تیسرا عباسی خلیفہ From Wikipedia, the free encyclopedia
المہدی باللہ العباسی (پیدائش: 744ء یا 745ء— وفات: 24 جولائی 785ء) خلافت عباسیہ کا تیسرا حکمران اور خلیفہ اسلام تھا۔
| ||||
---|---|---|---|---|
(عربی میں: أبو عبد الله محمد المهدي) | ||||
خلیفۃ الاسلام خلافت عباسیہ، بغداد | ||||
دور حکومت | 6 اکتوبر 775ء — 24 جولائی 785ء (9 سال 9 ماہ 18 دن شمسی) | |||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | 127ھ یا 128ھ/ 744ء یا 745ء حمیمہ | |||
وفات | اتوار 12 محرم 169ھ/ 24 جولائی 785ء (عمر: 42/43 سال قمری، 41/42 سال شمسی) ایذه | |||
شہریت | دولت عباسیہ | |||
مذہب | اسلام | |||
زوجہ | ملکہ خیزران، ریطہ بنت السفاح، اسماء بنت عطاء الجریشیہ، بحتریہ بنت الفراس، شکلہ بنت البلخی، ام عبد اللہ بنت العرب، رقیہ بنت عثمانید | |||
اولاد | موسیٰ الہادی ، ہارون الرشید ، علیہ بنت المہدی ، عباسہ | |||
والد | ابو جعفر منصور | |||
بہن/بھائی | جعفر ابن منصور | |||
خاندان | بنو عباس | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | سیاست دان ، شاعر ، خلیفہ | |||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | |||
درستی - ترمیم |
محمد المہدی کی ولادت 126ھ، 743ء میں اہواز کے ایک قصبہ ایرج میں ہوئی۔ اس کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب المہدی تھا۔ اس کی والدہ کا نام موسیٰ بنت منصور حمیری تھا۔ اسے بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ خلیفہ منصور نے خالد برمکی کو اس کا اتالیق مقرر کیا۔ اس نے اپنے والد اور جناب مبارک بن فضالہ سے حدیث کی سماعت کی۔ 761ء میں جب کہ اس کی عمر تقریبا اٹھارہ برس تھی منصور نے اس کی شادی اس کے چچا زاد ریطہ بنت ابوالعباس سفاح سے کر دی۔ منصور کو ریطہ سے بہت پیار تھا۔ ریطہ ورزشی اور کسرتی جسم کی مالک تھی۔ ظاہری شکل و صورت میں وہ زیادہ دلکشی اور رعنائی کی حامل نہ تھی۔ یہ گھریلو شادی تھی اور حقیقتاً مہدی جیسے خوبرو اور وجیہہ انسان کے لیے موزوں نہ تھی لہذا جب اسے موقع ملا تو اس نے دوسری شادی خیزراں سے کی جو حسن و خوبی میں اپنی مثال آپ تھی۔ اس کے بطن سے دو بیٹے الہادی اور ہارون الرشید پیدا ہوئے۔
ابوجعفر منصور کو عیسیٰ بن موسی کی ولی عہدی کے ممکنہ خطرات کا احساس تھا لہذا اس نے عالم طفولیت میں ہی مہدی کو مقبولیت عامہ دلانے اور حکومتی تجربہ سے گزارنے کے لیے مختلف اوقات میں کئی ایک مہمات کا انچارج بنایا۔ اس کی عمر جب صرف پندرہ برس تھی تو منصور نے اسے 762ء میں خراسان اور طبرستان کا والی اور سپہ سالار بنا کر وہاں بھیجا۔ مہدی تقریباً تین سال وہاں کے دار الحکومت رے میں قیام پزیر رہا۔ اس دوران اس کی نگرانی میں اس کے ماتحتوں نے باغیوں اور شورش پسندوں کو کچل دینے میں کا رہائے نمایاں سر انجام دیے۔ فوجی مہمات کے علاوہ اس نے اپنی زیر نگرانی خراسان اور اردگرد کے علاقوں کی ترقی و خوش حالی کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ چنانچہ 767ء میں جب وہ دار الخلافہ بغداد میں واپس لوٹا تو خلیفہ منصور اور سلطنت عیان و اکابرین نے شہر سے باہر اس کا استقبال کیا۔ اس کی حیثیت اب ایک ہیرو کی سی تھی ان کامیابیوں نے اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے اور یہی منصور کا مقصد تھا۔
منصور کی وفات کے بعد 158ھ 775ء میں منصور مہدی منصب خلافت پر متمکن ہوا۔ اس وقت اس کی عمر تقریبا 33 برس تھی۔ وہ اب ایک سرد و گرم چشیدہ انسان تھا۔ منصور نے عیسی بن موسیٰ کو بزور خلافت سے دستبردار کرا کے اسے اپنا ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔ جب مہدی نے عنان حکومت سنبھالی تو ملک میں امن و سکون کی فضا قائم ہو چکی تھی۔ علویوں اور بنو امیہ کے حامیوں کا خاتمہ کیا جاچکا تھا۔ مخالفین کے بچے کچھے لوگ قید و بند کی زندگی گزار رہے تھے۔ ملک کی اقتصادی حالت مستحکم ،خزانہ پر اور لوگ خوشی و خوش حالی کی زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے تھے۔ ملکی نظم و نسق مضبوط اور مرتب تھا۔ عدل و انصاف اور دارسی نے معاشرہ کو خیر و فلاح سے معمور کر دیا تھا اور تعلیم اور تعمیرات کا ذوق و شوق اپنی برق رفتاری سے عباسی خلافت کو دنیا میں معزز اور ممتاز بنانے کی ابتدا کر چکا تھا۔ علامہ سیوطی اور مشہور مورخ ابن کثیر کا بیان ہے کہ قیام خلافت کے بعد مہدی نے 158ھ میں بمقام بغداد پہلا خطبہ دیا جس میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا:
لوگو امیر المومنین بھی اللہ کا بندہ ہے۔ آواز دینے پر جواب دیتا ہے اور احکام کی تعمیل کرتا ہے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس کی آنکھیں ڈبڈا گئیں اور اس نے روتے ہوئے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے احباب کے فراق میں گریہ فرمایا اور مجھ پر بھی دوہری مصیبت پڑی ہے ایک تو میرے والد بزرگوار کا انتقال ہو گیا اور پھر خلافت کا بوجھ، خلافت کے بارے میں اللہ ہی سے میں امور خلافت کی تکمیل کا طلب گار ہوں وہی میری مدد کرے گا۔ لوگو اس شخٹ کی اطاعت قبول کرو جو تم میں عدل و انصاف کو رواج دے۔ تمھاری غربت و پریشان دور کرے۔ جو تمھارے لیے امن و سلامتی کے اسباب مہیا کرے جو تمھاری معیشت کے ذرائع تم پر کھولے۔ بخدا میں تمھیں سزائیں دینے سے گریز کروں گا اور اپنے آپ کو تم پر احسان کرنے پر مائل رہوں گا۔
اس کے بعد مہدی نے تمام علوی قیدیوں اور حجاز سے گرفتار شدہ لوگوں کو آزاد کر دیا بلکہ ان کی تمام مراعات بھی بحال کر دیں۔ مہدی کے اس محبت بھرے رویے نے اسے رعایا میں بہت مقبول بنا دیا۔
مہدی کو حالانکہ اپنے باپ کی طرف سے ایک پرامن ریاست ہاتھ آئی اس کے باوجود کہیں کہیں اسے مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ اس نے مختلف علاقوں میں جنگی مہمات بھی روانہ کیں۔ سندھ پر اس نے حملہ کیا اور کچھ اور علاقوں پر عباسی فوج قابض ہوئی۔ جزیرہ اور مصر کی بغاوتوں کو اس ختم کیا ساتھ ہی رومیوں کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں۔ وہ خود ایک زبردست لشکر لے کر رومیوں کے پے درپے حملوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ حلب میں خود ٹھہر کر ہارون کو حملے کے لیے بھیجا۔ عباسی فوج نے ایشیائے کوچک اور باسفورس تک پہنچ گئی۔ آئرن کی ملکہ نے تاوان کی عوص صلح کی۔ یوں رومیوں کی طرف ہونے والے حملوں کا سدباب کر دیا گیا۔ اس طرح اس دور میں کچھ فتنوں نے جنم لیا۔ جس میں ایک شخص منقع کا دعوی نبوت تھا۔ یہ شخص مرو کا رہنے والا تھا۔ ابومسلم خراسانی کے دفتر میں کاتب تھا۔ ایک آنکھ غائب تھی اس نے اپنے شعبدے سے ایک مصنوعی چاند بنایا جو ایک کنویں سے نکلتا اور چھ میل تک علاقے کو روشن رکھتا اس چاند کا نام چاہ نخشب رکھا گیا۔ مہدی نے اس شخص کے اور اس کے پیروکاروں کے خلاف کارروائی کی اور 777ء میں ان کا خاتمہ کر دیا گیا۔
دیکھیے مکمل مضمون الحاد و زندقہ کی تحریک
مہدی کے دور میں پنپنے والی اس تحریک کا مقصد اسلامی اصولوں کی رد تھا۔ یہ تحریک ایرانی مجوسیوں کے ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جنھوں نے بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن ایرانی قوم پرستی کے جذبہ سے مغلوب ہو کر یا بے دین فلسفیوں کی کج روی اور تشکیک پر منبی افکار و نظریات سے متاثر ہو کر ملحدانہ اور زندیقانہ نظریات کو قبول کر لیا تھا۔ وہ اب عربوں کے لائے ہوئے دین پر تنقید کرتے اور اسلامی اصولوں کو اپنے حقیقی بنیادوں سے ہٹ کر اپنے خود ساختہ نظریات کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔ مہدی چونکہ راسخ العقیدہ خلیفہ تھا س لیے اس نے اس تحریک کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ اس نے نے اس تحریک کے خاتمے کے لیے علما کی خدمات حاصل کیں اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کی بنا پر اس تحریک کا خاتمہ کر دیا گیا۔
مہدی اپنے باپ کے برعکس ایک نرم مزاج شخص تھا اس کا سب سے بڑا کارنامہ عام معافی کا علان تھا۔ جس کی وجہ سے علویوں اور فاطمیوں پر اس سے پہلے جو مظالم کے پہاڑ توڑے گئے اس کا خاتمہ ہو گیا یوں اندرونی اختلافات ختم ہوئے اور اسلامی ریاست میں اتحاد کی بنیادیں مضبوط ہو گئیں۔ دوسری جانب اس نے مختلف اعمال کو معزول کرکے ان کی جگہ وفادار لوگوں کو تعینات کیا۔ حکومتی نظام میں اصلاحات کیں۔ احتساب کا عمل شروع کیا۔ شروع میں اس نے بے دریغ دولت خرچ کی مگر بعد میں کفایت شعاری کو اپنایا اور یوں ملکی خزانے میں اضافہ کیا۔ اوقاف کا محکمہ قائم کیا جس کا مقصد مساجد اور مدارس کی دیکھ بھال تھا۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں تعمیرات کرائیں۔ نئی فوجی چھاونیاں اور قلعے تعمیر کیے۔ اور محتاج، مسکین اور یتیم لوگوں کے لیے وظیفوں کا اعلان کیا۔ اس لیے اس نے گداگری پر پابندی لگا دی۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود جو سب بڑا کارنامہ مہدی نے سر انجام دیا وہ الحاد و زندقہ کا خاتمہ تھا۔ جس کی وجہ سے اسلام کا تشخص اور اس کے اصول برقرار رہے۔
اپنے باپ کے الٹ مہدی بڑا شفیق، نرم خو اور درگزر رکنے والا۔ بذلہ سنج، خوش طبع انسا تھا۔ وہ اپنی رعایا کے تمام طبقات کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتا۔ اس نے مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنی سبھی مخالفین بالخصوص علویوں کے ساتھ بڑی رواداری کا ثبوت یا۔ اس نے تمام اہل بیت اور ان کے حامیوں کو قید خانوں میں بند تھے رہا کر دیا۔ اور ان کی مالی اعانت کی۔ جب کبھی وہ دشمنوں پر قابو پا لیتا تو ان کے ساتھ شرافت سے پیش آتا انہی اوصاف کے بدولت وہ خاص و عام میں مقبول ہوا۔
مہدی ایک بڑا راسخ العقیدہ مسلمان تھا جسے اپنے دین سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ پابند شریعت تھا۔ بصرہ کی جامع مسجد میں وہ پنج وقت کی نماز خود پڑھاتا تھا۔ وہ علما کا بڑا قدردان تھا۔ وہ ملحدوں اور زندیقوں کا جانی دشمن تھا۔ ان کے سدباب کے لیے اس نے ایک باقاعدہ الگ محکمہ قائم کر رکھا تھا۔ دین کی سرفرازی کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ملک میں کسی خلاف اسلام فرقہ یا گروہ کو پنپنے کا موقع نہ دیتا۔ اس کے علاوہ اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی عقیدت تھی۔ ایک دفعہ بصرہ والوں نے جب ایک نہر پر مقدمہ دائر کیا اور اس حوالے سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھی تو مہدی سجدے میں گر گیا اور کہا میں نے سنا جو حضور نے فرمایا میں نے اس کی اطاعت کی۔ اس کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر خطبہ کو حضور پر درود و سلام سے شروع کرتا۔ اخوت و مساوات وہ انسانی مساوات اور اخوت کا بڑا خوگر تھا۔ اس لیے اس نے بنو امیہ کے دور کے مساجد میں بنائے گئے اونچے اونچے منبر توڑ ڈالے۔ اس نے دربار اور حاضرین کے درمیان پردے اٹھوا دیے جن سے لوگں میں اس کی بڑی مقبولیت ہوئی۔ معاشرتی مساوات کے نقطہ نظر سے ایسے اقدامات اور اصلاحات بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ جس کے نتیجہ میں مساجد کا تقدس بحال ہوا اور بندہ و آقا کی تمیز باقی نہ رہی
اپنی نرم و درگزر کی پالیسی کے باوجود وہ امور ملکی سے کبھی غافل نہ رہا۔ وہ ملکی حالات سے با خبر رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا۔ اس نے تمام محکموں کی ازسرنو تنظیم کی۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک فرض شناش اور ڈسپلن کا خوگر اور قابل حکمران تھا۔ منصف مزاج طبری نے لکھا ہے کہ مہدی نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد سے پہلا کام یہ کیا وہ ہروز رصافہ میں لوگوں کی شکایات سننے کے لیے بیٹھتا۔ اس نے ایک شخص کی ڈیوٹی لگا رکھی تھے کہ وہ قصر کے سامنے ایک چادر پھیلا کر بیٹھ جائے تاکہ لوگ اس میں اپنی درخواستیں رکھ سکیں۔ وہ قاضیوں کے فیصلوں کا احترام کرتا۔ طبری کے بقول جب وہ عدالت میں بیٹھا تو ڈرتا کہ کہیں لوگوں کے حقوق پامال نہ ہو جائیں اس لیے قضا اور فقہا کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تاکہ ان سے مشورہ کر سکے۔
مہدی کی ایک بہت بڑی صفت یہ تھی کہ وہ صاحب علم اور علم نواز تھا۔ اس نے بغداد میں بے شمار مدارس کھولے۔ درالترجمہ قائم کیے اور بغداد یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ اس نے دینی علوم کی وسیع اشاعت کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی کتب عربی زبان میں ترجمہ کرائیں۔ اس نے سائنسی ترقی کے لیے رسد گاہیں تعمیر کیں۔ ان علوم و فنون کی اشاعت کے لیے ہر سال لاکھوں اشرفیاں خرچ کرتا۔ وہ خود ایک اچھاشاعر اور سخن شناس تھا۔ وہ شعرا کا بڑا قدر دان تھا اور ان کو انعامات سے نوازتا۔ شعرا کے علاوہ وہ فقہا اور محدثین کا بھی بڑا قدردان تھا۔
مہدی اپنے باپ منصور کی طرح خرچ میں نہ میانہ رو تھا نہ اس طرح کہ کفایت شعار بلکہ وہ ہاتھ کا کھلا اور ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والا فیاض انسان تھا۔ اس نے باپ کی وفات کے بعد سونے چاندی کے بے شمار خزانوں کو نکال کر عام لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس نے دس دنوں میں اپنے پشتینی مال سے دس کروڑ درہم خرچ کر دیے۔
مہدی بڑا خدا ترس انسان تھا۔ اس نے مروان ثانی کی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا ثبوت دیا اور اس کے لیے وظیفہ جاری کر دیا۔ ایک روز مہدی امامت کے لیے کھڑا ہوا تو ایک دیہاتی نے ان سے شکایت کی کہ امیر المومنین میں اس سے پہلے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھنا چاہتا تھا لیکن یہ خواہش پوری نہیں ہوئی مہدی نے نماز کھڑی کرنے میں توقف کیا جب تک وہ شخص وضو کرکے نماز میں شامل نہیں ہوا۔
مہدی کی سب سے بڑی کمزوری اپنی بیوی ملکہ خیزراں تھی۔ اس کے سامنے وہ بے بس ہو جاتا۔ وہ اس پر اس درجہ مسلط تھی کہ اس کے شعور اور ادراک تک حا حاوی ہو گئی تھی۔ ہادی اور ہارون کے ضمن میں کشمکش اور برآمکہ پر کیے گئے نوازشات سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
وفات سے پہلے مہدی نے تاریخ کو دہراتے ہوئے ولی عہدی میں تبدیلی کر دی۔ اس نے عیسی بن موسی کو تحدید و ترغیب اور دباؤ ڈال کر ولی عہدی سے دسبردار کرکے اپنے بیٹے ہادی اور ہارون کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ عیسی کو اس کے عوض ایک کثیر رقم نقد اور بہت سی جاگیر عطا کی گئی۔ مہدی 12 محرم، 25 جولائی 785ء، 169ھ میں تینتالیس سال کی عمر میں وفات پا گیا۔ اس کی مدت خلافت دس سال ایک ماہ تھی۔ اس نے وفات سے پہلے اپنے بیٹے ہادی اور ہارون کو یکے بعد دیگرے اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔ اس کی وفات کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ ایک کے مطابق اس کی موت شکار کے دروان زخمی ہونے سے ہوئی۔ لیکن دوسری روایت کے مطابق زہر خوارنی کی وجہ سے اس کا انتقال ہوا جو ایک لونڈی نے اس کو کھلایا تھا۔
آپ کے سات بیٹے تھے۔ موسیٰ الہادی، ہارون الرشید، علی بن محمد المہدی، عبیداللہ بن محمد المہدی، یعقوب بن محمد المہدی، اسحاق بن محمد المہدی اور ابراھیم بن محمد المہدی
آپ کی اولاد میں سے ملکہ خیزران سے دو بیٹے موسیٰ الہادی، ہارون الرشید اور ایک بیٹی بانوقہ تھی،
ریط بنت السفاح سے دو بیٹے علی بن محمد المہدی اور عبید اللہ بن محمد المہدی تھے،
ایک کنیز سے ایک بیٹی عباسہ تھی،
ایک اور کنیز بحیر بنت الاجہندہ سے تین بیٹیاں عالیہ، منصورا اور سلیمہ تھی،
ایک اور کنیز سے دو بیٹے یعقوب بن محمد المہدی اور اسحاق بن محمد المہدی تھے
اور ایک کنیز سے سے ایک بیٹا ابراہیم بن محمد المہدی تھا۔[1]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.