ “ [51]
( (قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یبتلی الرجل علی قدر دینہ فان کان فیہ دینہ صلابۃ زید فی بلاہ )) [52]
” انسان اپنے دین کے درجات کے مناسب آزمایا جاتا ہے پس اگر اس کے دین میں پختگی اور مضبوطی ہے تو وہ مصیبت کی آزمائش میں بھی دوسروں سے زیادہ ہوگا۔ “
1 وجاہت و عزت ‘ دولت و ثروت اور خوش حالی و رفاہیت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور احسان شناسی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے اور اگر رعونت و انانیت کار فرما نہیں ہے تو بہت آسان ہے لیکن مصیبت و بلاء ‘ رنج و محن اور عسرت و تنگ حالی میں رضا بقضارہ کر حرف شکایت تک زبان پر نہ لانا اور صبر و استقامت کا ثبوت دینا بہت مشکل اور کٹھن ہے۔ اس لیے کہ جب کوئی خدا کا نیک بندہ اس زبوں حالت میں ضبط و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور صبر و شکر کا مسلسل مظاہرہ کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی صفت ” رحمت “ بھی جوش میں آجاتی ہے اور ایسے شخص پر اس کے فضل و کرم کی بارش ہونے لگتی ہے اور غیر متوقع طور پر بے غایت افضال و اکرام سے نوازا جاتا اور دین و دنیا دونوں کی کامرانی کا حقدار بن جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی مثال اس کے لیے روشن شہادت ہے۔
{ وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ۔ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰہُ اَھْلَہٗ وَ مِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ ۔ } [53]
2 انسان کو چاہیے کہ کسی حالت بھی خدائے تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو اس لیے کہ قنوطیت کفر کا شیوہ ہے اور یہ نہ سمجھے کہ مصیبت و بلا محض گناہوں کی پاداش ہی میں وجود پزیر ہوتی ہیں ‘ بلکہ بسا اوقات آزمائش اور امتحان بن کر آتی اور صابر و شاکر کے لیے اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت وا کرتی ہیں۔ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرماتا ہے :
( (انا عند ظن عبدی بی)) (الحدیث)
” میں اپنے بندہ کے گمان سے قریب ہوں “
یعنی بندہ میرے متعلق جس قسم کا گمان اپنے قلب میں رکھتا ہے میں اس کے گمان کو پورا کردیتا ہوں۔
3 زن و شوہر کے تعلقات میں وفاداری اور استقامت سب سے زیادہ محبوب شے ہے اور اسی لیے ایک حدیث میں شیطانی وساوس میں سے سب سے زیادہ قبیح وسوسہ جو شیطان کو بہت ہی پیارا ہے زن و شوہر کے درمیان بدگمانی اور بغض و عداوت کا بیج بو دینا ہے۔ اسی لیے صحیح احادیث میں اس عورت کو جنت کی بشادت دی گئی ہے جو اپنے شوہر کے حق میں نیکوکار اور وفادار ثابت ہو اور اس وفا اور محبت کی قدر و قیمت اس وقت بہت زیادہ ہوجاتی ہے جب شوہر مصائب و آلام میں گرفتار ہو اور اس کے اعزہ و اقرباء تک اس سے کنارہ کش ہو چکے ہوں۔ چنانچہ ایوب (علیہ السلام) کی ” زوجہ مطہرہ “ نے ایوب (علیہ السلام) کے زمانہ مصیبت میں جس حسن وفا ‘ اطاعت ‘ ہمدردی اور غم خواری کا ثبوت دیا ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے احترام میں ایوب (علیہ السلام) کی قسم کو ان کے حق میں پورا کرنے کے لیے عام احکام قسم سے جدا ایک ایسا حکم دیا جس سے اللہ تعالیٰ کے یہاں اس نیک بی بی کی قدرو منزلت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔
4 عیش و راحت میں تواضع و شکر اور رنج و مصیبت میں ضبط و صبردو ایسی بیش بہا نعمتیں ہیں جس شخص کو یہ نصیب ہوجائیں وہ دین و دنیا میں کبھی ناکام نہیں رہ سکتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہر حالت میں اس کی رفیق رہتی ہے :
{ وَقَال تَعَالٰی وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ } [54]
” اور (یاد کرو ) جب تمھارے رب نے تم کو آگاہ کیا اگر شکر بجالاؤ گے تو میں تمھیں (اپنی نعمتیں) اور زیادہ دوں گا۔ “
{ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌلا قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌقف وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ۔ } [55]
” اور خوشنودی کی بشارت سنادو ان لوگوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے اور یہی سیدھے راستہ پر ہیں۔ “

مزید دیکھیے

حوالہ جات

Wikiwand in your browser!

Seamless Wikipedia browsing. On steroids.

Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.

Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.