اسلامی نبی From Wikipedia, the free encyclopedia
یحییٰ کے معنی ہیں زندہ ہوتا ہے یا زندہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام یحییٰ رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کے ساتھ زندہ رکھا۔ یا وہ کلمہ حق کہنے کی باداش میں قتل کیے جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے۔[3] یحییٰ علیہ السلام خدا کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک تھے۔ آپ حضرت زکریا علیہ السلام (جو خود اللہ کے ایک نبی تھے) کے بیٹے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے معبوث ہوئے۔ اور آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چھ ماہ بڑے تھے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو معراج هوئی تو دوسرے آسمان پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور حضرت یحییٰ علیہ السلام و حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ملاقات هوئی۔ آپ حضرت سلیمان علیہ اسلام کی اولاد میں سے ہیں۔
پیغمبر | |
---|---|
یحییٰ علیہ السلام | |
John the Baptist | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | ت پہلی صدی ق م ہیروڈین ٹیٹرارکی، رومن سلطنت |
وفات | ت 30 عیسوی ماخائرس، ہیروڈین ٹیٹرارکی، رومن سلطنت |
والدین | زکریا (والد) الیشبع (والدہ) |
والد | زکریا علیہ السلام [1][2] |
عملی زندگی | |
پیشہ | مذہبی رہنما ، اسلامی نبی |
درستی - ترمیم |
حضرت یحییٰ کا ذکر قرآن عزیز میں ان ہی سورتوں میں آیا ہے جن میں زکریا (علیہ السلام) کا ذکر ہے یعنی آل عمران ‘ انعام ‘ مریم ‘ انبیاء۔
یہ زکریا (علیہ السلام) کے بیٹے اور ان کی پیغمبرانہ دعاؤں کا حاصل تھے ان کا نام بھی اللہ تعالیٰ کا فرمودہ ہے اور ایسا نام ہے کہ اس سے قبل ان کے خاندان میں کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا۔ يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا ” اے زکریا ! ہم بیشک تم کو بشارت دیتے ہیں ایک فرزند کی ‘ اس کا نام یحییٰ ہوگا کہ اس سے قبل ہم نے کسی کے لیے یہ نام نہیں ٹھہرایا ہے۔ “
مالک بن انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن زکریا اور عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کا رحم مادر میں استقرار ایک ہی زمانہ میں ہوا اور ثعلبی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے چھ ماہ قبل ہوا ہے۔ ١ ؎ اور لوقا کی انجیل میں ہے کہ جب زکریا (علیہ السلام) کی بیوی الیشبع کو حاملہ ہوئے چھ ماہ گذر گئے تب جبرائیل (علیہ السلام) فرشتہ مریم (علیہا السلام) پر ظاہر ہوا اور اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ان کو بشارت دی : ” اور دیکھ تیری رشتہ دار الیشبع کے بھی بڑھاپے میں بیٹا ہونے والا ہے اور اب اس کو جو بانجھ کہلاتی تھی چھٹا مہینہ ہے۔ “ [4] [5]
ان نقول کا حاصل یہ ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے چھ ماہ بڑے تھے۔ یحییٰ (علیہ السلام) کے لیے جب زکریا (علیہ السلام) نے دعا کی تھی تو اس میں یہ کہا تھا کہ وہ ” ذریت طیبہ “ ہو ‘ چنانچہ قرآن عزیز نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا منظور فرما لی ‘ چنانچہ یحییٰ (علیہ السلام) نیکوں کے سردار اور زہد و ورع میں بے مثال تھے۔ نہ انھوں نے شادی کی اور نہ ان کے قلب میں کبھی گناہ کا خطرہ پیدا ہوا اور اپنے والد ماجد کی طرح وہ بھی خدا کے برگزیدہ نبی تھے اور اللہ نے ان کو بچپن ہی میں علم و حکمت سے معمور کر دیا تھا اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کی بشارت دیتے اور ان کی آمد سے قبل رشد و ہدایت کے لیے زمین ہموار کرتے تھے ‘ چنانچہ ارشاد مبارک ہے : { فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِلا اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًام بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ } [6] ” پس زکریا جس وقت حجرہ میں نماز اداکر رہا تھا تو فرشتے نے اس کو پکارا : اے زکریا ! اللہ تعالیٰ تجھ کو (ایک فرزند) یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو اللہ کے کلمہ (عیسیٰ ) کی تصدیق کرے گا اور وہ اللہ کے اور اس کے بندوں کی نظر میں برگزیدہ اور گناہوں سے بے لوث ہوگا اور نیکوکاروں میں سے نبی ہوگا۔ “ کتب سیر میں اس مقام پر ” سید “ کے مختلف معنی منقول ہیں مثلاً حلیم ‘ عالم ‘ فقیہ ‘ دین و دنیا کا سردار ‘ شریف و پرہیزگار ‘ اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور برگزیدہ لیکن آخری معنی چونکہ مسطورہ بالا تمام معانی کو حاوی ہیں اس لیے ترجمہ میں ان ہی کو اختیار کیا گیا۔ [7]
اسی طرح ” حصور “ کے بھی مختلف معنی مذکور ہیں ” وہ شخص جو عورت کے قریب تک نہ گیا ہو “ ” جو ہر قسم کی معصیت سے محفوظ ہو اور اس کے قلب میں معصیت کا خطرہ بھی نہ گزرتا ہو “ ” جو شخص اپنے نفس پر پوری طرح قابو رکھتا اور خواہشات نفس کو روکتا ہو۔ “ [8] ہمارے خیال میں یہ سب معانی ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں اس لیے کہ لغت میں ” حصر “ کے معنی ” رکاوٹ “ کے آتے ہیں اور ” حصور “ اسم فاعل مبالغہ کا صیغہ ہے لہٰذا اس جگہ یہ مطلب ہے کہ خدا کے نزدیک جن امور سے رکنا ضروری ہے ان امور سے رکنے والا ” حصور “ ہے اور اس لحاظ سے چونکہ یحییٰ (علیہ السلام) موصوف بہمہ صفت ہیں اس لیے مسطورہ بالا تمام معانی بیک وقت ان پر صادق آتے ہیں۔ ان معانی سے جدا بعض کے نزدیک ” حصور “ کے معنی قوت مردمی سے محروم کے ہیں مگر یہ معنی اس جگہ قطعاً باطل ہیں اس لیے کہ یہ معنی مرد کے لیے مدح کے نہیں ہیں بلکہ نقص اور عیب ہیں چنانچہ اس بنا پر محققین نے اپنی تفاسیر میں اس کو مردود قرار دیا ہے اور قاضی عیاض (رحمۃ اللہ علیہ) نے شفاء میں اور خفا جی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کی شرح نسیم الریاض میں اس پر سخت نکتہ چینی کر کے جمہور کے نزدیک اس قول کو باطل ٹھہرایا ہے۔ البتہ بقائے قوت کے باوجود اس پر قابو پانے کے لیے خدا کے برگزیدہ انسانوں کے ہمیشہ سے دو طریقے رہے ہیں ایک یہ کہ تجر دو تبطل کی زندگی اختیار کر کے مجاہدات و ریاضات اور نفس کشی کے ذریعہ ہمیشہ کے لیے اس کو دبا دیا جائے گویا اس کو فنا کر دیا گیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی مبارک میں یہی پہلو زیادہ نمایاں ہے اور یحییٰ (علیہ السلام) میں خدائے تعالیٰ نے یہ وصف بغیر مجاہدہ و ریاضت ہی کے بدئ فطرت میں ودیعت کر دیا تھا۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کو اس درجہ قابو میں رکھا جائے اور اس پر اس حد تک ضبط قائم کیا جائے کہ وہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی بے محل حرکت میں نہ آنے پائے بلکہ بے محل حرکت میں آنے کا خطرہ تک باقی نہ رہے لیکن بقائے نسل انسانی کے لیے صحیح طریق کار کے ذریعہ تأہل (ازدواجی) زندگی اختیار کی جائے۔
پہلا طریقہ اگرچہ بعض حالات میں محمود ہوتا ہے مگر فطرت انسانی اور حیات اجتماعی کے لیے غیر مناسب ہے۔ پس جن انبیا (علیہم السلام) نے اس طریق کار کو اختیار فرمایا وہ وقت کی اہم ضرورت کے پیش نظر تھا ‘ خصوصاً جبکہ ان کی دعوت خاص خاص قوموں میں محدود تھی لیکن جماعتی حیات کے لیے فطرت کا حقیقی تقاضا صرف دوسرا طریق کار پورا کرتا ہے اور اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم اور آپ کا ذاتی عمل اسی طریق کار کی تائید کرتے ہیں اور جبکہ آپ کی بعثت کَافَۃً لِّلنَّاسِ ” تمام عالم کے لیے ہے “ تو ایسی صورت میں آپ کے لائے ہوئے دین فطرت میں اسی کو برتری حاصل ہونی چاہیے تھی۔ چنانچہ آپ نے متعدد شعبہ ہائے حیات میں اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی ہے کہ دنیا کے معاملات سے جدا ہو کر پہاڑوں کی غاروں اور بیابانوں میں زندگی گزارنے والے شخص کے مقابلے میں اس شخص کا مرتبہ خدا کے یہاں زیادہ بلند ہے جو دنیوی زندگی کے معاملات میں مقید رہ کر ایک لمحہ کے لیے بھی خدا کی نافرمانی نہ کرے اور قدم قدم پر اس کے احکام کو پیش نظر رکھے۔ اس کے بعد ارشاد مبارک ہے : { یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍط وَ اٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا ۔ وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃًط وَ کَانَ تَقِیًّا۔ وَّ بَرًّام بِوَالِدَیْہِ وَ لَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ۔ وَ سَلٰمٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۔ } [9]
اے یحییٰ ! (خدا کا حکم ہوا کیونکہ وہ خوشخبری کے مطابق پیدا ہوا اور بڑھا) کتاب الٰہی (توراۃ) کے پیچھے مضبوطی کے ساتھ لگ جا چنانچہ وہ ابھی لڑکا ہی تھا کہ ہم نے اسے علم و فضیلت بخش دی نیز اپنے خاص فضل سے دل کی نرمی اور نفس کی پاکی عطا فرمائی وہ پرہیزگار اور ماں باپ کا خدمت گزار تھا ‘ سخت گیر اور نافرمان نہ تھا اس پر سلام ہو (یعنی سلامتی ہو) جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرا اور جس دن پھر زندہ کیا جائے گا۔ “ ولادت باسعادت کی بشارت کے بعد قرآن نے یحییٰ (علیہ السلام) کے بچپن کے ان واقعات کو نظر انداز کر کے جو اس کے مقصد سے غیر متعلق تھے یہ ذکر کیا ہے کہ خدا نے یحییٰ کو حکم دیا کہ وہ اس کے قانون توراۃ پر مضبوطی سے عمل کریں اور اسی کے مطابق لوگوں کو ہدایت دیں اس لیے کہ یحییٰ (علیہ السلام) نبی تھے رسول نہ تھے ‘ اور توراۃ ہی کی شریعت کے پابند تھے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے عام بچوں کی زندگی سے جدا ان کو بچپن ہی میں علم و فضیلت بخش دیے تھے تاکہ وہ جلد ہی نبوت کے منصب پر فائز ہو سکیں۔ چنانچہ سیر کی کتابوں میں مذکور ہے کہ بچپن میں جب بچے ان کو کھیلنے پر اصرار کرتے تو وہ یہ جواب دیتے ” خدا نے مجھ کو لہو و لعب کے لیے نہیں پیدا کیا “ ١ ؎ اور یہ بھی مذکور ہے کہ وہ تیس سال سے قبل ہی نبی بنا دیے گئے تھے۔ [10] آیات زیر بحث میں { وَ اتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا } کے یہی معنی ہیں جیسا کہ عبداللہ بن مبارک (رحمۃ اللہ علیہ) نے معمر (رحمۃ اللہ علیہ) سے نقل کیا ہے۔ ٢ ؎ [11] [12]
اور جس شخص نے اس سے یہ مرادلی ہے کہ ” یحییٰ (علیہ السلام) بچپن ہی میں نبی بنا دیے گئے تھے “ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ منصب نبوت جیسا اعلیٰ و اہم منصب کسی کو بھی صغر سنی میں عطا ہونا نہ عقل کے نزدیک درست ہے اور نہ نقل سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو ان آیات میں جو سلامتی کی دعا دی گئی ہے وہ تین اوقات کی تخصیص کے ساتھ ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے یہی تین اوقات سب سے زیادہ نازک اور اہم ہیں۔ وقت ولادت جس میں رحم مادر سے جدا ہو کر عالم دنیا میں آتا ہے ‘ اور وقت موت جس میں عالم دنیا سے وداع ہو کر عالم برزخ میں پہنچتا ہے اور وقت حشر و نشر جس میں عالم قبر (برزخ) سے عالم آخرت میں اعمال کی جزا و سزا کے لیے پیش ہونا ہے۔ لہٰذا جس شخص کو خدا کی جانب سے ان تین اوقات کے لیے سلامتی کی بشارت مل گئی اس کو سعادت دارین کا کل ذخیرہ مل گیا۔ فَطُوْبٰی لَہٗ وَحُسْنُ مَاٰبٍ ۔ اور سورة انبیاء میں ارشاد ہے : { وَ زَکَرِیَّآ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ ۔ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗز وَ وَھَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی وَ اَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗط اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًَاط وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ } [13] ” اور اسی طرح (زکریا (علیہ السلام) کا معاملہ یاد کرو) جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا ” خدایا ! مجھے (اس دنیا میں) اکیلا نہ چھوڑ (یعنی بغیر وارث کے نہ چھوڑ) اور (ویسے تو ) تو ہی (ہم سب کا) بہتر وارث ہے “ تو (دیکھو) ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے (ایک فرزند) یحییٰ عطا فرمایا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے تندرست کر دیا۔ یہ تمام لوگ نیکی کی راہوں میں سرگرم تھے (ہمارے فضل سے ) امید لگائے ہوئے ہمارے جلال سے ڈرتے ہوئے دعائیں مانگتے تھے اور ہمارے آگے عجزو نیاز کے ساتھ جھکتے تھے۔ “
مسند احمد ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ (وغیرہ) میں حارث اشعری (رضی اللہ عنہ) سے منقول ہے ١ ؎ [14] کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو پانچ باتوں کا خصوصیت کے ساتھ حکم فرمایا کہ وہ خود بھی ان پر عامل ہوں اور بنی اسرائیل کو بھی ان کی تلقین فرمائیں۔ مگر یحییٰ (علیہ السلام) کو ان امور خمسہ کی تلقین میں کچھ تاخیر ہو گئی تب عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میرے بھائی ! اگر تم مناسب سمجھو تو میں بنی اسرائیل کو ان کلمات کی تلقین کر دوں جن کے لیے تم کسی وجہ سے تاخیر کر رہے ہو۔ یحییٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : بھائی ! میں اگر تم کو اجازت دے دوں اور خود تعمیل حکم نہ کروں تو مجھے خوف ہے کہ کہیں مجھ پر کوئی عذاب نہ آجائے یا میں زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں اس لیے میں ہی پیش قدمی کرتا ہوں چنانچہ انھوں نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا اور جب مسجد بھر گئی تو وعظ بیان کیا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو بھی عمل کی تلقین کروں اور وہ پانچ احکام یہ ہیں : پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو اور نہ کسی کو اس کا شریک وسہیم ٹھہراؤ ‘ کیونکہ مشرک کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کو اس کے مالک نے اپنے روپیہ سے خریدا مگر غلام نے یہ وتیرہ اختیار کر لیا کہ جو کچھ کماتا ہے وہ مالک کے سوا ایک دوسرے شخص کو دے دیتا ہے تو اب بتاؤ کہ تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ اس کا غلام ایسا ہو ؟ لہٰذا سمجھ لو کہ جب خدا ہی نے تم کو پیدا کیا اور وہی تم کو رزق دیتا ہے تو تم بھی صرف اسی کی پرستش کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
1 دوسرا حکم یہ ہے کہ تم خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرو ‘ کیونکہ جب تک تم نماز میں کسی دوسری جانب متوجہ نہ ہوگے خدائے تعالیٰ برابر تمھاری جانب رضا ورحمت کے ساتھ متوجہ رہے گا۔ 2 تیسرا حکم یہ ہے کہ روزہ رکھو اس لیے کہ روزہ دار کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک جماعت میں بیٹھا ہو اور اس کے پاس مشک کی تھیلی ہو ‘ چنانچہ مشک اس کو بھی اور اس کے رفقا کو بھی اپنی خوشبو سے مست کرتا رہے گا اور روزہ دار کے منہ کی بو کا خیال نہ کرو ‘ اس لیے کہ اللہ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بو (جو خالی معدے سے اٹھتی ہے ) مشک کی خوشبو سے زیادہ پاک ہے۔ 3 چوتھا حکم یہ ہے کہ مال میں سے صدقہ نکالا کرو کیونکہ صدقہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کو اس کے دشمنوں نے اچانک آپکڑا ہو اور اس کے ہاتھوں کو گردن سے باندھ کر مقتل کی جانب لے چلے ہوں اور اس نا امیدی کی حالت میں وہ یہ کہے : کیا یہ ممکن ہے کہ میں مال دے کر اپنی جان چھڑالوں ؟ اور اثبات میں جواب پاکر اپنی جان کے بدلے سب دھن دولت قربان کر دے۔ 4 اور پانچواں حکم یہ ہے کہ دن رات میں کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہا کرو کیونکہ ایسے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دشمن سے بھاگ رہا ہو اور دشمن تیزی کے ساتھ اس کا تعاقب کر رہا ہو اور بھاگ کر وہ کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزین ہو کر دشمن سے محفوظ ہوجائے بلاشبہ انسان کے دشمن ” شیطان “ کے مقابلہ میں ذکر اللہ کے اندر مشغول ہوجانا محکم قلعہ میں محفوظ ہوجانا ہے۔ اس کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جانب متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا میں بھی تم کو ایسی پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا خدا نے مجھ کو حکم کیا ہے۔ یعنی ” لزوم جماعت “ ” سمع “ اور ” طاعت “ ” ہجرت “ اور ” جہاد فی سبیل اللّٰہ “ پس جو شخص ” جماعت “ سے ایک بالشت باہر نکل گیا اس نے بلاشبہ اپنی گردن سے اسلام کی رسی کو نکال دیا مگر یہ کہ جماعت کا لزوم اختیار کرے اور جس شخص نے جاہلیت کے دور کی باتوں کی طرف دعوت دی تو اس نے جہنم کو ٹھکانا بنایا۔ حارث اشعری (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہنے والے نے کہا یارسول اللہ ! اگرچہ وہ شخص نماز اور روزہ کا پابند ہی ہو تب بھی جہنم کا سزا وار ہے ؟ فرمایا : ہاں ‘ اگرچہ وہ نماز اور روزہ کا پابند بھی ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ میں مسلمان ہوں تب بھی سزا وار جہنم ہے۔ [15] علمائے سیر نے اسرائیلیات سے نقل کیا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کی زندگی کا بہت بڑا حصہ صحرا میں بسر ہوا ‘ وہ جنگلوں میں خلوت نشین رہتے اور درختوں کے پتے اور ٹڈیاں ان کی خوراک تھیں اور وہیں ان پر اللہ کا کلام نازل ہوا تب انھوں نے دریائے یردن کے نواح میں دین الٰہی کی منادی شروع کردی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ظہور کی بشارت دینے لگے۔ لوقا کی انجیل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے : اس وقت خدا کا کلام بیا بان میں زکریا کے بیٹے یوحنا (یحییٰ ) پر اترا اور وہ یردن کے سارے گرد و نوح میں جاکر گناہوں کی معافی کے لیے توبہ کے بپتسمہ (اصطباغ) کی منادی کرنے لگا۔ “ [16] ابن عساکر نے وہب بن منبہ سے چند روایات نقل کی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) پر خدا کی خشیت اس درجہ تھی کہ وہ اکثر روتے رہتے تھے حتیٰ کہ ان کے رخساروں پر آنسوؤں کے نشان پڑ گئے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ان کے والد زکریا (علیہ السلام) نے جب ان کو جنگل میں تلاش کر کے پالیا تو ان سے فرمایا ” بیٹا ہم تو تیری یاد میں مضطرب تجھ کو تلاش کر رہے ہیں اور تو یہاں آہ و گریہ میں مشغول ہے ؟ “ تو یحییٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا : ” اے باپ ! تم نے مجھ کو بتایا ہے کہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک ایسا لق و دق میدان ہے جو خدا کی خشیت میں آنسو بہائے بغیر طے نہیں ہوتا اور جنت تک رسائی نہیں ہوتی “ یہ سن کر زکریا (علیہ السلام) بھی رونے لگے۔ [17]
یحییٰ (علیہ السلام) نے جب خدا کے دین کی منادی شروع کر دی اور لوگوں کو یہ بتانے لگے کہ مجھ سے بڑھ کر ایک اور خدا کا پیغمبر آنے والا ہے تو یہود کو ان کے ساتھ دشمنی اور عداوت پیدا ہو گئی اور ان کی برگزید گی و مقبولیت اور منادی کو برداشت نہ کر سکے اور ایک دن ان کے پاس جمع ہو کر آئے اور دریافت کیا : کیا تو مسیح ہے ؟ آپ نے کہا نہیں۔ تب انھوں نے کہا : کیا تو وہ نبی ہے ؟ آپ نے کہا نہیں۔ کیا تو ایلیاہ نبی ہے ؟ آپ نے کہا نہیں۔ تب ان سب نے کہا پھر تو کون ہے جو اس طرح منادی کرتا اور ہم کو دعوت دیتا ہے ؟ یحییٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا میں جنگل میں پکارنے والے کی ایک آواز ہوں جو حق کے لیے بلند کی گئی ہے۔ ١ ؎ یہ سن کر یہودی بھڑک اٹھے اور آخر کار ان کو شہید کر ڈالا۔
اور ابن عساکر نے ” المستقصٰی فی فضائل الاقصیٰ “ میں حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے مولیٰ قاسم سے ایک طویل روایت نقل کی ہے جس میں یحییٰ (علیہ السلام) کی شہادت کا واقعہ اس طرح مذکور ہے کہ دمشق کے بادشاہ ہداد بن حدار نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھیں اور پھر چاہتا تھا کہ اس کو واپس کر کے بیوی بنالے۔ یحییٰ (علیہ السلام) سے فتویٰ طلب کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ” اب یہ تجھ پر حرام ہے “ ملکہ کو یہ بات سخت ناگوار گذری اور یحییٰ (علیہ السلام) کے قتل کے درپے ہو گئی اور بادشاہ کو مجبور کر کے قتل کی اجازت حاصل کرلی اور جبکہ وہ مسجد حبرون میں نماز میں مشغول تھے ان کو قتل کرا دیا اور چینی کے طشت میں ان کا سر مبارک سامنے منگوایا مگر سر اس حالت میں بھی یہی کہتا رہا کہ تو بادشاہ کے لیے حلال نہیں تاوقتیکہ دوسرے سے شادی نہ کرلے اور اسی حالت میں خدا کا عذاب آیا اور اس عورت کو مع سر مبارک زمین میں دھنسا دیا۔ اس روایت میں ایک واقعہ ایسا مذکور ہے جس کی وجہ سے تمام روایت ساقط الاعتبار ہوجاتی ہے ‘ وہ یہ کہ یحییٰ (علیہ السلام) کا خون فوارہ کی طرح جسم مبارک سے برابر نکلتا رہا تاآں کہ بخت نصر نے دمشق کو فتح کر کے اس پر ستر ہزار اسرائیلیوں کا خون نہ بہادیا۔ تب ارمیاہ (علیہ السلام) نے آکر خون کو مخاطب کر کے کہا اے خون ! کیا اب بھی تو ساکن نہ ہوگا ؟ کتنی مخلوق خدا فنا ہو چکی اب ساکن ہو جا۔ چنانچہ اس وقت وہ خون بند ہو گیا۔ [18]
اور حافظ ابن حجر (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس قصہ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس قصہ کی اصل حاکم کی وہ روایت ہے جو انھوں نے مستدرک میں نقل کی ہے۔ روایت کے اس حصہ کو اگر تاریخ کا مبتدی طالب علم بھی سنے گا تو وہ بلا تردد باطل قرار دے گا۔ اس لیے کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بخت نصر کا زمانہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے صدیوں پہلے ہے پھر یحییٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بخت نصر کے حملہ دمشق کا جوڑ لگانا کس طرح درست ہو سکتا ہے ؟ اس لیے سخت تعجب ہے کہ حافظ ابن عساکر اور حافظ عمادالدین ابن کثیر ; جیسے صاحب نقد بزرگوں نے کس طرح اس روایت کو نقل کر کے سکوت اختیار فرمایا۔ علاوہ ازیں اس روایت میں جس قسم کے عجائب وغرائب بیان کیے گئے ہیں وہ اس وقت تک ہرگز قابل قبول نہیں کرسکتے جب تک ان کا ثبوت نص صریح سے حاصل نہ ہوجائے اور حاکم کی روایت بلحاظ سند بھی محل نظر ہے اور بلحاظ درایت بھی۔
علمائے سیرو تاریخ کا اس میں اختلاف ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کا واقعہ شہادت کس جگہ پیش آیا ‘ ایک قول یہ ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان ہوا اور اس جگہ ستر انبیا (علیہم السلام) شہید کیے گئے۔ سفیان ثوری نے شمر بن عطیہ سے یہی قول نقل کیا ہے۔ [19]
اور ابو عبید قاسم بن سلام نے حضرت سعید بن مسیب (رحمۃ اللہ علیہ) سے نقل کیا ہے کہ وہ دمشق میں قتل ہوئے اور اسی میں بخت نصر کا واقعہ بھی ذکر کیا ہے اور ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ جب صحیح ہو سکتا ہے کہ عطاء اور حسن کے اس قول کو تسلیم کر لیا جائے کہ بخت نصر عیسیٰ (علیہ السلام) کا معاصر تھا۔ [20] اور ہم ثابت کرچکے ہیں کہ مستند اور صحیح تاریخی شہادتوں سے یہ قول باطل ہے اس لیے کہ بخت نصر ‘ مسیح (علیہ السلام) سے صدیوں قبل ہو گذرا ہے جیسا کہ خود ابن کثیر نے بیت المقدس کی تباہی اور عزیر (علیہ السلام) کے واقعات میں اس کو تسلیم کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس غلط بات کو تسلیم کرلینے کے بعد پھر یہ قول بھی قبول کرلینا ہوگا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل کے آخری نبی نہیں ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ” فترۃ “ کا زمانہ بھی نہیں ہے بلکہ ارمیاہ ‘ حزقیل ‘ عزیر اور دانیال علیہم السلام وغیرہ انبیائے بنی اسرائیل جو مسلمہ طور پر بخت نصر اور اس کے بعد کے زمانہ تک بابل میں قید رہے ان سب کا ظہور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہوا حالانکہ یہ تمام باتیں باتفاق توراۃ ‘ تاریخی شہادت اور اسلامی روایات ‘ قطعاً غلط اور باطل ہیں۔ البتہ یہ بات کہ یحییٰ (علیہ السلام) کا مقتل بیت المقدس نہیں بلکہ دمشق تھا تو حافظ ابن عسا کر کی اس روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جو انھوں نے ولید بن مسلم کی سند سے نقل کی ہے کہ زید بن واقد کہتے ہیں کہ دمشق میں جب عمود سکا سکہ کے نیچے ایک مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا جارہا تھا تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ شرقی جانب محراب کے قریب ایک ستون کی کھدائی میں یحییٰ (علیہ السلام) کا سر برآمد ہوا اور چہرہ مبارک حتیٰ کہ بالوں تک میں کوئی فرق نہیں آیا تھا اور خون آلود ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ابھی کاٹا گیا ہے۔ ١ ؎ لیکن یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ یحییٰ (علیہ السلام) ہی کا سر مبارک ہے کسی اور نبی یا مرد صالح کا نہیں ہے ؟ الحاصل اس بارہ میں کوئی فیصلہ کن شہادت مہیا نہیں ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کا مقتل کونسا مقام ہے لیکن یہ مسلمات میں سے ہے کہ یہود نے ان کو شہید کر دیا اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی شہادت کا حال معلوم ہوا تو پھر انھوں نے علی الاعلان اپنی دعوت حق شروع کردی۔ قرآن عزیز نے متعدد جگہ یہود کی فتنہ پر دازیوں اور باطل کو شیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ انھوں نے اپنے نبیوں اور پیغمبروں کو بھی قتل کیے بغیر نہیں چھوڑا چنانچہ سورة آل عمران میں ہے : { اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّلا وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِلا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ } [21] ” جو لوگ انکار کرتے ہیں اللہ کے حکموں کا اور ناحق پیغمبروں کو قتل کرتے ہیں اور (نبیوں کے سوا) جو لوگ ان کو انصاف کرنے کا حکم کرتے ہیں ان کو (بھی ) قتل کرتے ہیں تو ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔ “ اور ابن ابی حاتم (رحمۃ اللہ علیہ) نے بسلسلہ سند حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رضی اللہ عنہ) سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل نے ایک دن میں تینتالیس نبیوں اور ایک سو ستر صلحاء کو قتل کر دیا تھا جو ان کو امر بالمعروف کرتے تھے۔ [22]
یحییٰ (علیہ السلام) کے واقعہ شہادت کے ضمن میں علمائے سیر و تاریخ کے درمیان یہ مسئلہ اختلافی رہا ہے کہ زکریا (علیہ السلام) کی وفات طبعی موت سے واقع ہوئی یا وہ شہید کیے گئے اور لطف یہ ہے کہ دونوں کی سند وہب بن منبہ ہی پر جا کر پہنچتی ہے چنانچہ وہب کی ایک روایت میں ہے کہ یہود نے جب یحییٰ (علیہ السلام) کو شہید کر دیا تو پھر زکریا (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے کہ ان کو بھی قتل کریں ‘ زکریا (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو وہ بھاگے تاکہ ان کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ سامنے ایک درخت آگیا اور وہ اس کے شگاف میں گھس گئے یہودی تعاقب کر رہے تھے تو انھوں نے جب یہ دیکھا تو ان کو نکلنے پر مجبور کرنے کی بجائے درخت پر آرہ چلا دیا جب آرہ زکریا (علیہ السلام) پر پہنچا تو خدا کی وحی آئی اور زکریا (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ اگر تم نے کچھ بھی آہ وزاری کی تو ہم یہ سب زمین تہ وبالا کر دیں گے اور اگر تم نے صبر سے کام لیا تو ہم بھی ان یہود پر فوراً اپنا غضب نازل نہیں کریں گے۔ چنانچہ زکریا (علیہ السلام) نے صبر سے کام لیا اور اف تک نہیں کی اور یہود نے درخت کے ساتھ ان کے بھی دو ٹکڑے کر دیے۔ ٢ ؎ اور ان ہی وہب سے دوسری روایت یہ ہے کہ درخت پر آرہ کشی کا جو معاملہ پیش آیا وہ شعیا (یسعیاہ) (علیہ السلام) سے متعلق ہے اور زکریا (علیہ السلام) شہید نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے طبعی موت سے وفات پائی۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٥٢) بہرحال مشہور قول یہی ہے کہ ان کو بھی یہود نے شہید کر دیا تھا ‘ رہا یہ معاملہ کہ کس طرح اور کس مقام پر شہید کیا تو اس کے متعلق صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ” واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال “ [23] [24]
امام بخاری (رح) نے یحییٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں صرف اسراء کی حدیث کے اس ٹکڑے کو بیان کیا ہے جس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوسرے آسمان پر ان کے ساتھ ملاقات کرنا مذکور ہے روایت میں ہے : ( (فلما خصلت فاذا یحیٰی و عیسٰی وھما ابنا خالۃ قال ھذا یحیٰی و عیسٰی فسلم علیھما فسلمت فردا ثم قالا مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصالح)) (کتاب الانبیاء) ” پس جب میں (دوسرے آسمان پر) پہنچا تو دیکھا کہ یحییٰ اور عیسیٰ موجود ہیں اور یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں جبرائیل نے کہا یہ یحییٰ اور عیسیٰ ہیں ان کو سلام کیجئے میں نے ان کو سلام کیا تو ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور پھر دونوں نے کہا آپ کا آنا مبارک ہو اے ہمارے نیک بھائی اور نیک پیغمبر زکریا (علیہ السلام) کے واقعات میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کی والدہ ایشاع (الیشبع) اور مریم (علیہا السلام) کی والدہ حنہ دونوں حقیقی بہنیں تھیں ‘ اس لیے حدیث معراج میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ یحییٰ اور عیسیٰ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں مجاز متعارف کے اصول پر ہے یعنی رشتوں میں اس قسم کا مجاز مشہور اور رائج ہے کہ والدہ کی خالہ کو اولاد بھی خالہ کہا کرتی ہے۔
اس سے قبل لوقا کی انجیل سے ہم یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق بعض حوالہ جات نقل کرچکے ہیں اصل واقعہ یہ ہے کہ یہود تو اپنی سرشت کے مطابق یحییٰ (علیہ السلام) کے منکر ہیں مگر نصاریٰ ان کو یسوع مسیح کا منادی تسلیم کرتے ہیں اور ان کے والد زکریا (علیہ السلام) کو صرف کاہن مانتے ہیں اور اہل کتاب ان کا نام یوحنا بیان کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ عبرانی میں یوحنا کے وہی معنی ہوں جو یحییٰ (علیہ السلام) کے ہیں اور ممکن ہے کہ عبرانی کے یوحنا نے عربی میں یحییٰ کا تلفظ اختیار کر لیا ہو۔ انجیل لوقا میں بھی قرآن عزیز کے ارشاد کے مطابق یہ تصریح ہے کہ یہ نام ان کے خاندان میں کسی شخص کا ان سے پہلے نہیں تھا ‘ اس لیے خاندان والوں نے جب سنا تو تعجب کا اظہار کیا : ” اور آٹھویں دن ایسا ہوا کہ وہ لڑکے کا ختنہ کرنے آئے اور اس کا نام اس کے باپ کے نام پر زکریا رکھنے لگے ‘ مگر اس کی ماں نے کہا : نہیں بلکہ اس کا نام یوحنا رکھا جائے ‘ انھوں نے اس سے کہا کہ تیرے کنبے میں کسی کا یہ نام نہیں اور انھوں نے اس کے باپ کو اشارہ کیا کہ تو اس کا نام کیا رکھنا چاہتا ہے ؟ اس نے تختی منگا کر یہ لکھا کہ اس کا نام یوحنا ہے اور سب نے تعجب کیا اسی دم اس کا منہ اور زبان کھل گئی اور وہ بولنے اور خدا کی حمد کرنے لگا۔ “ [25] اور ان کی عام رہائش اور زندگی کے متعلق متی کی انجیل میں ہے : ” یوحنا اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمر سے باندھے رہتا تھا اور اس کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا۔ “ [26] اور یوحنا کی انجیل میں ان کی دعوت و تبلیغ کے متعلق یہ لکھا ہے ” یہ یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے ” کاہن “ اور ” لاوی “ یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں انھوں نے اس سے پوچھا پھر تو کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ کیا تو وہ نبی ہے ؟ یعنی نبی منتظر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ پس انھوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ تاکہ ہم اپنے بھیجنے والوں کو جواب دیں کہ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا ہے ” بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو۔ “ [27] اور لوقا کی انجیل میں اس طرح مذکور ہے : ” اس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکریا کے بیٹے یوحنا پر نازل ہوا اور وہ یردن کے سارے گرد و نواح میں جا کر گناہوں کی معافی کے لیے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرنے لگا جیسا کہ یسعیاہ نبی کے کلام کی کتاب میں لکھا ہے کہ : ” بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو ‘ اس کے راستے سیدھے بناؤ۔ “[28] اور اسی انجیل میں ان کی گرفتاری کے متعلق یہ الفاظ مذکور ہیں : ” پس وہ (یوحنا) اور بہت سی نصیحتیں کر کے لوگوں کو خوش خبری سناتا رہا لیکن چوتھائی ملک کے حاکم ہیرودیس نے اپنے بھائی فلپس کی بیوی ہیرودیاس کے سبب سے اور ان ساری برائیوں کے باعث جو ہیرودیس نے کی تھیں یوحنا سے ملامت اٹھا کر ‘ ان سب سے بڑھ کر یہ بھی کیا کہ اس کو قید میں ڈالا۔ “ [29] اور آگے چل کر اسی انجیل میں ان کی شہادت کے متعلق یہ ذکر ہے : ” اور چوتھائی ملک کا حاکم ہیرودیس سب احوال سن کر گھبرا گیا اس لیے کہ بعض کہتے تھے کہ یوحنا مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور بعض یہ کہ ایلیاہ ظاہر ہوا ہے اور بعض یہ کہ قدیم نبیوں میں سے کوئی جی اٹھا ہے ‘ مگر ہیرودیس نے کہا کہ یوحنا کا تو میں نے سر کٹوادیا اب یہ (مسیح) کون ہے جس کی بابت ایسی باتیں سنتا ہوں ؟ “ [30]
حضرت زکریا اور یحییٰ (علیہما السلام) کے واقعات و حالات سے اگرچہ حقیقت بیں نگاہیں خود ہی نتائج و بصائر اخذ کرسکتی ہیں تاہم یہ چند باتیں خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہیں :
دنیا میں اس شخص سے زیادہ شقی اور بدبخت دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا جو ایسی مقدس ہستی کو قتل کر دے جو نہ اس کو ستاتی ہے اور نہ اس کے مال و دولت پر ہاتھ ڈالتی ہے بلکہ اس کے برعکس بغیر کسی اجرت و عوض اس کی زندگی کی اصلاح کے لیے ہر قسم کی خدمت انجام دیتی اور اخلاق ‘ اعمال اور عقائد کی ایسی تعلیم بخشتی ہے جو اس شخص کی دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح وسعادت کی کفیل ہو۔چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی بنا پر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح (رضی اللہ عنہ) کے اس سوال پر کہ قیامت میں سب سے زیادہ مستحق عذاب کون شخص ہوگا ؟ یہ ارشاد فرمایا :
( (قال : رجل قتل نبیا او من امر بالمعروف ونھی عن المنکر)) [31]
” وہ شخص جو نبی کو یا ایسے شخص کو قتل کرے جو اس کو بھلائی کا حکم کرتا اور برائی سے باز رکھتا ہے۔ “
اقوام عالم میں یہود کو اس شقاوت میں ید طولیٰ حاصل رہا ہے اور انھوں نے اپنے پیغمبروں اور نبیوں کے ساتھ جس قسم کے توہین آمیز سلوک حتیٰ کہ قتل تک کو روا رکھا اس کی نظیر دنیا کی دوسری قوموں میں مفقود ہے۔
1 بنی اسرائیل چونکہ مختلف اسباط (قبائل) میں تقسیم تھے اور اس وجہ سے ان کی آبادیاں اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے مراکز جدا جدا تھے اس لیے ان کے درمیان ایک ہی وقت میں متعدد نبی اور پیغمبر مبعوث ہوتے رہے مگر ” توراۃ “ ان سب کی تعلیم کے لیے اساس اور بنیاد رہی ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں ان انبیا (علیہم السلام) کی حیثیت اس درجہ کی تھی جو اس امت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحیح اور حقیقی جانشین علمائے حق کو حاصل ہے اور اگرچہ حدیث ” علما امتی کانبیاء بنی اسرائیل “ الفاظ کے لحاظ سے محل نظر ہو لیکن مراد اور مفہوم کے اعتبار سے قطعاً صحیح اور درست ہے اس لیے کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب جبکہ سلسلہ نبوت اپنے اوج کمال پر پہنچ کر ختم ہو گیا تو امت مرحومہ کی تا قیام قیامت اصلاح و رشد کے لیے علما حق کے سوا دوسری کوئی جماعت نہیں ہو سکتی اور منصب نبوت کے خصوصی شرف کے علاوہ ان کی حیثیت بلاشبہ وہی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم کے نشر و ابلاغ کے لیے انبیا بنی اسرائیل کی تھی۔
ہم نے ” عالم “ کے ساتھ ” حق “ کی شرط لگائی ہے اس لیے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علمائے سوء کو ” شرار الخلق “ یعنی بدترین مخلوق فرمایا ہے ‘ لیکن یہ واضح رہے جس طرح ” علمائے سوء “ کی پیروی امت کی گمراہی کا باعث ہوتی ہے اس سے زیادہ دین کی بربادی کا سامان اس طرح مہیا ہوتا ہے کہ علما سوء کی آڑ لے کر علما حق کے خلاف امت میں بدگمانی پھیلائی جائے ان کا استہزا و تمسخر کر کے دین قیم کو تباہ کرنے کی سعی نامشکور کی جائے اور حق اور سوء کے امتیاز کے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو حکم بنانے کی جگہ اپنی آراء اور خواہشات کی موافقت و مخالفت کو معیار قرار دے لیا جائے۔
نیز مخصوص اشخاص و افراد کی مخالفت کے جذبہ میں عام طریقہ پر علمائے دین کو ہدف ملامت بنانا اور ان کی توہین و تذلیل کرنا دراصل دین حق کی تعلیم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے اور اس آیت و حدیث کا مصداق بننا ہے جو گذشتہ صفحات میں یہود کے سلسلہ میں بیان ہو چکی ہیں۔
2 انسان کو خدا کے فضل و کرم سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے اور اگر بعض حالات میں خلوص کے ساتھ دعائیں کرنے کے باوجود بھی مقصد حاصل نہ ہو تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ اس شخص سے خدا کی نگاہ مہر نے رخ پھیرلیا ہے۔ کہ اس شخص سے خدا کی نگاہ مہر نے رخ پھیرلیا ہے نہیں بلکہ ” حکیم مطلق “ کی حکمت عام اور مصلحت تام کی نظر میں کبھی انسان کی طلب کردہ شے مآل اور انجام کے لحاظ سے اس کے لیے مفید ہونے کی جگہ مضر ہوتی ہے۔جس کا خود اس کو اس لیے علم نہیں ہوتا کہ اس کا علم محدود ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ مطلوب مصالح شخصیہ سے بالاتر مصالح اجتماعیہ کی فلاح و نجات کی خاطر تاخیر چاہتا ہے۔یا اس سے بہتر مقصد کے لیے اس کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال ” قنوط “ اور ” مایوسی “ درگاہ رب العزت میں غیر محمود اور ناپسندیدہ بات ہے۔
{ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ } [32]
” خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو اس لیے کہ خدا کی رحمت سے صرف وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو منکر ہیں۔ “
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.