From Wikipedia, the free encyclopedia
ننگ رہار (انگریزی: Nangarhar پشتو: ننگرهار) مشرقی افغانستان میں واقع ایک صوبہ ہے۔ صوبہ ننگر ہار کا صدر مقام جلال آباد ہے۔ اس صوبے کی آبادی 1334000 ہے اور یہاں زیادہ تر پشتون قبائل آباد ہیں۔
صوبہ ننگرہار | |
---|---|
نقشہ | |
انتظامی تقسیم | |
ملک | افغانستان [1] |
دار الحکومت | جلال آباد |
تقسیم اعلیٰ | افغانستان |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 34°15′N 70°30′E |
رقبہ | 7727 مربع کلومیٹر |
بلندی | 748 میٹر |
آبادی | |
کل آبادی | 1735531 (تخمینہ ) (2021) |
مزید معلومات | |
اوقات | متناسق عالمی وقت+04:30 |
سرکاری زبان | پشتو ، دری فارسی |
آیزو 3166-2 | AF-NAN |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 1132366 |
درستی - ترمیم |
صوبہ ننگ رہار افغانستان میں کبھی افہیم کی پیداوار کا بڑا مرکز تھا جبکہ 2005ء کے اندازے کے مطابق یہاں افیم کی پیداوار میں %95 کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ افغانستان میں افیم کی تلفی بارے بتائی جانے والی کئی کامیاب مہمات میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔ یہ مہم جو پورے افغانستان میں چلائی جاتی رہی ہے کے نتیجے میں یہاں کے کسانوں کی زندگی پر برا اثر ڈالا ہے کیونکہ کسی بھی متبادل فصلی پیداوار کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے یہاں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور کئی ایک موقعوں پر افہیم کے کسانوں نے اپنے بچے افہیم کے کاروباریوں کے ہاتھ بیچے ہیں تاکہفصل پر اٹھنے والے اخراجات ادا کر سکیں۔
ننگ رہار کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں جس کی وجہ سے دونوں اطراف میں مضبوط رابطے ہیں۔ سرحد کے دونوں اطراف افغانیوں کی ہجرت و آمدورفت جاری رہتی ہے جو زیادہ تر غیر قانونی ہے۔ صوبہ ننگ رہار میں غیر سرکاری طور پر اب بھی پاکستانی روپیہ تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گل آغا شیرزئی یہاں کے گورنر ہیں اور ان کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاکستانی خفیہ اداروں سے کافی قریبی روابط ہیں۔ وہ پاکستان کے زبردست حامی تصور کیے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی موجودگی خارج از امکان نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے طورخم (پاکستان) سے جلال آباد تک ایک سڑک کی تعمیر بھی کی ہے جو آمدورفت اور تجارتی روابط کا واحد ذریعہ ہے۔ ایک منصوبہ کے مطابق جلال آباد سے لنڈی کوتل تک ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی جس کی مدد سے تجارتی و سفارتی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
اس علاقے میں امریکی و نیٹو افواج بھی موجود ہیں۔ صوبہ ننگر ہار میں ضلع غنی خیل 4 مارچ 2007ء کو ہونے والی دو طرفہ جھڑپوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ جس کے بعد یہاں امریکی و نیٹو کمک بڑھا دی گئی تھی۔
غیر قانونی افیم کی پیداوار یہاں اب بھی جاری ہے جو عام طور پر دور دراز علاقوں جیسے کوغیانی، غنی خیل اور چھپ رہار میں ہوتی ہے۔ کسانوں کے مطابق نہری پانی کی عدم دستیابی اور غربت دو بڑی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وہ افہیم کاشت کرنے پر مجبور ہیں۔
ضلع | صدر مقام | آبادی[2] | رقبہ[3] | تبصرہ |
---|---|---|---|---|
اچین | 95,468 | |||
بٹیکوٹ | 71,308 | |||
بہسود | 118,934 | جلال آباد سے الگ 2005ء میں قائم ہوا | ||
چھپرہار | 57,339 | |||
درہ نور | 28,202 | |||
دے بالا | 33,294 | |||
دور بابا | 13,479 | |||
گوشتہ | 31,130 | |||
حصارک | 28,376 | |||
جلال آباد | 205,423 | 2005ء میں تقسیم ہوا | ||
کامہ | 52,527 | |||
خوگیانی | 111,479 | |||
کوٹ | 52,154 | ضلع رودات سے علاحدہ 2005ء میں قائم ہوا | ||
کوز کونر | 42,823 | |||
لعل پور | 18,997 | |||
مہمند درہ | 42,103 | |||
نازیان | 16,328 | |||
پچیر و اگام | 40,141 | |||
رودات | 63,357 | 2005ء میں تقسیم ہوا | ||
شیرزاد | 63,232 | |||
شینوار | 64,872 | |||
سرخ رود | 91,548 |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.