حاکم سندھ و قندھار، فارسی شاعر From Wikipedia, the free encyclopedia
میرزا غازی بیگ ترخان (پیدائش: 1588ء– وفات: 13 اپریل 1612ء) سترہویں صدی عیسوی کے ترک النسل، سندھ کے ترخان خاندان کے آخری خود مختار فرماں روا میرزا جانی بیگ ترخان کے فرزند، مغل سلطنت کی طرف سے سندھ (یعنی ٹھٹہ اور بکھر) اور بعد ازاں ملتان بھی ان کی جاگیر میں دے دیا گیا۔ مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر نے انھیں اپنا امیر اور پھر فرزندی کے رتبے پر فائز کیا۔ جہانگیر نے انھیں بغاوت کو کچلنے کے لیے قندھار کی مہم پر روانہ کیا۔ بغاوت کے خاتمے کے بعد انتظامی اصلاحات کے لیے جہانگیر نے میرزا غازی کو قندھار کا صوبہ دار مقرر کیا جہاں انھوں نے قندھار کا انتظامِ حکومت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔
میرزا غازی بیگ ترخان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
حاکمِ سندھ مغل صوبے دار قندھار | |||||||
میرزا غازی بیگ ترخان– 1610ء (مصور: منوہر داس ) | |||||||
1601ء– 13 اپریل 1612ء (11 سال) | |||||||
پیشرو | میرزا جانی بیگ | ||||||
| |||||||
خاندان | ترخان | ||||||
شاہی خاندان | ترخان | ||||||
والد | میرزا جانی بیگ ترخان | ||||||
پیدائش | 1588ء | ||||||
وفات | 13 اپریل 1612ء (24 سال) قندھار، سلطنت مغلیہ، موجودہ افغانستان | ||||||
تدفین | مقبرہ میرزا جانی بیگ، مکلی قبرستان ٹھٹہ | ||||||
مذہب | شیعہ اسلام |
میرزا غازی کا شمار فارسی کے قادر الکلام شُعرا میں ہوتاتھا، انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں بہت سے شُعرا و اُدَبا کی سرپرستی کی اور ان کا دربار ہمیشہ شُعرا و اُدَبا سے بھرا رہتا تھا، جن میں نامور شاعر طالب آملی (جو بعد میں جہانگیری دربار کا ملک الشعرا بنا)، معروف مؤرخ اور تاریخ طاہری کے مؤلف میر طاہر محمد نسیانی ٹھٹوی، ملا اسد قصہ خوان، نامور شاعر ملا شیدا اصفہانی، میر بزرگ بن میر محمد معصوم بکھری، شمسائی زریں رقم، میر عبد الباقی، ملا شانی تکلو وغیرہ خاص طور پر مشہور و معروف ہیں۔
مرزا غازی بیگ 996ھ مطابق 1588ء کو ٹھٹہ، سندھ میں والیٔ سندھ میرزا جانی بیگ ترخان کے گھر میں پیدا ہوئے۔[1]
میرزا غازی بیگ کی تعلیم کیا تھی اور کس طرح ہوئی اس کی کوئی تفصیل موجود نہیں۔ جب سندھ کا صوبہ دوبارہ میرزا جانی بیگ کی عملداری میں دے دیا گیا۔ میرزا جانی نے اپنے امیروں کو سندھ کا انتظام کرنے کے لیے آگرہ سے رخصت کیا تو اس وقت اپنی ملکی انتظام کی ہدایات کے ساتھ ساتھ اپنے لڑکے میرزا غازی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بھی چند باتیں کیں، ان ہدایات میں تعلیم و تربیت، تیراندازی، سواری، نشانہ بازی، آداب و اخلاص، دربار داری، ملک داری، غُربا پروری اور مظلوموں کی داد رسی وغیرہ، شاہزادگی اور بادشاہی کے تمام لوازم کی چیزیں بتا دیں بلکہ اوقات تک تقسیم کر دیے گئے۔ یہ تو معلوم نہ ہو سکا کہ ان ہدایات پر کہاں تک عمل ہوا، لیکن میرزا غازی کے علمی، ادبی اور سیاسی مشاغل کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اگر باقاعدہ تعلیم کی کرامت نہیں تو اس (میرزا غازی) کی خداداد صلاحیتوں کا اعجاز ضرور ہے۔[2]
تاریخ سے میرزا غازی کے چند معلموں کے نام دستیاب ہیں جو درج ذیل ہیں:
میرزا غازی نے ابتدائی حُروف شناسی ملا یعقوب سے کی تھی۔[3] وہ میرزا غازی کی کم سنی کے وقت میں مکتب کا پیش امام تھا۔[4]
یہ میرزا غازی کا اتالیق تھا، لیکن میرزا اس سے نا خوش تھا کیونکہ دورانِ درس میں اس کا سلوک میرزا سے اچھا نہیں رہا تھا اور میرزا کو بڑی تکلیفیں دیا کرتا تھا، اسی وجہ سے بعد میں عبرت کے واسطے میرزا نے اس کی جاگیر ضبط کر کے ملا یعقوب کو دے دی۔[5]
مُلا شیخ اسحٰاق بکھری بڑے صاحبِ فضیلت اور سلطان محمود خان بکھری کے ملازم تھے۔ آخر میں میرزا غازی کے استاد مقرر ہوئے۔[6] درس و تدریس میں ان کا خاص ملکہ تھا۔ تاریخ طاہری کا مصنف طاہر محمد نسیانی ٹھٹوی بھی انھیں کے حلقۂ درس کا فیضیاب تھا۔ اسحٰق بکھری کا تعلق ابو الفضل اور نظام الدین بخشی سے بھی بہت تھا۔[7]
مُلا اسد ایرانی تھا۔ ایران سے فقیر اور قلاش ہو کر میرزا کے دربار پہنچا۔ میرزا غازی نے اس کی قابلیت دیکھ کر اسے اپنا مصاحب بنایا اور جاگیر عنایت کی۔ آخر کار اسے اپنی مُعلمی پر سرفراز کیا۔ مُلا اسد وجیہہ اور فصیح قصہ خواں تھا۔[8]
سندھ کے ترخان خاندان کے آخری خود مختار حکمران میرزا جانی بیگ نے 1000ھ میں مغلوں سے شکست کھائی اور مصلحتوں کی بنا پر سندھ کی حکومت خان خاناں مرزا عبدالرحیم کے حوالے کی اور خود فاتح سپہ سالار عبد الرحیم خان خاناں کے ہمراہ اکبری دربار کی طرف روانہ ہوئے۔ میرزا جانی بیگ 1001ھ کو دربارِ اکبری میں پہنچے، کچھ تو عبد الرحیم خان خاناں کی تعریف، سفارش اور کچھ جانی بیگ کی رفتا اور گفتار اکبر اتنا متاثر ہوا کہ سندھ کو میرزا جانی بیگ کی جاگیر قرار دے کر حکومت پھر اُسی کو واپس کردی۔ جانی بیگ خود تو وہیں اکبری دربار میں رہا اور اپنے امرا کو سندھ کی طرف واپس کیا تاکہ مملکت کا انتظام کرسکیں اور اس کے فرزند میرزا غازی بیگ کی تعلیم و تربیت کا بند وبست کریں۔ چنانچہ شاہ قاسم ارغون، خسرو خان چرکس، بہائی خان، مُلا گدا علی، عرب کوکہ اور ملا جمال الدین[کون؟] لشکر کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ ہو گئے۔[9]
اکبریِ دربار سے سندھ کی حکومت ملنے کے بعد میرزا جانی بیگ تقریباً آٹھ برس اور زندہ رہا، سندھ کا انتظام اُس کی غیر موجودگی میں اس کے اُمرا چلاتے رہے اور میرزا غازی بیگ کی تعیم و تربیت بھی ہوتی رہی۔ میرزا جانی بیگ کا انتقال 27 رجب، 1009ھ بمطابق 1 فروری، 1601ء کو برہانپور میں ہوا اور اس کی لاش اکبر کے حکم سے خواجہ محمد قوربیگی ٹھٹہ لایا اور مکلی میں جدا مقبرے میں دفن کی گئی۔[10]
باپ کی وفات کے بعد میرزا غازی بیگ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے شاہی فرمان کے مطابق 1009ھ کو چودہ سال کی عمر میں تخت نشیں ہوا۔[11] انھیں صغر سنی میں تخت نشیں ہوتے ہی اندرونی مشکلات سے سابقہ پڑا۔ مرزا جانی بیگ کے امرا سات آٹھ برس تک بلا شرکت غیر ے سندھ پر حکومت کر چکے تھے، اس نا تجربہ کار اور کم عمر فرماں روا کو بے دست و پا کر کے حکومت کو حسبِ سابق اپنے ہی تصرف میں رکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ میرزا غازی بیگ کی تخت نشنی کے ساتھ ہی سازشوں کے جال اور دھڑے بندیوں کی بساط بچھ گئی۔ اُمرا کو سازشوں میں مصروف دیکھ کر ملک کے زمیندار اور عوام بھی گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ مملکت کے باشندے ایک تو مسلسل مصیبتوں کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھے، اب اس نئے حکمران کی کم سنی اور نا تجربہ کاری کو دیکھ کر اور زیادہ دلگیر ہو گئے۔ سندھ پر قدیم امرا کا اثر تھا، اس لیے وہ بھی امرا کی سازشوں اور دھڑے بندیوں میں منقسم ہو گئے۔ ان سازشوں میں ترخان خاندان کے قدیم ملازم اور امیر خسرو خان چرکس اور دربار کا با اثر امیر شاہ قاسم ارغون سب میں پیش پیش تھے۔ ان کی تقلید میں سلطنت کے دوسرے کمتر ارکان اور اہلکار مُلا گدا علی اور بہائی خان بھی ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ ان تمام معاملات نے میرزا غازی کو پریشان کر دیا۔ ملک میں روز بروز اس کا اثر زائل ہو رہا تھا، روپیہ کی آمدنی کم ہوتی جا رہی تھی۔ فوج اور ملازم تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے سُست، کاہل اور نافرمان ہو گئے تھے۔[12]
ان مشکلات کی وجہ سے آخر کار میرزا غازی نے اپنے ایک خیر خواہ امیر میرزا احمد بیگ کو سلطنت کا مختارکار اور وکیلِ کل بنا کر تمام سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا اور ایک ہندو مولہ نامی ہندو ملازم کو دولت رائے کا خطاب دے کر امورِ مالیات کا اس کے سپرد کیے[4]۔ ابتدائی مشکلوں پر قابو پانے کے بعد میرزا احمد بیگ نے ملکی معملات کی طرف توجہ کی اور فوج کو از سر نو درست کیا، ایک مدت سے فوج کی تنخواہیں وقت پر نہیں دی جارتی تھیں وہ باقاعدگی کے ساتھ جاری کیں، عوام کو خوش حال بنانے کی تدبیریں سوچیں اور ان پر عمل کیا۔ شرفا اور مستحق لوگوں کے مسدود شدہ وظائف پھر سے جاری کیے، ایوانِ حکومت کی کارکردگی میں اس طرح اصلاح اور تیزی پیدا کی کہ ہر عرض گزار اور داد خواہ معروضہ پیش کرنے کے بعد تین دن کے اندر اندر اپنی داد رسی کو پہنچ جانے لگا۔ احمد بیگ نے جاگیرات کا نظام بھی نئے سرے سے درست کیا۔ جو اہلکار اور جاگیردار سرکاری مطالبات کی ادائی خرابی فصل کے بہانے ٹال جاتے تھے، ان کی جاگیروں اور جائیدادوں کو بحقِ سرکار ضبط کیا گیا۔ ان تمام نئے اور موثر انتظامات کی وجہ سے ملک میں سکون محسوس کیا جانے لگا۔ ملک کی سرسبزی اور خوش حالی بڑھنے لگی، رعایا میں جان آگئی، نااُمیدی اور مایوسی کی وجہ سے جو انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی، وہ رفتہ رفتہ دور ہونے لگی۔ مملکت پر اپنے نوجوان حاکم کے تَدبُر اور حکمرانی کا سکہ بیٹھنے لگا۔[13] قصہ مختصر کم سنی کے با وجود کاروبارِ مملکت کو بلند درجہ پر پہنچا کر کچھ عرصے بعد میرزا غازی بیگ خود مختاری کا دم بھرنے لگا اور احمد بیگ کو اس نے احمد سلطان کے لقب سے سرفراز کیا۔[14]
معزول شدہ اُمرا اور بے دخل کارندے پہلے تو اس انتظار میں خاموش بیٹھے رہے کہ ان کے بغیر برباد شدہ سلطنت کا انتظام نہ میرزا غازی سے سنبھل سکتا ہے اور نہ اس کے مختارِ کل احمد بیگ سے، اس لیے جلدہی پھر انھیں عنانِ اختیار و اقتدار سونپی جائے گی، لیکن انتظامِ مملکت کی گاڑی جب بغیر رکاوٹ تیزی سے چلتی نظر آئی اور ان کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت درپیش نہ ہوئی تو انھیں تشویش پیدا ہوئی کہ اگر کچھ مدت اور یہی صورت حال رہی اور انتظامِ ملکی کی بنیادیں پختہ ہوتی گئیں تو پھر یہ سب لوگ تاریخ کا حصہ رہ جائیں۔ لہٰذا انھوں نے اپنی آپ کو منظم کرنا شروع کیا اور ملک میں انتشار پھیلانے اور فتنے برپا کرنے کی ترکیبیں کرنے لگے۔ خود میرزا غازی کے خاندان میں دو افراد ایسے تھے جو اپنی دل میں سلطنت حاصل کرنے کی دلی آرزو رکھتے تھے، ایک تو میرزا عیسٰی ترخان (ثانی) تھا جو ٹھٹہ ہی میں رہتا تھا اور سندھ کا طاقتور سمیجہ قبیلہ اس کا ننھیال، ہمدرد اور طرفدار تھا۔ دوسرا شخص میرزا مظفر بن میرزا باقی ترخان تھا جو میرزا غازی کا چچا تھا اور ایک عرصے سے کچھ کے راجا کے ہاں مقیم تھا۔ ان دو کے علاوہ شاہ قاسم خان ارغون کا خاندان بھی تھا، جو میرزا غازی کے عدمِ التفات کی وجہ سے اپنا اقتدار کھوچکا تھا اور دوبارہ اپنا اثر و رسوخ حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ شاہ قاسم خان ارغون خود اور اس کا بیٹا امیر ابو القاسم سلطان دونوں ترخانی عہد کے با اثر اور ذی اقتدار فوجی سردار، امیر اور جاگیردار تھے۔ گذشتہ دور میں اس خاندان نے بڑے بڑے فوجی اور ملکی کارنامے انجام دیے تھے۔ میرزا جانی کے زمانے میں عمر کوٹ کے سوڈھا راجا کو شاہ قاسم خان نے مغلوب کر کے عمر کوٹ حاصل کیا تھا۔ نصر پور کا علاقہ سالہا سال سے اس کی جاگیر میں شامل تھا۔ علاوہ اس کے حکمران خاندان سے ان کی رشتہ داری بھی تھے۔ میرزا غازی کے والد میرزا جانی نے شاہ قاسم خان ارغون کی لڑکی سے شادی کی تھی جس کے بطن سے ایک لڑکا میرزا ابو الفتح پیدا ہوا۔ شاہ قاسم کے بیٹے ابو القاسم سلطان کی لڑکی پیلے میرزا ابو الفتح سے منسوب تھی اور اس کے انتقال کے بعد میرزا غازی سے بیاہ دی گئی تھی۔ یہ بہادر اور ذی وقار خاندان جس نے ایوانِ حکومت کو قائم رکھنے میں ایک مضبوط ستون کا کام انجام دیا تھا، اب میرزا غازی کا دشمن بن گیا تھا۔ خسرو خان چرکس، بہائی خان اور گدا علی وغیرہ تو احمد بیگ کے تقرر کے بعد ہی سے حکومت کا تختہ اُلٹنے ک فکر میں تھے۔ ملک میں عام فتنہ و فساد پھیلینے سے پہلے ان لوگوں نے خود شہر ٹھٹہ میں فسادات کرانے شروع کر دیے تاکہ سب سے پہلے دَار اُلسلطنت کا امن و امان غارت ہو جائے اور اس کے اثرات سے یہ لوگ فائدہ اٹھائیں۔ چنانچہ ایک دن ندیم کوکہ اور قاسم علی کوکہ کو ایوانِ حکومت کے احاطے میں دویوان خانے کے اندر محمد علی سلطان کابلی اور اس کے بیٹے محمد معین اور خالو صبور علی نے بلاوجہ اور بے قصور دن دہاڑے شدید زخمی کر دیا اور اس حرکت کے بعد وہ دیوان خانے سے نکل کر اپنے گھر تک بڑے اطمینان کے ساتھ چلے گئے لیکن کسی کی ہمت نہ پڑی کہ ان کو گرفتار کرلے۔ میرزا غازی نے جب ان کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا تو دو ٹوک جواب دے کر اسے واپس کر دیا۔ شہر میں انتشار پھیل گیا، لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے اور باہم دست و گریباں ہو گئے۔ میرزا غازی کے آدمی بڑی مشکل سے حالات پر قابو پاسکے اور مجرموں کو ان کی حویلی کے قریب قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح کے چند اور بھی واقعات ہوئے جس سے میرزا غازی چوکنا ہو گئے۔[15]
میرزا غازی ابھی مقامی اُمرا کے قلع قمع کرنے کی تدبیر ک رہی رہاتھا کی نصرپور کے علاقے میں ابو القاسم سلطان نے بغاوت کا عَلم بلند کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ ابو القاسم نے ٹھٹہ سے جیسلمیر کے طرف جانے والے تاجروں کے قافلوں کو لوٹنا شروع کیا، آمد و رفت کی تمام راہیں مسدود ہوگئیں، میرزا غازی کے تحصیلداروں اور تمام اہلکاروں کو وہاں سے نکالنا شروع کر دیا۔ ان حوصلہ شکن حالات میں کہ چاروں طرف مخالفت اور بغاوت کی آگ سلگتی جا رہی تھی، خوف و ہراس سے سپاہیوں اور شہریوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔،[16] میرزا غازی نے دشمن کی بیخ کنی کو ملک کے استحکام کا باعث تصور کرتے ہوئے لشکر لے کر نصرپور پر فوج کشی کی۔ راستے میں دشمنوں کے خوف سے ہر چھاؤنی پر خندقیں کھودتے ہوئے کاتیار کے قصبے میں جا پہنچے اور وہاں خندقیں کھود کر خیمہ زن ہو گئے۔ یہاں ابو القاسم نے پیغام بھجوایا کہ فلاں (ابو القاسم دعا سلام کہنے کے بعد پوچھتا ہے کہ تمھاری آمد کا مقصد کیا ہے؟ ابو القاسم اتنا کمزور نہیں ہے کہ تمھاری فوج کشی سے خائف ہو کر شب خون مارنے کی کوشش کرے۔ اطمینان کے ساتھ صَف بہ صَف جنگ کی تیاری کرو[17]میرزا غازی کے لشکر نے شاہ گڑھ پہنچ کر قلعہ کے سامنے پڑاؤ ڈالا اور جنگ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ابو القاسم سلطان پر اس لشکر کا کائی اثر نہیں ہوا اور وہ بدستور اپنے لاف و گزاف میں مصروف تھا۔ ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی مگر حالات روز بروز جنگ کو قریب تر لا رہے تھے۔ ابو القاسم سلطان کے بوڑھے، دوراندیش اور تجربہ کار بار شاہ قاسم خان نے جنگ کو ٹال دینے اور صلح صفائی کرا دینے کی کوشش شروع کی۔ اس کے لیے یہ وقت سخت مشکل تھا، ایک طرف اپنا سرپھرا بیٹا تھا جو سندھ کا حکمران بننے کا خواب دیکھ رہا تھا اور دوسری طرف اس کی بیٹی کا سوتیلا بیٹا تھا۔ آخر بڑی سعی و کاوش کے بعد شاہ قاسم خان صلح کرانے میں کامیاب ہوا۔ شرائط یہ طے ہوئیں کہ ابو القاسم سلطان کے پچھلے تمام قصور معاف کیے جائیں اور اس کی جاں بخشی ہو، اس کے ساتھ متعلقین کے قصور بھی معاف ہوں۔ یہ شرائط قرآن مجید پر تحریر کی گئیں، اس کے بعد ابو القاسم اپنے باپ اور بھائی مقیم سلطان کے ساتھ میرزا غازی کے حضور میں پہنچے۔ بظاہر تو ملک خانہ جنگی سے بچ گیا، لیکن نہ ابو القاسم کے دماغ سے فتور گیااور نہ میرزا غازی کے دل سے میل اُترا۔ اس طرح ابو القاسم کتنے ہی دنوں تک میرزا غازی کے دربار میں آمد و رفت جاری رکھتا آیا۔[18]
اُس زمانے میں ندیاں بھرپور چل رہی تھیں۔ ایک دن میرزا غازی نے تفریح کا منصوبہ بنایا۔ کشتی میں سوار ہو کر دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچااور سبزہ زار میں محفل جمائی۔ ابو القاسم سلطان کو کہلا بھیجا کہ وہ چنیسر نامہ لے آئے تاکہ اس سبزہ زار میں لطفِ سخن اٹھایا جائے۔ ابو القاسم سلطان چنیسر نامہ لے کر کشتی میں سوار ہوا اور کشتی بیچ دریا میں پہنچی اس وقت ایک تنو مند شخص نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور وہیں کشتی میں سلاخیں گرم کر کے اس کی آنکھوں میں پھیر کر نابینا کر دیا گیا۔ ابو القاسم سلطان اور اس کے ساتھی جعفر علی ارغون کو میرزا غازی کے حکم سے ٹھٹہ لے جا کر قید کر دیا گیا۔ جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو شورش پسندمایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ میرزا عیسٰی ترخان (ثانی)، جو ایک مدت سے اس فتنہ و فساد میں اپنی حکومت کے خواب دیکھ رہا تھا، نااُمید ہو کر سمیجہ قبیلے سے نکل کر سیدھا آگرہ کی طرف اکبری دربار میں پناہ لینے کے لیے روانہ ہو گیا۔ چنانچہ اب مطمئن ہو کر میرزا غازی ٹھٹہ آکر سکونت پزیر ہوئے۔[19]
جام ہالہ ولد جام دیسر ککرالہ کا جاگیردار تھا بلکہ ایک طرح سے خود مختار حاکم تھا۔ سندھ کا یہ حصہ ٹھٹہ اور جیسلمیر کے درمیان واقع تھا۔ جام ہالہ نے ملکی انتشار سے فائدہ اٹھا کر شورش شروع کردی۔، خوش قسمتی سے جام ہالہ کا ایک عزیز جام داؤد اس سے کٹ کر میرزا غازی سے آ ملا۔ اس کی امداد سے میرزا غازی کے لشکر نے بغاوت کا فوراً سد باب کر دیا۔ اس شورش کو ختم کرنے کے بعد میرزا غازی نے اس علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ جام داؤد کو اس کی خدمات کے صلے میں دیا اور باقی دو حصے اپنی سلطنت مین شامل کر دیے۔ میرزا غازی کی خوش بختی اور اقبال مندی تھی جس کی وجہ سے وہ ان مہموں میں اتنی جلدی کامیاب ہو گیا، ورنہ کم عمری اور ناتجربہ کاری کے ساتھا ساتھ درباری، پرانے امرا، ذاتی ملازم اور ملک کے سربر آوردہ لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ بات امکان سے باہر نظر آتی تھی۔[20] الغرض میرزا غازی نے والد کے فوت ہونے کے دو سال اندر ہی ملک کا انتظام مکمل کر کے رعایا اور سپاہ کو بخشش اور انصاف کے ذریعے اپنا گرویدا بنا لیا۔ راتوں کو وہ بھیس بدل کر شہر میں جاتا اور گھوم پھر کر رعایا کا حال دریافت کرتا تھا۔[21]
میرزا غازی جب ملکی انتشار مین مبتلا تھا اور ابو القاسم سلطان کی مہم پر ٹھٹہ سے غیر حاضر تھا، اس وقت بابا طالب اصفہانی ٹھٹہ پہنچا۔ شہنشاہ جلال الدین اکبر نے میرزا غازی کے لیے خلعت، پروانہ اور امرا کے لیے انعامات دے کر اسے ٹھٹہ بھیجا تھا، اکبر نے بابا طالب اصفہانی کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ واپس میں میرزا غازی کو ساتھ لیتا آئے تاکہ وہ شاہی دربار میں حاضر ہو کر مزید نوازشوں سے فیض یاب ہو۔ بابا طالب ٹھٹہ میں میرزا غازی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن میرزا غازی ایک کے بعد ایک بغاوتوں میں الجھا رہا۔ اس خلفشار مین میرزا غازی کے تقریباً دو برس 1009ھ سے 1011ھ تک ضائع ہو گئے۔[22]
بابا طالب اصفہانی کو ٹھٹہ میں رہتے ہوئے ایک مدت ہو چکی تھی۔ میرزا غازی کی جائز اور ضروری مصروفیت اسے دربارِ اکبری کی حاضری سے روک رہی تھیں، اُدھر دربار میں اس کی غیر حاضری کی وجہ سے چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں، غالباً میرزا عیسیٰ ترخان (ثانی) جو سندھ سے بھاگ کر دربار میں پہنچ چکا تھا، اس کا بھی ان سرگرمیوں کے پھیلانے میں کچھ حصہ ہوگا۔ چنانچہ جلال الدین محمد اکبر کا دل مکدر ہو گیا اور میرزا گازی کی غیر حاضری کو نافرمانی پر محمول کر کے سعید خاں چغتہ کو لشکر کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ حالات کا جائزہ لے اور میرزا غازی کو فوراً دربار میں لاکر حاضر کرے۔ یہ 1011ھ کا واقعہ ہے۔ سعید خاں کے ساتھ ساتھ میر ابو القاسم نمکین (متوفی 1018ھ) کے نام جو اس زمانے میں بکھر میں موجود تھا، میرزا غازی کو لانے کے لیے فرمان جاری ہوا۔ بابا طالب اصفہانی ابھی تک ٹھٹہ میں فروکش تھا کہ 1011ھ میں سعید خاں چغتہ بھی بیس ہزار سواروں کے ساتھ یلغار کرتا ہوا بکھر پہنچ گیا۔ کم عمر، مصیبت کا مارا میرزا غازی پریشان ہو گیا۔ دربار کے صحیح احکام اور سعید خاں کی آمد کا اصل مقصد ابھی معلوم نہیں ہوا تھا، اہل ملک اور خود میرزا غازی نے بھی اس کی آمد کو جنگ کا پیش خیمہ سمجھا۔[23]
میرزا غازی کو جب سعید خاں چغتہ کے بکھر پہنچ جانے کی اطلاع ملی تو اس نے فوراً بکھر جانے کی تیاری کی اور ملک کا انتظام چار و ناچار خسرو خاں چرکس کے حوالے کیا، شہباز خان، احمد بیگ، لطف اللہ، خواجہ امیر بیگ بخشی اور خسرو خاں کے بیٹے بہائی خان کو ساتھ لے جانے کے لیے تیار کیا، روانہ ہونے سے چند روز قبل فتح باغ میں آکر ٹھہرا اور وہیں بیٹھ کر سفر کی تیاریوں میں مصروف ہوا۔ یہاں میرزا غازی کو ابو القاسم سلطان اور جعفر علی ارغون کے قید سے فرار ہونے کی تشویش ناک خبر ملی۔ شہر میں طرح طرح کی افواہیں اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ساموئی کے قریب میرزا غازی کے سپہ سالار دریا خاں نے جعفر علی ارغون کو جا لیا، جعفر ارغون مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا اور ابو القاسم سلطان کو بہت کوششوں کے بعد گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد میرزا غازی نے سجدۂ شکر ادا کیا اور دریا خاں کو خلعت عطا کی اور اپنی ملازمتِ خاص میں رکھا۔[24]
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سعید خاں چغتہ کے ساتھ ابو القاسم نمکین کو کو بھی جلال الدین اکبر نے فرمان بھیجا کہ میرزا غازی کو دربار میں حاضر کرے۔ اس وقت ابو القاسم نمکین سیہون کا گورنر تھا۔ چنانچہ ابو القاسم نمکین سیہون سے ٹھٹہ کی طرف روانہ ہوا، اس وقت سعید خاں چغتہ دربیلہ میں منزل انداز تھا۔ ابو القاسم نمکین نے چاہا کہ سعید خاں چغتہ سے پیشتر ٹھٹہ پہنچ کر میرزا غازی کو ساتھ لے اور دریا کی طرف روانہ ہو جائے، اس غرض سے وہ نصر پور تک پہنچا اور میرزا غازی کو اپنے آنے کی اطلاع بھیجی جس کے جواب میں میرزا غازی نے پیغام بھیجوایا کہ میں خود اکبری دربار میں جانے کی خواہش رکھتا ہوں اور میں خود آپ کے پاس سیہون پہنچ رہا ہوں۔ چنانہ ابو القاسم نمکین سیہون واپس چلا گیا اور چند روز کے بعد میرزا غازی بھی سیہون پہنچ گیا۔[25]
میرزا غازی کو شاعری سے فطری مناسبت تھی، اگرچہ عمر کم پائی لیکن اس عرصہ کے اندر اس نے اس حد تک کمال اور نام پیدا کیا کہ معاصر مورخوں اور بعد کے تذکرہ نویسوں نے اس کو بہت سراہا اور شعر میں اس کی قدرت پر سب کے سب معترف ہیں۔[26]
میرزا غازی نے ابتدا میں غزالی اور بعد ازاں شاعری میں وقاری تخلص اختیار کیا۔۔[27] کہتے ہیں کہ وقاری تخلص کا ایک اور بھی شاعر تھا جسے میرزا نے گراں رقم، گھوڑا اور خلعت دے کر اس تخلص سے دست بردار کرایا تھا[28] اس شاعر نے بعد میں خلدی تخلص اختیار کیا۔ بعض مؤرخین نے اس شاعر کو قندھار اور بعض نے ٹھٹہ کا رہائشی بتایا ہے۔
شعر و سخن کی تمام اصناف میں میرزا غازی نے مشق کی اور پانچ ہزار (5,000) اشعار پر مشتمل دیوان اپنی یادگار چھوڑا۔ 25 برس کی عمر میں اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑنا ان کی طبیعت کی روانی اور کمالِ فن کی زریں مثال ہے۔[29]
قطعہ
نانکہ دعوی لمن لملک دا شتند | چون یافتم ز لطف تو بر قندھار دست | |
از ہول جان گریزان گشتند، آنچناں | براسَپ شان نیافت تو گوئی غبار دست[30] |
رباعی
عشاق چو طرح سود میاند زند | خودرا در صد، فتور میاند زند | |
گر غنچۂ دل شگفتہ گرد، دبی دوست | ہمچون گم شمع دو و میاند زند[31] |
رباعی
صد شمع بہ تربتِ فلاطون بردیم | تارہ بطریق عقل مجنوں بردیم | |
در ہر وادی کہ نقش بی گشت غلط | مرشد گفتیم، وراہ بیرون بردیم[31] |
میرزا غازی کی عمر نے وفا نہیں کی، اسے بہت جلد اس بزمِ ہستی سے اٹھ جانا پڑا۔ اگر طبیعی عمر اس کا ساتھ دیتی تو یقیناً شان و شوکت، علم و ادب کی سرپرستی اور درباری ٹھاٹھ میں اس کا کوئی ثانی نہ ہوتا۔ مختصر مدت میں اس نے علم و ادب کی بے مثال خدمت کی اور اہلِ فن کی سرپرستی میں شہرت حاصل کی۔ اس کی داد و دہش اس حد تک مشہور ہوئی کہ ایران سے جو بھی صاحبِ فن و ہنر نکلتا تو پہلا سلام قندھار کے دربار کو کرتا اور بعد میں ہندوستان کے جہانگیری دربار کا رُخ کرتا۔ سیاسی طور پر ایک طرف نور الدین جہانگیر کا نور چشم کہلایا تو دوسری طرف ایران کے صفوی بادشاہ کے ساتھ دوستی کا پیوند جوڑ دیا۔ سپاہی خوش، رعیت مطمئن، ملک سرسبز اور خوش حال۔ الغرض اس زمانے میں تمام ملک خوش و خرم تھا۔ میرزا کے دور میں ہندوستان میں مغلیہ دربار کے علاوہ کئی اور امیروں کے درباروں میں بھی اہلِ فن و ہنر کی سرپرستی کی جاتی تھی۔ خود ایران میں صفوی بادشاہ کا دربار مرجعِ اہل فن تھا، لیکن اس کے باوجود ایران، عراق اور ہندوستان کے اہلِ ہنر میرزا کے دربار کو ترجیح دیتے تھے۔ کئی ایک نامی شعرا، علما اور صاحبِ فن سے ان کے دامنِ دولت سے وابستہ ہو گئے۔ طالب آملی جو بعد میں جہانگیری دربار کا ملک الشعرا بنا، میرزا غازی ہی کی قدردانی کا پروردہ تھا، میرزا کی شان میں اس نے جو قصائد کہے ہیں ان کی گرمی اور مضامین کی جو کیفیت ہے وہ دوسروں کی شان میں کہے ہوئے قصیدوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے علاوہ ملا اسد، میر عبد الباقی، ملا شانی تکلو، شمسائی زریں رقم وغیرہ اسی دربار کے آفتان اور مہتاب تھے۔ ذیل میں ان سب کا ذکر کیا جا رہا ہے جن تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ میرزا غازی کے دربار سے تھا۔[32]
میرزا غازی کے دربار سے وابستہ رہے۔ سیستان سے 1020ھ کے لگ بھگ میرزا غازی کے پاس آئے۔[33]
مُلا اسحٰاق بکھری میرزا غازی کے استاد تھے، ابتدائی زندگی بکھر میں سلطان محمود بکھری کی ملازمت میں گذری۔ ملا اسحٰاق جید عالم اور مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔[34]
ملا اسد کے والد کا نام مولانا حیدر تھا۔ ان کا پیشہ بھی قصہ خوانی تھا، خود ملا اسد اپنی شیریں گفتاری، خوش بیانی اور اندازِ فہم کے لحاظ سے لاجواب تھے۔ مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے صوفی با صفا تھے، ان کے چچا فتحی بیگ کے لیے لکھا ہے کہ شاہنامہ خوانی میں مشاہیرِ روزگار اور نوادرِ عصر میں سے تھے۔ مولانا حیدر بھی اس طرح تھے، یعنی دونوں بھائی صوفی منش اور علم میں طاق تھے۔ مُلا اسد بُرے حالوں ٹھٹہ پہنچے تھے۔ ظاہری صورتِ احوال گداگروں کی سی تھی لیکن صورت و شکل کے وجیہہ اور فصیح تھے۔ میرزا نے ان کو اپنی مصاحبت میں لے لیا، جاگیر عطا کی اور ابتدا میں اپنی معلمی سے سرفراز کیا۔[35]
میر بزرگ، میر محمد معصوم بکھری کا بڑا فرزند تھا۔ میر معصوم نے اس کی تعلیم و تربیت میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ میر معصوم خود بہت اچھا خوش نویس تھا، بیٹے کو بھی خوش نویسی کی تعلیم دی۔ میر محمد معصوم کی تالیف کردہ تاریخ معصومی کی تالیف بھی میر بزرگ کے لیے ہوئی۔ میر بزرگ باپ کے بعد جہانگیر کے دربار میں ملازم ہوا۔ جہانگیر نے 1015ھ میں اسے قندھار کا بخشی بنا کر بھیج دیا، قندھار کی بخشی گری پر کافی عرصہ تک رہا۔ سردار خان، میرزا غازی، بہادر خاں، قرا خاں اور قاضی خاں وغیرہ اس کی بخشی گری کے زمانے میں قندھار کے صوبے دار رہے لیکن کسی کے ساتھ اس کی نہیں بنی۔ شاہ خرچی اور اسراف کی یہ حالت تھی کی چالیس (40) لاکھ روپے نقد جو اس کے والد نے چھوڑے تھے بہت جلد خرچ کر دیے۔[36]
اچھی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کیہ میر بزرگ نے نثر، نظم اور خوش نویسی میں کمال پیدا کر لیا تھا۔ میر بزرگ کا انتقال 1044ھ میں ہوا اور بکھر (سکھر) میں اپنے والد میر معصوم کے مزار کے احاطے مدفون ہوئے۔[37]
ملا شیدا اصفہانی کا نام فقط صاحب ذخیرۃ الخوانین نے لیا ہے، میرزا غازی کے دامنِ دولت سے مشہور ترین شاعر دس تھے جن میں طالب آملی اور شیدا اصفہانی بھی تھے۔ کسی تذکرے میں شیدا اصفہانی کا ذکر نہیں ملا۔[38]
طالب کا پورا نام یا ان کے والد کا نام کسی تذکرہ نویس نے نہیں لکھا۔ طالب کی تاریخ پیدائش یقینی طور پر معلوم نہیں، لیکن طالب نے اپنے ایک قصیدے میں جو انھوں نے میر ابو القاسم حاکم آمل (1007ھ) کی مدح میں کہا ہے، اس میں انھوں نے اپنی عمر بیس برس بتائی ہے۔ ابو القاسم چونکہ (1007ھ) میں آمل کا حاکم مقرر ہو کر آیا اور طالب اس وقت بیس برس کے پیٹے میں تھے،ا س حساب سے ان کی پیدائش کا سال 987ھ کے لگ بھگ بنتا ہے۔[39] طالب تنگیٔ معاش کی وجہ سے 1010ھ میں، جب ان کی عمر 30 برس تھی آمل یا اس قصبہ سے جہاں ان کا خاندان تھا، تلاش روزگار میں نکلے اور سیدھے کاشان پہنچے، جہاں ان کی خالہ (زوجہ حکیم نظام علی کاشی) رہتی تھیں۔ کچھ برس بعد طالب نے اصفہان کا رخ کیا لیکن یہاں بھی ان کی کوئی قدردانی نہیں ہوئی اور وہاں سے بددل ہو کر مشہد پہنچے۔ مشہد سے طالب مرو پہنچے جہاں بکتش خاں حاکمِ مرو نے ان کو اپنے پاس رکھا اور اچھی طرح ان کی سرپرستی کی۔ ایک سال مرو میں گزارنے کے بعد طالب اکتا گئے اور رخصت لی (بظاہر 1014ھ تک سے 1016ھ تک) طالب مرو میں رہے اور 1016ھ میں وہاں سے نکلے تو ہندوستان آتے ہوئے چونکہ قندھار راستے میں پڑتا تھا، طالب وہاں پہنچ کر آگے نہ بڑھے بلکہ میرزا غازی کے پاس قندھار میں ملازم ہو گئے۔[40] اعتماد الدولہ میرزا غیاث الدین (متوفی 1031ھ) نے آخر طالب کو جہانگیری دربار میں پہنچا دیا جہاں پہلی مرتبہ طالب کا بخت جاگا اور قسمت کا ستارہ چمکا، یوں طالب بادشاہ کے منظورِ نظر بنے اور سفر حضر میں ساتھ رہنے لگے یہاں تک کہ 1028ھ میں ملک الشعرا کے بلند ترین منصب پرفائز ہوئے۔[41] آخر میں چند سال طالب پر جنون کی کیفیت طاری رہی اور بالکل ساکت ہو گئے تھے، نور الدین جہانگیر کے انتقال سے ایک سال قبل یعنی 1036ھ کو طالب آملی 49 سال کی عمر میں وفات پا گئے اور فتح پور میں دفن ہوئے۔[42]
ملا مرشد، بروجرد کے باشندے تھے۔ بچپن وہیں بروجرد میں بسرہوا، تعلیم وہیں پائی نیز ہمدان میں بھی اپنی ابھرتی جوانی کے کچھ دن گزارے۔ بروجرد اور ہمدان میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد طبیعت کی اسی افتاد نے ان کو سیر و سفر کے لیے ایران اور عراق کے مختلف اطراف میں نکالا۔ گھومتے پھرتے آخر حافظ شیرازی اور سعدی شیرازی کے شہر شیراز میں پہنچے جہاں عشق نے انھیں بے طرح آن دبوچا۔ مرشد نے جب شیراز بلکہ ایران ہی کو ترک کیا، سندھ اور ہندوستان آئے اور وہیں رہے، پھر بھی شیراز کی پھانس ان کے دل سے نہیں نکلی۔ شیراز میں حاکم فارس محمد قلی پرناک مرشد کی سرپرستی کرتا رہا، جس کے نام پر مرشد نے ساقی نامہ تصنیف کی ہے اور وقتاً فوقتاً اس کی مدح و ستائش میں کئی قصائد اور اشعار کہے ہیں۔ مرشد 1012ھ تک شیراز میں مقیم رہے اور اسی سال ملا اسد قصہ خواں کی تحریک پر میرزا غازی نے ان کو سندھ بلا لیا اور 1012ھ ہی میں ہرمز بندر کے راستے ٹھٹہ پہنچے۔ یہاں پہنچ کر مرشد نے میرزا غازی سے سے نہ صرف عزت، آبرو، دولت اور جاگیر پائی۔ مرشد نے شاعری کی جس صنف کو لیا ہے اس میں مضامیں جو اگر آسمان تک نہیں پہنچایا تو زیر بھی ہونے نہیں دیا۔ رباعی، غزل، مثنوی، ہجو، تاریخ پر یکساں طور سے ان کی فکر اور قلم حاوی ہے۔ مرشد 1012ھ میں ایران سے نکل کر جب ساحل سندھ پر پہنچے تو اس کے بعد تقدیر نے پھر کبھی ان کو اپنے وطن واپس جانے نہیں دیا۔ یہیں سندھ میں رہے اور جس جگہ فوت ہوئے اسی خاک میں مدفون ہوئے، نہ جائے وفات کا علم ہے اور نہ مدفن معلوم۔[43]
صاحبِ تاریخ طاہری، مورخ طاہر محمد متخلص بہ نسیانی نے اپنے متعلق یا اپنے خاندان کے سلسلے میں کہیں تفصیل درج نہیں کی۔ میر علی شیر قانع ٹھٹوی نےتحفۃ الکرام میں چند سطریں لکھیں ہیں، پھر مقالات الشعرا میں بطور شاعر دو چار سطروں میں ان کا تعارف کرایا گیا ہے، خود اپنی تاریخ میں بھی میر محمد طاہر نے اپنے خاندان کے متعلق تو کچھ نہیں لکھا، البتہ اپنے والد کے اور اپنے متعلق کہیں کہیں برسبیل تذکرہ کچھ اشارے دینے پر اکتفا کیا ہے، جس سے خاندان یا ذاتی حالات کی صحیح تصویر سامنے نہیں آتی۔ تاریخ طاہری میں انھوں نے اپنا نام طاہر محمد نسیانی بن سید حسن لکھا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تین پشتوں سے ان کا خاندان ارغون اور پھر ترخانوں کی ملازمت میں رہا تھا۔ شاہ بیگ ارغون کے تسلط کے بعد وسط ایشیا سے مختلف خاندانوں اور افراد کا جو ریلا سندھ میں آیا، اسی میں استرآبادی سادات کا یہ گھرانا بھی وارد ہوا۔ جب شاہ حسن ارغون کے دور میں ہمایوں جب سندھ میں آیا (28 رمضان 947ھ - 16 رجب 950ھ) اور سرگرداں اِدھر اُدھر پھر رہا تھا، اس وقت یہ سادات بھی موجود تھے اور یہیں کے باشدوں سے رشتہ داری میں منسلک ہو چکے تھے۔ میر طاہر کے والد سید حسن میرزا باقی ترخان کی ملازمتِ خاص میں تھے اور جس رات کو میرزا باقی نے خودکشی کی ہے اسی رات سید حسن ملک احمد کی چوکی میں موجود تھے اور بعد میں مواخذے میں بھی آئے۔ میر طاہر نے میرزا باقی کی خودکشی کا مفصل چشم دید واقعہ اپنے والد کی زبانی بیان کیا ہے جو کسی اور تاریخ کی کتاب میں موجود نہیں ہے۔[44]
طاہر محمد نسیانی کے والد تو غالباً میرزا جانی بیگ کی وفات کے بعد گوشہ نشیں ہو گئے تھے اور خود طاہر محمد نسیانی اپنی نوجوانی میں میرزا غازی بیگ کی ملازمت میں اگر باقاعدہ شامل نہیں ہوئے تو کم از کم خاندانی تعلق اور توسل کی وجہ سے ان کے قریب آ گئے تھے، البتہ میزا غازی کی خاص مجلسوں میں ان کا گذر نہیں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ارغون و ترخان عہد میں ہر خاص و عام نے شعر گوئی کو شعار بنا رکھا تھا، نثر یا وقائع نویسی پر کسی کی توجہ نہیں تھی، طاہر محمد نسیانی شعر کہنا نہیں جانتے تھے اور یہی سبب ہوا کہ میرزا کی مجلسوں سے یہ دور دور رہے۔ جب طاہر محمد نسیانی میرزا غازی کے ساتھ ہندوستان گئے تھے، ان کو اپنی اس کمزوری کا شدید احساس تھا اور انھیں غیرت آتی تھی کہ دوسرے ساتھی تو میرزا غازی کی خاص مجلسوں میں مزے کرتے رہیں اور یہ دور سے تماشے دیکھا کریں۔ چنانچہ جب جلال الدین محمد اکبر نے وفات پائی تو فرطِ ندامت و پشیمانی سے انھوں نے اکبر کی وفات کی یہ تاریخ کہی، فوت اکبر شہ-1014ھ۔ میرزا غازی بیگ کو جہانگیر نے 1015ھ میں لاہور سے قندھار کی قلعہ کشائی پر روانہ کیا تو اس وقت طاہر محمد نسیانی ان سے رخصت ہو کر ٹھٹہ چلے آئے، مقصد یہ تھا کہ یہیں رہ کر شاعری کے اسرار و رموز سیکھیں اور اساتذہ سے استفادہ کریں۔ اس وقت (1015ھ) میں ان کی عمر 25 برس تھی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش 990ھ میں ہوئی، گویا سندھ پر جب عبد الرحیم خان خاناں نے لشکر کشی کی ہے اس وقت میر طاہر محمد کی عمر 9 سال کی تھی۔ بہر حال میر طاہر ٹھٹہ واپس پہنچے، ٹھٹہ میں اس وقت آخوند شیخ اسحاق بکھری میرزاغازی کے معلم رہ چکے تھے، زانوئے تلمذ تہ کیا۔ یہیں شیخ سعدی، مولانا رومی اور جامی کی کتب پر عبور و دسترس کامل اور ان کے رموز و نکات پر قدرت حاصل کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کی شاعری میں ان کو دسترس اور درک حاصل ہو گیا۔ اسی طرح میر طاہر محمد نے اس دور کے دوسرے فاضل استاد میر ظہیر الدین ثانی بن سید شکر اللہ شیرازی سے خاقانی اور انوری کے قصائد پڑھے، اس طرح انھوں نے زبان و بیاں، نظم و نثر میں خاصا مقام پیدا کر لیا۔ میر طاہر محمد نسیانی میرزا غازی کی سندھ سے کمک طلب کرنے پر لشکر کے ساتھ قندھار پہنچے اور میرزا کی وفات (1021ھ) تک وہیں سکونت پزیر رہے۔ میر طاہر محمد نسیانی کے مزاج کا میلان ویسے بھی شعر سے زیادہ نثر کی طرف تھا۔ میرزا غازی کی وفات کے بعد جب ارغون اور ترخان سلاطین کے باقیات میں سے کوئی نہ رہا اس وقت میر طاہر نسیانی کے لیے لازم ہو گیا کہ ان کے حالات قلمبند کرے اور انھوں نے یہ حالات قلمبند کیے جسے آج تاریخ طاہری کے نام سے سندھ کی تاریخ کا اہم ماخذ شمار ہوتی ہے۔ میر طاہر کا انتقال 1061ھ میں ہوا اور وہ مکلی میں اپنے خاندانی قبرستان میں مدفون ہوئے۔[45]
یہ لاہری بندر کے رہنے والے تھے، اپنے وقت میں فقہ اور فن شاعری میں مشہور و معروف تھے۔ مرزا غازی بیگ نے ان کی صحبت اور اشعار پسند کر کے خطیر مالی امداد عطا کرنے کے بعد انھیں ان کے اصلی وطن سے بلا کر خانی کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔[46]
میرزا غازی بیگ اثنا عشری عقیدہ رکھتا تھا اور اس وجہ سے اہلِ خراسان کو بہت پسند کرتا تھا، ان کے ساتھ میل جول اور رغبت زیادہ تھی۔ میرزا غازی اثنا عشری ہونے کے ساتھ ساتھ نیک دل اور خوش عقیدت انسان تھا۔ سادات، مشائخ، درویش اور گوشہ نشین بزرگوں سے خاص عقیدت رکھتا تھا اور ہمیشہ ان کی اعانت اور خدمت کرتا رہتا تھا۔[47]
میرزا غازی شراب کا بیحد شوقین تھا۔ جوانی دیوانی، اس پر تین صوبوں (سندھ، ملتان اور قندھار) کی حکومت اور جہانگیر کی فرزندی، بے فکری کے ساتھ شب و روز عیش و عشرت میں مشغول، رات اور دن کے کسی حصے میں بھی شراب اس سے نہیں چھٹتی تھی، آخر کار اس بلا نوشی نے اپنا اثر کیا اور صحت خراب ہو گئی۔ 25 برس کی عمر میں بیمار ہوا اور بروز جمہ 11 صفر 1021ھ مطابق 13 اپریل 1612ء کو قندھار میں اس کی زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے گُل ہو گیا اور اس کے جسدِ خاکی کو قندھار سے لاکر ٹھٹہ میں واقع مکلی کے شاہی قبرستان میں میرزا جانی بیگ کے مقبرہ میں دفن کیا گیا۔ لوگوں نے اس کی بے وقت موت اور دو تین ہی دن بیمار رہ کر اچانک انتقال کرجانے کی وجہ سے مشہور کر دیا کہ اس کو زہر دیا گیا۔ یہ الزام ان کے رفیقِ خاص اور خسرو خان کے لڑکے بہائی خان پر لگایا گیا۔ تاریخ طاہری کا مصنف سید طاہر محمد نسیانی ٹھٹوی جو میرزا کا معاصر اور اس خاندان سے وابستہ تھا، بلکہ اس وقت خود بھی قندھار میں موجود تھا، اپنی تاریخ کی ابتدا میں ایسے کلمات لکھتا ہے جس سے زہر دینے کا معاملہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔[48] بقول تحفۃ الکرام اس کے (میرزا غازی) کے اعزہ میں سے بعض بدخواہ اقبال اور ترقی کے اس پودے کو فنا کے جھونکے سے جڑ سے اکھاڑ دینے پر امادہ ہوئے۔ بالآخر 1021ھ میں عبد اللطیف نامی خانہ زاد غلام کے ہاتھوں گلا کٹوا کر اور ایک قول کے مطابق زہر دلواکر اسے ہلاک کر دیا گیا[28]۔ قاضی محمود ٹھٹوی نے تاریخ یوں نکالی کشتۂ زہرِ جفا (1021ھ)۔ میرزا کی وفات سے نہ صرف سندھ کی خود مختاری ختم ہوئی بلکہ ترخان خاندان کی حکومت کا خاتمہ بھی ہو گیا اور سندھ دوسرے صوبوں کی طرح مملکت ہند کا ایک جزو بن گیا اور مرکز سے گورنر مقرر کیے جانے لگے۔[49]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.